23/07/2025
سوات میں ایک بچے پر اس کے استاد نے اتنا تشدد کیا کہ وہ زندگی ہار گیا۔
اصل میں ہوا کیا؟
بچے نے گھر میں شکایت کی کہ میرے قاری صاحب مجھ سے کچھ جسمانی مطالبے کر رہے ہیں۔ مجھے مارتے بھی ہیں۔ مجھے اس قاری کے پاس نہیں پڑھنا۔ مجھے مدرسے نہیں جانا۔
ہمارے ہاں یہ بات عام ہے کہ بچے اپنے چاچوں ,ماموں , خالو ، گھریلو ڈرائیور ، چوکیدار ، مالی یا خانسامہ کی طرف سے جنسی طور پر ابیوز کیے جانے کی شکایت کرتے ہیں تو ہم بچے کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیتے ہیں۔
نہیں بیٹا ایسا نہیں ہو سکتا۔ تم پاگل ہوگئے ہو؟ تمہارے ابو / انکل کی جگہ ہیں وہ۔ اتنے اچھے انسان ہیں وہ۔ وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔؟
کبھی بچے ابیوز ثابت کرنے میں اگر کامیاب ہو جائیں تو اس کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے اسے خاندان کے وسیع تر مفاد میں اپنا صدمہ چپ چاپ پی لینے کا مشورہ دے دیا جاتا ہے۔
جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم در اصل اپنے بچے کی قبر کھود رہے ہوتے ہیں۔ اسے جنسی درندوں، قاتلوں اور محرومیوں کے شکار لوگوں کے حوالے کر رہے ہوتے ہیں۔
آئیندہ بھی بچے کسی مشکل میں ہوتے ہیں تو پہلا خیال انہیں یہی آتا ہے کہ امی ابو کو سب بتائیں گے، مگر ساتھ ہی انہیں احساس ہوتا ہے کہ امی ابو نے تو الٹا ہمیں ہی غلط کہہ دینا ہے، بتانے کا کیا فائدہ۔؟
یوں وہ زمانے کی بے رحمیوں کے حوالے ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی ایک کے بعد ایک پیدا ہونے والے صدمے (ٹراما) کا قبرستان بن جاتی ہے۔
سو!
یہاں اس کیس میں بھی والدین نے بچے سے کہا:
نہیں بچے تمہارے قاری صاحب ایسا نہیں کر سکتے۔ ان کے سینے میں تو قرآن ہے، وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ مدرسے یا مسجد میں کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے۔ تم غلط سوچ رہے ہو۔ تم پڑھنا ہی نہیں چاہتے۔ اپنے استاد کے بارے میں ایسا نہیں کہتے بری بات ہوتی ہے۔
استاد روحانی باپ ہوتا ہے۔ وہ غلط ہو تو بھی اس کی شکایت نہیں کرتے۔ استاد کا ڈنڈا جہاں پڑے وہاں جہنم کی آگ حرام ہو جاتی ہے۔
ایسی کئی طرح کی باتیں کر کے بچے کو جھٹلا دیا گیا، ہاتھ سے پکڑ کر اسی استاد کے پاس واپس پہنچا دیا گیا۔
استاد کو علم ہوا کہ بچہ جو مدرسے نہیں آرہا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے گھر پر میرے حوالے سے شکایت کی تھی۔
مدرسے کے ماحول میں استاد کی شکایت گناہوں میں بھی بڑا گناہ ہے اور جرائم میں بھی بڑا جرم ہے۔
مگر یہاں اس کا بڑا جرم یہ تھا کہ اس نے قاری صاحب کے جنسی ارادوں کا کبھی احترام نہیں کیا۔
چونکہ گھر والوں کی عدالت میں فرد جرم الٹا بچے پر عائد ہوچکی تھی اور قاری صاحب کو پاکدامنی کی سند مل چکی تھی، چنانچہ اب قاری آرام سے تشدد کر سکتا تھا۔
یہ تشدد جنسی ارادے کو احترام نہ ملنے پر کیا، مگر بنیاد س بات کو بنایا کہ اس نے مدرسے آنے سے انکار کیا ہے۔
آپ کو لگتا ہے کہ اس طرح کے واقعات میں بچے کے قتل میں صرف بچے کا استاد ملوث ہوتا ہے؟ جنسی تشدد کا ذمہ دار صرف استاد ہوتا ہے؟ نہیں۔!
استاد ایک لمبی کہانی کا صرف آخری کردار ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ایف آئی آر بھی صرف اسی آخری کردار پہ درج ہوتی ہے۔ باقی سارے کردار بچ جاتے ہیں۔
قتل کی اس طرح کی کہانیوں میں بڑے کردار وہ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بچے ستم سہہ کر خاموش ہو جانے پر مجبور ہوتے ہیں، ٹراماز کا شکار ہو رہے ہوتے ہیں، تنہائی کے شکنجے میں جا رہے ہوتے ہیں، اندر ہی اندر مر رہے ہوتے ہیں، خود کشی کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں اور ایک دن کسی جنسی درندے کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر قتل کر دیے جاتے ہیں۔
ہمارے بچوں کو مارتا کوئی اور ہے مگر ان کے لیے قبر کی کھدائی تھوڑی تھوڑی کرکے ہم خود شروع کر چکے ہوتے ہیں۔
آخری کردار صرف آخری رسومات ادا کرکے ہماری بچوے کو ہماری ہی کھودی ہوئی قبر میں اتار رہا ہوتا ہے، اور کچھ نہیں کرتا۔
قاتلوں کو رحم کی تلقین کرنے والوں کو اب خود اپنے بچوں پر رحم کر لینا چاہیے۔
بچے جھوٹ نہیں بولتے۔ ان کا دماغ ہر طرح کی آلودگی سے پاک صاف ہوتا ہے۔ وہ سازشی ہوتے ہیں نہ بدنیت ہوتے ہیں۔ وہ من کے سچے اور اچھے ہوتے ہیں۔
ان کی بات سنیں۔ ان کا بھروسہ کریں۔۔!!
فرنود عالم