Aajsocialpolitics

Aajsocialpolitics Aaj Social Politics is a social critic facebook and Youtube Channel We share research based social issues, and political issues

11/07/2025

محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ
وزیراعلیٰ پنجاب
لاہور

محترمہ وزیر اعلیٰ صاحبہ،
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته

بصد احترام گزارش ہے کہ آپ کی قیادت میں پنجاب میں مثبت تبدیلیاں آ رہی ہیں، جو قابلِ ستائش ہیں۔

میری آپ سے مؤدبانہ اپیل ہے کہ CCD فورس میں اُن تمام افراد کو بھی شامل کیا جائے جنہیں معاشرے میں "بدمعاش" یا گمراہ تصور کیا جاتا ہے، لیکن وہ اب اپنے ماضی کو چھوڑ کر قانون کا حصہ بننا اور ریاست کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔

ایسے افراد اگر درست تربیت اور نظم و ضبط کے ساتھ سیکیورٹی فورسز میں شامل کیے جائیں تو نہ صرف ان کا مستقبل سنور سکتا ہے بلکہ وہ معاشرے میں امن قائم رکھنے میں بھی مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

براہِ کرم ان نوجوانوں کو CCD فورس میں شامل کر کے انہیں بھی ایک باعزت اور نیا موقع فراہم کیا جائے۔ یہ قدم نہ صرف اصلاحِ معاشرہ ہوگا بلکہ حکومتی فراست کا عملی مظاہرہ بھی ہوگا۔

اللہ تعالیٰ آپ کو صحت، استقامت اور مزید کامیابیاں عطا فرمائے۔ آمین

والسلام

راجہ محمد شعیب











STudio DHai old is Gold**انور مسعود:** معافی سر! انور مسعود جی سے۔ جی سر، میں خود بات کر رہا ہوں۔ مہربانی، کہیں فون کرنا...
05/07/2025

STudio DHai old is Gold

**انور مسعود:** معافی سر! انور مسعود جی سے۔ جی سر، میں خود بات کر رہا ہوں۔ مہربانی، کہیں فون کرنا ہے تو کر لو۔ میرا نہیں ہے، نہیں آپ اِس کو رکھیں۔ اچھا، تھینک یو۔

**مقدم:** کب بلاؤ گے؟

**پروڈیوسر:** میں ابھی بلاتا ہوں آپ کو، بیٹھیں! خبروں سے پہلے بلانا۔

**مقدم:** خبروں سے پہلے؟ وہ کیوں؟

**پروڈیوسر:** اِس لیے کہ جنہوں نے سفارش کی ہے، پتہ نہیں خبروں کے بعد وہ رہتے بھی ہیں یا نہیں۔ ویسے اندر کی بات بتاتا ہوں، یسٹرڈے (Yesterday) ہی واز ہیئر (he was here)۔

**مقدم:** آپ تشریف رکھیں، میں بلاتا ہوں۔ میں آپ سب سے معافی چاہتا ہوں، خواتین و حضرات! اسٹوڈیو ڈھائی کے میرے پہلے مہمان ہیں۔ آپ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ کا خاندان ہمارا قومی سرمایہ ہے۔ آپ کے خاندان نے اِس ملک کو بنانے کے لیے، بچانے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دی۔ آپ کی ذات نوجوانوں کے لیے ایک روشنی، ایک جانا پہچانا نام، بڑا معتبر نام۔ اسٹوڈیو ڈھائی کے پہلے مہمان تشریف لاتے ہیں **چوہدری امداد**!

---

[تعریف] [موسیقی]

**چوہدری امداد:** میں اپنی سیئنگ (saying) پھر ریپیٹ کرتا ہوں کہ وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی جس کو وقت کا احساس نہ ہو۔ دیکھیں اگر آپ شروع میں میرا کارڈ پڑھ لیتے، شروع میں اگر آپ میرا کارڈ پڑھ لیتے تو یہ زحمت نہیں اٹھانی پڑتی کہ مجھے 051 ملانا پڑتا۔ سرکاری خزانے کے اوپر بوجھ پڑا اِس لیے کہ فون ایک سرکاری افسر کا ہے، سمجھے آپ؟ اور یہ ہم کتنی دیر سے شروع کر چکے ہوتے۔ خیر کوئی بات نہیں۔

**مقدم:** چوہدری صاحب، ہاں، ایک بات بتائیں، جی ابھی ٹیلی فون پر مجھ سے کہا گیا کہ آپ کا خاندان ایک قومی سرمایہ ہے۔ ہاں جی، اِس کی وضاحت کریں گے ذرا؟

**چوہدری امداد:** ہاں جی، قومی... ایک بات بتائیں یار! جنہوں نے آپ سے فون پر کہا ہے کہ میرا خاندان جو ہے قومی سرمایہ ہے، اُن سے کیوں نہیں پوچھ لیا آپ نے؟ اُن سے کیوں نہیں پوچھا کہ اُنہوں نے میرے خاندان کو قومی سرمایہ کیوں کہا؟ میں کہتا ہوں آپ لوگ عجیب قسم کے لوگ ہیں۔ وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی جن کو ٹائم کا احساس نہ ہو۔ بتائیے دنیا کدھر سے کدھر پہنچ گئی ہے اور آپ اِس چکر میں لگے ہیں کہ جی اُنہوں نے میرے خاندان کو قومی سرمایہ کیوں کہا؟ کمال کرتے ہیں آپ لوگ!

**چوہدری امداد:** کمال! کوریا اینڈ پاکستان اسٹارٹڈ ٹو گیدر اِن ترقی (Korea and Pakistan started together in progress) ایک ساتھ۔ آج کوریا کدھر سے کدھر پہنچ گیا ہے اور ہم جدھر سے چلے تھے وہاں سے ساڑھے تین میل اور پیچھے چلے گئے!

**مقدم:** آپ کو وجہ معلوم ہے کوریا کی ترقی کی؟

**چوہدری امداد:** نہیں! آپ زیادہ ذہانت کا مظاہرہ فرما رہے ہیں۔ آپ ہی بتائیے کوریا میں سفارش نہیں چلتی؟

**مقدم:** اچھا جن چیزوں کے بارے میں معلوم نہ ہو نا، تو اُس کے بارے میں اتنے وثوق سے نہ بولا کریں۔ یعنی آپ کو معلوم ہے کوریا میں سفارش چلتی ہے؟

**چوہدری امداد:** جی ہاں، چلتی ہے۔

**مقدم:** آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟

**چوہدری امداد:** سمجھ لیجیے آپ گھوڑے کے منہ سے سن رہے ہیں۔ گھوڑے کے منہ سے! وہ کیا انگریزی میں کہتے ہیں، فرام دا ہارس ماؤتھ (from the horse's mouth)۔ ہاں، میں آپ کو بتاتا ہوں 1984 کے اندر کوریا کے لیے ایک ڈیلی گیشن (delegation) جا رہا تھا۔ ڈیلی گیشن... کیشن نہیں، اُس میں خواتین بھی تھیں اِس لیے کیشن لگایا ہے، سمجھے؟ کوریا کے لیے 1984 میں ایک ڈیلی گیشن جا رہا تھا۔ اُس ڈیلی گیشن میں میں سفارش سے گیا تھا۔

