WasimIqbal

WasimIqbal I am a teacher by choice and teaching is my passion & love. I want to spread optimism everywhere.

04/07/2025

واقعہ کربلا: ایک غیر جانبدار تجزیہ

واقعہ کربلا اسلامی تاریخ کا ایک ایسا المناک سانحہ ہے جو نہ صرف امت مسلمہ کے لیے درد اور غم کی علامت ہے بلکہ اس میں غور کرنے سے ہمیں بہت سے سیاسی، اخلاقی اور اجتماعی سبق بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس واقعہ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پس منظر، کرداروں اور واقعات کو مکمل غیر جانبداری کے ساتھ، مستند تاریخی حوالہ جات کی روشنی میں دیکھا جائے۔

حضرت معاویہؓ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے یزید نے خلافت سنبھالی۔ خلافت کا یہ انتقال موروثی تھا، اور خلفائے راشدین کے طرز عمل کے خلاف تھا۔ حضرت حسین بن علیؓ نے بیعت کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ اسے شرعی خلافت کے معیار پر پورا نہیں سمجھتے تھے۔ کوفہ کے لوگوں کی اکثریت حضرت حسین بن علی رضی اللّہ عنہ کی خلافت کی طرف دار تھی، انہوں نے حضرت حسینؓ کو خطوط لکھ کر بلایا کہ آپ آئیں اور ان سے بیعت لیں اور یزید کے خلاف قیادت سنبھالیں۔ حضرت حسینؓ نے کوفہ کے حالات جانچنے کے لیے اپنے چچا زاد حضرت مسلم بن عقیلؓ کو بھیجا، جنہوں نے بیعت لی اور کامیابی کی خبر دی۔

اس وقت کوفہ کے گورنر نعمان بن بشیر انصاری رضی اللّہ عنہ تھے، جو ایک نرم مزاج اور سختی سے گریز کرنے والے صحابی تھے۔ یزید کو جب کوفہ کی صورت حال کا علم ہوا تو اس نے نعمان بن بشیر رضی اللّہ عنہ کو معزول کر کے عبیداللہ بن زیاد کو بصرہ کے ساتھ کوفہ کا بھی گورنر بنا دیا۔ عبیداللہ سخت گیر، چالاک اور ظالم منتظم تھا۔ اس نے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللّہ عنہ کو گرفتار کر کے شہید کر دیا اور کوفہ میں سختی کے ذریعے لوگوں کو ڈرا کر بیعت یزید پر مجبور کیا۔ حضرت حسینؓ جب مکہ سے روانہ ہوئے تو وہ کوفہ کے بدلتے حالات سے بے خبر تھے۔

جب حضرت حسینؓ کربلا پہنچے تو عبیداللہ بن زیاد نے ان کے خلاف ایک لشکر روانہ کیا جس کی قیادت عمر بن سعد کے سپرد کی۔ کوفہ کے لشکر میں وہی لوگ شامل تھے جنہوں نے حضرت حسینؓ کو بلایا تھا، اور اب انہی کے خلاف صف آراء تھے۔ ان کے ساتھ شمر بن ذی الجوشن جیسا سفاک شخص بھی تھا، جو بعد میں براہ راست قتل میں شریک ہوا۔ دس محرم الحرام کو حضرت حسینؓ اور ان کے اہل بیت کے بہتر(72) افراد کو شہید کر دیا گیا۔

حضرت حسینؓ کے قاتل براہ راست کوفہ کے لوگ اور عبیداللہ بن زیاد تھا۔ لیکن یہ سب کچھ یزید کے مقرر کردہ گورنر کی سرکردگی میں ہوا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ: کیا یزید نے اس قتل کا حکم دیا تھا؟ امام ابن تیمیہ رحمہ اللّہ، امام ابن کثیر رحمہ اللّہ اور دیگر اہل سنت علماء کے مطابق یزید نے براہ راست قتل کا حکم نہیں دیا۔ لیکن بطور خلیفہ اس کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ ظلم کرنے والے گورنر اور افسران کو سزا دیتا۔ یزید نے نہ عبیداللہ بن زیاد کو سزا دی، نہ عمر بن سعد کو اور نہ شمر بن ذی الجوشن کو۔ ان میں سے کسی کے خلاف کوئی عدالتی یا اخلاقی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ بعض کو مزید انعام و اکرام ملے۔

