24/05/2024
[بیٹی کا سوال]
اے میری ماں!
تو اپنی ما ں سے اتنا پیار کرتی ھے
تو خوداک ماں ھے
اور وہ اب بھی تجھ کو ڈانٹ لیتی ھے
تو اس کی جاۂز اور نا جاۂز ہر اک بات سنتی ھے
نہ شکوہ لب پہ ہے تیرے، نہ ہیونٹوں پر شکایت ھے
يہ تیری کیسی چاہت ھے؟
یہ کیسی تیری الفت ہے؟
ہزاروں باردیکھا ھے
بے مقصد ٹوک دیتی ہیں
لحاظ اتنا نہیں ان کو کہ ہم سب پاس ہوتے ہیں
وہ اکثرغلط ہوتی ھے
تو بس خاموش رہتی ھے
سراسرظلم ھے، ہر بات کو برداشت کر جانا
زباں کھلتی نہیں اس پر ادب اتنا زیادہ کیوں؟
یہ چاہا میں نے اکثر
آ کے ان کو ٹوک دوں یکسر
زباں جب کھو لنا چاہی
ہمیشہ آڑے تو آۂی
بحث اتنی وہ کرتی ہیں کہ
میں سٹپٹا کر
چڑ کر مجبور ہو
تجھے اور تیری ماں کو
تمھارے حال پر بس چھوڑ دیتی ہوں
اکیلی جب میں ہوتی ہوں تو پھر یہ سوچتی ہوں ماں!
شرافت کیسی ھے تیری ، یہ کیسی تیری الفت ھے؟
[ماں کا جواب]
اے میری پیاری راج دلاری!
ابھی کچا ذہن ھے اور لڑکپنن کا بھی سایہ ھے
نظر تیری میں ظاہر ھے
یہ باطن کا اجالا ھے
تھکن سے چور، جھریوں سے بھرے ہاتھوں کو دیکھو تم
سہارے تھے یہی میرے
کہ جب محتاج تھی بے بس تھی اور مجبورتھی بالکل
بلا ۂیں سو دفعہ لیتے ہوۂے تھکتے نہیں تھے یہ
میرا جو بس چلے بیٹی!
ہزاروں بار چوموں میں، یہ پاؤں
جن کے نیچے
جنتیں میری سمٹ آۂیں
کبھی رکتے کہاں تھے
میری خواہش پر کٹھن تر منزلیں بھی پار کرجاتے
یہ سوتی جاگتی آنکھیں
جو اب نزدیک کے منظر
کا بھی ادراک نہ پاۂیں
میری ہر اک ادا پرنورکی مانند برستی تھیں
کبھی جو آنکھ لگ جا تی
میری ہلکی سی کروٹ پر
فکر سے سو نہ پاتی تھیں
جسم کے بھار سے جھکتے ہوۓ کمزوریہ کندھے
ہمیشہ غم میں آ کر
میرے جتنے بھی آنسوتھے سبھی ان پر بھاۓ تھے
دکھوں کے بوجھ اپنے سب انہی پر تو اتارے تھے
لہو بن کر رگوں میں آج تک ہے دوڑتا پھرتا
کبھی ان چھاتیوں نے دودھ کے چشمے لٹا ۓ تھے
کبھی میں جان پا تی کیا؟
بڑی مشکل مسافت تھی
جب امرت اپنی چھاتی سے تیرے منہ میں انڈیلا تھا
وہ لمحہ آگہی کا تھا
اے میری جان!
قدر کیسےکروں نہ میں
اگر تخلیق کے لمحے
تیری صورت میں میری جاں
مجھے بخشے نہیں جاتے
کبھی نہ جان پاتی میں
ابھی تو کم عمر ھے
بات کو کیسے تو سمجھے گی؟
یہی تو موجزن ھے
میری نس نس میں
میرے ہر ایک خلیے میں
میری ماں کی محبت ھے
اے جان مادر!
میری ماں کا سراپا
اس میں ممتا سے بھرا یہ دل
محبت بےشمار اتنی
کہ دنیامیں کوئ بھی کرنہ پاۓ گا
تو پھر کیا ھے جو اس پیری میں
ساری زندگی مجھ پر محبت وارنے والی
ذرا بچپن کی جانب لوٹ آئي ہیں
کبھی تھک کربڑھابے سے کبھی انجان سوچوں میں
کچھ ایسا کہہ دیا مجھکو
مجھے بےزار کر ڈالا
میری پیاری!
ذرا سا عم میرے چہرے پر
اگروہ دیکھ لیتی ہیں بڑی بے چین رہتی ہیں
میں اکثر دیکھتی ہوں رات کواٹھ کر دعائيں مانگتی ہیں
روتی ہیں بلکتی ہیں میری خوشیوں کی خاطر وہ
یہ میری کامیابی سب اسی منت کا تحفہ ہے
وگرنہ کون میں اور میری اوقات ہی کیا ہے
تو پھر کیا فرق پڑتا ہے
سنو!
یہ سچ ہے کہ میرا بھی ظرف چھوثا ہے
میں چاہ کر بھی کبھی ویسی محبت کر نیہں سکتی
یہ رتبہ، ممتاکا مقام اوریہ مخبت
مجھ تب سمجھ آ یا تھا
محورے حیات بن کر جب تم مری دنیا میں آئ تھی
تبھی تو میں نے پہچانا
اس ذات بزرگ و برتر کو
اسی نے شرف بخشا، صاحپ تخلیق کا مجھ کو
میری بیٹی!
ابھی تو ناسمجھ ، نادان ہے، معصوم ہے بیاری
ابھی بے لوث رشتوں کو سمجھنے میں
میری باتوں کے ترے دل تک پہنچنے میں
ذرا کچھ وقت لگنا ہے
وہ دن آۓ گا جب بیٹی تیری بھی تجھ سے پو چھے گی
کہ اے ماں!
تو کیوں سنتی ھے
اپنی ماں کی کڑوي کسیلی کو؟
توکیوں خاموش رہتی ہے
تو اس دن شاید تو مسکرا دے گی
اور کچھ نہ کہہ پاۓ گی
سواۓ اس کے کہ اے میری بیٹی!
تو ابھی بچی ھے
عمر کی کچی ھے
تجھے کچھ وقت لگنا ہے
ابھی ان بےلوث رشتوں کے سمجھنے میں
یہ اک لمبا سفر ہے
ماں کی ممتا سے اس ذات اقد س تک پہنچنے کا
راحیلہ