**مقدم:** تو اِس میں کوریا کہاں سے آ گیا؟ یہ تو ہمارے وطن میں سفارش ہوئی تھی۔

**چوہدری امداد:** لیکن میرے سرکار! ڈیلی گیشن تو کوریا کے لیے تھا۔

**مقدم:** چوہدری صاحب ایک بات بتائیں مجھے، کیا آپ نے زندگی میں کبھی کوئی کام بغیر سفارش کے کیا؟

**چوہدری امداد:** منزل مقصود صاحب، کیا نام؟ انور مقصود صاحب! جب میرے دادے کا انتقال ہوا۔

**مقدم:** آپ لوگ کیسی بات کر رہے ہیں خدا کے واسطے؟ چوہدری صاحب اپنے دادا کے انتقال کی خبر سنا رہے ہیں، اُن کے بارے میں بتا رہے ہیں، آپ تالی بجا رہے ہیں، حیرت کی بات ہے۔

**چوہدری امداد:** جس ٹائم میرے دادے کے انتقال کی خبر میرے والد، مجھے اور میری فیملی کو ملی تھی، ہم نے ایسی ہی کلیپنگ (clapping) کی تھی۔ فیملی نے! ہسٹری از ریپیٹنگ اٹ سیلف (History is repeating itself)۔

**مقدم:** میں آپ سے پوچھ رہا تھا کہ بغیر سفارش کبھی کوئی کام کیا آپ نے؟

**چوہدری امداد:** دیکھیے بھائی، اب جب آپ موضوع کی طرف لے آئے ہیں مجھے تو میں سچی بات کہنے میں محسوس کرتا ہوں کہ دو واقعات میری زندگی میں ایسے ہیں جن کے بارے میں میں بلا مبالغہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اُس میں سفارش نہیں کی۔ ماشاءاللہ! یہ مجھے کہنے میں عار محسوس نہیں ہوتا۔ آئی ٹاک ان فرنٹ آف (I talked in front of) سارے لوگ، سمجھے آپ؟ میں آپ کو دو واقعات بتاتا ہوں جن میں سفارش کی ضرورت نہیں محسوس ہوئی۔ سب سے پہلے **میٹرک میں فیل ہوا بغیر سفارش کے**۔ نمبر ٹو، ایک لاہور میں **بی ہائنڈ بار (behind bar) گیا بغیر سفارش**۔

**مقدم:** بی ہائنڈ بار بغیر سفارش کیسے گیا؟

**چوہدری امداد:** بس جی، کیا بتاؤں لمبی اسٹوری ہے۔ کوئی صبح سے لاہور میں ایک دوست کے گھر پر بیٹھے ہوئے تھے، رم جھم رم جھم ہو رہی تھی وہاں صبح سے۔ سارے دوست بی ہائنڈ بار بیٹھے ہوئے تھے۔ شام کو جب میں نکلا پتہ نہیں کیا ہو گیا سڑکوں کو، جب میں گاڑی چلا رہا تھا تو میری گاڑی ایسے ایسے تینوں ٹریک پر چل رہی تھی۔ پولیس نے مجھے بی ہائنڈ بار کر دیا۔ اچھا!

**پروڈیوسر:** ہاں جی، وہ آپ نے مجھے دیا ہے وہ مجھے واپس کر دیں۔ وہ چاہیے، بہت ضروری ہے بیکاز (because) اُس کارڈ کے بغیر آئی ایم ملوس۔

**مقدم:** میں پروگرام کے بعد آپ کو کارڈ واپس کروں گا۔ میں نے ابھی دیکھا نہیں ہے اُس کارڈ کو۔ میں اپنے دوسرے مہمان کو ضرور دعوت دے رہا ہوں۔ منگائیے، بلائیے۔

---

**مقدم:** خواتین و حضرات! غالب نے ایک جگہ کہا ہے:
پتہ کیجیے نا تعلق ہم سے کچھ نہیں ہے تو سفارش سہی۔
میرے اگلے مہمان ہیں، اُن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اُن کے خاندان نے بڑی سے بڑی قربانی دی ہے اِس ملک کو بنانے میں اور بچانے میں۔ آپ کا خاندان ہمارا قومی سرمایہ۔ آپ کی ذات ہمارے نوجوانوں کے لیے روشنی۔ بہت ہی معتبر اور محترم نام تشریف لا رہے ہیں **ریٹائرڈ سرکاری افسر**، بلکہ بہت بڑے افسر۔ آؤ جی آؤ۔

[تعریف] [موسیقی]

**چوہدری امداد:** بسلام وعلیکم سر جی!

**مقدم:** بیٹھیں۔

**چوہدری امداد:** وعلیکم سلام سر جی!

**مقدم:** آپ کا خاندان بھی قومی سرمایہ؟ میرا خاندان بھی قومی سرمایہ۔ آپ ذات بھی نوجوانوں کے لیے روشنی؟ میری ذات بھی نوجوانوں کے لیے روشنی۔ تعارف سے تو لگتا ہے کہ ہم دونوں ٹوئن (twin) ہیں۔ دیکھنا جو تعارف آپ کا ہوا وہی تعارف میرا ہوا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے آپ کے والد کا نام بھی چوہدری اشتیاق مرحوم تو نہیں ہے؟

**چوہدری صاحب:** میرے والد زندہ ہیں۔ بس یہی فرق ہے آپ میں اور مجھ میں۔ میرے مر گئے۔

**انور صاحب:** سرکاری نوکری کی عادت پڑ جائے تو پھر کسی نوکری میں لطف نہیں آتا۔ سرکاری ملازمت میں دروازہ کھولنے کے لیے ملازم، استری کرنے کے لیے ملازم، کپڑے پہنانے کے لیے ملازم، باغ لگانے کے لیے ملازم، پھول توڑ کے لانے کے لیے ملازم، دروازہ کھولنے کے لیے ملازم۔ اپنی جیب سے کون سا دیتے ہیں؟

**چوہدری صاحب:** دیکھیے دیکھیے، ایک تو آپ سفارش سے یہاں آئے۔ الحمدللہ جو تعارف اِنہوں نے میرے لیے یاد کیا تھا وہ آپ کے لیے کہہ دیا۔ ہم آپ آپ کے خاندان کو میں بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں۔

**انور صاحب:** اچھا، بڑی قربانیاں دی ہیں آپ کے خاندان نے؟

**چوہدری صاحب:** یس! کسی ایک بڑی قربانی کا نام لیجیے۔ پچھلی بقر عید پہ ہم نے ایک اونٹ قربان کیا تھا۔

**انور صاحب:** لائیں لائیں، آپ اِس سے بڑی قربانی لائیں۔

**چوہدری صاحب:** انور صاحب، خدا بخشے چوہدری صاحب کے والد کو وہ انٹرنیشنل سفارشی تھے۔ کوئین (Queen) سے سفارش کروا دی اُنہوں نے۔ ماشاءاللہ!

