Aam log

Aam log Just for fun

اگر آپ مر کر بھی امر ہونا چاہتے ہیں تو اس فلمی اداکار کی تقلید کریں۔ یہ انڈین موویز کا مشہور اداکار ہے ۔ اس کا نام سنجے ...
24/10/2025

اگر آپ مر کر بھی امر ہونا چاہتے ہیں تو اس فلمی اداکار کی تقلید کریں۔ یہ انڈین موویز کا مشہور اداکار ہے ۔ اس کا نام سنجے شندھی ہے۔ یہ مہاراشٹر کا رہنے والا مراٹھی اداکار ہے.
اس نے ایک انٹرویو کے دوران انکشاف کیا کہ جب میری ماں بیمار ہو گئی اور اس کے بچنے کا کوئی آسرا نہیں رہا تو میں نے ماں کو کہا کہ میں کتنا ہی امیر، بااختیار اور طاقتور ہو جاؤں مگر میں تجھے نہیں بچا سکتا، لیکن میں تیرے ساتھ بھی رہنا چاہتا ہوں..."
سنجے نے کہا پھر ایک دن میں نے اپنی ماں کو ترازو کے ایک پلڑے میں بٹھایا اور دوسرے پلڑے میں دیسی درختوں کے بیج (سیڈز) رکھے اور وہ بیج میں نے مہاراشٹر کے مختلف مقامات پر لگائے، کہیں ایک ہزار تو کہیں 10 ہزار۔۔ کہیں 5 ہزار درخت ہوگئے. اب یہ درخت 20,20 فٹ اونچے اور پھل دار ہیں۔ جب تک یہ درخت رہیں گے،
ان میں پھل اور پھول ہوں گے، خوشبو ہوگی، پرندے ہوں گے،
میں ان درختوں میں اپنی ماں کے ساتھ رہوں گا...
تحریر پڑھنے والے قارئین کے سامنے کسی بھی شخص کی ایسی ہی کوئی انوکھے سوشل ورک، اچھے کام کی مثال ہے تو ضرور شئیر کریں!
منقول

24/10/2025

ہمارے رونے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم بحثیت قوم ایک رونے والی قوم بن چکے ہیں ہمیں ہر حال میں رونا ہے مظلومیت ثابت کرنی ہے یہاں تک کہ ہم نے اب مظلومیت کو باقاعدہ ایک ہتھیار بنا لیا ہے۔
ہمارا رونا ہے کہ آبادی بہت بڑھ گئی ہے روزگار کے مواقع بہت کم ہیں مگر ساتھ ہی ہمارا یہ رونا بھی ہے کہ نوجوان ملک چھوڑ کے جا رہے ہیں۔
ایشیا کی تو بات چھوڑیں یورپ کے بے شمار ملکوں کے لوگ امریکہ اور کینیڈا میں جا بسے ہیں ان ملکوں کی اتنی آبادی بھی نہیں اور انہیں اس ہجرت سے فرق بھی پڑتا ہے مگر آپ کو وہاں سے یہ رونا سنائی نہ دیگا کہ لٹ گئے مر گئے ہمارے لوگ ملک چھوڑ کے جا رہے ہیں۔
روزگار کے لیے ان باہر جانیوالوں کو یہاں فیشن کے طور پر برین ڈرین بھی کہا جاتا ہے میرا سوال ہے کہ یہ برین جب پاکستان میں تھا تو آپ نے ان سے کیا فائدہ حاصل کر لیا تھا جو انکے جانے سے مسلہ ہو جائیگا؟
زیادہ تر پاکستانی جو باہر جاتے ہیں وہ مزدور پیشہ لوگ ہوتے ہیں چند ایک جو پروفیشنل باہر جاتے ہیں ان جیسے بے شمار اب بھی یہاں موجود ہیں انہوں نے کون سے نوبل پرائز جیت لیے ہیں؟
خدا کا خوف کریں اگر کسی کو دوسرے ملک میں اچھا روزگار ملتا ہے وہ اپنی فیملی کو باعزت زندگی کے قابل بناتا ہے ملک کو زرمبادلہ بھیجتا ہے تو اس پر رونا کیوں ڈال کے بیٹھ گئے ہیں؟

آج کل ہمارا ایک اور رونا یہ ہے کہ غیر ملکی کمپنیاں پاکستان چھوڑ کے جا رہی ہیں اور اس پر بڑی غمناک تحریریں لکھیں جا رہی ہیں۔

آپ غیر ملکی پراڈکٹس اور کمپنیوں کا بائیکاٹ کرتے ہیں

انکے منافعے گن گن کے بین ڈالتے ہیں کہ لوٹ گئے اجاڑ گئے

مگر جب وہ بھاگتی ہیں تو روتے ہیں کہ غیر ملکی کمپنیاں جا رہی ہیں۔
کرونا کے دوران جب بین الاقوامی تجارت بند ہوئی تو غیر ملکی اشیاء کی قلت پیدا ہوئی جس کی کمی پورا کرنے کے لیے کئی ملکی کمپنیاں میدان میں آئیں اور چند ایک نے اچھے معیار کی چیزیں غیر ملکی کمپنیوں سے کہیں ارزاں نرخوں میں بیچنا شروع کیں۔
میں ہمیشہ سے ہیڈ اینڈ شولڈر شیمپو استعمال کرتا رہا ہوں کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں بننے والے اس شیمپو کا معیار خراب لگا اور ساتھ ہی انہوں نے قیمت کافی بڑھا دی تو تجربےکے لیے ایک لوکل کمپنی کا شیمپو جسے ہیڈ اینڈ شولڈر کا متبادل کہا جا رہا تھا، استعمال کیا تو میں یہ دیکھ کے حیران رہ گیا کہ وہ لوکل ہیڈ اینڈ شولڈر شیمپو سے کہیں بہتر تھا اب گزشتہ دو سال سے وہی استعمال کر رہا ہوں اور معیار سے بالکل مطمئن ہوں۔
اسی طرح کئی پاکستانی کمپنیاں نئی پیدا ہوئی ہیں جو غیر ملکی کمپنیوں کو ناک آوٹ کر رہی ہیں مگر نہیں صاحب ہم نے تو رونا ہے۔

اوبر اور کریم ٹیکسی سروس بہت تیزی سے مقبول ہوئی مگر انکے اپنے خرچے اتنے زیادہ تھے کہ وہ کرائے بڑھاتے چلے گئے نتیجے کے طور پر ان ڈرائیو اور ینگو نامی کمپنیاں میدان میں اتریں جنہوں نے مناپلی توڑ دی اور اوبر کریم کی چھٹی کروا دی
اسکے علاؤہ کئی ایک غیر ملکی کمپنیاں اپنا کاروبار لوکل کمپنیوں کے سپرد کر گئی جن کا یہاں رونا پڑا ہوا ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ملکی کمپنیوں پر انحصار نہ کرنے پر بھی روتے ہیں اور جب کیا جاتا ہے تو بھی ہم غیر ملکی کمپنیوں کو یاد کر کے روتے ہیں۔

