Yasir Arafat

Yasir Arafat Yasir Arafat is an Inspirational Speaker, Life Coach (UK Certified) & Corporate Trainer serves with Civil Services of Pakistan, Military and Corporate Sector.

Corporate Trainer & Leadership Coach” who serves to Civil Services , Military & Corporate Sector.
▪️To engage YASIR ARAFAT for Training ,Coaching ,Counselling & Keynote Speaking ;
📞 / Whatsapp @ 0346 5197868 He has been awarded by President of Islamic Republic of Pakistan upon his meritorious services in the field of Training & Development. He has an experience of over 18 years in Training & Devel

opment, Management, Parliamentary affairs and Academia and Life Coaching. His services have been highly acknowledged and appreciated by Pakistan Army, Punjab Police Department, Anti Narcotics Force(ANF),State Bank of Pakistan, National Highways & Motorway Police, Federal Investigation Agency (FIA),CTD, Elite Force, Federal Board of Revenue ( FBR), Punjab Higher Education Department, PITB, Pakistan Customs Service & Islamabad Police. He is the Founder & CEO of Insight Leadership Consultants. He is the Chairman Standing Committee on Training & Development at GCCI. He is working for youth empowerment as Secretary General Pakistan Youth Assembly. He is a regular Program Guest Speaker at 7 News Lahore. He has dedicated his life’s work in producing a professional and efficient human resource through his cutting-edge Training's on Leadership and Life Skills. . Through his, corporate training's, life coaching sessions, keynote speaking, motivational seminars and media appearances; Yasir is helping Pakistan’s top multinational companies, Governments, Educational institutes, and non-profit organizations. As a trainer, Yasir assimilates latest research, conventional wisdom, philosophy and psychology with audio-visual content, exercises and activities in his TNA based training's. He has touched the lives of millions around the globe and his audience describe him as inspiring, direct-from-heart, and incredibly impactful. As a Life Coach, Yasir Arafat provides counselling on Family & Relationships, Career, Study Management, Self-Management, Stress, Anxiety, Depression and on other Psychological Issues. Yasir lives, operates and travels from Lahore, Pakistan. To know more about him you can visit him @ www.yasirarafattrainer.Com

Call / WhatsApp @ 03465197868

23/07/2025

سوات میں ایک بچے پر اس کے استاد نے اتنا تشدد کیا کہ وہ زندگی ہار گیا۔

اصل میں ہوا کیا؟

بچے نے گھر میں شکایت کی کہ میرے قاری صاحب مجھ سے کچھ جسمانی مطالبے کر رہے ہیں۔ مجھے مارتے بھی ہیں۔ مجھے اس قاری کے پاس نہیں پڑھنا۔ مجھے مدرسے نہیں جانا۔

ہمارے ہاں یہ بات عام ہے کہ بچے اپنے چاچوں ,ماموں , خالو ، گھریلو ڈرائیور ، چوکیدار ، مالی یا خانسامہ کی طرف سے جنسی طور پر ابیوز کیے جانے کی شکایت کرتے ہیں تو ہم بچے کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیتے ہیں۔

نہیں بیٹا ایسا نہیں ہو سکتا۔ تم پاگل ہوگئے ہو؟ تمہارے ابو / انکل کی جگہ ہیں وہ۔ اتنے اچھے انسان ہیں وہ۔ وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔؟

کبھی بچے ابیوز ثابت کرنے میں اگر کامیاب ہو جائیں تو اس کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے اسے خاندان کے وسیع تر مفاد میں اپنا صدمہ چپ چاپ پی لینے کا مشورہ دے دیا جاتا ہے۔

جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم در اصل اپنے بچے کی قبر کھود رہے ہوتے ہیں۔ اسے جنسی درندوں، قاتلوں اور محرومیوں کے شکار لوگوں کے حوالے کر رہے ہوتے ہیں۔

آئیندہ بھی بچے کسی مشکل میں ہوتے ہیں تو پہلا خیال انہیں یہی آتا ہے کہ امی ابو کو سب بتائیں گے، مگر ساتھ ہی انہیں احساس ہوتا ہے کہ امی ابو نے تو الٹا ہمیں ہی غلط کہہ دینا ہے، بتانے کا کیا فائدہ۔؟

یوں وہ زمانے کی بے رحمیوں کے حوالے ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی ایک کے بعد ایک پیدا ہونے والے صدمے (ٹراما) کا قبرستان بن جاتی ہے۔

سو!

