Dastak News Kohat دستک نیوز کوہاٹ

Dastak News Kohat دستک نیوز کوہاٹ Page is about the News, Health, Politics, Culture, Education, Technology, Fashion, General Knowledge.

Dastak News Kohat دستک نیوز کوہاٹ
30/06/2025

Dastak News Kohat دستک نیوز کوہاٹ

اسلام آباد کی ‏طوائف کا انٹرویو ۔۔۔۔  !!ایک عورت کن مراحل سے گزر کر ایک طوائف کا روپ دھارتی ھے؟؟اس بارے میں لکھنے کے لئے...
30/06/2025

اسلام آباد کی ‏طوائف کا انٹرویو ۔۔۔۔ !!
ایک عورت کن مراحل سے گزر کر ایک طوائف کا روپ دھارتی ھے؟؟
اس بارے میں لکھنے کے لئے اسلام آباد کے ایک دوست نے ایک طوائف سے میری ملاقات کے لئے وقت ترتیب دیا ۔لیہ سے اسلام آباد پہنچ کر دوست مجھے ایک گنجان آباد علاقہ کی طرف لیکر چل پڑا۔
تنگ و تاریک گلیوں سے ھوتے ہوئے ایک مکان کے سامنے رک گیا اور دستک دی۔
اندر سے ایک خوب صورت حسینہ نے دروازہ کھولا اور لکھنؤ کی طوائفوں کی طرح اداب بجا لائی۔
دوست مجھے چھوڑ کر واپس چل دیا۔
‏وہ طوائف مجھے لیکر اندر چلی گئی اور صوفہ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ خود سامنے والے صوفہ پر براجمان ہو گئی۔
میں نے ترچھی نظر سے اسکی طرف دیکھا۔
وہ بلا کی حسین تھی ۔
اس نے پانی کا گلاس میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا صاحب آپ کے دوست بتا رہے تھے آپ ایک لکھاری ہو۔
‏میں نے فاخرانہ قسم کی عاجزی اختیار کرتے ہوئے کہا۔
جی بس ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کرتا ہوں۔
اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا طوائف پر لکھنے کے لئے آپ نے لیہ سے اسلام آباد تک کا سفر کیوں کیا ؟ حالانکہ آپ کو لیہ میں بھی سینکڑوں طوائفيں مل سکتی تھیں۔
‏میں نے غصے سے دیکھا۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا اس نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا
اور اپنے خوب صورت ہونٹوں سے ایک دائرے کی مانند دھواں چھوڑتے ہوئے کہا۔۔
صاحب آپ بھی لنڈے کے لکھاری لگتے ہو۔
ایک کامیاب لکھاری اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھتا ھے۔
‏اسکی بات سن کر میرے ماتھے پر پسینہ نمودار ہونا شروع ہوا لیکن اسکی اتنی دانشمندانہ گفتگو مجھے حیران کر رہی تھی۔
وہ جیسے جیسے بول رہی تھی ویسے ویسے اسکے گال غصے سے سرخ ہو رہے تھے۔
اس نے پانی کا ایک گھونٹ پیا پھر بولی۔
صاحب جج یہاں انصاف بیچ رہا ہے
‏لیکن قابل نفرت صرف جسم فروش عورت ہے۔
سیاست دان اپنا ضمیر بیچ رہے ہیں
لیکن ان کو آپ لیڈر مانتے ھیں جب کہ ایک مجبور طوائف کی جسم فروشی آپ کو چبھتی ھے۔
یہاں ڈاکٹر موت کا کاروبار کر رہے ھیں
لیکن آپ کی نظر میں وہ مقدس پیشہ ھے۔
یہاں وکیل پولیس رشوت لےکر جھوٹے‏ مقدمات بناتے ہیں اور پولیس جعلی مقابلوں میں قتل عام کرتی ھے
یہاں ملک سے وفاداری کا عہد کرکے شب خون مارے جاتے ہیں۔ یہاں قانون کو جوتے کی نوک پر رکھ کر حکومتیں بنائی اور گرائی جاتی ہیں
یہاں ملک کے وسائل اور کاروبار پر دن دیہاڑے قبضے کیے جاتے ہیں یہاں ملک کو معاشی اپاہج بنایاجاتاہے
یہاں ریاست کے اندر ریاست بنائی جاتی ہے۔
یہاں حق مانگنے والے کو غدار بنایا جاتا ہے
یہاں میڈیا دن کو رات دکھاتا ہے۔ یہاں صحافی اپنا قلم ٹکے ٹکے پر بیچتا ہے
یہاں اساتذہ بچوں کے مستقبل سے کھیلتے ہیں یہاں تعلیم صرف ایک کاروبار ہے
یہاں پیسے سے اوپر سے نیچے تک سب خریدا جاتا ہے
یہاں زندگی کا ہر شعبہ تعفن سے بھرا ہے
لیکن قابل نفرت صرف طوائف ھے، جو اپنے پیٹ کے جہنم کی آگ بجھانے کے لئے اپنا جسم بیچتی ھے۔
اسکی باتیں سن کر میرے ماتھے کی شکنوں پر پسینہ ٹھہر کر قطرہ قطرہ یوں نیچے گر رہا تھا ‏جیسے بارش میں کسی غریب کے کچے مکان کی چھت ٹپکنے لگتی ھے۔
اس نے ٹشو میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا
صاحب!!!
جس معاشرے میں آپ رہتے ھیں وہاں ایک طوائف کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں
‏میں اس کی یہ بات سن کر ہلکا سا مسکرایا اور دل ہی دل میں سوچا کہ ایک طوائف کیسے اپنی جسم فروشی کا دفاع کر رہی ہے۔
اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
اگر ہم طوائفیں ان مرد نما بھیڑیوں کی آگ ٹھنڈی نہ کریں تو یہ بھیڑئے بنت حوا کی معصوم کلیوں کو‏بھی مسل ڈالیں اور انکا گوشت بھی نوچ کر کھا جائیں۔
میں جو دل میں کئی سوال لےکر لیہ سے چلا تھا وہ سب گم ہو چکے تھے۔
وہ مسلسل بول رھی تھی اور میں جو خود کو لکھاری اور دانشور سمجھتا تھا ایک طوائف کی گفتگو کے سامنے لاجواب نظر آ رہا تھا۔
وہ اٹھ کر میرے قریب بیٹھ گئی اور کہا
صاحب! ‏آپ نے کتے کو پانی پیتے ہوئے کبھی دیکھا ھے؟
اس اچانک سوال پر میرے منہ سے ھاں نکلی۔
اس نے سگریٹ کا کش لیکر میری طرف ‏بڑھاتے ہوئے کہا صاحب!!!
اس شہر کے بڑے بڑے لوگ جو مسیحائی کا لبادہ اوڑھ کر آپ جیسوں کو بیوقوف بناتے ھیں جب ہمارے پاس آتے ھیں تو ہمارے پاؤں کے تلوے اس طرح چاٹتے ھیں جیسے کتا پانی پیتا ھے۔
یہ کہہ کر اس نے دیوار پر لگی گھڑی کی طرف دیکھا تو میں خاموشی سے اٹھا اور دروازے کی جانب چل دیا۔
اس نے پیچھے سے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا
صاحب!!!
اگر لکھاری بننا ھے تو جسم فروش طوائفوں پر نہیں بلکہ ضمیر فروش طوائفوں پر لکھا کرو۔ پھر آپ کو لیہ سے اسلام آباد بھی نہیں آنا پڑے گا۔
‏اپنی قلم میں جرات پیدا کرو۔
کچھ غلط تو نہیں بولا اس عورت نے ۔ مجھ سمیت سارے معاشرےکو آئینہ دکھا دیا ۔۔۔۔ !!
منقول
Dastak News Kohat دستک نیوز کوہاٹ