آگے چلئے

ہمارا ہمیشہ رونا رہتا ہے کہ تجاوزات کی بھرمار ہے،ناجائز منافع خوری کا طوفان ہے وغیرہ وغیرہ
مگر جب بھی کوئی انکے خلاف ایکشن شروع ہوتا ہے ہمارا رونا اور زیادہ بلند ہو جاتا ہے اور یہ رونا اب اس بات پر ہوتا ہے کہ غریبوں کی ریہڑیاں الٹ دیں،جرمانے کر دیے غریب کا روزگار تباہ کر دیا۔۔
اب کوئی مجھے یہ سمجھا دے کہ اگر ریہڑیاں، خوانچے، فٹ پاتھوں پر قبضے بھی ایسے ہی رہنے ہیں اور چیزیں ریٹ لسٹ کے مطابق نہ بیچنے والوں کو بھی کچھ نہیں کہنا تو تجاوزات ختم کیسے ہونگی اور ناجائز منافع خوری کا خاتمہ کیسے ہو گا؟
کیا یہاں کے لوگوں کی "نیک دلی اور ایمانداری" پر ہی بھروسہ کر کے بیٹھا جائے؟
مگر نہیں جناب ہم کو تو رونے کا چسکا لگا ہوا ہے ہم تو روئے گا۔

مزید آگے چلئے

جتھے بنائے گئے تو رونا
جتھے ختم کیے جا رہے ہیں تو رونا

ترقیاتی کام ہو رہے ہیں تو تصویریں کیوں لگائیں کا رونا

جہاں کام نہیں ہو رہے تو کیوں نہیں ہو رہے کا رونا

طیفی بٹ جیسے بدمعاشوں کو کیوں نہیں مارتے اس پر رونا

طیفی بٹ جیسےبدمعاشوں کو کیوں مار دیا اس پر بھی رونا

آٹا مہنگا تھا تو رونا
آٹا سستا ہوا تو کسانوں کی بربادی کا رونا

ٹریفک نظام کی ابتری پر رونا
ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے تو جرمانوں پر رونا

ہزار پتی کا لکھ پتی،لکھ پتی کا کروڑ پتی،کروڑ کا ارب اور ارب کا کھرب پتی نہ بن پانے پر رونا۔۔۔۔۔۔۔
رونا رونا رونا۔۔۔۔
بھائی بڑی ہی کوئی اذیت پسند قوم ہے۔
ناصر بٹ

23/10/2025

TURNING FOG INTO WATER... PERU’S GENIUS SOLUTION TO SURVIVE THE DESERT

High in the dry, dusty hills of coastal Peru, where rain rarely falls and rivers are miles away, a quiet revolution is changing lives... one drop at a time. Engineers and villagers have come together to harvest one of the planet’s most overlooked resources: fog.

Using tall, vertical nets made from fine mesh and cactus fibers, communities have learned how to turn mist into drinking water. These fog-catching structures stand several meters high, capturing moisture from the thick Pacific fog known locally as Garúa. As the fog passes through the mesh, tiny droplets condense, trickle down into pipes, and are stored in large containers... producing up to 400 liters of clean water a day from thin air.

This innovation, inspired by nature itself, mimics how desert plants like cacti capture water from the air. It requires no electricity, no complex technology... just smart design and teamwork. The collected water is used for drinking, cooking, and irrigation, giving new hope to families living in some of the driest regions on Earth.

But beyond the engineering, this is a story about human resilience... about how creativity and cooperation can overcome even the harshest conditions. When nature doesn’t give you water, you learn how to take it gently from the sky.

Can you imagine living in a place where your water doesn’t come from rain or rivers, but from the fog that passes overhead?

21/10/2025
20/10/2025
19/10/2025

میں اپنے کام کی نوعیت کی وجہ سے بہت زیادہ سفر کرتا ہوں اور ملک کے اندر یا باہر اپنے قیام کے لیے ہوٹلز بک کرنے کے لیے آن لائن ٹریول بکنگ پورٹلز کا استعمال تقریبًا 15 سال سے کرتا آرہا ہوں۔

چونکہ مستقل استعمال کی وجہ سے میں ان پورٹلز کا ٹاپ ٹیئر ممبر ہوں تو مجھے بہت سی سہولیات مل جاتی ہیں جیسے جلدی چیک ان، لیٹ چیک آؤٹ، فری ائرپورٹ ٹیکسی، کھانے پینے پر ڈسکاؤنٹ وغیرہ۔

میں نے دنیا کے بیسیوں ممالک کا سفر کیا ہے لیکن ایک حرکت جو پاکستان میں ہوٹلز یا گیسٹ ہاؤسز کرتے ہیں، یہ حرکت مجھے کسی بھی اور ملک میں دیکھنے کو نہیں ملی۔

اس میں بڑے فائیو اسٹار ہوٹل شامل نہیں ہیں لیکن کچھ فور اسٹار ہوٹلز، گیسٹ ہاؤسز یا فرنشڈ اپارٹمنٹس میں یہ مستقل تجربہ ہورہا ہے۔

میں جیسے ہی چیک ان کرتا ہوں، مجھ سے کہا جاتا ہے کہ

سر آپ اپنی آن لائن بکنگ کینسل کردیں، ہم آپ کو یہی ریٹ ڈائریکٹ دے دیتے ہیں۔

کیوں؟

سر، آپ کو تو وہی ریٹ مل رہا ہے نا! تو آپ کردیں۔۔۔

لیکن میں ایسا کیوں کروں؟

کیونکہ ہمیں 10 فیصد کمیشن آن لائن پورٹلز کو دینا پڑتا ہے تو وہ ہمیں بچ جائے گا۔ اور آپ تو اپنے ہی بندے ہیں۔

لیکن بھائی میری کینسل کرنے کی ڈیڈ لائن تو نکل چکی ہے، اور اب آن لائن پورٹل مجھے ایک نائٹ کا تو چارج کرے گا!

نہیں سر! وہ ہمیں نقصان سے بچانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ اگر ہم میسج ڈال دیں گے کہ وہ آپ کو چارج نہ کریں تو وہ نہیں کریں گے اور آپ کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

اوہ، اچھا! ماشاء اللہ! یعنی آپ آسان الفاظ میں یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ بھی ان سے جھوٹ بولیں، میں بھی ان سے جھوٹ بولوں تاکہ آپ کا دس فیصد کمیشن بچ جائے اور ان کا 10 فیصد کمیشن کا نقصان ہوجائے۔

جبکہ وہ آپ کی پراپرٹی کو اپنے پورٹل پر مارکیٹ کررہے ہیں یعنی انہوں نے آپ کو اپنے پاس جگہ دی ہوئی ہے جس پر آپ ساری مارکیٹنگ کرتے ہیں، اپنی پراپرٹی کی تصاویر اپلوڈ کرتے ہیں اور میرے جیسے بہت سارے لوگ وہیں سے آپ کے بارے میں جانتے ہیں اور بکنگ کرواتے ہیں۔

اب یہ میرا مستقل کام ہوگیا ہے کہ مجھے چیک ان کے وقت پاکستان کے اکثر ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز والوں کو پہلے کمٹمنٹ اور انٹیگرٹی پر ایک منی ورکشاپ کروانی پڑتی ہے اور جتنے دن قیام رہتا ہے، بار بار تذکیر کے طور پہ بٹھا کر کرواتے رہنی پڑتی ہے کہ۔۔۔

اللہ کے بندو اور بندیوں! کچھ اللہ کا خوف کرو، یہ حرکتیں کیوں کررہے ہو؟ معلوم یہ ہوا کہ اکثر گیسٹ ان کی بات مان لیتے ہیں اور جھوٹ بول دیتے ہیں کہ ہم نہیں جارہے، کینسل کررہے ہیں، اور ادھر سے یہ بھی او کے کردیتے ہیں۔