**انور صاحب:** دیکھیں تھینک یو سر، تھینک یو۔ آپ نے میرے والد کو مینشن (mention) کیا۔ میں شکریہ بہت بہت۔

**چوہدری صاحب:** دیکھیں انور صاحب، میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں کہ کوئی 10-15 ہی پاکستانی ہوں گے جن کی وجہ سے لندن میں ہمارے لوگ جانے جاتے ہیں، ہمارا ملک پہچانا جاتا ہے۔ اُ جیسے عمران خان ہے، جہانگیر خان ہے، جان شیر خان ہے۔ میرے والد اللہ بخشے مرحوم تھے، باقی جو چھ تھے وہ اندر تھے۔ ٹھیک ہے نا۔ میرے والد واقعی انٹرنیشنل سفارشی تھے، اُنہوں نے بڑی سفارش کی اور اُنہوں نے سفارش کے اوپر دو کتابیں بھی لکھیں۔ ایک مجلّی تھی اور ایک سفارش نہ ہونے کی وجہ سے چھپ نہ سکی۔ وہ انگریزی میں تھی۔

**انور صاحب:** کتابوں کے نام کیا تھے؟

**چوہدری صاحب:** پہلی جو کتاب تھی وہ اردو میں تھی اسلام آباد پر۔ اُس کا نام تھا **کوہِ سفارش**۔ اور انگریزی میں جو تھی اُس کا نام تھا **دا ڈیڈلی ریکمنڈڈ (The Deadly Recommended)**۔

**انور صاحب:** کو تو آپ جانتے ہوں گے؟

**چوہدری صاحب:** کون نہیں جانتا؟ اِن کے والد اور اِن کی وجہ سے جو سفارشی کاموں سے کئی سرکاری افسروں کی ملازمت چلی گئی ہے؟

**انور صاحب:** آپ کس قسم کی باتیں کر رہے ہیں؟ تو نہ مانتے سفارش، ٹھو مار دیتے، چھوڑ دیتے نوکری۔

**چوہدری صاحب:** ہم نے آپ سے کہا تھا ہم نے کبھی کسی سرکاری افسر کا انور صاحب استعمال نہیں کیا جبکہ چار پانچ سرکاری افسر ہر وقت اپنا کندھا لیے گھوم رہے تھے، سر اِدھر بیٹھے ہیں، اِدھر بیٹھے ہیں، اِدھر بیٹھے ہیں۔ ہم نے کہا، نو۔ کنو کو دیکھ کے کنو رنگ پکڑتا ہے۔ خربوزے کو دیکھ کے خربوزا رنگ پکڑتا ہے۔

**انور صاحب:** جی چھوڑیے صاحب، غلط کہہ رہے ہیں آپ۔ نہیں، مثال ہے خربوزے کو دیکھ کے خربوزا۔ آئی ڈونٹ لائک خربوزا۔ میرے اپنے کنو کے باغ ہیں۔ کبھی آئیے گا، میں آپ کو کھلاؤں گا ریڈ بلڈ (red blood)۔

**مقدم:** 30 برس آپ نے سرکاری نوکری کی تو اُس نوکری کے بعد آج کل آپ کیا کر رہے ہیں؟

**چوہدری صاحب:** آج کل میں باغبانی کر رہا ہوں۔

**مقدم:** اچھا، اِس کا مطلب ہے جو کچھ کمایا تھا اُسی کو بو رہے ہو؟

**چوہدری صاحب:** سوچ سمجھ کر بات کیجیے۔ کتنے کام کیا آپ نے؟ کیا کوئی چیز لی آپ سے؟ آپ اپنے بارے میں بتائیے کوئی آپ نے ایسا کام کیا اپنے ملک کے لیے؟ آپ انکم ٹیکس آپ نہیں دیتے؟ لو، بتاؤ۔ جب بھتیجا انکم ٹیکس افسر ہو تو کوئی پاگل ہی ہو گا جو ٹیکس دے گا اینڈ آئی ایم ناٹ [تعریف] میڈ (and I'm not mad)۔ ٹیلی فون کا بل آپ نہیں دیتے۔ کسٹم ڈیوٹی آپ نہیں دیتے۔ لو، جب رشتہ دار سی بی آر میں ہو تو ڈیوٹی کون دے گا بھائی؟ بینکوں کا قرضہ آپ نہیں واپس کرتے؟

**انور صاحب:** ہاں جی، ہمارے خاندان پہ ڈال دیں بینکوں کا قرضہ۔ ایک ہم ہی رہ گئے ہیں۔ میں کہتا ہوں عجیب قسم کے لوگ ہیں آپ، عجیب قسم کے لوگ ہیں۔

**چوہدری صاحب:** دیکھیے میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں، ہر ملک کے اپنے اصول ہوتے ہیں، قواعد ہوتے ہیں، ضوابط ہوتے ہیں۔ سمجھ آپ سمجھ رہے ہیں؟ خدا بخشے میرے تایا کو جو مشکل [تعریف] ہے... پیڑ بھی سے پیڑ بھی سے بات نہیں کرنی چاہیے کسی کی لیکن میں اُن کو مینشن (mention) کر رہا ہوں۔ میرے تاؤ جو تھے وہ بینکنگ کونسل میں تھے۔ منے سے کوئی میرا خیال ہے 14 سیکنڈ پہلے منے مجھے کہا، کار لا۔ میں کار لے گیا۔ بہت ہی خوفناک آواز میں وہ گویا ہوئے۔ "بیٹے یاد رکھنا، قرضہ لینے کے لیے ہوتا ہے، زکوٰۃ دینے کے لیے ہوتی ہے۔ میرے پاس زندگی ایسے گزارنا کہ نہ کسی کو قرضہ دو نہ کسی سے زکوٰۃ لو۔"

**انور صاحب:** مگر قرضہ تو واپس کرنا چاہیے؟

**چوہدری صاحب:** قرضہ واپس کرنا چاہیے بھائی! کوئی آپ نے کبھی دو کروڑ روپے لیا ہے قرضہ؟

**انور صاحب:** سوال ہی پیدا نہیں، نہیں لیا نا۔

**چوہدری صاحب:** جب لو گے تو پتہ چلے گا۔ چ ٹھنڈی نہیں ہے۔ سمجھے کہ قرضہ معاف کر۔ ارے یار، پھر چھوڑو سب باتوں کو یہ بتاؤ کیوں سفارش مانی تھی؟ کیوں دیا تھا قرضہ؟ اور جب دیا ہے قرضہ تو بک تو میرے خیال میں یہاں کے بینک آپ جانتے ہوں گے سر۔ کئی بینک ایسے ہیں یہاں آٹھ نو بینک ایسے ہیں جو اِس قسم کے لوگوں کی وجہ سے ختم ہونے کو آ گئے ہیں۔ لوٹ لیا ہے آپ نے اِس ملک کو۔

**چوہدری صاحب:** یا میں کہتا ہوں اللہ کرے میرا بھتیجا یہ پروگرام دیکھ رہا ہو۔ میرا بھتیجا یہ پروگرام دیکھ رہا ہو۔ بڑا تمیز دار شر پسند ہے۔ فیملی پہ آنچ نہیں آنے دیتا۔ میں تو آپ کو چھوڑ دوں گا بٹ ہی ول سی یو سون (but he will see you soon)۔

**انور صاحب:** آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا چوہدری صاحب۔

**چوہدری صاحب:** ارے میں نے میٹرک میں کسی سوال کا جواب نہیں [تعریف] دیا۔ بات کرتے ہیں، زندگی گزر گئی میں نے میٹرک میں سوال کا جواب نہیں دیا تو یو آر ہو (you are who)?