🌞 امیر آدمی سولر سے فری بجلی لے رہا ہے…ٹھنڈے اے سی میں گہری نیند سو رہا ہے،اور دوسری طرف…ایک غریب آدمی، جسے پنکھا بھی می...
30/06/2025

🌞 امیر آدمی سولر سے فری بجلی لے رہا ہے…
ٹھنڈے اے سی میں گہری نیند سو رہا ہے،
اور دوسری طرف…
ایک غریب آدمی، جسے پنکھا بھی میسر نہیں —
اس پنکھے کا بِل بھی ہزاروں کا بوجھ بن جاتا ہے!

💭 سوچنے کی بات ہے:
ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو آسائش میں ہیں،
مگر کبھی ان گھروں کو دیکھتے بھی نہیں
جہاں بجلی کا بل افطاری سے زیادہ بھاری لگتا ہے۔

🌸 اگر اللہ نے آپ کو نوازا ہے، تو کیا کریں؟

✅ کسی غریب کا بجلی کا بل ادا کر دیں
✅ کسی کا پرانا پنکھا ٹھیک کروا دیں
✅ ایک سولر پنکھا خرید کر دے دیں
✅ کم از کم اس کے گھر جا کر ایک بار پوچھ تو لیں:
"بھائی، سب خیریت ہے؟"

🌿 یاد رکھیں!
کسی کی ضرورت پوری کرنا،
کسی کے چہرے پر مسکراہٹ لانا،
کسی کی دعا لینا —
یہ وہ نیکی ہے جو آپ کی تقدیر بھی بدل سکتی ہے۔

🤲 آئیے، اپنے آس پاس کے لوگوں کو نہ بھولیں۔
یہی اسلام ہے، یہی انسانیت ہے۔

Dastak News Kohat دستک نیوز کوہاٹ

29/06/2025
"سنا ہے جس عورت سے آپکی شادی ہوئی تھی وہ بڑی خطرناک عورت تھی، اور آپ نے ڈر کے مارے اسے طلاق دے دی تھی" برگد کے درخت کے ن...
28/06/2025

"سنا ہے جس عورت سے آپکی شادی ہوئی تھی وہ بڑی خطرناک عورت تھی، اور آپ نے ڈر کے مارے اسے طلاق دے دی تھی" برگد کے درخت کے نیچے کرسی پر بیٹھے ایک خاموش طبع بوڑھے سے ایک منچلے نے استہزائیہ کہا.

"اللہ بخشے اسے، بہت اچھی عورت تھی" بنا ناراض ہوئے
، بغیر غصہ کئے بابا جی کی طرف سے ایک مطمئن جواب آیا.
ایک نوجوان نے ذرا اونچی آواز میں کہا "لیکن بابا جی لوگ کہتے ہیں وہ بڑی خطرناک عورت تھی. بابا جی کچھ دیر خاموش رہے پھر کہنے لگے.
"کہتے تو ٹھیک ہی ہیں، وہ واقعی بہت خطرناک تھی اور حقیقتاً میں نے ڈر کے مارے اسے طلاق دی تھی".

"یہ بات تو مردانگی کے خلاف ہے، عورت سے ڈرنا کہاں کی بہادری ہے؟ "نوجوان جوشیلے انداز میں بولا...
"میں عورت سے نہیں ڈرتا تھا، میں تو 'اس' سے ڈرتا تھا جس تک اس کی رسائی تھی" پرسکون جواب...
جوانوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا.
ایسی عورتوں کو تو جہنم میں ہونا چاہیئے...لا حول ولا قوہ.. کہاں آپ جیسا شریف النفس آدمی کہاں وہ عورت؟اچھا کیا چھوڑ دیا" نوجوان کے لہجے میں غصہ تھا. بوڑھے کی متجسس زندگی کا پٹارا کھل کر سامنے آگیا تھا. تجسس ختم ہوا، اب سب باری باری منتشر ہونے لگے. جانے والوں نے عنوان پڑھ لیا تھا،کہانی خود بنانی تھی, جو رہ گئے تھے وہ وہی تھے جو اصل کہانی جاننا چاہتے تھے-

"میں بھی ایسا ہی سوچتا تھا کہ اسے جہنم میں ہی ہونا چاہیئے تھا، تب ہی میں نے اسے جہنم جیسی زندگی دی تھی" بوڑھی آنکھوں میں اضطراب اترا.
یہ تب کی بات ہے جب میں سرکار کے ہاں ایک روپیہ ماہوار پر ملازم ہوا، میری ماں چاہتی تھی کہ میری شادی ہوجائے. رشتہ ڈھونڈا گیا، ایک مونگ پھلی فروش کی بیٹی میری ماں کو پسند آئی, سلیقہ مند، خوبصورت اور ایک دم خاموش طبع. مجھے اس رشتے پر اعتراض تھا کہ وہ ایک مونگ پھلی بیچنے والی کی بیٹی تھی. مزدور کی اولاد کو پیٹ کی فکررہتی ہے، تربیت کی نہیں، تربیت بڑے گھرانوں میں کی جاتی ہے جہاں افلاس آنکھوں کے روشنی چھیننے سے قاصر ہوتا ہے. وہ کیا تربیت دے گی میری اولاد کو؟ لیکن وہ لڑکی میری ماں کو ایسی پسند تھی کہ اماں اس کے علاوہ کسی کا نام نہیں سننا چاہتی تھیں.
پھر وہ بیاہ کر میرے گھر آگئی، رخصتی کے وقت اس کے باپ نے مجھے کہا "میری بیٹی سیدھی سادھی ہے، اسے دنیاداری کا کوئی خاص پتا نہیں،اگر کہیں کوئی چوک ہوجائے تو معاف کردینا،یوں ہے بڑے دل والی،اپنے *سائیں* کو خوش رکھے گی", وہ بالکل ویسی ہی تھی جیسی میری ماں نے بتایا تھا. سلیقہ مند، سگھڑ اور تابعدار."