میں یہ بات اس لیے لکھ رہا ہوں کہ ہم یہ بات سمجھیں کہ یہ کاروباری بددیانتی اور بے ایمانی ہے۔ یہ جھوٹ، دھوکہ اور فریب ہے۔

شاید اس سے 10 فیصد نفع زیادہ ہوجاتا ہو لیکن آپ نے خسارہ کمایا ہے۔

برکت گنوا دی ہے، اور آن لائن پورٹلز اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ایک پراپرٹی پر اکثر بکنگ ہوتی ہے لیکن عین چیک ان کے ٹائم پر کینسل ہوجاتی ہے۔

ان کا ڈیٹا ان کو یہ بھی بتارہا ہوتا ہے کہ کون سے ممالک اور شہروں میں ایسا اکثر ہوتا ہے۔

یہ ہے ہمارا وہ امیج جو ہم دنیا میں اپنا بناتے ہیں۔ پھر دنیا کے اکثر ممالک ہمارے ویزے بند کردیتے ہیں، سفری پابندیاں لگا دیتے ہیں، ہمیں کام نہیں دیتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے؟

آپ مجھے بتایئے، کیا یہ بددیانتی نہیں ہے؟

کیا ہم پاکستان اور اسلام دونوں کو بدنام کرنے کا باعث نہیں بن رہے؟

اور اس میں اکثر پراپرٹی کے مالکان خود ملوث ہوتے ہیں جو اسٹاف کو کہتے ہیں کہ تم گیسٹ کو یہ آفر کردیا کرو۔

ان لوگوں کو یہ اندازہ نہیں کہ کم از کم میں ایسی ہر پراپرٹی کو اپنی بلیک لسٹ میں ڈال دیتا ہوں کہ دھوکہ دینے اور جھوٹ بولنے والے کو میں کوئی سپورٹ نہیں کروں گا اور آئندہ کبھی بھی یہاں نہیں قیام کروں گا۔

کیونکہ جو بندہ یہ کرتا ہے، وہ میرے ساتھ بھی کوئی نہ کوئی دھوکہ کرے گا۔ ہوسکتا ہے جو کھانا میں کھا رہا ہوں، اس میں گھٹیا معیار کے اجزائے ترکیبی استعمال کرتا ہو۔

اس نے تو دھوکہ دے کر اپنا نفع بڑھانا ہے تو میں کیوں اس کو سپورٹ کروں۔ ایسے لوگوں کا نقصان ہونا چاہیے تاکہ ان کا دماغ درست ہو۔

دل تو میرا یہ بھی چاہتا ہے کہ ان پورٹلز کو ایسی پراپرٹی ہائی لائٹ کردوں تاکہ وہاں بھی بلیک لسٹ ہوجائیں اور ان کو بزنس ہی نہ ملے۔

لیکن یہ سوچ کر نہیں کرتا کہ تین چار دن تک جو فری منی ورکشاپس کروائی ہیں، شاید بات سمجھ آگئی ہو اور آئندہ ایسا نہ کریں۔

بعینہ یہی حرکت ان ڈرائیو اور کریم کے ڈرائیورز کرتے ہیں اور اس کا تجربہ مجھے سب سے زیادہ اسلام آباد اور لاہور میں ہورہا ہے۔

اس میں بھی منی ورکشاپ کرواتا ہوں اور ریٹنگ خراب دینی پڑتی ہے۔

اور وطن عزیز میں جابجا ایسے مشاہدے دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔

میرے کئی پاکستانی بزنس کلائنٹس جو دیگر ممالک میں کاروبار کرتے ہیں، ان میں سے کئی لوگ پچھلے پانچ سات سالوں سے مجھے یہ بات کہتے آرہے ہیں کہ۔۔۔

یمین بھائی، ہم پاکستان سے لوگوں کو ہائر نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ہمارے لوگوں کی اخلاقیات اتنی خراب ہیں کہ ہم تھک چکے ہیں۔

وقت پر نہ آنا، جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی، کام میں ڈنڈی مارنا، وقت ضائع کرنا۔۔۔۔۔ عام بات ہے۔

جبکہ ان کے مقابلے میں ہندوستان،بنگلہ دیش، فلپائن وغیرہ کے لوگ اخلاقی معاملات میں بدرجہا بہتر ہوتے ہیں۔ خصوصا" جو نوجوان گریجویٹ آتے ہیں، ان کا تو بہت ہی برا حال ہے۔

اب ہوا یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات ہو، سعودی عرب ہو یا دیگر خلیجی ممالک ہوں، اکثر جگہوں پر ہمارے لوگوں کو جابز نہیں آفر ہورہیں۔

اور اگر جاب آفر ہوجائے تو ویزہ اپروو نہیں ہوتا،نتیجہ یہ ہے کہ اکثر کمپنیوں کی یہ پالیسی بن گئی ہے کہ پاکستان سے لوگ نہیں رکھنے۔

حال ہی میں، دبئی میں میرے ایک ہندوستانی کلائنٹ نے بہت افسوس کے ساتھ ایک پاکستانی ملازم کو اس کی بے ایمانی کی وجہ سے نوکری سے فارغ کردیا۔ حالانکہ وہ ایک مناسب پوزیشن پر تھا، اور مناسب آمدنی بھی تھی، رہائش بھی کمپنی نے دی ہوئی تھی۔

یہاں پاکستان میں ایک جاننے والے صاحب کے بیٹے کو ایک ادارے میں ریفر کیا جو ایک اچھی یونیورسٹی سے گریجویٹ ہے۔

انہوں نے رکھ لیا کہ یمین بھائی نے ریفر کیا ہے تو صحیح کیا ہوگا۔

مصیبت میرے گلے پڑ گئی۔۔۔۔!!!

تین مہینے کے اندر اندر فارغ کرنا پڑا۔ کیوں؟

ایک دن بھی وقت پر دفتر نہیں پہنچے موصوف۔

ہر ہفتے کم از کم ایک چھٹی الگ کررہے ہیں۔

کوئی کام وقت پر کر کے نہیں دے رہے۔

کبھی وقت سے پہلے دفتر سے خاموشی سے چلے جارہے ہیں۔

گھر میں بقول ان کے والد کے، بہت پریشانی ہے، بچہ کام پر لگ جائے گا تو کچھ آسانی ہوجائے گی۔ مجھے ہر طرح سے یقین دلایا گیا کہ یہ بہت محنتی لڑکا ہے۔

لیکن ہوا کیا؟

مجھے اس ادارے کے مالکان کی جانب سے کالز اور میسجز آرہے ہیں۔

میں سمجھا بھی رہا ہوں کہ یہ کیا کررہے ہو، لیکن پھر وہی حرکتیں۔۔۔

بالآخر، دو مہینے اور دس دن کے بعد فارغ ہوگئے۔ اور تنخواہ بھی لیٹ ہونے، جلدی جانے اور چھٹیاں کرکے خوب کٹوائی۔

لیکن اس ادارے کے تین ماہ ضائع ہوگئے، میں آج بھی ان سے ملتا ہوں تو شرمندگی ہوتی ہے۔

جو بھی میری پوسٹ پڑھ رہے ہیں، اس بات کو سمجھ لیں کہ اگر آپ کے اندر انٹیگرٹی یعنی اصولوں اور ضابطوں کی پابندی کا مزاج نہیں ہے،

اگر آپ کے اندر کمٹمنٹ کا ہائی لیول نہیں ہے۔۔۔

تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ ملازمت پیشہ ہوں یا اپنا بزنس کرتے ہوں، آپ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے چاہے آپ کتنے ہی ٹیلینٹد انسان کیوں نہ ہوں۔

ہمارا من حیث القوم، سب سے بڑا مسئلہ ہی اخلاقی ہے۔

میرے بھائیو،بہنوں، بچوں!