یزید نے اگرچہ بعض روایات کے مطابق اہل بیت کے ساتھ نرم سلوک کیا، اور واقعے پر افسوس کا اظہار بھی کیا، لیکن عملی طور پر اس کا رویہ غیر واضح رہا۔ اس نے قاتلوں کو سزا نہ دے کر اپنی سیاسی اور حکومتی ذمہ داری سے پہلو تہی کی۔ اسی وجہ سے امت میں اس کی شخصیت ہمیشہ متنازع رہی۔

یزید کے متعلق اکثر ایک اور سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا وہ اس بشارت میں شامل ہے جو نبی کریم ﷺ نے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے پہلے لشکر کے لیے دی تھی؟ حدیث میں ہے کہ میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر حملہ کرے گا، وہ سب مغفور ہوں گے۔ بہت سے مؤرخین کے مطابق یزید اس لشکر میں شامل تھا اور شاید اس کا امیر بھی تھا۔ اس امر کے باوجود بھی یہ بات ہرگز قطعی نہیں کہ اس بشارت کا انفرادی اطلاق یزید پر ہو۔ حدیث میں کسی شخص کا نام نہیں لیا گیا بلکہ مجموعی طور پر لشکر کی تعریف کی گئی۔ اہل علم نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ مغفرت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اخلاص اور نیت صالحہ کے ساتھ جہاد کریں۔ اگر بعد میں ان کا کردار متنازع ہو یا انہوں نے ظلم کا ساتھ دیا ہو تو مغفرت کا وعدہ مشروط ہو جاتا ہے۔ اس لیے بہتر اور منصفانہ موقف یہی ہے کہ اس حدیث کو اپنی جگہ پر مانا جائے، لیکن یزید کے معاملے کو مکمل اللہ کے سپرد کر دیا جائے۔

امت کا محتاط اور دیانت دار رویہ یہی ہونا چاہیے کہ نہ اسے ولی اللہ اور نیک سمجھا جائے اور نہ ہی اس پر لعنت اور تکفیر کی جائے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللّہ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللّہ، امام ابن کثیر رحمہ اللّہ جیسے بڑے اہل سنت علماء نے بھی یہی مؤقف اختیار کیا کہ یزید سے متعلق ہمیں خاموشی اختیار کرنی چاہیے اور معاملہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ یہی راستہ امت کے اتحاد، اصلاح اور فہم دین کا بہترین راستہ ہے۔

واقعہ کربلا میں بہت بڑے مجرم کوفہ کے لوگ بھی ہیں جو خود کو اہل بیت کا محب کہتے تھے، انہی کی غداری، کمزوری اور دوغلے پن کی وجہ سے حضرت حسینؓ اور ان کا خاندان کے لوگ شہید ہوئے۔ اہل تشیع کی کتب بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہیں کہ کوفہ کے لوگ پہلے بلانے والے تھے اور بعد میں حضرت حسینؓ کو تنہا چھوڑ گئے۔

اس واقعے میں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ قیادت، خلافت اور امت کی اصلاح صرف نعروں سے نہیں بلکہ سچے کردار اور قربانی سے ممکن ہوتی ہے۔ حضرت حسینؓ کا موقف حق پر مبنی تھا اور ان کا قیام صرف ذاتی یا سیاسی مفاد کے لیے نہیں تھا بلکہ امت کو بیدار کرنے، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے اور دین کی اصل روح کو زندہ رکھنے کے لیے تھا۔ امت مسلمہ کو آج بھی واقعہ کربلا سے یہی سبق لینا چاہیے کہ ظلم اور باطل کے خلاف کھڑا ہونا دین کا تقاضا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انصاف، علم اور غیر جانبداری بھی اتنی ہی ضروری ہے تاکہ امت کو تقسیم ہونے سے بچایا جا سکے۔
(ھذا ما عندی واللّٰہ اعلم باالصواب)