"باہر دوستوں کے ساتھ میری صحبت کوئی اچھی نہیں تھی، ملازمت کے اوقات میں کھانا گھر سے باہر کھاتا، دوستوں میں بیٹھتا ،رات گئے تک محفل چلتی پھر گھر جاتا. وہ کیا کھاتی کیا پیتی کس حال میں رہتی تھی مجھے کوئی پرواہ نہیں تھی. انہی دنوں میری ماں بھی دنیا سے رخصت ہوگئی تھی.
ایک روز میں جوئے میں بھاری رقم ہار کر جب تھکا ہارا گھر آیا تو کہنے لگی "آپ تو کھانا باہر کھالیتے ہیں، مجھے بھوک لگتی ہے، ہوسکے توایک ہی بار مہینے کا راشن ڈلوا دیا کیجیئے، روز روز بازار سےخریداری کی صعوبت نہیں اٹھانی پڑے گی"- کیا؟ اس پھونگ پھلی بیچنے والے کی بیٹی کی اتنی اوقات کہ مجھ سے مطالبہ کرسکے- مجھے طیش آیا.
"ہو ناں تم کسی بہت بڑے باپ کی بیٹی کہ تمہیں پورے مہینے کا راشن اور خرچ چاہیئے, اپنی اوقات دیکھی ہے؟ "غصے میں آکر اس پر ہاتھ اٹھایا اور مغلظات بھی بکے. میں یہ نہیں سوچ سکا کہ آخر اسے زندہ رہنے کے لئے روٹی تو ہر حال میں چاہیئے تھی!
وہ جسمانی اعتبار سے کافی کمزور تھی، مار برداشت نہیں کرسکتی تھی, پشیمانی تھی یا کیا وہ دودن تک بستر پر پڑی رہی. مجھے اسکی بھی کوئی پرواہ نہیں تھی.
پھر اس نے گھر میں ہی سینا پرونا شروع کردیا، ہاتھ کا ہنر اس کے کام آیا، یوں اسکی روٹی کا انتظام ہوگیا اور میں یہ سوچ کر پہلے سے بھی بےپرواہ ہوگیا.
ایک روز ایک ہمسائے نے مجھے روک کر کہا "دن میں جب آپ گھر نہیں ہوتے تو آپ کے گھر سے باتوں کی آوازیں آتی ہیں", میرے سوا میری غیر موجودگی میں کون آتا تھا جس سے وہ اتنی آواز میں باتیں کرتی تھی؟ غصہ حد سے سوا تھا، بس نہ چلتا تھا کہ اسے جان سے مار دوں، لیکن میں بس ایک موقع کی طاق میں تھا.
ایک رات پچھلے پہر کسی کے بولنے کی آواز پر میری آنکھ کھلی، چاندی رات میں صحن میں پڑی ہر شے بالکل واضح طور پر دکھائی دیتی تھی، میں اٹھ کر دروازے تک آیا.اب آواز زیادہ واضح تھی.وہ کہ رہی تھی:
"سائیں! صبح ایک روٹی کے لئے آٹا گھر میں موجود ہے، وہ ایک روٹی کھا کر چلا جائے گا، یہ سوچے بنا کہ میں سارا دن بھوکی رہوں گی, میری روٹی جب تک تیرے ذمے تھی تو عزت سے ملتی تھی، جب تو نے اپنے نائب کے ہاتھ دی تو روٹی کیساتھ بےعزتی اور اذیت بھی ملنے لگی، مجھے اب روٹی تو ہی دے...تیرا بنایا نائب تو خائن نکلا" وہ میری شکایت کررہی تھی؟ لیکن کس سے؟ کون تھا جو اسے روٹی دیتا تھا مجھ سے بھی پہلے؟؟؟
میں نے باہر آکر دیکھا وہ صحن کے بیچ چارپائی پر بیٹھی خود سے باتیں کررہی تھی. وہاں کوئی بھی نہ تھا. میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی, وہ خدا سے میری شکایت کررہی تھی, وہ اس لمحے مجھے کوئی اور ہی مخلوق لگی. وہ بہت کم بولتی تھی لیکن وہ کس کے ساتھ اتنا بولتی تھی, آج مجھے سمجھ آیا تھا. وہ تو بہت بڑے باپ کی بیٹی تھی. کیسی عورت تھی جو افلاس کے ہوتے بھی خدا شناس تھی, میرا جسم خوف سے کانپ رہا تھا.
دن چڑھتے ہی میں نے سامان باندھا اور اسے اسکے گھر چھوڑ آیا، سسر نے طلاق کی وجہ پوچھی تو میں ڈرتے ہوئے کہنے لگا.
" یہ بڑی خطرناک عورت ہے، بڑے دربار میں میری شکایتیں لگاتی ہے.مجھے ڈر ہے کہ بادشاہ کو کسی دن تاو آگیا تو میرا حشر نہ کردے" - حقیقت یہ تھی کہ میں اس کیساتھ انصاف نہیں کرسکا تھا.
اس کا باپ گھر کی دہلیز پر کھڑا تھا. میرے پلٹنے پر کہنے لگا "میں نے تمہیں کہا بھی تھا کہ اسے دنیاداری نہیں آتی، وہ تو بس 'سائیں' کو خوش رکھنا جانتی ہے" , اس کی مراد خدا سے تھی اور میں خود کو سمجھا تھا.
جب میں واپس گھر آیا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ رات اس نے یہی تو مانگا تھا." تو خود مجھے روٹی دے، تیرا نائب تو خائن نکلا", اور آج نان نفقے کا اختیار مجھ سے چھین لیا گیا.
میں بے تحاشہ رویا، اس کا سائیں بہت بڑا تھا، اس کی رسائی جس تک تھی وہ تو دوجہانوں کا رب تھا. وہ جس کی ایک روٹی مجھ پر بھاری تھی وہ اس کے لئے کیا نہیں کرسکتا تھا. میں واقعی ڈر گیا تھا. میں آج بھی ڈرتا ہوں کہیں میرے حق میں اس نے کوئی بددعا نہ کردی ہو.
ٹھیک کہتے ہیں لوگ!!کہاں میں کہاں وہ؟؟ "بوڑھی آنکھوں میں نمی اتری تھی.
"میں کور چشم اسے پہچان نہ سکا، میں نہیں ڈرتا تھا، حالانکہ ڈرنا چاہیئے تھا ،اس کے سائیں نے تو پہلے ہی کہ دیا تھا کہ عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو"....