اللہ سبحانہ و تعالٰی، معاذ اللہ، ہمارے حق میں ظالم نہیں ہیں، لیکن اس دنیا میں اللہ کی کچھ سنتیں ہیں جن کے مطابق اس دنیا کے معاملات چلتے ہیں۔

اسی لیے جب بھی کوئی مصیبت آئے تو سب سے پہلے خود کے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے کہ میں کیا کررہا ہوں۔

اللہ تعالٰی کے اجتماعی فیصلے اجتماعی اعمال کے خلاصے کے مطابق ہی اترتے ہیں۔

اگر آپ زندگی میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ایک اصول اپنا لیجیے کہ میں نے جو بھی کام کرنا ہے، انٹیگرٹی اور کمٹمنٹ کے ساتھ کرنا ہے۔

چاہے اس کے لیے مجھے کوئی تکلیف سے گزرنا پڑے۔ کوئی قربانی دینی پڑے، یا اپنے مزاج کے خلاف کچھ کرنا پڑے۔

اور اگر آپ یہ نہیں کرسکتے، یا کمفرٹ زون کا شکار ہیں، یا معاشرے کا عام رنگ خوب چڑھ گیا ہے تو پہلے خود کی تربیت کیجیے۔

اور نہیں تو ساری زندگی روتے رہیے، اور دنیا کو کوستے رہیے۔

یمین الدین احمد
19 اکتوبر 2025ء
کراچی، پاکستان

18/10/2025

ہم پاکستانی ایک لفظ سمجھ لیں تو ان شاءاللہ ملک بھکاریوں سے پاک ہونا شروع ہو جائے گا۔
وہ لفظ ہے #بھیک۔

بھیک کا لغوی معنی ہے مفت دینا ۔

جبکہ بھیک مانگنے کا مطلب ہے مفت مانگنا یعنی بغیر محنت کے،بغیر شرعی عذر کے،لوگوں سے مال و امداد کا تقاضا کرنا،انہیں ایموشنل بلیک میل کرنا یا ایسے دھوکے میں رکھنا کہ اللہ کا کوئ فضل نہیں ہے۔

اب آتے ہیں بھیک دینے والوں کی طرف ۔
یہ بتائیں کیا اسلام میں لاٹری حلال ہے ؟
مسئلہ یہ ہے کہ صرف پانچ دس ڈالرز
سے لیا گیا لاٹری ٹکٹ ایک مسلمان کے حصے میں وہ سارے گناہوں کا وبال لا کر ڈال دیتا ہے جن کے بارے میں کبھی اس نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا ہے۔
وجہ سادہ سے حساب سے سمجھ آجاتی ہے کہ جس کی لاٹری نکلی اس نے اس مال سے جی بھر کر گناہ کئے،شرک کے کاموں میں چندہ دیا اس میں آپ کے پانچ ڈالرز شامل ہوئے تب ہی جا کر یہ ممکن ہو پایا۔
بالکل اسی طرح سے بھیک کے چند روپے آپ کے گھر وبال لے کر آتے ہیں ۔
ہر وہ ماں جس کے لخت جگر کو اغوا کیا گیا،ہر وہ باپ جس کی اولاد کے ہاتھ پیر توڑے گئے،جنہیں بیچا گیا،ہر وہ بچہ جو ظلم و بربریت کا شکار ہوتا رہا اس کی آہوں کا وبال سیدھا آپ کے اکاؤنٹ میں پہنچ جاتا ہے ،ادھر آپ نے بھیک دی ادھر وبال جان آپ کے پیروں سے لپٹ جاتا ہے۔
آپ کے بغیر بھکاریوں کی انڈسٹری کھڑی ہی نہیں ہوسکتی تھی،اس پورے گینگ کو سپورٹ کرنے میں آپ کے "چند روپے"شامل ہیں۔

آپ کی لا علمی اور ضد نے کتنے ہی سرکش، رب العزت کے سامنے کھڑے کر ڈالے،یاد ہے نا کہ دھوکہ دینے والا ہم میں سے نہیں،تو چوک پر موجود ،پھٹے حال بھیک منگے،سج دھج سے اٹے خواجہ سرا دن دیہاڑے دھوکہ نہیں دیتے؟
آپ چوک پر ان کی اتنی مدد فرماتے ہیں کہ بھیا آپ کو چوک چھوڑ کر پانی پینے بھی نہ جانا پڑے ،کہیں آپ کو لو نہ لگ جائے اتنے اہم محاذ پر کھڑے ،دیکھیں یہ ہم ٹھنڈے پانی کی بوتلیں لائے ہیں اس سے تازہ دم ہوکر بھیک مانگیے ہم آپ کے زمانہ بشانہ آپ کے حصے کا وبال بانٹنے کھڑے ہیں نا!
یاد رکھئے یاد رکھئے اور بار بار یاد دھانی کرواتے رہئے کہ بھیک صدقہ نہیں ہے جو بلائیں دور کرتا ہے،بلکہ یہ تو الٹا بلائیں خریدنے کے مترادف ہے ۔ بھیک خیرات نہیں ہے ،بھلا اس سے کس کو خیر مل رہی ہے ؟ ملک کو آپ کو ؟ آپ تو ظالم کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں یہ کیسی خیر ہے ؟ یاد رکھیں کہ بھیک زکات نہیں جس سے مال کا میل دور ہوتا ہے برکت آتی ہے،بھیک تو سراسر اغوا کنندگان کی مالی معاونت ہے جو آپ سے سرزد ہوتی رہی ہے۔ یاد رکھئیے کہ بھیک قرض حسنا نہیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ دوگنا لوٹائے گا بلکہ کہیں زیادہ ۔

بھکاری وہ ہوتا ہے جو اپنا ہاتھ آپ کے آگے پھیلاتا ہے کہ مفت میں مدد کر دو،یہ بغیر محنت اور کوشش کیئے ہی اپنا دامن خالی بتاتا ہے،اس کے لئے تو وعید ہے کہ قیامت کے دن چہرہ گوشت سے خالی ہوگا۔
کبھی غور تو کریں اپنی دل کی کیفیت پر کہ آپ بھیک کیوں دیتے ہیں ؟ کیا کوئ آکر آپ سے کہے کہ مجھے قتل کرنا ہے چاقو کے پیسے دے دو،کوئ کہے بچے کو اغوا کرنا ہے بوری کے لئے پیسے دے دو،کسی کی آنکھیں نوچ کر اندھا بنانا ہے ڈاکٹر کی فیس دے دو تو آپ اس پر ترس کھا کر مدد کر دیں گے ؟

خدارا سمجھیں اس بات کو کہ یہ شیطان کا مشن ہے،اس میں مال کی شمولیت وبال بن جاتی ہے ۔
ایک مسلمان کو تو روز ہی صدقہ دینا چاہیے مگر شیطان کے جھانسے میں آکر نہیں،شیطان کے راستے میں فی سبیل الشیطٰن ہرگز بھی نہیں ۔

