04/07/2025
واقعہ کربلا: ایک غیر جانبدار تجزیہ
واقعہ کربلا اسلامی تاریخ کا ایک ایسا المناک سانحہ ہے جو نہ صرف امت مسلمہ کے لیے درد اور غم کی علامت ہے بلکہ اس میں غور کرنے سے ہمیں بہت سے سیاسی، اخلاقی اور اجتماعی سبق بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس واقعہ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پس منظر، کرداروں اور واقعات کو مکمل غیر جانبداری کے ساتھ، مستند تاریخی حوالہ جات کی روشنی میں دیکھا جائے۔
حضرت معاویہؓ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے یزید نے خلافت سنبھالی۔ خلافت کا یہ انتقال موروثی تھا، اور خلفائے راشدین کے طرز عمل کے خلاف تھا۔ حضرت حسین بن علیؓ نے بیعت کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ اسے شرعی خلافت کے معیار پر پورا نہیں سمجھتے تھے۔ کوفہ کے لوگوں کی اکثریت حضرت حسین بن علی رضی اللّہ عنہ کی خلافت کی طرف دار تھی، انہوں نے حضرت حسینؓ کو خطوط لکھ کر بلایا کہ آپ آئیں اور ان سے بیعت لیں اور یزید کے خلاف قیادت سنبھالیں۔ حضرت حسینؓ نے کوفہ کے حالات جانچنے کے لیے اپنے چچا زاد حضرت مسلم بن عقیلؓ کو بھیجا، جنہوں نے بیعت لی اور کامیابی کی خبر دی۔
اس وقت کوفہ کے گورنر نعمان بن بشیر انصاری رضی اللّہ عنہ تھے، جو ایک نرم مزاج اور سختی سے گریز کرنے والے صحابی تھے۔ یزید کو جب کوفہ کی صورت حال کا علم ہوا تو اس نے نعمان بن بشیر رضی اللّہ عنہ کو معزول کر کے عبیداللہ بن زیاد کو بصرہ کے ساتھ کوفہ کا بھی گورنر بنا دیا۔ عبیداللہ سخت گیر، چالاک اور ظالم منتظم تھا۔ اس نے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللّہ عنہ کو گرفتار کر کے شہید کر دیا اور کوفہ میں سختی کے ذریعے لوگوں کو ڈرا کر بیعت یزید پر مجبور کیا۔ حضرت حسینؓ جب مکہ سے روانہ ہوئے تو وہ کوفہ کے بدلتے حالات سے بے خبر تھے۔
جب حضرت حسینؓ کربلا پہنچے تو عبیداللہ بن زیاد نے ان کے خلاف ایک لشکر روانہ کیا جس کی قیادت عمر بن سعد کے سپرد کی۔ کوفہ کے لشکر میں وہی لوگ شامل تھے جنہوں نے حضرت حسینؓ کو بلایا تھا، اور اب انہی کے خلاف صف آراء تھے۔ ان کے ساتھ شمر بن ذی الجوشن جیسا سفاک شخص بھی تھا، جو بعد میں براہ راست قتل میں شریک ہوا۔ دس محرم الحرام کو حضرت حسینؓ اور ان کے اہل بیت کے بہتر(72) افراد کو شہید کر دیا گیا۔
حضرت حسینؓ کے قاتل براہ راست کوفہ کے لوگ اور عبیداللہ بن زیاد تھا۔ لیکن یہ سب کچھ یزید کے مقرر کردہ گورنر کی سرکردگی میں ہوا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ: کیا یزید نے اس قتل کا حکم دیا تھا؟ امام ابن تیمیہ رحمہ اللّہ، امام ابن کثیر رحمہ اللّہ اور دیگر اہل سنت علماء کے مطابق یزید نے براہ راست قتل کا حکم نہیں دیا۔ لیکن بطور خلیفہ اس کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ ظلم کرنے والے گورنر اور افسران کو سزا دیتا۔ یزید نے نہ عبیداللہ بن زیاد کو سزا دی، نہ عمر بن سعد کو اور نہ شمر بن ذی الجوشن کو۔ ان میں سے کسی کے خلاف کوئی عدالتی یا اخلاقی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ بعض کو مزید انعام و اکرام ملے۔