Dastak News Kohat دستک نیوز کوہاٹ

آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ پرندوں کو یہ چرندے اور چوپاۓ یوں جھولے دیتے رہتے ہیں۔ یہ بے مقصد ایکٹیویٹی نہیں۔ اس کے دو فائد...
27/06/2025

آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ پرندوں کو یہ چرندے اور چوپاۓ یوں جھولے دیتے رہتے ہیں۔ یہ بے مقصد ایکٹیویٹی نہیں۔ اس کے دو فائدے ہیں۔ ایک تو ان پرندوں کو کھانے کے لئے ان پہ ticks وغیرہ مل جاتے ہیں جنہیں چن چن کر یہ کھا جاتے ہیں۔ جانور کو ایک تو ticks سے نجات ملتی، دوسرا ایک اور اہم فائدہ ہے جو شائد پہلے کسی نے نوٹ نہیں کیا۔ وہ یہ ہے کہ ان چرندوں کی eye sight اتنی اچھی نہیں ہوتی البتہ پرندے قدرے بلندی پہ بیٹھے جب کسی درندے کو دیکھ لیتے ہیں تو خوب شور مچاتے ہیں، جس سے گھاس خور جانور الرٹ ہو کر بھاگ جاتے ہیں۔

"آپ اس تصویر میں دیکھ سکتے ہیں کہ یہ پرندہ کوئی
خطرہ دیکھ کر چِلّا رہا ہے اور ہرن الرٹ ہو گیا ہے"

فطرت خوبصورت ہے اور اس میں انسانوں کے لئے سبق ہے۔ فقط تعاون باہمی کے اصول پر ہی ہم دنیا کو جنت بنا سکتے ہیں۔
Dastak News Kohat دستک نیوز کوہاٹ

وفات سے 3 روز قبل جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر تشریف فرما ...
27/06/2025

وفات سے 3 روز قبل جبکہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ام المومنین
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر تشریف فرما تھے،

ارشاد فرمایا

کہ
"میری بیویوں کو جمع کرو۔"

تمام ازواج مطہرات
جمع ہو گئیں۔
تو
حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
دریافت فرمایا:
کیا

تم سب
مجھے اجازت دیتی ہو
کہ
بیماری کے دن
میں
عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے ہاں گزار لوں؟"

سب نے کہا
اے اللہ کے رسول
آپ کو اجازت ہے۔

پھر
اٹھنا چاہا
لیکن اٹھہ نہ پائے
تو
حضرت علی ابن ابی طالب
اور
حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما آگے بڑھے
اور
نبی علیہ الصلوة والسلام کو
سہارے سے اٹھا کر سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے سے
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔

اس وقت
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
اس (بیماری اور کمزوری کے) حال میں پہلی بار دیکھا تو
گھبرا کر
ایک دوسرے سے پوچھنے لگے

رسول اللہ (صلی اللہ وآلہ وسلم) کو کیا ہوا؟

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا ہوا؟

چنانچہ
صحابہ مسجد میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور
مسجد نبوی میں
ایک رش لگ گیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا
پسینہ شدت سے بہہ رہا تھا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ
میں نے اپنی زندگی میں
کسی کا
اتنا پسینہ بہتے نہیں دیکھا۔
اور
فرماتی ہیں:

"میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے دست مبارک کو پکڑتی اور
اسی کو
چہرہ اقدس پر پھیرتی

کیونکہ
نبی علیہ الصلوة والسلام کا ہاتھ
میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ
محترم اور پاکیزہ تھا۔"

مزید
فرماتی ہیں
کہ حبیب خدا
علیہ الصلوات والتسلیم
سے
بس یہی
ورد سنائی دے رہا تھا
کہ
"لا إله إلا الله،
بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں۔"

اسی اثناء میں
مسجد کے اندر
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے بارے میں خوف کی وجہ سے لوگوں کا شور بڑھنے لگا۔

نبی علیہ السلام نے دریافت فرمایا:
یہ
کیسی آوازیں ہیں؟

عرض کیا گیا
کہ
اے اللہ کے رسول!
یہ
لوگ آپ کی حالت سے خوف زدہ ہیں۔

ارشاد فرمایا کہ
مجھے ان کے پاس لے چلو۔
پھر
اٹھنے کا ارادہ فرمایا لیکن
اٹھہ نہ سکے
تو
آپ علیہ الصلوة و السلام پر
7 مشکیزے پانی کے بہائے گئے،
تب
کہیں جا کر کچھ افاقہ ہوا
تو
سہارے سے اٹھا کر ممبر پر لایا گیا۔

یہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا
آخری خطبہ تھا
اور
آپ علیہ السلام کے آخری کلمات تھے۔

فرمایا:
" اے لوگو۔۔۔! شاید
تمہیں
میری موت کا خوف ہے؟"
سب نے کہا:
"جی ہاں اے اللہ کے رسول"

ارشاد فرمایا:
"اے لوگو۔۔!
تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیا نہیں،
تم سے
میری ملاقات کی جگہ حوض (کوثر) ہے،

اللہ کی قسم گویا کہ
میں یہیں سے
اسے (حوض کوثر کو) دیکھ رہا ہوں،

اے لوگو۔۔۔!
مجھے تم پر
تنگدستی کا خوف نہیں بلکہ مجھے تم پر
دنیا (کی فراوانی) کا خوف ہے،
کہ
تم اس (کے معاملے) میں
ایک دوسرے سے
مقابلے میں لگ جاؤ گے

جیسا کہ
تم سے پہلے
(پچھلی امتوں) والے لگ گئے،
اور
یہ (دنیا) تمہیں بھی ہلاک کر دے گی
جیسا کہ
انہیں ہلاک کر دیا۔"

پھر
مزید ارشاد فرمایا:
"اے لوگو۔۔!
نماز کے معاملے میں
اللہ سے ڈرو،
اللہ سےڈرو۔
نماز کے معاملے میں
اللہ سے ڈرو،

(یعنی عہد کرو
کہ نماز کی پابندی کرو گے،
اور
یہی بات بار بار دہراتے رہے۔)

پھر فرمایا:
"اے لوگو۔۔۔!
عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو،
عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو،

میں تمہیں
عورتوں سے
نیک سلوک کی
وصیت کرتا ہوں۔"

مزید فرمایا:
"اے لوگو۔۔۔!
ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا
کہ
دنیا کو چن لے
یا اسے چن لے
جو
اللہ کے پاس ہے،
تو
اس نے اسے پسند کیا جو
اللہ کے پاس ہے"

اس جملے سے
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا مقصد
کوئی نہ سمجھا حالانکہ
انکی اپنی ذات مراد تھی۔
جبکہ
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ
وہ
تنہا شخص تھے
جو
اس جملے کو سمجھے اور
زارو قطار رونے لگے
اور
بلند آواز سے
گریہ کرتے ہوئے
اٹھہ کھڑے ہوئے
اور
نبی علیہ السلام کی بات قطع کر کے پکارنے لگے۔۔۔۔