آپ محلے کے بچوں کو فروٹس لے دیں،کسی مستحق پڑوسی کی بہانے سےمدد کردیں،گھر کے ملازم کو گھر والوں کو مال میں سے کچھ بھی کسی بھی بہانے سے دے دیں ان شاءاللہ خیر لکھی جائے گی اور بدلے میں خوب خوب ملے گا ،اور اللہ تعالیٰ کے ہاں احد پہاڑ جتنا ہو کر محفوظ بھی رہے گا ۔یاد رکھیں آپ رازق نہیں ہیں ،اور رزق دینے والے کی امانت آپ کے پاس موجود ہے ،وہ جو دیئے ہوئے میں سے دینا ہے وہ امانت ہے ،وہ بھیک میں نہیں دینا ہے،اور کسی بھی ایسے گلے میں پیسے نہیں ڈالنے جسکے بارے میں کامل یقین نہیں کہ یہ فلاح کے کام میں لگے گا ۔ تو اب سے خیرات زکواۃ صدقات اور قرض حسنا سب اللہ کی راہ میں دینی ہے فی سبیل للہ ان شاءاللہ۔
منقول

16/10/2025

"افغانستان"
جاوید چودھری

لاہور میں میرے ایک دوست تھے، وہ افغانستان سے آئے تھے لہٰذا ہم انھیں افغان بھائی کہتے تھے، قالینوں کا کاروبار کرتے تھے اور ارب پتی تھے، ان کے پاس تیس چالیس ملازم تھے لیکن ان میں ایک بھی افغان نہیں تھا، دو تین کو چھوڑ کر سارے پنجابی تھے، میں نے ان سے ایک دن پوچھا "افغان بھائی آپ خود نیم روز سے ہیں لیکن آپ نے اپنے گھر اور دفتر میں کوئی افغان ملازم نہیں رکھا، آپ کے چوکی دار تک بلوچ ہیں۔

اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟" افغان بھائی نے مسکرا کر جواب دیا " ہم افغان فطرتاً اچھے لوگ ہیں لیکن ہمیں وفادار رکھنے کے لیے آپ کا امیر یا طاقتور ہونا ضروری ہے" وہ تھوڑی دیر رک کر بولے "افغان کی فطرت ہے یہ آپ کے ساتھ لالچ سے رہے گا یا پھر خوف اس کی بنیاد ہوگی، یہ برابری یا عزت کی وجہ سے کبھی آپ کے ساتھ نہیں رہتا، آپ انھیں دبا لیں یا پھر خرید لیں یہ آپ کے ساتھ چلتے رہیں گے مگر جس دن آپ کے پاس یہ دونوں ٹولز نہیں ہوں گے اس دن یہ آپ کا گلہ کاٹ دیں گے اور یہ اس وقت آپ کی ساری نیکیاں فراموش کر دیں گے" ان کا کہنا تھا آپ کو اگر دوست یا ملازم چاہیے تو آپ پنجابی کا انتخاب کریں، یہ آپ کو مشکل وقت میں اکیلا نہیں چھوڑے گا" میں نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور بات بدل دی، میرا خیال تھا افغان بھائی پنجاب میں سیٹل ہیں اور ہم پنجابیوں سے بات کر رہے ہیں چناں چہ یہ ہلکا پھلکا مکھن لگا رہے ہیں لیکن آپ یقین کریں جب سے افغانوں کا نیا چہرہ میرے سامنے آیا مجھے افغان بھائی کا ایک ایک لفظ یاد آ گیا۔

پاکستان نے افغانستان کے لیے کیا کیا نہیں کیا؟ ہم نے 80 کی دہائی میں افغانوں کے لیے اپنے سارے گیٹ کھول دیے اور ان دروازوں سے 50 لاکھ افغان پاکستان آ گئے، پاکستان نے انھیں پورے ملک میں آباد ہونے اور کاروبار کی اجازت دے دی، اس کے تین نتائج نکلے، پاکستان کا کلچر بدل گیا، ہم لبرل لوگ تھے، ہم مذہبی شدت پسند ہو گئے، دوسرا ملک میں کلاشنکوف اور منشیات آ گئیں اور اس نے ہماری تین نسلیں برباد کر دیں اور پاکستان میں بے روزگاری میں اضافہ ہوگیا، کوئٹہ، پشاور اور کراچی کبھی پرامن اور صاف ستھرے شہر ہوتے تھے، لوگ چھٹیاں منانے وہاں جاتے تھے لیکن آج آپ ان کی حالت دیکھ لیں، یہ افغانوں کی مہربانی ہے۔

دوسرا افغان جنگ کی وجہ سے ہمارے اسکولوں کا سلیبس تبدیل ہوگیا، پاکستان میں اسلامیات اور مطالعہ پاکستان اسکولوں میں لازمی ہو گئے اور ان کا سلیبس امریکا میں تیار کیاگیا تھا اور اس میں افغان طالع آزماؤں کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا، اسلامیات میں بھی جہاد کی آیات اور احادیث شامل کی گئیں، مسجدوں کے اماموں کو بھی جہاد کی ترویج اور فرقہ پرستی پر لگا دیا گیا چناں چہ آپ آج کا پاکستان دیکھ لیں، تاریخ میں محمود غزنوی، شہاب الدین غوری اور احمد شاہ ابدالی کا کیا کردار تھا، یہ لوگ ہندوستان کیا لینے آتے تھے اور اسلام کے ساتھ ان کا کیا تعلق تھا؟ ہمیں ماننا ہوگا یہ طالع آزما تھے اور یہ ہر سال ہندوستان کو لوٹنے آتے تھے لیکن یونیورسٹی آف نبراسکا نے انھیں 1980میں اسلامی دنیا کے عظیم ہیرو بنا دیا اور ہماری نئی پود نے یہ "نیونارمل" تسلیم کر لیا لہٰذا آپ آج اس جعلی تاریخ کا نتیجہ دیکھ لیں، امریکا نے پروپیگنڈے سے افغانوں کویہ یقین بھی دلا دیا تھا تمہیں آج تک کوئی فتح نہیں کر سکا۔

یہ سراسر جھوٹ تھا، افغانستان کسی بھی دور میں آزاد نہیں رہا تھا، اشوکا سے لے کر امریکا تک یہ ہر دور میں کسی نہ کسی بیرونی طاقت کا مفتوح رہا اور اس وقت تک رہا جب تک کسی دوسرے نے اس پر قبضہ نہیں کیا، آپ تاریخ پڑھ لیں، کیا یہ آشوک، یونانیوں، منگولوں، ازبکوں، ایرانیوں، ترکوں، سکھوں، انگریزوں، روسیوں اور امریکیوں کے زیرتسلط نہیں رہے، حدتو یہ تھی سیالکوٹ کے ایک راجہ منندر عرف ملند نے بھی انھیں فتح کر لیا تھا، اس کی حکومت بھی کابل تک تھی، یہ افغان راجہ رنجیت سنگھ کا مقابلہ بھی نہیں کر سکے تھے، وہ بھی 31 سال خیبر پاس پر قابض رہا اور افغانوں نے چوں تک نہیں کی۔ "افغان ناقابل تسخیر ہیں" یہ فارمولہ بھی پاکستان اور یونیورسٹی آف نبراسکا نے ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے دیا تھا اور انھوں نے اسے سچ مان کر دنیا میں اپنے واحد دوست اور محسن پاکستان پر ہی حملے شروع کر دیے۔

