Shaffak Lens

Shaffak Lens We provide update news and article in Both English and Urdu to our readers.

زینٹی ایکسپریس کی پر اسراریتفضل حسین اعوان یہ 16 دسمبر 1970 کی شام ہے۔ سورج غروب ہونے میں صرف ایک گھنٹہ بچا ہے۔اس کے غرو...
18/02/2025

زینٹی ایکسپریس کی پر اسراریت
فضل حسین اعوان
یہ 16 دسمبر 1970 کی شام ہے۔ سورج غروب ہونے میں صرف ایک گھنٹہ بچا ہے۔اس کے غروب ہونے کے ساتھ ساتھ سردی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔سکول ٹیچر جمال انورٹرین پر لاہور جانے کے لیے گھر سے نکلتا ہے۔ ٹرین کے سٹیشن پر آنے سے 10 منٹ قبل وہ لائل پور ریلوے اسٹیشن پہنچ جاتا ہے۔اسٹیشن کے باہر لائل پور ریلوے اسٹیشن جلی الفاظ میں اس کا استقبال کرتے ہیں۔ٹکٹ لینے کے بعد مین گیٹ سے وہ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم میں داخل ہو جاتا ہے۔سامنے تین بوگیوں والی ٹرین اسے نظر آتی ہے۔پاکستان میں لمبی لمبی مسافر ٹرینیں چلتی ہیں۔تین ڈبوں والی ٹرین اس نے اس سے پہلے کبھی اسٹیشن پر یا کہیں بھی نہیں دیکھی تھی۔ٹرین کے سامنے کی بوگی پر کسی اور زبان میں جس کو انورجمال نہیں سمجھتا تھا جو لکھا تھا،وہ ٹرین کا نام ہو سکتا تھا۔اس نے غور سے دیکھا تو اسی عبارت کے نیچے تھوڑے سے چھوٹے الفاظ میں انگریزی میں زینٹی ایکسپریس روم لکھا تھا۔یہ ہسٹری کا ٹیچر تھا ،اس نے سن رکھا تھا کہ کئی سال قبل زینٹی ٹرین روم سے چلی، ایک سرنگ میں داخل ہو گئی اور اس کے بعد اس کا کبھی سراغ نہ مل سکا تا ہم یہ ضرور ہوتا رہا کہ کبھی اس ٹرین کو اس ملک میں کبھی اس ملک میں دیکھا گیا۔جس میں سے سوارمسافر سوائے ایک بار کے کبھی باہر نہیں آئے۔انور کی طبیعت میں مہم جوئی موجود تھی۔پاکستان کے طول و عرض میں یہ شکار کے لیے اور پہاڑوں کی سیر کے لیے کبھی اکیلا کبھی اپنے دوستوں کے ساتھ نکل جایا کرتا تھا۔اس ٹرین کو دیکھ کے پہلے تو یہ خوفزدہ سا ہوا کیونکہ اس ٹرین کی سٹوری ہی کچھ اس قسم کی تھی کہ بڑے بڑوں کا اس ٹرین کی کہانی پڑھ کر یا سن کر پتا پانی ہو جاتا تھا۔مگر کچھ مہم جو ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی جان کو خطروں میں ڈال ایڈونچرزم کو انجوائے کرتے ہیں۔ایسے کئی مہم جوو¿ں کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ وہ جان سے بھی چلے گئے تھے۔جن لوگوں کے اندر مہم جوئی کی خو ہوتی ہے وہ خطرات مول لینے سے نہیں کتراتے۔ جمال انور بھی ایسا ہی شخص تھا۔وہ سینٹر والی بوگی سے فرنٹ والی بوگی کی طرف گیا۔اس نے آہستہ سے دروازے کو ہاتھ لگایا تو دروازہ کھل گیا۔ یہ اس کے اندر داخل ہو گیا۔اتفاق سے عین اس موقع پر جب یہ ٹرین میں سوار ہو رہا تھا۔ ایک 24 سال کی لڑکی نے اسے دیکھا اور بغیر سوچے سمجھے اور کوئی انکوائری یا تصدیق کیے،سینٹر والی بوگی میں سوار ہو گئی۔بعد میں پتہ چلا کہ اس لڑکی کا نام صائمہ تھا۔ وہ اسی شہر کے نواحی گاو¿ں کی رہنے والی تھی۔ یہ گنگا رام ہاسپٹل لاہور کی نرس تھی اس نے لاہور جانے والی ٹرین میں سوار ہونا تھا۔وہ شاید اسی ٹرین کو لاہور والی ٹرین سمجھ کے اس میں سوار ہو گئی تھی۔
اںورکے جیسے ہی ٹرین کے اندر دونوں قدم جاتے ہیں۔ ٹرین چل پڑتی ہے۔صائمہ کی دو سال قبل شادی ہوئی تھی اس کا خاوند نوید اختربینک مینجر تھا۔یہ جوڑا لاہور میں رہائش پذیر تھا۔صائمہ اپنے والدین سے ایک رات کے لیے ملنے آئی تھی۔ وہ اس ٹرین پر سوار ہو گئی جو ٹرین کبھی اپنی منزل پر نہ پہنچ سکی۔طویل عرصے تک صائمہ کے گھر والوں نے اس کا انتظار کیا اور پھر صبر کر کے بیٹھ گئے۔
صائمہ کی تو کبھی واپسی نہ ہو سکی مگر جمال انور کے مطابق وہ بھی کبھی لاہور نہیں پہنچ سکا تھا۔
جمال انور ٹرین میں سوار ہوتا ہے تو سامنے ایک سیٹ خالی تھی۔ ٹرین میں موسم معتدل تھا نہ گرمی نہ سردی تھی۔سیٹ پر بیٹھنے کے لیے آگے بڑھتے ہوئے اس نے مسافروں کا جائزہ لیا تو سارے مسافر بالکل خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ان کے اندر کوئی حرکت نہیں تھی۔نہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بات کر رہے تھے نہ ہل جل رہے تھے لیکن سارے کے سارے زندہ تھے۔ان کے چہرے کسی بھی تاثر سے عاری تھے۔ ان میں عورتیں تھیں۔ ان میں نوجوان تھے اور ان میں بچے بھی تھے۔جمال انور کہتا ہے کہ دس منٹ گزرے ہوں گے کہ ان میں سے پچھلی سیٹوں سے ایک شخص اٹھا۔ اس نے میرا بازو پکڑا اور کچھ بڑبڑاتے ہوئے مجھے ٹرین سے اترنے کا اشارہ کیا۔ ٹرین اس وقت رک چکی تھی۔اس نے جو کچھ کہا تھا وہ میری سمجھ میں نہیں آسکا شاید وہ وہی زبان بول رہا ہو جس میں ٹرین کے باہر زینٹی ایکسپریس روم لکھا ہوا تھا۔
جمال کے بقول اندر کا ماحول اس قدر پر اسرار تھا کہ مجھے خوف محسوس ہونے لگا۔میری ایڈونچرزم کی خواہش کہیں دفن ہو چکی تھی۔میں ان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا تھا کہ بوگی کے اندر تمام کے تمام مریض ہیں، روبوٹ ہیں یا جنازے ہیں۔میں نے دروازے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو وہ میرا ہاتھ لگنے سے قبل ہی کھل چکا تھا۔ٹرین سے نیچے اترا تو یہ پلیٹ فارم کے درمیان میں نہیں بلکہ اس کے شروع میں ہی رکی ہوئی تھی۔ٹرین جتنی دیر بھی چلتی رہی اور اب جب کہ مجھے اتارنے کے بعد پھر یہ روانہ ہو چکی تھی کسی ایک موقع پر بھی اس کے انجن کی کی آواز اور ٹرین کی چھک چھک سنائی نہیں دی۔جس نے میرے خوف میں مزید اضافہ کر دیا۔
مجھے پتہ نہیں تھاکہ میں کہاں ہوں ؟ کس شہر میں ہوں۔ کس اسٹیشن پر ہوں۔مجھے تو لاہورجانا تھا۔ دفعتاً میری نظر پلیٹ فارم کے شروع میں لگے ہوئے بورڈ پر پڑی تو فیصل آباد لکھا تھا۔گویا میں فیصل آباد ریلوے اسٹیشن پر تھا۔میں نے اس شہر کا نام کبھی نہیں سنا تھا۔میں شش و پنج میں پڑ گیا کہ یہ کون سا اسٹیشن ہے جو ٹرین کے 10 منٹ چلنے کے بعد آ گیا۔ایسا اسٹیشن کسی نواحی علاقے کا ہی ہو سکتا تھا مگر یہ کوئی بڑا ریلوے اسٹیشن اور اس کا پلیٹ فارم بھی لمبا چوڑا تھا۔چند قدم کے فاصلے پر فروٹ ،ٹی سٹال اور دیگر اشیا کے ٹھیلے موجود تھے۔ ان میں سے سب سے قریب والے کے پاس جا کر میں نے پوچھا کہ لاہور یا لائل پور جانے والی ٹرین کب آئے گی۔ اس شخص نے حیران ہو کر مجھے پاو¿ں سے سر تک دیکھا پھر سر سے پاو¿ں تک دیکھا یہ پکا جگت باز لائل پوری تھا۔ اس نے کہا نواں آیا ایں سونیا۔یہ لائل پور ہی ہے لیکن اس کا نام کئی سال سے شاہ فیصل کے نام پر فیصل آباد رکھ دیا گیا ہے۔
جمال کیلئے لائل پور سے فیصل آباد کا سفر 54 سال پر محیط تھا۔وہ 16 اکتوبر 2024 کو فیصل آباد کے ریلوے اسٹیشن پر اترا تھا۔وہ کیسے گھر گیا اس کے ساتھ کیا ہوا اس کے کتنے عزیز رشتہ دار اب بھی موجود تھے۔یہ الگ سٹوری ہے۔اس سے پھر کبھی پردہ اٹھائیں گے۔اس کی اپنی اصل عمر 75 سال تھی لیکن وہ نظر تیس سال کا آ رہا تھا۔ ٹرین پر سوار ہوا تو اس کی یہی عمر تھی۔اس کے کپڑوں سے گھر سے چلنے سے قبل کی لگائی گئی پرفیوم کی خوشبو آرہی تھی۔زینٹی ٹرین فیصل آباد کے علاوہ انڈیا کے کسی اسٹیشن پر بھی نظر ا چکی تھی۔دیگر ممالک میں بھی اس کو دیکھا گیا تھا۔اب چلتے ہیں زینٹی کی ٹرین کی کہانی کی طرف کہ اس کا کیا قصہ کیا ماجرہ کیا کہانی کیا داستان ہے جو روم سے چلتی ہے ملکوں ملک گھومتی ہے۔
1845 میں میکسیکو میں 104 ایسے آدمی پائے گئے جو بظاہر غیر حاضر دماغی کے مرض کا شکار تھے وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں اور ان کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا ہے؟ لیکن ان سب کا ایک ہی بیان تھا جو انہوں نے اٹالین زبان میں دیا." ہم ٹرین کے مسافر ہیں۔"
اٹلی میں زینٹی کمپنی نے نئی ٹرین لانچ کی۔ اس کی تین بوگیاں تھیں۔ پہلے سفر کے لیے عام لوگوں کو سفر کی دعوت دی گئی۔ فری ٹکٹ کے ساتھ کھانا پینا اور واپسی بھی فری تھی۔ اس ٹرین کے ساتھ عملے کے چھ لوگ موجود تھے عملے کے لوگ اور مفت مسافر بڑے خوش تھے ان کا یہ حسین سفر تھا۔ اس سفر کا آغاز جون 1911 کو ہوا جس کا کبھی اختتام نہ ہو سکا۔ اس سال کے اگلے سال 1912 کو ٹائٹینک اپنے پہلی سمندری سفر کے دوران ڈوب گیا تھا اس کے مالک بروس اسمےکو ٹائی ٹینک کی مضبوطی پر بڑا ناز تھا۔اس نے بڑا بول بولتے ہوئے کہا تھا یہ جہاز اس قدر مضبوط ہے کہ اسے خدا بھی نہیں ڈبو سکتا اور پھر یہ جہاز ایک برف کے تودے سے ٹکرا کر دو ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا۔ زینٹی ٹرین کا بھی یہ پہلا سفر تھا نہ ختم ہونے والا سفر۔۔۔
زینٹی ایکسپریس 106 مسافروں کو لے کر روم کے قریبی پہاڑی مقام سپیلو کے لیے روانہ ہوئی۔روم سے یہ فاصلہ تقریبآ ڈیڑھ سو کلومیٹر ہے۔سفر سے قبل اس میں موجود مسافر نہیں جانتے تھے کہ وہ ایک ایسے سفر پر روانہ ہو رہے ہیں جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ ایک ایسا سفر جس کی کوئی منزل نہیں۔ دوران سفر ٹرین ایک کلومیٹر لمبی لمباڈی سرنگ میں داخل ہوئی اور پھر وہ دوبارہ کبھی باہر نہ نکل سکی۔ ابتدا میں خیال کیا گیا شاید سرنگ کے اندر اسے کوئی حادثہ پیش اگیا ہو۔جس پر روم کی پولیس اور ریلوے حکام جائے حادثہ پر پہنچے۔ مشاہدہ کی غرض سے سرنگ کے اندر داخل ہو کر سکتے میں آگئے۔وہاں اس ٹرین یا اس کی باقیات کا نام و نشان تک نہیں تھا۔تحقیق کے لیے جانے والا ہر شخص خوفزدہ اور حیران تھا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سرنگ بغیر کوئی نشان چھوڑے پوری ٹرین ہی کو نگل گئی۔ حقائق جاننے کے لیے وسیع پیمانے پر جب تفتیش کا آغاز کیا گیا تو ریلوے انتظامیہ کے پاس دو ایسے آدمی آئے جنہوں نے خود کو اس ٹرین کے مسافر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ سرنگ میں داخل ہونے سے قبل ہم نے سرنگ کی دائیں سائیڈ پر ایک تیز روشنی اور دھواں دیکھا تھا۔ ہمیں محسوس ہوا کہ شاید کوئی حادثہ ہونے والا ہے، سو ہم نے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگا دی. اس بیان نے انتظامیہ اور پبلک کو مزید حیران کر دیا بلکہ چکرا کے رکھ دیا۔جس کے بعد رومن انتظامیہ نے کسی مصلحت کے تحت سرنگ کو دونوں اطراف سے بند کر دیا۔پھر طویل عرصے کے بعد 1926 میں شائع ہونے والی رپورٹ نے دنیا کو ششدر کر دیا۔اس رپورٹ کے مطابق میکسیکو میں 1845 میں 104 ایسے آدمی پائے گئے تھے جو بظاہر غیر حاضر دماغی کے مرض کا شکار تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں؟ درحقیقت ان کے ساتھ ہوا کیا ہے؟ کیا حادثہ پیش آیا لیکن ان سب کا ایک ہی بیان تھا جو انہوں نے اٹالین زبان میں دیا۔"ہم زینٹی ٹرین کے مسافر ہیں" 1911 میں پیش آنے والے حادثے کو 1845 یعنی 66 سال قبل اسی تعداد کے حامل 104 مسافروں کا عین حادثے کے مطابق بیان ایک حیران کن امر تھا۔ کیا کوئی متوازی دنیا تھی جس میں واقعہ کا عکس قبل از وقت ظاہر ہو گیا تھا یا کوئی ٹائم ٹریول کا شاخسانہ تھا۔ٹائم ٹریول کے ذریعے ماضی یا مستقبل میں جانے کی باتیں ہوتی ہیں۔ یہ تعجب خیز ٹائم ٹریول ہے جس میں ماضی اور مستقبل پیہم ہوجاتے ہیں۔ ٹرین کے مسافر حقیقی حادثہ رونما ہونے سے 66 سال پیچھے کیسے چلے گئے؟ اس بات نے اس وقت دنیا کو اور بھی زیادہ حیران کر دیا جب یہ حقیقت سامنے آئی ,روم سے میکسیکو کا فاصلہ 10 ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے جبکہ ان دونوں ریاستوں کے درمیان کئی بڑے سمندر بھی حائل ہیں۔یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے ایک ٹرین بغیر کسی پٹڑی کے پانی پر چلتی ہوئی اتنا طویل سفر طے کر سکے. اس وقت کی حکومت اور لوگوں نے کوئی واضح دستاویزی ثبوت نہ ہونے کی بنا پر ان ایک 104 مسافروں کو ذہنی مریض سمجھتے ہوئے نظر انداز کردیا تھا تاہم اس کے باوجود 1845 میں میکسیکو انتظامیہ نے اس واقعے کی تفتیش کرتے ہوئے روم سے بھی اس نوعیت کے حادثے کی تفصیل طلب کی لیکن چونکہ اس وقت تک ایسا کوئی حادثہ رونما ہی نہیں ہوا تھا سو اس کیس کو بے بنیاد سمجھتے ہوئے بند کر کے ان 104 افراد کو پاگل خانے منتقل کر دیا گیا تھا۔
اس واقعے کا ایک انتہائی دلچسپ اور طاقتور پہلو موجود ہے جو لوگوں کےذہن سے آج بھی نہیں نکل سکا۔ 104 مسافروں میں سے ایک سے سگریٹ باکس برآمد ہوا جس پر نہ صرف ڈن ہل کمپنی کا مونوگرام تھا بلکہ اس پر 1907 عیسوی کا سال بھی درج تھا۔ ڈن ہل لانچ بھی 1907 میں ہوا تھا۔1907 میں بننے والے سگریٹ کا باکس 1845 میں ایک مسافر سے برآمد ہوا آج بھی انتظامیہ کے پاس موجود ہے۔
صائمہ کا کیا بنا وہ کس سٹیشن پر اتری، اگر اتری تو اپنے گھر تک نہیں پہنچ سکی؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اب بھی ٹرین میں موجود ہو اور کسی بھی وقت اپنے گھر لوٹ آئے۔اگر وہ واپس آتی ہے تو یہ بھی بہت بڑی مسٹری ہوگی۔اس قبل انہی پیجز پر آپ کیساتھ انڈین فلائٹ 184 کی 45 سال بعد واپسی کی ناولٹ سٹوری شیئر کی تھی۔یہ بھی ایسی ہی کہانی ہے۔