"ہمارے باپ دادا
آپ پر قربان،
ہماری
مائیں آپ پر قربان،
ہمارے بچے آپ پر قربان،
ہمارے مال و دولت
آپ پر قربان....."
روتے جاتے ہیں
اور
یہی الفاظ کہتے جاتے ہیں۔

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم (ناگواری سے)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگے
کہ
انہوں نے
نبی علیہ السلام کی بات کیسے قطع کر دی؟

اس پر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دفاع
ان الفاظ میں فرمایا:

"اے لوگو۔۔۔!
ابوبکر کو چھوڑ دو
کہ
تم میں سے ایسا کوئی نہیں
کہ جس نے
ہمارے ساتھ کوئی بھلائی کی ہو
اور
ہم نے
اس کا بدلہ نہ دے دیا ہو،
سوائے ابوبکر کے،
کہ
اس کا بدلہ
میں نہیں دے سکا۔
اس کا بدلہ
میں نے اللہ جل شانہ پر چھوڑ دیا۔

مسجد (نبوی) میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیے جائیں،

سوائے ابوبکر کے دروازے کے کہ
جو کبھی بند نہ ہوگا۔"

آخر میں
اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کے لیے
آخری دعا کے طور پر ارشاد فرمایا:
"اللہ تمہیں ٹھکانہ دے،
تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تائید کرے۔

اور
آخری بات
جو ممبر سے اترنے سے پہلے
امت کو
مخاطب کر کے
ارشاد فرمائی
وہ
یہ کہ:"اے لوگو۔۔۔!
قیامت تک آنے والے میرے ہر ایک امتی کو
میرا سلام پہنچا دینا۔"

پھر
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو
دوبارہ سہارے سے
اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔

اسی اثناء میں
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے
اور
ان کے ہاتھ میں مسواک تھی،

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مسواک کو دیکھنے لگے لیکن
شدت مرض کی وجہ سے
طلب نہ کر پائے۔

چنانچہ
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیکھنے سے سمجھ گئیں
اور
انہوں نے
حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مسواک لے کر
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے
دہن مبارک میں رکھ دی،

لیکن
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم
اسے استعمال نہ کر پائے
تو
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضوراکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
مسواک لے کر
اپنے منہ سے نرم کی اور
پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو لوٹا دی
تاکہ دہن مبارک
اس سے تر رہے۔

فرماتی ہیں:
" آخری چیز جو
نبی کریم علیہ الصلوة والسلام کے
پیٹ میں گئی
وہ
میرا لعاب تھا،
اور
یہ اللہ تبارک و تعالٰی کا مجھ پر فضل ہی تھا
کہ
اس نے وصال سے قبل میرا
اور
نبی کریم علیہ السلام کا لعاب دہن یکجا کر دیا۔"

اُم المؤمنين
حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
مزید ارشاد فرماتی ہیں:
"پھر
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ تشریف لائیں
اور
آتے ہی رو پڑیں
کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھہ نہ سکے، کیونکہ
نبی کریم علیہ السلام کا معمول تھا
کہ
جب بھی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تشریف لاتیں
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم
انکے ماتھے پر
بوسہ دیتے تھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا
اے فاطمہ! "
قریب آجاؤ۔۔۔"
پھر
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
ان کے کان میں
کوئی بات کہی
تو
حضرت فاطمہ
اور
زیادہ رونے لگیں،

انہیں اس طرح روتا دیکھ کر
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
پھر فرمایا
اے فاطمہ! "قریب آؤ۔۔۔"
دوبارہ انکے کان میں
کوئی بات ارشاد فرمائی
تو
وہ خوش ہونے لگیں

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد
میں نے
سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا سے پوچھا تھا
کہ
وہ کیا بات تھی
جس پر روئیں
اور
پھر خوشی کا اظہار کیا تھا؟

سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کہنے لگیں
کہ
پہلی بار
(جب میں قریب ہوئی) تو فرمایا:
"فاطمہ! میں آج رات (اس دنیاسے) کوچ کرنے والا ہوں۔

جس پر میں رو دی۔۔۔۔"
جب
انہوں نے
مجھے بے تحاشا روتے دیکھا تو
فرمانے لگے: "فاطمہ!
میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے
تم مجھ سے آ ملو گی۔۔۔"
جس پر
میں خوش ہوگئی۔۔۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں:
پھر
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
سب کو
گھر سے باھر جانے کا حکم دیکر مجھے فرمایا:
"عائشہ!
میرے قریب آجاؤ۔۔۔"

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
اپنی زوجۂ مطہرہ کے سینے پر ٹیک لگائی
اور
ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے فرمانے لگے:
مجھے
وہ اعلیٰ و عمدہ رفاقت پسند ہے۔

(میں الله کی، انبیاء، صدیقین، شہداء
اور
صالحین کی رفاقت کو اختیار کرتا ہوں۔)

صدیقہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:
"میں
سمجھ گئی
کہ
انہوں نے آخرت کو چن لیا ہے۔"

جبرئیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضر ہو کر گویا ہوئے:
"یارسول الله!
ملَکُ الموت
دروازے پر کھڑے
شرف باریابی چاہتے ہیں۔
آپ سے پہلے
انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی۔"

آپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا:
"جبریل! اسے آنے دو۔۔۔"

ملَکُ الموت نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے،
اور کہا:
"السلام علیک یارسول الله!
مجھے اللہ نے
آپ کی چاہت جاننے کیلئے بھیجا ہے
کہ
آپ دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں
یا
الله سبحانہ وتعالی کے پاس جانا پسند کرتے ہیں؟"

فرمایا:
"مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے،
مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے۔"

ملَکُ الموت
آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے
سرہانے کھڑے ہوئے
اور
کہنے لگے:
"اے پاکیزہ روح۔۔۔!
اے محمد بن عبدالله کی روح۔۔۔!
الله کی رضا و خوشنودی کی طرف روانہ ہو۔۔۔!
راضی ہوجانے والے پروردگار کی طرف
جو
غضبناک نہیں۔۔۔!"

سیدہ عائشہ
رضی الله تعالی عنہا فرماتی ہیں:
پھر
نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم ہاتھ نیچے آن رہا،
اور
سر مبارک
میرے سینے پر
بھاری ہونے لگا،
میں
سمجھ گئی
کہ آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا۔۔۔

مجھے اور تو
کچھ سمجھ نہیں آیا سو میں
اپنے حجرے سے نکلی اور
مسجد کی طرف کا دروازہ کھول کر کہا۔۔

"رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔!
رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔!"

