07/01/2025
انڈین فلائٹ کی45سال بعد واپسی
فضل حسین اعوان
https://youtu.be/7eNnJyn3wZE?si=fr2D3lRtlSjJt-CL
”ہیلو“۔ گارڈ چینل پر کال آئی تو ایئر ٹریفک کنڑول روم میں بیٹھے روہن چاولہ کو حیرانی ہوئی۔ گارڈ چینل ایمرجنسی میں استعمال ہوتا ہے جس کی فریکوئنسی243میگا سائیکل ہے۔ اگلے الفاظ چاولہ کے لیے پریشان کن تھے۔ ہیئر فلائٹ 784 اینڈ می کیپٹن شرما، روہن شرما“۔ اتفاق سے کنٹرولر اور پائلٹ کا نام روہن تھا۔ کنٹرولر کو پریشانی اس لیے ہوئی کہ یہ پرواز 16 اکتوبر 1977ءسے فضا میں جانے کے کچھ دیر بعد لا پتہ ہوگئی تھی۔ اسے بھارت کے شہر نووائڈا سے ممبئی آنا تھا مگر پرواز کے صرف سات منٹ بعد اس کا دونوں کنٹرول ٹاورز سے رابطہ اچانک منقطع ہو گیا۔ متعدد اپریشنز کے باوجود اس فلائٹ کا کوئی پتہ نہ چل سکا۔ آ ج 45 سال بعد اس فلائٹ کا پائلٹ اپنا تعارف کروا رہا ہے۔ یہ سن کر نووائڈا ایئر پورٹ کے ٹاور میں بیٹھے روہن کے جسم میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ اس نے ایک امریکی جہاز کے37سال بعد واپسی کی کہانی بھی پڑھ رکھی تھی۔ اگلے ہی لمحے پائلٹ کے لہجے نے اسے خوفزدہ کر دیا۔ آپ چینل 7 پر نہیں تھے‘ تو مجھے گارڈ چینل پر آنا پڑا۔ چینل سیون آٹھ دس سال سے استعمال نہیں ہو رہا۔اس کے بجائے انڈین ایئر لائنز ریڈیو چینل نائن استعمال کر رہی تھی۔ پائلٹ کا یہ کہنا حیران کن تو تھا ہی مگر روہن گپتا کے خوف کی وجہ پائلٹ کے بولنے کا لہجہ تھا۔ یو ں لگ رہا تھا پائلٹ روہن خوفزدہ ہے۔ اس کی آواز کی باز گشت اس کے خوف میں اضافہ کر رہی تھی۔ روہن نے وائس اوپن کر کے اشارے سے اپنے جونیئر علی کو متوجہ کیا۔ اس وقت گپتا کا چہرہ حیرانی اور پریشانی سے خوف زدہ تھا اور ماتھاپسینہ پسینہ ہو چکا تھا۔ اسے خود پر کپکپی طاری ہوتی محسوس ہورہی تھی۔ ایسی آواز اس نے کبھی نہیں سنی تھی۔
”ہم لینڈ کرنا چاہتے ہیں“ یہ دوسرے پائلٹ کی آواز تھی۔ اس نے اپنا نام مانک جہانگیر بتایا۔ اس کی آواز سن کر لگا جیسے وہ گہرے کنویں سے بول رہا ہے۔ کنٹرول روم میں موجود روہن کے ساتھ علی اور اسکے تین اسسٹنٹ بھی اس صورت حال سے خوفزدہ ہو رہے تھے۔ دونوں پائلٹ باری باری بول رہے تھے جس سے ساؤنڈ پروف اس کمرے میں باز گشت والی آواز خوف بڑھائے جا رہی تھی۔ کنٹرول روم میں بیٹھے سب اتنے خوفزدہ ہو گئے کہ ان کیلئے پائلٹس کی کال کا جواب دینا بھی مشکل ہو گیا۔ You are 45 years late (آپ 45 سال کی تاخیر سے ہو)
اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے علی نے الجھنے کے بجائے لرزتے لہجے میں جواب دیا۔Ok, you can land from same direction, you are approching. (آپ اسی سمت میں اتر سکتے ہو‘جو آپ کے قریب ہے)
کنٹرول ٹاور میں ہونے والی خوفناکی اور ہولناکی میں جو کسر رہ گئی تھی وہ پائلٹس کے ساتھ گفتگو کے دوران ایک خاتون کی پس منظر میں آنے والی آواز نے پوری کر دی جومسافروں سے کہہ رہی تھی کہ سیٹ بیلٹس باندھ لیجئے۔ وہ ایئر ہوسٹس ہو سکتی تھی۔
وٹ! ہم تو 45 منٹ بھی لیٹ نہیں تم 45 سال کی بات کر رہے ہو۔ یہ پائلٹ روہن شرماکی آواز تھی جس میں حیرانگی تھی۔ اس کے بعد کنٹرول روم سے اس پر زیادہ بحث نہیں کی گئی۔ جہاز کو لینڈنگ کی اجازت دینے کے بعد متعلقہ گراؤنڈ فسیلیٹیز کے لیے کہہ دیا گیا۔ چند منٹ بعد جہاز لینڈ کر گیا۔ پائلٹ کو جو انفارمیشن درکار تھی کنٹرولر نے اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے اسے فراہم کر دی۔ چند لمحوں بعد ایئرپورٹ کی گاڑی مسافروں کو لینے پہنچ گئی۔ اس دوران کنٹرولرنے ہائر اتھارٹی کو اس انہونی سے آگاہ کرکے اسے ہائی الرٹ کر دیا۔
چلتے چلتے امریکی فلائٹ کا تذکرہ کرتے چلیں جو37سال بعد لوٹی تھی:جولائی1955ءکو پین ایم فلائٹ914نیوک یارک ایئر پورٹ سے میامی کے لیے پرواز بھرتی ہے۔ اڑان کے ہوا میں جانے کے تھوڑی دیر بعد طیارہ ریڈار سے غائب اور تمام رابطے منقطع ہو گئے۔ طیارہ میامی ایئر پورٹ بھی نہ پہنچ سکا۔ تمام وسائل بروئے کار لانے کے باوجود طیارے کا پتہ نہ چلایا جا سکا۔ یوں فضائی تاریخ میں ایک جہاز ہمیشہ کے لیے لاپتہ قرار دے دیا گیا لیکن اچانک یہ جہاز 37سال بعد عملے اور تمام مسافروں سمیت 16اکتوبر1992ءکو وینزویلا کے ایئر پورٹ پر اترا اور اپنے ہونے اور اترنے کا ثبوت ہاتھ سے لکھے 1955ءکے کیلنڈر کی صورت میں چھوڑ کر دوبارہ فضا میں چلا گیا تھا۔