تہور حسین کی انڈیا حوالگی جوڈیشل ٹیررازم سلیم داؤ گیلانی سے ڈیوڈ کولمین ہیڈلی یہ امریکن پاکستانی دہشتگرد یا مجاہدڈونلڈ ٹ...
18/02/2025

تہور حسین کی انڈیا حوالگی جوڈیشل ٹیررازم
سلیم داؤ گیلانی سے ڈیوڈ کولمین ہیڈلی
یہ امریکن پاکستانی دہشتگرد یا مجاہد
ڈونلڈ ٹرمپ نے نریندر مودی کو ’عظیم دوست‘ بتایا جبکہ بھارتی وزیر اعظم نے کہا کہ دوستی میں مزید قربت آئے گی۔ اس دوران امریکہ نے ممبئی حملوں کے مجرم پاکستانی نژاد تہور حسین رانا کو بھارت کے حوالے کرنے کا اعلان کیا
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 14 فروری 2025 کو وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کی۔ دونوں رہنماؤں نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا عزم کیا ہے۔ وزیر اعظم مودی کو خوش آمدید کہتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا، ''ہمارے درمیان بہت اچھی دوستی ہے جس میں مزید قربت آئے گی۔ جب کہ بھارتی رہنما نے صدر ٹرمپ کی امریکہ کے قومی مفادات میں پالیسیوں اور یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے کوشش کی حمایت کی ہے۔
ٹرمپ کا مزید کہنا تھا، ''وہ میرے بہت اچھے دوست ہیں۔ ایک طویل عرصے سے ہمارے درمیان شاندار تعلقات رہے ہیں۔‘‘ مودی نے کہا،''ہم دونوں نے ایک ہی بندھن، باہمی اعتماد اور ایک ہی جوش کے ساتھ اشتراک کیا ہے۔‘‘وزیرِاعظم مودی نے کہا،''دنیا سمجھتی تھی کہ اس (یوکرین جنگ کے) پورے عمل میں بھارت کسی نہ کسی طرح ایک غیر جانبدار ملک ہے۔ لیکن یہ سچ نہیں ہےکیوں کہ بھارت طرف دار ہے۔۔۔۔ امن کا طرف دار ہے۔‘‘بھارتی وزیر اعظم نے ٹرمپ کے ''میک امریکہ گریٹ اگین‘‘ وعدے کی بھرپور تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ 'انڈیا کو دوبارہ عظیم‘ بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے ٹرمپ کی امریکی تحریک 'میک امریکہ گریٹ اگین‘ کے مخفف ایم اے جی اے کے مقابلے میں ایم آئی جی اے یعنی 'میک انڈیا گریٹ اگین‘ کا مخفف بھی استعمال کیا۔
صدر ٹرمپ نے اس موقع پراعلان کیا کہ 2008 ء کے ممبئی دہشت گردانہ حملے کے پیچھے سازش کرنے والوں میں سے ایک کو بھارت کے حوالے کیا جائے گا۔تہور حسین رانا کو اب قانونی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے بھارت بھیجا جائے گا۔ ہم انہیں فوری طور پر بھارت کے حوالے کر رہے ہیں اور ہمارے پاس کچھ اور درخواستیں ہیں اور کچھ دیگر کو ان کے حوالے کر دیا جائے گا۔‘‘ بھارت کافی عرصے سے رانا کی حوالگی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ مودی نے تہور حسین رانا کو امریکہ سے بھارت کے حوالے کرنے کی اجازت دینے پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا۔ ایک بار امریکی عدالت نے تہور رانا کو بھارت کے حوالے کرنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔ لیکن گذشتہ سال نومبر 2024میں انہوں نے اس پر نظرثانی کی درخواست دائر کی تھی۔ اس درخواست کو بھی گزشتہ ماہ جنوری 2025 کوسپریم کورٹ نے مسترد کر دیا تھا۔ رانا کو 2013 ء میں امریکہ میں اپنے دوست ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے ساتھ ممبئی حملوں اور ڈنمارک میں حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کا مجرم پایا گیا تھا۔ ان مقدمات میں تہور حسین رانا کو امریکی عدالت نے 14 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ ہیڈلی بعد میں وعدہ معاف سرکاری گواہ بن گئے تھے۔ پاکستانی نژاد کینیڈین شہری رانا اس وقت امریکہ کی جیل میں ہیں۔جیسا کہ تھمب نیل میں لکھا کہ امریکہ کی طرف سے یہ جوڈیشل ٹیررزم ہے انصاف کے ضابطوں کی دھجیاں اڑانے والی بات ہے ایک ملزم کو مجرم قرار دے کر 14 سال کی سزا سنا دی گئی تو اب بھارت کے حوالے مزید سزا کے لیے کیوں کیا جا رہا ہے۔اس معاملے میں چونکہ ڈیوڈکولمین ہیڈلی کا بھی نام آیا جن کا ایک اور نام سلیم داؤد گیلانی بھی ہے۔اپ اس پر بات کرتے ہیں کہ ان کا ممبئی حملوں میں کیا کردار تھا ان کو کتنی سزا ہوئی۔وہ مجاہد ہے یا دہشت گرد ہے؟ وہ عیسائی ہے یا مسلمان یے؟
***
ستمبر 2006 میں جب ڈیوڈ ہیڈلی پہلی بار تاج ہوٹل میں داخل ہوئے تو وہاں کی شان و شوکت اور وہاں کام کرنے والے سٹاف کے رویے کو دیکھ کر انھیں لگا کہ اس شاندار جگہ کو تباہ کرنا آسان نہیں ہو گا۔
ممبئی کے اپنے پہلے دورے کے دوران ہیڈلی کے پاس تاج ہوٹل میں قیام کے پیسے نہیں تھے۔ ہیڈلی تاج ہوٹل سے ساڑھے چار میل دور بھولا بھائی روڈ پر اپنا اڈہ قائم کرنے کے بعد تقریباً روزانہ ہی تاج ہوٹل جاتے تھے۔
وہاں موجود ویٹر، مینیجر اور مہمان اکثر انھیں ہاربر بار میں فرانسیسی شیمپین کا گلاس ہاتھ میں لیے دیکھتے تھے۔ ہیڈلی کو کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔
ایڈرین لیوی اور کیتھی سکاٹ کلارک ممبئی حملوں پر اپنی کتاب ’دی سیج، دی اٹیک آن دی تاج‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ہیڈلی کا قد چھ فٹ دو انچ تھا۔ ان کے لمبے سنہرے بال پونی ٹیل میں بندھے ہوتے تھے۔ وہ اکثر جینز اور شرٹ میں ہوتے تھے، ان کے کندھوں پر چمڑے کی جیکٹ لٹک رہی ہوتی تھی۔‘
تقریباً 9 لاکھ روپے کی ایک رولیکس گھڑی ان کی کلائی پر ہوتی تھی۔ انھیں ممبئی میں ڈیوڈ کے نام سے جانا جاتا تھا لیکن اپنی بہن شیری، سوتیلے بھائیوں حمزہ اور دانیال اور بیویوں پورسیا، شازیہ اور فائزہ کے لیے وہ ایک پاکستانی نژاد امریکی تھے، جن کا اصل نام داؤد سلیم گیلانی تھا۔
داؤد یا یوں کہہ لیں کہ ڈیوڈ کے والد سید سلیم گیلانی پاکستان کے مشہور براڈ کاسٹر تھے۔ جب وہ کچھ سال کے لیے وائس آف امریکہ کے لیے کام کرنے واشنگٹن گئے تو ان کی ملاقات 19 سالہ شیرل سے ہوئی، جو میری لینڈ یونیورسٹی میں گریجویٹ کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔
دونوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان آ گئے لیکن یہ شادی زیادہ دیر نہ چل سکی اور 1966 میں شیرل اور گیلانی میں طلاق ہو گئی۔
شیرل امریکہ واپس آ گئیں اور داؤد اپنے والد اور سوتیلی ماں کے ساتھ لاہور میں رہے لیکن جب داؤد 16 سال کے ہوئے تو وہ بھی اپنی ماں کے ساتھ امریکہ چلے گئے۔1984 میں پاکستان آنے جانے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ اس دوران وہ منشیات کے سمگلروں سے رابطے میں آئے اور ہیروئن کی سمگلنگ میں ملوث ہو گئے۔چار سال بعد کسٹم افسران نے انھیں فرینکفرٹ ایئرپورٹ پر دو کلو ہیروئن کے ساتھ پکڑا اور ان کے والد نے ان سے اپنے تمام تعلقات ختم کر دیے۔
جرمن حکام نے انھیں امریکہ کے حوالے کر دیا۔ وہاں انھوں نے امریکیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت یہ طے پایا کہ وہ ایک مخبر کے طور پر کام کرتے ہوئے پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہیروئن کے نیٹ ورک کی خفیہ معلومات ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن (DEA) کو دیں گے۔
داؤد اگست 1999 میں پاکستان واپس آئے اور امریکی حکومت نے ان کے لیے اس سفر کا ہوائی ٹکٹ خریدا۔ کیتھی کلارک اورایڈرین لیوی لکھتے ہیں کہ ’ڈیوڈ نے دراندازی کے ایک بہت ہی کتابی طریقہ پر عمل کیا اور ایک پاکستانی خاتون شازیہ احمد سے شادی کر لی۔‘اپنے والد کی مدد سے، جو اب تک ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل بن چکے تھے، انھوں نے لاہور کینال کے قریب کے علاقے میں مکان خریدا۔ 2000 کے آخر میں، جب القاعدہ نے یمن میں یو ایس ایس کول پر حملہ کیا تو ڈیوڈ نے لشکر جہاد فنڈ میں 50,000 روپے عطیہ کیے اور جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کی تقریر میں شرکت کی۔اگلے ڈھائی سال تک داؤد کبھی پاکستان اور کبھی امریکہ میں رہے۔ وہ ان دونوں جگہوں پر مختلف زندگی گزار رہے تھے۔
اس دوران وہ لشکر سے مکمل رابطے میں آ چکے تھے اور لاہور سے 15 کلومیٹر دور مریدکے میں لشکر کے کیمپ میں تربیت لے رہے تھے۔اس دوران انھوں نے شلوار قمیض پہننا شروع کر دی تھی جبکہ شراب، ٹی وی اور موبائل فون سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔
ڈنمارک کے مشہور صحافی کیر سورنسن نے اپنی کتاب ’دی مائنڈ آف اے ٹیررسٹ دی سٹرینج کیس آف ڈیوڈ ہیڈلی‘ میں لکھا ہے: ’داؤد کا خواب تھا کہ انھیں کشمیر میں لڑنے کے لیے بھیجا جائے لیکن لشکر طیبہ کے رہنما ذکی الرحمان لکھوی کی نظر میں، داؤد اس مشن کے لیے بہت بوڑھے تھے۔ انھوں نے لشکر طیبہ کے کمانڈر ساجد میر کو بتایا کہ وہ انڈیا میں داخل ہونا چاہتے ہیں لیکن اس میں ہیڈلی کو بھی شامل کیا جائے گا۔ بڑے حملے کے منصوبے میں لشکر کو ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو کیمرہ اور نوٹ بک کے ساتھ طویل عرصے تک ممبئی کا سفر کر سکے اور جسے لوگوں کے ساتھ گھل مل جانے میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔‘
ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے نام پر نیا پاسپورٹ