مسجد آہوں
اور
نالوں سے گونجنے لگی۔
ادھر
علی کرم الله وجہہ
جہاں کھڑے تھے
وہیں بیٹھ گئے
پھر
ہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔

ادھر
عثمان بن عفان رضی الله تعالی عنہ
معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے۔

اور
سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ
تلوار بلند کرکے کہنے لگے:
"خبردار!
جو کسی نے کہا
رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پا گئے ہیں،
میں
ایسے شخص کی
گردن اڑا دوں گا۔۔۔!

میرے آقا تو
الله تعالی سے
ملاقات کرنے گئے ہیں
جیسے
موسی علیہ السلام
اپنے رب سے
ملاقات کوگئے تھے،

وہ لوٹ آئیں گے،
بہت جلد لوٹ آئیں گے۔۔۔۔!
اب جو
وفات کی خبر اڑائے گا، میں
اسے قتل کرڈالوں گا۔۔۔"

اس موقع پر
سب سے زیادہ ضبط، برداشت
اور صبر کرنے والی شخصیت
سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ کی تھی۔۔۔
آپ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے،
رحمت دوعالَم
صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے سینۂ مبارک پر
سر رکھہ کر رو دیئے۔۔۔

کہہ رہے تھے:
وآآآ خليلاه، وآآآ صفياه، وآآآ حبيباه، وآآآ نبياه

(ہائے میرا پیارا دوست۔۔۔!
ہائے میرا مخلص ساتھی۔۔۔!
ہائے میرا محبوب۔۔۔!
ہائے میرا نبی۔۔۔!)
پھر
آنحضرت صلی علیہ وآلہ وسلم کے ماتھے پر
بوسہ دیا
اور کہا:"یا رسول الله!
آپ پاکیزہ جئے
اور
پاکیزہ ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔"

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر آئے
اور خطبہ دیا:
"جو
شخص محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی
عبادت کرتا ہے سن رکھے

آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا اور
جو الله کی عبادت کرتا ہے
وہ جان لے
کہ الله تعالی شانہ کی ذات
ھمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔"

سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔۔۔

عمر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں:
پھر
میں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں
اکیلا بیٹھ کر روؤں۔۔۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی تدفین کر دی گئی۔۔۔
سیدہ فاطمہ
رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"تم نے کیسے گوارا کر لیا کہ
نبی علیہ السلام کے چہرہ انور پر مٹی ڈالو۔۔۔؟"

پھر کہنے لگیں:
"يا أبتاه، أجاب ربا دعاه، يا أبتاه، جنة الفردوس مأواه، يا أبتاه، الى جبريل ننعاه."

(ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ
اپنے رب کے بلاوے پر چل دیے،
ہائے میرے پیارے بابا جان،
کہ
جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے،
ہائے میرے پیارے بابا جان،
کہ
ہم جبریل کو
ان کے آنے کی خبر دیتے ہیں۔)
اللھم صل علی محمد کما تحب وترضا۔

میں نے آج تک
اس سے اچّھا پیغا م کبھی پوسٹ نہیں کیا۔

اسلۓ
آپ سے گزارش ہے
کہ
آپ اسے پورا سکون
و اطمینان کے ساتھ پڑھۓ۔
ان شاء اللہ,
آپکا ایمان تازہ ہو جاۓ گا۔“

ثواب کی نیت سے
شیئر کریں
اور
صدقہ جاریہ میں
شامل ہو جائیں -!!!'

Dastak News Kohat دستک نیوز کوہاٹDastak News Kohat دستک نیوز کوہاٹ

بلور ھاوس نہیں پشاور خالی ھوگیا 😥سچ بول کوہاٹ لگ بھگ چھ دہائیوں تک خیبر پختونخوا اور پاکستاب نہیں بلکہ خطے کی سیاست میں ...
27/06/2025