اب 784 فلائٹ کی جہاں جہاں بھی یہ اطلاع پہنچ رہی تھی، کہیں سنسنی پھیل رہی تھی، کہیں پریشانی اور خوف کے سائے لہرانے لگتے تھے۔ کنٹرولر کو حواس برقرار رکھ کر سیچوئیشن کو کنٹرول کرنے کی ہدایت دی گئی۔
***
جہاز کے قریب گاڑی کھڑی مسافروں کے اترنے کی منتظر تھی۔ تین چار منٹ گزر جانے کے باوجود جہاز کا دروازہ نہیں کھلا۔ یہاں پہنچنے والے ایک بھی گراؤنڈ کریو کو علم نہیں تھا کہ یہ45سال قبل لا پتہ ہونے والا جہاز ہے۔جہاز کی چمک دمک کلر مونو سب برقرار تھا۔ پانچ منٹ بعد دروازہ کھلا اور ایک مسافر سیڑھیوں سے بڑی پھرتی کے ساتھ نیچے اتر کر گاڑی میں سوار ہو گیا۔ گراؤنڈ کریو مزید مسافروں اور عملے کے آف لوڈ ہونے کے منتظر تھے۔ سامان کے کیبن کے کھلنے کا بھی انتظار ہو رہا تھا جس کے لیے گاڑی موجود تھی مگر کوئی جہاز سے مسافر باہر آیا اور نہ عملے کا کوئی فرد جہاز سے نکلا۔ گاڑی کاکپٹ کا راؤنڈ لگا کر پائلٹس کے اترنے کی منتظر تھی ۔ اسی دوران روہن گپتا اکنٹرول ٹاور میں ذمہ داری اپنے جونیئر کے حوالے کر کے ٹارمک پر چلے آئے جہاں جہاز پارک کیا گیا تھا۔ گپتا نے نوٹ کیا کہ جہاز کے انجن بند ہو چکے ہیں۔جہاز کی لینڈنگ کے دوران لوگوں نے ایک حیران کن منظر یہ بھی دیکھا کہ جہاز کے انجنوں سے آواز نہیں آ رہی تھی۔
کافی وقت گزرنے کے بعد روہن گپتا بھی مسافروں کے باہر نہ آنے پر پریشان ہوگیا۔ وہ ابھی خوف کی کیفیت سے مکمل طور پر باہر نکل نہیں سکا تھا۔اسے ایک مسافر کے گاڑی میں منتقل ہونے کے بارے میں بتا دیا گیا۔وہ جہاز میں داخل ہونے کے لیے پہلی سیڑھی پر قدم رکھ ہی رہا تھا کہ سول ایوی ایشن کے ہیڈ شرما کی گاڑی وہاں آ کر رکی۔ اس کے ساتھ تین اور افراد بھی تھے۔ انہیں روہن گپتا نے مختصراً صورت حال کے بارے میں بتایا اور پوچھا” شرما جی! اب کیا کرنا ہے؟“
”آئیے دیکھتے ہیں“۔ یہ کہتے ہوئے شرما نے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ایوی ایشن کے ہیڈ شرما کے چہرے پر بھی خوف نمایاں تھا۔ مگر اسکے حواس کافی حد تک قابو میں تھے۔ وہ ایک دوسرے کے آگے پیچھے جہاز کے اندر چلے گئے۔ اس جہاز میں12عورتوں ، پائلٹس اور عملے سمیت چالیس افراد سوار تھے۔ 45 سال قبل جب فلائٹ لا پتہ ہوئی تھی تو اس وقت مسافروں کی یہی تعداد بتائی گئی تھی۔ انہوں نے گنتی تو نہیں کی مگر کسی بھی مسافر کے کم ہونے کا امکان نہیں تھا۔ گپتا اور شرما دونوں اندر پہنچے تو مسافر اپنی نشستوں پر براجمان تھے۔ مگر کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں تھی۔ کوئی آواز نہیں تھی‘ جہاز میں بالکل سناٹا تھا۔ ایک ایئر ہوسٹس آگے اور دوسری جہاز کے پچھلے جانب ساکت کھڑی تھی۔ مسافروں میں کوئی حرکت تھی تو صرف آنکھیں جھپکنے کی تھی۔ شرما اور روہن مسافروں کو دیکھتے ہوئے کاکپٹ کی جانب بڑھ گئے۔ بعد میں شرما نے بتایا کہ کاکپٹ کا دروازہ کھلا ہے۔میں نے دروازے کے اندر جھانکا پھر اندر داخل ہو گیا۔ پائلٹس کو نمستے کیا مگر دونوں میں سے کسی نے جواب نہیں دیا۔ میرے پیچھے روہن گپتا بھی آگئے۔انہوں نے پائلٹس سے کہا آئیے ، باہر چلیں تو دونوں بیک وقت بولے”نو“۔ پائلٹس نے جس لہجے میں جواب دیا‘ اس سے مجھ پر خوف سا طاری ہونے لگا۔ ہم ان سے مزید بات کرنا چاہتے تھے کہ معاون پائلٹ نے کہا You go please, we are in hurry. (مہربانی کرکے آپ چلے جائیں‘ ہم جلدی میں ہیں)۔ اسکی آواز میں لرزش کے ساتھ خوف بھی تھا۔ آواز کسی گہرے کنویں سے ہی آتی محسوس ہوئی۔ ہم کاکپٹ سے باہر نکل آئے۔ سامنے ایئر ہوسٹس کھڑی تھی۔جاتے ہوئے اس کے قریب سے گزرے تو اس کے لباس سے پروفیسی پرفیوم کی خوشبو آ رہی تھی۔ اس کے میک اپ اور ہیئر سٹائل دونوں سے تازگی جھلک رہی تھی۔ مگر چہرے پر کوئی تاثرات نہیں تھے۔ شاید ہمارے اندر کے خوف کی جھلک ہمیں ان کے چہروں پر نمایاں نظر آرہی تھی۔ ہم کاکپٹ سے جہاز کے درمیانی دروازے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ میں آہستہ اور لرزتی ٹانگوں اور ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ مسافروں پر نظر ڈالتے ہوئے چل رہا تھا۔ یہی حالت گپتا کی بھی تھی۔ چلتے چلتے میں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو تمام مسافر کسی خود کار مشین کی مانند ایک ہی طرح اور وقت میں ہماری طرف گردن گھما کر دیکھ رہے تھے جبکہ سامنے والے مسافروں کی نظریں بھی ہم پر تھیں۔ ان کی آنکھیں بھی خود کار طریقے سے ایک ردھم کے ساتھ جھپک رہی تھیں۔ دروازے کے قریب پہنچ کر اترنے کے بجائے تین چار قدم آگے بڑھا تو دیکھا کہ میرے پیچھے رہ جانے والے مسافروں کی گردن اور چہرے میری طرف گھوم چکے تھے۔ سامنے دوسری ایئر ہوسٹس کھڑی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک فائل تھی جو میں نے اسے اشارے سے مجھے دینے کو کہا۔ میرے اشارے کا اس نے کوئی رسپانس نہیں دیا۔ میں نے اس کے ہاتھ سے یہ فائل لی تو اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ یہاں مجھے ایک عجیب منظر کا مشاہدہ ہوا۔ اس کی آنکھوں سے گرتے آنسو اس کی گالوں سے ہوتے ہوئے اس کی گردن کے نیچے کہیں سما رہے تھے۔اس دوران ایئر ٹریفک کنٹرولر جہاز سے اتر چکا تھا۔ میں بھی گرتاپڑتا اتر کر مشکل سے گاڑی تک پہنچا اور خودکو مجتمع کرنے کی کوشش کی“۔
یہ شرما کی بتائی کہانی تھی۔ روہن گپتا کی سٹیٹمنٹ بھی اس سے ملتی جلتی تھی۔ جہاز سے اترنے والا ایک ہی مسافر تھا جو گاڑی میں موجود تھا۔ یہ کون ہے؟ ‘ اس نے کہاں جانا ہے‘ اسے گھر کیسے پہنچایا جائے۔ یہ سوالات انڈین ایوی ایشن کے سامنے تو بعد میں آتے فی الحال یہ سب شرما جی سوچ رہے تھے، جو خود ایک سوال بن چکے تھے۔
ادھر‘ اے ٹی سی میں پائلٹ شرما کی چینل نائن پر کال سنائی دی ۔ اس نے چینل 7 سے گارڈ چینل پر اپنی آر ٹی یعنی ریڈیو کیا ہوا تھا۔ اب وہ چینل نائن پر آچکا تھا جو انڈین ایئر لائنز کے لیے مختص تھا۔We want take off please, permit (ہم پرواز کرنا چاہتے ہیں‘ برائے مہربانی اجازت دیجئے) اس کے ساتھ ہی بغیر کسی شور کے انجن سٹارٹ ہوئے۔ وہی ایئر ہوسٹس دروازے پر نمودار ہوئی ، اس نے جہاز کا دروازہ بند کیا اور جہاز ٹارمک سے ٹیکسی کرتا ہوا رن وے کی طرف بغیر اے ٹی سی سے اجازت کی کال کے چل پڑا۔ جہاز کے دونوں انجن چل رہے تھے مگر ان کی آواز نہیں آ رہی۔ جہاز رن وے پر دوڑتا ہوتا ٹیک آف کرگیا۔ جہاز ریڈارکی سکرین پر نظر نہیں آرہا تھا۔ فیول باؤزر پہنچ چکی تھی لیکن ری فیولنگ نہیں کرائی گئی۔
***
جہاز سے اترنے والا واحد مسافر گاڑی میں بیٹھا تھا جو ہشاش بشاش تھا۔ 45 سال قبل گھر سے نکلنے والے اس مسافر کی عمر 25تیس سال سے زیادہ نہیں لگ رہی تھی ۔ اس کی تازہ شیو بنی ہوئی تھی۔اس کو کچھ علم نہیں تھا اس کے ساتھ کیا ہوا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔ اس کے ساتھ بڑی سمجھ داری اور احتیاط سے پیش آنا تھا جس کا انڈین ایوی ایشن کو مکمل ادراک تھا۔ اسے گاڑی میں بیٹھے زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس منٹ ہوئے تھے۔ اتنی دیر میں شرما جی کے حواس کافی حد تک بحال ہو چکے تھے۔ گپتا جی اے ٹی سی میں چلے گئے تھے۔ شرما نے مسافر کو لاؤنچ میں لے جانے کیلئے کہا۔ وہاں شفٹ انچارج افسر سے ملے‘ اسے کچھ ہدایات دیں جس پر اس افسر نے عمل کرتے ہوئے اس نوجوان کو اس کے گھر پہنچانا تھا‘ جو اس افسر کیلئے مشکل کام نہیں تھا۔اس افسر کا نام شیر سنگھ تھا جس نے دو سال سائیکالوجی پڑھی تھی۔ کچھ عرصہ وہ ایک سائیکالوجسٹ کا اسسٹنٹ رہ چکا تھا۔ یہ تجربہ اب اس کے کام آرہا تھا۔ شیر سنگھ اس نوجوان کے پاس گیا اور کہا ” ڈاکومنٹس پلیز“ جس پر اس نے اپنے ہینڈ بیگ سے ڈاکو منٹس نکال کر شیر سنگھ کے حوالے کرتے ہوئے گھمبیر لہجے میں اوکے اوکے کہا۔ نوجوان کے چہرے پر جتنی رونق اور بشاشت تھی‘ اتنی ہی اس کی آواز میں نقاہت اور مُرونی تھی اس کی آواز دور کہیں صحرا سے آتی ہوئی محسو س ہو رہی تھی، جو شیر سنگھ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی بن کر اتری تھی۔ ڈاکو منٹس پر شیر سنگھ کی نظر پڑی تو جو چیزیں اس نے نوٹ کیں ان میں سب سے اہم اس مسافر کا نام اور سن پیدائش تھا۔ رامن اگر وال نامی اس مسافر کی پیدائش1952ءمیں ہوئی تھی۔ شیر سنگھ کی دستاویزات اور رامن کے چہرے پر نظر گئی تو دونوں میں واضح تفاوت تھا۔ ڈاکو منٹس کے مطابق رامن کی عمر70 تھی جبکہ چہرے سے وہ پچیس سال کا جوان لگ رہا تھا۔ لیکن شیر سنگھ کو جلد احساس ہو گیا کہ یہ سپیشل کیس ہے اور وہ 45سال قبل لا پتہ ہونے والے جہاز کا مسافر ہے۔
