Pak Media صحافت

Pak Media صحافت Pakistan Media and Info

عمار علی جان کی تحریراسرائیل نے شام پر شدید بمباری کی ہے۔ چند دن سے شام کی حکومت اور جنوبی شام میں موجود Druze کمینوٹی، ...
17/07/2025

عمار علی جان کی تحریر

اسرائیل نے شام پر شدید بمباری کی ہے۔ چند دن سے شام
کی حکومت اور جنوبی شام میں موجود Druze کمینوٹی، جو کہ ایک اقلیتی مزہبی گروہ ہے، کے درمیان جھڑپیں تیز ہورہی تھیں۔ Druze کی بڑی تعداد اسرائیل میں بھی موجود ہے اور اسرائیل نے اسی گروہ کے "انسانی حقوق" کے تحفظ کے نام پر نہ صرف جنوبی شام میں بمباری کی بلکہ دمشق پر بھی بمباری شروع کردی۔ اطلاعات کے مطابق شام کے عسکری ہیڈ کوارٹر کو بھی اسرائیل نے بمباری میں اڑا دیا یے۔

یاد رکھیں کہ کئی دہائیوں سے شام کی حکومت اسرائیل اور امریکہ کو اس خطے میں ایک کانٹے کی طرح چھب رہی تھی۔ مصر اردن ترکی اور دیگر ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرلئے تھے۔ عراق اور لیبیا کو بمباری کرکے تباہ کردیا گیا۔ لیکن تمام پابندیوں اور اندرونی تضادات و سازشوں کے باوجود شام کی حکومت اسرائیل مخالف رہی۔ ایسے میں حکومتی مخالفین کو کھل کر امریکہ نے مدد دی اور جولانی، جو ایک وقت میں خطے میں داعش کا سب سے خطرناک دہشت گرد سمجھا جاتا تھا، امریکی سرپرستی میں دمشق کو قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن اب اس کے دور حکومت میں بھی یہ بمباری کا سلسلہ کیوں نہیں رک رہا؟

میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ اسرائیل اور امریکہ کے لئے مشرقی وسطی میں کوئی نظریہ اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ وہ صرف اور صرف ایک بکھرا ہوا، شکست خوردہ معاشرہ دیکھنا چاہتے جس کو بیرونی قوتیں کنٹرول کرسکیں۔ اس کے لئے 1982 میں Oded Yinon کی طرف سے لکھے گئے ایک آرٹیکل میں دیئے گئے پلان کو سمجھنا ضروری یے جسے Yinon Plan بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ مشرقی وسطٰی کو کنٹرول کرنے کا بہترین طریقہ وہاں ہر موجود مزہبی، قومی، قبائلی، فرقہ وارانہ اور لسانی تقسیم کو استعمال کرنا ہے۔ اس تقسیم کا ہدف ریاست اور معاشروں کی مکمل تباہی ہونی چاہئے تاکہ اسرائیل اور مغرب کا خطے پر تسلط برقرار رہ سکے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس آرٹیکل میں یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ تیسری دنیا کی یکجہتی اور سوشلسٹ عالمگیریت مغرب کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ ان کو شکست دینے کے لئے عرب دنیا میں شناخت کی بنیاد پر تقسیم لازمی ہے۔

لبنان کی خانہ جنگی کے دوران اسرائیل نے تمام مزہبی گروہوں کو مہارت سے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا۔ امریکی صدر جارج بش کے اردگرد دانشوروں نے Yinon Plan کو بہت سنجیدہ لیا۔ عراق پر بمباری اور اسے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے لئے وہاں پر پہلے کردوں کو استعمال کیا گیا اور پھر فرقہ وارانہ فسادات کروائے گئے۔ عراق، جو ایک وقت میں عرب دنیا کا فخر تھا، داعش سمیت مختلف مسلح گروہوں کا مرکز بن گیا۔ اسی طرح یمن، لیبیا، اور پھر شام کو تقسیم کیا۔ اس میں کرد گروہوں کا کردار شدید منفی تھا جنہوں نے امریکی مدد کے ذریعے شام کو تقسیم بھی کیا اور وہاں پر امریکہ کو فوجی اڈے دے کر ملکی کا تیل بھی سامراج کے حوالے کردیا۔

جولانی کی حکومت کو اکثر لوگوں نے اسرائیلی ایجنٹ کہا۔ لیکن حقیقت یہ یے کہ اسرائیل کے لئے کوئی بھی شخص، گروہ یا حکومت ایک وقتی مہرے سے زیادہ اہم نہیں۔ ان کا مقصد پورے خطے کو غزہ میں تبدیل کرنا ہے تاکہ مزاحمت کی گنجائش ہی ختم ہوجائے۔ یاد رہے کہ جس طرح ابھی Druze کے نام پر شام پر بمباری ہورہی ہے، پچھلے ماہ عورتوں کے حقوق کے نام پر ایران پر بمباری کی گئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دشمن ایک واضح حکمت عملی کے ساتھ پوری مسلم دنیا کو تباہ کررہا ہے لیکن ہمارے لوگ کبھی اس لڑائی میں اپنے فرقے کو تلاش کررہے ہوتے ہیں یا پھر لبرل بیوقوفی کی حدیں پار کرکے انسانی حقوق کا واویلا مچانا شروع کردیتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں ہم اسرائیل کے کھیل کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔

سامراج کی اس حکمت عملی کے بعد یہ بات طے ہے کہ جو بھی تحریک اپنی شناخت سے آگے نہیں بڑھے گی اور کھل کر امریکی سامراج کی مخالفت نہیں کرے گی، وہ دانستہ یا نا دانستہ طور پر سامراج کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ کردوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جرمن فلسفی ہیگل اسے cunning of history کہتا تھا کہ لوگ اپنے شعور میں انسانی حقوق یا کسی بڑے مقصد کے لئے لڑرہے ہوتے ہیں لیکن کیونکہ وہ تاریخ کی سمت اور عالمی صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں، اس لئے ان کی حیثیت بڑے کھیل میں معمولی سے پیادے کی ہوتی یے۔ اس لئے اپنی چھوٹی شناخت کے اردگرد سیاست کرنے کے بجائے خطے کے تمام مظلوموں کو انصاف کے عالمگیر اصولوں کے تحت جوڑنا وقت کی ضرورت ہے۔ ورنہ ایک طرف ہماری پاس ریاستی جبر رہ جائے گا اور دوسری جانب لسانی دہشت گردی کے واقعات جس کی ایک اور بھیانک مثال قلات میں موسیقاروں پر دہشت گرد حملوں میں ہمیں نظر آئی۔

تاریخ نے ہم پر حالات کا صحیح جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپی ہے تاکہ استعماری قوتوں کی چالوں کے جواب میں حکمت عملی بنائی جاسکے۔ لیکن ہم کبھی فرقے اور کبھی لسانی بنادوں پر تقسیم ہورہے ہیں جبکہ ہماری ریاست سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والے بزرگوں اور نوجوانوں پر تشدد کرنے پر مصروف ہے۔ اگر ہم نے سمت درست نہیں کی تو Yinon Plan کامیاب ہوجائے گا اور بدترین غلامی ہماری آنے والی نسلوں کا مقدر بنے گی۔