یہاں اس کیس میں بھی والدین نے بچے سے کہا:

نہیں بچے تمہارے قاری صاحب ایسا نہیں کر سکتے۔ ان کے سینے میں تو قرآن ہے، وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ مدرسے یا مسجد میں کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے۔ تم غلط سوچ رہے ہو۔ تم پڑھنا ہی نہیں چاہتے۔ اپنے استاد کے بارے میں ایسا نہیں کہتے بری بات ہوتی ہے۔

استاد روحانی باپ ہوتا ہے۔ وہ غلط ہو تو بھی اس کی شکایت نہیں کرتے۔ استاد کا ڈنڈا جہاں پڑے وہاں جہنم کی آگ حرام ہو جاتی ہے۔

ایسی کئی طرح کی باتیں کر کے بچے کو جھٹلا دیا گیا، ہاتھ سے پکڑ کر اسی استاد کے پاس واپس پہنچا دیا گیا۔

استاد کو علم ہوا کہ بچہ جو مدرسے نہیں آرہا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے گھر پر میرے حوالے سے شکایت کی تھی۔

مدرسے کے ماحول میں استاد کی شکایت گناہوں میں بھی بڑا گناہ ہے اور جرائم میں بھی بڑا جرم ہے۔

مگر یہاں اس کا بڑا جرم یہ تھا کہ اس نے قاری صاحب کے جنسی ارادوں کا کبھی احترام نہیں کیا۔

چونکہ گھر والوں کی عدالت میں فرد جرم الٹا بچے پر عائد ہوچکی تھی اور قاری صاحب کو پاکدامنی کی سند مل چکی تھی، چنانچہ اب قاری آرام سے تشدد کر سکتا تھا۔

یہ تشدد جنسی ارادے کو احترام نہ ملنے پر کیا، مگر بنیاد س بات کو بنایا کہ اس نے مدرسے آنے سے انکار کیا ہے۔

آپ کو لگتا ہے کہ اس طرح کے واقعات میں بچے کے قتل میں صرف بچے کا استاد ملوث ہوتا ہے؟ جنسی تشدد کا ذمہ دار صرف استاد ہوتا ہے؟ نہیں۔!

استاد ایک لمبی کہانی کا صرف آخری کردار ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ایف آئی آر بھی صرف اسی آخری کردار پہ درج ہوتی ہے۔ باقی سارے کردار بچ جاتے ہیں۔

قتل کی اس طرح کی کہانیوں میں بڑے کردار وہ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بچے ستم سہہ کر خاموش ہو جانے پر مجبور ہوتے ہیں، ٹراماز کا شکار ہو رہے ہوتے ہیں، تنہائی کے شکنجے میں جا رہے ہوتے ہیں، اندر ہی اندر مر رہے ہوتے ہیں، خود کشی کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں اور ایک دن کسی جنسی درندے کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر قتل کر دیے جاتے ہیں۔

ہمارے بچوں کو مارتا کوئی اور ہے مگر ان کے لیے قبر کی کھدائی تھوڑی تھوڑی کرکے ہم خود شروع کر چکے ہوتے ہیں۔

آخری کردار صرف آخری رسومات ادا کرکے ہماری بچوے کو ہماری ہی کھودی ہوئی قبر میں اتار رہا ہوتا ہے، اور کچھ نہیں کرتا۔

قاتلوں کو رحم کی تلقین کرنے والوں کو اب خود اپنے بچوں پر رحم کر لینا چاہیے۔

بچے جھوٹ نہیں بولتے۔ ان کا دماغ ہر طرح کی آلودگی سے پاک صاف ہوتا ہے۔ وہ سازشی ہوتے ہیں نہ بدنیت ہوتے ہیں۔ وہ من کے سچے اور اچھے ہوتے ہیں۔

ان کی بات سنیں۔ ان کا بھروسہ کریں۔۔!!

فرنود عالم

23/07/2025

کہتے ہیں انسان اتنا ذہین، عقل مند اور صلاحیت و استعداد رکھتا ہے کہ یہ جِنات سے بھی کام لے سکتا ہے۔ یقیناً لیتا ہو گا۔ بہر حال آج “ڈیجیٹل جِنات” (اے آئی ماڈلز اور ایجنٹس) کا دور ہے جو ممالک اور جو کمپنیاں ان “جنات” (اے آئی ماڈلز اور ایجنٹس) سے کام لیں گی وہ ہی کامیاب ہوں گی۔

آگے آگے یہ “جنات”(روبوٹس ) آپکو فیکٹریوں کی assembly lines پہ کام کرتے نظر آئیں گے۔

ابھی بھی کرتے ہیں لیکن چند ممالک میں۔ لیکن آگے آگے جیسے جیسے ان جِنات کی قیمتیں کم ہوں گی یہ mainstream ہوتے چلے جائیں گے۔

اس لیے آپ کابچہ جس بھی شعبے میں جائے اُسے بُنیادی “ڈیجیٹل چِلہ” لازمی کٹوائیں، بُنیادی ڈیجیٹل سکلز لازمی سکھائیں تا کہ وہ ان ڈیجیٹل جِنات سے کام لے سکے۔

جِنات کو قابو میں کریں😂

زاہد عمران

22/07/2025

‏پاکستان میں والدین کی اکثریت اب بھی میڈیکل اور انجینئرنگ کو ہی کامیابی سمجھتی ہے۔ لیکن دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ آنے والے پانچ سالوں میں دنیا کے 10 بہترین شعبے سامنے آئے ہیں جو آپ کے بچوں کا مستقبل روشن کر سکتے ہیں۔

