Pakistan News

  • Home
  • Pakistan News

Pakistan News News updates of Pakistan and around the Globe https://www.youtube.com/playlist?list=PLxEvpRX0hLuLzX7VAEl2qkva4GZ-hwLQw

پی ٹی آئی کے مرکزی کوآرڈینیٹر جاوید قریشی جماعت اسلامی میں شامل
04/01/2024

پی ٹی آئی کے مرکزی کوآرڈینیٹر جاوید قریشی جماعت اسلامی میں شامل

03/01/2024

فرحان خان 21 گینز ورلڈ ریکارڈز کے مالک ہیں۔ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں پر ریسرچ اور ان کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد جماعت اسلامی کے منشور سے متاثر ہوئے اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے ملاقات کرکے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ اپنے پیغام میں نوجوانوں کو جماعت اسلامی میں شمولیت کی دعوت دے رہے ہیں۔

امیر زون جماعت اسلامی PP-57 جناب انوار الحق بٹ کی زیر صدارت  زون کا اجلاس جاری ہے ۔ احسن عدیل تتله امیدوار PP-57 کی خصوص...
03/01/2024

امیر زون جماعت اسلامی PP-57 جناب انوار الحق بٹ کی زیر صدارت زون کا اجلاس جاری ہے ۔ احسن عدیل تتله امیدوار PP-57 کی خصوصی شرکت

‏*جناح  ہسپتال ( JPMC )  کراچی پاکستان میں**اسٹیج ون  اور  اسٹیج ٹو  ، کینسر کا**کامیاب  ترین ، فوری اور تقریباً یقینی ع...
02/01/2024

‏*جناح ہسپتال ( JPMC ) کراچی پاکستان میں*
*اسٹیج ون اور اسٹیج ٹو ، کینسر کا*
*کامیاب ترین ، فوری اور تقریباً یقینی علاج بلکل مفت*

*وہ بھی چند گھنٹوں میں*

*کراچی جناح اسپتال میں درجنوں وارڈ ہیں جہاں مختلف شعبوں میں علاج کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں*

*لیکن جناح ہسپتال کراچی میں ایک ایسا وارڈ بھی ھے جہاں کینسر کے مفت علاج کی سہولت دنیا بھر میں کہیں اور میسر نہیں ہے*

*یہ ایک ایسا جادوئی طریقہ علاج ھے جو کہ صرف چند گھنٹے میں کیسنر سے مکمل نجات دلا دیتا ھے*

*نہ سرجری ھوتی ھے نہ ھی کوئی تکلیف*

*یہاں کی خاص بات یہ ھے کہ پچاس لاکھ روپے کے اس انتہاٸی مہنگے علاج پر مریض کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ھوتا*

*ذکر ھو رھا ھے سائبر نائف کا یہ ایک ایسا روبوٹ ہے جو الله کے فضل و کرم سے ٹیومر کا جڑ سے خاتمہ کردیتا ھے*

*سائبر نائف سے بیک وقت بارہ سو زاویوں سے شعاعیں نکلتی ہیں*

*جسکے باعث ٹیومر کا خاتمہ ، ریڈیو سرجری کی نسبت زیادہ آسان اور محفوظ ھوتا ھے*

*اسکی کامیابی کی شرح ننانوے فیصد % 99 تک ھے*

*یہاں علاج کے لیئے نہ تو کسی کی سفارش کی ضرورت ھے اور نہ ھی کوئی طویل انتظار کی اذیت*

ڈاکٹرز کے مطابق *اسٹیج ون اور اسٹیج ٹو* کے کینسر کے مریضوں کا آسان ترین اور فوری علاج سائبر نائف سے ممکن ھے

مریض کی آنکھوں کے سامنے *بغیر بے ہوش کیۓ* روبوٹ اپنا کام انجام دیتا ھے اور چند ھی گھنٹوں میں مریض صحتیاب ھو کر اسپتال سے روانہ ھو جاتا ھے

*ساٸبر ناٸف سے ھونے والا علاج تو حیران کن ھے ہی ، مگر ساتھ ھی اس ادارے کا قیام بھی کسی معجزے سے کم نہیں*

*قریباً سات سال قبل*
*ایک پاکستانی کا امریکا میں سائبر نائف کے ذریعے کامیاب علاج ھوا*
*صحت یاب ھونے والے اس نوجوان نے چالیس کروڑ روپے سے زائد مالیت کے سائبر نائف روبوٹ کو پاکستان لانے کی خواہش کا اظہار اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے کیا*

*خواھش کو حقیقت کا روپ دینے کے لیئے پاکستان ایڈ اینڈ فاؤنڈیشن میدان میں اتری کارواں آگے بڑھتا رہا اور قافلہ بنتا گیا*

*آخر میں جب سات آٹھ کروڑ کا خسارہ رھا تو عبدالستار ایدھی صاحب نے بھاری رقم عطیہ کر دی کہ اس سے غریبوں کا مفت علاج ممکن ھو گا*

*پانچ سال کے دوران اب تک پانچ ھزار افراد سائبر نائف سے مستفید ھوئے ہیں*
*جن میں بیرون ملک سے آنے والے مریض بھی شامل ہیں*

*خاص بات یہ ہے کہ دنیا میں فی الحال تقریباً ڈھائی سو ( 250 ) سائبر نائف روبوٹس ہیں*

*ان میں صرف پاکستان وہ واحد ملک ھے جہاں پچاس لاکھ روپے کی سرجری بالکل مفت کی جاتی ھے*

*یہی نہیں اس ادارے میں روز بروز جدید ترین ٹیکنالوجی کا اضافہ بھی ھو رھا ھے*

*حال ھی میں یہاں بیٹ اسکین مشین بھی نصب کردی گئی ھے*

*پتہ*
*ساٸیبر ناٸف وارڈ*
*جناح ہسپتال ( JPMC )*
*کراچی ، پاکستان*

CYBER KNIFE
JPMC
Karachi ۔ Pakistan
Phone number
( 92 ) 0213-5140111

*آپ سے درخواست کہ*
*اس پوسٹ کو صدقہ جاریہ کی نیت سے اپنے دوست احباب اور مختلف گروپس میں ضرور شیئر کیجئے*

*ممکن ہے آپکا ایک شیئر کینسر کے کسی مریض کی زندگی بچا سکے*.