طالبان کون ہیں؟ یہ پاکستان میں پرورش پانے والے افغان ہیں، ہم نے انھیں 1980کی دہائی میں پناہ اور تعلیم دونوں دیے، یہ 1994 میں بھی پاکستان کی مدد سے اقتدار میں آئے تھے اور 2021میں بھی پاکستان ہی انھیں دوبارہ اقتدار میں لے کر آیا اور دونوں مرتبہ ان کے ہاتھوں ذلیل ہوا، پاکستان نے نائین الیون کے بعد انھیں 20 سال دنیا بھر سے بچا کر رکھا تھا، یہ کوئٹہ، کراچی اور راولپنڈی میں پاکستان کی پناہ میں رہے اور پاکستان نے ہی انھیں امریکا کے انخلاء کے بعد کابل کا تخت پیش کیا اور آپ آج اس کا نتیجہ دیکھ لیں، آپ طالبان کے وزیرخارجہ امیر متقی کی مثال لے لیں، یہ خاندان سمیت 1980 میں پاکستان آئے۔

آج بھی کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں ان کی اربوں روپے کی پراپرٹی ہے، یہ کاروباری لوگ ہیں، انھوں نے پاکستان سے کھربوں روپے کمائے لیکن آج یہ بھارت میں کھڑے ہو کر آزاد کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے رہے ہیں اور پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں، یہ کیا ہے؟ کیا اسے محسن کشی نہیں کہا جائے گا؟ دوسرا پاکستان نام نہاد ہی سہی لیکن مسلمان ملک ہے جب کہ بھارتی بت پرست اور مشرک ہیں لیکن آج طالبان مسلمان اور محسن پاکستان کو چھوڑ کر مشرکین کے ساتھ کھڑے ہیں اور یہ خود کو مومن بھی قرار دے رہے ہیں، یہ بھی کیا ہے؟

افغانستان کا اقتدار اس وقت 35 گورنرز، وزراء اور کمانڈرز کے ہاتھ میں ہے، ان میں سے 22 پاکستان کے ساتھ ہیں، ان کا خیال ہے ہم ہر مشکل گھڑی میں پاکستان میں پناہ لیتے ہیں، ہم نے اگر اسے ناراض کر دیا تو ہم کل کہاں جائیں گے جب کہ باقی 13 پاکستان کے سخت مخالف ہیں اور بدقسمتی سے یہ اس وقت فیصلہ کن پوزیشن میں ہیں، آپ یہ جان کر حیران ہوں گے یہ 13 طالبان لیڈر بھی برس ہا برس پاکستان میں رہے اور پاکستان نے جی جان سے ان کی حفاظت کی، طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوانزادہ ہیں، یہ 1979 میں خاندان سمیت کوئٹہ شفٹ ہوئے اور 1996 تک کوئٹہ میں رہے، تعلیم بھی پاکستانی مدارس سے حاصل کی، یہ 2001 میں دوبارہ کوئٹہ میں پناہ گزین ہوگئے اور پاکستان نے انھیں دوبارہ 20 سال دنیا بھر سے چھپا کر رکھا لیکن یہ اس وقت پاکستان کے دشمن نمبر ون ہیں، یہ بھارت اور امریکا دونوں سے ڈالر وصول کرتے ہیں اور پاکستان پر حملوں کی اجازت دیتے ہیں۔

صدر ابراہیم طالبان کے نائب وزیر داخلہ ہیں، اصل وزیر داخلہ سراج الدین حقانی ہیں لیکن پاکستانی ہمدرد ہونے کی وجہ سے سپریم کمانڈر نے ان کے اختیارات سلب کرکے صدر ابراہیم کو دے دیے ہیں، یہ بھی پاکستان کے سخت مخالف ہیں، ان کی زندگی کا بڑا حصہ پشاور میں گزرا اور پاکستان نے ان کی میزبانی کی، ملا عبدالغنی برادر نائب وزیراعظم ہیں، انھوں نے ملاعمر کے ساتھ مل کر طالبان تنظیم بنائی تھی، یہ 21 سال کوئٹہ میں رہے لیکن یہ بھی آج انڈین اور امریکن نواز ہیں اور پاکستان سے نفرت کرتے ہیں۔

ملا یعقوب ملا عمر کے بڑے بیٹے جب کہ طالبان کے وزیر دفاع اور ڈپٹی کمانڈر ہیں، یہ بھی طویل عرصہ کوئٹہ میں رہے لیکن آج یہ بھی ہمارے مخالف ہیں جب کہ ان کا ذاتی کردار یہ ہے ڈاکٹر ایمن الظواہری سراج الدین حقانی کے گھر میں رہتے تھے، ملا یعقوب نے دوحا میں امریکیوں کو بتا دیا اور امریکا نے 31 جولائی 2022کو ڈرون حملے کے ذریعے انھیں مار دیا، کابل میں لوگ بتاتے ہیں ملایعقوب نے اس "وفاداری" کا بھاری معاوضہ وصول کیا، ملا عبدالحق واثق طالبان کے انٹیلی جنس چیف ہیں، یہ گوانتانا موبے میں قید تھے، ان کی رہائی میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تھا لیکن یہ بھی اب را کے ذریعے بی ایل اے کو ٹریننگ دے رہے ہیں اور اس کی حفاظت کر رہے ہیں، ملا محمد زئی ہلمند، قندہار اور نیم روز میں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے کیمپس کے نگران ہیں، یہ بہرحال جلاوطنی کے زمانے میں ایران میں رہے تھے اور ملا عبدالقیوم ذاکر پاک افغان بارڈرز کا کمانڈر ہے۔

یہ قندہاری اور انتہائی سخت مزاج ہے، یہ پکتیا میں ٹی ٹی پی کا البدر ٹریننگ کیمپ چلا رہا ہے، اس نے پاکستان میں انگور اڈہ کے لیے 300، میران شاہ کے لیے 200 اور اسلام آباد، راولپنڈی اور کوئٹہ کے لیے 500 دہشت گرد بھجوائے تھے، پاکستانی اداروں نے اس کی باقاعدہ گفتگو ریکارڈ کی جس میں یہ پاکستان میں ٹارگٹ بتا رہا تھا، قندہار میں اس وقت بھی ملا عمر کے گھر میں 300 خودکش حملہ آور تیار بیٹھے ہیں، ہلمند کا کور کمانڈر ملا شرف الدین تقی افغانستان کے بلوچوں کو بلوچستان میں لڑنے کی تربیت دے رہا ہے جب کہ قندہار اور کابل میں انڈین ماہرین طالبان کو میزائل بنا کر دے رہے ہیں۔

دو تین ماہ میں طالبان پاکستانی طیاروں پر میزائل داغیں گے، اس جنگ میں بھی طالبان نے دو روسی میزائل داغے، یہ انھیں انڈیا نے قابل استعمال بنا کر دیے تھے اور سرحد پار سے یہ خبریں بھی آرہی ہیں ڈاکٹر ایمن الظواہری نے بدخشاں میں روسی ساختہ جوہری بم چھپا رکھے تھے، یہ طالبان کے ہاتھ لگ گئے ہیں اوربھارتی ماہرین انھیں یہ چلانے کی ٹریننگ دے رہے ہیں لہٰذا اب پیچھے کیا رہ گیا؟