بلور ھاوس نہیں پشاور خالی ھوگیا 😥
سچ بول کوہاٹ
لگ بھگ چھ دہائیوں تک خیبر پختونخوا اور پاکستاب نہیں بلکہ خطے کی سیاست میں منفرد مقام رکھنے والا مرکز بلور ھاوس خالی ھوگیا ۔ اس اھم سیاسی سماجی اور فلاحی مرکز کا بانی حاجی غلام احمد بلور اہنے اکلوتے پوتے عظیم شبیر بلور اور بیوہ بہو سمیت اسلام آباد منتقل ھوگئے ۔ اسلام آباد روانگی سے قبل ضعیف العمر حاجی غلام احمد بلور نے باچا خان مرکز جا کر اپنے مرحوم قائدین فخر افغان باچا خان اور خان عبدالولی خان کے ارواح سے بھی اجازت مانگی اور یوں وہ نہایت دل شکستگی کے ساتھ اس شہر سے روانہ ھوگئے جو کسی وقت اس شہر کے لاکھوں لوگوں کے دلوں کے دھڑکن رھے تھے ۔ وہ اس شہر سے اس ٹوٹے ھوئے دل کے ساتھ رخصت ھوگئے جو عرصہ دراز سے اس شہر کے لاکھوں باسیوں کے غمی و خوشی میں حصہ تن شریک رھے تھے ۔ حاجی غلام احمد بلور نے اس شہر کو خیر باد کہا جسکے وہ ہر گلی کوچے سے واقف حال رہا ۔ حاجی غلام احمد بلور نے اس شہر کو چھوڑ دیا جس کے بطن میں نہ صرف ان کا چہیتا بیٹا شبیر احمد بلور ۔ چہیتے بھائ شہید بشیر احمد بلور اور مرحوم الیاس احمد بلور سمیت کئی ایک رشتے دار اور بلور خاندان پر مر مٹنے والےشہید حاجی حمد اللہ ۔ شہید نور محمد خان۔ حاجی باجوڑی سمیت سینکڑوں مدفون ھے ۔ حاجی غلام احمد بلور نے اس آبائی شہر کو چھوڑ دیا جسکے ہزاروں غریب اور نادار انکی سخاوت سے فیضیاب ھو رھے تھے ۔ بہر حال انسانی زندگی میں نشیب و فراز آتے رھتے ھے مگر جس طرح نشیب و فراز حاجی غلام احمد بلور کے زندگی میں آئے ہیں اور انہوں نے برداشت کئے ھیں یہ بہت کم لوگوں کے زندگیوں میں آئے ہیں۔ حاجی صاحب نے جس طرح اکلوتے بیٹے شبیر احمد بلور کی جدائی برداشت کی تھی بلکل اسی طرح انہوں نے شہید بھائی بشیر احمد بلور اور بھتیجے بیرسٹر ہارون کی شہادتوں کے دوران صبر و برداشت کا مظاہرہ کیا تھا ۔ حاجی صاحب نے اس شہر کو چھوڑ دیا جس شہر کی نمائندگی وہ اور انکے بھائی ستر کے دہائی کے اوائل سے نہ صرف پارلیمان بلکہ صنعت و حرفت و تجارت کے ایوانوں میں بھی کر رھے ہیں ۔ پشاور اور بلور خاندان کے بارے میں لکھنا یا یاد دلانا کاغذ کے ایک یا دو صفحات پر محیط نہیں ھوسکتا بلکہ اس کے لئے کاغذوں کے انبار درکار ھے ۔ بہرحال یہ بلور ھاوس صرف پشاوریوں کا مرکز نہیں رہا ھے بلکہ اس بلور ھاوس میں نہ صرف پختونخوا اور پشتونوں کے بلکہ ملک بھر کے اھم اھم سیاسی فیصلے بھی ھوئے ھے۔ نواب خیر بخش مری ۔ میر غوث بخش بزنجو۔ سردار عطاء اللہ خان مینگل۔ شہزادہ عبدالکریم ۔ نواب شہید اکبر بگتی ۔ عبدالحمید جتوئی۔ غلام مصطفی جتوئ۔ سردار شیر باز خان مزاری۔ میر جلال شاہ ۔مرحوم حاکم علی زرداری ۔ فاضل راھو۔ مرحوم رسول بخش پلیجو۔ سردار شوکت علی خان ۔ چوھدری شجاعت حسین اور باچاخان اور ولی خان کے سیاسی تحاریک سے منسلک ملک بھر نہیں بلکہ ھندوستان سے تعلق رکھنے والے نامور سیاسی رھنماووں نے بھی بلور ھاوس کو میزبانی کا شرف بخشا ھے ۔ شہید بے نظیر بھٹو اور مرحومہ نصرت بھٹو کے علاوہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور شہباز شریف بھی 90 کے دہائی کے دوران اس مکان نہیں بلکہ حویلی میں تشریف لا چکے ہیں۔ سابق صدور حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی کے علاوہ افغانستان کے بہت سے سیاسی اور مذھبی رھنما بھی بلور ھاوس آئے ھوئے تھے ۔ مرحوم محمد افضل خان المعروف خان لالا کے انتقال کے بعد افغانستان سے ایک خصوصی وفد نے بلور ھاوس آکر انکے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کی تھی ۔ بعد میں اسی وفد میں شامل حاجی دیں محمد نے درشخیلہ سوات جاکر خان لالا کے قبر پر بھی فاتحہ خوانی کی تھی ۔ شہید ڈاکٹر نجیب اللہ کے کابینہ میں شامل سلیمان لائق۔ اسلم وطن جار ۔ محمد ہاشم خان پکتیانی اور رشید وزیری سمیت بہت سے وزراء اور عہدیدار کئی کئی ھفتوں تک بلور ھاوس کے مہمان رھے تھے۔ یہ کیوں ھوا اس کا جواب تو حاجی صاحب از خود دے سکتے ہیں کہ مگر حاجی صاحب اگر ایک طرف بھائیوں شہید بشیر احمد بلور اور مرحوم الیاس بلور اور بھتیجے بیرسٹر ہارون بلور کے بعد سیاسی میدان میں تنہائی محسوس کرتے تھے تو دوسری طرف وہ 2018 بالخصوص 2024 کے انتخابات کے بعد پشاور کے شہریوں سے بھی نالاں تھے ۔ حاجی صاحب کا چوتھا بھائ عزیز احمد بلور پہلے ھی سے پنجاب منتقل ھوا ھے ۔ ماضی میں اگر انکا مقابلہ پشاور کے سید یا سیٹھی خاندانوں سے ھوتا تھا تو وہ بھی بلور خاندان کے طرح پشاور کے سیاسی سماجی اور کاروباری حلقوں سے تعلق اور مقبولیت رکھتے تھے مگر موجودہ ممبر قومی اسمبلی آصف خان اور شوکت علی تو بہت نو وارد اور غیر مقبول تھے ۔ ان دونوں کو ووٹ دینے والوں کو انکے نام اور گھر بھی معلوم نہیں ھونگے مگر پھر بھی ان کو ووٹ دیئے گئے اور اہنی نمائندگی کے لئے ایوان بجھوایا گیا ۔ شوکت علی جو 2018 کے عام انتخابات میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ھوا تھا تو ماضی میں تحصیل ناظم رہ چکا تھا کی کچھ جان پہچان تھا جبکہ آصف خان تو 2018 کے انتخابات میں ممبر صوبائی اسمبلی بننے کے باوجود پشاور کے اکثریتی شہریوں کے لئے اجنبی تھا کیونکہ وہ صوبائی اسمبلی کے نہایت خاموش ترین ممبران اسمبلی میں سرفہرست تھا ۔ اب قومی اسمبلی میں آصف خان کی وہی صوبائی اسمبلی والی خاموش حیثیت یا کردار ھے۔ دوسری طرف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشی معاملات نے بھی بلور خاندان کو کسی نہ کسی حد تک متاثر کیا ھوا ھے ماضی قریب بہت سے صنعتی تجارتی اور کاروباری اداروں کے مالکان بلور خاندان والے اب ایک دو گیس پمپس تک محدود ھوگئے ھیں۔ ماضی میں پشاور کے مختلف پوش علاقوں کے چار بلور ھاوسز اور لندن میں چار پلیٹوں والے اب دو گھروں کے مکین بن کر رھ گئے ہیں۔ پشاور کے باسیوں سے مایوسی کے علاوہ حاجی غلام احمد بلور پارٹی کے قائدین اور ساتھیوں سے بھی کچھ زیادہ خوش نہیں تھے ۔ کئی ایک مرکزی اور صوبائی عہدیداروں سے فون پر بروقت رابطہ یا جواب نہ ملنے پر کئی بار ناراضگی کا اظہار کر چکے تھے ۔ در اصل حاجی صاحب اس عزت و احترام یا توجہ۔کا خواہاں تھے جو انکو کسی وقت میں مرحوم خان عبدالولی خان دیا کرتے تھے ۔ 1990 کے عام انتخابات کے بعد جب حاجی غلام احمد بلور مرکزی اور بشیر احمد بلور صوبائی وزیر بنے تو پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے ولی خان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیتے وقت یاد دلایا کہ سہتر کے دہائی کے دوران بلور خاندان کے چار افراد حاجی غلام احمد بلور۔ بشیر احمد بلور۔الیاس احمد بلور اور عزیز احمد بلور جیل میں تھے لہذا اب حق بنتا ھے کہ چاروں کو عہدے دئے جائے ۔ اس کے فورا بعد مرحوم الیاس احمد بلور کو سینیٹ کے لئے نامزد اور منتخب کر دیا گیا ۔ کوئ مانے یا نہ مانے مگر یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ھے کہ بلور خاندان نے حقیقی معنوں میں پشاور کے نمائندگی کا حق ادا کیا ھے ۔ اب پشاور کے ساتھ کیا ھو رھا ھے یہ بھی سب کے سامنے ھے ۔ دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو بلور خاندان سیاست میں آنے سے قبل مالی اور معاشی طور پر کافی مستحکم تھا مگر اب نہیں جبکہ 2013 سے نہ صرف پشاور بلکہ خیبر پختونخوا کے طول و عرض سے پاکستان تحریک انصاف کے منتخب ممبران اسمبلی لکھ پتیوں کے بجائے اب ارب پتی نہیں بلکہ کھرب پتی بن گئے ہیں اور ھو رھے ھیں۔ حاجی بلور نے بلور ھاوس نہیں پشاور کو خالی کر دیا ھے اب دیکھنا یہ ھے کہ اس خالی پشاور کے باسی مستقبل کے لئے کسی راہ گزر کو نمائندگی کے لئے منتخب کرینگے یا حاجی غلام احمد بلور کے طرح کسی مخلص خواہاں کو ۔
Dastak News Kohat دستک نیوز کوہاٹDastak News Kohat دستک نیوز کوہاٹ