15/12/2023

ملک بھر میں عام انتخابات کا عمل روک دیا گیا

لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے بعد ریٹرننگ افسران کی ٹریننگ روک دی، الیکشن کمیشن

الیکشن کمیشن کی طرف سے ریٹرننگ افسران کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن معطل ہونے کے بعد ٹریننگ روک دی گئی، الیکشن کمیشن

ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز اور ریٹرننگ آفیسرز کی جاری ٹریننگ کو روک دیا ہے، ترجمان الیکشن کمیشن... A Copied Msg

15/12/2023

*اسرائیل سوگوار*

منگل کو شجاعیہ میں صرف ایک حملے کے دوران بریگیڈئر اور چار افسران سمیت 10 فوجیوں کی ہلاکت نے اسرائیل کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ انکے یہاں عید ہنوکا کا موقع ہے اور خوشی کے ان لمحات میں وزیراعظم کی سالی کے داماد اور فوج کے سابق سربراہ کے صاحبزادے کی تدفین ہورہی ہے۔

معاملہ صرف 10 فوجیوں کے مارے جانے کا نہیں بلکہ اسرائیلیوں کے الفاظ میں جس دیدہ دلیری سے مستضعین نے انھیں تاک تاک کر نشانہ بنایا ہے اس پر انھیں سخت حیرت ہے۔ حملے کے بعد بھاگنے کے بجائے وہ جوان وہیں رہے اور زخمی اور لاشیں اٹھانے والے ہیلی کاپٹر پر حملہ کرکے پائلٹ کو پھڑکادیا۔

اسرائیلی کے کچھ ضعیف العقیدہ سپاہی کہہ رہے ہیں کہ ان پر حملہ 'بھوتوں' نے کیا کہ زیادہ تر فوجیوں کے کاسہ سر پاش پاش ہیں جس سے لگتا ہے کہ انھیں بہت قریب سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ مستضعفین مقامی تیار کردیا الغول رائفل استعمال کررہے ہیں جسکی پیداواری لاگت 50 ڈالر سے بھی کم ہے

12/12/2023

جنرل الیکشن 2024کے لئے نیشنل اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے لئے ریٹرننگ افسران اور اسسٹنٹ ریٹرننگ آفسران تعینات کر دئیے گئے۔
نارووال میں نیشنل اسمبلی کے دو اور پی۔پی کے 5 حلقوں کے لئے 7آرو اور14اے۔آر۔او تعینات کردئیے گئے۔ 75-Naنارووال ون میں
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل حافظ عرفان حمید
آر۔او،(ڈپٹی۔ڈی۔او)
اللہ رکھا راشداور ریحان سلیم (سی۔او ایم۔سی ظفروال) اے۔آر او تعینات۔این۔اے76نارووال ٹو میں (ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو)محمد عظیم شوکت آر۔او،چودھری محمد اقبال(ڈی۔ای۔او ایلیمنٹری )اور(اے۔ای۔او) عبدالصبور اے۔آر۔اور تعینات۔پی۔پی54 نارووال ون میں(اے۔سی ظفروال) محمد فاروق اعظم آر۔او،(ڈپٹی۔ڈی۔او) زاہد پرویز اور (اے۔ای۔او )حافظ شہزاد اے۔آر۔او تعینات۔پی۔پی55نارووال ٹو میں (اے۔سی۔)شکرگڑھ خضر ظہور گورائیہ آر۔او،محمد نصیر۔(سی۔او۔ایم۔سی۔)شکرگڑھ اور عبدالقدیر (اے۔ای۔او) اے۔آر۔او تعینات.پی۔پی56نارووال تھری میں(سی۔او۔ایم۔سی۔نارووال)چودھری سردار علی آر۔او،عاصم ریاض واہلہ(ڈی۔او۔سول۔ڈیفینس)اور چودھری احسان الحق(ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر)اے۔آر۔او تعینات۔پی۔پی 57نارووال4میں (اے۔سی)نارووال رانا ظفر اللہ آر۔او،(ڈپٹی۔ڈی۔او) شاھد فیاض،(اے۔ای۔او)عامرذولفقار اے۔آر۔او تعینات۔پی۔پی58نارووال5میں( اے۔سی۔ایچ۔آر) جمیل احمد آر۔او،(اے۔ای۔او)قدیر احمد اور(اے۔ڈی۔ایڈمن) عبدالواحد تتلہ اے۔آر۔او تعینات۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا۔

https://www.jasarat.com/sunday/2023/12/10/291317/غزہ اور حماس سے متعلق سوشل میڈیا پروپیگنڈا10 دسمبر2023- سلمان علی -- 60...
11/12/2023

https://www.jasarat.com/sunday/2023/12/10/291317/
غزہ اور حماس سے متعلق سوشل میڈیا پروپیگنڈا
10 دسمبر2023- سلمان علی -
-
60 دن کے بڑے سبق:
سوشل میڈیا پر ’ابوعبیدہ‘ ہفتے بھر سے مستقل ٹرینڈ لسٹ میں موجود رہا ہے۔ وجہ اس کی یہ بھی ہے کہ ناجائز اسرائیل نے دوبارہ حملے شروع کردیے اور تباہی کی نئی تاریخ رقم کردی۔ ناجائزاسرائیل کی صاف اور واضح شکست پر کسی کو کوئی شک نہیں، مگر میں حیرت زدہ ہوں کہ یہ بولنے کی ہمت کسی میں نہیں ہورہی۔ 60 دنوں میں اسرائیل نہ حماس کو ختم کرسکا اور نہ ہی اپنا ایک مغوی ڈھونڈ سکا۔ وہ یہی دو دعوے لے کر جنگ میں کودا تھا، مگر اسے کوئی نتیجہ نہیں ملا۔ اس کی ساری آرٹی فیشل انٹیلی جنس، سارے سیٹلائٹ، ساری ٹیکنالوجی، سارے کیمرے فیل ہوگئے اور وہ جھوٹی خبروں سے آگے نہ جا سکے۔ یہ شکست نہیں تو اور کیا کہلائے گی؟ اللہ کی اس سے بڑی مدد اور کیا کوئی دیکھنا چاہے گا!

