Zia e Adab - ضیائے ادب

Zia e Adab - ضیائے ادب Best Page of Classical and Modern Day Poetry on Internet.

10/05/2025

بہت سے کام رہتے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
کروڑوں لوگ بُھوکے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی

کھلونوں والی عُمروں میں اِنہیں ہم موت کیوں بانٹیں ؟
بڑے معصوم بچے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی

پڑوسی یار ! جانے دو، ہنسو اور مسکرانے دو
مسلسل اشک بہتے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی

بھلا اقبال و غالب کا کہاں بٹوارہ ممکن ہے ؟
کہ یہ سانجھے اثاثے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی

اگر نفرت ضروری ہے تو سرحد پر اکٹھے کیوں ؟
پرندے دانہ چُگتے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی

چلو مل کر لڑیں ہم تُم جہالت اور غربت سے
بہت سپنے اُدھورے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی

سنبھالیں اُن کو مل جُل کر سکھائیں فن محبت کا
بہت جوشیلے لڑکے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی

اِدھر لاہور اُدھر دِلّی، کہاں جائیں گے ہم فارس
یہی دو چار قصبے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی

رحمان فارس

نہ گیا خیال زلف سیہ جفا شعاراں نہ ہوا کہ صبح ہووے شب تیرہ روزگاراں نہ کہا تھا اے رفوگر ترے ٹانکے ہوں گے ڈھیلے نہ سیا گیا...
29/03/2025

نہ گیا خیال زلف سیہ جفا شعاراں
نہ ہوا کہ صبح ہووے شب تیرہ روزگاراں

نہ کہا تھا اے رفوگر ترے ٹانکے ہوں گے ڈھیلے
نہ سیا گیا یہ آخر دل چاک بے قراراں

ہوئی عید سب نے پہنے طرب و خوشی کے جامے
نہ ہوا کہ ہم بھی بدلیں یہ لباس سوگواراں

خطر عظیم میں ہیں مری آہ و اشک سے سب
کہ جہان رہ چکا پھر جو یہی ہے باد و باراں

کہیں خاک کو کو اس کی تو صبا نہ دیجو جنبش
کہ بھرے ہیں اس زمیں میں جگر جگر فگاراں

رکھے تاج زر کو سر پر چمن زمانہ میں گل
نہ شگفتہ ہو تو اتنا کہ خزاں ہے یہ بہاراں

نہیں تجھ کو چشم عبرت یہ نمود میں ہے ورنہ
کہ گئے ہیں خاک میں مل کئی تجھ سے تاجداراں

تو جہاں سے دل اٹھا یاں نہیں رسم دردمندی
کسی نے بھی یوں نہ پوچھا ہوئے خاک یاں ہزاراں

یہ اجل سے جی چھپانا مرا آشکار ہے گا
کہ خراب ہوگا مجھ بن غم عشق گل غداراں

یہ سنا تھا میرؔ ہم نے کہ فسانہ خواب لا ہے
تری سر گذشت سن کر گئے اور خواب یاراں

- میر تقی میر

برائی میں ہماری گر وہ اپنا کچھ بھلا سمجھےبرا سمجھے برا سمجھے برا سمجھے برا سمجھے- استاد ذوق
28/03/2025

برائی میں ہماری گر وہ اپنا کچھ بھلا سمجھے
برا سمجھے برا سمجھے برا سمجھے برا سمجھے

- استاد ذوق

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیادیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیاعہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنک...
12/03/2025

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا

حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی
ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں
بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا

سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا

کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام
کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا

شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا مے خانے میں
جبہ خرقہ کرتا ٹوپی مستی میں انعام کیا

کاش اب برقعہ منہ سے اٹھا دے ورنہ پھر کیا حاصل ہے
آنکھ مندے پر ان نے گو دیدار کو اپنے عام کیا

یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا

صبح چمن میں اس کو کہیں تکلیف ہوا لے آئی تھی
رخ سے گل کو مول لیا قامت سے سرو غلام کیا

ساعد سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیئے
بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خیال خام کیا

کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت سے
استغنا کی چوگنی ان نے جوں جوں میں ابرام کیا

ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی
سحر کیا اعجاز کیا جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا

میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا

- میر تقی میرؔ

Mir Taqi Mir Poetry


خیرات صرف اتنی ملی ہے حیات سےپانی کی بوند جیسے عطا ہو فرات سےشبنم اسی جنوں میں ازل سے ہے سینہ کوبخورشید کس مقام پہ ملتا ...
11/03/2025