بچے خود پیدا کریں اور انہیں ہر بات کا قصور وار ثابت کریں۔  آج صبح ایک مضمون کا ابتدائیہ یہ دیکھا """"'''''''''''''''''''...
16/07/2025

بچے خود پیدا کریں اور انہیں ہر بات کا قصور وار ثابت کریں۔

آج صبح ایک مضمون کا ابتدائیہ یہ دیکھا
""""''''''''''''''''''''''''''جب آپ کے بالغ ہوتے بچے بات بات پر بدتمیزی کرنے لگیں یا آپ پر چیخنے چلانے لگیں، اور اپنی تمام تر سمجھداری اور برداشت کے باوجود والدین بچے کی بدتمیزی سہہ نہیں پاتے تو اس تجربے سے گزرنے والے والدین کے کرب اور پریشانی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے
یہ مسئلہ اب گھر گھر کا ہے""""""'''''

اس پر پہلا میرا یہ کمنٹ تھا
"""""""""""بچے ایسا نہیں کرتے
بلکہ جب بچوں پر آپ اپنی طاقت کے دور میں چلاتے ہیں انہیں بے بس کرتے ہیں تب وہ اپنی طاقت کے دور میں جوابی یہی بات سیکھتے ہیں اور کرتے ہیں۔""""''''

اس پر یہ جواب آیا
""""""""""آپ شاید نیو کلیر فیملی سے تعلق رکھتے ہیں، ان خواتین سے پوچھیے جہاں وہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہ رہی ہوتی ہیں اور دادا دادی مجال کیا ہے کہ ماں کو اونچا بولنے بھی دیں... ایسے میں بچے کیا کچھ نہیں کرتے.. یہ آپکی سوچ ہے""""""""''

مجھے اس جواب نے حیرت زدہ کردیا کہ ان کے نزدیک صرف بچے ہی مجرم ہیں ۔

وہاں میں نے یہ لکھا ویسے یہ بات سمجھنے کی
""""""""""حیرت ہے کہ نیوکلیر فیملی اور مشترکہ خاندانی سسٹم کا تقابل کلی طور پر کیسے اس مدرسے میں پیش کیا جاسکتا ہے
حالانکہ بنیادی بات اس طاقت کی ہورہی ہے جس میں بچے کو جبر سے اور غیر ضروری ڈانٹا جاتا ہے مارا جاتا ہے یا نفسیاتی طور پر بچے کی غلطی کے بغیر اس پر رعب ڈالا جاتا ہے چاہے پھر ہو ماں باپ دادا دادی ماموں یا کوئی بھی ہو۔ ، یہ سب اپنے اپنے حساب سے محبت بھی کرتے ہیں مگر اس بچے کے لیے کتنے نفسیاتی مسائل پیدا کرتے ہیں جنہیں خود ماں باپ نے ہینڈل کرنا ہوتا ہے، کبھی اس۔ ارے میں خود سوچا۔؟
جو بچے اس وقت یہ جبر برداشت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ طاقت کے زیر ہوتے ہیں جب وہ خود اسی طاقت میں آتے ہیں وہ بھی ایسے ہی رد عمل دکھاتے ہیں کیونکہ انہوں نے یہی سیکھا ہوتا ہے۔

میں پتہ نہیں آپ کو بات سمجھا سکوں گا یا نہیں لیکن میری اپنی بیٹی جس کی عمر صرف چھ سال ہے جب اس کی والدہ اس کو ڈانٹتی ہیں یا اگر میں کسی بات پر اس کو سمجھاؤں تو وہ مجھ سے بہت آرگیومنٹ کرتی ہے ہم اس کے سارے سوالوں کے جواب اس کی ذہنی سطح کے مطابق دیتے ہیں اسے مطمئن کرتے ہیں ہمیں بظاہر اس میں وقت لگ رہا ہوتا ہے کہ بیٹی جو کام کر رہی ہے جیسے
اپنا آئی پیڈ زیادہ استعمال کر رہی ہے، تو ہمیں اسے لاجک سے سمجھانا ہوتا ہے کہ اتنا استعمال نہیں کر سکتے۔ وہ جوابا ہم اسے یہ کہتی ہے کہ آپ بھی موبائل استعمال کر رہے ہیں تب ہمیں انہیں سمجھانا پڑتا ہے کہ آپ کے بابا کی جاب سے ریلیٹڈ کالز اور میسجز ہوتے ہیں جو میں استعمال کر رہا ہوں، جو ہمارا کچن اور آپ کی ضروریات یا کھلونوں کے لیے معاون ہوتا ہے۔
کئی باتوں میں وہ بہت زیادہ سوالات کرتی ہے، یا اسے ہماری وہ بات سمجھ نہیں آتی جو ہم اسے منع کرکے خود کررہے ہوتے ہیں، کبھی کبھی میں شام کو جاتا ہوں تو وہ کہتی ہے کہ میرے ساتھ کھیلو اگر میں اسے کہوں کہ میں ابھی تھک گیا ہوں تو وہ کہتی ہے کہ آپ ٹی وی تو دیکھ رہے ہیں۔
میں اسے ڈانٹتا نہیں ہوں ہمیں اس کی ذہنی سطح کے مطابق اس کو جواب دینا ہوتا ہے میں نے ایک بیٹی پیدا کی ہے وہ ایک نارمل انسان کی طرح مجھ سے سوال کرتی ہے مجھے اس کو جواب دینا ہوتا ہے اور یہ اس کا حق ہے۔
اس کا فائدہ کیا ہوتا ہے
میری اہلیہ کینسر ٹریٹمنٹ میں رہی، ابتدائی تین سال جب میری بیٹی صرف دو سال کی تھی ہم پورا پورا دن ہسپتالوں میں رہتے تھے یا ہسپتال میں ایڈمٹ ہوتی تھی میری اہلیہ۔
ہم نے اس کے لیے میڈ رکھی تھی لیکن اس کے باوجود ہم اس کو میکسیمم ٹائم دینے کی کوشش تو کرتے تھے لیکن سب سے اچھی بات تھی کہ ہم اس کی بات سنتے اور سمجھتے تھے وہ ہمیں بالکل تنگ نہیں کرتی
وہ اسکول کی بریلینٹ اسٹوڈنٹ ہے
وہ کھانے کی سرونگ سے لے کر بہت ساری چھوٹی چھوٹی چیزوں میں ہماری ہیلپ کرتی ہے ، ہم اسے آواز دے کر فریج سے پانی بوتل منگواتے ہیں، ہم اس سے ایسے کئی کام کہتے ہیں، وہ ہمیشہ ہیلپ کرتی ہے
اس نے کبھی بڑے سے بڑے گروسری سٹورز اور ٹوائے شاپس میں جا کر غیر مناسب ضد نہیں کی۔ کبھی وہ چیزوں کے لیے ہم سے غیر مناسب ضد نہیں کرتی۔ ہم اسے اچھی سے اچھی چیز دلاتے ہیں لیکن اس کے باوجود اگر کبھی وہ کوئی ایسی چیز مانگے جو ہمیں اس وقت لگتا ہے کہ ہم اسے نہیں دلانی چاہیے تو ہم اسے آرگیومنٹ سے سمجھاتے ہیں وہ ہماری بات سمجھ لیتی ہے مانتی ہے۔
لیکن یہ سب تب ممکن ہوتا ہے کہ جب ہم اسے ایک ایسا انسان سمجھیں جیسے ہم اپنے برابر کے ذہنی فرد کو ڈیل کرتے ہیں۔