اسکے لیے Hays ہائز سیلری گائیڈز کی مدد لی گئی ہے۔

ڈیٹا سائنس:
آنے والا دور ڈیٹا کا ہے۔ ڈیٹا سائنٹسٹ 2025 میں $90,000 تک کما سکتے ہیں، اور 2030 تک یہ آمدن $165,000 تک پہنچ سکتی ہے۔ امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا میں اس کی ڈیمانڈ عروج پر ہے۔ FSc کے بعد ڈیٹا سائنس میں BS یا MS کریں۔

مشین لرننگ (AI):
مصنوعی ذہانت (AI) اب صرف فلموں تک محدود نہیں۔ مشین لرننگ اسپیشلسٹ کی تنخواہ 2025 میں $95,000 اور 2030 میں $170,000 تک متوقع ہے۔ ریاضی اور کمپیوٹر سائنس میں دلچسپی رکھنے والے بچے یہاں ترقی کر سکتے ہیں۔

بزنس اینالسٹ:
کاروباری تجزیہ کاروں کی تنخواہیں 2025 میں $70,000 تک اور 2030 میں $125,000 تک بڑھ سکتی ہیں۔ امریکا اور برطانیہ میں خاص ڈیمانڈ۔ بزنس ایڈمنسٹریشن یا اکنامکس کی تعلیم حاصل کر کے دنیا بھر میں مواقع حاصل کریں۔

سوفٹ ویئر ڈیویلپر:
ڈیجیٹل دنیا سوفٹ ویئر ڈیویلپرز کے بغیر نامکمل ہے۔ ان کی تنخواہ 2025 میں $75,000 اور 2030 میں $140,000 ہو گی۔ کمپیوٹر سائنس میں BS آپ کے بچے کو عالمی مواقع فراہم کر سکتا ہے۔

پراجیکٹ مینجمنٹ:
پراجیکٹ منیجر 2025 تک $85,000 اور 2030 تک $155,000 کما سکیں گے۔ بزنس مینجمنٹ یا PMP سرٹیفکیشن آپ کے بچے کی صلاحیتوں کو چار چاند لگا سکتا ہے۔ آسٹریلیا اور امریکا میں بےشمار مواقع موجود ہیں پروفشنل ڈگری کے بعد یہ زیادہ کارآمد ہے ۔

ایچ آر مینیجر:
HR
کے شعبے میں پیشہ ور افراد کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ 2025 میں آمدن $70,000 اور 2030 میں $125,000 تک ہو گی۔ HR مینجمنٹ کی تعلیم آپ کے بچے کو دنیا بھر میں باوقار جابز فراہم کرے گی۔

پروکیورمنٹ اسپیشلسٹ (سپلائی چین):
سپلائی چین اور پروکیورمنٹ اسپیشلسٹ 2025 میں $60,000 اور 2030 میں $110,000 کمائیں گے۔ دبئی، سعودی عرب، اور آسٹریلیا میں بہترین مواقع۔ بزنس اور سپلائی چین کی ڈگری آپ کے بچے کی زندگی بدل سکتی ہے۔

مالیاتی تجزیہ کار (فنانشل اینالسٹ):
مالیاتی تجزیہ کاروں کی آمدن 2025 میں $65,000 اور 2030 میں $120,000 ہو گی۔ فنانس اور اکاؤنٹنگ کے شعبوں میں تعلیم حاصل کر کے عالمی منڈی میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔

سسٹینیبلٹی اسپیشلسٹ (ماحولیات):
ماحولیات اور پائیداری پر کام کرنے والوں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ 2025 میں آمدن $70,000 اور 2030 میں $130,000 تک جائے گی۔ ماحولیات میں ڈگری حاصل کریں اور ترقی یافتہ ممالک میں اپنا کیریئر بنائیں۔

اپنے بچوں کو میڈیکل اور انجینئرنگ تک محدود نہ رکھیں۔ دنیا بدل رہی ہے۔ نئے کیریئرز کو اپنائیں اور اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنائیں۔

اس تھریڈ کا مقصد والدین اور بچوں کو ان کی کیریئر گائیڈنس دینا تھا

سیلری اور کیریئر گروتھ کے لیے مڈل ایسٹ یو کے اسٹریلیا نیوزی لینڈ اور امریکہ کی مارکیٹوں کو سٹڈی کیا گیا

‏ایک اہم بات :
بعض لوگ اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ پڑھنا وہی چاہیے جس میں انٹرسٹ ہو تو عرض یہ ہے کہ غریب ادمی کی پہلی جنریشن میں یہ چوائس نہیں ہوتی اسکو ہر ممکن طور پر پڑھ لکھ کر اپنے حالات سدھارنے پڑتے ہیں ہاں ان کی دوسری اور تیسری نسل پھر سبجکٹ سلیکشن کا رسک لے سکتی ہے

