17/07/2025
عمار علی جان کی تحریر
اسرائیل نے شام پر شدید بمباری کی ہے۔ چند دن سے شام
کی حکومت اور جنوبی شام میں موجود Druze کمینوٹی، جو کہ ایک اقلیتی مزہبی گروہ ہے، کے درمیان جھڑپیں تیز ہورہی تھیں۔ Druze کی بڑی تعداد اسرائیل میں بھی موجود ہے اور اسرائیل نے اسی گروہ کے "انسانی حقوق" کے تحفظ کے نام پر نہ صرف جنوبی شام میں بمباری کی بلکہ دمشق پر بھی بمباری شروع کردی۔ اطلاعات کے مطابق شام کے عسکری ہیڈ کوارٹر کو بھی اسرائیل نے بمباری میں اڑا دیا یے۔
یاد رکھیں کہ کئی دہائیوں سے شام کی حکومت اسرائیل اور امریکہ کو اس خطے میں ایک کانٹے کی طرح چھب رہی تھی۔ مصر اردن ترکی اور دیگر ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرلئے تھے۔ عراق اور لیبیا کو بمباری کرکے تباہ کردیا گیا۔ لیکن تمام پابندیوں اور اندرونی تضادات و سازشوں کے باوجود شام کی حکومت اسرائیل مخالف رہی۔ ایسے میں حکومتی مخالفین کو کھل کر امریکہ نے مدد دی اور جولانی، جو ایک وقت میں خطے میں داعش کا سب سے خطرناک دہشت گرد سمجھا جاتا تھا، امریکی سرپرستی میں دمشق کو قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن اب اس کے دور حکومت میں بھی یہ بمباری کا سلسلہ کیوں نہیں رک رہا؟
میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ اسرائیل اور امریکہ کے لئے مشرقی وسطی میں کوئی نظریہ اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ وہ صرف اور صرف ایک بکھرا ہوا، شکست خوردہ معاشرہ دیکھنا چاہتے جس کو بیرونی قوتیں کنٹرول کرسکیں۔ اس کے لئے 1982 میں Oded Yinon کی طرف سے لکھے گئے ایک آرٹیکل میں دیئے گئے پلان کو سمجھنا ضروری یے جسے Yinon Plan بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ مشرقی وسطٰی کو کنٹرول کرنے کا بہترین طریقہ وہاں ہر موجود مزہبی، قومی، قبائلی، فرقہ وارانہ اور لسانی تقسیم کو استعمال کرنا ہے۔ اس تقسیم کا ہدف ریاست اور معاشروں کی مکمل تباہی ہونی چاہئے تاکہ اسرائیل اور مغرب کا خطے پر تسلط برقرار رہ سکے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس آرٹیکل میں یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ تیسری دنیا کی یکجہتی اور سوشلسٹ عالمگیریت مغرب کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ ان کو شکست دینے کے لئے عرب دنیا میں شناخت کی بنیاد پر تقسیم لازمی ہے۔
لبنان کی خانہ جنگی کے دوران اسرائیل نے تمام مزہبی گروہوں کو مہارت سے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا۔ امریکی صدر جارج بش کے اردگرد دانشوروں نے Yinon Plan کو بہت سنجیدہ لیا۔ عراق پر بمباری اور اسے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے لئے وہاں پر پہلے کردوں کو استعمال کیا گیا اور پھر فرقہ وارانہ فسادات کروائے گئے۔ عراق، جو ایک وقت میں عرب دنیا کا فخر تھا، داعش سمیت مختلف مسلح گروہوں کا مرکز بن گیا۔ اسی طرح یمن، لیبیا، اور پھر شام کو تقسیم کیا۔ اس میں کرد گروہوں کا کردار شدید منفی تھا جنہوں نے امریکی مدد کے ذریعے شام کو تقسیم بھی کیا اور وہاں پر امریکہ کو فوجی اڈے دے کر ملکی کا تیل بھی سامراج کے حوالے کردیا۔
جولانی کی حکومت کو اکثر لوگوں نے اسرائیلی ایجنٹ کہا۔ لیکن حقیقت یہ یے کہ اسرائیل کے لئے کوئی بھی شخص، گروہ یا حکومت ایک وقتی مہرے سے زیادہ اہم نہیں۔ ان کا مقصد پورے خطے کو غزہ میں تبدیل کرنا ہے تاکہ مزاحمت کی گنجائش ہی ختم ہوجائے۔ یاد رہے کہ جس طرح ابھی Druze کے نام پر شام پر بمباری ہورہی ہے، پچھلے ماہ عورتوں کے حقوق کے نام پر ایران پر بمباری کی گئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دشمن ایک واضح حکمت عملی کے ساتھ پوری مسلم دنیا کو تباہ کررہا ہے لیکن ہمارے لوگ کبھی اس لڑائی میں اپنے فرقے کو تلاش کررہے ہوتے ہیں یا پھر لبرل بیوقوفی کی حدیں پار کرکے انسانی حقوق کا واویلا مچانا شروع کردیتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں ہم اسرائیل کے کھیل کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔
سامراج کی اس حکمت عملی کے بعد یہ بات طے ہے کہ جو بھی تحریک اپنی شناخت سے آگے نہیں بڑھے گی اور کھل کر امریکی سامراج کی مخالفت نہیں کرے گی، وہ دانستہ یا نا دانستہ طور پر سامراج کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ کردوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جرمن فلسفی ہیگل اسے cunning of history کہتا تھا کہ لوگ اپنے شعور میں انسانی حقوق یا کسی بڑے مقصد کے لئے لڑرہے ہوتے ہیں لیکن کیونکہ وہ تاریخ کی سمت اور عالمی صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں، اس لئے ان کی حیثیت بڑے کھیل میں معمولی سے پیادے کی ہوتی یے۔ اس لئے اپنی چھوٹی شناخت کے اردگرد سیاست کرنے کے بجائے خطے کے تمام مظلوموں کو انصاف کے عالمگیر اصولوں کے تحت جوڑنا وقت کی ضرورت ہے۔ ورنہ ایک طرف ہماری پاس ریاستی جبر رہ جائے گا اور دوسری جانب لسانی دہشت گردی کے واقعات جس کی ایک اور بھیانک مثال قلات میں موسیقاروں پر دہشت گرد حملوں میں ہمیں نظر آئی۔
تاریخ نے ہم پر حالات کا صحیح جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپی ہے تاکہ استعماری قوتوں کی چالوں کے جواب میں حکمت عملی بنائی جاسکے۔ لیکن ہم کبھی فرقے اور کبھی لسانی بنادوں پر تقسیم ہورہے ہیں جبکہ ہماری ریاست سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والے بزرگوں اور نوجوانوں پر تشدد کرنے پر مصروف ہے۔ اگر ہم نے سمت درست نہیں کی تو Yinon Plan کامیاب ہوجائے گا اور بدترین غلامی ہماری آنے والی نسلوں کا مقدر بنے گی۔