پاکستان کے پاس اب لڑنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ورنہ طالبان انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان کو تباہ کر دیں گے، افغانستان تاریخ کے کسی بھی حصے میں آزاد نہیں رہا، یہ ہمیشہ کسی نہ کسی عالمی طاقت کے زیر تسلط رہے لہٰذا ان سے نبٹنے کا صرف ایک طریقہ ہے طاقت یا رقم، امریکا رقم دے کر جان چھڑا رہا ہے جب کہ ہمارے پاس طاقت کے سوا کوئی چارہ نہیں، آپ کو ان کے سامنے کھڑا ہونا پڑے گا ورنہ یہ آپ کو بیٹھنے کے قابل بھی نہیں چھوڑیں گے۔



16/10/2025

کراچی سے خیبر تک اپ ایک ایک شہر کے ایک ایک گاؤں کے قبرستان میں جائیں وہاں آپ کو کوئ نا کوئ قبر ایسی ضرور ملے گی جو افغان جہاد کا شہید ہوگا۔

اب آپ کراچی سے خیبر تک کسی بھی شہر کے کسی بھی بازار میں کسی بھی پرانی دوکان پر چلے جائیں وہاں آپ کو افغان جہاد کے نعروں والے سٹیکر ضرور لگے ہوئے ملے ہیں۔

جیسے

افغان باقی کہسار باقی
الحکم اللہ الحکم اللہ
۔
سبیلنا سبیلنا
الجہاد الجہاد

روس کی چڑھائ سے لے کر امریکہ کے نکلنے تک

لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی وہاں جا کر لڑے اور مرے۔

کیا وہ افغانستان کے لیے لڑ رہے تھے ؟ جواب ہے

نہیں، ہرگز نہیں

وہ اسلام اور اسلامی نظام اور اسلامی امارت کے لیے لڑ رہے تھے

انہیں بتایا گیا تھا کہ
مسلمان ایک امت ہیں
ایک جسم ہیں
سرحدیں ان کے لیے نہیں ہیں
امت کا بھائ چارہ سرحدوں سے مضبوط ہے۔

آج افغان طالب علموں نے اپنی اسلامی امارت قائم کرنے کے بعد جس پہلے ملک کو اپنے نشانے پر رکھا ہے وہ پاکستان ہے

اسلامی جمہوریہ پاکستان!

کیا باقی سارا عالمِ “ک” فتح ہو چکا ہے صرف پاکستان ہی رہ گیا ہے لڑنے کو ؟

کہاں گیا وہ امت کا چورن!
کہا گیا وہ سرحدوں سے ماوراء بھائ چارہ
کہاں گیا وہ اسلامی امارت کا نظریہ!

ہزاروں پاکستانی شہیدوں کے خون کا پاس بھی نہ رکھا ؟

کیا ہم اب یقین کر لیں کہ

آپ اللہ کے لیے نہیں اپنے لیے لڑ رہے تھے!
آپ نیشنلسٹ تھے!
آپ تو اپنی قومیت اور سرحدیت کے لیے لڑ رہے تھے!

صرف اتنا ہی نہیں کہ آپ ایک مسلمان ملک سے جنگ چھیڑ رہے ہیں بلکہ دوسری طرف اعلانیہ اور حکومتی سطح پر مشرکوں کی گود میں جا بیٹھے ہیں۔

آپ کا وزیر خارجہ بھارتی سرزمین پر بیٹھ کر جہاں پاکستان کے خلاف بیانات دیتا ہے اور دھمکی لگاتا ہے۔ وہی کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے۔

وہ بھارت جہاں آج کل
“ I love Muhammad “
کے بینر لگانے پر مقدمات درج ہو رہے
ہیں۔

ایک کشمیری نے کل مجھے کہ ہمارے کچھ بڑے پاکستان سے بھی زیادہ ان افغان طالب علموں پر یقین رکھتے تھے کہ یہ ہمیں آزادی دلانے آئیں گے۔

لیکن اگر آپ کو مسلمان ملک اور مسلمانوں سے زیادہ گائے کے پجاری عزیز ہیں تو ہمیں بھی پھر اب آپ کے نقصان یا ٹھونکے جانے پر کوئ افسوس نہیں ہے

بلکہ افسوس ہے تو صرف اس بات کا کہ ہمارے ہزاروں پاکستانی آپ جیسوں کے لیے تاریک راہوں میں مارے گئے۔

تحریر: Ammar Raajpoot

اس طرح تو ”جانور“ بھی احتجاج نہیں کرتےمیں جب تک پاکستان میں تھا تو احتجاج میں ہمیشہ روڈ بلاک ہوتے، موٹر سائیکل، کاریں او...
15/10/2025

اس طرح تو ”جانور“ بھی احتجاج نہیں کرتے

میں جب تک پاکستان میں تھا تو احتجاج میں ہمیشہ روڈ بلاک ہوتے، موٹر سائیکل، کاریں اور ٹائر جلتے دیکھے تھے۔ ٹی وی پر بھی یہی دکھایا جاتا کہ پولیس عوام کو ڈنڈوں کے ساتھ جانوروں کی طرح ہانک رہی ہے۔ بل بورڈز ٹوٹ رہے ہیں، مشتعل عوام جس چیز کو چاہتی ہے آگ لگا رہی ہے۔ کسی کا سر پھٹ رہا ہے تو کوئی بھاگ رہا ہے۔

جرمنی آیا تو ذہن میں احتجاج کرنے کا یہی طریقہ محفوظ تھا۔ بون یونیورسٹی آتے ہی یونین میں شامل ہو گیا۔ سن دو ہزار چھ میں جرمن حکومت نے فی سمیسٹر پانچ سو یورو فیس متعارف کروا دی، جو آج کل ختم ہو چکی ہے۔

یونیورسٹی یونین کے لڑکوں اور لڑکیوں نے احتجاج کرنے کا پروگرام بنایا۔ میں بھی اس میں شامل ہو گیا۔ پہلے مرحلے میں یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں احتجاجی کیمپ لگایا گیا۔

شام کو ڈی جے گانے شروع کرتا اور جرمن لڑکیاں لڑکے ڈانس شروع کر دیتے۔ میں ان دنوں پاکستان سے لمبے گولڈن پائپ اور گھومنے والا حقہ لے کر آیا ہوا تھا۔ جرمن لڑکے لڑکیوں کو حقے میں سب سے زیادہ چیز یہ پسند آئی کہ یہ گھومتا ہے۔ رات دیر تک شیشہ یا حقہ چلتا۔میرے لیے یہ احتجاج سے زیادہ انجوائے منٹ تھی۔ میں نے اپنے یونین لیڈر فلوریان سے پوچھا کہ نہ ہم نعرے لگا رہے ہیں نہ کوئی توڑ پھوڑ کر رہے ہیں یہ کیسا احتجاج ہے؟

فلوریان نے واپس حیران ہو کر پوچھا کہ یہ پرتشدد احتجاج کہاں ہوتا ہے؟ میں نے فورا جواب دیا کہ پاکستان میں تو ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔ اس نے پھر کوئی بیس منٹ مجھے یہ بات سمجھانے پر لگائے کہ یہ چیزیں ہمارے پیسوں سے بنی ہوئی ہیں اگر ہم توڑ پھوڑ کریں گے تو ایسے ہی ہے جیسے ہم اپنے گھر کا سامان توڑ رہے ہیں۔