وسیم اقبال
WISE by WASIM IQBAL

12/06/2025

نکاح کا معیار: دین کی راہ یا دل کی بات؟

عصر حاضر کی نوجوان نسل دن بدن جذباتی، خودسر اور فوری فیصلوں کی عادی ہو رہی ہے۔ ان رویوں کی بہت سی اور وجوہات میں سے ایک اہم وجہ سوشل میڈیا کا مرتب کردہ گہرا اور گھناؤنا اثر بھی ہے۔ یہ رویے کسی خاص سرحد یا قوم تک محدود نہیں لیکن آج میری تحریر کی مخاطب ہماری مسلمان اور خصوصاً پاکستانی نوجوان نسل ہے، جو ایک طرف تو مسلمان ہونے کے ناطے اسلامی اصولوں کی پابند ہے تو دوسری طرف مسقبل میں پاکستان کی ثقافتی روایات کی امین اور وارث بھی ہے۔

صد ہائے افسوس! کہ آج ہماری نوجوان نسل ان ذمہ داریوں کو بے جھجھک پس پشت ڈالتے ہوئے سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی رومانوی کہانیوں، آزادیِ رائے کے نام پر بدتمیزی اور والدین کی رائے کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے جیسے خطرناک رجحانات کے زیر اثر محبت کے نام پر جذباتی نکاح کی طرف تیزی سے مائل ہو رہی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ایسے نکاح نہ صرف خاندانی نظام میں دراڑ ڈال سکتے ہیں بلکہ اکثر وقتی جذبات پر مبنی ہونے کی وجہ سے ناپائیدار ثابت ہوتے ہیں، اور بسا اوقات تو یہ نکاح شرعی اعتبار سے بھی مشکوک ہوتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں "کورٹ میرج" کے رجحان میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی یلغار اور لامحدود استعمال کے بعد مزید تیزی آ چکی ہے۔ یاد رہے کہ کورٹ میرج میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی اکثریت والدین کی رضامندی کے بغیر عدالت کے ذریعے نکاح کرتی ہے۔ اگر چہ ریاست میں قانونی طور پر یہ نکاح جائز تصور ہوتا ہے، لیکن شرعی اعتبار سے اس کے کئی پیچیدہ پہلو ہیں جنہیں کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اسلام میں نکاح ایک مقدس بندھن ہے جس میں صرف دو افراد کی رضامندی کافی نہیں، بلکہ خاندان کی مشاورت اور برکت بھی ضروری ہے۔ شافعی، مالکی اور حنبلی جمہور فقہاء کے نزدیک ولی (والد یا قریبی مرد سرپرست) کی اجازت کے بغیر نکاح باطل ہے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
ايُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ"
(سنن أبي داود، ترمذي، ابن ماجه)
ترجمہ: "جس کسی عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا، تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے۔"
اور دوسری حدیث میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: "لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ"
ترجمہ: "ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔"
(سنن ابی داؤد: 2085)

یہ حقیقت جاننے کے بعد ایک سوال ذہن میں ضرور آتا ہے کہ اگر کورٹ میرج واقعتاً ناجائز عمل ہے تو اسے ریاست نے قانونی جواز کیوں فراہم کر رکھا ہے؟ اس سوال کا پہلا الزامی جواب تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں تو سود جسے قرآن مجید میں واضح طور پر اللّہ اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ قرار دیا ہے، وہ بھی قانوناً نا صرف جائز بلکہ بزور بازو پوری طرح نافذ العمل ہے، تو اس جیسے اور ایسے ہزاروں دوسرے فقہی مسائل کو ریاست کیا خاطر میں لائے گی!

اس جواب پر حیلے بہانے کرنے والوں کا دل مطمئن نہیں ہوتا تو ریاست کے قانونی جواز کی دلیل بھی جان لیں۔ ریاست کورٹ میرج کا قانونی جواز فقہ حنفی میں بھی مکروہ تحریمی اور ناپسندیدہ سمجھے جانے والے نکاح کے تحت فراہم کرتی ہے۔ فقہ حنفی میں بالغ عورت کے لیے ولی کی اجازت نکاح کے صحیح ہونے کی شرائط میں شامل نہیں، جو کہ خود حنفی علماء کے نزدیک واضح صحیح احادیث کے مقابلے میں ایک کمزور موقف ہے۔ فقہ حنفی میں مزید یہ شرط بھی عائد کی گئی ہے کہ اگر لڑکی نے اپنے "کفو" (ہم پلہ) سے نکاح نہ کیا ہو تو ولی نکاح کو فسخ (منسوخ/کالعدم) بھی کروا سکتا ہے۔

