07/11/2025
سائیکالوجی میں "locus of control theory" کے مطابق لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ اندرونی اور بیرونی کنٹرول کے حامل لوگ۔ بیرونی کنٹرول والے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنے حالات کا ذمہ دار بیرونی چیزوں کو قرار دیتے ہیں۔ مثلا اپنے برے حالات کے ذمہ دار اپنی فیملی کو، اپنی حکومت کو، دوسرے لوگوں کو, مہنگائی کو، کرپشن کو اور ملکی حالات کو قرار دیتے ہیں۔ جبکہ اندرونی کنٹرول کے لوگ اپنے حالات کا ذمہ دار خود کو قرار دیتے ہیں۔ ریسرچ کے مطابق جتنے بھی کامیاب لوگ ہیں وہ سارے اندرونی کنٹرول والے ہیں۔ وہ حالات کے سامنے خود کو بے بس محسوس نہیں کرتے۔
انسان جتنا خود کے بجائے دوسروں کو ذمہ دار قرار دیتا ہے تو اس کا کنٹرول کم ہوتا جاتا ہے۔ اسی طرح انسان جتنا خود کو ذمہ دار سمجھتا ہے اس کا اتنا ہی کنٹرول بڑھ جاتا ہے۔ اس کی گولڈن تھیوری کے مطابق "ذمہ داری"، "کنٹرول" اور "خوشی" ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جتنا خود کو ذمہ دار سمجھیں گے اتنا خود پر کنٹرول محسوس ہوگا اور جتنا خود بھی کنٹرول محسوس ہو گا اتنی خوشی بڑھے گی۔ برے سے برے حالات میں بھی کہنا چاہیے کہ اس کا ذمہ دار میں ہوں۔ اس سے آپ کو اپنے اوپر کنٹرول حاصل ہوگا۔
مثلا اگر ایک انسان کو دوسرا انسان اس کی امید توڑتے ہوئے کسی معاملے میں اس کی مدد نہیں کرتا۔
ایسی صورت میں اسے غصہ بھی آئے گا اور وہ نا امید بھی ہو جائے گا۔ لیکن اگر وہ اندرونی لوکس آف کنٹرول والا ہوا تو وہ کہے گا کہ اس کا ذمہ دار میں ہوں، میں نے کیوں امید رکھی تھی، میں نے کیوں سوچا تھا کہ وہ میری مدد کرے گا۔ ایسا سوچتے ہی اس کا غصہ فوراً ختم ہو جائے گا اور اس کی اداسی بھی کافی حد تک کم ہو جائے گی۔
جبکہ ایک بیرونی کنٹرول والا بندہ جب یہ سوچتا ہے کہ اس کے حالات کا ذمہ دار باہر کے حالات ہیں، باہر کے لوگ، ان کے فیملی ممبر، اس کی غریبی، اس کے تعلقات نہ ہونا یا اس کا بچپن ہے۔ تو ایسی صورت میں وہ خود کو ایک مظلوم (victim) سمجھتا ہے, اس کا کنٹرول کھو جاتا ہے, وہ اپنے آپ کو لوگوں اور حالات کا غلام سمجھنے لگتا ہے۔
سگمنڈ فرائڈ کی تھیوری کے مطابق ریشنلائزیشن
(rationalization) ایک ڈیفنس میکانیزم ہے۔ جس میں انسان اپنے کسی بھی غیر پسندیدہ کام کی وجوہات تلاش کرتا ہے۔ اور یہ وجوہات ہمیشہ دوسروں میں یا باہر حالات میں نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی کسی امتحان میں فیل ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ اس طرح کے بہانے کرے گا کہ امتحان بہت مشکل تھا یا اس کے ٹیچر نے ایسا جان بوجھ کے کیا ہے یا اپنا کوئی فیملی کا مسئلہ بیان کرے گا کہ اس وجہ سے میں فیل ہوا۔ وہ کبھی بھی خود کو ذمہ دار قرار نہیں دے گا۔ سگمنڈ فرائیڈ کے مطابق وہ اس لئے کرتا ہے کہ وہ اپنی انا کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتا۔ وہ اپنے آپ کو مجرم (guilty) محسوس نہیں کروانا چاہتا۔ وہ ایسا جان بوجھ کے نہیں کرتا بلکہ لاشعوری طور پر وہ سوچتا ہے اور ایسی باتیں کرتا ہے۔
رابرٹ انتھونی نے مینیجمنٹ کے اوپر بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں
"when you blame others، you give up the Power to change. "
" جب آپ دوسروں کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں تو آپ تبدیل
کرنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں"
برائن ٹریسی کہتے ہیں کہ آپ کو جب بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے یا کبھی آپ پریشان ہوں، یا غصے میں ہوں تو آپ یہ کہنا شروع کر دیں "اس سب کا ذمہ دار میں ہوں" ۔ ایسا کہنے سے آپ کے اندر ایک کنٹرول محسوس ہوگا اور ایک امید پیدا ہو گئی۔
دوسروں کو الزام دینا اور دوسروں کو ذمہ دار قرار دینا ایک سوچ ہے۔ جو کئی دفعہ صحیح اور کئی دفعہ غلط ہوتی ہے۔ اگر یہ صحیح بھی ہو تب بھی آپ نا امید اور بے بس محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح خود کو ذمہ دار قرار دینا بھی ایک طرح کی سوچ ہے، جو کئی دفعہ صحیح اور کئی دفعہ غلط ہوتی ہے۔ اگر یہ غلط بھی ہو تب بھی آپ کو ایک اپنے اندر کنٹرول محسوس ہوگا، ایک نئی امنگ پیدا ہوگی کیونکہ آپ خود کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ ہمیں صرف سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ انسان کے پاس بےپناہ ذہنی صلاحیت ہوتی ہے۔ لیکن حالات کو اور دوسروں کو الزام تراشی کر کے وہ صلاحیت استعمال نہیں ہو پاتی۔ جب آپ اپنی سوچ کو شفٹ کرتے ہیں تو وہ صلاحیت ان لاک ہوتی ہے، تب آپ اس کو استعمال کر سکتے ہیں۔
الزام تراشی کرنے والے لوگ پیدا ہونے سے مرنے تک الزام تراشی میں ہی گزار دیتے ہیں۔ جبکہ کامیاب لوگ الزام تراشی کے بجائے اپنے اوپر کام کرتے ہیں۔ اقبال نے شاید انہی کے لیے لکھا ہوا ہے
" اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے"
اپنی دنیا آپ کو خود تب ہی بنا سکیں گے جب آپ اس کی ذمہ داری لیں گے۔
ایک اور جگہ اقبال نے فرمایا ہے
" جہاں تازہ کی ہے افکار تازہ سے نمود
کہ ہوتے نہیں سنگ و خشت سے جہاں پیدا"
" مٹی اور گارے سے نئے جہان پیدا نہیں ہوتے بلکہ نئی سوچ سے نئے جہان پیدا ہوتے ہیں"
اپنے حالات کی ذمہ داری خود قبول کریں۔ اپنی زندگی کی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھیے۔ آپ کی زندگی کی گاڑی آپ کی مرضی سے ہی چلنی چاہیے۔ ہمیشہ دوسروں کو الزام دینے کے بجائے خود ذمہ داری قبول کریں۔ یہ نئی سوچ آپ کو نئے راستے دکھائے گی۔
منقول