Pak Media صحافت

Pak Media صحافت Pakistan Media and Info

ریاست بمقابلہ لینڈ مافیا ڈان
09/07/2025

ریاست بمقابلہ لینڈ مافیا ڈان

پیدا کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں۔ اظہر سید صرف بلاسفیمی بزنس گروپ کے گھناؤنے سیاہ چہرے بے نقاب نہیں ہو رہے اور بھی بہ...
04/07/2025

پیدا کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں۔ اظہر سید
صرف بلاسفیمی بزنس گروپ کے گھناؤنے سیاہ چہرے بے نقاب نہیں ہو رہے اور بھی بہت کچھ ہو رہا ہے ۔وسوسے صرف یہی ہیں کوئی حادثہ نہ ہو جائے ۔جو کچھ چل رہا ہے ہمیں یقین ہے مختصر عرصہ میں بہار اجائے گی ۔
سی سی ڈی پنجاب میں ہر روز معاشرے کے ناسور ختم کر رہی ہے ۔ہر روز اجرتی قاتل،ڈکیٹ اور جرائم پیشہ مارے جا رہے ہیں دوسری طرف ریاست کو درپیش چیلنجز بھی ختم ہو رہے ہیں ۔ملکی سلامتی کیلئے مشرقی اور مغربی سرحدوں پر خطرات بتدریج ختم ہوتے جا رہے ہیں ۔
میر حیر بیار مری کا آج بی بی سی پر انٹرویو سنا مزا آ گیا ۔بلوچ عسکریت پسندی کے مرکزی کردار کا کہنا تھا بھارت نے انہیں تنہا چھوڑ دیا ہے ۔پہلے اربوں روپیہ کی امداد ،اسلحہ اور تمام درکار سہولتیں دیتے تھے ۔پاک بھارت مئی میں ہونے والی جنگ کے بعد بھارتی پیچھے ہٹ گئے ہیں اور پاکستانی فوج انہیں تیزی کے ساتھ ختم کر رہی ہے ۔انہوں نے کہا بھارت نے انہیں اپنے مقاصد کیلئے استمال کیا اور جب پاکستان نے آسام اور دوسری بھارتی ریاستوں میں آزادی کی تحریکوں کی معاونت شروع کی بھارتی پیچھے ہٹ گئے ،شائد دونوں ملکوں میں کوئی انڈرسٹینڈنگ ہو گئی ہے ،لیکن نقصان بلوچ تحریک کو ہوا ہے۔
میر حیر بیار مری کا یہ انٹرویو اس بات کی خوشخبری ہے بلوچ عسکریت پسندی سے جلد نجات مل جائے گی ۔یہ انٹرویو اس بات کی بھی دلیل ہے بھارتی پاکستان میں انتشار پیدا کریں گے بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کر کے قومی دھارے سے کاٹیں گے تو بھارتیوں کو اپنے ملک میں بھی یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑے گا ،سچ یہ ہے پاکستان کی نسبت بھارتیوں کا پیٹ زیادہ نرم ہے ایک دو حملوں سے ہی پھٹ جائے گا ۔
دوسری خوشخبری بھارتی فوج کے ڈپٹی آرمی چیف کا انٹرویو ہے ۔بھارتی جنرل نے اعتراف کیا ہے جنگ کے دوران پاکستان کو تمام بھارتی اہداف کی مکمل معلومات تھیں ۔چین اور ترکی پاکستان کی مدد کر رہے تھے ۔ہاتھ پاکستان کا تھا لیکن اس ہاتھ میں تلوار چینیوں کی تھی ۔بھارتی جنرل جو بھی کہے سچ تو یہ ہے پاکستان کو اگر چین کی مدد حاصل تھی تو بھارتیوں کو امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ یورپین یونین کے جدید ترین ہتھیاروں کی معاونت ملی ہوئی تھی ،لیکن پاکستانیوں نے دل کھول کر پٹائی کی ۔یہ انٹرویو اس بات کی بھی دلیل ہے بھارتی اب ایڈونچر کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے ۔
بھارتی اگر بلوچ عسکریت پسندوں کی مدد سے پیچھے ہٹ گئے ہیں تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہے طالبعلموں کا صفایا بھی چند ماہ میں ہو جائے گا ۔اگر دونوں ملکوں کے درمیان ایک دوسرے کی آزادی کی تحریکیں کی مدد نہ کرنے پر کوئی انڈرسٹینڈنگ ہوئی ہے تو پھر بلوچ عسکریت پسندوں کی طرح طالبعلم بھی سمجھو یتیم ہو گئے ہیں ۔
چین اور روس افغان حکومت کو پہلے ہی قابو کر چکے ہیں ۔امیر ہیبت اللہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے طالبعلموں سے باقاعدہ اعلان کر کے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں ۔طالبعلموں کی طرف سے خودکش حملہ سے جس نئے سلسلہ کا آغاز ہوا ہے ہم سمجھتے ہیں طالبعلموں کی یہ اپنی حکمت عملی ہے جس کے پیچھے افغان یا بھارتی نہیں ہیں ۔
سات مئی کو پاکستان پر حملہ سے پہلے بھارتی ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے ۔دس مئی کو پاکستان کی جوابی کارروائی کے بعد بھارتی زمین پر ان گرے ہیں۔ پاکستان کی عالمی سطح پر پزیرائی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔
مالکوں نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر جو ہائی برڈ نظام کا تجربہ کیا ہے اس کے پیچھے نیک نیتی اور ملک کو دوبارہ پٹری پر لانے کی مخلص کوشش ہے ۔
پنجاب میں جرائم پیشہ افراد سے نجات کے بعد سندھ میں یہ کام شروع ہو گا ۔بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں مالکان براہ راست پہلے ہی اس نیک کام میں مصروف ہیں ۔
بلاسفیمی گینگ کو جس طرح عوام کے سامنے ننگا کیا جا رہا ہے ہم سمجھتے ہیں شائد مذہبی انتہا پسندوں کو بھی لگام ڈالنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ۔
اسرائیل کے ساتھ جنگ میں ایرانیوں کو جس طرح پاکستانیوں نے سہارا دیا ہم سمجھتے ہیں پاک ایران سرحدوں پر بھی چیلنجز ختم ہو جائیں گے ۔چند ماہ کی اطمینان اور سکون سے کئی گئی کاروائیوں میں بلوچ عسکریت پسندوں کا مکو ٹھپ دیا جائے گا ۔
معاشی محاذ پر چیلنجز بہت شدید ہیں ۔بیرونی محاذوں پر بھلے کامیابیاں ہوں جب تک عوام کی مشکلات کا ازالہ نہیں ہوتا کامیابیوں کا فائدہ نہیں ہو گا ۔
مل بیٹھ کر جس طرح دوسرے فیصلے کئے جا رہے ہیں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی منصوبہ بندی بھی کی جائے ۔

کیا امریکہ جنگ میں کودے گا؟  راجہ مبین اللہ خان مغربی سامراج کی ایران کے خلاف جنگی تیاریاں مکمل اور سوچے سمجھے منصوبے کے...
21/06/2025

