Zia e Adab - ضیائے ادب

Zia e Adab - ضیائے ادب Best Page of Classical and Modern Day Poetry on Internet.

25/09/2025

#50 بسلسلہ غالب شناسی
تشریح کلام غالب غزل نمبر 10 - شعر نمبر 2
بیاں کیا کیجیے بیداد کاوش ہائے مژگاں کا
کہ ہر یک قطرۂ خوں دانہ ہے تسبیح مرجاں کا

شاعر: مرزا اسد اللہ خان غالب
پروڈکشن: Zia e Adab - ضیائے ادب

Ghazal #10 | Explanation of Mirza Ghalib Poetry | Translation of Mirza Ghalib Poetry | Ghalib Shanasi | Zia e Adab

غزل نمبر 10 | مرزا غالب کی شاعری کی وضاحت | مرزا غالب کی شاعری کا ترجمہ | غالب شناسی | ضیائے ادب | تشریح کلام غالب | غالب کے اشعار کی تشریح

مکمل غزل:
ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا

بیاں کیا کیجیے بیداد کاوش ہائے مژگاں کا
کہ ہر یک قطرۂ خوں دانہ ہے تسبیح مرجاں کا

نہ آئی سطوت قاتل بھی مانع میرے نالوں کو
لیا دانتوں میں جو تنکا ہوا ریشہ نیستاں کا

دکھاؤں گا تماشا دی اگر فرصت زمانے نے
مرا ہر داغ دل اک تخم ہے سرو چراغاں کا

کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
کرے جو پرتو خورشید عالم شبنمستاں کا

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا

اگا ہے گھر میں ہر سو سبزہ ویرانی تماشا کر
مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے میرے درباں کا

خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں
چراغ مردہ ہوں میں بے زباں گور غریباں کا

ہنوز اک پرتو نقش خیال یار باقی ہے
دل افسردہ گویا حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا

بغل میں غیر کی آج آپ سوتے ہیں کہیں ورنہ
سبب کیا خواب میں آ کر تبسم ہائے پنہاں کا

نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگا
قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا

نظر میں ہے ہماری جادۂ راہ فنا غالبؔ
کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا

- مرزا اسد اللہ خاں غالب

مرزا غالب۔۔۔
25/09/2025

مرزا غالب۔۔۔

23/09/2025

#49 بسلسلہ غالب شناسی
تشریح کلام غالب غزل نمبر 10 - شعر نمبر 1
ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا

شاعر: مرزا اسد اللہ خان غالب
پروڈکشن: Zia e Adab - ضیائے ادب

Ghazal #10 | Explanation of Mirza Ghalib Poetry | Translation of Mirza Ghalib Poetry | Ghalib Shanasi | Zia e Adab

غزل نمبر 10 | مرزا غالب کی شاعری کی وضاحت | مرزا غالب کی شاعری کا ترجمہ | غالب شناسی | ضیائے ادب | تشریح کلام غالب | غالب کے اشعار کی تشریح

مکمل غزل:
ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا

بیاں کیا کیجیے بیداد کاوش ہائے مژگاں کا
کہ ہر یک قطرۂ خوں دانہ ہے تسبیح مرجاں کا

نہ آئی سطوت قاتل بھی مانع میرے نالوں کو
لیا دانتوں میں جو تنکا ہوا ریشہ نیستاں کا

دکھاؤں گا تماشا دی اگر فرصت زمانے نے
مرا ہر داغ دل اک تخم ہے سرو چراغاں کا

کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
کرے جو پرتو خورشید عالم شبنمستاں کا

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا

اگا ہے گھر میں ہر سو سبزہ ویرانی تماشا کر
مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے میرے درباں کا

خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں
چراغ مردہ ہوں میں بے زباں گور غریباں کا

ہنوز اک پرتو نقش خیال یار باقی ہے
دل افسردہ گویا حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا

بغل میں غیر کی آج آپ سوتے ہیں کہیں ورنہ
سبب کیا خواب میں آ کر تبسم ہائے پنہاں کا

نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگا
قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا

نظر میں ہے ہماری جادۂ راہ فنا غالبؔ
کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا

- مرزا اسد اللہ خاں غالب

22/09/2025

بسلسلہ غالب شناسی
تشریح کلام غالب غزل نمبر 10 (حصہ اول)
ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا

شاعر: مرزا اسد اللہ خان غالب
پروڈکشن: Zia e Adab - ضیائے ادب

Ghazal #10 | Explanation of Mirza Ghalib Poetry | Translation of Mirza Ghalib Poetry | Ghalib Shanasi | Zia e Adab

غزل نمبر 10 | مرزا غالب کی شاعری کی وضاحت | مرزا غالب کی شاعری کا ترجمہ | غالب شناسی | ضیائے ادب | تشریح کلام غالب | غالب کے اشعار کی تشریح

