14/08/2024
السلامُ علیکم!
یومِ آزادی کے قریب آتے ہی ایسی پوسٹس دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں تقسیمِ ہند/حصولِ پاکستان کو تباہی و بربادی اور ایک فاش غلطی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ مزید برآں موجودہ دگرگوں معاشی، معاشرتی، انتظامی اور سیاسی حالات اس کا اعادہ کرنے کے لئے کافی ہو جاتے ہیں ۔ یہ حقیقت جان لینا ازحد ضروری ہے کہ آزادی کے لیے قربانی دینا پڑتی ہے اس قربانی سے مراد جان کی قربانی ہی ہے ۔ عہدِ رسالت مآب میں بھی بدر سے لے کر حنین تک کثیر صحابہ کرام نے جان کی قربانی دی، آج کے دور کی سپر پاور امریکہ بھی 1776 سے قبل برطانیہ کے چنگل میں تھا ۔ وہاں کے لوگوں نے جہدِ مسلسل اور بالآخر 7 سال کی طویل جنگ کے بعد ہی آزادی حاصل کی ۔ آزادی کی قیمت ہوتی ہے اس کو کسی طور بھی خسارہ سمجھ کے غلطی نہیں قرار دینا چاہیے۔
بجا طور پر آج کے حالات کسی بھی طرح سے اُس پاکستان کی عکاسی نہیں کرتے جو محمد علی جناح اور ان کے رفقاء نے کا نقشِ خیال تھا مگر اِس کا سبب وہ founding fathers ہرگز نہیں بلکہ بعد کے نااہل، بصارت و بصیرت سے بے بہرہ اور خود نمائی میں ڈوبے ہوئے راہنما ہیں جنہوں نے اس ملک کے بنانے والوں کے رخصت ہوتے ہی ملک کو بنانے کے بجائے اُجاڑنا اور لوٹنا شروع کر دیا۔
ایسے میں یہاں کے بسنے والوں کو ماضی کو کوسنے اور اس میں غلطیاں ڈھونڈنے کی بجائے خود اپنی جگہ پہ کھڑے ہو کر تنکا تنکا چننا ہو گا اور اس ملک کی تعمیر کرنا ہو گی ۔ کیونکہ ریاست کے چار عناصر (1) مقامی لوگ (2) خطہ زمین (3) لوگوں کی نمائندہ حکومت (4) خود مختاری
ان میں سے کسی بھی ملک کے سب سے بڑے stakeholders وہاں کے عوام ہوتے ہیں ۔ ہمیں خود کی شناخت کرنا ہو گی اور اپنی ذمہ داری کو پہچاننا ہو گا جس کے لیے سبھی افراد کا اتحاد ہی ہمیں ایک قوم بنا سکتا ہے ۔ ماضی سیکھنے کے لئے ہوتا ہے رہنے کے لیے نہیں ، زندہ قومیں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہونے کے بجائے اپنی تقدیر خود لکھتی ہیں ۔
~ یہ بزمِ مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اُٹھا لے ہاتھ میں مینا اُسی کا ہے
پاکستان زندہ باد 🇵🇰 یومِ آزادی پاکستان مبارک ہو