منقول

21/07/2025

مکڑی کا فیملی سسٹم عجیب طرح کی پیچیدگیوں اور الجھنوں سے بھرا ہوتا ہے۔ ایک تو ان کا گھر سب سے کمزور ہوتا ہے جو دھوپ، بارش، ہوا اور سردی و گرمی میں ان کی حفاظت نہیں کر سکتا، دوسرا اس گھر میں رہنے والے سب ہی ایک دوسرے کے دشمن ہوتے ہیں۔ سائنسی تحقیق بتاتی ہے کہ کائنات کے اس کمزور ترین گھر میں مادہ کو ایک Boss کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ عموما مادہ مکڑی نر مکڑے کو جنسی ملاپ سے پہلے ہی یا بعد میں کھا جاتی ہے (جس کو sexual cannibalism کہا جاتا ہے)۔

مادہ مکڑی نر کو کیوں کھاتی ہے ؟ اس حوالے سے بعض تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ انڈے دینے کےلیے مادہ مکڑی کو صحت اور توانائی چاہیے ہوتی ہے جس کے لیے وہ اپنے ہی نر کو کھا جاتی ہے اور جب نر کو احساس ہوتا ہے کہ مجھے مادہ کھانے لگی ہے تو وہ اپنا اسپرم جلدی منتقل کرتا ہے تاکہ اگر مادہ بعد میں کھا بھی لے تو بچے پیدا ہونے کا امکان باقی رہے۔ دوسرا کام یہ کرتا ہے کہ اپنے دو مخصوص جنسی عضو (palps) میں سے وہ والا عضو استعمال کرنے لگ جاتا ہے جس میں زیادہ نطفہ ہو تاکہ ایک بار میں ہی زیادہ نسل منتقل ہو سکے۔

کچھ نر ہوشیاری اور حکمت عملی کے تحت ملاپ کے بعد بچ بھی جاتے ہیں لیکن انہیں پھر بھی جال بُننے میں کام کرنا ضروری ہے، اس لیے آج نہیں تو کل پکڑے جائیں گے۔ اس سے مکڑی کے فیملی سسٹم میں نر اور مادہ کے تعلق کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کتنا خوفناک اور المناک ہے جہاں ایک مادہ اپنے ہی نر کو نگل رہی ہے۔

پھر جب انڈوں سے بچے پیدا ہوتے ہیں تو بچوں کو بچانے کےلیے ان کی ماں انہیں بقیہ انڈے (unhatched eggs)کھلانے لگ جاتی ہے۔ یہ انڈے اکثر بچوں کے اپنے بھائی بہن ہی ہوتے ہیں جو ابھی پیدا نہیں ہوئے، لیکن زندہ ہیں۔ یعنی ننھے مکڑوں کو زندہ رہنے کے لیے اپنے ہی ہونے والے بہن بھائیوں کو کھانا پڑتا ہے۔

جب انڈے بھی ختم ہو جائیں اور جال میں کیڑے مکوڑے بھی نہ آئیں، تو ننھے مکڑے ایک دوسرے کو کھانے لگتے ہیں اور جال ایک چھوٹا سا قید خانہ بن جاتا ہے جہاں قتل عام ہونے لگتا ہے۔

بعض اوقات مادہ مکڑی پر اتنا دباؤ اور بھوک بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے سینکڑوں بچوں کو بچانے کی ہمت کھو بیٹھتی ہے۔ اور پھر انتہائی مایوسی اور اضطراب کی حالت میں یا تو خود کو بچوں کے حوالے کر دیتی ہے یا بچے خود ہی اپنی ماں کو زندہ چیر پھاڑ کر کھا جاتے ہیں (اس خوفناک عمل کو Matriphagy) کہتے ہیں یعنی ماں کو کھا جانا)۔ اس عمل کے نتیجے میں مکڑی کے بچے بھی قاتل بن جاتے ہیں اور پھر وہی پراسس دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔

اس پورے سسٹم سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس طرح ان کا گھر سب گھروں سے کمزور ، ناپائیدار اور عارضی ہوتا ہے، ایسے ہی اس گھر میں بسنے والوں کے درمیان تعلق بھی انتہائی کمزور اور سطحی نوعیت کا ہوتا ہے۔ اس گھر میں ایک دوسرے کا سہارا بننے، ایک دوسرے کو زندگی جینے کا موقع دینے، تعاون کرنے اور رحمت و محبت کا برتاؤ کرنے کو پسند نہیں کیا جاتا بلکہ اس سسٹم کی بنیادوں میں ہی ظلم و ستم، دوسروں سے برائت کا اظہار اور دوسروں کو سائیڈ پہ لگانا شامل ہے۔

