تازہ ترین خبریں

تازہ ترین خبریں Latest Coulms,Articles,visits,News, Information, Entertainment and etc...

01/06/2025

ٹیپو سلطان راکٹ سازی کے بانی

ٹیپو سلطان (1750-1799)، جو میسور کی سلطنت کے حکمران تھے، نہ صرف اپنی بہادری اور آزادی کے جذبے کے لیے مشہور ہیں بلکہ انہوں نے 18ویں صدی کے آخر میں راکٹ ٹیکنالوجی کے منظم جنگی استعمال کے ذریعے عسکری تاریخ میں ایک منفرد مقام حاصل کیا۔ ان کی اختراعات نے جدید راکٹری کی بنیاد رکھی اور انگریزوں سمیت عالمی فوجی طاقتوں کو متاثر کیا۔ یہ مضمون ٹیپو سلطان کی راکٹ ٹیکنالوجی کے تاریخی اور تکنیکی پہلوؤں پر تفصیلی روشنی ڈالتا ہے۔

تاریخی پس منظر
ٹیپو سلطان کے والد، حیدر علی، نے 1760 کی دہائی میں میسور کی فوج میں بارود سے چلنے والے ابتدائی راکٹس کا استعمال شروع کیا تھا۔ یہ راکٹس بنیادی طور پر بارود سے بھرے بانس کے ڈنڈوں پر مشتمل ہوتے تھے، جنہیں دشمن کی فوج پر داغا جاتا تھا۔ تاہم، ٹیپو سلطان نے اس ٹیکنالوجی کو 1780 کی دہائی میں منظم اور جدید خطوط پر استوار کیا۔ انہوں نے میسور کے دارالحکومت سرنگاپٹم میں راکٹ بنانے کے لیے خصوصی ورکشاپس قائم کیں، جہاں ہنرمند کاریگروں نے ان ہتھیاروں کی تیاری اور تجربات کیے۔

میسورین راکٹس کی تکنیکی خصوصیات
ٹیپو سلطان کے راکٹس، جنہیں "میسورین راکٹس" کہا جاتا ہے، اس وقت کے دیگر ہتھیاروں سے منفرد تھے۔ ان کی اہم خصوصیات درج ذیل ہیں:

1. **مواد اور ڈیزائن**: یہ راکٹس لوہے کے نلی نما خ*ل میں بنائے جاتے تھے، جن میں اعلیٰ معیار کا بارود بھرا جاتا تھا۔ لوہے کا خ*ل انہیں زیادہ مستحکم اور طاقتور بناتا تھا۔ خ*ل کو 6 سے 12 فٹ لمبی بانس کی چھڑی کے ساتھ جوڑا جاتا تھا، جو راکٹ کو پرواز کے دوران سمت اور استحکام فراہم کرتی تھی۔

2. **رینج اور طاقت**: میسورین راکٹس کی رینج 900 میٹر سے 1.5 کلومیٹر تک ہوتی تھی، جو اس دور کے توپخانے کے مقابلے میں کافی موثر تھی۔ یہ راکٹس 3 سے 18 پاؤنڈ وزن کے ہتھیار لے جا سکتے تھے، جن میں دھماکہ خیز مواد یا آتش گیر مادے شامل ہوتے تھے۔

3. **جنگی استعمال**: راکٹس کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، جیسے کہ دشمن کی فوج پر براہ راست حملہ، کیمپوں میں آگ لگانا، یا نفسیاتی دباؤ ڈالنا۔ ان کی تیز رفتار اور غیر متوقع نوعیت انہیں دشمن کے لیے خطرناک بناتی تھی۔

4. **منظم فورس**: ٹیپو نے تقریباً 5000 راکٹ بردار سپاہیوں کی ایک خصوصی بریگیڈ تشکیل دی، جو "کشن" کے نام سے جانی جاتی تھی۔ یہ فورس نہ صرف راکٹ داغنے میں ماہر تھی بلکہ اسے میدانِ جنگ میں حکمتِ عملی کے ساتھ استعمال کرنے کی تربیت بھی دی گئی تھی۔