اب آخری بات یہ ہمارے سماج کی انتہائی بد قسمتی ہے کہ ہم یہ بات کبھی سمجھ ہی نہیں سکتے ہمارے ہاں جوائنٹ فیملی میں جتنا جبر بچوں پر ہوتا ہے، اس کی کوئی انتہا نہیں ہے اور ماں باپ بچوں کو اپنی ایک ایسی ملکیت سمجھتے ہیں جیسے وہ ان کے کھلونے ہوں ۔ ہم اپنے قصور اور اپنے پیدا کئے گئے بچوں پر جو جبر رکھتے ہیں اور
پھر امید کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ اچھا سلوک کریں۔

اس کے باوجود یہ تصویر دیکھ لیں خاتون کا آرگیومنٹ بالآخر کہاں
پر پہنچ چکا ہے ۔ ہمیں اس سے کیا کہ
آپ کا بچہ اگریسو ہو گیا تو وجہ جاننے کی کوشش کی ؟
جس وقت بچہ اگریسو ہوتا ہے اس کو پوری توجہ سے سنا
اس کے ساتھ وقت گزارا
اس کی بات سنیں اس کی بات سمجھیں، چاہے وہ بات غیر مناسب کر رہا ہو، لیکن بہرحال وہ بات کر رہا ہے اپنے دماغ سے

پہلے اس کا پورا ارگیومنٹ سنیں پھر اس کو احساس دلائیں کہ وہ جس چیز پر غصہ کر رہا ہے اس کا غصہ ہونا تو ٹھیک ہے لیکن اس کی بات ٹھیک نہیں ہے وہ جو چیز مانگ رہا ہے یا جو بات کہنا چاہ رہا ہے، بچے کو اسوقت ایسا ہی لگتا ہے کہ وہ اپنی جگہ درست ہے لیکن وہ بات یاوہ چیز دوسروںں کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہے، یہ سمجھانا یا تربیت کرنا آپ کا کام ہے، اس کا قصور بچے کے سر مت منڈھیں، بچے کا موقف کوئی سن سکتا ہے، سمجھ سکتا ہے، کہ وہ کس نفسیاتی جبر سے گزر رہا ہوتا ہے؟

اگر میں کڑوا سچ لکھوں تو شاید یہ بات بہت لوگوں کو بری لگ جائے

ہمارے ہاں 90 فیصد والدین درست تربیت یا پنے کی صلاحیت کے اعتبار سے ماں باپ بننے کی بنیادی اکائی کو کوالیفائی ہی نہیں کرتے کہ وہ تربیت یا اچھی ہینڈلنگ کرسکیں
ہاں یہ ضرور ہے کہ جبرا پچے پیدا کرکے اپنے جیسی مخلوق دنیا میں لا کر انہیں ہی کوسنے دیتے ہیں، اور حقوق کا واویلا کرتے ہیں۔ اور بالآخر یہی سمجھاتے ہیں کہ بچوں کا ہی ہر معاملے میں قصور ہوتا ہے۔ اگر واقعی آپ کو ان مسائل کا سامنا ہے تو بچے مت پیدا کریں، کیونکہ آپ کے جبر اور آپ کی ڈھٹائی کی وجہ سے اصل میں آپ جیسے ہی بن جاتے ہیں اور ان کا آپ جیسا بننا آپ کو خود قبول نہیں ہوتا۔

تحریر: منصور نددم
مورخہ 16 جولائی، سنہء 2025

بلوچ علیحدگی پسند اور امریکی سٹریٹیجک مفادات کا  نیکسس؟ثقلین امام کی تحریرمیں نے حال ہی میں ایک چونکا دینے والا دعویٰ سن...
16/07/2025

بلوچ علیحدگی پسند اور امریکی سٹریٹیجک مفادات کا
نیکسس؟
ثقلین امام کی تحریر

میں نے حال ہی میں ایک چونکا دینے والا دعویٰ سنا جو سابق امریکی میرین اور اب تھائی لینڈ میں مقیم اینٹی اسٹیبلشمنٹ جیوپولیٹیکل تجزیہ کار برائن برلیٹک (Brian Berletic) نے یوٹیوب پر نارویجن سرگرم کارکن اور ماہرِ تعلیم پروفیسر گلین ڈیسن (Prof. Glenn Diesen) کے چینل پر 15 جولائی کو نشر ہونے والے ایک ٹاک شو میں کیا۔ برلیٹک نے کہا: “امریکہ کے حمایت یافتہ جنگجو بلوچستان، پاکستان میں چینی انجینئروں اور ان کی حفاظت پر مامور پاکستانی سکیورٹی فورسز کو قتل کرتے ہیں۔” برائن برلیٹک کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ امریکی حمایت یافتہ جنگجو میانمار میں بھی چینی انجینئروں کو قتل کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ دعویٰ کسی سرکاری دستاویز سے تصدیق شدہ نہیں، لیکن اوپن سورس جیوپولیٹیکل تجزیوں میں اس کی مثالیں پہلے سے موجود ہیں۔

ریڈیو فری یورپ (Radio Free Europe - RFE)، یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس (U.S. Institute of Peace - USIP)، اور جریدے جیسے فارین پالیسی (Foreign Policy) اور دی ڈپلومیٹ (The Diplomat) اس بات کو دستاویزی شکل میں لا چکے ہیں کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد وہاں چھوڑی گئی امریکی جدید اسلحے کی بڑی مقدار نے بلوچ علیحدگی پسند گروہوں جیسے بلوچ لبریشن آرمی (BLA) اور اسلام پسند تنظیموں جیسے تحریک طالبان پاکستان (TTP) کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا۔ فارن پالیسی میگیزین نے 2019 میں BLA کو دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کے امریکی فیصلے پر اپنی رپورٹنگ میں افغانستان میں موجود عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں پر خدشات ظاہر کیے اور یہ وضاحت کی کہ یہ امریکہ کی چین-پاکستان اتحاد کے خلاف وسیع تر حکمت عملی سے کیسے جُڑے ہوئے ہیں۔

سوشل میڈیا ڈسکشن فورم “ریڈِٹ” (Reddit) جیسے فورمز پر، جہاں سابق دفاعی کنٹریکٹرز اور آزاد تجزیہ کار بحث کرتے ہیں، کئی صارفین نے براہِ راست سی آئی اے (CIA) اور نیشنل انڈومنٹ فار ڈیموکریسی (National Endowment for Democracy - NED) پر بلوچ علیحدگی پسندوں کو مالی امداد فراہم کرنے کا الزام لگایا تاکہ پاکستان اور ایران کے خلاف ریاستی سرپرستی میں عدم استحکام پیدا کیا جا سکے۔

ان کا کہنا ہے کہ BLA صرف چینی اہداف کو نشانہ بناتی ہے، جو امریکہ اور انڈیا کے خطے میں سٹریٹجک مفادات سے ہم آہنگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک دہائی پہلے، فارن پالیسی میگزین نے بھی 13 جنوری 2013 کو ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا: “False Flag”۔ اس مضمون میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد (Mossad) کے بلوچستان میں بغاوتوں کی پشت پناہی کے لیے سی آئی اے کا نام استعمال کرنے پر روشنی ڈالی گئی، تاکہ ایران کو غیر مستحکم کیا جا سکے۔