کیا امریکہ جنگ میں کودے گا؟ راجہ مبین اللہ خان

مغربی سامراج کی ایران کے خلاف جنگی تیاریاں مکمل اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی گئی ہیں۔ یہ کوئی فوری یا جذباتی ردعمل نہیں بلکہ طویل المیعاد حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اب جب جنگ کا آغاز ہو چکا ہے تو یہ ایک منطقی عمل بن چکا ہے جو حالات کے بہاؤ کے ساتھ آگے بڑھے گا۔ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی ایران کے سامنے شکست برداشت نہیں کر سکتے، کیونکہ اگر وہ ایران سے ہار گئے تو چین جیسے بڑے حریف سے کیسے نمٹیں گے۔ اس لیے ان کے لیے یہ جنگ ہر حال میں جیتنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

اسرائیل اور بھارت مغربی بلاک کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ بھارت تو اس معاملے میں یورپ سے زیادہ اسرائیل کے نظریات کے قریب ہے، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف دہشتگردی کے نام پر شروع کی گئی جنگوں کے حوالے سے۔ بھارت کو دہشتگردی کے الزام نے بہت فایدہ دیا ہے۔ بھارت کی خواہش ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری بیانیہ کبھی ختم نہ ہو تاکہ اس کی مسلم مخالف پالیسیوں کو عالمی سطح پر جائز قرار دیا جا سکے۔

اگر ایران کے خلاف یہ جنگ طویل ہو گئی تو یہ امریکہ کے لیے ایک بڑی مشکل بن جائے گی، کیونکہ وہ ایک لمبی جنگ میں پھنسنا نہیں چاہتا۔ اسی لیے یہ خدشہ موجود ہے کہ مغربی قوتیں بہت شدید نوعیت کا حملہ کر سکتی ہیں تاکہ ایران کو بہت جلد کمزور کر کے جنگ کو جلدی ختم کیا جا سکے۔ اس کا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ ایران کی میزائل ٹیکنالوجی، نیوکلیئر صلاحیت اور اسرائیل کو پہنچنے والا ہر ممکن خطرہ مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ ایران کو فوجی لحاظ سے مفلوج کر کے اصل ہدف کی طرف بڑھنا چاہیں گے۔

ممکنہ طور پر مغرب ایران کی قیادت کو نشانہ بنانے کی کوشش بھی کرے گا تاکہ قیادت کا نظام فوری طور پر مفلوج ہو جائے۔ یہ ان کی پرانی جنگی حکمت عملی ہے اور موجودہ حالات میں اس کا اطلاق ممکن ہے۔ ایسے میں کسی قسم کے مذاکرات یا سفارتی حل کی کوئی امید باقی نہیں رہتی۔ ان کا طرز عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خلوص نیت سے کسی بات چیت کے خواہاں نہیں بلکہ اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے پر بضد ہیں۔

ایران کو چاہیے کہ وہ بدترین حالات کے لیے ابھی سے تیاری کرے۔ قیادت کو محفوظ مقام پر منتقل کرنا، اہم دفاعی تنصیبات کو منتشر اور محفوظ بنانا، اور جو بھی جوابی کارروائی ممکن ہو وہ فوراً کی جائے۔ اگر ایران نے اپنے دفاعی وسائل کا بروقت استعمال نہ کیا تو بعد میں وہ ویسے بھی ضائع ہو جائیں گے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ایران اپنی تمام تر توانائی کے ساتھ مؤثر ردعمل دے تاکہ کم از کم اسرائیل کی invincibility کا تاثر ختم کر سکے۔

یہ صورت حال درحقیقت ایک ایسے chain reaction کی ابتدا ہے جس میں اگر ایران گرتا ہے تو مزاحمتی بلاک کے دیگر ممالک بھی یکے بعد دیگرے نشانہ بنیں گے۔ یہی وقت ہے کہ ایران اپنی قیادت، وسائل اور دفاعی طاقت کو یکجا کر کے فیصلہ کن اقدامات کرے۔ یہ جنگ ایران کی شکست پر ختم نہیں ہو گی بلکہ بہت تیزی سے آگے بڑھے گی۔ تمام مزاحمتی قوتیں ایران کے ساتھ گر جائیں گئی۔

میرے خیال میں امریکہ جنگ میں کودے گا۔ آپ کیا کہتے ہیں؟

مہدی علی بخاری: عراق سے آیت اللہ علی سیستانی صاحب نے بیان دیا ہے کہ اگر ایران کی سپریم قیادت (خامنہ ای صاحب) کو نشانہ بن...
19/06/2025

مہدی علی بخاری:

عراق سے آیت اللہ علی سیستانی صاحب نے بیان دیا ہے کہ اگر ایران کی سپریم قیادت (خامنہ ای صاحب) کو نشانہ بنایا گیا تو اس کے بھیانک نتائج ہوں گے ۔ آیت اللہ سیستانی نے کہا ہے کہ ایسا عمل وسیع پیمانے پر افراتفری کو جنم دے سکتا ہے جو اس خطے کے لوگوں کے مصائب کو بڑھا دے گا اور سب کے مفادات کو شدید نقصان پہنچائے گا۔

دوسرے لفظوں میں وہی بات ہے جو میں کہہ چکا کہ دنیا بھر میں شیعہ مسلمانوں میں اشتعال اُبھرے گا اور امریکی اسرائیلی ایسٹس یا شہری نشانہ بن سکتے ہیں۔ نئی جہادی تحریکیں وجود میں آ سکتی ہیں۔

سنی مسلمز کو اس بات کا اندازہ نہیں ہو گا آیت اللہ علی سیستانی کون ہیں۔ عرب و عجم میں شعیہ ان کے مقلد ہیں اور شاید شیعہ مسلمز میں علی سیستانی سب سے زیادہ فالو کیے جانے والی شخصیت ہیں۔ دنیا بھر کے شیعہ مسلمانوں کے لیے اعلیٰ ترین مذہبی عظیم مرجع (اتھارٹی) ہیں۔ سیستانی صاحب کو شیعہ مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی رہنما کے طور پر مانا جاتا ہے۔2004 میں عراق وار کے دوران ٹائم میگزین نے انہیں دنیا کے 100 بااثر ترین افراد میں شامل کیا۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ علی سیستانی صاحب ایرانی ولایت فقیہ نظرئیے کے قائل نہیں ہیں۔

عراق وار کے دوران ان کے ایک فتوے کے بعد شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر نے اپنی قیادت میں جنگجوؤں پر مشتمل “لشکر مہدی” بنایا تھا جس نے امریکا اور اتحادیوں کو دھول چٹا دی تھی۔ نتیجتہً امریکا کو ان سے مذاکرات کرنا پڑے تھے اور پرامن حل کی جانب آنا پڑا تھا۔ عراق میں جو حکومت بنی وہ ان کے مشورے سے بنی تھی۔

