Sanwal Hussain Kharl

Sanwal Hussain Kharl PhD Researcher | Writer | Traveller Educationalist

22/06/2025

سال 2025 عسکری تنازعات سے بھرا پڑا ہے، پہلے غزہ، پھر پاکستان انڈیا اور اب اسرائیل ایران۔ جنگ ذہنی دباؤ کی ساتھ ساتھ لوگوں میں کئی نفسیاتی اثرات چھوڑ جاتی ہے۔ سیاسیات کا طالبعلم ہونے کے ناطے دوست احباب سے ایسے موضوعات پر بات چیت ہو جاتی ہے اور اکثر و بیشتر لوگ صورتحال پر پریشان اور مایوس دیکھائی دیتے ہیں خواہ انکا تعلق کسی بھی قوم یا مذہب سے ہو ۔
ایران اسرائیل تنازعہ کوئی نیا ایونٹ نہیں ہے بلکہ پہلے سے موجود مسئلہ کی اکسٹنشن ہے جہاں اسرائیل ایران کو گاہے بگاہے انگیج یا پرووک کرتا رہتا ہے اور ایرانی جوہری ہتھیاروں کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے انکے خاتمہ کا ارادہ رکھتا ہے اور دوسری طرف ایران خطے میں تن تنہا اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ بھی کرتا ہے اور ساتھ ساتھ ایسی تمام پروکسییز کی بھی مدد کرتا ہے جو اسرائیل کے خلاف مذاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

حالیہ تنازعہ پہلے سے زیادہ شدید اور خطرناک ہے اور امریکہ کی انٹری کے بعد صورتحال کافی پیچیدہ ہورہی ہے ۔ اسرائیل اور امریکہ نا صرف ایران کو جنگی بنیادوں پر نقصان پہنچا رہے بلکہ انکا ارادہ موجودہ سسٹمُ کا خاتمہ ہے اور امام خمینی کی جگہ پہلوی کو انسٹال کرنا ہے جو خطے میں انکے مفادات کو سروو کرے۔ اس تناظر میں میری کافی ایرانی دوستوں سے بات چیت ہوئی اور کچھ کے خیالات سن کر میں خود دنگ رہ گیا۔

79 کے انقلاب کے بعد ایران میں مذہبی حکومت قائم ہوئی جس میں مرکزی کردار سپریم لیڈر (خمینی )کو ملا جو سادہ الفاظ میں ایران کے سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے- مذہبی اسٹبلشمنٹ وقت کے ساتھ ساتھ نظام پر اپنا کنڑول مضبوط کرتی گئی اور سیاسی یا جمہوری حکومت جسکی سربراہی صدر کرتا ہے اور انتخابات کے ذریعے وجود میں آتی ہے اسکی اہمیت کم ہوتی گئی جس سے عوام الناس کا سسٹم اور انتخابات سے اعتبار اٹھتا چلا گیا ۔ گزشتہ انتخابات میں صرف 25% لوگوں نے ووٹ کاسٹ کیا جن میں زیادہ تر بلواسطہ یا بلاواسطہ سسٹم سے منسلک تھے۔
سخت مذہبی پابندیاں، سیاسی اور سماجی پسماندگی،کم معاشی مواقع اور بے روزگاری عام عوام کو انتخابی عمل سے دور لئے گی۔
حاضر وقت عوام کا ایک بڑا گروہ خمینی کے سخت خلاف ہے اور وہ اس سسٹمُ سے چھٹکارا حاصل کرنے کےلئے اسرائیل سمیت کسی بھی ملک کی حمایت کرنے کو تیار ہے،انکے مطابق امریکہ اور اسرائیل انکو خمینی سے آزاد کروا رہے ہیں۔ انکے بعد دوسرا بڑا گروپ انُ لوگوں کا ہے جو مذہبی رجحانات رکھتے ہیں اور خمینی کو امام سمجھتے ہیں اور اس نظام کی مکمل سپورٹ کرتے ہیں۔ اور باقی وہ لوگ ہیں جو اس نظام کو سپورٹ کو نہیں کرتے البتہ وہ اسرائیل اور امریکہ کو اپنا خیرخواہ بھی نہیں مانتے اور نا ہی پہلوی کو قبول کرتے ہیں ۔
اب ان حالات میں اگر امریکہ اور اسرائیل خمینی کی جگہہ پہلوی کو انسٹال کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ایران خانہ جنگی کی طرف چلا جائے گا اور اسکا حال شام، عراق جیسا ہوگا اور ہی اسرائیل کی چال بھی ہے۔
دوسرا نتیجہ یہ ہوسکتا کہ پاسدران انقلاب بچ جائے اور موجودہ نظام چلتا رہے جو کہ چین، روس سمیت دیگر بیشتر ممالک کی خواہش ہے۔ البتہ موجودہ جنگ کی نقصانات اور معاشی بدحالی سسٹم کو مزید کمزور کرئے گی ۔
یوں بہتر ہے کہ موجودہ نظام اپنا وجود برقرار رکھے اور سرواویل کے بعد عوامی امنگوں کے مطابق خود کو سرے سے دوباہ ترتیب دئے اور حقیقی جمہوری حکومت وجود میں لائی جائے جو کچھ اثرورسوخ بھی رکھتی ہو۔