اگرچہ ان جنگجوؤں کی براہِ راست امریکی سرپرستی سرکاری طور پر تسلیم نہیں کی گئی، لیکن اسلحہ کے پھیلاؤ، جیوپولیٹیکل مواقع اور سٹریٹیجک خاموشی کے امتزاج سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ واشنگٹن اور بلوچ باغی نیٹ ورکس کے درمیان مفادات کی ایک خاموش اور غیر رسمی ہم آہنگی موجود ہے جو ان کے درمیان ایک “نیکسس” ہونے کا اشارہ بنتا ہے۔ یہی تناظر ہمیں بلوچ علیحدگی پسندی اور امریکی خطے میں مفادات کے ارتقائی تعلق کو سمجھنے کے لیے درکار ہے۔

بلوچ علیحدگی پسندی: تاریخی پس منظر اور جغرافیائی حکمت عملی

بلوچ بغاوت پاکستان میں آزادی کے اوائل ہی سے جاری ہے، جس کے مختلف ادوار 1948، 1958، 1973، اور سب سے شدت سے 2006 کے بعد ابھرے۔ اگرچہ اس تحریک کا بنیادی لہجہ قوم پرستانہ ہے—یعنی زیادہ خودمختاری یا مکمل آزادی کا مطالبہ—مگر اس کی جغرافیائی حیثیت، جو ایران اور افغانستان سے متصل پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع ہے اور بحیرہ عرب سے بھی جُڑی ہوئی ہے، بلوچ مسئلے کو غیر معمولی سٹریٹیجک اہمیت دے دیتی ہے۔

بلوچستان میں واقع گوادر بندرگاہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (Belt and Road Initiative - BRI) کا ایک کلیدی مرکز ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت اس کی ترقی بیجنگ کو آبنائے ملاکا (Strait of Malacca) کو بائی پاس کرتے ہوئے براہ راست بحیرہ عرب کے پانیوں تک رسائی فراہم کرتی ہے۔ امریکہ کے لیے، جو طویل عرصے سے چین کے پھیلاؤ کو روکنے اور ایران کے علاقائی اثر کو محدود کرنے کی کوشش کرتا آیا ہے، یہ بندرگاہ—اور اس کے علیحدگی پسندوں کے ذریعے عدم استحکام کا شکار ہونے کا امکان—ایک سٹریٹیجک موقع فراہم کرتی ہے۔

خطے میں امریکی مفادات

2001 میں 9/11 (نائن الیون) کے حملوں کے بعد افغانستان میں امریکی موجودگی، ایران کے خلاف پابندیاں، اور چین کے خلاف انڈو پیسیفک خطے میں روک تھام کی حکمت عملی، ان تمام عوامل نے پاکستان-ایران-چین مثلث پر امریکی توجہ میں اضافہ کیا ہے۔ اس تناظر میں بلوچ علیحدگی پسند ایک مفید دباؤ کے ذریعہ کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ بلوچوں کی مزاحمت یا لڑائی کے پیچھے اُن کی اپنی شکایتیں یا محرومیاں نہیں ہیں۔ اس مثلث کے خلاف امریکی مفادات کیا ہیں:

چین کے خلاف مزاحمت:

“سی پیک” (CPEC) کو غیر مستحکم کر کے—خاص طور پر بلوچستان میں واقع بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو نشانہ بنا کر—امریکہ نظریاتی طور پر چین کی بحیرہ عرب میں معاشی بنیاد کو کمزور کر سکتا ہے۔ BLA اور بلوچ راجی آجوئی سنگر (BRAS) کی طرف سے چینی انجینئروں، مزدوروں، اور قونصل خانوں پر متعدد حملے اس بات کا عملی اظہار ہیں کہ ان کے آپریشنل اہداف امریکی تشویشات کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔

ایران کا گھیراؤ:

ایرانی صوبہ سیستان و بلوچستان، جو پاکستانی بلوچستان سے متصل ہے، وہاں بھی بلوچ آبادی بے چینی کا شکار ہے۔ ایران مخالف امریکی پالیسی، خاص طور پر نیوکان (neoconservative) یا جارح حکومتوں کے تحت، اس امکان کو جنم دیتی ہے کہ بلوچ نسلی گروہوں کو عدم استحکام کے لیے پراکسی کے طور پر استعمال کیا جائے۔ ایران بارہا امریکہ اور اسرائیل پر گروہوں جیسے جیش العدل (Jaish al-Adl)—جو ایک سنی بلوچ مسلح تنظیم ہے اور سرحد پار حملوں میں ملوث ہے—کی پشت پناہی کا الزام لگا چکا ہے۔

افغان جنگی نظام کے باقیات:

2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد بڑی مقدار میں فوجی ساز و سامان پیچھے چھوڑا گیا۔ ریڈیو فری یورپ، USIP، اور پاکستانی انٹیلیجنس کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ امریکی اسلحہ—خصوصاً M4/M16 رائفلز اور نائٹ وژن آلات—اب بلوچ علیحدگی پسندوں اور TTP کے ہاتھوں میں نظر آ رہا ہے، جس سے یہ سوال مزید تقویت پکڑتا ہے کہ ایسے گروہوں کو مغربی اسلحے تک رسائی کیسے حاصل ہوئی۔

نظریاتی فریم ورک اور جلاوطن بلوچوں کی لابنگ

جہادی گروہوں کے برعکس، بلوچ علیحدگی پسند اپنی جدوجہد کو سیکولر قوم پرستی، جمہوریت اور نسلی خودارادیت کے تناظر میں پیش کرتے ہیں—ایسی اقدار جو مغربی لبرل بیانیے سے مطابقت رکھتی ہیں۔ اس نظریاتی ہم آہنگی نے یورپ اور شمالی امریکہ میں مقیم جلاوطن بلوچ کارکنوں کو تھنک ٹینکس، انسانی حقوق کی تنظیموں اور حتیٰ کہ امریکی کانگریس کے بعض اراکین کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں مدد دی ہے۔ بلوچ امریکن کانگریس (Baloch American Congress) مثلاً، امریکی قانون سازوں سے پاکستانی ریاست کے مبینہ مظالم کو تسلیم کرنے اور بین الاقوامی فورمز پر بلوچ مسئلہ اٹھانے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔

یہ لابنگ، اگرچہ براہِ راست امریکی ریاستی معاونت کا ثبوت نہیں، مگر ایک ہمدرد اتحاد کی نشاندہی کرتی ہے، جس میں بلوچ شکوے امریکی پالیسی سازوں کے لیے سٹریٹیجک طور پر کارآمد ہو جاتے ہیں، خواہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہوں، “سی پیک” (CPEC) کو نقصان پہنچانے کے لیے ہوں، یا چین کی کمزوریوں کو اجاگر کرنے کے لیے ہوں۔