اطلاعات تو یہی ہیں کہ فیلڈ مارشل صاحب نے بھی ٹرمپ کو تفصیلاً آگاہ کر دیا تھا کہ ایران میں ریجیم چینج کا کوئی بھی منصوبہ دیرپا حل نہیں ہو گا۔ایرانی عوام قبول نہیں کریں گے۔ یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ افغانستان کی مانند ٹروپس کو ایران میں اُتارنا امریکا کے لیے نیا قبرستان ہو گا۔ یہ پیغام بھی دیا ہے کہ اس جنگ میں اُترنے سے نا صرف گریز کرنا چاہئیے بلکہ اسرائیل کو فوراً روکنا ہی دانشمندی ہے۔ایران کی بابت ٹرمپ نے فیلڈ مارشل صاحب سے رائے مانگی تھی کیونکہ پاکستان ایران کو سی آئی اے سے بہتر جانتا ہے اور ٹرمپ کا سیاسی بیانئیہ بھی یہی رہا کہ میں جنگوں کا مخالف ہوں اور تجارت کا حامی ہوں۔مگر اس پر زیونسٹس کا دباؤ بھی ہے اور نیتن یاہو اوپر سے امریکا کو جنگ میں شامل ہونے کی منت کر رہا ہے یا اس کا مطالبہ ہے کہ اگر امریکا خود نہیں آتا تو ہمیں بنکر بسٹر بموں کے ساتھ بی 2 بمبار طیارے دے جو امریکا کے پاس ہیں تاکہ وہ خود نطنز اور فردو کی زیر زمین جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا کر یہ قصہ خلاص کرے۔

ملاقات کے بعد آج پاکستان کی وزارت خارجہ نے بیان جاری کیا ہے کہ ہم اسرائیل کے پاگل پن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہے۔ عالمی برادری کو جارح کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔ ہمارے لیے برادر اسلامی ملک ایران میں جو ہو رہا ہے وہ سنجیدہ اور شدید تحفظات کا باعث ہے۔

علی سیستانی صاحب کے بیان اور پاکستان کے مشورے کے بعد صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ممکن ہے ٹرمپ اسرائیل کا ریجیم چینج مطالبہ مسترد کر دے۔ اس کام کے لیے علی خامنہ ای صاحب کو ہٹ کر کے راہ سے ہٹانا کافی نہیں ہو گا کیونکہ ان کی جگہ دوسرا مجتہد بطور سپریم لیڈر آ جائے گا۔ اس مقصد کے لیے ٹروپس کو اُتارنا ہو گا جو تہران پر قابض ہو سکیں اور پھر اپنی مرضی کی حکومت نافذ کرنے کے قابل ہوں۔

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ٹرمپ کے بارے کچھ بھی وثوق سے کہنا ممکن نہیں ہے۔ یہ انسانی جسم میں چلتا پھرتا کارٹون ہے۔ کبھی بھی اپنی ہی کسی بات سے یوٹرن لے سکتا ہے اور کہیں بھی خوامخواہ اڑ سکتا ہے۔

یہ منظر غزہ نہیں، آج صبح تیل ابیب کا ہے۔ کل رات ایران نے صہونی ریاست پر درجنوں میزائیل کا کامیاب حملہ کیا جس کی ویڈیو او...
19/06/2025

یہ منظر غزہ نہیں، آج صبح تیل ابیب کا ہے۔ کل رات ایران نے صہونی ریاست پر درجنوں میزائیل کا کامیاب حملہ کیا جس کی ویڈیو اور تصاویریں اس وقت ٹویٹر پر گردش کررہی ہیں۔ کل غزہ میں اسرائیل نے امدادی کیمپ پر بھوک سے نڈھال فلسطینیوں پر فائرنگ کرکے 70 سے زائد شہوریوں کو شہید کردیا تھا۔ آج غزہ سے لے کر لبنان میں کل رات ایران کے اسرائیل کے حملوں کے بعد جشن کا سماں ہے۔ خوفناک نسل کشی کے باوجود لوگوں کو اندر صہونی ریاست سے مزاحمت کرنے کے جذبات مٹ نہیں رہے۔

ایران یہ مقابلہ 40 سال کی بدترین اقتصادی اور عسکری پابندیوں کے باوجود کررہا یے۔ ہم اپنی نکھوں کے سامنے تاریخ رقم ہوتے دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ایک ملک تنہا امریکی سامراج اور اس کے پالتو کے آگے ڈٹ گیا یے۔ ایک زمانے میں شام لیبیا، عراق، مصر، یمن اور دیگر کئی ممالک میں سامراج مخالف حکومتیں قائم تھیں جو صہونی قوت سے لڑنے کے لئے تیار تھیں۔ ایک ایک کرکے اسرائیلی-امریکی-خلیجی گٹھ جوڑ نے ان ریاستوں کو تباہ کیا اور خطہ کے اندر آزادی اور سالمیت کے خواب کمزور کردیئے۔ ریاستیں تباہ کردی گئیں۔ اقتدار کٹھ پتلی "لیڈران" کے حوالے کردیا گیا جبکہ تیل اور دیگر قیمتی معدنیات پر امریکی اور اسرائیلی اجارہ داری قائم کرلی گئی۔ اس سب منصوبہ بندی کا مقصد کسی بھی متبادل قوت کو تباہ کرنا ہے جو استعماری حکمت عملی سے ہٹ کر فیصلہ کرسکے۔

ایران خطے میں اس سو سالہ منصوبندی کے سامنے آخری چٹان یے۔ اگر ایران کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کرکے، اس کی ٹیکنالوجی کو تباہ کرکے، اور اس کے تیل پر قبضہ کرکے وہاں پر رضا پہلوی جیسے وطن فروشوں کو بیٹھا دیا گیا تو دنیا میں کسی بھی قسم کے سامراج مخالف متبادل کا بننا مشکل ہوجائے گا۔ نسل کش ریاست ایران میں جمہوریت نہیں، غلامی مسلط کرنا چاہتی یے۔ ایران کے غیور عوام، جن کی تہذیب امریکہ اور اسرائیلی مصنوعی تہذیب سے کئی زیادہ قدیم اور پروقار ہے، کسی صورت بھی ہتھیار ڈالنے کے موڈ میں نہیں۔ اگر عارضی طور پر عسکری شکست ہو بھی گئی تب بھی عوام عراق، اور ویتنام سے زیادہ شدید مزاحمت کرے گی۔ اسی لئے امریکی اسٹیبلشمنٹ امریکی فوجوں کو ایران داخل کرنے سے گھبرا رہے ہیں کیونکہ وہ ایرانی مزاج کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔

غزہ کے باشندوں کو استعماری قوتیں انسان بھی نہیں سمجھتے۔ غزہ ایک ایسے مستقبل کی علامت ہے جو اسرائیل اور امریکہ ہم سب پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ ایران ان قوتوں سے لڑ کر اس وقت صرف اپنا دفاع نہیں کرہا یے بلکہ بڑھتے ہوئے سامراجی غلبے کے دوران انسانیت کے لئے گنجائش پیدا کررہا یے۔ ایران اور اسرائیل میں مماثلت تلاش کرنے والے بنیادی طور پر انسانیت کی تذلیل کررہے ہیں۔ باشعور لوگوں پر فرض ہے کہ اس وقت ایران کی حمایت کریں تاکہ صہونی ریاست کو خطے پر تسلط قائم کرنے سے روکا جاسکے۔ پاکستان کی سالمیت اور استحکام بھی ایران کے ساتھ جڑا ہے۔ فیلڈ مارشل صاحب کو بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ سالمیت اور استحکام سے زیادہ کوئی چیز ہمیں عزیز نہیں۔ ایک فون کال یا لنچ کی بنیاد پر خطے کی تقدیر کا فیصلہ پاکستانی عوام کبھی بھی نہیں ہونے دے گی۔

ایران کے مزاحمت کاروں پر لاکھوں سلام۔ وہ دنیا کے لئے مثال ہیں۔ امید ہے کہ اسرائیل پر مزید حملے ہوں گے۔ کیونکہ بچوں کی نسل کشی کرنے والی ریاست کے اوپر آسمان اس وقت ہی خوبصورت لگتا ہے جب وہاں پر مزاحمت کاروں کے مزائیل پرواز کررہے ہوں۔
عمار علی جان

مفت کا کھانا کوئی نہیں کھلاتا، عمار علی جانفیلڈ مارشل عاصم منیر کل ٹرمپ کے ساتھ وائٹ ہاوس میں لنچ کررہے ہیں۔ انگریزی کی ...
18/06/2025

مفت کا کھانا کوئی نہیں کھلاتا، عمار علی جان
فیلڈ مارشل عاصم منیر کل ٹرمپ کے ساتھ وائٹ ہاوس میں لنچ کررہے ہیں۔ انگریزی کی کہاوت ہے "There is no free lunch" یعنی اس طرح کی میٹنگز کی کوئی نہ کوئی قیمت ضرور ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس پر تجزیہ نگار کھل کر بات کرنے کو تیار نہیں ہیں حالانکہ بات سب کو معلوم ہے۔ امریکہ پاکستان سے براہ راست ایران میں رجیم چینج آپریشن کے حوالے سے تعاون مانگے گا۔ باقی تمام موضوعات غیر اہم ہیں۔ اسی ایک نقطے پر بحث ہوگی کہ کس حد تک پاکستان صہونی ریاست کی ایران پر دہشت گردی کی حمایت کرسکتا ہے۔

پاکستان اس کے بدلے امریکہ سے کیا مانگے گا؟ معدنیات کی ڈیل، معاشی امداد، اور فوجی امداد۔ اگر ایسا ہوگیا تو ان اس خطے میں، خصوصی طور پر پشتون بیلٹ میں مسلسل ڈالری جنگیں مزید تیز ہوں گی اور عوام تباہ حال ہوں گے جبکہ چند لوگوں کے حصے میں حسب معمول پاپا جونز آئیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم مستقل طور پر چین، جس کی مدد سے ہم بے بھارتی جارحیت کو شکست دی تھی، کو ناراض کردیں گے۔ کوئی ملک یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ جب ایک سامراجی ملک خطے پر حملہ آور ہو اور اس کے خلاف محاصرہ تیز کررہا ہو تو اس کا اپنا "اتحادی" اسی سامراجی ملک کے ساتھ ڈیل کرلے۔ یعنی ہم امریکی کیمپ میں جاکر اپنے خطے کے خلاف ایک بار پھر فرنٹ لائن سٹیٹ بن جائیں گے اور ہمارے حکمران صہونی اور سامراجی جارحیت سے بننے والے کھنڈرات پر حکمرانی کرنے کو اعزاز سمجھیں گے۔

ان حالات میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے کے اندر اس سوال پر ایک تقسیم موجود ہے۔ کل خواجہ آصف نے ٹوٹر پر رضا پہلوی کو جو گالیاں دیں (جن کا اردو میں ترجمہ بھی نہیں کیا جاسکتا) وہ صرف غصہ کا اظہار نہیں بلکہ ایک رجحان کی عکاسی کرتا ہے جو اس وقت امریکی کیمپ سے نکلنا چاہتا یے۔ یہ کوئی نظریاتی رجحان نہیں بلکہ ہر رجحان کی طرح اس کے اپنے مفادات ہیں جس میں خصوصی طور پر چین اور روس کے ساتھ بہتر تعلقات کی بنیاد پر وہ معاشی ترقی اور دفاعی قوت بڑھانا چاہتا ہے۔ یہ کشمکش آنے والے دنوں میں معاشرے کے ساتھ ساتھ ریاست کے اندر بھی شدید تضادات پیدا کرے گی کیونکہ اب بڑے فیصلے کی گھڑی آگئی یے۔

میری اپنے رائے اس پر واضح ہے۔ امریکہ اور چین میں سے ہمیں ہر حال میں چین کا انتخاب کرنا چاہئے۔ وہ لوگ جو "چینی سامراج" کے نعرے لگاتے تھے، انہیں ٹی وی لگاکر دیکھنا چاہئے کہ سامراج کیا ہوتا ہے۔ پورے ملکوں کو تباہ کرنا، نسل کشی کرنا، پابندیاں لگانا اور رجیم چینج آپریشن کرنا، یہ سامراج ہے۔ اور یہ امریکہ نے پہلی بار نہیں، سو سے زائد ممالک کے ساتھ ماضی میں کیا ہے۔ چین کے کردار پر بحث ہوسکتی ہے لیکن ان حالات میں امریکہ اور چین میں مماثلت تلاش کرنا کم عقلی اور بددیانتی کے سوا کچھ نہیں۔ آج امریکی کیمپ کا مطلب مسلسل جنگوں کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ امریکی ابھی رکے گا نہیں۔ ایران کی طرح وہ روس اور چین کی تباہی بھی چاہے گا۔ اور ایک دن باری پاکستان کی بھی آئے گی اور ہمیں بچانے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔

پاکستان میں اگر کوئی بہترین انقلابی حکومت بھی آجائے گے، تب بھی اسے انہیں معروضی حالات کا سامنا ہوگا۔ سامراجی حملے کے وقت اگر چین یا دیگر ممالک کا کیمپ موجود نہ ہو تو اسرائیلی اور امریکی ٹیکنالوجی کے آگے انقلابی حکومت کیا کرے گی؟ چین کے ساتھ کیمپ میں جانے سے بھی ہمارے مسائل حل نہیں گے۔ ہمیں چین کے ساتھ اقتصادی معادوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، طبقاتی بنیادوں پر وسائل کی تقسیم کی ضرورت ہے اور پسماندہ علاقوں کے لئے بہتر پیکج حاصل کرنے کی بھی ضرورت۔ یہ سب طبقاتی، جمہوری اور نظریاتی جدوھہد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ لیکن امریکی کیمپ میں ہم چلے گئے تو صرف اور صرف نا ختم ہونے والی جنگیں ہمارا مقدر بنیں گی جس میں پورا خطہ تباہ ہوجائے گا اور مار دھاڑ سے چند جرنیل پیسہ بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ پاکستان کی سالمیت اور ہمارے سیاسی اور تہذیبی وجود کا تقاضا ہے کہ ڈالری جنگوں کو رد کریں اور اپنے خطے کے ساتھ مخلص رہیں۔