سرنگاپٹم کی جنگیں اور راکٹس کا کردار
ٹیپو سلطان نے اپنی راکٹ ٹیکنالوجی کو انگریزوں کے خلاف چار اینگلو-میسور جنگوں (1767-1799) میں استعمال کیا، خاص طور پر دوسری (1780-1784) اور تیسری (1790-1792) اینگلو-میسور جنگوں میں۔ سرنگاپٹم کی جنگوں میں ان راکٹس نے اہم کردار ادا کیا۔ مثال کے طور پر:

- **دوسری اینگلو-میسور جنگ (1780-1784)**: اس جنگ میں میسورین راکٹس نے انگریز فوج کے خلاف تباہ کن حملے کیے۔ 1780 میں پولِلور کی لڑائی میں میسور کی فوج نے انگریزوں کو شکست دی، اور راکٹس نے انگریز فوج کے گھوڑوں اور پیدل فوج میں افراتفری پھیلائی۔

- **تیسری اینگلو-میسور جنگ (1790-1792)**: اس جنگ میں بھی راکٹس نے دشمن کے مورال کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انگریز مورخین نے لکھا کہ میسورین راکٹس کی آواز اور رفتار دشمن کے لیے خوفناک تھی۔

- **چوتھی اینگلو-میسور جنگ (1799)**: یہ ٹیپو کی آخری جنگ تھی، جس میں وہ سرنگاپٹم کے دفاع کے دوران شہید ہوئے۔ اس جنگ میں بھی راکٹس کا استعمال کیا گیا، لیکن انگریزوں کی بھاری فوجی طاقت اور اتحادیوں کی تعداد کے سامنے میسور کی فوج شکست کھا گئی۔

انگریزوں پر اثرات اور Congreve Rockets
سرنگاپٹم پر قبضے کے بعد، انگریزوں نے میسور کے راکٹس کے نمونے برطانیہ بھیجے۔ سر ولیم کانگریو نے ان راکٹس کا مطالعہ کیا اور 1804 میں "کانگریو راکٹس" تیار کیے، جو میسورین راکٹس سے متاثر تھے۔ یہ راکٹس برطانوی فوج نے نیپولین کی جنگوں (1803-1815) اور امریکی جنگِ آزادی (1812) میں استعمال کیے۔ کانگریو راکٹس کی رینج اور ڈیزائن میسورین راکٹس سے ملتا جلتا تھا، لیکن ان میں کچھ تکنیکی بہتریاں کی گئیں، جیسے کہ زیادہ مستحکم پرواز کے لیے بہتر ایروڈائنامک ڈیزائن۔

جدید راکٹری پر اثرات
ٹیپو سلطان کے راکٹس جدید راکٹ انجینئرنگ کی ابتدائی بنیادیں سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے راکٹس میں استعمال ہونے والے اصول، جیسے کہ بارود کی دھماکہ خیز قوت اور ایروڈائنامک استحکام، آج کے میزائلوں اور خلائی راکٹس کے بنیادی اصولوں سے ملتے ہیں۔ ناسا کے سابق سائنسدان ڈاکٹر عبدالکلام (بھارت کے سابق صدر) نے بھی اپنی کتابوں میں میسورین راکٹس کو جدید راکٹری کی ترقی میں ایک اہم سنگِ میل قرار دیا۔

ٹیپو سلطان کی دیگر عسکری اختراعات
راکٹ ٹیکنالوجی کے علاوہ ٹیپو سلطان نے اپنی فوج کو جدید خطوط پر منظم کیا۔ انہوں نے:

- **جدید توپخانہ**: میسور کی فوج کے پاس اس وقت کے جدید توپخانے تھے، جو انگریزوں کے مقابلے میں کم نہیں تھے۔
- **نیول فورس**: ٹیپو نے میسور کی بحریہ کو مضبوط کیا اور بحری جنگی حکمتِ عملی تیار کی۔
- **جاسوسی نظام**: انہوں نے ایک موثر جاسوسی نیٹ ورک قائم کیا، جو دشمن کی نقل و حرکت کی اطلاعات فراہم کرتا تھا۔