دوغلا پن: عوامی مذمت، نجی افادیت؟

یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ بی ایل اے (BLA) کو 2019 میں امریکی محکمہ خارجہ نے غیر ملکی دہشت گرد تنظیم (Foreign Terrorist Organization - FTO) قرار دیا، اور وہ بھی ایسے وقت میں جب بی ایل اے (BLA) چینی شہریوں پر حملے کر رہی تھی۔ بظاہر یہ اقدام امریکی مفادات کے خلاف معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کے وقت اور اثرات مبہم ہیں۔ یہ فیصلہ اُس وقت سامنے آیا جب امریکہ-پاکستان تعلقات کشیدہ تھے اور پاکستان میں چینی سرمایہ کاری اپنے عروج پر تھی۔

مزید یہ کہ اس اعلان کے بعد نہ تو کوئی واضح کارروائی ہوئی اور نہ ہی امریکی پالیسی میں تبدیلی آئی۔ بلکہ امریکہ اور مغربی ممالک میں مقیم قوم پرست بلوچ گروپوں نے بی ایل اے کے حق میں لابنگ بھی کی مگر امریکی قوانین کے مطابق ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ دوہرا پن—ظاہری مذمت کے ساتھ اندرونی ہم آہنگی—کئی تجزیہ کاروں کو اس نتیجے پر لے آئی ہے کہ یہ اعلان محض سفارتی مقصد رکھتا تھا، جبکہ اصل میں خاموش حمایت یا بالواسطہ فائدہ برقرار رہا۔

یہ حکمت عملی شام کی امریکی پالیسی سے مشابہت رکھتی ہے، جہاں داعش اور دیگر باغی یا دہشت گرد گروہوں کی سرکاری سطح پر مذمت تو کی جاتی تھی، لیکن ترکی (Türkiye) کے ذریعے انٹیلیجنس اور اسلحہ کے نیٹ ورک اور سی آئی اے کی خفیہ کارروائیاں بشار الاسد کی حکومت کو کمزور کرنے میں انہی گروہوں کو مدد دیتی تھیں۔ دونوں صورتوں میں، مسلح گروہ وسیع تر نظام کی تبدیلی یا گھیراؤ کی کوشش میں استعمال ہونے والے قابلِ استعمال (dispensable) عناصر بن جاتے ہیں، جبکہ عوامی بیانیہ زمینی حقیقتوں سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔

پاکستان کی مشکل پوزیشن: خاموشی، انکار، اور مبہم حکمت عملی

چینی اہلکاروں اور سٹریٹیجک اثاثوں پر بار بار ہونے والے حملوں کے باوجود، پاکستانی حکام ش*ذ و نادر ہی بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ امریکی “نیکسس” کا ذکر کرتے ہیں۔ عام طور پر الزام بھارت، افغانستان یا ایران پر لگایا جاتا ہے، کبھی کسی امریکی ادارے پر نہیں۔ امریکہ کے بارے میں یہ خاموشی کئی وجوہات کی بنا پر ہو سکتی ہے۔ اول، اسلام آباد کا بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر انحصار—جو کہ زیادہ تر مغربی طاقتوں کے زیر اثر ہیں—اس کی سفارتی آزادی کو محدود کرتا ہے۔ دوم، پاکستانی فوج امریکی مخالفت یا مغربی اتحادیوں کو ناراض کرنے سے بچنے کے لیے دانستہ خود کو خاموش رہتی ہے، چاہے حقائق واضح ہی کیوں نہ ہوں۔

اس کے علاوہ، بلوچستان میں جائز سماجی و معاشی شکایات اور مسلح علیحدگی پسندوں کے اقدامات میں فرق نہ کرنے کی ریاستی ناکامی نے بحران کو مزید بڑھا دیا ہے۔ تمام بلوچ اختلافات—خواہ وہ پُرامن ہوں یا پرتشدد— ان کو سکیورٹی کے دائرے میں لانے سے مقامی آبادی کی ریاست سے دوری میں اضافہ ہوا ہے اور باغی جنگجوؤں کو اخلاقی جواز حاصل ہوا۔ ترقیاتی ایجنڈے اور انسدادِ بغاوت کی پالیسی کو الگ الگ رکھنے کے بجائے، اسلام آباد نے اکثر فوجی حل اپنایا، جس سے وہی بغاوت مزید مضبوط ہوئی جس کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بغیر کسی رسمی معاہدے کے سٹریٹیجک ہم آہنگی

دستیاب شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے درمیان کوئی کھلا یا رسمی اتحاد نہیں ہے۔ لیکن ان کے جیوپولیٹیکل مفادات کئی معنوں میں ہم آہنگ ہیں: بلوچ بغاوت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی “سی پیک” (CPEC) کو غیر مستحکم کرتی ہے، چین کی سرمایہ کاری (گوادر) کو خطرے میں ڈالتی ہے، اور ایران کی مشرقی سرحد پر دباؤ بڑھاتی ہے—یہ تمام عوامل امریکہ کے طویل المدتی علاقائی اہداف سے مطابقت رکھتے ہیں۔

یہ “سٹریٹیجک نیکسس”، چاہے کسی ادارے نے بنایا ہو یا حالات سے پیدا ہوا ہو، جدید پراکسی جنگوں کی پیچیدگیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ جب بڑی طاقتیں خطے کی شوریدہ تحریکوں کے سائے میں اپنی چالیں چلتی ہیں، تو بی ایل اے (BLA) جیسے گروہ بیک وقت مذمت کا نشانہ بھی بنتے ہیں اور خاموشی سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں—نہ کہ براہِ راست فنڈنگ یا اسلحے سے، بلکہ اُس غیر یقینی انتشار کے ذریعے جو عالمی طاقتوں کی خفیہ چالوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔

پاکستانی ریاست کی یہ صلاحیت—یا شاید عدمِ خواہش—کہ وہ خارجی استحصال اور داخلی بے چینی دونوں سے نمٹ سکے، اسی خلا کو بڑھاتی ہے جس میں ایسی ہم آہنگیاں اور نیکسس پروان چڑھتے ہیں۔ اس سارے کھیل میں پاکستانی ریاست کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ اس نے پرامن احتجاج اور دہشت گردی میں فرق نہ رکھ کر تقریباً تمام بلوچ نوجوانوں کو حاشیے پر کھڑا کردیا ہے اور یہ اب ریاست مہ رنگ بلوچ اور بندوق برداروں میں فرق بھی نہیں جانتی ہے۔

اگر صورتحال بگڑتی ہے تو نہ امریکہ پر انگلی اٹھائی جا سکے گی، نہ عام بلوچ کو موردِ الزام ٹھہرایا جا سکے گا، جب ریاست اپنی نااہلی چھپانے کے لیے صرف بندوق کا سہارا لے گی، تو وہ دانستہ طور پر اپنے وجود کو کمزور کرے گی اور تباہی کی ذمہ دار خود ہو گی۔

ریاست بمقابلہ لینڈ مافیا ڈان
09/07/2025

ریاست بمقابلہ لینڈ مافیا ڈان

پیدا کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں۔ اظہر سید صرف بلاسفیمی بزنس گروپ کے گھناؤنے سیاہ چہرے بے نقاب نہیں ہو رہے اور بھی بہ...
04/07/2025