اب فیصلہ ہر اس شخص اور خصوصاً ہمارے نوجوان طبقہ نے کرنا ہے کہ وہ مسنون شرعی عقد نکاح پر اپنی ازدواجی زندگی کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں یا شرعی اور معاشرتی طور پر مکروہ سمجھے جانے والے معاہدے کورٹ میرج پر! اس فیصلے میں انھیں یہ ضرور یاد رکھنا ہے کہ ہر مسلمان اپنے ہر عمل کے لیے آخرت میں بھی جوابدہ ہے اور وہاں خصوصاً انفرادی اختیاری اعمال میں ریاست کے قانونی جواز کو بطور حجت ہرگز تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

کورٹ میرج صرف شرعی اور معاشرتی طور پر ہی ناپسندیدہ عمل نہیں بلکہ یہ عمل بہت سے سماجی اور نفسیاتی اثرات بھی رکھتا ہے۔ مثلاً خاندانی تعلقات میں کشیدگی، والدین کی ناراضگی، رشتہ داروں سے دوری، معاشرتی بائیکاٹ کا خطرہ، جذباتی عدم استحکام، گھر والوں کی حمایت کے بغیر شادی شدہ زندگی کے چیلنجز، معاشرتی بدنامی وغیرہ جیسے اثرات کے علاؤہ خصوصاً لڑکیوں کے لیے یہ راستہ اکثر غیر محفوظ اور ندامت کا باعث بنتا ہے۔

اس معاملے میں نوجوانوں کے لیے رہنما اصول یہی ہیں کہ اگر وہ کسی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں تو پہلے گھر والوں کو اعتماد میں لیں اور والدین سے بات کریں۔ اگر والدین بلا وجہ رکاوٹ ہیں تو کسی معتبر عالم یا شرعی عدالت یا کسی معتبر عزیز کی مدد حاصل کریں، لیکن ہر صورت میں شرعی حل کو اپنائیں۔ نکاح کے عمل میں کفو (ہم پلہ) کا خیال ضرور رکھیں کیونکہ دین، اخلاق اور معاشرتی حیثیت میں موافقت نکاح میں کامیابی کی بنیاد ثابت ہوتے ہیں۔ اور آخری مگر اہم بات کہ جلدبازی سے پرہیز کریں۔اکثر اوقات جذبات کے تحت لیے گئے فیصلے ساری زندگی کے لیے پچھتاوا بن جاتے ہیں۔

اس سلسلے میں والدین کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد کی پسند کو اہمیت دیں۔ اسلام میں نکاح زبردستی کا نام نہیں بلکہ باہمی رضا کا عمل ہے۔ اگر والدین اپنی اولاد کو ایسے نکاح پر مجبور کرتے ہیں جس سے وہ راضی نہیں، تو یہ شریعت کی روح کے منافی ہے۔ زبردستی کے نکاح کو نبی کریم ﷺ نے کالعدم قرار دیا ہے۔ نکاح کے سلسلے میں اولاد خصوصاً لڑکی کی پسند کے متعلق نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ:
"بیوہ عورت کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے، اور کنواری کا نکاح بھی اس کی مرضی کے بغیر نہ کیا جائے۔" (صحیح البخاری: 5136)
اس ضمن میں والدین کے لیے آخری بات یہ ہے کہ وہ سماجی مرتبے، قوم یا ذات برادری کو دین پر ترجیح نہ دیں۔ اسلام میں نکاح کے لیے "دین داری" کو سب سے بڑا معیار قرار دیا گیا ہے۔ (واللّہ اعلم باالصواب)

وسیم اقبال
WISE by WASIM IQBAL

22/05/2025

وفاداری کا امتحان: دین یا دستور؟

"اگر ریاست کا قانون اللہ کے حکم سے ٹکرا جائے تو ایک مومن کیا کرے؟"

اس مضمون کی تحریر کا مقصد خصوصاً ہمارے نوجوان ذہنوں کو شریعت کی برتری، نیت کی اہمیت اور اخروی جواب دہی کا صحیح شعور دینا ہے۔

"ریاستی اور اسلامی قوانین میں فرق"