**انور صاحب:** چوہدری صاحب، آپ نے غلط کہا ہے "ہو آر یو" (who are you)? آئی ایم چوہدری امداد۔ کتنا قرض تھا آپ کے؟

**چوہدری صاحب:** خیر چھوڑو، وہ جتنا تھا وہ تو میں نے اپنی سفارش سے معاف کروا لیا تھا۔ اب فرض کریں اگر میرے پاس سفارش نہ ہوتی تو آج فت پات ہوتی نام پہ۔

**انور صاحب:** جناب، وہ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا جہاں سارے کے سارے ایمانداری سے گریز کریں۔ کیا آپ لوگ گھنٹے بھر سے ایمانداری ایمانداری کی رٹ لگا رکھا ہے؟ کیا ایمانداری؟ میں آپ کو اپنی فیملی کی مثال دیتا ہوں۔ میری اپنی فیملی کے اندر آپ کو کم از کم 50 لوگ ایسے ملیں گے جنہوں نے محنت، ایمانداری اور جفاکشی سے روپیہ کمایا ہے۔

**مقدم:** جی 50۔ جی آپ کے خاندان میں 50 لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ایمانداری سے پیسہ کمایا ہے؟

**چوہدری صاحب:** ا، نہیں 51۔

**مقدم:** کسی ایک کا نام [موسیقی] لیجیے۔ کسی ایک کا نام لیجیے۔ اپنا نام نہ بتائیے گا۔

**چوہدری صاحب:** یس آف کورس (Yes, of course)! آئی ایم ناٹ بلائنڈ (I am not blind)! بھائی کسی ایک کا نام لے دوں باپ، تایا، ماموں، چچا کسی کا نام لے دیں آپ۔ کیا بے وقوفانہ بات کر رہے ہیں۔ اُن کا نام نہیں لے سکتا۔ یہ کسی ایماندار آدمی کا نام پوچھ رہے ہیں؟ ا ا اللہ رکھا؟ نہیں نہیں وہ تو ٹھیک آدمی نہیں تھا۔ اصغر؟ نہیں وہ تو پچھلے ہی دنوں اندر ہوا ہے۔ آپ لوگ ایسے کریں ذرا آپس میں بات کریں اینڈ ڈو ناٹ ڈسٹرب (and do not disturb)۔ ایک منٹ مجھے ذرا سوچنے دیں۔

**چوہدری صاحب:** لیکن میں ایک بات ہی جانتا ہوں وہ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا جس ملک کے اندر کسی بزنس مین سے کوئی سرکاری افسر اتنا گھٹیا سوال کرے، "خاندان میں آپ ایک ایماندار افسر کا نام بتائیں، ایک آدمی کا نام بتائیں"۔ کمال کر رہے ہیں! جرمنی کدھر تھا، کدھر تھا جرمنی؟ آج مغرب اور مشرق جرمنی آپس میں ایسے مل گیا ہے۔ ترقی ہو گئی ہے اِس لیے ترقی ہوئی ہے کہ جرمنی میں کوئی سرکاری افسر کسی بھی بزنس مین سے اتنا گھٹیا سوال نہیں کرتا ہے۔ "جی خاندان میں آپ کسی اُس کا نام بتائیں"۔

**مقدم:** امداد صاحب، یہ سوال اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ اچھا آپ کی سمجھ میں آیا؟ جی آپ جواب دیں اِس کا۔ اچھا سنا کہ آپ کی کوئی شوگر مل وغیرہ بھی تھی۔ آپ کی شوگر مل کا کیا ہوا؟

**چوہدری صاحب:** چھوڑو اب میری شوگر سے ناظرین کو کیا؟

**فرد:** ویسے سر! سلام وعلیکم، میری یادداشت دیکھیں آپ۔ میری یادداشت کیسی ہے کہ 15 سال پہلے آپ نے جو میرا کام کیا تھا آج میں اگر آپ کو پچھڑ کے آپ کا ذاتی طور پر شکریہ ادا نہ کرتا تو میرے لیے کتنی شرم کی بات تھی، کتنی معیوب بات تھی۔ اور رہا سوال شوگر مل کا تو سر جی بات یہ ہے کہ میری شوگر سے ناظرین کو کیا؟

**مقدم:** جی شوگر مل لگائی۔

**فرد:** فادر، مدر، برادر، سسٹر سارے لوگ ڈائیبیٹک (diabetic) ہو گئے۔

**مقدم:** سر جی وہ آپ کا پانزا آج کل کدھر ہے؟

**فرد:** وہ اسلام آباد میں ہے جوائنٹ سیکرٹری (joint secretary) ہے۔ کنو ہے، تیتر ہے، بٹیر ہیں۔ لمبے والے چل کی شاید 18 بولیاں ہیں اور بچوں کو کھیلنے کے لیے مور ہے۔

**مقدم:** سر جی پتہ بتائیں۔

**فرد:** نہیں، اِس کی کیا ضرورت ہے آپ کو؟

**مقدم:** نہیں، مجھے ضرورت ہے۔

**فرد:** پتہ لکھواؤ۔

---

**مقدم:** خراب! اسٹوڈیو ڈھائی کے اگلے مہمان ہیں اِن کے بارے میں اتنا میں کہہ دوں اِن کا تعلق فنانس ڈیپارٹمنٹ سے ہے۔ آپ نے روپیہ کمانے کی تعلیم کسی یونیورسٹی سے حاصل نہیں کی۔ کوئی ڈگری نہیں لی۔ آپ آنے جانے والوں کا راستہ روک کر روپیہ کماتی ہیں۔ بعض وقت دعائیں دیتی ہیں، بعض وقت بددعا۔ کراچی کے مشہور سینما گھر کے سامنے صبح شام آپ کو یہ نظر آئیں گی۔ تشریف لا رہی ہیں **محترمہ منتی**۔

[تعریف]