پیدا کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں۔ اظہر سید
صرف بلاسفیمی بزنس گروپ کے گھناؤنے سیاہ چہرے بے نقاب نہیں ہو رہے اور بھی بہت کچھ ہو رہا ہے ۔وسوسے صرف یہی ہیں کوئی حادثہ نہ ہو جائے ۔جو کچھ چل رہا ہے ہمیں یقین ہے مختصر عرصہ میں بہار اجائے گی ۔
سی سی ڈی پنجاب میں ہر روز معاشرے کے ناسور ختم کر رہی ہے ۔ہر روز اجرتی قاتل،ڈکیٹ اور جرائم پیشہ مارے جا رہے ہیں دوسری طرف ریاست کو درپیش چیلنجز بھی ختم ہو رہے ہیں ۔ملکی سلامتی کیلئے مشرقی اور مغربی سرحدوں پر خطرات بتدریج ختم ہوتے جا رہے ہیں ۔
میر حیر بیار مری کا آج بی بی سی پر انٹرویو سنا مزا آ گیا ۔بلوچ عسکریت پسندی کے مرکزی کردار کا کہنا تھا بھارت نے انہیں تنہا چھوڑ دیا ہے ۔پہلے اربوں روپیہ کی امداد ،اسلحہ اور تمام درکار سہولتیں دیتے تھے ۔پاک بھارت مئی میں ہونے والی جنگ کے بعد بھارتی پیچھے ہٹ گئے ہیں اور پاکستانی فوج انہیں تیزی کے ساتھ ختم کر رہی ہے ۔انہوں نے کہا بھارت نے انہیں اپنے مقاصد کیلئے استمال کیا اور جب پاکستان نے آسام اور دوسری بھارتی ریاستوں میں آزادی کی تحریکوں کی معاونت شروع کی بھارتی پیچھے ہٹ گئے ،شائد دونوں ملکوں میں کوئی انڈرسٹینڈنگ ہو گئی ہے ،لیکن نقصان بلوچ تحریک کو ہوا ہے۔
میر حیر بیار مری کا یہ انٹرویو اس بات کی خوشخبری ہے بلوچ عسکریت پسندی سے جلد نجات مل جائے گی ۔یہ انٹرویو اس بات کی بھی دلیل ہے بھارتی پاکستان میں انتشار پیدا کریں گے بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کر کے قومی دھارے سے کاٹیں گے تو بھارتیوں کو اپنے ملک میں بھی یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑے گا ،سچ یہ ہے پاکستان کی نسبت بھارتیوں کا پیٹ زیادہ نرم ہے ایک دو حملوں سے ہی پھٹ جائے گا ۔
دوسری خوشخبری بھارتی فوج کے ڈپٹی آرمی چیف کا انٹرویو ہے ۔بھارتی جنرل نے اعتراف کیا ہے جنگ کے دوران پاکستان کو تمام بھارتی اہداف کی مکمل معلومات تھیں ۔چین اور ترکی پاکستان کی مدد کر رہے تھے ۔ہاتھ پاکستان کا تھا لیکن اس ہاتھ میں تلوار چینیوں کی تھی ۔بھارتی جنرل جو بھی کہے سچ تو یہ ہے پاکستان کو اگر چین کی مدد حاصل تھی تو بھارتیوں کو امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ یورپین یونین کے جدید ترین ہتھیاروں کی معاونت ملی ہوئی تھی ،لیکن پاکستانیوں نے دل کھول کر پٹائی کی ۔یہ انٹرویو اس بات کی بھی دلیل ہے بھارتی اب ایڈونچر کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے ۔
بھارتی اگر بلوچ عسکریت پسندوں کی مدد سے پیچھے ہٹ گئے ہیں تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہے طالبعلموں کا صفایا بھی چند ماہ میں ہو جائے گا ۔اگر دونوں ملکوں کے درمیان ایک دوسرے کی آزادی کی تحریکیں کی مدد نہ کرنے پر کوئی انڈرسٹینڈنگ ہوئی ہے تو پھر بلوچ عسکریت پسندوں کی طرح طالبعلم بھی سمجھو یتیم ہو گئے ہیں ۔
چین اور روس افغان حکومت کو پہلے ہی قابو کر چکے ہیں ۔امیر ہیبت اللہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے طالبعلموں سے باقاعدہ اعلان کر کے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں ۔طالبعلموں کی طرف سے خودکش حملہ سے جس نئے سلسلہ کا آغاز ہوا ہے ہم سمجھتے ہیں طالبعلموں کی یہ اپنی حکمت عملی ہے جس کے پیچھے افغان یا بھارتی نہیں ہیں ۔
سات مئی کو پاکستان پر حملہ سے پہلے بھارتی ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے ۔دس مئی کو پاکستان کی جوابی کارروائی کے بعد بھارتی زمین پر ان گرے ہیں۔ پاکستان کی عالمی سطح پر پزیرائی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔
مالکوں نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر جو ہائی برڈ نظام کا تجربہ کیا ہے اس کے پیچھے نیک نیتی اور ملک کو دوبارہ پٹری پر لانے کی مخلص کوشش ہے ۔
پنجاب میں جرائم پیشہ افراد سے نجات کے بعد سندھ میں یہ کام شروع ہو گا ۔بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں مالکان براہ راست پہلے ہی اس نیک کام میں مصروف ہیں ۔
بلاسفیمی گینگ کو جس طرح عوام کے سامنے ننگا کیا جا رہا ہے ہم سمجھتے ہیں شائد مذہبی انتہا پسندوں کو بھی لگام ڈالنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ۔
اسرائیل کے ساتھ جنگ میں ایرانیوں کو جس طرح پاکستانیوں نے سہارا دیا ہم سمجھتے ہیں پاک ایران سرحدوں پر بھی چیلنجز ختم ہو جائیں گے ۔چند ماہ کی اطمینان اور سکون سے کئی گئی کاروائیوں میں بلوچ عسکریت پسندوں کا مکو ٹھپ دیا جائے گا ۔
معاشی محاذ پر چیلنجز بہت شدید ہیں ۔بیرونی محاذوں پر بھلے کامیابیاں ہوں جب تک عوام کی مشکلات کا ازالہ نہیں ہوتا کامیابیوں کا فائدہ نہیں ہو گا ۔
مل بیٹھ کر جس طرح دوسرے فیصلے کئے جا رہے ہیں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی منصوبہ بندی بھی کی جائے ۔

کیا امریکہ جنگ میں کودے گا؟  راجہ مبین اللہ خان مغربی سامراج کی ایران کے خلاف جنگی تیاریاں مکمل اور سوچے سمجھے منصوبے کے...
21/06/2025

کیا امریکہ جنگ میں کودے گا؟ راجہ مبین اللہ خان

مغربی سامراج کی ایران کے خلاف جنگی تیاریاں مکمل اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی گئی ہیں۔ یہ کوئی فوری یا جذباتی ردعمل نہیں بلکہ طویل المیعاد حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اب جب جنگ کا آغاز ہو چکا ہے تو یہ ایک منطقی عمل بن چکا ہے جو حالات کے بہاؤ کے ساتھ آگے بڑھے گا۔ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی ایران کے سامنے شکست برداشت نہیں کر سکتے، کیونکہ اگر وہ ایران سے ہار گئے تو چین جیسے بڑے حریف سے کیسے نمٹیں گے۔ اس لیے ان کے لیے یہ جنگ ہر حال میں جیتنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