ٹیپو سلطان کی راکٹ ٹیکنالوجی 18ویں صدی کی ایک غیر معمولی اختراع تھی، جس نے نہ صرف انگریزوں کو حیران کیا بلکہ عالمی عسکری تاریخ میں ایک نئی جہت متعارف کروائی۔ ان کے میسورین راکٹس نے جنگ کے میدان میں نفسیاتی اور جسمانی دونوں طرح سے دشمن کو کمزور کیا۔ ٹیپو کی یہ میراث آج بھی جدید راکٹری اور خلائی تحقیق کے شعبوں میں زندہ ہے۔ وہ نہ صرف ایک بہادر حکمران تھے بلکہ ایک سائنسی ذہن کے مالک بھی تھے، جنہوں نے اپنے وقت سے آگے کی سوچ رکھتے ہوئے دنیا کو ایک نئی راہ دکھائی۔ ان کی کہانی ہر اس شخص کے لیے ایک عظیم مثال ہے جو علم، اختراع، اور وطن سے محبت کا جذبہ رکھتا ہے۔

عجیب و غریب تاریخ

28/05/2025

جب یورپ تاریکی میں ڈوبا تھا، مسلم سائنسدان علم کی روشنی پھیلا رہے تھے

تصور کریں ایک ایسی دنیا جہاں سر درد کو بدروحوں کا سایہ سمجھا جاتا تھا، جہاں مریضوں کے سر میں کیلیں ٹھونک کر "علاج" کیا جاتا تھا، اور جہاں جادو ٹونوں کو بیماریوں کا حل مانا جاتا تھا۔ یہ تھا دسویں صدی کا یورپ، جہاں تاریکی اور جہالت کا راج تھا۔ لیکن اسی وقت، ہزاروں میل دور، مسلم دنیا علم و حکمت کے عروج پر تھی۔ بغداد، قرطبہ، اور دمشق کے علمی مراکز میں مسلم سائنسدان، فلسفی، اور سیاح نہ صرف اپنی تہذیب کو ترقی دے رہے تھے بلکہ انسانیت کے لیے علم کی نئی راہیں کھول رہے تھے۔ یہ کہانی ہے اس سنہری دور کی، جب مسلم دنیا نے سائنس، طب، فلکیات، اور جغرافیہ میں ایسی ایجادات کیں جو آج بھی ہماری دنیا کی بنیاد ہیں۔

ابن سینا: طب کی دنیا کا بے تاج بادشاہ
بغداد اور بخارا کے علمی گلیاروں میں، ایک نوجوان عالم، ابن سینا، اپنی شہرہ آفاق کتاب *"القانون فی الطب"* تحریر کر رہا تھا۔ یہ کتاب صرف ایک طبی کتاب نہیں تھی، بلکہ ایک ایسی دستاویز تھی جس نے طب کی دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ اس میں بیماریوں کی تشخیص، علاج، اور جراحی کے طریقوں کو اس طرح بیان کیا گیا کہ یہ کتاب اگلے ایک ہزار سال تک یورپ کے طبی سکولوں میں نصاب کا حصہ رہی۔ ابن سینا نے نبض کی رفتار سے بیماریوں کی شناخت کا طریقہ بتایا، دماغی امراض کو سمجھا، اور حتیٰ کہ نفسیاتی مسائل کے علاج پر بھی روشنی ڈالی۔ اس نے ثابت کیا کہ طب صرف جسم کا علاج نہیں، بلکہ روح اور دماغ کا بھی علاج ہے۔ آج بھی، اکیسویں صدی میں، ابن سینا کی کتاب کا ذکر ہوتا ہے جب بات جدید طب کی بنیادوں کی ہوتی ہے۔

لیکن ابن سینا تنہا نہیں تھا۔ اس کے ہم عصر، مسلم سائنسدانوں نے طب میں ایسی ایجادات کیں جو آج ہمارے لیے ناقابل یقین ہیں۔ انہوں نے ہسپتال بنائے جہاں مریضوں کا مفت علاج ہوتا تھا، صاف ستھرے آپریشن تھیٹرز بنائے، اور دوائیوں کو بنانے کے لیے کیمسٹری کے اصول وضع کیے۔ جب یورپ میں سرجری ایک خطرناک خواب تھی، مسلم سرجن بغداد میں پیچیدہ آپریشنز کر رہے تھے، جن میں آنکھوں کے موتیابند کے علاج سے لے کر ہڈیوں کی سرجری تک شامل تھی۔

