08/08/2025
اعوذبالله من الشیطان الرجیم
> وَلَا تَقُولَنَّ لِشَیْءٍ إِنِّی فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا إِلَّا أَن یَشَاءَ ٱللَّهُ ۚ وَٱذْكُر رَّبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَىٰٓ أَن یَهْدِیَنِ رَبِّی لِأَقْرَبَ مِنْ هَٰذَا رَشَدًا
"اور ہرگز کسی چیز کے بارے میں یوں نہ کہا کرو کہ میں کل یہ کام ضرور کر دوں گا،
مگر یہ کہ 'اگر اللہ چاہے'۔ اور جب بھول جاؤ تو اپنے رب کو یاد کرو اور کہو: امید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے زیادہ راہ راست کی بات کی طرف ہدایت دے دے۔"
آیات کا شانِ نزول
حضرت ابن عباسؓ اور دیگر مفسرین کے مطابق، کفارِ مکہ نے رسول اللہ ﷺ سے "اصحابِ کہف"، "روح"، اور "ذوالقرنین" کے بارے میں سوالات کیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ "میں تمہیں کل جواب دوں گا" مگر آپ ﷺ نے "إن شاء الله" (اگر اللہ چاہے) نہ فرمایا۔ چنانچہ وحی تاخیر کا شکار ہوئی (تقریباً 15 دن تک)، تو یہ آیات نازل ہوئیں تاکہ نبی ﷺ اور امت کو یہ سبق دیا جائے کہ آئندہ کوئی کام کرنے کا پختہ وعدہ نہ کیا جائے جب تک "إن شاء الله" نہ کہا جائے۔
حوالہ: تفسیر ابن کثیر، صحیح مسلم، صحیح بخاری کے شروحات میں مذکور ہے کہ ان آیات کا تعلق اسی واقعہ سے ہے۔
1. ہر کام اللہ کی مشیت سے مشروط ہے:
انسان کچھ بھی کرنے کا ارادہ کرے، اللہ کی مشیت کے بغیر وہ کبھی مکمل نہیں ہو سکتا۔
قال الله تعالیٰ
"وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن یَشَاءَ اللَّهُ"
(سورہ الدہر، 30)
2. "إن شاء الله" کہنا سنت ہے:
جب بھی کوئی مستقبل کا کام ذکر کرے تو "إن شاء الله" کہنا ضروری ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
"مَن حلف فقال إن شاء الله لم يحنث"
(جو شخص کوئی قسم کھائے اور "اگر اللہ چاہے" کہے تو وہ جھوٹا نہیں ہوگا)
— (صحیح مسلم: 1654)
"جو شخص کوئی قسم کھائے اور (ساتھ) کہے: ’اگر اللہ چاہے‘، تو اس پر قسم ٹوٹنے کا گناہ نہیں ہوتا
یہ حدیث نبی کریم ﷺ کی طرف سے ایک اہم اصول سکھاتی ہے، کہ:
1. قسم کھانے میں احتیاط ضروری ہے، کیونکہ قسم ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔
2. اگر کوئی شخص کسی بات پر قسم کھاتا ہے اور اس کے ساتھ "إن شاء الله" (اگر اللہ چاہے) کہہ دیتا ہے، تو:
وہ گویا اپنے ارادے کو اللہ کی مشیت کے ساتھ مشروط کر رہا ہے۔
اگر بعد میں وہ شخص اپنی کہی ہوئی بات پر عمل نہ کر سکا، تو اس پر قسم توڑنے کا گناہ (حنث) نہیں ہو گا۔
مثال
کوئی کہے
"میں کل تمہارے ساتھ جاؤں گا، ان شاء الله!"
پھر اگر وہ کسی مجبوری سے نہ جا سکا، تو اس پر گناہ نہیں ہوگا، کیونکہ اس نے اپنی بات کو اللہ کی مشیت سے مشروط کر دیا تھا۔
یہ حدیث ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ:
زبان سے بات کرتے ہوئے "ان شاء الله" کہنا صرف ادب نہیں بلکہ عقیدہ ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم قسمیں کھاتے رہیں اور ہر بار "ان شاء الله" کہہ کر خود کو بری سمجھ لیں، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ دل میں نیت بھی اللہ کے تابع ہو
اگر کبھی "إن شاء الله" کہنا بھول جاؤ تو بعد میں فوراً ذکرِ الٰہی کر لو۔
علماء کا قول
جیسے امام قرطبی فرماتے ہیں: "یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اگر زبان سے اللہ کا ذکر رہ جائے تو بعد میں تدارک ممکن ہے۔"
4. دعا: راہِ راست کی ہدایت کی طلب:
"عَسَىٰ أَن یَهْدِیَنِ رَبِّی لِأَقْرَبَ مِنْ هَٰذَا رَشَد"
یعنی: "امید ہے میرا رب مجھے اس سے بہتر ہدایت دے" — اس میں انکساری اور اللہ پر بھروسے کا سبق ہے۔
یہ آیات رسول اللہ ﷺ کو اور امت کو سکھاتی ہیں کہ مستقبل کی کسی بات پر قطعی بات نہ کی جائے، جب تک "إن شاء الله" نہ کہا جائے۔
اللہ کی یاد انسان کی بھول کا علاج ہے۔
ہمیشہ اللہ سے ہدایت مانگنی چاہیے کیونکہ ہدایت کا راستہ وہی دکھاتا ہے۔