اسرائیل اور بھارت مغربی بلاک کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ بھارت تو اس معاملے میں یورپ سے زیادہ اسرائیل کے نظریات کے قریب ہے، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف دہشتگردی کے نام پر شروع کی گئی جنگوں کے حوالے سے۔ بھارت کو دہشتگردی کے الزام نے بہت فایدہ دیا ہے۔ بھارت کی خواہش ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری بیانیہ کبھی ختم نہ ہو تاکہ اس کی مسلم مخالف پالیسیوں کو عالمی سطح پر جائز قرار دیا جا سکے۔

اگر ایران کے خلاف یہ جنگ طویل ہو گئی تو یہ امریکہ کے لیے ایک بڑی مشکل بن جائے گی، کیونکہ وہ ایک لمبی جنگ میں پھنسنا نہیں چاہتا۔ اسی لیے یہ خدشہ موجود ہے کہ مغربی قوتیں بہت شدید نوعیت کا حملہ کر سکتی ہیں تاکہ ایران کو بہت جلد کمزور کر کے جنگ کو جلدی ختم کیا جا سکے۔ اس کا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ ایران کی میزائل ٹیکنالوجی، نیوکلیئر صلاحیت اور اسرائیل کو پہنچنے والا ہر ممکن خطرہ مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ ایران کو فوجی لحاظ سے مفلوج کر کے اصل ہدف کی طرف بڑھنا چاہیں گے۔

ممکنہ طور پر مغرب ایران کی قیادت کو نشانہ بنانے کی کوشش بھی کرے گا تاکہ قیادت کا نظام فوری طور پر مفلوج ہو جائے۔ یہ ان کی پرانی جنگی حکمت عملی ہے اور موجودہ حالات میں اس کا اطلاق ممکن ہے۔ ایسے میں کسی قسم کے مذاکرات یا سفارتی حل کی کوئی امید باقی نہیں رہتی۔ ان کا طرز عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خلوص نیت سے کسی بات چیت کے خواہاں نہیں بلکہ اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے پر بضد ہیں۔

ایران کو چاہیے کہ وہ بدترین حالات کے لیے ابھی سے تیاری کرے۔ قیادت کو محفوظ مقام پر منتقل کرنا، اہم دفاعی تنصیبات کو منتشر اور محفوظ بنانا، اور جو بھی جوابی کارروائی ممکن ہو وہ فوراً کی جائے۔ اگر ایران نے اپنے دفاعی وسائل کا بروقت استعمال نہ کیا تو بعد میں وہ ویسے بھی ضائع ہو جائیں گے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ایران اپنی تمام تر توانائی کے ساتھ مؤثر ردعمل دے تاکہ کم از کم اسرائیل کی invincibility کا تاثر ختم کر سکے۔

یہ صورت حال درحقیقت ایک ایسے chain reaction کی ابتدا ہے جس میں اگر ایران گرتا ہے تو مزاحمتی بلاک کے دیگر ممالک بھی یکے بعد دیگرے نشانہ بنیں گے۔ یہی وقت ہے کہ ایران اپنی قیادت، وسائل اور دفاعی طاقت کو یکجا کر کے فیصلہ کن اقدامات کرے۔ یہ جنگ ایران کی شکست پر ختم نہیں ہو گی بلکہ بہت تیزی سے آگے بڑھے گی۔ تمام مزاحمتی قوتیں ایران کے ساتھ گر جائیں گئی۔

میرے خیال میں امریکہ جنگ میں کودے گا۔ آپ کیا کہتے ہیں؟

مہدی علی بخاری: عراق سے آیت اللہ علی سیستانی صاحب نے بیان دیا ہے کہ اگر ایران کی سپریم قیادت (خامنہ ای صاحب) کو نشانہ بن...
19/06/2025

مہدی علی بخاری:

عراق سے آیت اللہ علی سیستانی صاحب نے بیان دیا ہے کہ اگر ایران کی سپریم قیادت (خامنہ ای صاحب) کو نشانہ بنایا گیا تو اس کے بھیانک نتائج ہوں گے ۔ آیت اللہ سیستانی نے کہا ہے کہ ایسا عمل وسیع پیمانے پر افراتفری کو جنم دے سکتا ہے جو اس خطے کے لوگوں کے مصائب کو بڑھا دے گا اور سب کے مفادات کو شدید نقصان پہنچائے گا۔

دوسرے لفظوں میں وہی بات ہے جو میں کہہ چکا کہ دنیا بھر میں شیعہ مسلمانوں میں اشتعال اُبھرے گا اور امریکی اسرائیلی ایسٹس یا شہری نشانہ بن سکتے ہیں۔ نئی جہادی تحریکیں وجود میں آ سکتی ہیں۔

سنی مسلمز کو اس بات کا اندازہ نہیں ہو گا آیت اللہ علی سیستانی کون ہیں۔ عرب و عجم میں شعیہ ان کے مقلد ہیں اور شاید شیعہ مسلمز میں علی سیستانی سب سے زیادہ فالو کیے جانے والی شخصیت ہیں۔ دنیا بھر کے شیعہ مسلمانوں کے لیے اعلیٰ ترین مذہبی عظیم مرجع (اتھارٹی) ہیں۔ سیستانی صاحب کو شیعہ مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی رہنما کے طور پر مانا جاتا ہے۔2004 میں عراق وار کے دوران ٹائم میگزین نے انہیں دنیا کے 100 بااثر ترین افراد میں شامل کیا۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ علی سیستانی صاحب ایرانی ولایت فقیہ نظرئیے کے قائل نہیں ہیں۔

عراق وار کے دوران ان کے ایک فتوے کے بعد شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر نے اپنی قیادت میں جنگجوؤں پر مشتمل “لشکر مہدی” بنایا تھا جس نے امریکا اور اتحادیوں کو دھول چٹا دی تھی۔ نتیجتہً امریکا کو ان سے مذاکرات کرنا پڑے تھے اور پرامن حل کی جانب آنا پڑا تھا۔ عراق میں جو حکومت بنی وہ ان کے مشورے سے بنی تھی۔

اطلاعات تو یہی ہیں کہ فیلڈ مارشل صاحب نے بھی ٹرمپ کو تفصیلاً آگاہ کر دیا تھا کہ ایران میں ریجیم چینج کا کوئی بھی منصوبہ دیرپا حل نہیں ہو گا۔ایرانی عوام قبول نہیں کریں گے۔ یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ افغانستان کی مانند ٹروپس کو ایران میں اُتارنا امریکا کے لیے نیا قبرستان ہو گا۔ یہ پیغام بھی دیا ہے کہ اس جنگ میں اُترنے سے نا صرف گریز کرنا چاہئیے بلکہ اسرائیل کو فوراً روکنا ہی دانشمندی ہے۔ایران کی بابت ٹرمپ نے فیلڈ مارشل صاحب سے رائے مانگی تھی کیونکہ پاکستان ایران کو سی آئی اے سے بہتر جانتا ہے اور ٹرمپ کا سیاسی بیانئیہ بھی یہی رہا کہ میں جنگوں کا مخالف ہوں اور تجارت کا حامی ہوں۔مگر اس پر زیونسٹس کا دباؤ بھی ہے اور نیتن یاہو اوپر سے امریکا کو جنگ میں شامل ہونے کی منت کر رہا ہے یا اس کا مطالبہ ہے کہ اگر امریکا خود نہیں آتا تو ہمیں بنکر بسٹر بموں کے ساتھ بی 2 بمبار طیارے دے جو امریکا کے پاس ہیں تاکہ وہ خود نطنز اور فردو کی زیر زمین جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا کر یہ قصہ خلاص کرے۔