اسلامی قانون: اللّہ تعالیٰ کی ہدایت پر قرآن و سنت سے ماخوذ ہوتا ہے۔ اس کا مقصد صرف دنیاوی نظم و ضبط نہیں، بلکہ فرد اور معاشرے کی اخروی نجات بھی ہے۔
ریاستی قانون: انسانی عقل، مشاہدے اور تجربے پر مبنی ہوتا ہے، جو وقت، حالات، سیاست اور سماجی تقاضوں کے تحت بنایا جاتا ہے۔ اس کا ہدف عموماً نظم و نسق اور شہری حقوق کا تحفظ ہوتا ہے، مگر یہ لازم نہیں کہ وہ قانون دینی اصولوں سے ہم آہنگ ہو۔

"پاکستانی قانون میں تضاد کی چند مثالیں"

#- وراثت میں شرعی حصے کا نظر انداز ہونا:
اسلام میں بیٹے کو بیٹی سے دوگنا حصہ دیا جاتا ہے، لیکن عدالتیں کبھی کبھار برابر تقسیم یا محض وصیت کی بنیاد پر فیصلہ کر دیتی ہیں، جو شریعت کے خلاف ہے۔
#. سودی نظام:
قرآن میں سود کو اللہ اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے جنگ قرار دیا گیا ہے (البقرہ: 279)، مگر پاکستان کا مالیاتی نظام مکمل طور پر سود پر چل رہا ہے، جسے قانونی تحفظ حاصل ہے۔
#. زنا کی سزائیں:
شریعت میں زنا ثابت ہونے پر سنگساری یا کوڑے مارنے کی سزا ہے، لیکن پاکستان میں اکثر "ثبوت کی کمی" یا "ریپ اور زنا کو یکساں سمجھنے" کی بنیاد پر مجرم بچ نکلتا ہے یا ہلکی سزا دی جاتی ہے۔
#. خاندانی قوانین (نکاح، طلاق، خلع):
بعض اوقات عدالتیں عورت کو خلع بغیر شوہر کی رضامندی کے دے دیتی ہیں یا نکاح کی شرائط خصوصاً کورٹ میرج میں ولی کی شرط کو نظر انداز کرتی ہیں، حالانکہ شریعت میں واضح اصول موجود ہیں۔
#. تعزیرات اور حدود:
اسلامی حدود (چوری پر ہاتھ کاٹنا، جھوٹی گواہی یا الزام لگانے پر کوڑے) پر عمل نہیں کیا جاتا بلکہ ان کی جگہ قید یا جرمانے جیسے مغربی نظام پر مبنی سزائیں دی جاتی ہیں۔
ریاستی اور اسلامی قانون کے تضاد میں کچھ صورتوں میں شہری مجبور ہو سکتا ہے یعنی بچنے کی راہ ممکن نہ ہو جیسے سودی نظام وغیرہ، ایسی صورت میں شہری بری الزمہ ہو گا لیکن اپنے انفرادی معاملات میں قابل گرفت۔

"جائز شرعی اعمال پر ریاستی سزائیں"

اگر کوئی ریاست کسی شخص کو ایسے جرم کی سزا دیتی ہے جسے شریعت جرم نہیں مانتی: مثلاً
شہریوں کو مختلف غیر مسلم ممالک میں مختلف طرح کی سزاوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے: جیسا کہ پردہ کرنے پر پابندی، کرفیو یا پابندیوں کے تحت جمعہ یا نماز باجماعت ادا کرنے کی ممانعت، مرد و عورت کے شرعی نکاح کو غیرقانونی قرار دینا یا پھر بیوی یا بچوں کو دینی تعلیم دینے پر سزا دینا وغیرہ۔
ایسی صورت میں شریعت اس عمل کو نہ صرف ناجائز بلکہ ظلم قرار دیتی ہے اور اللّہ کے ہاں بروز قیامت اجر کی امید کی جا سکتی ہے۔

لیکن اگر کوئی مسلمان شہری اللہ کے حکم کو چھوڑ کر سزا سے بچنے کے لیے یا اپنے مفاد میں ریاستی قانون کی اطاعت کرے تو وہ گناہ کا مرتکب ہو گا، خصوصاً اگر جان بوجھ کر حق کی مخالفت کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ" (المائدہ: 50)
ترجمہ: کیا وہ لوگ جاہلیت کا فیصلہ تلاش کر رہے ہیں؟ اور جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے؟
لہٰذا کوئی مسلمان ریاستی نظام کا محض تابع ہو کر شریعت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔

"کیا غیر شرعی ریاستی سزا قیامت میں کفارہ بن سکتی ہے؟"

نہیں، غیر شرعی سزا آخرت میں کفارہ نہیں بن سکتی، اور کفارہ صرف وہی سزا بن سکتی ہے جو اللہ کے مقرر کردہ ضابطے کے مطابق ہو کیونکہ اللہ کے ہاں سزا اور جزا کا معیار شریعت ہے، ریاست نہیں۔
لہٰذا ایسی سزائیں عدالتی کارروائی تو ہو سکتی ہیں، مگر شرعی کفارہ نہیں۔

"توبہ کا عنصر"

مجرم اگر اخلاص کے ساتھ توبہ کر لیتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے کہ وہ آخرت میں اسے سزا کے بغیر ہی معاف کر دے لیکن توبہ سے دنیاوی سزا ساقط نہیں ہو گی۔ البتہ اگر دنیا میں مجرم شرعی سزا مل چکی ہو، تو وہ آخرت میں کفارہ کا درجہ حاصل کر سکتی ہے۔ فرمان نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہے:
"من أصاب من ذلك شيئاً فعوقب في الدنيا، فهو كفارة له"
ترجمہ: "جو شخص (شرعی) حد کا مستحق بنے اور دنیا میں اس پر عمل ہو جائے، تو وہ اس کے لیے کفارہ (معافی) بن جاتی ہے۔" (صحیح البخاری: 6784)

وسیم اقبال
WISE by WASIM IQBAL

18/05/2025

کیا خواتین کا معاش کے لیے کام کرنا سرمایہ دارانہ نظام کے گھٹن زدہ خیالات کی عکاسی کرتا ہے؟

"پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے عمل سے مثال"

*یہ سچ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں مالی تنگی کا شکار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور اکرم ﷺ سے رجوع کرتے تھے، اور آپ ﷺ انھیں صبر، دعا، قناعت، اور محنت کی ترغیب ہی دیتے تھے۔

* آپ ﷺ نے کبھی نہیں فرمایا کہ بیوی بھی کما کر لائے، یہ بات صد فیصد درست ہے، مگر اس بات کے "عدمِ ذکر" کو "عدمِ جواز" پر دلیل بنانا علمی لحاظ سے درست نہیں ہے۔

* نبی ﷺ کا ہر قول و فعل سیاق و سباق کے مطابق تھا۔ اُس زمانے کے معاشرتی حالات، معاشی ڈھانچہ، اور عورتوں کے کردار آج کے دور سے مختلف تھے۔

"اسلام میں عورت کا کام کرنا"

* اسلام عورت کو کام کرنے، کمانے، اور تجارت کرنے سے نہیں روکتا، بلکہ بعض صورتوں میں اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ بشرطیکہ:
# پردے، عفت، حیاء اور شرعی حدود کا لحاظ رکھا جائے۔
# شوہر کی اجازت اور گھر کے نظم میں خلل نہ ہو۔
# کام کا ماحول اسلامی اخلاقیات کے مطابق ہو۔

* حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا خود ایک بڑی تاجِرہ تھیں۔
* صحابیاتؓ غزوات میں طبابت، پانی پلانا، زخمیوں کی مدد وغیرہ کیا کرتی تھیں۔

"زمانے کی ضروریات اور اسلامی رہنمائی"

* موجودہ حالات کے تناظر میں خواتین کی معاشی خود انحصاری کے خیال کو سرمایہ دارانہ نظام کی گھٹن زدہ سوچ کی عکاسی کہنا اسلامی نقطہء نظر سے مناسب عمل نہیں۔

* جہاں یہ خیال حالات کے تناظر میں انتہائی سادگی پر مبنی ہے وہیں اسلام کے زمان و مکان کے تغیر کے فلسفے کو بھی نظرانداز کر رہا ہے۔

* اسلام اجتہاد کے ذریعے انسان کو عصری تقاضوں کے مطابق ہمیشہ اور ہر پہلو پر رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

* آج کر دور میں مہنگائی، تعلیمی اخراجات، علاج معالجہ وغیرہ ایسے مسائل ہیں جن کی موجودگی میں بعض اوقات شوہر کی کمائی ناکافی ہو جاتی ہے۔