٭....٭....٭
رامن ہر دوسرے شخص کے ہاتھ میں واکی ٹاکی دیکھ کر حیران ہو رہا تھا جسے وہ جدید واکی ٹاکی سیٹ سمجھ رہا تھا وہ دراصل موبائل فون تھے۔ جن کا80 ءکی دہائی میں نام و نشان بھی نہیں تھا۔ شیر سنگھ نے اس کے گھر کا ایڈریس نوٹ کیا اور ایوی ایشن کی گاڑی میں بٹھا کر اسے گھر چھوڑنے خود ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ گیا اور اس کے لیے خیر اور آنے والے حالات کی بہتری کیلئے دعائیں کرنے لگا۔ اس کا گھر آدھے گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا۔ اللہ اللہ کر کے رامن کا گھر آگیا۔ اس کا گھر کیا آنا تھا بلکہ اس کی آزمائش شروع ہونا تھی۔اس وقت شام کے5 بج رہے تھے۔ گھر کی بیل دی گئی۔ چند ثانیے بعد ڈھلتی عمر کی مگر جاذب نظر اور خوبصورت عورت نے دروازہ کھولا۔ وہ شاید کسی تقریب میں جانے کے لیے تیار ہوئی تھی یا تقریب سے واپس آئی تھی، چہکتی صورت نارنجی ساڑھی‘ ہلکا میک اپ کیا ہوا تھا۔ رامن نے اسے دیکھا اور حیرانگی سے دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ اس کی خوبصورتی میں کھو کر حیران نہیں تھا بلکہ اسکے اپنے گھر کے اندر سے برآمد ہونے پر پریشانی ہو رہی تھی۔ بڑی مشکل سے پوچھ پایا آپ کون یہاں کیسے؟
رامن کے ساتھ جانے والے افسر کا کہنا تھا کہ رامن کی آواز اور لہجے میں شکست خوردگی ،لرزش اورعجب طرح کا تلاطم دیکھ کر وہ خاتون تھوڑی نروس ہوئی خوف کی پرچھائی اس کے چہرے پر نمایاں ہو چکی تھی۔ رامن کے سوال پر اس نے زیادہ غور نہیں کیا ‘ وہ اس آواز کو سن کر متوحش ہو رہی تھی۔ کچھ ثانیے بعد بولی۔۔۔ میں اوم پرکاش کی وائف ڈاکٹر چندنا رامن ہوں۔ آپ نے کس سے ملنا ہے؟ ”اوم پرکاش کی وائف“ یہ سن کر رامن کو پہلا جھٹکا لگا۔ اس نے غور سے پہلے چندنا کو دیکھا پھر اپنے گھر اور اردگرد کا جائزہ لیا۔ اوم پرکاش کی عمر تو تین سال ہے۔یہ عورت اسکی وائف؟ رامن بڑبڑا رہا تھا۔45 سال قبل جب یہ یہاں سے گیا تھا تو دروازے کے ساتھ لگی تختی پر ”رامن اگروال‘ ‘ لکھا تھا مگر اب وہاں اوم پرکاش رامن کی تختی آویزاں تھی۔ اردگرد کا ماحول بھی بدل چکا تھا۔ گھر کے باہر کا نقشہ بھی پہلے جیسا نہیں تھا۔ یہ سب کچھ رامن نے چند لمحوں میں نوٹ کر لیا۔
٭....٭....٭
رامن کے کل اور آج کے درمیان پورے 45 سال حائل تھے۔ جس کا خود اسے اور وہاں کھڑے شیر سنگھ کے سوا کسی کو علم نہیں تھا۔رامن نووائیڈا کی بینن اینڈ کینن فرنیچر فرم میں ایم بی اے میں ٹاپ کرنے کے بعد مینیجر کے طور پر تین سال سے کام کر رہا تھا۔ اس کی انیتا نامی لڑکی سے کالج میں دوستی ہوئی جو محبت میں بدل گئی جس کے بعددونوں لو میرج کے بندھن میں بندھ گئے۔ جب وہ گھر سے گیا تھا تو اوم اس کی اکلوتی اولاد تھے۔ انیتا اور رامن کی یہی کل کائنات تھی۔ رامن کو کمپنی کی طرف سے فرنیچر ڈیزائنگ اینڈ ایکسپورٹ ورکشاپ میں شرکت کے لیے بمبئی بھیجا گیا تھا۔ وہاں سے ایک روز بعد واپسی تھی۔ اس نے ورکشاپ اٹنڈ کی‘ اگلے روز فلائٹ نمبر 784سے واپسی ہونی تھی۔ اس کے نووائڈہ سے جانے اور آنے کے درمیان45 سال مخل ہو گئے جس سے رامن لاعلم تھا مگر اب اسے یہ پتہ چل گیا تھا کہ اسکے ساتھ کچھ انہونی ہو چکی ہے۔
ممبئی میں ورکشاپ کے دوران اس کی دہلی سے آنے والی اسی فیلڈ سے متعلقہ ارم سے راہ و رسم ہوئی تھی۔ کیفے ٹیریا میں رامن نے اس کی گھڑی کی تعریف کی تو ارم نے اومیگا کی گھڑی اتار کر اسے گفٹ کر دی۔رامن یہ گفٹ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن ارم کے اصرار پر اسے یہ تحفہ قبول کرتے ہی بنی۔