جون 2006 میں داؤد کو باضابطہ طور پر اس مہم میں شامل کیا گیا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ امریکی سیاح کا بھیس بدل کر سیر و تفریح کے لیے ممبئی جائیں گے اور وہاں تمام معلومات جمع کریں گے۔اس کے لیے داؤد پہلے امریکہ گئے، جہاں انھوں نے داؤد کا نام چھوڑ کر نیا نام ڈیوڈ کولمین ہیڈلی اختیار کیا اور اس نئے نام سے بنایا ہوا نیا پاسپورٹ حاصل کیا۔
کیر سورنسن نے لکھا ہے کہ ’جب ہیڈلی پاکستان واپس آئے تو ساجد میر نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ نماز میں سجدہ کرتے ہوئے اپنی پیشانی کو آہستہ آہستہ زمین سے چھوئیں تاکہ ان کی پیشانی پر وہ نشان نہ لگے جو پانچ وقت نماز پڑھنے والوں کی پیشانی پربن جاتا ہے۔‘اس کے بعد ہیڈلی کو اس کردار کے لیے ایک اعلیٰ تربیت دی گئی۔انھوں نے مزید لکھا کہ ’ہیڈلی کے ہینڈلرز نے انھیں ممبئی میں اخراجات کے لیے 25,000 ڈالر بھی دیے۔ جب ہیڈلی انڈیا جانے کے لیے تیار ہوئے تو انھیں دس ہندسوں پر مشتمل ایک نمبر دیا گیا، جس کے پہلے تین ہندسے 646 تھے، جو کہ امریکہ میں مین ہٹن کا ایریا کوڈ تھے۔‘’لیکن اس نمبر کو ڈائل کرنے پران کی کالز پاکستان میں ان کے ہینڈلرز کو جاتی تھیں۔ ہیڈلی کو کہا گیا کہ اگر وہ ان سے رابطہ کرنا چاہیں تو اس نمبر کا ہی استعمال کریں۔
ہیڈلی نے ستمبر 2006 میں پہلی بار ممبئی میں قدم رکھا اور اے سی مارکیٹ میں اپنا دفتر قائم کیا۔ ہیڈلی نے اپنی کمپنی کا نام ’فرسٹ ورلڈ‘ رکھا تھا جس کا کام لوگوں کو امریکہ کا ویزا حاصل کرنے میں مدد کرنا تھا۔ انھوں نے اخبارات میں اپنی کمپنی کے اشتہارات بھی دیے۔ہیڈلی نے ’فائیو فٹنس ہیلتھ کلب‘ جانا شروع کیا، جہاں انھوں نے شیو سینا کے رکن ولاس ورک سے ملاقات کی۔
ولاس کے ذریعے ان کی ملاقات مشہور پروڈیوسر مہیش بھٹ کے بیٹے راہول بھٹ سے ہوئی۔ بعد میں راہول بھٹ نے ایک کتاب ’Headley and I‘ لکھی۔اس کتاب میں انھوں نے لکھا کہ ’ہیڈلی کے بارے میں سب سے پہلی چیز جس نے مجھے متاثر کیا وہ اس کی آنکھیں تھیں۔ ایک بھوری اور دوسری سبز تھی۔ اس کا لہجہ دوستانہ تھا۔ میں اس کے ہاتھوں کی مضبوط اور پراعتماد گرفت سے متاثر ہوا۔ اس نے سیاہ لباس پہنا ہوا تھا۔ اس کے سر پر ٹوپی تھی اور وہ ہالی ووڈ اداکار سٹیو سیگل کی کاربن کاپی لگ رہا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ بھیل پوری اور پانی پوری کا دیوانہ ہے۔‘
تاج ہوٹل سے تولیہ اور کافی کپ چرایا
سیاحت کے بہانے ہیڈلی نے دارالحکومت دلی کا دورہ بھی کیا۔ وہ خصوصی طور پر نیشنل ڈیفنس کالج گئے۔ بعد ازاں وہ ممبئی کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں فیشن شو دیکھنے بھی گئے۔سورنسن نے لکھا ہے کہ ’ہیڈلی نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو بھی اپنے اہداف کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ انھوں نے گیٹ وے آف انڈیا اور پولیس ہیڈ کوارٹر کی تصاویر بھی لی تھیں۔ انھوں نے ممبئی سے ہی حملے میں ملوث دس لوگوں کے لیے بیگ خریدے تھے۔وہ تاج ہوٹل میں تین بار ٹھہرے اور صرف تفریح کے لیے ہوٹل سے ایک تولیہ اور کافی کپ ایک یادگار کے طور پر چرایا۔‘
ہیڈلی کی طرف سے لی گئی تصاویر اور ویڈیوز کا ان کے ہینڈلرز نے بہت باریک بینی سے مطالعہ کیا اور اس کے ذریعہ بیان کردہ ہر جگہ کو گوگل ارتھ میپ سے دیکھا گیا تاکہ اس پورے آپریشن کا جائزہ لیا جا سکے۔انھوں نے تاج ہوٹل کا ایک ماڈل بھی تیار کیا تھا جس میں داخل ہونے اور باہر نکلنے کے ہر راستے پر تفصیل سے بات کی گئی تھی۔
ممبئی میں لینڈنگ کی جگہ کا انتخاب
اس حملے میں ہیڈلی نے اس جگہ کا انتخاب کیا تھا جہاں انتہا پسندوں کو حملے کے لیے ممبئی میں اترنا تھا۔ہیڈلی نے کئی امریکی اور برطانوی سیاحوں کے ساتھ فیری پر تاج ہوٹل کے آس پاس کے علاقے کے دو چکر لگائے تھے۔ پھر وہ مچھیروں کے ایک گاؤں بھی گئے۔
سورینسن نے لکھا ہے کہ ’ایک ماہی گیر نے ہیڈلی کو اگلے دن جلدی آنے کا مشورہ دیا تھا تاکہ وہ ممبئی کے آس پاس کے سمندر کا حقیقی احساس حاصل کر سکیں۔‘ابتدائی طور پر یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ تمام حملہ آور گیٹ وے آف انڈیا کے قریب اتریں گے لیکن ہیڈلی کی نظریں اس علاقے میں کئی بندوق بردار کشتیوں پر گئیں جن کا انتظام سکیورٹی گارڈز کے پاس تھا۔’ساحل کے کنارے چھوٹا سا گاؤں اترنے کے لیے ایک بہتر جگہ تھی۔ وہاں کچھ لوگ موجود تھے لیکن وہ اس قسم کے نہیں تھے کہ وہ کوئی عجیب چیز دیکھ کر سوال پوچھیں یا پولیس کو فون کریں۔ ہیڈلی نے اس گاؤں کا انتخاب اس لیے کیا کہ وہ ایک دور دراز علاقہ تھا اور وہاں سے تیزی سے مین روڈ پر اتر کر بغیر کسی رکاوٹ کے منٹوں میں ٹیکسی لی جا سکتی تھی۔‘
ابتدائی طور پر جب حملے کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی تو اس بات پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا تھا کہ حملے کے بعد حملہ آوروں کو انڈیا سے باہر لے جایا جائے۔خیال کیا جا رہا تھا کہ حملے کے بعد حملہ آور ایک بس کو ہائی جیک کر کے انڈیا یا کشمیر کی شمالی سرحد کی طرف بڑھیں گے یا پھر اندھیرے میں ہنگامہ آرائی کا فائدہ اٹھا کر کشتی کے ذریعے انڈین سرحد سے باہر چلے جائیں گے۔یہ بھی سوچا جا رہا تھا کہ وہ چند ہفتے ممبئی کے ایک فلیٹ میں چھپے رہیں گے اور بعد میں انھیں وہاں سے نکال لیا جائے گا۔سورینسن کے مطابق بعد میں ملنے والے سراغ سے پتا چلتا ہے کہ حملہ آور اس مفروضے کے تحت رہ رہے تھے کہ وہ پاکستان واپس چلے جائیں گے۔’یہی وجہ تھی کہ انھوں نے حکم کے باوجود اس کشتی کو نہیں ڈبویا جس میں وہ سوار ہو کر ممبئی گئے تھے‘ لیکن ان کے ہینڈلرز جانتے تھے کہ ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچے گا۔ستمبر 2008 میں ہیڈلی کو ساجد میر کی طرف سے پیغام ملا کہ حملہ 29 ستمبر کو کیا جائے گا لیکن جب حملہ آوروں نے ممبئی کا سفر شروع کیا تو ان کی کشتی سمندر میں ڈوب گئی۔یہ سب بچ گئے کیونکہ انھوں نے لائف جیکٹس پہن رکھی تھیں۔ کچھ دن بعد جب ایک نئی کشتی اور نئے ہتھیاروں کے ساتھ دوبارہ سفر شروع کیا گیا تو اس میں بھی کچھ رکاوٹ تھی۔
ساجد میر اس بارے میں ہیڈلی کو مطلع کرتے رہے لیکن نومبر کے وسط میں ہیڈلی کو ساجد کی طرف سے ایک نیا پیغام ملا کہ جلد ہی حملے کی تیسری کوشش کی جائے گی۔26 نومبر کی شام انھیں ایک اور پیغام ملا کہ حملہ شروع ہو گیا ہے۔ ہیڈلی نے اگلے تین دن اپنے ٹی وی کے سامنے گزارے۔بعد ازاں انھوں نے امریکی جیل میں انڈین تحقیقاتی ایجنسی کے افسران کو بتایا کہ 26 نومبر کو جب میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا تھا تو اچانک خبر آئی کہ ممبئی پر دس افراد نے حملہ کیا ہے۔ہیڈلی نے یہ بھی بتایا کہ انھوں نے حملہ آوروں کو جگہ کی معلومات اور تفصیلات دی تھیں لیکن وہ کبھی حملہ آوروں سے ملے نہیں
مارچ 2009 میں، حملے کے چار ماہ بعد، ہیڈلی نے دوبارہ ممبئی کا دورہ کیا۔ اس بار وہ چرچ گیٹ کے ہوٹل آؤٹریم میں ٹھہرے جہاں وہ پہلے بھی ایک بار ٹھہر چکے تھے۔3 اکتوبر 2009 کو ہیڈلی کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ پاکستان کے لیے فلاڈیلفیا کے ہوائی اڈے پر جہاز میں سوار ہو رہے تھے۔بعد میں انڈیا کے سابق ہوم سیکریٹری جی کے پلئی نے واضح طور پر کہا کہ ہیڈلی کے ڈبل ایجنٹ ہونے کا امکان قابل اعتبار ہے۔راہول بھٹ، جو کچھ دن تک ہیڈلی کے دوست تھے، نے لکھا کہ ’اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ ہیڈلی نہ صرف اپنا نام بدلنے میں کامیاب ہوا بلکہ اس نام سے نیا پاسپورٹ بھی حاصل کیا۔وہ تین چار سال میں آٹھ یا نو بار انڈیا اور پاکستان سے باہر گئے، پوری دنیا جانتی ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ اپنی سیکورٹی کے بارے میں اتنا الرٹ تھا کہ امریکہ سے پاکستان جانے والے ہر مسافر کی نگرانی کی جا رہی تھی لیکن یہ سمجھ سے باہر ہے کہ اس دوران امریکی انتظامیہ نے ہیڈلی سے ایک بار بھی پوچھ گچھ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔‘انڈیا اور امریکہ کے درمیان حوالگی کے معاہدے میں یہ شرط ہے کہ اگر کوئی شخص انڈیا میں جرم کرتا ہے اور امریکی سرزمین پر پکڑا جاتا ہے تو انڈیا اس کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتا ہے لیکن ہیڈلی نے غالباً امریکہ سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ ان کے ساتھ مکمل تعاون کرے گا بشرطیکہ کہ انھیں انڈیا یا پاکستان کے حوالے نہ کیا جائے۔سابق ہوم سیکریٹری جی کے پلئی کا کہنا ہے کہ ’یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ہیڈلی کی گرفتاری کے بعد انڈین حکام کو ہیڈلی سے پوچھ گچھ کی اجازت لینے میں کافی وقت لگا اور اس کے باوجود انھیں صرف محدود سوالات کرنے کی اجازت دی گئی۔امریکیوں کو اندازہ تھا کہ اگر ہیڈلی سے مزید سوالات کیے گئے تو امریکی کردار پر پردہ ڈالنا مشکل ہو جائے گا۔ڈیوڈ کولمین ہیڈلی اس وقت امریکی جیل میں 35 برس کے لیے قید ہیں.