ہر وہ فیملی جس میں شرک، کفر، الحاد، لا دینیت اور دین بیزاری کا عنصر ہوگا، وہ فیملی سسٹم مکڑی کے فیملی سسٹم کی طرح کمزور ترین اور خطرناک ترین ہوگا۔ ایسے سسٹم میں مفاد پرستی، بچوں کا والدین سے کٹ جانا، رشتوں میں اعتماد کی کمی، کمزور پر ظلم، باہمی دشمنی، خاندان کا عدم تسلسل اور ماؤں کا بے توقیر ہو جانا عام بات بن جاتی ہے، ہر ایک اپنے لیے جیتا ہے ، کوئی دوسرے کو نہیں بچاتا، ہر ایک کو اپنا نوالہ اور پانی کا گھونٹ چاہیے، کسی کو ہمت نہیں ہوتی کہ دوسرے کی مشکل حل کرنے کی کوشش کرے۔

اس سسٹم سے نکالنے والی کتاب قرآن ہے جو کسی بھی خاندان اور قوم کو محبت و مودت، رحمت و انسیت اور تعاون و تناصر کا مضبوط شیلٹر مہیا کرتی ہے جس کے نیچے نئی نسل بہترین طریقے سے پروان چڑھ پاتی ہے۔

یہاں سے ایک اور بات بھی سمجھ آتی ہے کہ مکڑی کا فیملی سسٹم دھوکے اور فریب پر مبنی ہوتا ہے۔ اس جال میں موجود ہر ایک سمجھ رہا ہوتا ہے کہ شاید میرے سر پر مضبوط آسمان کھڑا ہے لیکن ہوا کا ذرا سا جھونکا اسے اڑا کر لے جاتا ہے، ایسے ہی کفر و شرک کے شیلٹر میں جینے والے چاہے اپنے آپ کو کتنا ہی محفوظ کیوں نہ سمجھیں، حقیقت یہی ہے کہ وہ صرف ایک نفخہ کے محتاج ہیں اور پھر لمحوں میں ڈھیر ہو جائیں گے۔ جیسا کہ اس آیت میں بتایا گیا ہے:

فَتَرَى الْقَوْمَ فِیْهَا صَرْعٰىۙ-كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍ
(اے نبی ﷺ! جس وقت قوم عاد پر عذاب آیا، اس وقت اگر آپ وہاں ہوتے تو) دیکھتے کہ وہ لوگ وہاں کھجور کے کھوکھلے تنوں کی طرح پچھاڑے ہوئے پڑے تھے۔ (سورت الحاقہ: 7)

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے شرک کی کمزوری ، ظلم پسندی اور بد انجامی کو بیان کرنے کےلیے مکڑی کے گھر کی مثال دی ہے جو ظاہری و باطنی اور مادی و معنوی ہر طرح سے ٹوٹ پھوٹ، پیچیدگیوں اور الجھنوں کا شکار ہے۔ فرمایا:

مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِیَآءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِۖۚ-اِتَّخَذَتْ بَیْتًاؕ-وَ اِنَّ اَوْهَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْكَبُوْتِۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے رکھوالے بنا رکھے ہیں، ان کی مثال مکڑی کی سی ہے جس نے کوئی گھر بنا لیا ہو اور کھلی بات ہے کہ تمام گھروں میں سب سے کمزور گھر مکڑی کا ہوتا ہے ، کاش کہ یہ لوگ جان لیتے ۔ (سورت عنکبوت: 41)

یعنی جن جھوٹے خداؤں پر ان کافروں نے بھروسہ کیا ہوا ہے، ان کا حشر وہی ہوگا جو مکڑی کا اس کی اولاد کرتی ہے کہ اپنی ماں کو اس کے گھر میں زندہ کھا جاتی ہے۔ ایسے ہی انہیں قیامت کے دن یہ جھوٹے معبود جہنم میں ڈالنے کا سبب بن جائیں گے جن سے انہیں سفارش کی امید ہے۔

یہ مثال بیان کر کے اللہ تعالی فرماتے ہیں:

وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِۚ-وَ مَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ

ہم یہ مثالیں لوگوں کے فائدے کے لیے دیتے ہیں، اور انہیں سمجھتے وہی ہیں جو علم والے ہیں۔ (سورت عنکبوت: 43)

اللہ تعالی ہمارے دلوں کو مثالیں سمجھنے کی ہدایت بخشے۔ آمین

محمد اکبر

21/07/2025

ہم دن رات سوچتے رہتے ہیں۔
نوکری جائے نہ جائے، نقصان نہ ہو جائے، بچہ بیمار نہ ہو جائے؟ مہنگائی کا کیا ہوگا، قرض کیسے اتریں گے اور یہ نہ ہو جائے وہ نہ ہو…

ایسا لگتا ہے جیسے دماغ میں
ایک نہ ختم ہونے والا شور ہے، جو ہر لمحہ موجود کا سکون نگلتا جا رہا ہے۔ لیکن ایک تحقیق کہتی ہے: ہم جن باتوں پر دن رات فکرمند رہتے ہیں، اُن میں سے 85 فیصد کبھی سچ ثابت نہیں ہوتیں !