**مقدم:** اردو اخبار کے جمعہ کا ایڈیشن لگ رہی ہے۔ سرخیاں ہی سرخیاں۔ ایک بات ہے سر جی، ہم لوگ پیسے والے وی آئی پی (VIP) لیکن بیگمات معمولی، بلکہ ٹو مچ معمولی ڈیو ٹو ارینج میرج (too much ordinary due to arranged marriage)۔ اور اِس فَت و فقیرنی کو دیکھو نا۔ اِس کے پاس پیسہ ہے نہ یہ وی آئی پی ہے لیکن شکل ماندلا مجھے بالکل ویسٹ (West) کی ایک مشہور پینٹنگ (painting) یاد آ گئی ہے۔ کیا نام ہے اُس کا؟ مونالیزا۔ اور یہ ہے اِدھر کی سٹیریو لیزا۔

**منتی:** سٹیریو لیزا نہیں۔ اور مونالیزا بھی نہیں۔ مونالیزا۔ بات سمجھ میں آ گئی سر؟

**مقدم:** وہ کافی ہے۔ مجھے بات کرنے دے۔

**چوہدری صاحب:** آپ بھی کیوں مانگتی ہے بی بی؟ چار پانچ مرتبہ زمینیں مانگی؟

**منتی:** نہیں نہیں، بھیک مانگنے لگ۔ بھیا، اُسی چیز کو مانگنا چاہیے جس کے ملنے کی اُمید ہو۔ موٹر گاڑی، زمین کیا فائدہ؟

**مقدم:** ماشاءاللہ جی شادی شدہ ہے؟ دو سال کے بعد ہی شوہر مر گیا۔ بو! بیوٹی از لونلی (beauty is lonely)۔ مجھے بات کر، پلیز آپ۔

**منتی:** یہی بات میں نے ایک دفعہ مارگریٹ کو بھی کہی تھی، دا بیوٹی از لونلی۔

**مقدم:** چوہدری صاحب مجھے ذرا بات کر کیونکہ اِس میں کئی مہمان آئیں گے وقت میرے پاس کم ہے۔ جی پلیز جی۔ شوہر کے مرنے کے بعد آپ بھیک مانگنے لگے؟

**منتی:** جی ہاں۔

**مقدم:** وہ کیوں؟

**منتی:** کیوں بھائی؟ جو شوہر کا پیشہ تھا وہی اپنایا۔ صحیح ہے۔ اب جیسے چوہدری صاحب کے مرنے کے بعد اِن کی بیگم اِن کا پیشہ اپنائیں گی، اِن کے بچے اِن کا پیشہ اپنائیں گے؟

**چوہدری صاحب:** ضرور اپنائیں گے۔

**منتی:** میرے بچے میرا پیشہ اگر ہوئے تو تمہارے باپ کے تو تھے؟

**چوہدری صاحب:** بالکل آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ ہم نے اپنے والد صاحب کا پیشہ اپنایا اور ضرور اپنایا۔

**مقدم:** ویسے سر! آپ نے ایک بات نوٹ کی، ہمارے یہاں پر بیواہ سے آٹومیٹک (automatic) ہمدردی ہو جاتی ہے۔

**چوہدری صاحب:** جی اور کیا مقام ہے معاشرے میں بیوہ کا؟ اِدھر کیا مقام ہے ہماری سوسائٹی میں؟ جبکہ فارن کنٹری میں دیکھیے، چار پانچ بیواہ میری ذاتی دوست ہیں۔ مجھ سے زیادہ کما رہی ہیں وہاں پہ جو بیواہ کا مقام ہے وہ جوڑے کا، شادی شدہ جوڑے کا نہیں ہے۔ یہاں پہ کسی کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اب دیکھیں اگر چوہدری صاحب کی اتنی جان پہچان نہیں ہو تو یہ بھی کسی نکر میں ککو لیے نظر آتے۔

**منتی:** وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی جہاں کی فقیرنیاں بدتمیز ہوں اور سرکاری افسر اُن کا ساتھ دیں۔

**چوہدری صاحب:** کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے اچھا نہیں لگتا۔

**منتی:** اپنوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا کوئی برائی نہیں ہے۔ ہمارے ملک کے بڑے بڑے سرکاری افسر دنیا بھر کے سامنے ہاتھ اور دامن رہتے ہیں۔ 40 سال سے زیادہ ہو گیا اِن کو بھیک مانگتے ہوئے، اُن کو کوئی نہیں پکڑتا، اُن کو کوئی برا نہیں کہتا۔ اب میں چونی اٹھنی مانگتے ہوں تو میرے پیچھے پولیس پڑ جاتی ہے۔

**انور صاحب:** او، ایک بات بتاؤ، یہ آپ نے تعلیم کہاں تک حاصل کی ہے؟

**منتی:** پانچویں پاس۔

**انور صاحب:** پانچویں پاس ہے؟ کیسے پٹر پٹر بول رہی ہے؟ ہم پہلی پاس پریشان بیٹھے ہوئے بتاؤ۔ آپ نے چوہدری صاحب کہاں تک تعلیم پاس کی ہے؟

**چوہدری صاحب:** سنیے، کمپیئرنگ (comparing) کرنے کی کوشش نہ کریں۔ سوال وہ کریں گے اور ویسے بھی یہ کوئی آپ نے اتنا معقول سوال نہیں کیا ہے۔ چلیں یہی سوال میں آپ سے پوچھ لیتا ہوں، چوہدری صاحب آپ نے تعلیم کہاں تک حاصل کی؟

**اَنور صاحب:** اوّل تو اِس کا حق جو ہے صرف والدین کو ہے وہ پوچھ سکتے ہیں کہ تعلیم کہاں۔ اور پھر چھوڑو سب بات کو۔ جس ملک میں تعلیم کے بجٹ کے اندر سب سے کم پیسے رکھے جاتے ہو اُس کے بارے میں سوال کرتے ہوئے شرم نہیں آتی آپ کو؟ اگر مجھ سے کوئی یہ سوال کرتا کہ آپ نے تعلیم کہاں تک حاصل کی ہے تو میں اُس کا فوری جواب دیتا کہ 1951 میں میں نے ایم اے کیا، 1954 میں میں نے سول سروس کا امتحان پہلی پوزیشن میں پاس کیا اور 1982 میں میں باعزت طور پر ملازمت سے ریٹائرڈ ہوا۔

**چوہدری صاحب:** ماشاءاللہ!

**انور صاحب:** جواب دیں گے کہ اب آپ کے پاس کیا ہے؟

**چوہدری صاحب:** اب میرے پاس میرے پاس میرا گھر ہے، میرے بچوں کی شادی ہو چکی ہے، میرے پاس ملازم ہے۔ اُس کے پاس ایک سائیکل ہے۔ اب آپ میری سنیے۔ 1951 میں میں نے میٹرک نہیں کیا، 194 میں میں نے پچھڑ سے انٹر نہیں کیا۔ 1968 میں میرے والد انتقال کر گئے، سارا کچھ مجھے دے گئے۔ آج میرے پاس 16 فیکٹریاں ہیں، میرے اپنے بنگلے ہیں، نوکر ہیں، چاکر ہیں۔ اور میرا ملازم جو ہے وہ پجارو (Pajero) کے اوپر سودا لینے جاتا [موسیقی] ہے۔