~سانول حسین کھرل

24/04/2025

18/04/2025

لہندے تے چردے پنجاب دے عشق دی کہانی ، محمد بخش دی زبانی

17/04/2025
When a blue evening hits the sky 💙
13/04/2025

When a blue evening hits the sky 💙

12/04/2025

Dear Sir Kamran Lashari ❤️❤️

Springing in Spring 🌼🌸🌞
12/04/2025

Springing in Spring 🌼🌸🌞

Get some air
06/04/2025

Get some air

26/03/2025

1971 میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر ایک نئے ملک بنگلہ دیش کے طور پر سامنے آیا۔ بنگلہ دیش بننے کی اس مہم میں عوامی لیگ کے عسکری ونگ “مکتی باہنی” نے کلیدی کردار ادا کیا۔ علیحدگی کے بعد عوامی لیگ کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے مکتی باہنی کے لوگوں کو فریڈم فائٹر کا درجہ دیا اور انہیں سرکاری نوکریوں میں خصوصی کوٹہ دیا۔ ہر سرکاری ادارے، اور ہر شعبے میں مکتی باہنی کے لوگ نظر آنے لگے اور سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر مکتی باہنی کی صورت میں ایک مخصوص ایلیٹ کلاس وجود میں آگئی، جو اقتدار اور وسائل پر قابض ہوتی چلی گئی۔

2008 کے عام انتخابات میں عوامی لیگ دوبارہ بھاری اکثریت سے برسرِ اقتدار آئی، تو لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ واجد نے مکتی باہنی کے لیے سرکاری نوکریوں کا کوٹہ بحال کیا اور ان پر پہلے کی طرح نوازشات کی بارش کر دی۔ سرکاری نوکریوں سے لے کر سیاسی تقرریوں تک، ہر جگہ یہ طبقہ قابض ہو چکا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں اس طبقے کے خلاف نفرت بڑھنے لگی اور وہ جو پہلے انکے ہیرو تھے اب وسائل پر قابض ہونے کے بعد عام عوام کے لئے ویلن بنتے جارہے تھے ۔ 2018 میں احتجاجی تحریکوں نے جنم لیا، اور بالآخر 2023-24 کے انتخابات کے بعد یہ لاوا پھٹ گیا۔ عوام نے شیخ حسینہ اور مکتی باہنی کی ریاستی اجارہ داری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔

بنگلہ دیش کی طرح پاکستان میں گزشتہ 77 سالوں سے ایک مخصوص ایلیٹ طبقہ ملک پر قابض ہے۔ اس میں فوج، بیوروکریسی، کچھ سیاسی خاندان اور بڑے کاروباری افراد شامل ہیں۔ یہ طبقہ ہمیشہ سے وسائل پر قابض رہا ہے، حکومتیں بدلتی رہیں، لیکن اصل طاقت ان کے ہاتھ میں رہی۔ جب ملک ترقی کرتا ہے، اس کا فائدہ یہی ایلیٹ اٹھاتا ہے اور جب ملک بحران میں جاتا ہے، تو اسکی قیمت عوام ادا کرتی ہے اور یہ طبقہ یا تو ملک سے باہر چلا جاتا یا پھر کچھ عرصہ کیلئے منظرنامے سے غیب ہو جاتا۔