یہ بات 2005 میں کارنل یونیورسٹی
کی تحقیق میں سامنے آئی۔ ماہرینِ نفسیات
نے سینکڑوں لوگوں کو کئی ہفتوں تک روزانہ اپنی فکروں کا حساب لکھنے کو کہا۔ پھر کئی ماہ بعد اُنھی لوگوں سے پوچھا گیا: جن باتوں پر آپ پریشان تھے، ان میں سے واقعی کتنی ہوئیں. ؟

جواب حیران کن تھا:
"85 فیصد خدشات تو صرف وہم تھے!"
اور جو 15 فیصد واقعات پیش آئے، اُن میں سے بھی صرف 3 فیصد ایسے تھے جو واقعی نقصان دہ نکلے۔ بقایا یا تو معمولی باتیں نکلیں، یا اتنی چھوٹی تھیں کہ انسان نے خود ہی کسی نہ کسی طریقے سے سنبھال لیں۔

سوچنے کی بات ہے
ہم اپنی زندگی کا کتنا بڑا حصہ ایسی باتوں میں سوچ کر جلا دیتے ہیں جو اصل میں کبھی ہونے والی ہی نہیں ہوتیں؟ ہم سوچ سوچ کر دل تھکا لیتے ہیں، دماغ جلادیتے ہیں، نیندیں اُڑا دیتے ہیں، اور نتیجہ؟ کچھ بھی نہیں بس صحت خراب، مزاج تلخ، چہرہ بجھا ہوا، اور زندگی کا اصل لطف ہم سے کوسوں دور۔فکر ہمیں توڑتی ہے جبکہ تیاری ہمیں جوڑتی ہے۔

یاد رکھیے، پریشانی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، صرف بدن اور ذہن بوجھل ہوتا ہے۔ ہاں، ہوشیاری، تیاری، اور توکل — یہ تین چیزیں ہمیں زندگی کے طوفانوں سے بچاتی ہیں۔

اپنے معمولات کو ترتیب دیں۔ روز کا خرچ قابو میں رکھیں۔ بچوں کا دھیان رکھیں۔ صحت کا خیال کریں۔ لیکن یہ سب بے چینی سے نہیں، سکون اور تیاری منصوبہ بندی سے کریں۔

زندگی بہت قیمتی ہے۔ اسے جھوٹے وہموں، خام خیالیوں، اور خودساختہ اندیشوں کے پیچھے ضائع نہ کریں۔خوش رہیے۔

اللہ ، آپ کو آسانیاں عطا فرمائے
رب پر بھروسا رکھیے۔اور جب دل پریشان ہو تو خود کو یاد دلائیے:"ان شاء اللہ یہ فکر بھی ان 85 فیصد وہموں میں سے ایک ہے جو کبھی ہونا ہی نہیں ہے !"

جاوید اختر آرائیں

21/07/2025

ڈیجیٹل کیپیٹلزم

اگر آپ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی تمام ڈیجیٹل پروڈکٹس، پلیٹ فارمز اور ان کے ڈئزائن پہ غور کریں مثلا ریلز، سٹوریز، نیوز فیڈز، لائیکس ڈِس لائکس اور reactions کے تمام بٹنز وغیرہ تو ان کو کچھ اس طرح سے ڈیزائن کیاگیا ہے کہ یہ تمام چیزیں صارفین کے اندر کچھ جذبات اور خواہشات کو trigger کرتی ہیں اور صارفین کی نفسیات کیساتھ کھیلتی ہیں مثلا

۱۔ شہوت
۲۔ شہرت، نمائش، دکھاوا اور مقابلہ بازی
۳۔ جھوٹی بھُوک(کھانےپینے سے متعلق اشتہارات)
۴۔ شہرت حاصل کرنے کا جذبہ
۵۔ حسد، نفرت اور انتقامی جذبہ (لوگوں کی پوسٹس پہ ردِعمل، پھر اُس رد عمل پر رد عمل اور ایسے ہی انتشار اور سماجی بے چینی)
۶۔ تعیش پسندی

اور پھر انھی پیدا کیے گئے جذبات اور خواہشات کیوجہ سے وہ بہت سارا content دیکھتا ہے، بہت ساری چیزیں خریدتا ہے (تاکہ وہ بھی دکھاوا کر سکے)، بہت ساری چیزیں کھاتا ہے (بھلے بھوُک نہ بھی ہو) اور شہرت حاصل کرنے کے لیے اُلٹی سیدھی حرکتیں اور اُوٹ پٹانگ content بناتا ہے۔

اور پھر جب انھی غیر فطری حرکتوں کیوجہ سے انسان پریشان اور بیمار ہوتا ہے تو پھر ہسپتال میں جا کر فارماسوٹیکل کی دوائیاں کھاتا ہے۔