ٹرمپ کا مودی کو خطر ناک ایف 35  فائٹرز کا تحفہ  ایف 16 سے بھی جدید ترخطے میں طاقت کا توازن  بگڑے گا امریکہ انڈیا معاہدہ ...
18/02/2025

ٹرمپ کا مودی کو خطر ناک ایف 35 فائٹرز کا تحفہ
ایف 16 سے بھی جدید تر
خطے میں طاقت کا توازن بگڑے گا
امریکہ انڈیا معاہدہ پاکستان کے لیے تباہ کن

مودی کے امریکہ کے دورے پر ہمارے کچھ دانشور خوشی سے گھنگرو چھنکا رہے ہیں کہ وہاں وزیراعظم نریندر مودی کی ٹرمپ نے پذیرائی نہیں کی۔ان کے استقبال کے لیے کسی خاتون کو بھیج دیا،خود مودی کا ٹرمپ نے استقبال نہیں کیا۔امریکہ اور ہندوستان کے جو معاہدے ہوئے ہیں ان میں سے ایک دفاعی معاہدہ خطے میں طاقت کے توازن کو بری طرح بگاڑ دے گا۔یہ معاہدہ پاکستان کے لیے تباہ کن ہے۔اس معاہدے کے تحت امریکہ بھارت کو ایف 16 فائٹر جہاز کا نیا ورژن ایف 35 دینے جا رہا ہے۔ان دو فائٹر جہازوں میں اتنا ہی فرق ہے جتنا پاکستان سے جے ایف تھنڈر 17 اور بھارت کے تیجس فائٹر میں ہے۔نریندر مودی نے اپنے ملک کے لیے امریکہ سے جو حاصل کر لیا ہے اس کے سامنے ان کا استقبال ہو یا نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔جہاں ہم آپ کو جدتوں سے راستہ ایف 35 کے بارے میں بتاتے ہیں۔
امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کا بنایا ہوا یہ لڑاکا طیارہ ایف-35 جوائنٹ سٹرائیک فائٹر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
ایف 35 لڑاکا جیٹ ففتھ جنریشن کا سٹیلتھ لڑاکا جیٹ ہے اور اسے اپنی سپرسونک رفتار کے لیے جانا جاتا ہے ۔اس کی دور فاصلے سے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنانے کی صلاحیت اسے میدان جنگ میں جدید طیاروں میں سرفہرست بناتی ہے۔
اس طیارے کو بنانے والی کمپنی کی ویب سائٹ میں کہا گیا ہے کہ لاک ہیڈ مارٹن ایف 35 لائٹننگ ٹو سٹیلتھ ٹیکنالوجی، جدید سینسرز، ہتھیاروں کی صلاحیت اور رینج کے لحاظ سے یہ اب تک کا سب سے خطرناک لڑاکا طیارہ ہے۔
کمپنی کے مطابق اس لڑاکا طیارے کے تین ماڈلز ہیں: جن میں ایف 35 اے، ایف 35 بی اور ایف 35 سی طیارے شامل ہیں۔
ایف 35 اے: یہ طیارے عام رن ویز سے آسانی سے ٹیک آف کر سکتے ہیں۔ امریکی فضائیہ ان طیاروں کو سب سے زیادہ استعمال کرتی ہے۔
ایف 35 بی: یہ طیارے ہیلی کاپٹر کی طرح براہ راست لینڈ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ چھوٹی جگہ پر بھی اتر سکتا ہے۔ اس صلاحیت کی وجہ سے یہ جنگی بحری جہازوں پر بھی اتر سکتا ہے۔ امریکی میرین کور، اطالوی فضائیہ اور برطانیہ ان طیاروں کو استعمال کرتے ہیں۔
ایف 35 سی: طیاروں کی یہ سیریز امریکی بحریہ کا پہلا سٹیلتھ لڑاکا جیٹ اور دنیا کا واحد ففتھ جنریشن کا لڑاکا طیارہ ہے۔ انھیں خاص طور پر طیارہ بردار بحری جہاز کے آپریشنز کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
یہ طیارہ 25 ایم ایم کی توپ، ہوا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل اور 907 کلو گرام گائیڈڈ بم لے جا سکتا ہے۔
ایف 35 طیارہ 1.6 ماک یا 1975.68 کلومیٹر کی رفتار سے پرواز کر سکتا ہے، کیونکہ اس کا انجن بہت طاقتور ہے۔ یہ طیارے اپنے مکمل ہتھیاروں سے لیس ہو کر اور ایندھن کی پوری صلاحیت کے ساتھ بھی اس رفتار کو حاصل کر سکتے ہیں۔
ایف 35 سی:
اس لڑاکا جیٹ میں ایکٹو الیکٹرانک سکینڈ ایرے ریڈار، الیکٹرو آپٹیکل ٹارگٹنگ سسٹم اور ہیلمٹ ماؤنٹڈ ڈسپلے سسٹم جیسی خصوصیات ہیں۔اس کا الیکٹرانک جنگی نظام نہ صرف دشمن کے ٹھکانوں کا پتا لگا سکتا ہے یا ٹریک کر سکتا ہے بلکہ دشمن کے ریڈاروں کو بھی جام کر سکتا ہے اور حملوں کو ناکام بنا سکتا ہے۔اس کی سٹیلتھ ٹیکنالوجی یعنی خصوصی ریڈار کوٹنگ کی وجہ سے دشمن کے ریڈار اس کا پتہ نہیں چلا سکتے۔ یہ امریکی بحریہ کا پہلا 'کم قابل مشاہدہ' کیریئر پر مبنی لڑاکا طیارہ ہے جو اسے دشمن کی فضائی حدود میں بغیر پتا چلے کام کرنے کے قابل بناتا ہے۔اس طیارے میں نیٹ ورک سے چلنے والا مشن سسٹم ہے، جو دوران پرواز جمع کی جانے والی معلومات کو ریئل ٹائم میں شیئر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
اس طیارے کے بڑے پر اور طاقتور لینڈنگ گیئر اسے بحری بیڑے سے تیز اور فوری پرواز کرنے میں مدد دیتے ہیں۔اس طیارے میں دنیا کا سب سے طاقتور لڑاکا انجن ہے اور یہ 1,200 میل یعنی 19 سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے نشانہ بنا سکتا ہے۔یہ جہاز اپنے پروں پر دو جبکہ اپنے اندر چار میزائل لیجانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ لڑاکا طیارے کن ممالک کے پاس ہیں؟
لاک ہیڈ مارٹن کمپنی نے اپنے طیارے 15 ممالک کو فروخت کیے ہیں جن میں امریکی فضائیہ میرین کور، اور نیوی اور میرین کور شامل ہیں۔
اسرائیل، بیلجیم، ڈنمارک، اٹلی، جاپان، ہالینڈ، پولینڈ، جنوبی کوریا اور ناروے جیسے ممالک کی فضائیہ اس طیارے کو استعمال کر رہی ہیں۔اب اس فہرست میں جلد ہی انڈیا کا نام شامل ہونے کا امکان بھی پیدا ہوا ہے۔یونائیٹڈ سٹیٹس گورنمنٹ اکاؤنٹیبلٹی آفس (گاؤ) کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے اب تک 2700 ایف 35 لڑاکا طیاروں کا آرڈر دیا ہے جن میں سے اسے 900 طیارے مل چکے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق اس لڑاکا طیارے کی قیمت 82.5 ملین ڈالر یعنی تقریباً 7.16 ارب روپے ہے۔ اس کے علاوہ اس کی پرواز پر فی گھنٹہ 40 ہزار امریکی ڈالر سے زیادہ خرچ آتا ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ امریکہ انڈیا کو یہ طیارے کتنے میں فروخت کرے گا۔
لیکن یہ واضح ہے کہ یہ طیارے اس وقت دنیا میں سب سے مہنگے لڑاکا طیارے تصور کیے جاتے ہیں۔
گاؤ کی رپورٹ کے مطابق اس کی لاگت ہر سال مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس طیارے کی متوقع عمر 66 سال ہے۔ اس طیارے کو مسلسل فعال رکھنے کے لیے اس کی مینٹینس لاگت کی وجہ سے سیکورٹی ماہرین نے بھی اس پر سوالات اٹھائے ہیں۔
سنہ 2022 میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ اسرائیل کو ملنے والے ان طیاروں کے ایک بیچ کے پائلٹ ایجیکشن سسٹم میں خرابی تھی۔تاہم پھر بھی اسرائیل نے لوک ہیڈ مارٹن کے ایف 35 لڑاکا طیارے کو 'گیم چینجر' قرار دیا ہے۔ماضی میں انھی امریکی طیاروں کو ایلون مسک نے 'سکریپ' کہا تھا جو اس وقت امریکی حکومت میں شامل ہیں۔ انھوں نے اس طیارے کے بنانے والوں کو بھی احمق قرار دیا تھا۔اب کچھ عرصے سے اس لڑاکا طیارے کی آپریشنل صلاحیتوں پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔
ایف 35 جیٹ فائٹر پروگرام دنیا کا مہنگا ترین پروگرام ہے اور اس پروگرام پر آنے والی مالیت اور اس کی جنگی صلاحیت پر تنقید کی جا رہی ہے۔
2017 میں اس وقت کے امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کو ایسے وقت اس پروگرام کا دفاع کرنا پڑا جب صدر ٹرمپ نے حلف اٹھانے سے قبل ٹویٹ میں اس جہاز پر آنے والی 100 ملین ڈالر فی جہاز لاگت پر تنقید کی تھی۔
امریکہ نے اس جہاز میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ پروگرام 2070 تک چلے گا اور اس پر ڈیڑھ ٹریلین ڈالر لاگت آئے گی۔
خطے میں بھارت کا پاکستان کے سوا کوئی ایسا دشمن نہیں ہے جس کے خلاف بھارت یہ طیارے استعمال کر سکے۔چین کے ساتھ بھارت کے کئی تنازعات ہیں اس کے باوجود بھی چین بھارت میں ایک سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ان دونوں ممالک کے مابین جو بھی تنازعات ہیں ان کے باعث جنگ ہونے کا امکان نہیں ہے۔
پاکستان اور بھارت پہلے بھی تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں۔مودی سرکار پر جنگی جنون طاری ہے۔پاکستان نے کئی مرتبہ امریکہ کی جنگ اپنی سمجھ کر لڑی ہے۔پاکستان امریکہ کو بھارت کے ہاتھ طیارے فروخت نہ کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا تو خود بھی ایف 35 طیارے امریکہ سے ہر صورت خریدے۔امریکہ کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا کیونکہ بھارت کو امریکہ اس کا دفاع مضبوط کرنے کے لیے جدید فائٹر فراہم نہیں کر رہا بلکہ بزنس پوائنٹ اف ویو سے اسے ایف 35 طیارے فروخت کر رہا ہے۔