جابر بن حیان: کیمسٹری کا باپ
اسی وقت، ایک اور عظیم سائنسدان، جابر بن حیان، کیمسٹری کی دنیا میں انقلاب برپا کر رہا تھا۔ انہیں "کیمسٹری کا باپ" کہا جاتا ہے، اور اس کی وجہ ان کی کتابیں تھیں جنہوں نے اگلے سات سو سال تک یورپ کے کیمسٹوں کو رہنمائی دی۔ جابر نے نہ صرف سلفیورک ایسیڈ (تیزاب) بنایا، جو آج کسی ملک کی صنعتی ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے، بلکہ انہوں نے ڈسٹلیشن، کرسٹلائزیشن، اور ایواپوریشن جیسے کیمیائی عمل بھی متعارف کروائے۔ ان کی لیبارٹریوں میں بنائی گئی دوائیں اور کیمیکلز نے نہ صرف طب بلکہ زراعت اور صنعت کو بھی بدل دیا۔ جابر کی کتابیں اس قدر اہم تھیں کہ یورپ میں انہیں "کیمسٹری کی بائبل" کہا گیا۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ سائنس اور دین ایک دوسرے کے دشمن نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے ساتھی ہو سکتے ہیں۔

مسلم سیاح اور فلکیات: دنیا کو نئی نظروں سے دیکھنا
جب یورپ کے لوگ اپنے گاؤں سے باہر نکلنے سے ڈرتے تھے، مسلم سیاح دنیا کے کونے کونے میں سفر کر رہے تھے۔ ابن بطوطہ جیسے عظیم سیاح نے افریقہ سے لے کر چین تک کے سفر کیے اور اپنی کتاب *"رحلہ"* میں دنیا کے مختلف کلچرز، جغرافیہ، اور لوگوں کی زندگیوں کا احوال لکھا۔ ان کے سفرناموں نے نہ صرف مسلم دنیا بلکہ یورپ کو بھی دنیا کے بارے میں نئی معلومات دیں۔

اسی طرح، مسلم ماہرین فلکیات جیسے البیرونی اور الخوارزمی نے ستاروں اور سیاروں کے راز کھولے۔ الخوارزمی کی کتاب *"الجبر"* نے ریاضی کی دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا، اور اسی سے لفظ "الجبرا" وجود میں آیا۔ البیرونی نے زمین کی گولائی کا اندازہ لگایا اور فلکیاتی مشاہدات کے لیے جدید آلات بنائے۔ ان کے بنائے ہوئے ایسی آلات نے یورپ کے سائنسدانوں کو صدیوں بعد متاثر کیا۔

قرطبہ اور بغداد: علم کے گہوارے
جب یورپ کے شہر گندگی اور بیماریوں میں ڈوبے ہوئے تھے، مسلم دنیا کے شہر ترقی کی علامت تھے۔ قرطبہ، جو اس وقت اندلس (موجودہ اسپین) کا دارالحکومت تھا، کو دنیا کا صاف ترین شہر کہا جاتا تھا۔ اس کے گلیوں میں روشنیوں کے فانوس جلتے تھے، پانی کے نالے بنائے گئے تھے، اور لائبریریوں میں لاکھوں کتابیں موجود تھیں۔ بغداد، جو عباسی خلافت کا مرکز تھا، "بیت الحکمت" (ہاؤس آف وزڈم) کا گھر تھا۔ یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں دنیا بھر کے عالم جمع ہوتے تھے، یونانی، ہندوستانی، اور فارسی علوم کا ترجمہ ہوتا تھا، اور نئی ایجادات کی جاتی تھیں۔ یہاں کے عالم نہ صرف سائنس بلکہ فلسفہ، ادب، اور فنون لطیفہ میں بھی اپنا کمال دکھا رہے تھے۔

سنہری دور کی راز: قرآن و حدیث کی پیروی
اس ترقی کی سب سے بڑی وجہ مسلم دنیا کا اپنے نصاب— قرآن و حدیث— پر عمل کرنا تھا۔ قرآن نے انسانوں کو غور و فکر کی دعوت دی، اور حدیث نے علم حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا کہ "علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔" اسی فرمان نے مسلم عالموں کو سائنس، طب، اور فلکیات کی طرف راغب کیا۔ انہوں نے دین کو ہر علم پر ترجیح دی، لیکن اس کے ساتھ دنیاوی علوم کو بھی اپنایا۔ انہوں نے اپنی تہذیب کو پروان چڑھانے کے لیے ہر ہنر مند کو عزت دی، چاہے وہ سائنسدان ہو، شاعر ہو، یا سیاح۔