اسرائیل حماس جنگ کا یہ 60دن کا دورانیہ عرب اسرائیل اور ماضی کی تمام جنگوں پر طوالت لے چکا ہے۔ 1973ء میں اسرائیل کے ساتھ آخری جنگ صرف 19 دن چلی، اس سے پہلے 1967ء میں ہونے والی جنگ صرف 7 دن، اور اس سے پہلے 1956ء والی جنگ صرف 9دن تک چلی۔ یہ ساری عرب اسرائیل جنگیں کہلاتی ہیں، یعنی ان میں 5 عرب ممالک اسرائیل سے لڑے۔ اہم بات یہ ہے کہ اِن سب جنگوں میں عرب ممالک کے پورے اتحاد کو ہی شکست ہوئی۔ اصل میں یہ سارے ممالک اسرائیل سے مقابلے پر ہونے والی ترقی کی تباہی برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ مگر یہ معاملہ ایک مقامی تنظیم کے دُنیا کے سب سے طاقتور ممالک سے لڑنے کا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی کیس ہے جیسے افغانستان میں ایک اکیلی تنظیم طالبان، جس سے سب ہاتھ اٹھا چکے تھے اور وہ حماس سے بھی زیادہ اکیلے ہوچکے تھے، لیکن اُنہوں نے تن تنہا امریکا اور اُس کے ساتھ 44 ملکوں کی فوج کا مقابلہ کیا اور ہماری آنکھوں کے سامنے ہی شکست دی۔ اس لیے پہلا سبق بہت واضح ہے کہ اہلِ حق کے لیے تعداد کبھی مسئلہ نہیں رہی، اہلِ حق کے پاس علم اور ٹیکنالوجی کی کمی کبھی مسئلہ نہیں رہی، اہلِ حق کے لیے دنیا بھر کا ساتھ نہ ہونا کبھی مسئلہ نہیں رہا۔ میدان میں جانا ہی واحد کام ہے، پھر مدد جس کی ذمہ داری ہے وہ دے دیتا ہے۔

دوسرا سبق:
اِس لیے ’نادان لوگ‘ تو اللہ کی کسی مدد کو سمجھ ہی نہیں سکتے، کیونکہ یہ تو اللہ کو ہی نہیں سمجھتے۔ اِن لوگوں کو نہ اہلِ غزہ اور اہلِ فلسطین کا صبر نظر آتا ہے، نہ یہ صبر و عزیمت کی اس کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بے شمار وڈیوز آ پ نے دیکھی ہوں گی، جن میں مسلمان اپنے پیاروں کی لاش کے سرہانے بیٹھ کر تلاوت کر رہے ہوں گے، کوئی تباہ شدہ گھر کے ملبے پر بیٹھا تلاوت کر رہا ہوگا۔ وہ جو عربی میں دعائیں اور اشعار پڑھتے ہیں، صحافی پوچھتے ہیں جب اس تباہی کے بارے میں، تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے، ہمیں اللہ پر یقین ہے، وہی ہماری مدد کرے گا۔ کبھی ان الفاظ کے معانی دیکھیں تو یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ وہ کون سی طاقت ہے جو اِن لوگوں کو ایک انچ بھی نہیں جھکا پارہی، رائی برابر بھی کمزور نہیں کر پارہی۔ وہ ڈٹ کر اسرائیل کے ہر ظلم کا سامنا کررہے ہیں اور حماس کے ساتھ کھڑے ہیں، جس کے خلاف عالمی پروپیگنڈا جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ نظم انتہائی مقبول رہی، جو پہلے ڈاکٹروں کی زبانی پڑھنے پر وائرل ہوئی، اس کے بعد پھر مسلمان صحافیوں نے غزہ میں عین بمباری کے ماحول میں بیٹھ کر یہ عزم دہرایا، جس کی وڈیو ایمانی جذبات بڑھا گئی۔ اس عربی نظم کے ترجمے کے الفاظ آپ کے ایمانی جذبات کو بڑھانے کے لیے پیش ہیں:

’’ہم یہاں پر ہی رہیں گے۔ ہم یہاں پر ہی رہیں گے۔ اورتمام تکالیف ختم ہوجائیں گی۔ ہم یہاں زندہ رہیں گے۔ ہم یہاں زندہ رہیں گے۔ تاکہ آوازیں مزید اچھی ہوجائیں۔ اے میرے وطن، اے میرے خوبصورت وطن! میں حاضر ہوں۔ دشمن کی چال اور انتقام کے باوجود… ہم غالب رہنے کی کوشش کریں گے۔ ہم ابھرتے مستقبل کو ضرور دیکھیں گے… کامیابی اور بلندی کی طرف بڑھتے ہوئے۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں جو بیماری کے باوجود جدوجہد کررہے ہیں۔ آگے بڑھیں اپنے واضح مقصد کی طرف۔‘‘

اِس لیے یہ دوسرا سبق ہے کہ اہلِ حق، حق کے راستے کی ہر آزمائش کو سہتے ہیں، استقامت دکھاتے ہیں، ’’صبر‘‘کے ساتھ ’’ثم استقامو‘‘ کے بدلے بھی اللہ نے ’’فرشتوں کی مدد‘‘ کا وعدہ کیا ہے۔