آمین ثم آمین یا رب العالمین Dastak News Kohat دستک نیوز کوہاٹ
27/06/2025

آمین ثم آمین یا رب العالمین
Dastak News Kohat دستک نیوز کوہاٹ

کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السلام کے ایک چرواہے کی نگرانی میں کچھ بھیڑیں تھیں۔ ایک دن اس کے پاس ایک بھیڑی...
27/06/2025

کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السلام کے ایک چرواہے کی نگرانی میں کچھ بھیڑیں تھیں۔ ایک دن اس کے پاس ایک بھیڑیا آیا اور بولا:
“مجھے ایک بھیڑ دے دو!”
چرواہے نے حیران ہو کر جواب دیا:
“یہ بھیڑیں حضرت سلیمان علیہ السلام کی ملکیت ہیں، میں تو بس ان کا رکھوالا ہوں!”
بھیڑیا بولا:
“تو جا کر حضرت سلیمان سے پوچھ لو کہ کیا وہ مجھے ایک بھیڑ دینے کی اجازت دیتے ہیں؟”
چرواہے نے کہا:
“مجھے ڈر ہے کہ اگر میں چلا گیا تو تم بھیڑوں پر حملہ کر دو گے۔”
بھیڑیا ہنسا اور بولا:
“جب تک تم واپس نہ آ جاؤ، میں خود بھیڑوں کی نگرانی کروں گا، الله نہ کرے کہ میں خیانت کروں لیکن اگر میں نے خیانت کی تو میں آخری امت کا قربِ قیامت والا ایک آدمی بن جاؤں” (یعنی اپنے آپ کو بد دعاء دی کہ ہم یعنی موجودہ مسلمانوں کی طرح ہو جاؤں، جو کہ افسوسناک ہے)
یہ سن کر چرواہا روانہ ہو گیا۔
راستے کی حیرت انگیز نشانیاں
چلتے ہوئے چرواہے نے تین عجیب و غریب مناظر دیکھے:
1️⃣ پہلی نشانی: اس نے ایک گائے کو اپنی ہی بچی کا دودھ پیتے دیکھا! حیران ہو کر اس نے سوچا: “سبحان الله! میں نے اس جیسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا، اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟”
2️⃣ دوسری نشانی: آگے بڑھا تو ایسے لوگ دیکھے جو بوسیدہ کپڑے پہنے ہوئے تھے، مگر ان کے ہاتھوں میں سونے کی تھیلیاں بھری پڑی تھیں! چرواہے نے سوچا: “یہ بھی بڑی عجیب بات ہے، ان کے پاس سونا ہے مگر یہ پھر بھی فقیر نظر آ رہے ہیں!”
3️⃣ تیسری نشانی: کچھ اور آگے بڑھا تو ایک بہتا ہوا چشمہ نظر آیا، پیاس کی شدت میں جیسے ہی قریب پہنچا، تو بدبو نے اسے روک دیا۔ پانی کی بدبو اتنی شدید تھی کہ وہ پیچھے ہٹ گیا اور حیران ہو کر بولا: “یہ کیسی بات ہے؟ بہتا ہوا پانی اور اتنا گندا؟”
حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکمت بھری وضاحت
بالآخر وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچا اور بھیڑیے کی درخواست بیان کی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا:
“ٹھیک ہے ، میں نے اسے اجازت دی کہ وہ ایک بھیڑ چن کر کھا لے۔”
چرواہے نے عرض کیا:
“حکم بجا لاتا ہوں، مگر راستے میں تین عجیب چیزیں دیکھی ہیں، ان کی حقیقت جاننا چاہتا ہوں۔”
✦ پہلی نشانی کا جواب:
“یہ آخری زمانے کی نشانی ہے۔ مائیں اپنی بیٹیوں کو فتنہ میں مبتلا کریں گی تاکہ خود فائدہ حاصل کر سکیں۔”
✦ دوسری نشانی کا جواب:
“یہ لوگ ڈاکو اور چور ہیں۔ جو مال حرام سے آتا ہے، اس میں برکت ختم ہو جاتی ہے۔ آخری زمانے میں حرام کمائی عام ہو جائے گی، قناعت ختم ہو جائے گی اور برکت اٹھا لی جائے گی۔”
✦ تیسری نشانی کا جواب:
“یہ بھی آخری زمانے کے نام نہاد دیندار ہیں۔ دور سے دیکھو تو ان کا لباس دین داری کا ہوگا، مگر جب قریب جاؤ گے تاکہ کچھ سیکھ سکو، تو پاؤ گے کہ وہ دنیا اور خواہشات میں ڈوبے ہوئے ہیں۔”
یہ سن کر چرواہے نے تڑپ کر کہا:
“میں اس زمانے کے فتنے سے الـلــَّـه کی پناہ مانگتا ہوں!”
بھیڑیے کی حیران کن دیانتداری
چرواہا واپس آیا تو دیکھا کہ بھیڑیا واقعی بھیڑوں کی نگرانی کر رہا تھا۔
اس نے کہا:
“حضرت سلیمان نے تمہیں اجازت دے دی ہے کہ تم کسی بھی بھیڑ کو چن کر کھا سکتے ہو۔”
بھیڑیے نے بھیڑوں پر نظر دوڑائی اور ایک کمزور، بیمار بھیڑ کو چن لیا۔
چرواہے نے حیرت سے پوچھا:
“تم نے یہی بھیڑ کیوں چنی؟”
بھیڑیا بولا:
“کیونکہ یہ اپنے رب کی تسبیح سے غافل تھی! جو اپنے رب کے ذکر سے غافل ہو، وہ بہت بڑی آزمائش میں ہوتا ہے۔۔
Dastak News Kohat دستک نیوز کوہاٹ

Address

Kohat City
Kohat
26000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dastak News Kohat دستک نیوز کوہاٹ posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share