یہ بات کوئی زیادہ میرے ذہن میں نہ آئی اور دل میں سوچا کہ یہ جرمن نکمے ہیں انہیں احتجاج کرنا بھی نہیں آتا۔

اس کے دو دن بعد بون میں احتجاجی مارچ ہوا۔ مارچ کے دوران ٹریفک رواں دواں تھی اور ہم سڑک کنارے کھڑے احتجاج کر رہے تھے۔

مجھے یہ طریقہ پھر عجیب لگا۔ میں نے فلوریان کو کہا کہ سڑک بلاک کرتے ہیں۔ اس کے تو جیسے ہوش ہی اڑ گئے ہوں۔

اس نے احتجاج چھوڑ کر پھر مجھے سمجھانا شروع کر دیا کہ سڑک پر جانے والے لوگوں کا کیا قصور ہے۔ اس طرح تو لوگوں کو ہم خود اپنے خلاف کریں گے۔ اور گاڑیوں میں کوئی ڈاکٹر ہو سکتا ہے، کوئی مریض ہو سکتا، ہمیں کیا حق ہے کہ ہم کسی عام شہری کا راستہ روکیں؟

میں نے دوبارہ اپنی دلیل دی کہ اس طرح احتجاج کا زیادہ اثر ہو گا۔ اس نے تنگ آ کر کہا، امتیاز اس طرح تو ”جانور“ بھی احتجاج نہیں کرتے۔ خیر میں نے دوبارہ دل میں سوچا کہ ان کو احتجاج کرنا کبھی نہیں آئے گا۔

اس واقعے کے کوئی دو سال بعد میں قصور سے واپس گاوں آ رہا تھا۔ گاڑی دوست کی تھی اور میں شام سے پہلے پہلے واپس گھر پہنچنا چاہتا تھا۔ راستے میں ایک چوک پر احتجاج ہو رہا تھا۔ میں نے وہاں سے گاڑی نکالنی چاہی تو چار پانچ ڈنڈا بردار گاڑی کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ میں سمجھ گیا کہ یہ کیا کرنے والے ہیں۔ میں فورا گاڑی سے باہر نکلا اور ان کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے کہ خدارا کار کو نقصان مت پہنچائیے گا۔ مجھے جان کے لالے پڑے ہوئے تھے کہ یہ ابھی کار کے شیشے وغیرہ توڑ دیں گے۔

اس دن پہلی مرتبہ مجھے فلوریان کی بات یاد آئی کہ اس طرح تو ”جانور“ بھی احتجاج نہیں کرتے۔ خیر انہوں نے میری معافی قبول کی اور کار کو نقصان نہ پہنچایا۔
اس کے بعد مجھے دوبارہ یہ فقرہ اس دن یاد آیا جس دن میری اسلام آباد سے فلائٹ تھی اور مظاہرین نے ایئرپورٹ روڈ بلاک کر رکھا تھا۔ میرا ویزہ چند دن بعد ختم ہونے والا تھا اور مجھے ڈر تھا کہ فلائٹ نکل گئی تو ویزہ بھی ایکسپائر ہو جانا ہے۔ اس دن مجھے احساس ہوا کہ راستہ بلاک کرنے اور توڑ پھوڑ کرنے کی اسٹریٹیجی کس قدر خطرناک ہے۔ اور اس طرح کسی کو کس قدر نقصان پہنچ سکتا ہے۔ فلوریان کی بات اس دن سمجھ آئی کہ اس طرح تو ”جانور“ بھی احتجاج نہیں کرتے۔
کل پھر ایسا ہی ہوا۔ ایئرپورٹ سے نکلا تو راستے ابھی بلاک ہونا شروع ہوئے تھے اور لاہور کی سڑکوں پر ٹریفک رش بڑھ چکا تھا۔ کافی تگ و دو کے بعد ایک راستہ ملا لیکن وہ بھی کچھ دیر بعد بلاک ہو چکا تھا۔
خیر چند گھنٹوں کی کوشش کے بعد میں موٹروے پر پہنچ چکا تھا لیکن بدقسمتی وہاں پر بھی ایک پل کے اوپر مظاہرین تھے، جو نیچے آتی جاتی گاڑیوں پر بھی پتھر اور اینٹیں پھینک رہے تھے۔
میں نے گاڑی سائیڈ پر کر لی، کچھ بعد ہجوم بڑھا اور انہوں نے گاڑیوں کو توڑنا شروع کر دیا۔ ہم نے موٹروے پر ہی گاڑی موڑی اور الٹی سمت بھاگنا شروع کر دیا۔
اس کے بعد پولیس آئی اور اس نے مظاہرین پر آنسو گیس کے ساتھ ساتھ ہوائی فائرنگ شروع کر دی۔ تشدد کے جواب میں تشدد پیدا ہو چکا تھا۔ سنا ہے گزشتہ روز باقی چند شہروں میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
ابھی تک کوئی حتمی، واضح اور مصدقہ اطلاعات نہیں ہیں کہ کتنے لوگ مارے گئے ہیں اور کتنے زخمی ہوئے ہیں اور مالی نقصان کتنا ہوا ہے؟

ہلاکت کسی ایک شخص کی بھی ہو ، وہ بہت بڑا نقصان ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں جان کی قدر نہیں رہی، دو چار ہلاکتوں پر تو کوئی مڑ کر نہیں دیکھتا، یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے؟
اب بھی جگہ جگہ راستے بند ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں یہ روایت بن چکی ہے کہ احتجاج کے دوران راستے بند کر دیے جائیں لیکن کسی کو احساس تک نہیں کہ بیچارے غریب عوام کس کرب اور تکلیف سے گزر رہے ہیں۔ کسی نے گھر پہنچنا ہے، کسی نے فلائٹ پکڑنی ہے، کسی بچے کو ہسپتال لے کر جانا ہے، کسی ڈاکٹر نے ہسپتال پہنچنا ہے۔

پاکستان میں راستے حکومت بلاک کرے یا احتجاجی مظاہرین، مذہبی جماعتیں کریں یا آزاد خیال، نواز شریف بلاک کریں یا عمران خان، میرے ذہن میں یہی آتا ہے کہ اس طرح تو ”جانور“ بھی نہیں کرتے۔
مجھے یہ بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ جو اسلام راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کا درس دیتا ہو، اس اسلام سے راستے بند کرنے، لوگوں کو تکلیف پہنچانے کی تشریح کیسے نکالی جا سکتی ہے؟
میرا مذہبی علم بہت ہی محدود ہے لیکن چند برس پہلے میں نے ایک حدیث پڑھی تھی، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے۔ مسجد میں نماز جنازہ پڑھانا مناسب نہیں لیکن اگر جنازے میں شریک افراد کی وجہ سے کوئی راستہ بند ہو جانے کا خدشہ ہو تو نماز جنازہ مسجد میں کروانے کی اجازت ہے۔
لیکن آج کے مذہبی رہنماوں کو دیکھیں، تو راستے بلاک کرنا، ایمبولینسوں کو روکنا، املاک کو نقصان پہنچانا، لوگوں کو دفاتر جانے سے روکنا، ان کے نزدیک درست عمل ہوتا جا رہا ہے۔
ہمیں قبول کرنا ہو گا کہ ہمیں تو احتجاج کرنا اور احتجاج کرنے کا حق دینا بھی نہیں آتا، ایسا احتجاج تو ”جانور“ بھی نہیں کرتے۔
منقول

Address

Lahore
54000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Aam log posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share