انڈین فلائٹ کی45سال بعد واپسیفضل حسین اعوانhttps://youtu.be/7eNnJyn3wZE?si=fr2D3lRtlSjJt-CL”ہیلو“۔ گارڈ چینل پر کال آئی ...
07/01/2025

انڈین فلائٹ کی45سال بعد واپسی
فضل حسین اعوان

https://youtu.be/7eNnJyn3wZE?si=fr2D3lRtlSjJt-CL

”ہیلو“۔ گارڈ چینل پر کال آئی تو ایئر ٹریفک کنڑول روم میں بیٹھے روہن چاولہ کو حیرانی ہوئی۔ گارڈ چینل ایمرجنسی میں استعمال ہوتا ہے جس کی فریکوئنسی243میگا سائیکل ہے۔ اگلے الفاظ چاولہ کے لیے پریشان کن تھے۔ ہیئر فلائٹ 784 اینڈ می کیپٹن شرما، روہن شرما“۔ اتفاق سے کنٹرولر اور پائلٹ کا نام روہن تھا۔ کنٹرولر کو پریشانی اس لیے ہوئی کہ یہ پرواز 16 اکتوبر 1977ءسے فضا میں جانے کے کچھ دیر بعد لا پتہ ہوگئی تھی۔ اسے بھارت کے شہر نووائڈا سے ممبئی آنا تھا مگر پرواز کے صرف سات منٹ بعد اس کا دونوں کنٹرول ٹاورز سے رابطہ اچانک منقطع ہو گیا۔ متعدد اپریشنز کے باوجود اس فلائٹ کا کوئی پتہ نہ چل سکا۔ آ ج 45 سال بعد اس فلائٹ کا پائلٹ اپنا تعارف کروا رہا ہے۔ یہ سن کر نووائڈا ایئر پورٹ کے ٹاور میں بیٹھے روہن کے جسم میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ اس نے ایک امریکی جہاز کے37سال بعد واپسی کی کہانی بھی پڑھ رکھی تھی۔ اگلے ہی لمحے پائلٹ کے لہجے نے اسے خوفزدہ کر دیا۔ آپ چینل 7 پر نہیں تھے‘ تو مجھے گارڈ چینل پر آنا پڑا۔ چینل سیون آٹھ دس سال سے استعمال نہیں ہو رہا۔اس کے بجائے انڈین ایئر لائنز ریڈیو چینل نائن استعمال کر رہی تھی۔ پائلٹ کا یہ کہنا حیران کن تو تھا ہی مگر روہن گپتا کے خوف کی وجہ پائلٹ کے بولنے کا لہجہ تھا۔ یو ں لگ رہا تھا پائلٹ روہن خوفزدہ ہے۔ اس کی آواز کی باز گشت اس کے خوف میں اضافہ کر رہی تھی۔ روہن نے وائس اوپن کر کے اشارے سے اپنے جونیئر علی کو متوجہ کیا۔ اس وقت گپتا کا چہرہ حیرانی اور پریشانی سے خوف زدہ تھا اور ماتھاپسینہ پسینہ ہو چکا تھا۔ اسے خود پر کپکپی طاری ہوتی محسوس ہورہی تھی۔ ایسی آواز اس نے کبھی نہیں سنی تھی۔
”ہم لینڈ کرنا چاہتے ہیں“ یہ دوسرے پائلٹ کی آواز تھی۔ اس نے اپنا نام مانک جہانگیر بتایا۔ اس کی آواز سن کر لگا جیسے وہ گہرے کنویں سے بول رہا ہے۔ کنٹرول روم میں موجود روہن کے ساتھ علی اور اسکے تین اسسٹنٹ بھی اس صورت حال سے خوفزدہ ہو رہے تھے۔ دونوں پائلٹ باری باری بول رہے تھے جس سے ساؤنڈ پروف اس کمرے میں باز گشت والی آواز خوف بڑھائے جا رہی تھی۔ کنٹرول روم میں بیٹھے سب اتنے خوفزدہ ہو گئے کہ ان کیلئے پائلٹس کی کال کا جواب دینا بھی مشکل ہو گیا۔ You are 45 years late (آپ 45 سال کی تاخیر سے ہو)
اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے علی نے الجھنے کے بجائے لرزتے لہجے میں جواب دیا۔Ok, you can land from same direction, you are approching. (آپ اسی سمت میں اتر سکتے ہو‘جو آپ کے قریب ہے)
کنٹرول ٹاور میں ہونے والی خوفناکی اور ہولناکی میں جو کسر رہ گئی تھی وہ پائلٹس کے ساتھ گفتگو کے دوران ایک خاتون کی پس منظر میں آنے والی آواز نے پوری کر دی جومسافروں سے کہہ رہی تھی کہ سیٹ بیلٹس باندھ لیجئے۔ وہ ایئر ہوسٹس ہو سکتی تھی۔
وٹ! ہم تو 45 منٹ بھی لیٹ نہیں تم 45 سال کی بات کر رہے ہو۔ یہ پائلٹ روہن شرماکی آواز تھی جس میں حیرانگی تھی۔ اس کے بعد کنٹرول روم سے اس پر زیادہ بحث نہیں کی گئی۔ جہاز کو لینڈنگ کی اجازت دینے کے بعد متعلقہ گراؤنڈ فسیلیٹیز کے لیے کہہ دیا گیا۔ چند منٹ بعد جہاز لینڈ کر گیا۔ پائلٹ کو جو انفارمیشن درکار تھی کنٹرولر نے اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے اسے فراہم کر دی۔ چند لمحوں بعد ایئرپورٹ کی گاڑی مسافروں کو لینے پہنچ گئی۔ اس دوران کنٹرولرنے ہائر اتھارٹی کو اس انہونی سے آگاہ کرکے اسے ہائی الرٹ کر دیا۔