زوال کی کہانی: اپنے نصاب سے دوری
لیکن پھر وقت بدلا۔ مسلم دنیا نے اپنے نصاب کو چھوڑ دیا اور ان علوم کی طرف راغب ہوئی جن میں نہ دنیاوی ترقی تھی، نہ آخرت کی کامیابی۔ ہم نے اپنی روایات کو بھلا دیا اور دوسروں کی تقلید شروع کر دی۔ جب ہم نے اپنی شناخت کھو دی، تو ہماری ترقی بھی رک گئی۔ آج ہم حیران ہیں کہ "تبدیلی کیوں نہیں آ رہی؟" جواب سادہ ہے: ہم نے اپنے اصل نصاب کو چھوڑ دیا۔ وہ نصاب جو ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتا تھا، وہ نصاب جو ہمیں علم کی طرف بلاتا تھا، وہ نصاب جو ہمیں انسانیت کی خدمت کا درس دیتا تھا۔

آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟
آج ہماری دنیا بدل چکی ہے، لیکن ہمارا ماضی ہمیں ایک سبق دیتا ہے۔ ابن سینا، جابر بن حیان، البیرونی، اور ابن بطوطہ جیسے عظیم لوگوں نے ہمیں دکھایا کہ علم، ہمت، اور ایمان کے ساتھ ہم کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے سنہری دور کی طرف لوٹنا ہوگا۔ ہمیں اپنے نصاب— قرآن و حدیث— کو دوبارہ اپنانا ہوگا۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو سائنس، طب، اور فلکیات کی طرف راغب کرنا ہوگا، لیکن اس کے ساتھ اپنی دینی اقدار کو بھی مضبوط کرنا ہوگا۔

یہ کہانی صرف ماضی کی نہیں، بلکہ ہمارے مستقبل کی بھی ہے۔ اگر ہم اپنے اسلاف کی طرح علم کی روشنی کو اپنائیں، تو ہم دوبارہ دنیا کی قیادت کر سکتے ہیں۔ آئیے، اپنے سنہری دور کو یاد کریں اور اسے دوبارہ زندہ کرنے کا عزم کریں۔ کیونکہ جب ہم اپنے نصاب پر واپس لوٹیں گے، تبدیلی خود بخود آئے گی۔..

عجیب و غریب تاریخ

** **

28/05/2025

"دو صدی پرانا انقلاب جو مافیا نے روک دیا: الیکٹرک گاڑیوں کی دفن کہانی"

یہ تصویر 1910 کی ہے۔ تھامس ایڈیسن، دنیا کے عظیم موجد، ایک خوبصورت بیلی الیکٹرک کار کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس گاڑی میں ایڈیسن کی تیار کردہ نِکل آئرن بیٹری لگی تھی، جو ایک بار مکمل چارج ہو کر 100 میل (تقریباً 160 کلومیٹر) تک کا فاصلہ طے کر سکتی تھی۔
یہ کوئی خواب نہیں تھا، بلکہ ایک حقیقت — اُس دور میں جب دنیا ابھی پیٹرول انجن کو مکمل طور پر نہیں اپنائی تھی، الیکٹرک گاڑیاں پوری شان و شوکت سے سڑکوں پر دوڑ رہی تھیں۔

اسی سال — ستمبر 1910 میں — یہی بیلی کار پیٹرول گاڑیوں کے ساتھ 1,000 میل کے endurance test میں شریک ہوئی اور اپنی قابلیت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ مگر یہ تو اس سفر کی کہانی کا درمیانی حصہ ہے۔ اصل آغاز تو اس سے بہت پہلے ہو چکا تھا۔

الیکٹرک گاڑیوں کا آغاز — تیل سے بہت پہلے کی بات

الیکٹرک ٹیکنالوجی کا تصور انیسویں صدی کے آغاز میں سامنے آیا۔
1828 میں ہنگری کے موجد Ányos Jedlik نے پہلی بار ایک چھوٹے سائز کی برقی موٹر تیار کی۔
1835 میں اسکاٹ لینڈ کے Robert Anderson نے دنیا کی پہلی برقی توانائی سے چلنے والی گاڑی تیار کی — جو اگرچہ ابتدائی شکل میں تھی، مگر یہ انسان کی سڑک پر بیٹری کے ذریعے چلنے کی پہلی کوشش تھی۔