تیسرا سبق:
دوسری طرف حال یہ ہے کہ آج ہی سوشل میڈیا پر یہ وڈیو اور خبریں دیکھنے کو ملیں (بحوالہ ترکی اخبار یانی شفک) کہ 30 آسٹریلوی خواتین نے صرف غزہ کی صورتِ حال میں مسلمانوں کا عزم و حوصلہ، استقامت و ایمان دیکھ کر اسلام میں دلچسپی لی اور مطالعے کے بعد اسلام قبول کرلیا۔ قبولِ اسلام کی یہ تقریب میڈو ہائٹس (میلبورن) میں منعقد ہوئی۔ یہی نہیں، کئی امریکی ٹک ٹاکرز نے فلسطینی مسلمانوں کی وڈیوز سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا (بحوالہ الجزیرہ۔ العربیہ)۔ برطانوی اخبار دی گارجین کے مطابق TikTok پر نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ایک ایسے مذہب کو سمجھنے کے لیے خود کو قرآن میں غرق کررہی ہے جسے اکثر مغربی میڈیا نے غیر منصفانہ طور پر پیش کیا ہے۔ ہیش ٹیگ ’’قرآن بک کلب‘‘ کے تحت وڈیوز نے 1.9 ملین کمنٹس حاصل کیے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین اپنے فہم کے مطابق فخر کے ساتھ اپنے نئے حاصل کردہ قرآن کی نمائش کررہے ہیں اور اس کی آیات کے ساتھ اپنے ابتدائی تجربات بھی شیئر کررہے ہیں۔ غزہ کے مسلمانوں کی صورت حال دیکھ کر قرآن مجید اور اسلام میں یہ دلچسپی مرد، خواتین سب میں یکساں محسوس ہورہی ہے۔ Yale کی ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر زرینہ گریوال کا کہنا ہے کہ لوگ مخصوص جغرافیائی سیاسی واقعات کو سمجھنے کے لیے قرآن کی تلاش نہیں کررہے ہیں بلکہ مسلمان فلسطینیوں کی طرف سے ظاہر کی گئی ایمانی استقامت، اخلاقی طاقت اور کردار کو سمجھنے کے لیے تلاش کررہے ہیں۔ اب یہ سارے ٹک ٹاکرز ہی سب سے زیادہ اسکرین سے جڑے ہوتے ہیں، ان کے پاس اس سب مواد کی بمبارٹمنٹ ہوتی ہے تو وہ اس کو دیکھ دیکھ کر یا تو سنگ دل ہوں گے یا پھر دل نرم ہوں گے اور وہ حقیقت کی تلاش چاہیں گے جو اُنہیں دینِ حق تک لے جاتی ہے۔ اصل میں مغرب کا انسان اندر سے اتنا کھوکھلا ہوچکا ہے کہ وہ ایسی کسی حقیقی کیفیت کو نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ سمجھ سکتا ہے۔ اس کے نزدیک ایسی اخلاقی صفت جو انسان میں ایسی قوت پیدا کردے کہ وہ اپنے پیاروں کی لاشوں کے بعد بھی سینہ سپر ہوکر کھڑا رہے، یہ کوئی انہونی سی بات ہے۔ اس لیے وہ ان کو اندر سے متوجہ کررہی ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟

پس 60 روز کی جنگ میں یہ بات تیسرے سبق کی صورت عیاں ہے کہ پوری دنیا جو اپنے خالق و مالک کو بھول کر عیش و عشرت، نفس پرستی اور رنگینی میں ڈوبی ہوئی تھی، اُن سب کو اللہ رب العالمین نے اپنی حقانیت، اپنی خلّاقیت، اپنی شانِ ملکیت، اپنی الوہیت، اپنی موجودگی کی یاد دہانی کرائی ہے۔

چوتھا سبق:
اہلِ حق کے ساتھ جب آپ کھڑے ہوں گے تو اہلِ باطل اپنے بیانیوں کے ساتھ صاف نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔ سوشل میڈیا پر ایسے بیانیوں کو فروغ دینے والوں کو دیکھ کر آپ بخوبی سب کو پہچان سکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ آپ کا اپنا ’’ایمانی کھونٹا‘‘مضبوط ہو۔ اگر آپ خود ’اہلِ باطل‘ کے نظریات سے مرعوب ہوں گے تو اُن کے ہی کیمپ میں چلے جائیںگے۔

اب ذیل میں ہم سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے کچھ بڑے بیانیوں کا پوسٹ مارٹم کرنے جارہے ہیں، تاکہ آپ سوشل میڈیا پر اور ویسے بھی دونوں گروہوں کو پہچان سکیں، فرق کر سکیںکہ کون اہلِ باطل ہیں؟ اور کون اہلِ حق ہیں؟ یہ ہے وہ چوتھا سبق جو اس 60 دن کی جنگ میں حق و باطل کی تفریق کرنے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اس کو میں اگلی سطور میں ’دجل‘کے عنوان سے لکھوں گا۔

دجل1:’’اسرائیل کو ایسی کوئی شکست نہیں ہوئی۔ یہ سب تو حماس نے اسرائیل کے کہنے پر کیا ہے، تبھی تو وہ جنگ کو لمبا کررہی ہے، اور ابھی تک حماس کے نہ کمانڈر پکڑے، نہ سرنگ، اور نہ قیدی چھڑائے۔ اس کا مقصد اسرائیل کا غزہ پر قبضہ کرنا ہے، جو وہ حماس کے ساتھ مل کر کررہا ہے۔ یہ سب اندر سے ملے ہوئے ہیں۔ بس افسوس یہ ہے کہ بے گناہ معصوم بچے، خواتین و انسانیت ماری جا رہی ہے۔‘‘ اس پوری جنگ کی یہ مضحکہ خیز تعبیرسن کر قہقہہ لگانے کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

دجل 2: ’’غزہ کی تباہی اور معصوم جانوں کی ذمہ دار حماس ہے۔ حماس اگر حملہ نہ کرتی تو سب اچھا تھا، امن تھا، سکون تھا۔‘‘

دجل 3: ’’اسرائیل کو بھی تو دفاع کا حق ہے، حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس نے غزہ کے لوگوں کو بزور طاقت اپنے جبر میں رکھا ہوا ہے، تاکہ دنیا بھر سے فنڈنگ لے کر اس جنگ کو زندہ رکھ سکے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کشمیر میں ہماری فوج بجٹ کی خاطر ایشو کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔‘‘

دجل 4: ’’فوری جنگ بندی ہونی چاہیے۔‘‘

دجل 5: معصوموں، بے گناہ انسانوں کو نہیں مارنا چاہیے۔‘‘

دجل 6: ’’یہ سب زیر زمین تیل و معدنیات پر قبضے کے لیے ہو رہا ہے۔‘‘

دجل 7: ’’غزہ کا کنٹرول فلسطینی اتھارٹی کو ملنا چاہیے۔‘‘

دجل 8: ’’اگر 1948ء میں ہی اسرائیل کو تسلیم کرلیا جاتا تو یہ خونریزی نہ ہوتی۔ دُنیا امن سے رہتی۔‘‘