پاکستان میں ایلیٹ ازم کے خلاف مزاحمت ہمیشہ سے کسی نہ کسی صورت میں قائم رہی ہے اور اب سوشل میڈیا کے استعمال اور خبر کی بر وقت ادائیگی کی وجہ یہ مزاحمت اب بڑھ رہی ہے۔ ملک میں موجودہ امن و امان کی صورتحال ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے مسائل، بدتر معاشی حالات اور ناانصافی عوام اور ایلیٹ کے درمیان اس خلیج کو مزید بڑھا رہی ہیں۔ موجودہ عوامی غم و غصہ دیکھنے کے بعد اس ایلیٹ طبقے کے مفادات خطرے میں ہیں اور اسی خطرے کے پیش نظر ریاست کو ھارڈ اسٹیٹ بنانے کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں ۔ پیکا ایکٹ اور اس طرح کے کئی دیگر قوانین کا سہارا لیکر عوام اور عوامی جذبات کی ترجمانی کرنے والے لوگوں کو ختم کیا جا رہا ہے، عدالتوں کو بے اثر اور سیاسی قائدین کو مفلوج کیا جا رہا ہے۔ اور ماضی قریب میں اٹھنے والی ہر تحریک کو با زورشمشیر کچلا جا رہا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنے اس ایلیٹ طبقہ کے مفادات کو بچانے کیلئے ھارڈ اسٹیٹ کے ماڈل نافذ کر سکے گا یا پھر عوامی غم و غصہ کو زیادہ دیر تک دبایا نہیں جا سکے گا ؟

سیاسیات کے طالبعلم ہونے کے ناطے میرا یہ ماننا ہے پاکستان کی عوام کا سماجی اور سیاسی رویہ جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک سے زیادہ مماثلت رکھتا ہے نہ کہ چین، روس یا پھر سعودی عرب۔ بنگلہ دیش کی عوامی تحریک یہ ثابت کر چکی ہے کہ طاقتور سے طاقت چھینی جا سکتی ہے اور اگر شیخ حسینہ کی سخت اور ظالم ریاست عوام کے غصے کے آگے نہ ٹھہر سکی، تو پاکستان میں بھی یہ ایلیٹ ازم مسلسل قائم نہیں رہ سکتا۔ اسکا حتمی حل یہی ہے کہ عوام کو سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق دیں ۔ ملک میں ایک نیا عمرانی معاہدہ کریں جس میں عوام اور اسکے نمائندوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہو۔ ملک میں نئے انتظامی یونٹ بنائیں اور وسائل کو برابر تقسیم کریں۔ تمام آئینی اداروں کی حدود واضح ہوں اور انصاف کا جامع نظام قائم ہو۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ جب عوامی جذبات کا لاوا پھٹ جائے گا اور پھر ایلیٹ طبقے کے سارے منصوبے دھرے رہ جائیں گے۔

ازقلم: سانول حسین کھرل

جمہوریت کے عالمی انڈیکس کے مطابق پاکستان کو authoritarian  (آمریت) میں شمار کیا گیا ہے۔
23/03/2025

جمہوریت کے عالمی انڈیکس کے مطابق پاکستان کو authoritarian (آمریت) میں شمار کیا گیا ہے۔

20/03/2025

“ہارڈ اسٹیٹ”

پاکستان میں حالیہ دنوں قومی سلامتی پر پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا جس میں ریاست کو “ہارڈ اسٹیٹ” بنانے پر گفتگو ہوئی۔ آرمی چیف نے اس تصور کو پاکستان کی سلامتی کےلیے قابلِ عمل قرار دیا، جس پر سیاسی و عوامی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے اور یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان کی سماجی، سیاسی اور معاشی حقیقتیں اس ماڈل کو قبول کر سکتی ہیں؟