**اَنور صاحب:** پجارو نہیں، شیریو!

**چوہدری صاحب:** آپ کے پاس ہے؟ نہیں جس کے پاس ہے اُس کو زیادہ معلوم ہے۔ ہے پجارو۔ ہائے ہائے ہائے ہائے! یہاں کا کیسا نظام ہے، سب اُن ہی کو دیتے جن کے پاس پہلے سے بہت کچھ ہے۔ اچھا، ویسے ماشاءاللہ آپ کی قومی زبان جو ہے وہ بہت اچھی ہے۔ چوہدری صاحب، پورا خاندان ساتھ بیٹھ کے ٹیلی ویژن دیکھتا ہے۔

**منتی:** اب زبان کو اتنی اچھی بھی نہیں ہے، ہری بتی کو برا والا کہہ دوں تو شرم سے لال پیلی ہو جاتی ہے۔

**چوہدری صاحب:** محترمہ منتی کی بات ایک تو بالکل ٹھیک ہے، بالکل صحیح ہے کہ 44 سال ہو گئے ہم لوگوں کو دوسرے ملکوں سے قرضہ مانگتے، اُن سے ڈ (aid) لیتے ہوئے۔ یہ بالکل ٹھیک کہہ رہی۔ امریکہ نے امداد بند کر دی۔ مجھے کب بند کیا؟

**عمر دین:** اوئے امداد صاحب! آپ تشریف رکھیں۔ سے میرا مراد ویسے تو امریکہ ہمارا دوست ہے۔

**منتی:** تمہارا ہو گا۔

**مقدم:** اچھا یہ بتائیے محترمہ کہ دن بھر میں آپ کتنے پیسے اکٹھے کر لیتی ہے؟

**منتی:** دیکھو اِس شہر میں بڑی بڑی گاڑیاں لے کر پھرتے ہیں، پیسہ مانگو تو مشکل سے ایک روپیہ پھینک کے چلے جاتے ہیں۔ ویسے یہ مجھے آپ سے ذاتی طور پر ایک بات کرنی ہے۔ آپ لوگ جو ہیں نا یہ لوگ بھی کوئی ٹھیک لوگ نہیں ہیں۔ اِن کو اگر روپیہ دے دو تو یہ بغیر زبان کا استعمال کیے ہوئے انور بھائی ایسی ایسی گالی نکالتے ہیں الامان والحفیظ۔ اور اگر کبھی زبان استعمال کر لی تو پھر بددعا دیتے ہیں۔ اب میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں سر جی۔ پچھلے ہفتے میں لاہور سے کراچی آ رہا تھا۔ میں نے ایئرپورٹ کے اوپر ایک فقیر کو ایک روپیہ دیا۔ جواب میں اُس نے مجھے بددعا دی اور بددعا پتہ کیا دی؟ کہنے لگا "اللہ کرے جہاز کی بجائے تیری روح پرواز کرے۔"

**مقدم:** خالی وقت میں آپ کیا کرتی ہیں؟

**منتی:** خالی وقت میں میں شام کے اخبار پڑھتی ہوں اور کچھ شاعری کرتی ہوں۔

**مقدم:** تو آپ شاعر ہیں بھائی جان؟

**منتی:** شاعر نہیں، شاعره۔

**مقدم:** شاعر اور شاعره میں کوئی فرق نہیں ہے کیا؟ شاعر اور شاعر اور شاعره میں کوئی فرق نہیں؟ اچھا غالب کو شاعره کہہ کے بتاؤ، اہل زبان تمہاری گد پکڑ کے گردن توڑ دیں گے۔ کس طرح کی شاعری کرتی ہے؟ غزل لکھتی ہے یا نظم؟

**منتی:** غزل نہیں لکھتی۔ کیوں؟ بری غزل لکھنے سے بہتر نہ لکھو۔ نظم لکھتی ہوں۔

**مقدم:** آپ کا تو تلفظ ہی خراب ہے۔ صحیح لفظ ہے نظم۔ جی اچھا ایک نظم ہے وہ سناتی ہوں۔ ارشاد کیجیے۔

**منتی:** "میں نے اپنے ہاتھوں کو بچوں کی طرح پالا ہے۔ میں نے اپنے ہاتھوں کو بچوں کی طرح پالا ہے۔ روزانہ فٹ پاتھ پر آنے جانے والوں کا سیلاب اپنے ہاتھوں سے روکنا چاہتی ہوں۔ روزانہ فٹ پاتھ پر پر آنے جانے والے کا سیلاب اپنے ہاتھوں سے روکنا چاہتی ہوں۔ آتے جاتے لوگ میرے ہاتھوں کو نہیں میری صورت کو دیکھتے ہیں۔ آتے جاتے لوگ میرے ہاتھوں کو نہیں میری صورت کو دیکھتے ہیں۔ پھر کچھ مٹھی میں رکھ جاتے ہیں، کچھ کہتے ہیں چھپ جاتے ہیں۔ شام کی خاموشی میں گھنے پیڑ کے نیچے اپنے سر کے بوجھ کو اپنے ہاتھوں پہ رکھ لیتی ہوں۔ اپنے سر کے بوجھ کو اپنے ہاتھوں پہ رکھ لیتی ہوں۔ ہم گرتے پتے گرتے پتے میری چادر بن جاتے ہیں۔ ہاں میں پیڑ کی طرح تھک کے سو جاتی ہوں اور اٹھتی کتنے بجے ہو۔"

**مقدم:** یہ جو آپ نے ابھی نظم گنگنائی تھی اِس کا مرکزی خیال کیا تھا؟

**منتی:** آپ کا کوئی کام مرکز کے بغیر بھی ہوتا ہے؟ مرکزی خیال میں خود ہوں، میری شاعری میرے ارد گرد گھومتی۔ ہائے ہائے ہائے ہائے! کاش ہم بھی آپ کی شاعری ہوتے آپ کے ارد گرد گھومتے رہتے۔

---

**مقدم:** میرے اگلے مہمان جو ہیں اُن کا تعلق ایک ایسے ادارے سے ہے جو اپنی جان خطرے میں ڈال کر شہریوں کی جان کی حفاظت کرتا ہے۔ آپ میرے وطن کے سب سے کم تنخواہ پانے والے لوگوں میں سے ایک ہے۔ تشریف لا رہے ہیں **سپاہی عمر دین**۔

[تعریف] [موسیقی]

**مقدم:** آپ رو کیوں رہے ہیں سر جی؟

**سپاہی عمر دین:** کیا بتاؤں! آج پہلی دفعہ، پہلی دفعہ سر جی میری آمد پر تالیوں کا شور سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بچپن میں میں نے ایک فلم دیکھی تھی ماں کے آنسو۔ آج دیکھ رہا ہوں مگرمچھ کے [تعریف] [موسیقی]۔