دجل9: ’’دو ریاستی فارمولا ہی مسئلے کا حل ہے۔ یعنی ایک اسرائیل، ایک فلسطین۔‘‘

دجل 10: ’’انسانیت کی خاطر ہمیں نکلنا چاہیے، عالمی برادری کو کچھ کرنا چاہیے۔‘‘

یہ 10 دجل اتنے معروف ہیں بیانیے کی اس جنگ میں کہ آپ کو یہ پڑھ کر ضرور یقین ہوگیا ہوگا کہ میں نے کیوں اِن بیانیوں کو ’دجل‘ کہا ہے۔

اب چند اہم بنیادی حقائق سمجھ لیں تاکہ اِس سارے دجل سے محفوظ رہ سکیں۔

1: اِس میں شک نہیں ہونا چاہیے کہ سرزمینِ فلسطین پر یہودی قابضین کی صورت میں ہیں، جنہیں عالمی میڈیا میں بھی باقاعدہ ’سیٹلرز‘ لکھا، پڑھا اور پکارا جاتا ہے۔

2: امریکہ اور اسرائیل نے اِس پوری جنگ کو مذہبی قرار دیا ہے، وہاں کے مذہبی رہنما مستقل اپنے فوجیوں کو ’’مذہبی تقاضا‘‘کہہ کر مسلمان بچوں، عورتوں، مردوں سب کے قتل پر اُبھار رہے ہیں۔

3:ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کی زمین پر کوئی زبردستی قابض ہوجائے اور اس کو الگ ملک بنالے۔اسلام تو آگے کی بات ہے خود اقوام متحدہ وغیرہ کے قوانین میں بھی ایسا ممکن نہیں۔

4: اب جو کوئی ایسا کرے گا اُس کے خلاف اپنی زمین واپس لینے کے لیے ہر ممکن طاقت، سفارت، سیاست، معیشت یعنی ہر ذریعہ، ہر طریقہ استعمال کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔

5: حماس سے قبل یہ مزاحمت الفتح کرتی رہی ہے، جو بعد ازاں اپنے سوشلسٹ نظریات کی وجہ سے امریکی و یہودی آلہ کار کی شکل اختیار کرگئی۔

6: حماس 1987ء میں اپنے قیام سے ہی دینی نظریات کی بنیاد پر مزاحمت کررہی ہے، دینی نظریات نے ہی اس کو زندہ اور کھڑا رکھا ہوا ہے۔

7: جنگ بندی کا مطلب تو دونوں کا جنگ روکنا ہوتا ہے۔ جبکہ ہم یکسو ہیں کہ حملہ آور صرف اسرائیل ہے، اسے رکنا چاہیے۔ حماس تو اصل میں اپنی زمین واپس چاہتی ہے، اس کے لیے وہ جدوجہد کررہی ہے، جس کا اُسے حق ہے۔

8: 1948ء میں اسرائیل کا رقبہ چاہے ایک انچ ہی کیوں نہ ہوتا، اس کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ تھا کہ کوئی بھی کسی کی زمین پر جا کر اپنا ملک بنا لے۔ یہ متضاد نظریات رکھنے والوں، ازلی دشمنوں کے درمیان تو ممکن نہیں۔ خلافت کے خاتمے پر عربوں کے درمیان تو الگ ملک بن گئے اس لیے کہ سب ایک ہی مذہب و عقیدے پر تھے اور قبضے کا کوئی تنازع نہیں تھا۔ لیکن یہود کا معاملہ اس سے بالکل الگ تھا۔ اسرائیل کو کسی صورت ماننے کا مطلب پاکستان کے لیے بھی کشمیر سے ہاتھ دھولینا ہے۔

9:انسانیت، فی زمانہ ’ہیومینٹی‘کے معنی میں ایک غیر اسلامی اور باطل تصور ہے۔ اِس تصور کی بنیاد یوں بھی کھوکھلی ہوجاتی ہے کہ اگر انسانیت کے نام پر ہی سب کو نکلنا ہے تو کیا وہ یہودی انسان نہیں جنہیں حماس نے مارا ہے؟ اس لیے اپنی نہاد میں یہ ایک باطل تصور ہے۔

10: اِسی طرح جو لوگ عام شہریوں کو نہ مارنے کی بات کرتے ہیں تو وہ بین السطور یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ صرف اُس کو مارو جو آپ کو مار رہا ہے، یعنی حماس کو مارو۔

11: حماس کی مقبولیت کا حال یہ ہے کہ وہ 2007ء میں وہاں صرف الیکشن ہی نہیں جیتی تھی بلکہ 2008ء- 2012ء- 2014ء- 2021ء- 2023ء میں مستقل بمباریوں کے باوجود آج بھی غزہ کے عوام کے دلوں میں بستی ہے۔ باوجود منفی پروپیگنڈے کے، حماس سے متعلق تمام وڈیوز، تمام سروے یہی بتا رہے ہیں کہ عوام حماس کے ساتھ ہی کھڑے ہیں، جس کو یہ دہشت گرد اور جبر ی حکومت کہتے ہیں۔

غزہ اور حماس سے متعلق سوشل میڈیا پروپیگنڈا - سلمان علی - December 10, 2023 129 فيس بک پر شیئر کیجئیے ٹویٹر پر ٹویٹ کريں tweet 60 دن کے بڑے سبق: سوشل میڈیا پر ’ابوعبیدہ‘ ہفتے بھر سے م...

‏نادرا کی ایس ایم ایس سروسز کے بارے میں انٹرنیٹ پر گردش کرنے والی مختلف وڈیوز کے ذریعے غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں جو...
08/12/2023

‏نادرا کی ایس ایم ایس سروسز کے بارے میں انٹرنیٹ پر گردش کرنے والی مختلف وڈیوز کے ذریعے غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں جو ایک غیراخلاقی فعل ہے اور غیرذمہ دارانہ صحافت کی عکاسی کرتا ہے۔

نادرا کی تین ایس ایم ایس سروسز اس وقت کام کر رہی ہیں جن کے ذریعے شہریوں کو درج ذیل سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں:

8009یہ موبائل ٹیگنگ کی سروس ہے۔ شہری اپنے موبائل فون نمبر کا اندراج اپنے شناختی کارڈ پر کرانے کے لئے متعلقہ موبائل نمبر سے اپنا شناختی کارڈ نمبر 8009 پر ایس ایم ایس کر سکتے ہیں