پاکستان ایک تاریخی موڑ ہر ہے۔ ایران مین صہونی اور سامراجی بربریت یمیں بتا رہی ہے کہ ہمارے سماج کو تباہ کرنے اور اس پر رضا پہلوی جیسے وطن فروشوں کو مسلط کرنے کا منصوبہ تیار ہے۔ وہ قوتیں جو امن، ترقی اور مساوات دیکھنا چاہتی ہیں، ان پر فرض ہے کہ وہ وطن فروشوں کی چالوں سے آگاہ رہیں۔ ہمیں تیسری دنیا کے دیگر ممالک سے سیکھ کر ایک وسیع پیمانے پر سامراج مخالف تحریک بنانے کی ضرورت ہے جو ملک بھر سے نوجوانوں کو ذہنی طور پر بیرونی حملہ آوروں اور ان کے مقامی ایجنٹوں کے خلاف جدوجہد کے لئے تیار کرے۔

فیلڈ مارشل صاحب بھی جان لیں کے ان کے لنچ کی قیمت پاکستانی عوام اپنے خون سے ادا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ صہونیت کے آگے جھکنا ہمارے لئے ناممکن ہے۔ وطن یا کفن! اسی نعرے کے ساتھ اپنی زمین، تہذیب اور خطے کا دفاع ہم سب پر لازم ہے۔

امریکہ بہادر کی جنگ میں شمولیت ۔ اظہر سید امریکی صدر کی ایران کو غیر مشروط سرنڈر کی دھمکی اور آیت اللہ خمنائی کو ملفوف ا...
18/06/2025

امریکہ بہادر کی جنگ میں شمولیت ۔ اظہر سید
امریکی صدر کی ایران کو غیر مشروط سرنڈر کی دھمکی اور آیت اللہ خمنائی کو ملفوف الفاظ میں قتل کی دھمکی "ہمیں پتہ ہے وہ کہاں ہیں" اضطرابی کیفیت ہے ۔لے پالک اسرائیل کو اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ خوفناک میزائل حملوں کا سامنا ہے ۔چھ روز سے قیمتی خون والے اسرائیلی پناہ گاہوں میں چھپے بیٹھے ہیں۔ عمارتیں غزہ کی طرح تباہ ہو رہی ہیں ۔امریکی صدر نے دھمکی تو دے دی ہے لیکن اس پر عملدرآمد ایک بڑا فیصلہ ہے جسکی بہت بڑی قیمت ہے ۔
بنکر بسٹر بم عراق اور افغانستان میں گرائے جا چکے ہیں ۔تمام نیٹو ممالک کی مدد سے عراق اور افغانستان پر خوفناک بمباری بھی ہو چکی ہے ۔ایران پر اسی طرز کا حملہ اور بمباری ممکن تو ہے لیکن اس کی ایک قیمت ہے ۔یہ قیمت تیسری عالمی جنگ ہے ۔
پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ گیا ہے ۔وہ حالات موجود ہی نہیں جب پوری دنیا نے اقوام متحدہ میں امریکہ اور نیٹو ممالک کو عراق اور افغانستان پر حملہ کا مینڈیٹ دیا تھا ۔
ایک یا دو حملوں میں ایران کو شکست نہیں دی جا سکتی ۔عراق اور افغانستان پر قابو پاتے مہینے گزر گئے تھے یہ تو ایران ہے جیسے چین ،روس اور پاکستان کی مدد حاصل ہے ۔
پہلے اسرائیل کو میزائل حملوں کا سامنا نہیں تھا اب لے پالک کو ہر روز میزائلوں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ایران پر امریکی حملہ ایک دلدل ہے ۔یہ غلطی کر لی صاحب بہادر پھنس جائیں گے اور کسی کے پاس وہ رسی یا لاٹھی موجود نہیں جو دلدل سے نکال سکے ۔
ویت نام میں امریکیوں کو پتہ تھا روسی اور چینی ویتنامیوں کی مدد کر رہے ہیں ۔افغانستان میں امریکیوں کو پتہ تھا پاکستانی گڈ اور بیڈ طالبعلم کھیل کر انہیں دھوکہ دے رہے ہیں ۔ایران پر حملہ کیا تو چینی جو کریں گے اسکی ایک جھلک آج چینی صدر کے بیان سے نظر آگئی ہے ۔
ابھی تو دو دن ہوئے ہیں جب اسرائیلی دفاعی نظام کو دو دفعہ مفلوج کیا گیا ہے ۔ہائی ٹیک مصنوعی سیارے شائد چینیوں کے پاس زیادہ اچھے اور کوالٹی کے ہیں جو آئرن ڈوم کا راستہ بدل سکتے ہیں ۔اس وقت بھی اسرائیلی دارالحکومت پر میزائل برس رہے ہیں دفاعی نظام سائبر اٹیک کی زد میں ہے اور ایرانی میزائل ٹھاہ ٹھاہ کر کے گر رہے ہیں ۔
امریکی حملہ شروع ہوتے ہی ایرانی آبنائے ہرمز بند کر دیں گے صرف اسے کھولنے میں ہفتہ لگ جائے گا ۔اس ہفتے کے دوران کیا کچھ ہو گا کوئی نہیں جانتا ۔
ایک لمحہ کیلئے فرض کرتے ہیں ایران کے روحانی پیشوا کو مار دیا گیا ہے ۔سابق شاہ ایران کے بیٹے نے حکومت سنبھال لی ہے لیکن اسے حکومت کرنے کون دے گا ۔یہاں تک پہنچنے میں کتنے دن لگیں گے کسی کو نہیں پتہ ۔چین کبھی اجازت نہیں دے گا گوادر بندر گاہ کے قریب امریکی اپنی کسی کٹھ پتلی کے زریعے آکر بیٹھ جائیں ۔
پاکستان کبھی نہیں چاہے گا اس کے ایک طرف بھارت،ایک طرف امریکی کٹھ پتلی اور ایک طرف ناقابل اعتبار افغان گھیر لیں صرف سمندر کا راستہ بچے ۔
ایران ایک دلدل ہے ۔امریکی اس میں پھنس جائیں گے ۔امریکی معیشت پہلے ہی دیوالیہ ہے ۔ایران پر حملہ سپر پاور کی کہانی ختم ہونے کی رفتار تیز کر دے گا ۔
ہم سمجھتے ہیں ایران پر اسرائیلی حملہ امریکی کھیل ختم ہونے کا آغاز ہے ۔حملہ میں امریکی شامل ہوئے تو کھیل وقت سے پہلے ختم ہو جائے گا ۔

ایمپائر گر رہی ہے۔۔۔ راجہ مبین اللہ خان جب ہم چین اور امریکہ یا یورپ کا ٹیکنالوجی کے میدان میں موازنہ کرتے ہیں تو زیادہ ...
18/06/2025