**مقدم:** عمر دین صاحب یہ بتائیے کہ یہ آنسو خوشی کے لگ رہے ہیں مجھے؟

**سپاہی عمر دین:** جی نہیں۔ کچھ غم کے بھی ہیں۔ ابھی ابھی 5 منٹ پہلے ایک بڑی گاڑی والے نے میرے ساتھ بڑی بدتمیزی کی۔

**چوہدری صاحب:** ہاں تو تم نے بھی کچھ کیا ہو گا؟

**سپاہی عمر دین:** او چوہدری صاحب میں نے کیا کیا؟ دیکھیے جی، گاڑی پہ کالے شیشے لگانا جرم ہے۔ ہے ہے ہے۔ اُن کی گاڑی پہ لگے ہوئے تھے۔ میں نے فوراً سیٹی بجائی۔ "اوئے! میں نے کہا روکو گاڑی، او گاڑی روکو!" اُنہوں نے گاڑی روکی۔ میں نے کہا "اترو گاڑی میں سے!" وہ گاڑی سے اترے اور میں بیٹھ گیا۔ میرا بیڑا ہی غرق ہو گیا جناب۔ دن میں تارے نظر آ گئے مجھے۔ میرے ساتھیوں نے میرے گال سلاتے ہوئے کہا "کوئی بات نہیں یہ نشان شام تک چلا جائے گا۔" کسی نے کہا "کل جائے گا"۔

**مقدم:** تو وہ کون تھے گاڑی والے؟

**سپاہی عمر دین:** میں نہیں پہچانتا جناب۔ مگر گاڑی کے پیچھے انگریزی کے تین حروف لکھے ہوئے [تعریف] تھے۔

**مقدم:** سروس کتنی ہو گئی آپ کی جناب؟

**سپاہی عمر دین:** سروس تو میری 25 سال ہو گئے جی ماشاءاللہ۔

**مقدم:** عمر کیا ہے آپ کی؟

**سپاہی عمر دین:** جو سروس میں جو لکھائی تھی اُس کے حساب سے میں ماشاءاللہ 33 کا ہو گیا ہوں۔

**مقدم:** اچھا آپ شادی شدہ ہیں؟

**سپاہی عمر دین:** جی الحمدللہ ایک بیوی ہے اور جی بس جی کیا بتاؤں 10 بچے ہیں۔

**چوہدری صاحب:** دیکھیے انور صاحب بات یہ ہے جی کہ میں یہ کہتا ہوں کہ ہر کوئی ہمارا مذاق اڑاتا ہے ہماری برائی کرتا ہے۔ ہیں ابھی میں تو یہ کہتا ہوں کہ صاحب آپ پولیس کی تنخواہ بڑھائیں، بالکل ان کو رہنے کے لیے اچھا گھر دیں۔ اور ان کے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کریں۔ پھر دیکھیں آپ ہماری کارکردگی۔

**مقدم:** او چلو چلو۔ کچھ نہ ہونے پہ ان کے 10 بچے ہیں اگر سرکار نے یہ تمام مراعات دے دی تو پتہ نہیں تم کیا گل کھلاؤ گے؟

**منتی:** پولیس والوں کی زبان تو بڑی ہی گندی ہوتی ہے، ہمیں تو بہت تنگ کرتے ہیں۔ ہاں، پیچھے پڑے رہتے ہیں۔

**عمر دین:** تمہیں تو کوئی نابی نہیں ہو گا جو تنگ نہ کرے گا۔

**مقدم:** آپ جانتے ہیں ان کو؟

**سپاہی عمر دین:** نہیں جناب، میں نہیں جانتا۔ مگر ایک بات بتا دوں، شہر کی نامور فقیرنی ہے۔ ہمارے ڈی ایس پی صاحب کو تین دفعہ ڈانٹ چکی ہے۔ ایک ڈی آئی جی کو او ایس ڈی (OSD) کرا چکی [تعریف] ہے۔

---

**مقدم:** خواتین و حضرات! اسٹوڈیو ڈھائی کی آخری مہمان ہیں سلمنگ کلینک (slimming clinic) کی مالکہ **محترمہ گل بانو**۔ بڑی مشہور ہو رہی ہے آپ کی کلینک آج کل کراچی میں؟

**گل بانو:** بس جی میری تو دعا ہے، خدا موٹیوں کو زندہ اور پیسے والا رکھے۔

**عمر دین:** آمین۔

**مقدم:** بک۔ تمہارا مطلب یہ ہے کہ غریب موٹیوں کا کوئی فیوچر (future) نہیں ہے یہاں؟

**گل بانو:** یہاں تو ویسے بھی غریب کا کوئی فیوچر نہیں ہے۔

**عمر دین:** موٹے اور موٹی غریب کا تو...

**چوہدری صاحب:** دیکھیے ایسی بات مت کیجیے، ہمارا ملک ہمارا وطن غریبوں کے لیے بنا تھا مگر دبلے پتلے غریبوں کے لیے۔

**مقدم:** اچھا یہ بتائیے ایک بات کہ یہ آپ کے خیال میں کیسے آیا کہ سلمنگ کلینک کھولنا چاہیے؟

**چوہدری صاحب:** اِن پر نظر پڑ گئی ہو گی!

**گل بانو:** آپ اپنے آپ میں رہیں، بلا سوچے سمجھے ایسی باتیں نہ کریں۔

**عمر دین:** سر آپ مجھے اپنا پتہ بتائیں، آپ کو کنو بھجوانے؟

**چوہدری صاحب:** مجھے کنو بالکل پسند نہیں ہے۔ میں خربوزا پسند کرتا ہوں۔

**عمر دین:** مگر سر! میرے جو کنو ہیں ایکسپورٹ کوالٹی (export quality) کے ہیں۔ یقین سے میں آپ کو کہہ رہا ہوں ایکسپورٹ کوالٹی کے ہیں، آپ کے لیے امپورٹ کروں گا۔

**مقدم:** تو گل بانو یہ بتائیں کہ آپ کے میاں نے کبھی آپ کی صحت پر اعتراض تو نہیں کیا؟

**گل بانو:** نہیں، کلینک تو ویسے میں نے اپنے لیے کھولا تھا، جب نہیں چلا تو میرے میاں نے کہا کہ دوسروں کے لیے کھول لو۔ اچھا، وہ دن ہے اور آج کا دن، موٹیوں نے ایسا دھاوا بولا ہے کہ مجھے تو ایک کلو گوشت کم کرنے کی فرصت ہی نہیں ملی۔

**عمر دین:** کنو بھجوانے ہیں آپ کو بھائی؟ بھائی، کنو تو میں بازار سے بھی خرید سکتا ہوں۔ میں آپ کو سمجھا رہا ہوں، آپ میری بات نہیں سمجھ رہے، میرے ایکسپورٹ کوالٹی کے ہیں۔ بازار میں جو ملتے ہیں اتنے بڑے کنو ہے، اُس کو کھولو تو کنو کونے میں ہوتا ہے [تعریف] [موسیقی]۔

**مقدم:** میں ذرا اُن سے بات کر لوں، آپ پھر بیچ میں گفتگو کرنے لگتے ہیں۔ اچھا محترمہ گل بانو یہ بتائیے کہ آپ کی صحت پہ کبھی شوہر نے تو کوئی ریمارک (remark) پاس نہیں کیا؟