1166اس سروس کے ذریعے شہری اپنے ویکسین ریکارڈ کی تصدیق کر سکتے ہیں

8300الیکشن کمیشن کے اشتراک سے کام کرنے والی نادرا کی اس سروس کی بدولت شہری اپنا شناختی کارڈ نمبر 8300 پر بھیج کر اپنے ووٹ اندراج کی تفصیلات حاصل کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ نادرا کی کوئی ایس ایم ایس سروس کام نہیں کر رہی۔ شہریوں سے التماس ہے کہ اس طرح کی غلط خبروں پر یقین نہ کریں اور نادرا خدمات اور سہولیات کے بارے میں کسی بھی معلومات کے لئے نادرا ہیلپ لائن پر رابطہ کریں۔

نادرا ہیلپ لائن:
051-111786100

29/11/2023

فلسطین!! چراغ ِ سحر جل اُٹھا بجھتے بجھتے

عارف بہار

اسرائیل نے اپنے دفاع کے لیے آئرن ڈوم کا دفاعی ہالہ ہی نہیں بُنا تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ مضبوط اور موثر ہالہ اپنے ناقابل تسخیر ہونے اور اپنے قابل قبول اور طاقتور ہونے کا ہونے کا بُنا تھا اس کا تعلق اپنی نفسیاتی برتری اور مدمقابل کی نفسیاتی شکست سے تھا اور اس ہالے کے اوپر تقدس کی ملمع کاری بھی کی گئی تھی۔ ہمسایہ عرب ریاستوں کو دھونس، ترغیب اور تحریص کے ذریعے ان دونوں ہالوں کے احترام اور اس کے آگے سجدہ ریز ہونے پر مجبورکر دیا گیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور تھے کہ اسرائیل ایک حقیقت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی طاقت بھی ہے امریکا سمیت دنیا کی بااثر اور بالادست طاقتیں اس کی سرپرست ہیں اور اسے مشرق وسطیٰ کا تھانیدار بنانے کا فیصلہ کر چکی ہیں اس لیے وقت کی اس ہوا کے آگے اختلاف کا چراغ جلانے کی حکمت عملی حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ اس نفسیاتی تاثر کے زیر اثر گزشتہ چند برسوں سے کئی عرب ریاستیں اسرائیل کے آگے ڈھیر ہوتی چلی گئیں اور کئی ایک دست بستہ اس قطار میں کھڑی ہو چکی تھی۔ چند گنے چنے ممالک ہی ایسے باقی رہ گئے تھے جو اسرائیل کا وجود تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ حد تو یہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی کا میدان تیزی سے ہموار ہو رہا تھا اور اس کا مطلب یہ تھا کہ پیچھے پیچھے مسلمان ملکوں کا ایک بڑا ریلا بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر لے گا۔ المیہ یہ تھا کہ اس کہانی میں فلسطینی نامی کسی مخلوق اور فلسطین نامی کسی مسئلے کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا جیسا کہ ساٹھ ستر برس پہلے کی ایک زندہ وجاوید حقیقت ریاست فلسطین کا دنیا میں کوئی وجود ہی نہ رہا ہو اور اس نام کی کوئی قوم دنیا کے نقشے پر موجود ہی نہ رہی ہو۔

ساٹھ ستر برس پرانی تصویر میں فلسطین ایک جدید متمدن اور مہذب ریاست اور باشندوں کی سرزمین نظر آتی ہے جس نے اپنے اندر کثیر القومی اور کثیر المذہبی ثقافت کو پوری طرح سمو رکھا تھا۔ جہاں یہودی، عیسائی اور مسلمان ایک دوسرے کے شانہ بشانہ فلسطین کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کررہے تھے۔ فلسطین کا نام تاریخ اور زمین سے کھرچا جا رہا تھا اور اس کی راکھ میں اگر کچھ باقی رہتا تو اسے غزہ، مغربی کنارہ اور راملہ کہا جارہا تھا۔ باقی جو کچھ بچ رہا تھا وہ اوّل تا آخر اسرائیل تھا گویا یہ ساٹھ ستر برس اُبھرنے والا وجود ہی اصل حقیقت قرار پا رہا تھا۔ دنیا اس منظر نامے کو قبول کر رہی تھی کیونکہ مدعی سست گواہ چست کا معاملہ کب تک چل سکتا ہے جب عرب ریاستیں اور حکمران اسرائیل کی راہوں میں بچھے جا رہے تھے تو باقی دنیا کو فلسطینیوں کی حمایت میں سرگرمی دکھانے کی کیا ضرورت تھی؟۔ یوں فلسطین دنیا کے نقشے سے تیزی سے تحلیل ہو رہا تھا اور اسرائیل نگاہوں کو خیرہ کردینے والی حقیقت کے طور پر اُبھر رہا تھا اور اس اُبھار میں حقیقت سے زیادہ تاثر کا دخل تھا۔