ایمپائر گر رہی ہے۔۔۔ راجہ مبین اللہ خان

جب ہم چین اور امریکہ یا یورپ کا ٹیکنالوجی کے میدان میں موازنہ کرتے ہیں تو زیادہ تر لوگ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اس وقت کس کے پاس کون سی ٹیکنالوجی زیادہ ایڈوانس ہے، کون سا ملک فلاں شعبے میں آگے ہے اور کون سا پیچھے۔ لیکن اکثر دو اہم فیکٹرز کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

پہلا فیکٹر یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کو ٹیکنالوجی میں ترقی کرتے ہوئے دو سو سال ہو چکے ہیں۔ جبکہ چین نے یہی سفر صرف چالیس سال میں طے کیا ہے اور آج ان کے برابر آ کھڑا ہوا ہے۔ ذرا اس رفتار کا اندازہ لگائیں۔

آپ تصور کریں کہ ایک گاڑی سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پانچ گھنٹے سفر کر کے فنش لائن پر پہنچی ہے اور ایک دوسری گاڑی صرف ایک گھنٹے میں اسی فنش لائن پر پہنچ گئی۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ دوسری گاڑی کتنی تیز چل رہی ہوگی۔ پانچ سو کلومیٹر فی گھنٹہ۔

چین نے صرف چند دہائیوں میں وہ فاصلہ طے کر لیا ہے جو مغرب نے دو صدیوں میں کیا۔ تو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ چین کی ترقی کی رفتار کہیں زیادہ تیز ہے۔ اور اگر آج بھی کسی ٹیکنالوجی میں چین پیچھے ہے تو یہ صرف چند مہینوں کا فرق ہے سالوں کا نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ اتنا سادہ فارمولہ نہیں ہے مگر آپ اس مثال سے مستقبل کا اندازہ ضرور لگا سکتے ہیں۔

آنے والے پانچ سالوں کا اندازہ لگا لیجئے۔ چین شاید ہر اس شعبے میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ چکا ہوگا جسے آج ہم جدید ٹیکنالوجی کہتے ہیں۔

اب دوسرے فیکٹر پر بات کرتے ہیں جو اور بھی زیادہ اہم ہے۔

چین کے پاس دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹریل بیس ہے۔ امریکہ اور یورپ کے پاس اب وہ پیداواری صلاحیت ہی نہیں رہی۔ امریکہ کے شہر شیشے کے ٹاورز سے بھرے ہیں مگر وہاں چیزیں بنتی نہیں صرف بکتی ہیں۔ جبکہ چین کے پاس ہر قسم کی انڈسٹری ہے۔ خام مال سے لے کر آخری پراڈکٹ تک وہ سب کچھ خود بناتا ہے۔ چین میں ہر شعبے کی ٹیکنالوجی موجود ہے اور سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک سنرجی، ایک طاقتور انٹرکنیکٹڈ نظام موجود ہے۔
یہی وہ چیز ہے جو لوگ محسوس نہیں کرتے۔ اگر ایک ملک ہر چیز خود بناتا ہو تو اس کی ترقی صرف رفتار کی بات نہیں رہتی بلکہ وہ ایک خود مختار سائیکل میں داخل ہو چکا ہوتا ہے جو آسانی سے نہیں رکتا۔

یہ دونوں فیکٹرز اگر آپ ذہن میں رکھیں تو آپ آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دو ہزار تیس تک چین کے پاس ساتویں جنریشن کے فائٹر جیٹ ہوں گے اور امریکہ ان کے قریب بھی نہیں پہنچ پائے گا۔ چین فوجی ٹیکنالوجیز میں امریکہ سے کئی قدم آگے جا چکا ہوگا اور یہ امریکہ کے لیے ایک خوفناک خواب بن چکا ہے۔ اسی لیے امریکہ بوکھلایا ہوا ہے۔ کبھی ابراہیمی معاہدے کر رہا ہے۔ کبھی دہشت گردی کی نئی فرنچائز لانچ کر رہا ہے۔ کبھی انڈیا کو فرنٹ لائن سٹیٹ بناتا ہے اور پھر کسی اور طرف منہ موڑ لیتا ہے۔ کبھی اسرائیل کی جنگ چھیڑتا ہے۔ کبھی یوکرین میں آگ لگاتا ہے اور پھر خود ہی بجھانے کی اداکاری کرتا ہے۔

یہ سب حرکتیں، یہ جلد بازیاں، یہ حماقتیں، صرف اس لیے ہو رہی ہیں کہ امریکہ ہر صورت چین تک پہنچنا چاہتا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ وقت اس کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ پوتن نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ امریکہ نے پندرہ سال دیر کر دی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ یہ جملہ تاریخ میں سنہری لفظوں میں لکھا جائے گا۔

ذرا سوچیں کہ اگر امریکہ اگلے پانچ سال بھی چین پر کوئی جنگ یا بڑا بحران مسلط نہ کر سکا تو پھر دو ہزار تیس کے بعد امریکہ اور یورپ صرف ایک ماضی کی یاد بن جائیں گے۔ اقتصادی طور پر تباہ، ٹیکنالوجی میں پیچھے اور دنیا میں اپنی برتری کھو چکے ہوں گے۔ کوئی راستہ نہیں بچے گا ان کے دوبارہ ابھرنے کا۔

اور یہی وہ چیز ہے جو ایران اور پاکستان کیلئے نہایت خطرناک ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نیوکلئیر ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں۔ وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اگر ایران نہ ہارا تو امریکہ ہار جائے گا اور اسرائیل ختم ہو جائے گا۔

انڈیا پاکستان کو نہیں ہرا پایا اور اسکا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ دعا ہے کہ ایران یہ جنگ نہ ہارے۔ ہم سب جیت جائیں گے۔ انسانیت جیت جائے گی۔

مزاحمت۔۔۔ راجہ مبین اللہ خان یقیناً دشمن بہت طاقتور ہے، یہ ماننے کی بات ہے۔ ایران کا مقابلہ کن سے ہے؟ اسرائیل اور امریکہ...
18/06/2025

مزاحمت۔۔۔ راجہ مبین اللہ خان

یقیناً دشمن بہت طاقتور ہے، یہ ماننے کی بات ہے۔ ایران کا مقابلہ کن سے ہے؟ اسرائیل اور امریکہ سے۔ یہ وہ طاقتیں ہیں جن سے روس اور چین بھی براہ راست جنگ سے گریز کرتے ہیں، تو ایران کا سامنے کھڑا ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ ایک طرف وہ طاقت ہے جو ڈالر چھاپ کر جنگ چلاتی ہے، اور دوسری طرف وہ ملک ہے جسے اپنی ہی چیزیں بیچنے کی اجازت نہیں۔ ظاہر ہے یہ مقابلہ برابر کا نہیں ہے، لیکن جنگ ہمیشہ برابری پر نہیں لڑی جاتی، مزاحمت ہمیشہ کمزور فریق کی طرف سے ہوتی ہے، اور اصل طاقت نظریے اور جذبے کی ہوتی ہے۔