چلتے چلتے امریکی فلائٹ کا تذکرہ کرتے چلیں جو37سال بعد لوٹی تھی:جولائی1955ءکو پین ایم فلائٹ914نیوک یارک ایئر پورٹ سے میامی کے لیے پرواز بھرتی ہے۔ اڑان کے ہوا میں جانے کے تھوڑی دیر بعد طیارہ ریڈار سے غائب اور تمام رابطے منقطع ہو گئے۔ طیارہ میامی ایئر پورٹ بھی نہ پہنچ سکا۔ تمام وسائل بروئے کار لانے کے باوجود طیارے کا پتہ نہ چلایا جا سکا۔ یوں فضائی تاریخ میں ایک جہاز ہمیشہ کے لیے لاپتہ قرار دے دیا گیا لیکن اچانک یہ جہاز 37سال بعد عملے اور تمام مسافروں سمیت 16اکتوبر1992ءکو وینزویلا کے ایئر پورٹ پر اترا اور اپنے ہونے اور اترنے کا ثبوت ہاتھ سے لکھے 1955ءکے کیلنڈر کی صورت میں چھوڑ کر دوبارہ فضا میں چلا گیا تھا۔
اب 784 فلائٹ کی جہاں جہاں بھی یہ اطلاع پہنچ رہی تھی، کہیں سنسنی پھیل رہی تھی، کہیں پریشانی اور خوف کے سائے لہرانے لگتے تھے۔ کنٹرولر کو حواس برقرار رکھ کر سیچوئیشن کو کنٹرول کرنے کی ہدایت دی گئی۔
***
جہاز کے قریب گاڑی کھڑی مسافروں کے اترنے کی منتظر تھی۔ تین چار منٹ گزر جانے کے باوجود جہاز کا دروازہ نہیں کھلا۔ یہاں پہنچنے والے ایک بھی گراؤنڈ کریو کو علم نہیں تھا کہ یہ45سال قبل لا پتہ ہونے والا جہاز ہے۔جہاز کی چمک دمک کلر مونو سب برقرار تھا۔ پانچ منٹ بعد دروازہ کھلا اور ایک مسافر سیڑھیوں سے بڑی پھرتی کے ساتھ نیچے اتر کر گاڑی میں سوار ہو گیا۔ گراؤنڈ کریو مزید مسافروں اور عملے کے آف لوڈ ہونے کے منتظر تھے۔ سامان کے کیبن کے کھلنے کا بھی انتظار ہو رہا تھا جس کے لیے گاڑی موجود تھی مگر کوئی جہاز سے مسافر باہر آیا اور نہ عملے کا کوئی فرد جہاز سے نکلا۔ گاڑی کاکپٹ کا راؤنڈ لگا کر پائلٹس کے اترنے کی منتظر تھی ۔ اسی دوران روہن گپتا اکنٹرول ٹاور میں ذمہ داری اپنے جونیئر کے حوالے کر کے ٹارمک پر چلے آئے جہاں جہاز پارک کیا گیا تھا۔ گپتا نے نوٹ کیا کہ جہاز کے انجن بند ہو چکے ہیں۔جہاز کی لینڈنگ کے دوران لوگوں نے ایک حیران کن منظر یہ بھی دیکھا کہ جہاز کے انجنوں سے آواز نہیں آ رہی تھی۔
کافی وقت گزرنے کے بعد روہن گپتا بھی مسافروں کے باہر نہ آنے پر پریشان ہوگیا۔ وہ ابھی خوف کی کیفیت سے مکمل طور پر باہر نکل نہیں سکا تھا۔اسے ایک مسافر کے گاڑی میں منتقل ہونے کے بارے میں بتا دیا گیا۔وہ جہاز میں داخل ہونے کے لیے پہلی سیڑھی پر قدم رکھ ہی رہا تھا کہ سول ایوی ایشن کے ہیڈ شرما کی گاڑی وہاں آ کر رکی۔ اس کے ساتھ تین اور افراد بھی تھے۔ انہیں روہن گپتا نے مختصراً صورت حال کے بارے میں بتایا اور پوچھا” شرما جی! اب کیا کرنا ہے؟“
”آئیے دیکھتے ہیں“۔ یہ کہتے ہوئے شرما نے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ایوی ایشن کے ہیڈ شرما کے چہرے پر بھی خوف نمایاں تھا۔ مگر اسکے حواس کافی حد تک قابو میں تھے۔ وہ ایک دوسرے کے آگے پیچھے جہاز کے اندر چلے گئے۔ اس جہاز میں12عورتوں ، پائلٹس اور عملے سمیت چالیس افراد سوار تھے۔ 45 سال قبل جب فلائٹ لا پتہ ہوئی تھی تو اس وقت مسافروں کی یہی تعداد بتائی گئی تھی۔ انہوں نے گنتی تو نہیں کی مگر کسی بھی مسافر کے کم ہونے کا امکان نہیں تھا۔ گپتا اور شرما دونوں اندر پہنچے تو مسافر اپنی نشستوں پر براجمان تھے۔ مگر کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں تھی۔ کوئی آواز نہیں تھی‘ جہاز میں بالکل سناٹا تھا۔ ایک ایئر ہوسٹس آگے اور دوسری جہاز کے پچھلے جانب ساکت کھڑی تھی۔ مسافروں میں کوئی حرکت تھی تو صرف آنکھیں جھپکنے کی تھی۔ شرما اور روہن مسافروں کو دیکھتے ہوئے کاکپٹ کی جانب بڑھ گئے۔ بعد میں شرما نے بتایا کہ کاکپٹ کا دروازہ کھلا ہے۔میں نے دروازے کے اندر جھانکا پھر اندر داخل ہو گیا۔ پائلٹس کو نمستے کیا مگر دونوں میں سے کسی نے جواب نہیں دیا۔ میرے پیچھے روہن گپتا بھی آگئے۔انہوں نے پائلٹس سے کہا آئیے ، باہر چلیں تو دونوں بیک وقت بولے”نو“۔ پائلٹس نے جس لہجے میں جواب دیا‘ اس سے مجھ پر خوف سا طاری ہونے لگا۔ ہم ان سے مزید بات کرنا چاہتے تھے کہ معاون پائلٹ نے کہا You go please, we are in hurry. (مہربانی کرکے آپ چلے جائیں‘ ہم جلدی میں ہیں)۔ اسکی آواز میں لرزش کے ساتھ خوف بھی تھا۔ آواز کسی گہرے کنویں سے ہی آتی محسوس ہوئی۔ ہم کاکپٹ سے باہر نکل آئے۔ سامنے ایئر ہوسٹس کھڑی تھی۔جاتے ہوئے اس کے قریب سے گزرے تو اس کے لباس سے پروفیسی پرفیوم کی خوشبو آ رہی تھی۔ اس کے میک اپ اور ہیئر سٹائل دونوں سے تازگی جھلک رہی تھی۔ مگر چہرے پر کوئی تاثرات نہیں تھے۔ شاید ہمارے اندر کے خوف کی جھلک ہمیں ان کے چہروں پر نمایاں نظر آرہی تھی۔ ہم کاکپٹ سے جہاز کے درمیانی دروازے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ میں آہستہ اور لرزتی ٹانگوں اور ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ مسافروں پر نظر ڈالتے ہوئے چل رہا تھا۔ یہی حالت گپتا کی بھی تھی۔ چلتے چلتے میں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو تمام مسافر کسی خود کار مشین کی مانند ایک ہی طرح اور وقت میں ہماری طرف گردن گھما کر دیکھ رہے تھے جبکہ سامنے والے مسافروں کی نظریں بھی ہم پر تھیں۔ ان کی آنکھیں بھی خود کار طریقے سے ایک ردھم کے ساتھ جھپک رہی تھیں۔ دروازے کے قریب پہنچ کر اترنے کے بجائے تین چار قدم آگے بڑھا تو دیکھا کہ میرے پیچھے رہ جانے والے مسافروں کی گردن اور چہرے میری طرف گھوم چکے تھے۔ سامنے دوسری ایئر ہوسٹس کھڑی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک فائل تھی جو میں نے اسے اشارے سے مجھے دینے کو کہا۔ میرے اشارے کا اس نے کوئی رسپانس نہیں دیا۔ میں نے اس کے ہاتھ سے یہ فائل لی تو اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ یہاں مجھے ایک عجیب منظر کا مشاہدہ ہوا۔ اس کی آنکھوں سے گرتے آنسو اس کی گالوں سے ہوتے ہوئے اس کی گردن کے نیچے کہیں سما رہے تھے۔اس دوران ایئر ٹریفک کنٹرولر جہاز سے اتر چکا تھا۔ میں بھی گرتاپڑتا اتر کر مشکل سے گاڑی تک پہنچا اور خودکو مجتمع کرنے کی کوشش کی“۔
یہ شرما کی بتائی کہانی تھی۔ روہن گپتا کی سٹیٹمنٹ بھی اس سے ملتی جلتی تھی۔ جہاز سے اترنے والا ایک ہی مسافر تھا جو گاڑی میں موجود تھا۔ یہ کون ہے؟ ‘ اس نے کہاں جانا ہے‘ اسے گھر کیسے پہنچایا جائے۔ یہ سوالات انڈین ایوی ایشن کے سامنے تو بعد میں آتے فی الحال یہ سب شرما جی سوچ رہے تھے، جو خود ایک سوال بن چکے تھے۔
ادھر‘ اے ٹی سی میں پائلٹ شرما کی چینل نائن پر کال سنائی دی ۔ اس نے چینل 7 سے گارڈ چینل پر اپنی آر ٹی یعنی ریڈیو کیا ہوا تھا۔ اب وہ چینل نائن پر آچکا تھا جو انڈین ایئر لائنز کے لیے مختص تھا۔We want take off please, permit (ہم پرواز کرنا چاہتے ہیں‘ برائے مہربانی اجازت دیجئے) اس کے ساتھ ہی بغیر کسی شور کے انجن سٹارٹ ہوئے۔ وہی ایئر ہوسٹس دروازے پر نمودار ہوئی ، اس نے جہاز کا دروازہ بند کیا اور جہاز ٹارمک سے ٹیکسی کرتا ہوا رن وے کی طرف بغیر اے ٹی سی سے اجازت کی کال کے چل پڑا۔ جہاز کے دونوں انجن چل رہے تھے مگر ان کی آواز نہیں آ رہی۔ جہاز رن وے پر دوڑتا ہوتا ٹیک آف کرگیا۔ جہاز ریڈارکی سکرین پر نظر نہیں آرہا تھا۔ فیول باؤزر پہنچ چکی تھی لیکن ری فیولنگ نہیں کرائی گئی۔
***
جہاز سے اترنے والا واحد مسافر گاڑی میں بیٹھا تھا جو ہشاش بشاش تھا۔ 45 سال قبل گھر سے نکلنے والے اس مسافر کی عمر 25تیس سال سے زیادہ نہیں لگ رہی تھی ۔ اس کی تازہ شیو بنی ہوئی تھی۔اس کو کچھ علم نہیں تھا اس کے ساتھ کیا ہوا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔ اس کے ساتھ بڑی سمجھ داری اور احتیاط سے پیش آنا تھا جس کا انڈین ایوی ایشن کو مکمل ادراک تھا۔ اسے گاڑی میں بیٹھے زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس منٹ ہوئے تھے۔ اتنی دیر میں شرما جی کے حواس کافی حد تک بحال ہو چکے تھے۔ گپتا جی اے ٹی سی میں چلے گئے تھے۔ شرما نے مسافر کو لاؤنچ میں لے جانے کیلئے کہا۔ وہاں شفٹ انچارج افسر سے ملے‘ اسے کچھ ہدایات دیں جس پر اس افسر نے عمل کرتے ہوئے اس نوجوان کو اس کے گھر پہنچانا تھا‘ جو اس افسر کیلئے مشکل کام نہیں تھا۔اس افسر کا نام شیر سنگھ تھا جس نے دو سال سائیکالوجی پڑھی تھی۔ کچھ عرصہ وہ ایک سائیکالوجسٹ کا اسسٹنٹ رہ چکا تھا۔ یہ تجربہ اب اس کے کام آرہا تھا۔ شیر سنگھ اس نوجوان کے پاس گیا اور کہا ” ڈاکومنٹس پلیز“ جس پر اس نے اپنے ہینڈ بیگ سے ڈاکو منٹس نکال کر شیر سنگھ کے حوالے کرتے ہوئے گھمبیر لہجے میں اوکے اوکے کہا۔ نوجوان کے چہرے پر جتنی رونق اور بشاشت تھی‘ اتنی ہی اس کی آواز میں نقاہت اور مُرونی تھی اس کی آواز دور کہیں صحرا سے آتی ہوئی محسو س ہو رہی تھی، جو شیر سنگھ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی بن کر اتری تھی۔ ڈاکو منٹس پر شیر سنگھ کی نظر پڑی تو جو چیزیں اس نے نوٹ کیں ان میں سب سے اہم اس مسافر کا نام اور سن پیدائش تھا۔ رامن اگر وال نامی اس مسافر کی پیدائش1952ءمیں ہوئی تھی۔ شیر سنگھ کی دستاویزات اور رامن کے چہرے پر نظر گئی تو دونوں میں واضح تفاوت تھا۔ ڈاکو منٹس کے مطابق رامن کی عمر70 تھی جبکہ چہرے سے وہ پچیس سال کا جوان لگ رہا تھا۔ لیکن شیر سنگھ کو جلد احساس ہو گیا کہ یہ سپیشل کیس ہے اور وہ 45سال قبل لا پتہ ہونے والے جہاز کا مسافر ہے۔
٭....٭....٭