مکمل غزل:
ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا

بیاں کیا کیجیے بیداد کاوش ہائے مژگاں کا
کہ ہر یک قطرۂ خوں دانہ ہے تسبیح مرجاں کا

نہ آئی سطوت قاتل بھی مانع میرے نالوں کو
لیا دانتوں میں جو تنکا ہوا ریشہ نیستاں کا

دکھاؤں گا تماشا دی اگر فرصت زمانے نے
مرا ہر داغ دل اک تخم ہے سرو چراغاں کا

کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
کرے جو پرتو خورشید عالم شبنمستاں کا

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا

اگا ہے گھر میں ہر سو سبزہ ویرانی تماشا کر
مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے میرے درباں کا

خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں
چراغ مردہ ہوں میں بے زباں گور غریباں کا

ہنوز اک پرتو نقش خیال یار باقی ہے
دل افسردہ گویا حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا

بغل میں غیر کی آج آپ سوتے ہیں کہیں ورنہ
سبب کیا خواب میں آ کر تبسم ہائے پنہاں کا

نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگا
قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا

نظر میں ہے ہماری جادۂ راہ فنا غالبؔ
کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا

- مرزا اسد اللہ خاں غالب

21/09/2025

ارحا اور مرحا سے سنئیے بھرتری ہری کا ایک شعر۔۔۔ 😍

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
- بھرتری ہری

21/09/2025

چلو اتنا تو یہ کار وفا اچھا رہے گا
سنانے کے لیے اک ماجرا اچھا رہے گا

تری یہ اتنی اچھائی ہی تیرا مسئلہ ہے
کوئی ایسے میں تیرے ساتھ کیا اچھا رہے گا

سنا ہے وہ دعا کرنے سے پہلے سوچتے تھے
کہاں کب کونسا کیسا خدا اچھا رہے گا

مروت میں لٹا بیٹھے ہیں اپنے خواب تک ہم
نصیحت کے لیے یہ واقعہ اچھا رہے گا

میں کچھ یوں بھی بہ آسانی ستم سہتا ہوں اکثر
ستم سہتے ہوئے یہ سلسلہ اچھا رہے گا

برا بھی بننا پڑتا ہے کسی اچھے کی خاطر
مگر یہ سوچ لو کتنا برا اچھا رہے گا

اگرچہ بھول جاتا ہوں کسی کا کام آنا
مشاغل میں مگر یہ مشغلہ اچھا رہے گا

ریا کاری میں تھی جیسی مہارت اس کو شاکر
مجھے معلوم تھا،وہ بے حیا اچھا رہے گا
- عدیل شاکر

فیض احمد فیض۔۔۔
21/09/2025

فیض احمد فیض۔۔۔

20/09/2025

گماں یہ ہے کہ مشیت نے سوچ کر رکھا
کسی پہ خبط کسی کے بدن پہ سر رکھا

مجھے یہ ڈر تھا کہ آنسو نہ خشک ہو جائیں
سو رات آنکھ کو ہنس ہنس کے میں نے تر رکھا

میں چل رہا تھا سمندر پہ بے نیازی سے
کہ لاشعور نے اک جست پر بھنور رکھا

ترا غرور بھلا چیز کیا کہ ہم نے تو
خود اپنے نفس کو جوتے کی نوک پر رکھا

تمہارے ناز اٹھانے سبک سبک پہنچا
جو اپنے ذہن کا تھا بوجھ اپنے گھر رکھا

غزل چشیدہ ہیں ہم، یہ ہمارا شیوہ ہے
ادھوری بات نہ کی، قصہ مختصر رکھا

- مدبر آسان

احمد فراز۔۔۔۔
20/09/2025

احمد فراز۔۔۔۔

20/09/2025

تم تھیں؟ جس نے دولتِ غم سے دل کو بہرہ مند کیا
شاد رہو آباد رہو تم، تم نے ہمیں خورسند کیا

پونجی میں تھا ایک خیال اور ایک سوال سو کرتا کیا
اس کا میں نے برج بنایا اس کو میں نے کمند کیا

نوبت یہ آ پہنچی ہے اب فرق بتانا پڑتا ہے
کس نے کسا تھا آوازہ اور کس نے نعرہ بلند کیا

شیشوں پر جب کورا جمتے دیکھا میں نے رات گئے
وحشت کو سینے میں رکھا اور جیکٹ کو بند کیا

پاوں میں چکر ہوتا تھا اور خواب افق کے آتے تھے
مٹی نے زنجیر اگا کر آنکھوں کو پابند کیا

آدھے پاگل آدھے دانا کس مشکل میں رہتے ہیں
رات گریباں چاک کیا پھر صبح تلک پیوند کیا

باغوں میں میں نے اک باغ اور اس نے باغ میں پھول چنا
اس نے خوش بو اور خوش بو میں میں نے اس کو پسند کیا

- مدبر آسان

Address

Lahore

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Zia e Adab - ضیائے ادب posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Zia e Adab - ضیائے ادب:

Share