تو کیسا ہوشیار (clever) ڈیزائن ہے؟
کنٹینٹ دیکھنے میں بھی سرمایہ دار کو فائدہ (اشتہارات)
کنٹینٹ بنانے میں بھی سرمایہ دار کو فائدہ (اشتہارات)
دکھاوے اور مقابلہ بازی کے لیے نئی سے نئی چیزیں اور مصنوعات خریدنے میں بھی سرمایہ دار کو فائدہ۔ (hyber consumption)
اورپھر پریشان اور بیمار ہو کر دوائیاں کھانے میں بھی سرمایہ دار کو فائدہ۔

ڈیجیٹل کیپیٹلزم کے اس ڈیزائن کو سمجھیں!
آج دُنیا کا ہر شخص چاہتے نہ چاہتے، سرمایہ داروں کے لیے ایک ایجنٹ، ایک پروڈکٹ اور پیسہ بنانے کی مشین ہے۔ اور یہ ایک ایسا چکر (cycle & loop) ہے جو فضول اور لغو ہے۔

زاہد عمران

21/07/2025

سوال: اپنے ٹین ایج بچوں کو دوستوں کے ساتھ ہوٹلنگ کی اجازت دینی چاہیے یا نہیں۔

میرا جواب:
بچوں کو بہت زیادہ نہیں مگر چار چھ ماہ بعد کسی موقع سے دوستوں کے ساتھ ہوٹلنگ کرنے دیں۔
بچوں کے تمام دوستوں سے آپ کی واقفیت ہو آپ ان سے ملیں گپ شپ کریں آپ کو معلوم ہونا چاہیے بچوں کے دوست کون ہیں کس ٹائپ کے ہیں ان کے والدین سے بھی سلام دعا رکھیں۔
کوشش کریں مخلوط محفلوں سے بچوں کو الگ رکھیں کہ لڑکے کڑکیاں کمبائن ہوٹلنگ کر رہے ہیں۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

آئے دن کی پارٹیز میں لازمی شامل ہونا ٹھیک نہیں یہ جو کہتے ہیں انجوائے کرنے دو اپنی زندگی جینے دو بچے ہیں مزے کریں اس کے بعد اپنی آنکھوں سے ان بچوں کے والدین کو بچوں کی پڑھائی چھڑوا کے انہیں کمروں میں بند کرتے دیکھا ہے یہ دوسرے انتہا ہے شروع دن سے اعتدال رکھیں نا بہت آزادی نا ڈبے میں بند۔

بچے ہوٹلنگ کریں لیکن ان کو پک اینڈ ڈراپ خود دیں یہ آپ کی زمہ داری ہے یہ نہیں کہ دوست پک کر لیں گے دوست ڈراپ کر دیں گے
آپ کو معلوم ہونا چاہیے آپ کا بچہ کس جگہ ہے۔
ٹائم فکس کریں ڈیڑھ گھنٹہ دو گھنٹے بس اس سے زیادہ نہیں ایک مناسب ٹائم میں بچوں کو آزادی دیں یہ نہیں کہ چار چار چھ چھ گھنٹے یا ہورا پورا دن بچے غائب ہیں۔

بچوں پہ ٹرسٹ کریں لیکن نگاہ رکھیں کبھی کبھار ہوٹل میں ڈراپ کر کے نامحسوس انداز سے کچھ دیر رکیں کبھی کبھار پک کرنے آدھا گھنٹہ پہلے چلے جائیں مگر ظاہر نا کریں۔

ٹرسٹ کرنے اور آزادی دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غافل ہو جایا جائے۔

ہمارے یہاں ایک مصیبت ہے لوگوں کو ماڈرن ہونے کا شوق ہے ہائی کلاس میں موو کرنے کا شوق ہے تنگ گلیوں سے اٹھ کے بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی میں گھر بناتے ہی دماغ میں سما جاتا ہے کہ ہم لبرل ہیں ماڈرن ہیں بچیاں کیپری یا جینز اور شارٹ شرٹ پہنیں، بال کھول کے دوستوں کے ساتھ مالز میں گھومیں یا صرف سر کو کس کے سکارف میں جکڑ کے باقی کسی چیز پہ پردہ ڈالنے کی زحمت کیے بنا ہوٹلوں میں ہلڑ مچائیں۔
لڑکے گریبان کھول کے ویپ اور آئس کے نشے کریں تیز گاڑیاں دوڑائیں گرل فرینڈز کے ساتھ گھومیں یہ سب اچانک نارمل ہو جاتا ہے۔ اور اس کو برا سمجھنا دقیانوسی سوچ بن جاتی ہے۔
مائیں جان بوجھ کے صرف نظر کرتی ہیں باپ لا علم رہنا پسند کرتے ہیں۔