* اگر بیوی شرعی حدود میں رہ کر نوکری کرے، تو یہ ناجائز یا گھٹن زدہ نہیں بلکہ اچھی نیت کی بنیاد پر باعثِ اجر بھی ہو سکتا ہے۔

مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عورت کی اصل ذمہ داری گھر، تربیتِ اولاد، اور شوہر کی اطاعت ہے۔ نوکری یا کاروبار کرنا شرعی اصولوں کی پاسداری میں جائز ضرور ہے پر لازم نہیں۔ محض جذباتی جملوں سے عصری مسائل کا حل نہیں نکلتا۔ مسلمانوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آپﷺ کا فرمان ہے کہ:
"إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ، وَلنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا."
"بے شک دین آسان ہے، اور جو اس میں سختی کرے گا، وہ مغلوب ہو جائے گا، لہٰذا تم سیدھا راستہ اختیار کرو اور میانہ روی سے کام لو."(صحیح البخاری)۔

وسیم اقبال
WISE by Wasim Iqbal

15/10/2024

سوشل میڈیا ایک نعمت یا عفریت؟
ہمدرد سب ہیں، کوئی بھی شخص کسی فرد، ادارے حتیٰ کہ والد کی وضاحت پر یقین کرنے کو تیار نہیں اور دوسری طرف بار ثبوت بھی کوئی اٹھانے کو تیار نہیں۔ سچ ان کے مطابق وہی ہے جو سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے۔ ہر ایک کے پاس صرف سوال ہیں اور جواب صرف من پسند قابل قبول ہے۔ عزت کی حفاظت کے نام پر اسی عزت کو تار تار کرنے پر معاشرہ بضد نظر آ رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے عفریت کے سامنے لاکھوں طلباء کی درسگاہ، ان کے اساتذہ، پولیس یہاں تک کہ شامل تفتیش بچی کے والد کی رائے بھی بے توقیر ہے۔ بات شاید تب ہی سمجھ آتی ہے جب وہ آزمائش اپنے گریبان تک پہنچتی ہے جس کی تازہ مثال مفتی طارق مسعود صاحب ہیں۔
اپنے اساتذہ پر عدم اعتماد تب کریں جب آپ کسی بات کو ثابت کرنے پر قدرت رکھتے ہوں۔ اس احترام کے تعلق کو ایک غلط خبر کی نظر مت ہونے دیں۔ اللّہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق سچ کے سامنے آنے کا انتظار کریں یا اسے سامنے لانے کے لیے ثبوت کے ساتھ مددگار بنیں۔ سب اس بات پر متفق ہیں کہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی اکثریتی خبریں بے بنیاد اور من گھڑت ہوتی ہیں تو پھر اس معاملے میں سوشل میڈیا اس قدر قابل اعتبار کیونکر ہے؟
آج سائنس کا دور ہے تو اس سے فائدہ اٹھائیں اور ذمہ اداروں کو مجبور کریں کہ وہ سی سی ٹی وی کی فرانزک کروائیں اور سچ کو سب کے سامنے لے آئیں۔ آج کے دن میں یہ ناممکن نہیں کہ ڈیلیٹ کی ہوئی چیز ریکور نہ ہو سکے۔
ادارے نے سب کچھ پولیس کے سپرد کر دیا ہے۔
اب یا تو اعتماد کے ساتھ انتظار کریں یا ثبوت پیش کر کے اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔ خواہ مخواہ کی بحث، بد گُمانی اور بد زبانی سے خود کو محفوظ رکھیں کہیں ایسا نہ ہو کہ سچ سامنے آنے پر دنیا و آخرت میں شرمندگی اٹھانی پڑے۔ اور یقین رکھیں اپنے سب اساتذہ پر وہ آپ کو کبھی نا امید نہیں کریں گے اور سچ کی صفوں میں ہراول دستہ ہونگے۔ میری خلوص دل سے دعا ہے کہ اللّہ تعالیٰ ہر ادارے اور ہر انسان کو ہر قسم کی آزمائش بالخصوص سوشل میڈیا کی شیطانیت سے محفوظ رکھے۔ آمین

04/07/2023

ARWASIM OFFICIAL (YouTube)

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when WasimIqbal posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to WasimIqbal:

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share