رامن وضعدار نوجوان تھا، اس نے اپنی گھڑی اتار کر ایسی لجاجت سے اس کی طرف بڑھائی کہ وہ انکار نہ کر سکی۔ ارم کی دی ہوئی گھڑی رامن کی کلائی پر اب بھی سجی تھی۔ دونوں نے اپنی اپنی کمپنی کے فون نمبر بھی شیئر کئے تھے۔ فلائٹ784کے لاپتہ ہونے کی خبر دنیا بھر میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ارم کو پتہ چلا تو اس نے کمپنی کے نمبر پر فون کرکے رامن کے گھر کا ایڈریس لیا۔ وہ نووائڈہ گئی اور رامن کے خاندان سے ملی۔ اس نے گھڑیوں کے تبادلے کی سٹوری رامن کے والد والدہ اور وائف انیتا کو بتائی تھی۔
رامن کی ماتااور پتا اس کے بچھڑنے کے غم میں اگلے دو تین سال میں انتقال کر گئے تھے۔ فلائٹ 784کے لاپتہ ہونے کے بعد اس کی تلاش کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن جب ملائشیا کے ایم ایچ470 کی طرح اس کا بھی کوئی سراغ نہ مل سکا تو یہ تصور کر لیا گیا کہ پائلٹس اور عملے سمیت تمام مسافر جہاز کے گر کر تباہ ہونے سے موت کی وادی پہنچ چکے ہیں۔ کمپنی اور ایئر لائنز نے رامن کے گھر والوں کو سپورٹ کیا جس سے گھر میں مالی حالات کبھی برے نہیں رہے۔ اوم پرکاش کی تعلیم بہترین تعلیمی اداروں میں مکمل ہوئی تھی۔ انیتا ایک عرصے سے اپنے پتی کی جدائی کے درد میں چارپائی سے لگ چکی تھی۔ ممبئی سے واپسی پر رامن نے انیتا کے لیے انگوٹھی خریدی تھی۔ جس کے نگ کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ بیماریوں سے بچاتا ہے، بلکہ بیچنے والے کا مبالغہ آمیز دعویٰ تھا کہ پہننے والا بوڑھا ہو تو جوان ہو جاتا ہے۔
٭....٭....٭
لڑکی نے اپنا نام بتانے کے بعد رامن سے پوچھا کہ آپ کون؟اور یہاں کیسے؟ آپ نے کس سے ملنا ہے؟ رامن سوچوں میں گم تھا۔ خاتون کے اس سوال پر اسے دوسرا جھٹکا لگا۔ وہ پریشان تھا کہ اس سے اپنے گھر کی دہلیز پر پوچھا جا رہا تھا کہ وہ کون ہے ‘ یہاں کیسے آیا اور کس سے ملنا ہے؟ شیر سنگھ نے چندنا کواشارہ کر کے خاموش رہنے کو کہا ۔ جس کے بعد چندنا نے اپنے سوال پر زور نہیں دیا۔
حیران و پریشان کھڑے رامن نے لرزیدہ آواز میں کہا۔" میں رامن ہوں۔ آپ مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہیں جبکہ یہ میرا گھر ہے۔ آپ خود کو اوم کی وائف بتا رہی ہیں ۔ وہ تو تین سال کا ہے۔"
خدا نہ کرے سمجھا کرے کوئی
شیر سنگھ گہری سوچوں میں گم پریشان کھڑا تھا۔اب اس نے دونوں کی الجھن کو دور کرنے کا ارادہ کر لیا۔”بیٹھ کے بات کرتے ہیں“ یہ کہتے ہوئے شیر سنگھ تھوڑا آگے بڑھا تو چندنا نے اندر آنے کا راستہ چھوڑ دیا۔ دونوں چندنا اور رامن ایک دوسرے سے بڑھ کر حیران پریشان تھے۔ رامن کو گھر کے اندر بھی تبدیلیاں نظر آئیں۔ تینوں جاکر ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے۔ شیر سنگھ کے پاس لمبی چوڑی سٹوری نہیں تھی۔ اس نے چندنا کو45سال قبل لاپتہ ہونے والے جہاز اور آج اس کے اسی شہر میں اترنے کی سٹوری سنا دی۔شیرسنگھ کے الفاظ دونوں کے دل و دماغ پر پتھر کی طرح گر رہے تھے۔ چندنا کو یہ تو معلوم تھا کہ اس کا سسر پلین کریش میں دیگر 40 لوگوں کے ساتھ لاپتہ ہو گیا تھا مگر اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایک دن واپس آئے گا اور زندہ سلامت اسکے سامنے بیٹھ جائیگا۔ اسکی عمر چالیس45 سال تھی۔ اس کا سسر 25سال کا خوبرو نوجوان تھا۔شیر سنگھ کی بات ختم ہوئی تو بہو (چندنا )اور سسر (رامن) کی جو کیفیت تھی‘ اسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
جہاز سے اترا رامن تو نارمل تھا مگر اب اس نے جو سنا وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا جس نے اس کے دل و دماغ پر گہرا اثر کیا۔ توقف کے بعد اس نے پوچھا۔ ماتا، پتا اور انیتا کہاں ہیں“۔ پوچھتے ہوئے اسے یہ ڈر بھی لگ رہا تھا کہ نہ جانے ان میں سے کس کے بارے میں بری خبر ہو۔ انیتا آنٹی ٹھیک ہیں‘ ہمیشہ آپ کو یاد کرتی رہتی ہیں۔ ماتا جی اور پتا جی بڑھاپے کی وجہ سے بھگوان کے پاس چلے گئے۔ چندنا نے بڑھاپے کی وجہ سے موت کا اس لئے بتایا کہ رامن کو زیادہ صدمے سے دو چار نہ ہونا پڑے کہ اسکے ماتا پتا اسکے غم میں اس دنیا سے چلے گئے۔ ”انیتا کہاں ہیں“ رامن نے پوچھا۔