کالج کے کنسرٹس ایک اور وبال ہیں جہاں رات گئے تک ہلڑ بازی ہوتی ہے ڈیڑھ دو بجے بچے اپنے دوستوں کے ساتھ ہوٹلنگ کرتے برگر پیزے کھاتے رات گئے گھر آتے ہیں۔
مائیں پردے ڈالتی ہیں باپ صرف پیسہ کما رہے ہیں اور نہال ہیں کہ ہم ہائی کلاس میں آگئے۔
ایک دن اچانک بیٹی کسی ہائی کلاس لڑکے کے ساتھ شرابوں کی بوتلوں والی گاڑی میں ڈیٹ پہ پکڑی جاتی ہے۔ اور پھر والدین پڑھائیاں چھڑا کے گھروں میں قید کر دیتے ہیں۔

لڑکیاں سمجھتی ہیں وہ مظلوم ہیں ان پہ ظلم ہوا ہے پڑھائی چھڑوا دی جب کہ کالجوں سے پوچھو تو کلاسیں بنک کر کر کے ڈیٹس ہو رہی تھیں۔

اور بیٹا جی ہاں ہمارے شہر میں یہ واقع ہوا کہ لڑکا بہت شریف اور نیک تھا دوست کے ساتھ آخری پیپر دے کے آرہا تھا اور وہی بے فکری فلاں دوست کے پاس گاڑی ہے وہ ڈراپ کر دے گا مصروف ترین شاہراہ پہ دوستوں نے ریس لگائی جس شاہراہ پہ چالیس پہ گاڑی چلتی ہے وہاں ایک سو بیس پہ ریس لگا کے کھمبے میں گاڑی ٹھوکی گاڑی ایسے چر مر ہو گئی کہ کھلونا گاڑیاں بھی نہیں ہوتیں ساتھ بیٹھے ہوئے لڑکے کی گردن اڑ گئی اس کا تو کوئی قصور بھی نہیں تھا اس کو تو ماں باپ نے کہا تھا دوست کے پاس گاڑی ہے اس کے ساتھ آجانا۔ اور آخری پیپر کی خوشی میں دوست ریس لگا کے پارٹی کر رہے تھے۔

خدارا اپنے بچوں کی زمہ داری خود لیں۔
ان کو اچھا برا سمجھائیں
ان کو لوگوں کی پہچان کروائیں
انہیں دوسروں کے پیسوں سے مرعوب کبھی مت کریں
انہیں پیسے کا صحیح استعمال سمجھائیں رزق کی قدر کرنا سیکھائیں
انہیں رزق حلال کھلائیں
اور ان سے غافل مت ہوں۔

کانفیڈینس آئے گا اس بات پہ اندھا ٹرسٹ مت کریں اندھے ہمیشہ اوندھے منہ گرتے ہیں۔

جویریہ ساجد

21/07/2025
21/07/2025

پرسنیلٹی ڈویلپمنٹ کورس کے #شرکاء کا آر پی گوجرانوالہ ریاض نذیر گارا، سی پی او رائے بابر اور سی ٹی او آصف صدیق کے ہمراہ گروپ فوٹو
Participants of Diploma in group Photo with Riaz Nazeer Gara, Rai Baber & Ch. Asif Sadique

21/07/2025
21/07/2025

Address

Lahore

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Yasir Arafat posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Yasir Arafat:

Share

Our Story

Yasir Arafat is an Inspirational Speaker, Life Coach (UK Certified) & Corporate Trainer working with the Top Government Departments including Punjab Police , National Highways & Motorway Police, Federal Board of Revenue ( FBR), Islamabad Police, Punjab Higher Education Department, Pakistan Customs Service, Federal Investigation Agency (FIA), PSCA,PBM & District Administrations. . He has an experience of over 18 years in Training & Development, Management, Academia, Counselling and Life Coaching.

He served as Chairman Standing Committee on Youth Affairs at GCCI from 2019 to 2020.Currently,As a Chairman Standing Committee on Training & Development at GCCI ,He is serving the business community.

He is playing a pivotal role for Youth Empowerment as Secretary General of Pakistan Youth Assembly.

His services have been highly acknowledged and appreciated by the top Institutions of Federal & Punjab Provincial Government. He has dedicated his life’s work in producing a professional and efficient human resource through his cutting-edge Trainings on Leadership and Life Skills. . Through his, corporate trainings, life coaching sessions, keynote speaking, motivational seminars and media appearances; Yasir is helping Pakistan’s top multinational companies, Governments, Educational institutes, and non-profit organizations. As a trainer, Yasir assimilates latest research, conventional wisdom, philosophy and psychology with audio-visual content, exercises and activities in his TNA based training's. He has touched the lives of millions around the globe and his audience describe him as inspiring, direct-from-heart, and incredibly impactful. As a Life Coach, Yasir Arafat provides counselling on Family & Relationships, Career, Study Management, Self-Management, Stress, Anxiety, Depression and on other Psychological Issues. Yasir lives, operates and travels from Lahore, Pakistan. To know more about him you can visit @ www.facebook.com/yasirarafatmehar Call / WhatsApp @ 03465197868