کئی دوست، خاص طور پر وہ جو ایران یا فلسطین سے ہمدردی رکھتے ہیں، آج کل بہت مایوس نظر آتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مزاحمت ایک طویل اور مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ ہم نے بھی اپنی زندگی میں سیاست میں حصہ لیا ہے، جدوجہد دیکھی ہے، ناکامیاں بھی سہنی پڑی ہیں، مگر ہم کبھی نظریے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اگر آپ کا یقین سچا ہو، تو آپ لڑتے ہیں، گرتے ہیں، سنبھلتے ہیں، اور پھر لڑتے ہیں۔

ایران میں جو حالیہ شہادتیں ہوئی ہیں، ان کا احترام کیا جانا چاہیے۔ جو کامریڈز مارے گئے ہیں، ان کی قربانی کو ضائع نہیں جانے دینا چاہیے۔ سویلینز کی جانیں گئیں، چند اعلیٰ افسران بھی شہید ہوئے، لیکن ایک نظریاتی ریاست میں قیادت کبھی ختم نہیں ہوتی، ایک کمانڈ جاتی ہے تو دوسری سامنے آ جاتی ہے۔

ہمیں ان واقعات سے سبق لینا چاہیے۔ پاکستان میں ایران جیسا اتحاد، یکجہتی اور منظم حکومتی ردعمل ابھی موجود نہیں۔ ہمارے ہاں تقسیم زیادہ ہے، فالٹ لائنز گہری ہیں۔ اس لیے ہمیں ابھی سے تیار ہونا ہوگا۔ ہمیں اپنی آواز، اپنی تحریر، اور اپنی سوچ کے ذریعے لوگوں کو تیار کرنا ہوگا۔ اگر ہمارے پاس لڑنے کے لیے صرف الفاظ ہیں، تو ہم وہی استعمال کریں گے۔

مایوسی کا کوئی جواز نہیں۔ ہمیں ان لوگوں کی طرف دیکھنا ہے جو بھوک سے مر رہے ہیں، جو کھانا لینے نکلتے ہیں اور شہید ہو جاتے ہیں۔ ان کے لیے لڑنا فرض ہے۔ مزاحمت کرنے والوں کے لیے مقصد سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔

مغربی گینگ اس وقت دنیا پر قبضے کے لیے نکلا ہے، لیکن آج بھی وہ مکمل قابض نہیں۔ اگر کل کو وہ پوری دنیا پر قابض ہو بھی جائے، تو بھی مزاحمت ختم نہیں ہوگی۔ غلامی صرف ان لوگوں کو راس آتی ہے جو خود کو کتا سمجھتے ہیں۔ وفاداری کا پٹہ صرف کتے پہنتے ہیں۔ جو آزادی پسند ہوتے ہیں، وہ غلامی کو جیتے جی قبول نہیں کرتے۔

بس یہی بات یاد رکھیے کہ مایوسی غلامی کی کیفیت ہے، اور مزاحمت زندگی کی علامت ہے۔

عمار ولی جانامریکی قیادت نے اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران میں رجیم چینج کا فیصلہ کرلیا ہے۔ بہت زیادہ امکان ہے کہ امریکہ اف...
17/06/2025

عمار ولی جان
امریکی قیادت نے اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران میں رجیم چینج کا فیصلہ کرلیا ہے۔ بہت زیادہ امکان ہے کہ امریکہ افواج براہ راست ایران پر حملہ کرکے موجودہ حکومت کی جگہ وطن فروش رضا پہلوی کی حکومت قائم کروا دے۔ ایران کو صرف اس بات کی سزا مل رہی ہے کہ اس نے فلسطین کی مزاحمت کی عملی طور پر مدد کرنے کی کوشش کی اور اپنے وسائل کو امریکی کمپنیوں کی پہنچ سے دور رکھا۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل دنیا کے لئے ایک بھیانک مستقبل کا نقشہ کھینچ چکے ہیں۔

امریکہ اور اسرائیل دو آپشن دے رہے ہیں۔ یا تو ہمارے آگے لیٹ جاو یا بمباری کے لئے تیار ہوجاو۔ قذافی کو کیوں قتل کیا گیا تھا؟ عراق شام اور یمن پر کیوں بمباری کی گئی تھی؟ غزہ پر بار بار نسل کش حملے کیوں ہوتے ہیں؟ یہ حکومتیں امریکی پالیسی سے اختلاف کرنے کی جرآت رکھتے تھیں جس کی وجہ سے ان ممالک کو تباہ کردیا گیا۔ ان تباہ حال معاشروں میں داعش کی طرح کی تنظیموں نے بھی جنم لیا جس نے خطے کی تہذیب کو برباد کردیا۔ امریکہ اور اسرائیل ریاستی دہشت گردی کے ذریعے اس وقت کھنڈرات کی دنیا تخلیق کررہے ہیں جس کا اولین مقصد ہر اس ریاست کو ختم کرنا ہے جو ان کے استعماری عزائم کو چیلنج کرسکے۔

اس وقت ترقی پسند قوتوں کے لئے چیلینج یہی ہے کہ کس طرح اپنے سماج کے وجود کو بچایا جاسکے۔ کل کو ایران تباہ ہوگیا تو اس کے لاکھوں باشندے بھی غزہ، شام اور یمن کی عوام کی طرح ہجرت کرنے اور مہاجرین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ایسے وقت میں کونسے انسانی حقوق، کون سی شریعت، کونسی سوشلزم، کونسے عورتوں کے حقوق، یا کونسی قومی جنگوں کی بحثیں رہ جائیں گی؟ بس بھوک اور قلت ہوگی جبکہ کھانے کے سامان پر غزہ کی طرح صہونی قوتوں کی اجارہ داری ہوگی۔ جس کو چاہے زندہ رکھے جس کو چاہے مار دے۔ خطرہ کسی سوچ کو نہیں، پورے معاشرے کے وجود کو ہوگا۔

ترقی پسندوں کو اب نعرے بازی ترک کرکے حکمت عملی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ مشرقی وسطی کے علاوہ روس، چین، کیوبا اور دیگر تمام ممالک کے لئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے پاس ایک ہی نسخہ موجود ہے جس میں رجیم چینج کے ساتھ ساتھ ان ممالک کی ریاستوں کو کمزور کرنا یا توڑنا شامل ہے۔ ہمارے کچھ نادان دوست مغربی پروپگینڈے میں آکر سمجھ لیتے ہیں کہ واقع میں ہی ان ممالک میں جمہوریت کے فقدان کی وجہ سے امریکہ ٹینشن میں ہے۔ دوسرا انہیں یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ جس طرح کی بدمعاشی اس وقت امریکہ اور اسرائیل کررہا ہے، اس میں کوئی بھی حکومت سکیورٹی کو اہمیت دیئے بغیر ان کا مقابلہ کیسے کرسکتی ہے؟ کیا کیوبا یا شمالی کوریا کو سکیورٹی سٹیٹ بننے کا شوق تھا؟ شمالی کوریا میں امریکہ نے لاکھوں باشندوں کا قتل کیا جس کے بعد وہاں کی لیڈرشپ پر عسکری سوچ حاوی ہوئی۔ آپ جتنی مرضی انقلابی تحریک بنالیں، اگر آخر میں اسرائیل جیسی نسل کش ریاست آپ پر بمباری کرکے آپ کو ختم کردے تو پھر انقلاب کہاں جائے گا؟