اس کے بعد 1870 اور 1880 کی دہائیوں میں مختلف یورپی اور امریکی موجدوں نے ان گاڑیوں کو بہتر بنایا۔
1890 میں William Morrison نے امریکہ میں پہلی کامیاب الیکٹرک گاڑی تیار کی — یہ 6 افراد کو بٹھانے کے قابل تھی اور 20 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی تھی۔

1900 تک امریکہ میں سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں میں الیکٹرک گاڑیاں سب سے زیادہ مقبول تھیں۔ شہروں میں ان کا استعمال عام تھا، خاص طور پر خواتین اور ڈاکٹر حضرات انہیں ترجیح دیتے تھے کیونکہ:

یہ خاموش تھیں

دھواں نہیں چھوڑتی تھیں

سٹارٹ کرنے میں آسان تھیں

گیئر بدلنے کی مشقت سے آزاد تھیں

پھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے — طاقتور سرمایہ داروں کی سازش

یہ سوال بجا ہے کہ جب الیکٹرک گاڑیاں اتنی مقبول تھیں، تو پھر وہ کیوں ختم ہو گئیں؟
اس کا جواب سادہ نہیں، بلکہ ایک گہری اور کڑوی حقیقت ہے۔

1908 میں فورڈ نے اپنی سستی پیٹرول گاڑی Model T مارکیٹ میں متعارف کروائی، جو assembly line کے ذریعے کم قیمت پر تیار ہونے لگی۔
دوسری طرف Rockefeller کی Standard Oil جیسی کمپنیاں پیٹرول کی پیداوار اور تقسیم پر مکمل قابض ہو چکی تھیں۔
انہوں نے مل کر مارکیٹ، میڈیا اور پالیسی کو اس طرح موڑا کہ الیکٹرک کاریں آہستہ آہستہ بازار سے باہر ہوتی گئیں۔

بعد ازاں 1930 سے 1950 کے درمیان جنرل موٹرز، اسٹینڈرڈ آئل اور فائر سٹون جیسی کمپنیاں الیکٹرک گاڑیوں کے خلاف مہمات کا حصہ بنیں۔ ان کے اشتراک سے امریکہ کے کئی شہروں میں الیکٹرک ٹرین سسٹمز کو بھی ختم کر دیا گیا تاکہ عوام کو مجبوراً پیٹرول گاڑیاں خریدنا پڑیں۔

آج کی "نئی" الیکٹرک گاڑیاں — دراصل ایک صدی پرانی واپسی

اب جب دنیا فوسل فیول کے زہریلے اثرات، ماحولیاتی تباہی، ایندھن کی قلت اور گلوبل وارمنگ جیسے بحرانوں سے دوچار ہے —
تو دوبارہ الیکٹرک گاڑیوں کو امید کی کرن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ کوئی نئی ایجاد نہیں، بلکہ تاریخ کی ایک دفن کر دی گئی حقیقت کا دوبارہ ظہور ہے۔
وہی بیٹری، وہی جذبہ، وہی مستقبل — جو 1830 میں خواب تھا،
1900 میں حقیقت تھا،
1930 میں مصلحت کا شکار ہوا،
اور آج — 21ویں صدی میں — ایک نئے عزم کے ساتھ دوبارہ ہمارے سامنے کھڑا ہے۔

عجیب و غریب تاریخ

Shout out to my newest followers! Excited to have you onboard! Hafiz Shakoor Hafiz Shakoor, Muhammad Muhammad, Ali Moham...
25/05/2025

Shout out to my newest followers! Excited to have you onboard! Hafiz Shakoor Hafiz Shakoor, Muhammad Muhammad, Ali Mohammad, Suchie Baat Suchie Baat, Nadeem Khan, Ameer Bux, Parvaiz Ah Naik, Ashraf Ali

24/05/2025

Address

Lahore

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when تازہ ترین خبریں posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to تازہ ترین خبریں:

Share