“ہارڈ اسٹیٹ” کا تصور عمومی طور پر چین، روس اور سعودی عرب جیسے ممالک کے تناظر میں سمجھا جاتا ہے، جہاں ریاست اپنی پالیسیوں میں سختی برتتی ہے، اختلافِ رائے کو محدود کرتی ہے، اور عوام کو سخت قوانین کے ذریعے نظم و ضبط میں رکھتی ہے۔ یہاں حکومتی طاقت اور رٹ کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی قسم کے “ڈنڈے” کے استعمال کو جائز سمجھا جاتا ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ہمارا سیاسی و حکومتی نظام برطانوی پارلیمانی جمہوریت کی طرز پر رہا۔ بانی پاکستان نے بھی اسی پارلیمانی جمہوری نظام کو اپنانے پر زور دیا جس میں عوام کی خواہشات قانون سازی کی بنیاد بنتی ہیں، اور ریاست عوام کے مفادات کے تحت اپنی پالیسیاں تشکیل دیتی ہے ۔ دولت مشترکہ کی تمام ریاستوں نے تقسیم کے بعد، اسی سیاسی و انتظامی ڈھانچے کو اپنایا، چاہے وہ بھارت ہو، پاکستان ہو، یا دیگر برطانوی نوآبادیات جیسے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور امریکہ جس میں مکالمہ، اتفاقِ رائے اور عوامی نمائندگی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

ہارڈ اسٹیٹ کا تصور عام طور پر تب کامیاب ہوتا ہے جب ریاست معاشی طور پر مستحکم ہو۔ چین، روس اور سعودی عرب میں حکومتوں کو سخت فیصلے کرنے کی قوت اس لیے حاصل ہے کیونکہ ان کے پاس مضبوط معیشت، مستحکم بیوروکریسی اور وسائل پر ریاستی گرفت موجود ہے۔ لیکن پاکستان ایک متنوع ملک ہے، جہاں مختلف قومیتیں، مذاہب اور زبانیں پائی جاتی ہیں۔ یہاں جمہوریت صرف ایک طرزِ حکمرانی نہیں، بلکہ سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کا ذریعہ بھی ہے ۔ پاکستان میں ہمیشہ جبری پالیسیوں کے خلاف شدید عوامی ردِ عمل آیا ہے۔ ایوب خان سے لے کر مشرف دور تک، ہر مرتبہ جبری حکمرانی کو عوام نے مسترد کیا۔ اور آج کے ڈیجیٹل دور میں جب سوشل میڈیا اور معلومات کی رسائی ہر فرد کے ہاتھ میں ہے، ہارڈ سٹیٹ کا پلان ایک مسٹڈ گائیڈڈ میزائل ثابت ہوگا۔

مضبوط ریاست صرف سخت پالیسیوں سے نہیں بنتی، بلکہ عوامی شراکت، شفافیت اور انصاف سے قائم ہوتی ہے۔پاکستان کو اگر واقعی ایک طاقتور ریاست بنانا ہے تو قانون کی حکمرانی، اداروں کی مضبوطی، اور معیشت کی بحالی کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔ ہارڈ اسٹیٹ ماڈل کی طرف جانے کی بجائے، ہمیں اپنے سیاسی و سماجی ڈھانچے کے مطابق ایک متوازن ماڈل اپنانا ہوگا، جہاں ریاست کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ عوامی حقوق اور آزادیوں کو بھی مکمل تحفظ حاصل ہو۔

تحریر: سانول حسین کھرل

Address

Lahore

Telephone

+923324141616

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Sanwal Hussain Kharl posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Sanwal Hussain Kharl:

Share

Learn Right Now - LRN

Learn right now is a personalized learning platform for students aiming at appearing in competitive examinations. Our system is backed by one of the best customs made LMS’ (Learning management system) in the educational ecosystem. Students' learning is magnified by experts of the subjects, visuals, and responsive support mechanisms. Productivity over activity