خیرات صرف اتنی ملی ہے حیات سے
پانی کی بوند جیسے عطا ہو فرات سے

شبنم اسی جنوں میں ازل سے ہے سینہ کوب
خورشید کس مقام پہ ملتا ہے رات سے

ناگاہ عشق وقت سے آگے نکل گیا
اندازہ کر رہی ہے خرد واقعات سے

سوئے ادب نہ ٹھہرے تو دیں کوئی مشورہ
ہم مطمئن نہیں ہیں تری کائنات سے

ساکت رہیں تو ہم ہی ٹھہرتے ہیں با قصور
بولیں تو بات بڑھتی ہے چھوٹی سی بات سے

آساں پسندیوں سے اجازت طلب کرو
رستہ بھرا ہوا ہے عدمؔ مشکلات سے

- سید عبدالحمید عدمؔ

Abdul Hameed Adam Poetry


10/03/2025

غزل

تری ہنسی میں رنگ بھر رہی تھی میں
کہ چاندنی کو پینٹ کر رہی تھی میں

بدن کی لو میں دشت شب عبور کر
وہ کہہ رہا تھا اور کر رہی تھی میں

پھر اس کے بعد سے یہ دل ہے داغ داغ
بس ایک رات چاند پر رہی تھی میں

ترے جمال سے ادھر خلا نہ تھا
ترے جمال سے ادھر رہی تھی میں

مرے طواف میں تھی ساری کائنات
کہ جب ترا طواف کر رہی تھی میں

مجھے تراشتا تھا رات دن کوئی
کسی کے واسطے سنور رہی تھی میں

تری طلب ، نشہ تھا ایک عمر کا
اتر رہا تھا جب تو مر رہی تھی میں

ترا فراق جیسے عطر وصل تھا
اور اس کے نم میں تر بتر رہی تھی میں

عجیب مرحلہ تھا کشف ذات کا
میں روشنی تھی اور بکھر رہی تھی میں

- صائمہ زیدی

10/03/2025

مرے ہم سفر، تجھے کیا خبر!
یہ جو وقت ہے کسی دُھوپ چھاؤں کے کھیل سا
اِسے دیکھتے، اِسے جھیلتے
مِری آنکھ گرد سے اَٹ گئی
مِرے خواب ریت میں کھو گئے
مِرے ہاتھ برف سے ہو گئے
مِرے بے خبر، ترے نام پر
وہ جو پُھول کھلتے تھے ہونٹ پر
وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر،
وہ نہیں رہے
وہ نہیں رہے کہ جو ایک ربط تھا درمیاں وہ بکھر گیا
وہ ہَوا چلی
کسی شام ایسی ہَوا چلی
کہ جو برگ تھے سرِ شاخِ جاں، وہ گرا دیئے
وہ جو حرف درج تھے ریت پر، وہ اُڑا دیئے
وہ جو راستوں کا یقین تھے
وہ جو منزلوں کے امین تھے
وہ نشانِ پا بھی مِٹا دیئے!
مرے ہم سفر، ہے وہی سفر
مگر ایک موڑ کے فرق سے
ترے ہاتھ سے مرے ہاتھ تک
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
کئی موسموں میں بدل گیا
اُسے ناپتے، اُسے کاٹتے
مرا سارا وقت نکل گیا
تو مِرے سفر کا شریک ہے
میں ترے سفر کا شریک ہوں
پہ جو درمیاں سے نکل گیا
اُسی فاصلے کے شمار میں
اُسی بے یقیں سے غبار میں
اُسی رہگزر کے حصار میں
ترا راستہ کوئی اور ہے
مرا راستہ کوئی اور ہے

- امجد اسلام امجد

تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیںایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیںکس کو خبر تھی سانولے بادل بن برسے ...
10/03/2025

تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں
ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں

کس کو خبر تھی سانولے بادل بن برسے اڑ جاتے ہیں
ساون آیا لیکن اپنی قسمت میں برسات نہیں

ٹوٹ گیا جب دل تو پھر یہ سانس کا نغمہ کیا معنی
گونج رہی ہے کیوں شہنائی جب کوئی بارات نہیں

غم کے اندھیارے میں تجھ کو اپنا ساتھی کیوں سمجھوں
تو پھر تو ہے میرا تو سایہ بھی میرے ساتھ نہیں

مانا جیون میں عورت اک بار محبت کرتی ہے
لیکن مجھ کو یہ تو بتا دے کیا تو عورت ذات نہیں

ختم ہوا میرا فسانہ اب یہ آنسو پونچھ بھی لو
جس میں کوئی تارا چمکے آج کی رات وہ رات نہیں

میرے غمگیں ہونے پر احباب ہیں یوں حیران قتیلؔ
جیسے میں پتھر ہوں میرے سینے میں جذبات نہیں

- قتیلؔ شفائی

Qateel Shifai Poetry
Zia e Adab Studios


یارو کسی قاتل سے کبھی پیار نہ مانگواپنے ہی گلے کے لیے تلوار نہ مانگوگر جاؤ گے تم اپنے مسیحا کی نظر سےمر کر بھی علاج دل ب...
08/03/2025

یارو کسی قاتل سے کبھی پیار نہ مانگو
اپنے ہی گلے کے لیے تلوار نہ مانگو

گر جاؤ گے تم اپنے مسیحا کی نظر سے
مر کر بھی علاج دل بیمار نہ مانگو

کھل جائے گا اس طرح نگاہوں کا بھرم بھی
کانٹوں سے کبھی پھول کی مہکار نہ مانگو

سچ بات پہ ملتا ہے سدا زہر کا پیالہ
جینا ہے تو پھر جینے کا اظہار نہ مانگو

اس چیز کا کیا ذکر جو ممکن ہی نہیں ہے
صحرا میں کبھی سایۂ دیوار نہ مانگو

- قتیلؔ شفائی

Qateel Shifai Poetry
Zia e Adab Studios


دل میں اس شوخ کے جو راہ نہ کیہم نے بھی جان دی پر آہ نہ کیپردہ پوشی ضرور تھی اے چرخکیوں شب بوالہوس سیاہ نہ کیتشنہ لب ایسے...
08/03/2025