یزید نے اگرچہ بعض روایات کے مطابق اہل بیت کے ساتھ نرم سلوک کیا، اور واقعے پر افسوس کا اظہار بھی کیا، لیکن عملی طور پر اس کا رویہ غیر واضح رہا۔ اس نے قاتلوں کو سزا نہ دے کر اپنی سیاسی اور حکومتی ذمہ داری سے پہلو تہی کی۔ اسی وجہ سے امت میں اس کی شخصیت ہمیشہ متنازع رہی۔
یزید کے متعلق اکثر ایک اور سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا وہ اس بشارت میں شامل ہے جو نبی کریم ﷺ نے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے پہلے لشکر کے لیے دی تھی؟ حدیث میں ہے کہ میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر حملہ کرے گا، وہ سب مغفور ہوں گے۔ بہت سے مؤرخین کے مطابق یزید اس لشکر میں شامل تھا اور شاید اس کا امیر بھی تھا۔ اس امر کے باوجود بھی یہ بات ہرگز قطعی نہیں کہ اس بشارت کا انفرادی اطلاق یزید پر ہو۔ حدیث میں کسی شخص کا نام نہیں لیا گیا بلکہ مجموعی طور پر لشکر کی تعریف کی گئی۔ اہل علم نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ مغفرت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اخلاص اور نیت صالحہ کے ساتھ جہاد کریں۔ اگر بعد میں ان کا کردار متنازع ہو یا انہوں نے ظلم کا ساتھ دیا ہو تو مغفرت کا وعدہ مشروط ہو جاتا ہے۔ اس لیے بہتر اور منصفانہ موقف یہی ہے کہ اس حدیث کو اپنی جگہ پر مانا جائے، لیکن یزید کے معاملے کو مکمل اللہ کے سپرد کر دیا جائے۔
امت کا محتاط اور دیانت دار رویہ یہی ہونا چاہیے کہ نہ اسے ولی اللہ اور نیک سمجھا جائے اور نہ ہی اس پر لعنت اور تکفیر کی جائے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللّہ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللّہ، امام ابن کثیر رحمہ اللّہ جیسے بڑے اہل سنت علماء نے بھی یہی مؤقف اختیار کیا کہ یزید سے متعلق ہمیں خاموشی اختیار کرنی چاہیے اور معاملہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ یہی راستہ امت کے اتحاد، اصلاح اور فہم دین کا بہترین راستہ ہے۔
واقعہ کربلا میں بہت بڑے مجرم کوفہ کے لوگ بھی ہیں جو خود کو اہل بیت کا محب کہتے تھے، انہی کی غداری، کمزوری اور دوغلے پن کی وجہ سے حضرت حسینؓ اور ان کا خاندان کے لوگ شہید ہوئے۔ اہل تشیع کی کتب بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہیں کہ کوفہ کے لوگ پہلے بلانے والے تھے اور بعد میں حضرت حسینؓ کو تنہا چھوڑ گئے۔
اس واقعے میں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ قیادت، خلافت اور امت کی اصلاح صرف نعروں سے نہیں بلکہ سچے کردار اور قربانی سے ممکن ہوتی ہے۔ حضرت حسینؓ کا موقف حق پر مبنی تھا اور ان کا قیام صرف ذاتی یا سیاسی مفاد کے لیے نہیں تھا بلکہ امت کو بیدار کرنے، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے اور دین کی اصل روح کو زندہ رکھنے کے لیے تھا۔ امت مسلمہ کو آج بھی واقعہ کربلا سے یہی سبق لینا چاہیے کہ ظلم اور باطل کے خلاف کھڑا ہونا دین کا تقاضا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انصاف، علم اور غیر جانبداری بھی اتنی ہی ضروری ہے تاکہ امت کو تقسیم ہونے سے بچایا جا سکے۔
(ھذا ما عندی واللّٰہ اعلم باالصواب)
وسیم اقبال
WISE by WASIM IQBAL