میں انہیں یہیں لے کر آتی ہوں۔ چندنا نے کہا۔
میں ساتھ چلتا ہوں۔ رامن یہ کہتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔ مگر چندنانے تھوڑا سا اصرار کر کے رامن کو وہیں بیٹھنے پر آمادہ کر لیا۔ شیر سنگھ بھی سمجھ گیاکہ چندنا کیوں رامن کو ساتھ نہیں لے گئی۔کہیں انیتا خوشی سے مر ہی نہ جائے۔ شادی مرگ اسی کو کہتے ہیں۔انیتا کے دل و دماغ میں رامن کا وہی خاکہ ہوگا جبکہ رامن کے من میں بھی 45سال قبل کی حسین و جمیل خوبرو لڑکی کا ہونا فطری امر تھا۔ مگر انتیا ستر سال کی عمر کراس کر چکی تھی۔ شیر سنگھ نے یہاں اپنے نفسیات کے علم کو بروئے کار لاتے ہوئے کہا۔ ”رامن آپ نوجوان ہو۔ انیتا بھابھی ستر سال کی ہیں۔ آپ کو کیسی لگیں گی“۔ اس پررامن ہلکے اور پھیکے سے انداز میں مسکرا دیا۔ انیتا کی آمد میں دیر ہونے پر رامن تھوڑا کسمسایا پھر تھوڑا بے چین ہوا اور پھر اس کے چہرے سے اضطراب نمایاں ہونے لگا۔ وہ شاید شک میں پڑ گیا تھا کہ انیتا دنیا میں ہے بھی یا نہیں۔شادی مرگ کا اندازہ چندنا کو بھی تھا۔ اس نے جاتے ہی تو نہیں بتادیا ہوگا کہ رامن 45 سال بعد لوٹ آیا ہے۔ پہلے اس نے انتیا سے یہ پوچھا ہوگا کہ رامن لوٹ آئے تو آپ کو کیسا لگے گا۔
چند منٹ بعد ڈرائنگ روم کی طرف آتے قدموں کی مدھم مدھم چاپ سنائی دی۔ رامن کی 45سال کی کہانی سننے کے بعد جو حالت ہوگئی تھی اس کی ڈھارس بندھانے کے لیے کسی ہمدم کی ضرورت تھی۔ وہ اہلیہ کے سوا اور کوئی بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔ دبے قدموں سے چلتی ہوئی انیتا ڈرائنگ روم میں داخل ہوا ہی چاہتی تھی کہ شیر سنگھ ست سری اکال کہتے ہوئے کمرے سے نکل گیا۔ قبل ازیں اس نے چندنا کو اپنا موبائل فون دیدیا اور اس کا لے لیا تھا۔چندنا ڈرائنگ روم میں نہیں آئی۔ انیتا دروازے کے اندر قدم رکھ کر رک گئی۔ اس کے سامنے وہی45سال قبل کا انیتا کا نوجوان اور خوبرو شوہر کھڑا تھا۔ رامن کے سامنے اپنی ماتا کی عمر کی خاتون تھی جو اس کی محبوبہ اور بیوی تھی۔ رامن تیزی سے آگے بڑھا۔ دونوں گلے لگ گئے۔ رامن حوصلے میں تھا‘ اسے جدائی کے داغ کا تجربہ نہیں تھاجبکہ انیتا نے 45سال کا ہر لمحہ اپنے شوہر کی جدائی کے دکھ اور درد میں جل جل کے گزارہ تھا۔ وہ بے ساختہ اور بے باختہ روئے جا رہی تھی۔ رامن کو اس کے جذبات کا احساس تھا۔ وہ گھٹی گھٹی اور دبی دبی آواز میں اسے تسلی دے رہا تھا۔ اونچی آواز میں اس لیے بات نہیں کر رہا تھا کہ اس کی آواز اب عام انسانوں جیسی نہیں تھی۔ تھوڑی دیر بعد رو رو کے انیتا خود کوہلکا پھلکا اور دنیا کی خوش قسمت ترین عورت محسوس کر رہی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ گئے۔ اسی دوران چندنا بھی آگئی۔ جس نے رامن کو بتایا کہ اوم اسی کمپنی میں جنرل مینیجر ہے۔ اسے بڑی آفرز آئیں مگر پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اس نے بینن اینڈ کینن میں ملازمت کرنے کو ترجیح دی۔
اس وقت شام رات میں ڈھل رہی تھی۔ اوم کو فون پر اطلاع دے دی گئی تھی۔ اس نے ہوسٹل سے اپنی بیٹی اور بیٹے کو لیا اورفوراً گھر آ گیا۔ وہ اس ملن کو وہ چمتکار اورکرشمہ قرار دیتے تھے۔
٭....٭....٭
جہاز کے اس طرح نووائڈا ایئر پورٹ پر اترنے کی خبر بھی اس کے غائب ہونے کی طرح دنیا بھر میں پھیل گئی۔ فلائٹ784کے ساتھ لاپتہ ہونے والے مسافروں‘ پائلٹس اور عملے کے عزیز اقارب اس خاندان کی قسمت پر رشک کررہے تھے۔ ان میں سے کئی نے رامن سے ملاقات کی۔ ان کو اپنے گمشدہ پیاروں کے بارے میں معلومات سے دلچسپی تھی۔ اب ان کو یہ امید مل گئی تھی کہ رامن کی طرح ان کے پیارے بھی کسی وقت لوٹ کر آ سکتے ہیں۔ ان سے ملنے کے لیے آنے والوں کے سامنے رامن ایک ہی سٹوری دہراتا اور بتاتا کہ میں ان لوگوں میں سے کسی کو بھی نہیں جانتا تھا اور پھر میں جہاز میں رہا ہی کتنی دیر ہوں‘ صرف ڈیڑھ دو گھنٹے۔ اس دوران واش روم تک گیا نہ کچھ کھایا اور پیا۔ اتنے وقت میں آس پاس بیٹھے انجانے مسافروں سے جان پہچان کیسے ہو سکتی تھی۔