دل میں اس شوخ کے جو راہ نہ کی
ہم نے بھی جان دی پر آہ نہ کی

پردہ پوشی ضرور تھی اے چرخ
کیوں شب بوالہوس سیاہ نہ کی

تشنہ لب ایسے ہم گرے مے پر
کہ کبھی سیر عید گاہ نہ کی

اس کو دشمن سے کیا بچائے وہ چرخ
جس نے تدبیر خسف ماہ نہ کی

کون ایسا کہ اس سے پوچھے کیوں
پرسش حال داد خواہ نہ کی

تھا بہت شوق وصل تو نے تو
کمی اے حسن تاب گاہ نہ کی

عشق میں کام کچھ نہیں آتا
گر نہ کی حرص و مال و جاہ نہ کی

تاب کم ظرف کو کہاں تم نے
دشمنی کی عدو سے چاہ نہ کی

میں بھی کچھ خوش نہیں وفا کر کے
تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی

محتسب یہ ستم غریبوں پر
کبھی تنبیہ بادشاہ نہ کی

گریہ و آہ بے اثر دونوں
کس نے کشتی مری تباہ نہ کی

تھا مقدر میں اس سے کم ملنا
کیوں ملاقات گاہ گاہ نہ کی

دیکھ دشمن کو اٹھ گیا بے دید
میرے احوال پر نگاہ نہ کی

مومنؔ اس ذہن بے خطا پر حیف
فکر آمرزش گناہ نہ کی

- مومن خان مومنؔ

Momin Khan Momin Poetry
Zia e Adab Studios

ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھےصبح وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھےڈھونڈے ہے اس مغنی آتش نفس کو جیجس کی صدا ہو جلوۂ برق فنا مجھے...
07/03/2025

ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
صبح وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے

ڈھونڈے ہے اس مغنی آتش نفس کو جی
جس کی صدا ہو جلوۂ برق فنا مجھے

مستانہ طے کروں ہوں رہ وادی خیال
تا باز گشت سے نہ رہے مدعا مجھے

کرتا ہے بسکہ باغ میں تو بے حجابیاں
آنے لگی ہے نکہت گل سے حیا مجھے

کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے

واں رنگ ‌ہا بہ پردۂ تدبیر ہیں ہنوز
یاں شعلۂ چراغ ہے برگ حنا مجھے

پرواز‌ ہا نیاز تماشائے حسن دوست
بال کشادہ ہے نگۂ آشنا مجھے

از خود گزشتگی میں خموشی پہ حرف ہے
موج غبار سرمہ ہوئی ہے صدا مجھے

تا چند پست فطرتیٔ طبع آرزو
یا رب ملے بلندیٔ دست دعا مجھے

میں نے جنوں سے کی جو اسدؔ التماس رنگ
خون جگر میں ایک ہی غوطہ دیا مجھے

ہے پیچ تاب رشتۂ شمع سحر گہی
خجلت گدازیٔ نفس نارسا مجھے

یاں آب و دانہ موسم گل میں حرام ہے
زنار واگسستہ ہے موج صبا مجھے

یکبار امتحان ہوس بھی ضرور ہے
اے جوش عشق بادۂ مرد آزما مجھے

- مرزا اسداللہ خان غالبؔ

Mirza Ghalib Poetry
Zia e Adab Studios


دل سی چیز کے گاہک ہوں گے دو یا ایک ہزار کے بیچانشاؔ جی کیا مال لیے بیٹھے ہو تم بازار کے بیچپینا پلانا عین گنہ ہے جی کا ل...
07/03/2025

دل سی چیز کے گاہک ہوں گے دو یا ایک ہزار کے بیچ
انشاؔ جی کیا مال لیے بیٹھے ہو تم بازار کے بیچ

پینا پلانا عین گنہ ہے جی کا لگانا عین ہوس
آپ کی باتیں سب سچی ہیں لیکن بھری بہار کے بیچ

اے سخیو اے خوش‌ نظرو یک گونہ کرم خیرات کرو
نعرہ زناں کچھ لوگ پھریں ہیں صبح سے شہر نگار کے بیچ

خار و خس و خاشاک تو جانیں ایک تجھی کو خبر نہ ملے
اے گل خوبی ہم تو عبث بدنام ہوئے گلزار کے بیچ

منت قاصد کون اٹھائے شکوہ دریاں کون کرے
نامۂ شوق غزل کی صورت چھپنے کو دو اخبار کے بیچ

- ابنِ انشاء


Address

Lahore

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Zia e Adab - ضیائے ادب posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Zia e Adab - ضیائے ادب:

Share