فلسطین کے ہمسایوں کو یہ باور کرادیا گیا تھا کہ اب اسرائیل ہی حقیقت ہے جبکہ فلسطین ایک افسانہ ہے۔ فلسطینیوں کے پاس بچے کھچے علاقے بھی ان کے پیروں تلے سے سرکائے جا رہے تھے۔ ایسے میں فلسطینیوں کے پاس دو ہی راستے ہی کہ وہ اس طوفان کو اپنے سروں کے اوپر سے گزرجانے دیں اور خود کا حالات کے دھارے اور رحم وکرم پر چھوڑ دیں یا پھر موت میں زندگی کا سامان تلاش کریں۔ فلسطینیوں کا فلسفہ ٔ زندگی یہاں ان کی راہنمائی کو آگیا اور انہوں نے اس بدترین صورت حال میں موت میں زندگی کی تلاش کرنے کا راستہ تلاش کرلیا۔ اس سے پہلے کہ اسرائیل انہیں ماردیتا انہوں نے اپنی شرط پر موت کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا اور تاریخ میں پہلی بار اسرائیل کی حفاظت کا نظام ’’آئرن ڈوم‘‘ ہی توڑ پھوڑ کر نہیں رکھا بلکہ اسرائیل کے گرد تقدس اور ناقابل تسخیر ہونے کا مصنوعی دفاعی حصار بھی توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ اسرائیل نے موت خوف قید وبند اور دہشت کا سار انصاب صرف فلسطینی بستیوں کے لیے تیار کیا تھا پہلی بار فلسطینیوں نے یہ نصاب اسرائیل کی جغرافیائی حدود کے اندر بھی پڑھایا اور جنگ کا دائرہ اسرائیل کے اندر تک پھیلا دیا۔ اسرائیل کے فوجیوں کو یرغمال بنا کر انہیں یرغمال بنانے اور قید ہونے کا سبق پڑھایا۔ اسرائیل کی آبادیوں میں سائرن بجا کر اور ایمبولینسوں کے ہوٹر بجوا کر اور اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کروا کر یہ بتایا کہ یہ سب کچھ قدرت نے صرف فلسطینیوں کا مقدر نہیں کیا بلکہ اسرائیل بھی ان حالات کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس طرح جو عرب اور ان کے زیر اثر مسلمان ملک اپنی زراعت، تجارت دفاعی ٹیکنالوجی، سیاحت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے سراب کے پیچھے یروشلم کی طرف سرپٹ بھاگ رہے ٹھٹک کر رہ گئے۔ ان کے مشرق وسطیٰ میں آگ اور دھویں کے بادلوں کو دیکھ کر رک سے گئے اور یوں دنیا کا منظر بدل گیا تاثر کا فسوں ٹوٹ گیا اور حقیقت ایک بار پھر عیاں ہو کر رہ گئی۔

فلسطین کی القسام بریگیڈ کے مطابق اب تک اسرائیل کی تین سو پینتیس گاڑیوں اور ٹینکوں کو نشانہ تباہ کیا گیا ہے۔ اسرائیل کے فوجی جس طرح روتے دھوتے نظر آئے اس نے ناقابل تسخیر ہونے کا تاثر اسی طرح تحلیل کر دیا جس طرح اسرائیلی فلسطین کو تحلیل کرنے پر مُصر تھے۔ اسرائیل کے خلاف حماس کے ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ آپریشن میں فلسطینیوں نے کیا کھویا کیا پایا؟ اس پر حماس کے بیرونی شعبہ کے سربراہ خالد مشعل نے انٹرنیشنل اسلامک فورم فار پارلیمنٹیرینز کے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے روشنی ڈالی ہے۔ خالد مشعل کا کہنا ہے کہ ’’سات اکتوبر کو اسرائیل کے خلاف طوفان الاقصیٰ معرکے میں القدس کو اسرائیل میں ضم کرنے، غرب اُردن میں یہودی آبادکاری اور مسئلہ فلسطین کو ختم کرنے کی سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ دشمن کی جیلوں میں پانچ ہزار سے زیادہ قیدیوں کی مشکلات، سترہ سال کے غزہ کے محاصرے کے ذریعے غزہ کے لوگوں کو سسک سسک کر مرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ فلسطینی قوم کے نصب العین کو ختم کرنے کی سازش کی جا رہی تھی اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھا کر فلسطینی تحریک آزادی کو دبانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی‘‘۔ اس کے بعد خالد مشعل آپریشن طوفان الاقصیٰ کی کامیابی کا ذکر یوں کرتے ہیں ’’طوفان الاقصیٰ نے دشمن کو نفسیاتی فوجی اور انٹیلی جنس شکست دی۔ یہ شکست جلد مکمل ہوگی۔ اگر الجزائز، ویت نام اور افغانستان

غاصب طاقتوں کے آگے جھک جاتے تو وہ کبھی آزاد نہ ہوتے۔ مجاہدین اور کچھ راہنمائوں کی شہادتوں کے باوجود ہماری سرنگیں اور اسلحہ محفوظ ہے‘‘۔ یوں خالد مشعل کے خیالات سے یہ اندازہ ہورہا ہے کہ جس جنگ کا آغاز حماس نے طوفان الاقصیٰ کے ذریعے کیا تھا اسرائیل اس کا اختتام اپنی طاقت اور مصنوعی تاثر اور تصور کے ذریعے کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔

اسرائیل نے جس مغرب کے میڈیا کی حمایت سے اس جنگ کو اسرائیل اور حماس کی جنگ اور حماس کو ایک دہشت گرد ملیشیاء بنا کر پیش کیا تھا دنیا اس جنگ کو اب فلسطین اسرائیل جنگ کی سمجھنے لگی ہے اور برملا کہا جانے لگا ہے کہ فلسطینیوں کا مسئلہ حل کیے بنا مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کا خواب تعبیر نہیں پا سکتا۔ یمن کے حوثی اور حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کے ذریعے اس تاثر کو ختم کیا کہ یہ حماس اور اسرائیل کی جنگ ہے۔ حزب اللہ اور حوثیوں نے اسے کم از کم عرب اور علاقے کی جنگ بنانے کی صلاحیت کا اشارہ دیا۔ یہ جنگ طویل ہوتی ہے تو پھر مسلمان دنیا سے رضاکار بھی اس میں کود سکتے ہیں اور یوں جنگ کا دائرہ حماس اسرائیل سے بڑھ کر عرب بلکہ مسلمان اور اسرائیل جنگ تک وسیع ہو سکتا ہے۔ اب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی جاری اور اس جنگ بندی کا ہونا بھی یہ بتاتا ہے کہ اسرائیل برتر قانونی طاقت نہیں بلکہ وہ تنازعے کا فریق ہے اور اسے حماس یا کسی بھی فلسطینی گروپ کے ساتھ میز پرچار وناچار بیٹھنا پڑے گا۔ جنگ بندی کے نتیجے میں اسرائیلی یرغمالیوں کا گھروں کو لوٹنا اور اسرائیل کی قید سے رہا ہونے والے بچوں کا عالم جوانی میں آزاد فضائوں میں سانس لینا اور فلسطینیوں کا جشن منانا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل ایک خوں ریز جنگ اور آتش فشانی تنازعے کا ایک کردار ہے کوئی مافوق الفطرت اور دیومالائی طاقت نہیں۔ اسرائیل کے نفسیاتی تاثر کے فلک بوس مینار کا ٹوٹ کر گرجانا ایسا نقصان ہے جس کی تلافی اب مدتوں تک نہ ہو سکے گی۔ فلسطین کے عوام نے اس جنگ میں گھروں آبادیوں کی تباہی کے ساتھ ساتھ پندرہ ہزار افراد کی قربانی دی ہے جن میں چھے ہزار معصوم بچے ہیں جو اسرائیل کی بمباری سے بن کھلے مرجھا گئے