رامن کو اب زندگی سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ وہ ہر وقت سوچوں میں گم رہتا۔اس کے گھر کے سارے افراد اس کی خدمت اور اسے خوش رکھنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں و سرگرداں رہتے ۔ انیتا کی عمر زیادہ تھی مگر وہ عام بوڑھی خواتین کے مقابلے میں خوبصورت دکھائی دیتی تھی۔ رامن اور انتیا کی عمر میں بہت زیادہ فرق نظر آتا تھا‘ رامن جوان ہوتے ہوئے بھی اپنی اٹھکھیلیاں کھو چکا تھا ۔
45سال کے گیپ نے رامن کے ذہن پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ اسے اوم نے بہتر سے بہتر ڈاکٹرز سائی کائٹرسٹ اور سائیکالوجسٹس سے علاج کرایا اور کونسلنگ کرائی مگر شاید رامن خود کو زندگی کی رعنائیوں کی طرف لانا نہیں چاہتا تھا۔ اور پھر وہ جس حالت میں اپنے ساتھی مسافروں کو چھوڑ کر آیا تھا ‘ جن کا وہ خود بھی حصہ تھا اس حادثے کے اثرات بھی اسکے دماغ پر موجود تھے۔ ہو سکتا ہے اس کے ذہن کے نہاں خانے میں ان مسافروں کے ساتھ جاملنے کی حسرت موجود ہو۔
یہ واقعہ ظاہر ہے حکومتی ایوانوں تک بھی جا پہنچا۔ وزیر اعظم نریندرمودی نے رامن سے ملاقات کی خواہش کی۔ اس پر رامن نے بالکل دلچسپی ظاہر نہیں کی جس پر نریندرمودی خود نووائیڈا میں ان کے گھر آئے۔ان کے ساتھ وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر خارجہ جے شنکر بھی تھے۔ ریاستی وزیراعلیٰ ان سے پہلے ہی رامن کے گھر کا وزٹ کر چکے تھے۔رامن کے گھر والے وزیراعظم کی آمد پر بڑے خوش اور مسرور تھے جبکہ رامن کے لیے یہ ملاقات ایسی ہی تھی جیسے لاپتہ ہونے والے جہاز میں موجود اپنے پیاروں کے بارے میں کوئی معلومات لینے آتا ہے۔
٭....٭....٭
رامن کو نارمل زندگی کی طرف لانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ نریندر مودی جی نے بھی ہر طرح کے تعاون اور مدد کی پیش کش کی مگر رامن کو الگ تھلگ، اکیلے اور خاموش رہنا پسند تھا۔ وہ عموماً خلاؤں میں گھورتا رہتا۔ وہ اپنے بیٹے ‘بہو ‘ انکی اولادوں اور اپنی وائف انیتا کے ساتھ گھل مل کر رہنے کی کوشش کرتا۔ ان کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ‘کھاتا پیتا مگر اپنی زندگی سے وہ 45 سال کا گیپ ختم نہیں کر پا رہا تھا۔دن گزر رہے تھے۔ گھر والے اس کے واپس آنے کو بھگوان کی کرپا قرار دیتے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ ایک دن وہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ آئے گا۔ وہ گھر سے باہر بھی کم کم ہی نکلتا‘اسے شاید اب اپنا یہی لائف سٹائل پسند آنے لگا تھا۔ نفسیاتی حوالے سے ڈاکٹرز رامن کی کونسلنگ کررہے تھے‘ جبکہ دوا دارو بھی جاری تھا مگر رامن کو کوئی افاقہ نہیں ہو رہا تھا۔
رامن کے گھر والوں کو انگلینڈ میں پریکٹس کرنے والے ماہر نفسیات ڈاکٹر لکشمن کے بارے پتہ چلا کہ وہ کلکتہ آرہے ہیں۔ ان کی بڑی شہرت تھی۔ کئی ماہرین نے بھی اسکے گھر والوں کو مشورہ دیا تھا وہ رامن کو ڈاکٹر لکشمن سے چیک کرالیں۔ رامن کو بتایا گیا تو وہ لیت و لعل کے بعد کلکتہ جانے پر آمادہ ہو گیا۔ اسکے ساتھ دونوں اوم اور چندنا بھی کلکتہ جارہے تھے۔ 16 اکتوبر 2024ءکی شام 4بجے کی ٹکٹس بک کرا لی گئیں۔ ڈاکٹر لکشمن سے 17 اکتوبر کی صبح نو بجے کی اپوائنٹمنٹ ملی تھی۔ ہوٹل گرینڈ میں سوئیٹ بک کرا لیا گیا تھا۔ فلائٹ سے ایک گھنٹہ قبل یہ لوگ اپنی گاڑی پر گھر سے نکل پڑے۔ سب کچھ نارمل ہورہا تھا۔ لاؤنج میں پہنچے تو سب مسافروں اور ایئرپورٹ کے ملازموں کی نظریں رامن پر جمی تھیں۔ شیر سنگھ جو اس خاندان کے ساتھ رابطے میں رہتا تھا‘اس نے ان کا استقبال کیا۔ دوسرے مسافروں کے ساتھ بورڈنگ وغیرہ کا پراسس مکمل ہونے کے بعد ایوی ایشن کی گاڑی مسافروں کو جہاز کی طرف لے گئی۔ مسافر گاڑی سے اتر کر جہاز پرسوار ہونے لگے۔ رامن کی عجیب سی کیفیت ہو رہی تھی۔ اس کے ہاتھ میں وہی بیگ تھا جس میں اس کے سفری ڈاکومنٹس ہوا کرتے تھے۔ یہاں پر اس کا رویہ غیر معمولی اور حیرت انگیز تھا۔ چندنا نے ایک دو مرتبہ رامن کی کیفیت بھانپتے ہوئے پوچھا بھی کہ پاپا کیا ہوا ہے۔جس پر رامن نے بڑی آہستگی سے کہا‘ کچھ نہیں.... مگر ایک نوجوان کو چالیس پنتالیس سال کی عورت کے پاپا کہنے پر ساتھ کھڑے مسافروں کے چہروں پر مسکراہٹ ضرور آگئی تھی۔
