18/08/2023
"کپتان کے وہ جرم کس کی پاداش میں آج وہ قید تنہائی میں ہیں"
عمران خان کا پہلا جرم یہ ہے کہ ملک کا نام روشن کرنے کی ٹھانی اور کرکٹ کے میدان میں ان ممالک کو بھی شکست دی جن کا قد کاٹھ اس دور میں کرکٹ میں بہت اونچا تھا، اور ملک کو ورلڈ کپ کی صورت میں عزت دلوائی ۔
شوکت خانم کے بیٹے اس کے بعد غریب کا درد محسوس کیا اور پوری دنیا کے کونے کونے سے پیسے اکھٹے کرکے کینسر ہاسپٹل بنایا جہاں آج بھی 70 فیصد تک غریبوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔
مگر وہ مرد مومن یہاں بھی نہیں رکا اور پاکستانی عوام کو تعلیمی شعور سے آراستہ کرنے کے لیے یونیورسٹی بنائی تاکہ پاکستانی عوام کو عالمی طرز کی تعلیم دی جاسکے۔
قاسم کے باپ نے پھر زندگی کا سب سے بڑا جرم یہ کیا کہ پاکستانی عوام کو سیاسی شعور دے کر مافیا سے آزاد کرنا چاہا۔
عمران خان نے پاکستانی عوام کو بتایا کہ چیونٹیوں کی طرح غلامی کرنا چھوڑ دو لاالہ الااللہ کی چھتری تلے آزاد ہوجاؤ ریاست مدینہ کے اصولوں" انصاف انسانیت اور خوداری" کی بات کی عوام کو بتایا کہ غلاموں کی کوئی زندگی نہیں پرواز صرف آزاد انسان کی ہے، پوری دنیا میں گرین پاسپورٹ کی عزت بحال کی ہر جگہ جاکر غریب کی بات کی لیکن یہ تو مافیا کی بستی تھی جہاں شعور اور آزادی جیسے نعرے جرم تھے اور اسی جرم میں آج وہ اٹک جیل کی بیرک نمبر 304 میں قیدی نمبر 804 کی حثیت سے موجود ہے لیکن وہاں سے بھی عوام کے لیے حقیقی آزادی کی صدائیں لگا رہا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ پرواز صرف آزاد انسان کی ہے۔
وہ ہزار سال قید تنہائی کے لیے تیار ہے مگر اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔
اب ہمیں سوچنا ہے کہ اگر ہمارا کپتان ہمارے لیے کھڑا ہوسکتا ہے تو ہم اپنے لیے کیوں نہیں؟