بحریہ ٹائون پشاور کے دفاتر بند کردیئے گئے اور ایجنٹ و ڈیلرز فرار ہو گئے ہیں۔ جبکہ لوگوں نے اپنی بھاری رقوم ڈوبنے کیخلاف ...
28/11/2023

بحریہ ٹائون پشاور کے دفاتر بند کردیئے گئے اور ایجنٹ و ڈیلرز فرار ہو گئے ہیں۔ جبکہ لوگوں نے اپنی بھاری رقوم ڈوبنے کیخلاف شکایات درج کرانا شروع کر دی ہیں۔

واضح رہے کہ پشاور اسلام آباد موٹر وے (ایم ون) پر پشاور و حیات آباد کو جوڑنے والے ناردرن بائی پاس پر ملک ریاض نے پشاور بحریہ ٹائون پراجیکٹ کیلئے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اربوں کی زمین لوگوں سے خریدی تھی۔ لیکن لوگوں کے پیسے اب تک نہیں ملے۔

پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم نے عوام کو اس منصوبے سے دور رہنے کی درخواست کی تھی۔ لیکن عوام اور خاص کر پراپرٹی ڈیلرز لالچ میں آگئے۔ اب انہیں شکایات ہیں کہ ملک ریاض کے ایجنٹوں نے انہیں لوٹ لیا۔ ذرائع کے مطابق اب تک کئی ایف آئی آرز درج کرائی جاچکی ہیں۔

سابق نگراں کابینہ نے بھی بحریہ ٹائون کیخلاف شکایات پر انکوائری کا حکم دیا تھا۔ لیکن بحریہ ٹائون نے ان احکامات کو غیر قانونی قرار دیا۔ تاہم اب بحریہ ٹائون نے اپنے دفاتر بند کرکے ملازمین کو فارغ کردیا ہے اور تمام دستاویزات اور کمپیوٹرز وغیرہ اسلام آباد منتقل کردیئے ہیں۔ اپنی زمین فروخت کرنے والے ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس نے جس ڈیلر کے ذریعے زمین فروخت کی تھی۔ وہ کچھ رقم تو ایڈوانس میں دے گیا ہے۔ لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ وہ ڈیلر دیگر ڈیلرز کے ساتھ دبئی فرار ہوگیا ہے اور لوگوں کے کروڑوں روپے ڈوب گئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق جہاں تک تھرڈ پارٹی کے ذریعے زمین خریدنے کی بات ہے تو سپریم کورٹ میں ٹیکس کے حوالے سے فیصلے کے بعد تھرڈ پارٹی کو ملوث کیا گیا۔ اس لئے جب بھی کوئی شخص پشاور بحریہ ٹائون کے دفاتر جاتا تو بتایا جاتا کہ وہ زمین خریدنے والے ایجنٹ سے رابطہ کریں۔

ذرائع کے مطابق چونکہ ملک ریاض کیخلاف پشاور سمیت ملک میں کئی مقدمات درج ہوچکے۔ جبکہ اطلاعات ہیں کہ بحریہ ٹائون کراچی کی قیمتیں پچاس فیصد گر گئی ہیں۔ ذرائع کے بقول بحریہ ٹائون پشاور کی فائلیں سب سے زیادہ کراچی میں فروخت ہوئیں۔ جہاں پختونوں نے پشاور میں سرمایہ کاری کی۔ ان کا خیال تھا کہ پشاور پراجیکٹ بھی کراچی پراجیکٹ کی طرح ہوگا۔ لیکن اب ان کی سرمایہ کاری ڈوب گئی۔

دوسرے نمبر پر اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہریوں نے سرمایہ کاری کیلئے پشاور بحریہ ٹائون کی فائلز خریدیں۔ جبکہ پشاور میں مقیم اعلیٰ بیوروکریٹس نے بھی کروڑوں کی فائلز خریدیں۔ اب پراجیکٹ کے متنازعہ ہونے اور بحریہ ٹائون کراچی کا مالی خسارہ بڑھنے کی وجہ سے پشاور پروجیکٹ مکمل کرنا ممکن نہیں۔ ماضی میں خیبرپختون کی پی ٹی آئی حکومت نے ملک ریاض کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کی تھیں۔ لیکن نگراں کابینہ کے آنے کے بعد ملک ریاض کیلئے مشکلات بڑھ گئیں۔

ذرائع کے بقول کے پی میں سیکورٹی صورتحال کے ساتھ ساتھ کراچی بحریہ ٹائون کے مسائل نے بھی پشاور پراجیکٹ کو ڈبویا۔ پھر یہ کہ جس زمین پر بحریہ ٹائون کا مجوزہ پروجیکٹ بننا تھا۔ اس کے حوالے سے تنازعات میں شدت آنے کا خطرہ ہے۔ جبکہ پی ڈی اے افسران کے خلاف بھی کارروائی کا امکان ہے۔ جنہوں نے ملک ریاض کی مدد کی تھی۔ ذرائع کے مطابق بحریہ ٹائون منصوبے کو بند کرنے کے بعد پشاور میں پراپرٹی کی قیمتوں میں کمی آنے کا امکان ہے۔

جبکہ جو لوگ اس منصوبے کی وجہ سے مقابلہ نہیں کر پارہے تھے۔ اب وہ کے پی میں سستی رہائشی سہولیات فراہم کرنے پر مجبور ہوں گے۔ جبکہ زرعی زمین بھی بچ جائے گی۔ کیونکہ بحریہ ٹائون کے قرب و جوار میں قیمتی زرعی زمینوں کو مختلف لوگوں نے خرید کر مستقبل میں بحریہ ٹائون پشاور کے قریب کالونیاں بنانے کا پروگرام بنایا تھا
منقول

Address


Opening Hours

Monday 09:00 - 16:00
Tuesday 09:00 - 16:00
Wednesday 09:00 - 16:00
Thursday 09:00 - 16:00
Friday 09:00 - 12:00
14:00 - 17:00

Telephone

+923007779010

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Pakistan News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Pakistan News:

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share