ملاقات کے بعد آج پاکستان کی وزارت خارجہ نے بیان جاری کیا ہے کہ ہم اسرائیل کے پاگل پن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہے۔ عالمی برادری کو جارح کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔ ہمارے لیے برادر اسلامی ملک ایران میں جو ہو رہا ہے وہ سنجیدہ اور شدید تحفظات کا باعث ہے۔

علی سیستانی صاحب کے بیان اور پاکستان کے مشورے کے بعد صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ممکن ہے ٹرمپ اسرائیل کا ریجیم چینج مطالبہ مسترد کر دے۔ اس کام کے لیے علی خامنہ ای صاحب کو ہٹ کر کے راہ سے ہٹانا کافی نہیں ہو گا کیونکہ ان کی جگہ دوسرا مجتہد بطور سپریم لیڈر آ جائے گا۔ اس مقصد کے لیے ٹروپس کو اُتارنا ہو گا جو تہران پر قابض ہو سکیں اور پھر اپنی مرضی کی حکومت نافذ کرنے کے قابل ہوں۔

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ٹرمپ کے بارے کچھ بھی وثوق سے کہنا ممکن نہیں ہے۔ یہ انسانی جسم میں چلتا پھرتا کارٹون ہے۔ کبھی بھی اپنی ہی کسی بات سے یوٹرن لے سکتا ہے اور کہیں بھی خوامخواہ اڑ سکتا ہے۔

یہ منظر غزہ نہیں، آج صبح تیل ابیب کا ہے۔ کل رات ایران نے صہونی ریاست پر درجنوں میزائیل کا کامیاب حملہ کیا جس کی ویڈیو او...
19/06/2025

یہ منظر غزہ نہیں، آج صبح تیل ابیب کا ہے۔ کل رات ایران نے صہونی ریاست پر درجنوں میزائیل کا کامیاب حملہ کیا جس کی ویڈیو اور تصاویریں اس وقت ٹویٹر پر گردش کررہی ہیں۔ کل غزہ میں اسرائیل نے امدادی کیمپ پر بھوک سے نڈھال فلسطینیوں پر فائرنگ کرکے 70 سے زائد شہوریوں کو شہید کردیا تھا۔ آج غزہ سے لے کر لبنان میں کل رات ایران کے اسرائیل کے حملوں کے بعد جشن کا سماں ہے۔ خوفناک نسل کشی کے باوجود لوگوں کو اندر صہونی ریاست سے مزاحمت کرنے کے جذبات مٹ نہیں رہے۔

ایران یہ مقابلہ 40 سال کی بدترین اقتصادی اور عسکری پابندیوں کے باوجود کررہا یے۔ ہم اپنی نکھوں کے سامنے تاریخ رقم ہوتے دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ایک ملک تنہا امریکی سامراج اور اس کے پالتو کے آگے ڈٹ گیا یے۔ ایک زمانے میں شام لیبیا، عراق، مصر، یمن اور دیگر کئی ممالک میں سامراج مخالف حکومتیں قائم تھیں جو صہونی قوت سے لڑنے کے لئے تیار تھیں۔ ایک ایک کرکے اسرائیلی-امریکی-خلیجی گٹھ جوڑ نے ان ریاستوں کو تباہ کیا اور خطہ کے اندر آزادی اور سالمیت کے خواب کمزور کردیئے۔ ریاستیں تباہ کردی گئیں۔ اقتدار کٹھ پتلی "لیڈران" کے حوالے کردیا گیا جبکہ تیل اور دیگر قیمتی معدنیات پر امریکی اور اسرائیلی اجارہ داری قائم کرلی گئی۔ اس سب منصوبہ بندی کا مقصد کسی بھی متبادل قوت کو تباہ کرنا ہے جو استعماری حکمت عملی سے ہٹ کر فیصلہ کرسکے۔

ایران خطے میں اس سو سالہ منصوبندی کے سامنے آخری چٹان یے۔ اگر ایران کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کرکے، اس کی ٹیکنالوجی کو تباہ کرکے، اور اس کے تیل پر قبضہ کرکے وہاں پر رضا پہلوی جیسے وطن فروشوں کو بیٹھا دیا گیا تو دنیا میں کسی بھی قسم کے سامراج مخالف متبادل کا بننا مشکل ہوجائے گا۔ نسل کش ریاست ایران میں جمہوریت نہیں، غلامی مسلط کرنا چاہتی یے۔ ایران کے غیور عوام، جن کی تہذیب امریکہ اور اسرائیلی مصنوعی تہذیب سے کئی زیادہ قدیم اور پروقار ہے، کسی صورت بھی ہتھیار ڈالنے کے موڈ میں نہیں۔ اگر عارضی طور پر عسکری شکست ہو بھی گئی تب بھی عوام عراق، اور ویتنام سے زیادہ شدید مزاحمت کرے گی۔ اسی لئے امریکی اسٹیبلشمنٹ امریکی فوجوں کو ایران داخل کرنے سے گھبرا رہے ہیں کیونکہ وہ ایرانی مزاج کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔

غزہ کے باشندوں کو استعماری قوتیں انسان بھی نہیں سمجھتے۔ غزہ ایک ایسے مستقبل کی علامت ہے جو اسرائیل اور امریکہ ہم سب پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ ایران ان قوتوں سے لڑ کر اس وقت صرف اپنا دفاع نہیں کرہا یے بلکہ بڑھتے ہوئے سامراجی غلبے کے دوران انسانیت کے لئے گنجائش پیدا کررہا یے۔ ایران اور اسرائیل میں مماثلت تلاش کرنے والے بنیادی طور پر انسانیت کی تذلیل کررہے ہیں۔ باشعور لوگوں پر فرض ہے کہ اس وقت ایران کی حمایت کریں تاکہ صہونی ریاست کو خطے پر تسلط قائم کرنے سے روکا جاسکے۔ پاکستان کی سالمیت اور استحکام بھی ایران کے ساتھ جڑا ہے۔ فیلڈ مارشل صاحب کو بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ سالمیت اور استحکام سے زیادہ کوئی چیز ہمیں عزیز نہیں۔ ایک فون کال یا لنچ کی بنیاد پر خطے کی تقدیر کا فیصلہ پاکستانی عوام کبھی بھی نہیں ہونے دے گی۔

ایران کے مزاحمت کاروں پر لاکھوں سلام۔ وہ دنیا کے لئے مثال ہیں۔ امید ہے کہ اسرائیل پر مزید حملے ہوں گے۔ کیونکہ بچوں کی نسل کشی کرنے والی ریاست کے اوپر آسمان اس وقت ہی خوبصورت لگتا ہے جب وہاں پر مزاحمت کاروں کے مزائیل پرواز کررہے ہوں۔
عمار علی جان

Address

Lahore

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Pak Media صحافت posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Pak Media صحافت:

Share