رامن ہر دوسرے شخص کے ہاتھ میں واکی ٹاکی دیکھ کر حیران ہو رہا تھا جسے وہ جدید واکی ٹاکی سیٹ سمجھ رہا تھا وہ دراصل موبائل فون تھے۔ جن کا80 ءکی دہائی میں نام و نشان بھی نہیں تھا۔ شیر سنگھ نے اس کے گھر کا ایڈریس نوٹ کیا اور ایوی ایشن کی گاڑی میں بٹھا کر اسے گھر چھوڑنے خود ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ گیا اور اس کے لیے خیر اور آنے والے حالات کی بہتری کیلئے دعائیں کرنے لگا۔ اس کا گھر آدھے گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا۔ اللہ اللہ کر کے رامن کا گھر آگیا۔ اس کا گھر کیا آنا تھا بلکہ اس کی آزمائش شروع ہونا تھی۔اس وقت شام کے5 بج رہے تھے۔ گھر کی بیل دی گئی۔ چند ثانیے بعد ڈھلتی عمر کی مگر جاذب نظر اور خوبصورت عورت نے دروازہ کھولا۔ وہ شاید کسی تقریب میں جانے کے لیے تیار ہوئی تھی یا تقریب سے واپس آئی تھی، چہکتی صورت نارنجی ساڑھی‘ ہلکا میک اپ کیا ہوا تھا۔ رامن نے اسے دیکھا اور حیرانگی سے دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ اس کی خوبصورتی میں کھو کر حیران نہیں تھا بلکہ اسکے اپنے گھر کے اندر سے برآمد ہونے پر پریشانی ہو رہی تھی۔ بڑی مشکل سے پوچھ پایا آپ کون یہاں کیسے؟
رامن کے ساتھ جانے والے افسر کا کہنا تھا کہ رامن کی آواز اور لہجے میں شکست خوردگی ،لرزش اورعجب طرح کا تلاطم دیکھ کر وہ خاتون تھوڑی نروس ہوئی خوف کی پرچھائی اس کے چہرے پر نمایاں ہو چکی تھی۔ رامن کے سوال پر اس نے زیادہ غور نہیں کیا ‘ وہ اس آواز کو سن کر متوحش ہو رہی تھی۔ کچھ ثانیے بعد بولی۔۔۔ میں اوم پرکاش کی وائف ڈاکٹر چندنا رامن ہوں۔ آپ نے کس سے ملنا ہے؟ ”اوم پرکاش کی وائف“ یہ سن کر رامن کو پہلا جھٹکا لگا۔ اس نے غور سے پہلے چندنا کو دیکھا پھر اپنے گھر اور اردگرد کا جائزہ لیا۔ اوم پرکاش کی عمر تو تین سال ہے۔یہ عورت اسکی وائف؟ رامن بڑبڑا رہا تھا۔45 سال قبل جب یہ یہاں سے گیا تھا تو دروازے کے ساتھ لگی تختی پر ”رامن اگروال‘ ‘ لکھا تھا مگر اب وہاں اوم پرکاش رامن کی تختی آویزاں تھی۔ اردگرد کا ماحول بھی بدل چکا تھا۔ گھر کے باہر کا نقشہ بھی پہلے جیسا نہیں تھا۔ یہ سب کچھ رامن نے چند لمحوں میں نوٹ کر لیا۔
٭....٭....٭
رامن کے کل اور آج کے درمیان پورے 45 سال حائل تھے۔ جس کا خود اسے اور وہاں کھڑے شیر سنگھ کے سوا کسی کو علم نہیں تھا۔رامن نووائیڈا کی بینن اینڈ کینن فرنیچر فرم میں ایم بی اے میں ٹاپ کرنے کے بعد مینیجر کے طور پر تین سال سے کام کر رہا تھا۔ اس کی انیتا نامی لڑکی سے کالج میں دوستی ہوئی جو محبت میں بدل گئی جس کے بعددونوں لو میرج کے بندھن میں بندھ گئے۔ جب وہ گھر سے گیا تھا تو اوم اس کی اکلوتی اولاد تھے۔ انیتا اور رامن کی یہی کل کائنات تھی۔ رامن کو کمپنی کی طرف سے فرنیچر ڈیزائنگ اینڈ ایکسپورٹ ورکشاپ میں شرکت کے لیے بمبئی بھیجا گیا تھا۔ وہاں سے ایک روز بعد واپسی تھی۔ اس نے ورکشاپ اٹنڈ کی‘ اگلے روز فلائٹ نمبر 784سے واپسی ہونی تھی۔ اس کے نووائڈہ سے جانے اور آنے کے درمیان45 سال مخل ہو گئے جس سے رامن لاعلم تھا مگر اب اسے یہ پتہ چل گیا تھا کہ اسکے ساتھ کچھ انہونی ہو چکی ہے۔
ممبئی میں ورکشاپ کے دوران اس کی دہلی سے آنے والی اسی فیلڈ سے متعلقہ ارم سے راہ و رسم ہوئی تھی۔ کیفے ٹیریا میں رامن نے اس کی گھڑی کی تعریف کی تو ارم نے اومیگا کی گھڑی اتار کر اسے گفٹ کر دی۔رامن یہ گفٹ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن ارم کے اصرار پر اسے یہ تحفہ قبول کرتے ہی بنی۔
رامن وضعدار نوجوان تھا، اس نے اپنی گھڑی اتار کر ایسی لجاجت سے اس کی طرف بڑھائی کہ وہ انکار نہ کر سکی۔ ارم کی دی ہوئی گھڑی رامن کی کلائی پر اب بھی سجی تھی۔ دونوں نے اپنی اپنی کمپنی کے فون نمبر بھی شیئر کئے تھے۔ فلائٹ784کے لاپتہ ہونے کی خبر دنیا بھر میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ارم کو پتہ چلا تو اس نے کمپنی کے نمبر پر فون کرکے رامن کے گھر کا ایڈریس لیا۔ وہ نووائڈہ گئی اور رامن کے خاندان سے ملی۔ اس نے گھڑیوں کے تبادلے کی سٹوری رامن کے والد والدہ اور وائف انیتا کو بتائی تھی۔
رامن کی ماتااور پتا اس کے بچھڑنے کے غم میں اگلے دو تین سال میں انتقال کر گئے تھے۔ فلائٹ 784کے لاپتہ ہونے کے بعد اس کی تلاش کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن جب ملائشیا کے ایم ایچ470 کی طرح اس کا بھی کوئی سراغ نہ مل سکا تو یہ تصور کر لیا گیا کہ پائلٹس اور عملے سمیت تمام مسافر جہاز کے گر کر تباہ ہونے سے موت کی وادی پہنچ چکے ہیں۔ کمپنی اور ایئر لائنز نے رامن کے گھر والوں کو سپورٹ کیا جس سے گھر میں مالی حالات کبھی برے نہیں رہے۔ اوم پرکاش کی تعلیم بہترین تعلیمی اداروں میں مکمل ہوئی تھی۔ انیتا ایک عرصے سے اپنے پتی کی جدائی کے درد میں چارپائی سے لگ چکی تھی۔ ممبئی سے واپسی پر رامن نے انیتا کے لیے انگوٹھی خریدی تھی۔ جس کے نگ کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ بیماریوں سے بچاتا ہے، بلکہ بیچنے والے کا مبالغہ آمیز دعویٰ تھا کہ پہننے والا بوڑھا ہو تو جوان ہو جاتا ہے۔
٭....٭....٭
لڑکی نے اپنا نام بتانے کے بعد رامن سے پوچھا کہ آپ کون؟اور یہاں کیسے؟ آپ نے کس سے ملنا ہے؟ رامن سوچوں میں گم تھا۔ خاتون کے اس سوال پر اسے دوسرا جھٹکا لگا۔ وہ پریشان تھا کہ اس سے اپنے گھر کی دہلیز پر پوچھا جا رہا تھا کہ وہ کون ہے ‘ یہاں کیسے آیا اور کس سے ملنا ہے؟ شیر سنگھ نے چندنا کواشارہ کر کے خاموش رہنے کو کہا ۔ جس کے بعد چندنا نے اپنے سوال پر زور نہیں دیا۔
حیران و پریشان کھڑے رامن نے لرزیدہ آواز میں کہا۔" میں رامن ہوں۔ آپ مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہیں جبکہ یہ میرا گھر ہے۔ آپ خود کو اوم کی وائف بتا رہی ہیں ۔ وہ تو تین سال کا ہے۔"
خدا نہ کرے سمجھا کرے کوئی
شیر سنگھ گہری سوچوں میں گم پریشان کھڑا تھا۔اب اس نے دونوں کی الجھن کو دور کرنے کا ارادہ کر لیا۔”بیٹھ کے بات کرتے ہیں“ یہ کہتے ہوئے شیر سنگھ تھوڑا آگے بڑھا تو چندنا نے اندر آنے کا راستہ چھوڑ دیا۔ دونوں چندنا اور رامن ایک دوسرے سے بڑھ کر حیران پریشان تھے۔ رامن کو گھر کے اندر بھی تبدیلیاں نظر آئیں۔ تینوں جاکر ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے۔ شیر سنگھ کے پاس لمبی چوڑی سٹوری نہیں تھی۔ اس نے چندنا کو45سال قبل لاپتہ ہونے والے جہاز اور آج اس کے اسی شہر میں اترنے کی سٹوری سنا دی۔شیرسنگھ کے الفاظ دونوں کے دل و دماغ پر پتھر کی طرح گر رہے تھے۔ چندنا کو یہ تو معلوم تھا کہ اس کا سسر پلین کریش میں دیگر 40 لوگوں کے ساتھ لاپتہ ہو گیا تھا مگر اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایک دن واپس آئے گا اور زندہ سلامت اسکے سامنے بیٹھ جائیگا۔ اسکی عمر چالیس45 سال تھی۔ اس کا سسر 25سال کا خوبرو نوجوان تھا۔شیر سنگھ کی بات ختم ہوئی تو بہو (چندنا )اور سسر (رامن) کی جو کیفیت تھی‘ اسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
جہاز سے اترا رامن تو نارمل تھا مگر اب اس نے جو سنا وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا جس نے اس کے دل و دماغ پر گہرا اثر کیا۔ توقف کے بعد اس نے پوچھا۔ ماتا، پتا اور انیتا کہاں ہیں“۔ پوچھتے ہوئے اسے یہ ڈر بھی لگ رہا تھا کہ نہ جانے ان میں سے کس کے بارے میں بری خبر ہو۔ انیتا آنٹی ٹھیک ہیں‘ ہمیشہ آپ کو یاد کرتی رہتی ہیں۔ ماتا جی اور پتا جی بڑھاپے کی وجہ سے بھگوان کے پاس چلے گئے۔ چندنا نے بڑھاپے کی وجہ سے موت کا اس لئے بتایا کہ رامن کو زیادہ صدمے سے دو چار نہ ہونا پڑے کہ اسکے ماتا پتا اسکے غم میں اس دنیا سے چلے گئے۔ ”انیتا کہاں ہیں“ رامن نے پوچھا۔
میں انہیں یہیں لے کر آتی ہوں۔ چندنا نے کہا۔
میں ساتھ چلتا ہوں۔ رامن یہ کہتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔ مگر چندنانے تھوڑا سا اصرار کر کے رامن کو وہیں بیٹھنے پر آمادہ کر لیا۔ شیر سنگھ بھی سمجھ گیاکہ چندنا کیوں رامن کو ساتھ نہیں لے گئی۔کہیں انیتا خوشی سے مر ہی نہ جائے۔ شادی مرگ اسی کو کہتے ہیں۔انیتا کے دل و دماغ میں رامن کا وہی خاکہ ہوگا جبکہ رامن کے من میں بھی 45سال قبل کی حسین و جمیل خوبرو لڑکی کا ہونا فطری امر تھا۔ مگر انتیا ستر سال کی عمر کراس کر چکی تھی۔ شیر سنگھ نے یہاں اپنے نفسیات کے علم کو بروئے کار لاتے ہوئے کہا۔ ”رامن آپ نوجوان ہو۔ انیتا بھابھی ستر سال کی ہیں۔ آپ کو کیسی لگیں گی“۔ اس پررامن ہلکے اور پھیکے سے انداز میں مسکرا دیا۔ انیتا کی آمد میں دیر ہونے پر رامن تھوڑا کسمسایا پھر تھوڑا بے چین ہوا اور پھر اس کے چہرے سے اضطراب نمایاں ہونے لگا۔ وہ شاید شک میں پڑ گیا تھا کہ انیتا دنیا میں ہے بھی یا نہیں۔شادی مرگ کا اندازہ چندنا کو بھی تھا۔ اس نے جاتے ہی تو نہیں بتادیا ہوگا کہ رامن 45 سال بعد لوٹ آیا ہے۔ پہلے اس نے انتیا سے یہ پوچھا ہوگا کہ رامن لوٹ آئے تو آپ کو کیسا لگے گا۔
چند منٹ بعد ڈرائنگ روم کی طرف آتے قدموں کی مدھم مدھم چاپ سنائی دی۔ رامن کی 45سال کی کہانی سننے کے بعد جو حالت ہوگئی تھی اس کی ڈھارس بندھانے کے لیے کسی ہمدم کی ضرورت تھی۔ وہ اہلیہ کے سوا اور کوئی بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔ دبے قدموں سے چلتی ہوئی انیتا ڈرائنگ روم میں داخل ہوا ہی چاہتی تھی کہ شیر سنگھ ست سری اکال کہتے ہوئے کمرے سے نکل گیا۔ قبل ازیں اس نے چندنا کو اپنا موبائل فون دیدیا اور اس کا لے لیا تھا۔چندنا ڈرائنگ روم میں نہیں آئی۔ انیتا دروازے کے اندر قدم رکھ کر رک گئی۔ اس کے سامنے وہی45سال قبل کا انیتا کا نوجوان اور خوبرو شوہر کھڑا تھا۔ رامن کے سامنے اپنی ماتا کی عمر کی خاتون تھی جو اس کی محبوبہ اور بیوی تھی۔ رامن تیزی سے آگے بڑھا۔ دونوں گلے لگ گئے۔ رامن حوصلے میں تھا‘ اسے جدائی کے داغ کا تجربہ نہیں تھاجبکہ انیتا نے 45سال کا ہر لمحہ اپنے شوہر کی جدائی کے دکھ اور درد میں جل جل کے گزارہ تھا۔ وہ بے ساختہ اور بے باختہ روئے جا رہی تھی۔ رامن کو اس کے جذبات کا احساس تھا۔ وہ گھٹی گھٹی اور دبی دبی آواز میں اسے تسلی دے رہا تھا۔ اونچی آواز میں اس لیے بات نہیں کر رہا تھا کہ اس کی آواز اب عام انسانوں جیسی نہیں تھی۔ تھوڑی دیر بعد رو رو کے انیتا خود کوہلکا پھلکا اور دنیا کی خوش قسمت ترین عورت محسوس کر رہی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ گئے۔ اسی دوران چندنا بھی آگئی۔ جس نے رامن کو بتایا کہ اوم اسی کمپنی میں جنرل مینیجر ہے۔ اسے بڑی آفرز آئیں مگر پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اس نے بینن اینڈ کینن میں ملازمت کرنے کو ترجیح دی۔