اس وقت ایران پر امریکی اور اسرائیلی جارحیت کے وقت باقی تمام باتیں ایک طرف رکھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلا فرض اس وقت ایران کی سالمیت کا دفاع ہے کیونکہ باقی تمام چیزیں اس سوال سے جڑی ہیں۔ اگر ایران صہونیت کا اڈا بن گیا تو پھر یہ اسرائیل اور امریکہ کی مرضی ہوگی کہ کس ملک کو بخش دے اور کس کو غزہ میں تبدیل کردے۔ میں لائحہ عمل کے سوال پر مزید لکھوں گا لیکن یہ بات طے ہے کہ محض انسانی حقوق کی گفتگو سے اب آگے بڑھ کر geopolitics کا سنجیدہ جائزہ لینے کا وقت آگیا یے۔

ایسے میں امریکی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہمیں ایران کی عوام اور افواج کی غیر مشروط حمایت کرنی چاہئے جو فلسطین کی نسل کشی کی مخالفت کی بھرپور قیمت ادا کررہے ہیں۔ اور مغربی ممالک پر ایک سیکنڈ کے لئے بھی اعتبار نہیں کرنا چاہئے جو نسل کش ریاست کو اربوں ڈالر سے نواز رہے ییں جبکہ نسل کشی کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کی امداد کرنے والی حکومت کو رجیم چینج کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ خطے میں امریکی مداخلت اب ہمارے لئے زندگی موت کا سوال ہے۔ چین سے لے کر ایران اور روس سے لے کر پاکستان، تمام ممالک کو سالمیت کے سوال پر ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر غزہ ہم سب کا مشترکہ مستقبل ہے۔

مغربی میڈیا یہ تو  بتا رہا ہے کہ تہران خالی ہو رہا ہے لیکن مغربی میڈیا یہ نہیں بتا رہا کہ تل ابیب بھی خالی ہو رہا ہے۔مغر...
17/06/2025

مغربی میڈیا یہ تو بتا رہا ہے کہ تہران خالی ہو رہا ہے لیکن مغربی میڈیا یہ نہیں بتا رہا کہ تل ابیب بھی خالی ہو رہا ہے۔

مغربی میڈیا یہ تو بتا رہا ہے کہ ایران ایٹم بم بنانا چاہ رہا تھا لیکن مغربی میڈیا یہ نہیں بتا رہا کہ اسرائیل ایٹم بم بنا چکا ہے۔

مغربی میڈیا یہ تو بتا رہا ہے کہ ایران اسرائیل کے لیے خطرہ ہے لیکن مغربی میڈیا یہ نہیں بتا رہا کہ اسرائیل سارے مشرق وسطی کے لیے خطرہ ہے۔

مغربی میڈیا یہ تو بتا رہا ہے کہ ایران نے انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی سے با معنی بات چیت نہیں کی لیکن مغربی میڈیا یہ نہیں بتا رہا کہ ایران کی ایٹمی مراکز تو انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے لیے کلے تھے وہ آ کر معائنے کرتے تھے ، لیکن اسرائیل نے تو انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کو ایک بار بھی اپنے ایٹمی مراکز تک نہیں آنے دیا۔

مغربی میڈیا ایران کو غیر ذمہ دار ملک قرار دے رہا ہے لیکن مغربی میڈیا یہ نہیں بتا رہا کہ ایران نے تو NPT پر دستخط کیے ہوئے ہیں لیکن اسرائیل نے تو آج تک اس پر دستخط نہیں کیے۔

مغربی میڈیا ایران کو امن کے لیے خطرہ قرار دے رہا ہے لیکن مغربی میڈیا یہ نہیں بتا رہا کہ ایران نے تو کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر قبضہ نہیں کیا ہوا جب کہ اسرائیل اپنے تمام پڑوسیوں کی زمین پر قابض ہے،۔ وہ فلسطین پر قابض ہے ، حتی کہ وہ اس یروشلم شہر بھی ناجائز قابض ہےا ور اقوام متحدہ متعدد بار اس قبضے کو ناجائز قرار دے چکی ہے۔

مغربی میڈیا ایران میں حکومت مخالف چند لوگوں کے مظاہرے کو تو غیر معمولی کوریج دے رہا ہے لیکن وہ ایران میں حکومت کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف ہونے والے بہت بڑے مظاہروں کی کوریج نہیں کر رہا۔ نہ ہی وہ نیتن یاہو کے خلاف اسرائیل میں ہونے والے مظاہروں پر رجیم چینج کے امکانات سے لپٹے تجزیے کر رہا ہے۔

ممغربی میڈیا فلسطین کے علاقوں میں ناجائز طور پر گھس کر آباد ہونے والے یہودیوں کو اقوام متحدہ کے قوانین کی پامالی کے باوجود قابض اور غاصب نہیں لک رہا بلکہ آبادکار لکھ رہا ہے۔

مغربی میڈیا اسرائیل کے ان عام شہریوں کو جو فلسطینیں کے قت ل عام میں ملوث ہیں دہشت گرد کی بجائے وجیلانٹے قرار دیتا ہے۔

مغربئ میڈیا یہ تو گن گن کر بتا رہا ہے کہ ایران کا فلاں فلاں ٹارگٹ اسرائیل نے ہٹ کر دیا ،لیکن مغربی میڈیا یہ نہیں بتا رہا کہ ایران نے موساد کا ہیڈ کوارٹر یونٹ نمبر 2800 ہٹ کیا ہے ، مغربی میڈیا یہ نہیں بتا رہا کہ اسرائیلی فوج کا جنرل سٹاف ہیڈکوارٹر بھی ہٹ ہوا ہے۔ مغربی میڈیا یہ بھی نہیں بتا رہا کہ اسرائیل کی وزارت دفاع کو بھی نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ مغربی میڈیا یہ بھی نہیں بتا رہا کہ اسرائیل کی بایئولاجیکل ویپن کی فیکٹری تباہ کی جا چکی ہے ، وہ یہ بھی نہیں بتا رہا کہ اسرائیل کا نواتم ایئر بیس ہٹ کیا جا چکا ہے رمات ڈیوڈ ایئر فیلڈ تباہ کیا جا چکا ہے ، اور حیفہ کی آئل ریفائنری تباہ ہو چکی ہے۔

جس علاقے کو اقوام متحدہ نے مقبوضہ فلسطین قرار دے رکھا ہے مغربی میڈیا اس کو بھی اسرائیل قرار دیتا ہے۔

اس سب کے باوجود مغربی میڈیا بہت معتبر ہے، سفید فام تہذیب کی سفاکی کا یہ پہلو بھی توجہ طلب ہے۔

۔۔۔۔۔
آصف محمود

Address

Lahore

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Pak Media صحافت posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Pak Media صحافت:

Share