رامن کے رویے اور متلاشی نظروں سے لگ رہا تھا کہ اسے کسی کی تلاش ہے۔ وہ اپنے اردگرد دیکھتا اور کبھی آسمان کی طرف دیکھنے لگ جاتا ہے۔ مسافر جہاز میں سوار ہو رہے تھے۔ چندنا آگے اور رامن پیچھے تھا۔ اسی دوران ایک بے آواز جہاز لینڈ کرنے کے بعد ٹیکسی کرتا ہوا ٹارمک پر آ تا نظر آیا۔ رامن کا ایک قدم ابھی پہلی سیڑھی پر دوسرا فرش پر تھا۔ جہاز ان سے تقریباً دو سو میٹر کے فاصلے پر رکنے کیلئے رینگ رہا تھا۔ اسی دوران رامن نے اپنا بیگ کھولا۔ اس بے آواز اور پراسرار جہاز نے سوار ہوتے تمام مسافروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی۔ جہاز آہستہ آہستہ چل رہا تھا مگر آواز اتنی ہی تھی جتنی الیکٹرک گاڑیوں اور الیکٹرک بائیک کی ہوتی ہے۔ ادھر جہاز رک رہا تھا اُدھر رامن نے اپنا بیگ کھول کر اس میں سے ایک ڈبیہ نکالی اور اوم کو تھماتے ہوئے کہا یہ انگوٹھی اپنی ماتا کو دے دینا۔ انگوٹھی پکڑتے ہوئے اوم ایک دم ششدر رہ گیا۔ چندنا کی کیفیت بھی کچھ اسی طرح کی نظر آرہی تھی۔ معاً رامن سیڑھی پر رکھے اپنے پاؤں فرش پر اتارتے ہوئے ان کے درمیان سے نکل کر بے آواز جہاز کی طرف دوڑ پڑا۔اب جہاز تک چکا تھا۔اس کے جہاز کے قریب پہنچنے تک دروازہ کھل چکا تھا۔ ایئر ہوسٹس دروازے میں کھڑی تھی۔ جہاز پر سیڑھی موجود نہیں تھی۔ ایئر ہوسٹس نے دروازے سے جھکتے ہوئے، اپنا ہاتھ نیچے تک پھیلا دیا تاکہ رامن کو سہارا دے سکے۔ رامن نے زقند بھری اور اپنا دایاں ہاتھ اوپر اٹھا دیا ۔ایئر ہوسٹس رامن کا ہاتھ تھام کر روئی کے گالے کی مانند اسے اوپر اٹھا کر جہاز کے اندر لے گئی اور جہاز کا دروازہ بند ہو گیا۔ جہاز نے رن وے پر دوڑنا شروع کر دیا اور پل بھر میں آسمان کی طرف پرواز کرتے ہوئے زمین پر کھڑے لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوگیا جو زمین پر بے سدھ کھڑے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔یہ جہاز نہ ریڈ ار میں نظر آیا اور نہ کسی موبائل اور سی سی ٹی وی کیمرے نے اسکی پرواز کو ریکارڈ کیا۔ البتہ رامن کا لائن میں کھڑے ہونا اور بھاگ کر پراسرسر جہاز تک پہنچنا ایئرپورٹ پر لگے تمام کیمروں میں ریکارڈ ہو گیا تھا۔
جس طرح فلائٹ 784 نے ایک بار پھر لینڈ کیا اور رامن کو لے کر ٹیک آف کر گئی۔ یہ خبر دنیا بھر کے مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر پلک جھپکنے میں پھیل گئی۔ اس پراسرار واقعے سے پاکستان میں موجود وزیر خارجہ جے شنکر کو آگاہ کیا گیا۔ وہ 16 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے اختتام پر پاکستان کے پردھان منتری کی طرف سے شرکاءکو دیئے گئے ظہرانے میں شریک تھے۔ ان کو جیسے ہی اطلاع ملی وہ سے معذرت کرتے ہوئے اپنے ملک واپس چلے گئے۔ اس پر سوال کیا جا سکتا ہے کہ جے شنکر کو اطلاع کیوں دی گئی۔ یہ تو ایک معمولی واقعہ تھا۔ یہ اطلاع صرف جے شنکر کو ہی نہیں دی گئی بلکہ ہر متعلقہ اعلیٰ آفس اور سٹیک ہولڈر کو دی گئی تھی یہ سول ایوی ایشن ایکٹ کا تقاضا تھا۔
1999ءمیں کھٹمنڈو سے دہلی جانے والی پرواز اغوا ہو گئی جو پاکستان لائی گئی۔ اس سے قبل جہاز امرتسر میں ری فیولنگ کے لیے اتارا گیا تھا۔ پھر وہاں سے جہاز بغیر ری فیولنگ کے ہوا میں اڑا دیا گیا۔ اس موقع پر متعلقہ حکام اور اداروں کو اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ بہت سے اعلیٰ افسران کو یہ اطلاع ٹی وی اور ریڈیو چینلز کی خبروں ملی تھی۔ اسے بہت بڑی کوتاہی قراردیا گیا ۔بعد میں انڈین سول ایوی ایشن ایکٹ میں ترمیم کر دی گئی۔ جس کے بعد سے ایسے واقعات فوری طور پر حکام کے علم میں لائے جاتے ہیں۔
جہاز سمیت اس میں سوار مسافروں کے لاپتہ ہونے والے لواحقین کی طرح اب رامن کے اہل خانہ بھی اسکی واپسی کی آس اور امید میں کبھی نہ ختم ہونے والی گھڑیوں کے ساتھ بندھ گئے۔ انہیں انکے زندہ ہونے کا یقین تو ہے ‘ اور رامن کی طرح ایک دن واپسی کی امید بھی‘ مگر انکی زندگی میں وہ دن کب آئیگا‘ اس کا کسی کو بھی یقین نہیں۔قارئین!کیسی لگی آپ کو ہماری یہ ناولٹ سٹوری ؟
اگاہ کیجیے وٹس ایپ نمبر +923334215368