اس وقت شام رات میں ڈھل رہی تھی۔ اوم کو فون پر اطلاع دے دی گئی تھی۔ اس نے ہوسٹل سے اپنی بیٹی اور بیٹے کو لیا اورفوراً گھر آ گیا۔ وہ اس ملن کو وہ چمتکار اورکرشمہ قرار دیتے تھے۔
٭....٭....٭
جہاز کے اس طرح نووائڈا ایئر پورٹ پر اترنے کی خبر بھی اس کے غائب ہونے کی طرح دنیا بھر میں پھیل گئی۔ فلائٹ784کے ساتھ لاپتہ ہونے والے مسافروں‘ پائلٹس اور عملے کے عزیز اقارب اس خاندان کی قسمت پر رشک کررہے تھے۔ ان میں سے کئی نے رامن سے ملاقات کی۔ ان کو اپنے گمشدہ پیاروں کے بارے میں معلومات سے دلچسپی تھی۔ اب ان کو یہ امید مل گئی تھی کہ رامن کی طرح ان کے پیارے بھی کسی وقت لوٹ کر آ سکتے ہیں۔ ان سے ملنے کے لیے آنے والوں کے سامنے رامن ایک ہی سٹوری دہراتا اور بتاتا کہ میں ان لوگوں میں سے کسی کو بھی نہیں جانتا تھا اور پھر میں جہاز میں رہا ہی کتنی دیر ہوں‘ صرف ڈیڑھ دو گھنٹے۔ اس دوران واش روم تک گیا نہ کچھ کھایا اور پیا۔ اتنے وقت میں آس پاس بیٹھے انجانے مسافروں سے جان پہچان کیسے ہو سکتی تھی۔
رامن کو اب زندگی سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ وہ ہر وقت سوچوں میں گم رہتا۔اس کے گھر کے سارے افراد اس کی خدمت اور اسے خوش رکھنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں و سرگرداں رہتے ۔ انیتا کی عمر زیادہ تھی مگر وہ عام بوڑھی خواتین کے مقابلے میں خوبصورت دکھائی دیتی تھی۔ رامن اور انتیا کی عمر میں بہت زیادہ فرق نظر آتا تھا‘ رامن جوان ہوتے ہوئے بھی اپنی اٹھکھیلیاں کھو چکا تھا ۔
45سال کے گیپ نے رامن کے ذہن پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ اسے اوم نے بہتر سے بہتر ڈاکٹرز سائی کائٹرسٹ اور سائیکالوجسٹس سے علاج کرایا اور کونسلنگ کرائی مگر شاید رامن خود کو زندگی کی رعنائیوں کی طرف لانا نہیں چاہتا تھا۔ اور پھر وہ جس حالت میں اپنے ساتھی مسافروں کو چھوڑ کر آیا تھا ‘ جن کا وہ خود بھی حصہ تھا اس حادثے کے اثرات بھی اسکے دماغ پر موجود تھے۔ ہو سکتا ہے اس کے ذہن کے نہاں خانے میں ان مسافروں کے ساتھ جاملنے کی حسرت موجود ہو۔
یہ واقعہ ظاہر ہے حکومتی ایوانوں تک بھی جا پہنچا۔ وزیر اعظم نریندرمودی نے رامن سے ملاقات کی خواہش کی۔ اس پر رامن نے بالکل دلچسپی ظاہر نہیں کی جس پر نریندرمودی خود نووائیڈا میں ان کے گھر آئے۔ان کے ساتھ وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر خارجہ جے شنکر بھی تھے۔ ریاستی وزیراعلیٰ ان سے پہلے ہی رامن کے گھر کا وزٹ کر چکے تھے۔رامن کے گھر والے وزیراعظم کی آمد پر بڑے خوش اور مسرور تھے جبکہ رامن کے لیے یہ ملاقات ایسی ہی تھی جیسے لاپتہ ہونے والے جہاز میں موجود اپنے پیاروں کے بارے میں کوئی معلومات لینے آتا ہے۔
٭....٭....٭
رامن کو نارمل زندگی کی طرف لانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ نریندر مودی جی نے بھی ہر طرح کے تعاون اور مدد کی پیش کش کی مگر رامن کو الگ تھلگ، اکیلے اور خاموش رہنا پسند تھا۔ وہ عموماً خلاؤں میں گھورتا رہتا۔ وہ اپنے بیٹے ‘بہو ‘ انکی اولادوں اور اپنی وائف انیتا کے ساتھ گھل مل کر رہنے کی کوشش کرتا۔ ان کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ‘کھاتا پیتا مگر اپنی زندگی سے وہ 45 سال کا گیپ ختم نہیں کر پا رہا تھا۔دن گزر رہے تھے۔ گھر والے اس کے واپس آنے کو بھگوان کی کرپا قرار دیتے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ ایک دن وہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ آئے گا۔ وہ گھر سے باہر بھی کم کم ہی نکلتا‘اسے شاید اب اپنا یہی لائف سٹائل پسند آنے لگا تھا۔ نفسیاتی حوالے سے ڈاکٹرز رامن کی کونسلنگ کررہے تھے‘ جبکہ دوا دارو بھی جاری تھا مگر رامن کو کوئی افاقہ نہیں ہو رہا تھا۔
رامن کے گھر والوں کو انگلینڈ میں پریکٹس کرنے والے ماہر نفسیات ڈاکٹر لکشمن کے بارے پتہ چلا کہ وہ کلکتہ آرہے ہیں۔ ان کی بڑی شہرت تھی۔ کئی ماہرین نے بھی اسکے گھر والوں کو مشورہ دیا تھا وہ رامن کو ڈاکٹر لکشمن سے چیک کرالیں۔ رامن کو بتایا گیا تو وہ لیت و لعل کے بعد کلکتہ جانے پر آمادہ ہو گیا۔ اسکے ساتھ دونوں اوم اور چندنا بھی کلکتہ جارہے تھے۔ 16 اکتوبر 2024ءکی شام 4بجے کی ٹکٹس بک کرا لی گئیں۔ ڈاکٹر لکشمن سے 17 اکتوبر کی صبح نو بجے کی اپوائنٹمنٹ ملی تھی۔ ہوٹل گرینڈ میں سوئیٹ بک کرا لیا گیا تھا۔ فلائٹ سے ایک گھنٹہ قبل یہ لوگ اپنی گاڑی پر گھر سے نکل پڑے۔ سب کچھ نارمل ہورہا تھا۔ لاؤنج میں پہنچے تو سب مسافروں اور ایئرپورٹ کے ملازموں کی نظریں رامن پر جمی تھیں۔ شیر سنگھ جو اس خاندان کے ساتھ رابطے میں رہتا تھا‘اس نے ان کا استقبال کیا۔ دوسرے مسافروں کے ساتھ بورڈنگ وغیرہ کا پراسس مکمل ہونے کے بعد ایوی ایشن کی گاڑی مسافروں کو جہاز کی طرف لے گئی۔ مسافر گاڑی سے اتر کر جہاز پرسوار ہونے لگے۔ رامن کی عجیب سی کیفیت ہو رہی تھی۔ اس کے ہاتھ میں وہی بیگ تھا جس میں اس کے سفری ڈاکومنٹس ہوا کرتے تھے۔ یہاں پر اس کا رویہ غیر معمولی اور حیرت انگیز تھا۔ چندنا نے ایک دو مرتبہ رامن کی کیفیت بھانپتے ہوئے پوچھا بھی کہ پاپا کیا ہوا ہے۔جس پر رامن نے بڑی آہستگی سے کہا‘ کچھ نہیں.... مگر ایک نوجوان کو چالیس پنتالیس سال کی عورت کے پاپا کہنے پر ساتھ کھڑے مسافروں کے چہروں پر مسکراہٹ ضرور آگئی تھی۔
رامن کے رویے اور متلاشی نظروں سے لگ رہا تھا کہ اسے کسی کی تلاش ہے۔ وہ اپنے اردگرد دیکھتا اور کبھی آسمان کی طرف دیکھنے لگ جاتا ہے۔ مسافر جہاز میں سوار ہو رہے تھے۔ چندنا آگے اور رامن پیچھے تھا۔ اسی دوران ایک بے آواز جہاز لینڈ کرنے کے بعد ٹیکسی کرتا ہوا ٹارمک پر آ تا نظر آیا۔ رامن کا ایک قدم ابھی پہلی سیڑھی پر دوسرا فرش پر تھا۔ جہاز ان سے تقریباً دو سو میٹر کے فاصلے پر رکنے کیلئے رینگ رہا تھا۔ اسی دوران رامن نے اپنا بیگ کھولا۔ اس بے آواز اور پراسرار جہاز نے سوار ہوتے تمام مسافروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی۔ جہاز آہستہ آہستہ چل رہا تھا مگر آواز اتنی ہی تھی جتنی الیکٹرک گاڑیوں اور الیکٹرک بائیک کی ہوتی ہے۔ ادھر جہاز رک رہا تھا اُدھر رامن نے اپنا بیگ کھول کر اس میں سے ایک ڈبیہ نکالی اور اوم کو تھماتے ہوئے کہا یہ انگوٹھی اپنی ماتا کو دے دینا۔ انگوٹھی پکڑتے ہوئے اوم ایک دم ششدر رہ گیا۔ چندنا کی کیفیت بھی کچھ اسی طرح کی نظر آرہی تھی۔ معاً رامن سیڑھی پر رکھے اپنے پاؤں فرش پر اتارتے ہوئے ان کے درمیان سے نکل کر بے آواز جہاز کی طرف دوڑ پڑا۔اب جہاز تک چکا تھا۔اس کے جہاز کے قریب پہنچنے تک دروازہ کھل چکا تھا۔ ایئر ہوسٹس دروازے میں کھڑی تھی۔ جہاز پر سیڑھی موجود نہیں تھی۔ ایئر ہوسٹس نے دروازے سے جھکتے ہوئے، اپنا ہاتھ نیچے تک پھیلا دیا تاکہ رامن کو سہارا دے سکے۔ رامن نے زقند بھری اور اپنا دایاں ہاتھ اوپر اٹھا دیا ۔ایئر ہوسٹس رامن کا ہاتھ تھام کر روئی کے گالے کی مانند اسے اوپر اٹھا کر جہاز کے اندر لے گئی اور جہاز کا دروازہ بند ہو گیا۔ جہاز نے رن وے پر دوڑنا شروع کر دیا اور پل بھر میں آسمان کی طرف پرواز کرتے ہوئے زمین پر کھڑے لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوگیا جو زمین پر بے سدھ کھڑے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔یہ جہاز نہ ریڈ ار میں نظر آیا اور نہ کسی موبائل اور سی سی ٹی وی کیمرے نے اسکی پرواز کو ریکارڈ کیا۔ البتہ رامن کا لائن میں کھڑے ہونا اور بھاگ کر پراسرسر جہاز تک پہنچنا ایئرپورٹ پر لگے تمام کیمروں میں ریکارڈ ہو گیا تھا۔
جس طرح فلائٹ 784 نے ایک بار پھر لینڈ کیا اور رامن کو لے کر ٹیک آف کر گئی۔ یہ خبر دنیا بھر کے مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر پلک جھپکنے میں پھیل گئی۔ اس پراسرار واقعے سے پاکستان میں موجود وزیر خارجہ جے شنکر کو آگاہ کیا گیا۔ وہ 16 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے اختتام پر پاکستان کے پردھان منتری کی طرف سے شرکاءکو دیئے گئے ظہرانے میں شریک تھے۔ ان کو جیسے ہی اطلاع ملی وہ سے معذرت کرتے ہوئے اپنے ملک واپس چلے گئے۔ اس پر سوال کیا جا سکتا ہے کہ جے شنکر کو اطلاع کیوں دی گئی۔ یہ تو ایک معمولی واقعہ تھا۔ یہ اطلاع صرف جے شنکر کو ہی نہیں دی گئی بلکہ ہر متعلقہ اعلیٰ آفس اور سٹیک ہولڈر کو دی گئی تھی یہ سول ایوی ایشن ایکٹ کا تقاضا تھا۔
1999ءمیں کھٹمنڈو سے دہلی جانے والی پرواز اغوا ہو گئی جو پاکستان لائی گئی۔ اس سے قبل جہاز امرتسر میں ری فیولنگ کے لیے اتارا گیا تھا۔ پھر وہاں سے جہاز بغیر ری فیولنگ کے ہوا میں اڑا دیا گیا۔ اس موقع پر متعلقہ حکام اور اداروں کو اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ بہت سے اعلیٰ افسران کو یہ اطلاع ٹی وی اور ریڈیو چینلز کی خبروں ملی تھی۔ اسے بہت بڑی کوتاہی قراردیا گیا ۔بعد میں انڈین سول ایوی ایشن ایکٹ میں ترمیم کر دی گئی۔ جس کے بعد سے ایسے واقعات فوری طور پر حکام کے علم میں لائے جاتے ہیں۔
جہاز سمیت اس میں سوار مسافروں کے لاپتہ ہونے والے لواحقین کی طرح اب رامن کے اہل خانہ بھی اسکی واپسی کی آس اور امید میں کبھی نہ ختم ہونے والی گھڑیوں کے ساتھ بندھ گئے۔ انہیں انکے زندہ ہونے کا یقین تو ہے ‘ اور رامن کی طرح ایک دن واپسی کی امید بھی‘ مگر انکی زندگی میں وہ دن کب آئیگا‘ اس کا کسی کو بھی یقین نہیں۔قارئین!کیسی لگی آپ کو ہماری یہ ناولٹ سٹوری ؟
اگاہ کیجیے وٹس ایپ نمبر +923334215368

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Shaffak Lens posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Shaffak Lens:

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share