**گل بانو:** نہیں، بس ایک دفعہ اُنہوں نے کہا تھا، "کیا گل بانو تیری باہیں..." बाहें नहीं, آہ۔ بس اُس دن سے میں نے قسم کھا لی کہ میں اب سلیم ہو کے دکھاؤں۔

**مقدم:** اچھا، تو چوہدری صاحب، ہو جائیں۔ اپنے گھر والوں کو بھیجیں آپ۔

**عمر دین:** نہیں، چھوڑیں آپ سر جی، آپ پتہ بتائیں مجھے بھجوانے ہیں کچھ۔

**چوہدری صاحب:** میں نے آپ سے کہا مجھے کنو بالکل پسند نہیں ہے۔ بتا، چاول [تعریف] ہے کچھ بٹیر ہیں، رے۔

**مقدم:** کلینک کا نام کیا ہے؟

**گل بانو:** مامی چاچی۔ پھر آپ بھی کھول لیجیے۔

**عمر دین:** دادا اے! [تعریف] دادی!

**مقدم:** آپ پیدائشی تندرست تھیں یا بعد میں جا کے ہوئیں؟

**گل بانو:** جی میں پیدائشی تندرست تھی۔ جب میں پیدا ہوئی تو میرے کان میں اذان سپیکر (speaker) سے دی گئی تھی۔

**مقدم:** یہ لاؤڈ سپیکر (loud speaker) کی بات کر رہی ہے؟ آپ نے بیوٹی کلینک (beauty clinic) کھولا ہے؟ ہیں، ہم تو... پھر آپ نہ توبہ کیوں نہیں ہوئی؟

**گل بانو:** میں اب عادی رہ چکی ہوں۔

**مقدم:** تو کیا پوری کوئی تصویر ملے گی آپ کی کلینک میں لگی ہوئی ہے؟

**گل بانو:** اچھا۔

**چوہدری صاحب:** مگر تندرستی جو ہے وہ اللہ کی دین ہے۔ ارے صاحب، دیر از اے ڈفرنس بٹوین تندرستی اینڈ (there is a difference between health and)... میں آپ کو بتاتا ہوں دیکھیے، آئی ایم تندرست اینڈ دس از موٹاپا (I am healthy and this is obesity)۔

**عمر دین:** سر جی پتہ بتائیں کنو ہے، تیتر ہے، بٹیر ہے، لمبے چاول ہیں، سو بوری دیسی گھی ہے؟

**چوہدری صاحب:** ارے بھائی! اِس تکلف کی کیا ضرورت ہے؟

**عمر دین:** نہیں بس سر جی، دیکھنا آپ کے پانے کا فائل چار پانچ فائلوں کے نیچے دبا رکھی ہے۔ ہے مور ہے، بچوں کے کھیلنے کے لیے ہاں سر۔ ٹھیک ہے؟ کیا تو ٹھیک ہے؟

**عمر دین:** پٹا پٹا بلاک 16 سی اِس۔ ٹھیک ہے، تھینک یو۔

**مقدم:** مجھے اِن افسر صاحب سے ایک سوال پوچھنا۔

**عمر دین:** جی بھائی، ایک سیکنڈ آپ کون ہیں؟

**گل بانو:** جی میں ایک جبری ریٹائرڈ گورنمنٹ افسر ہوں۔

**مقدم:** جی امداد صاحب کو حمید صاحب نے اپنا پتہ کیوں بتایا؟

**گل بانو:** جی تشریف رکھیے آپ۔

**عمر دین:** جی آپ نے اپنا پتہ چوہدری امداد کو کیوں بتایا؟ یہ کیا سوال ہوا بھائی؟ دیکھیے چاول، تیتر، شکر، بٹیر یہ سب غذائی چیزیں ہیں۔ اِن کے لیے پتہ بتانے سے کوئی بری بات نہیں [تعریف] [موسیقی] ہے۔ ہاں، البتہ اگر امداد بھائی نے مجھے کنو بھجوائے تو وہ رشوت، اُس کو میں واپس کر دوں۔

**مقدم:** امداد صاحب سے ایک سوال کرنا ہے۔ جی ایک کوئی بات کر۔ آپ دونوں ایک ساتھ کیوں بات کر رہے ہیں، آپ بیٹھیے۔

**منتی:** اِس ملک نے اِن کو اتنا کچھ دیا ہے تو یہ خاندان والوں کو چونی تک نہیں دیتے۔ اور رمضان کی پہلی تاریخ سے پہلے تمام بینکوں سے پیسہ نکال لیتے ہیں۔ اگر یہ مسلمان ہے تو زکوٰۃ کیوں نہیں کٹواتے؟

**مقدم:** یہ سوال آپ سے کیا گیا، جواب دیں۔

**چوہدری صاحب:** یہ سوال تو آپ سے کیا گیا ہے، جواب دیں۔ اِس کا سوال کیا تھا؟ آپ مسلمان ہیں؟

**مقدم:** الحمدللہ۔

**منتی:** آپ کروڑ پتی ہے؟

**مقدم:** تو فقیر کر دے۔

**منتی:** پہلی رمضان سے پہلے آپ بینک سے پیسے کیوں نکلواتے ہیں اور خاندان والوں کو دیتے کیوں نہیں؟ دیکھ رہے ہیں آپ یہ سالا کتنی بدتمیزی سے بات کر رہا ہے۔

**مقدم:** پلیز پلیز چوہدری صاحب، زبان کا خیال رکھیے، یہ گھر نہیں ہے آپ کا، ٹیلی ویژن پروگرام ریکارڈ ہو رہا ہے، پورا ملک ایک ساتھ دیکھ رہا ہے۔

**منتی:** میں نے ایسی کون سی غلط بات کی؟ صحیح تو کہ لفظ غلط استعمال کیا؟

**چوہدری صاحب:** کیا غلط استعمال کیا؟ یہ سالے پیدائشی منگتے ہیں، صحیح کہہ رہا ہوں میں!

**مقدم:** آپ نے پھر لفظ استعمال کیا، کیسی بات کر رہے ہیں آپ؟

**چوہدری صاحب:** ارے میں آپ سے کہہ رہا ہوں، کیا نام ہے آپ کا؟ انور بخاری صاحب! میں بالکل ...

**مقدم:** انور مقصود۔

**چوہدری صاحب:** اچھا وہی۔ وہ کیا پوچھیں اِن سے کہ یہ میرے کیا لگتے ہیں؟ بھائی صاحب آپ دونوں اِن کے کیا لگتے ہیں [موسیقی] سالے۔

**مقدم:** خواتین و حضرات! 44 سالوں نے ہم کو خوش رکھا، بڑی عزت دی اِس ملک میں اِس وطن میں سرزمین پر مگر ایک گھنٹے کے پروگرام میں اِن دو سالوں نے تھوڑا بہت ہم کو پریشان کیا اُس کے لیے معافی۔ خدا آپ سب کو ہمیشہ خوش رکھے۔ اسٹوڈیو ڈھائی کی طرف سے عید مبارک۔ یس سر، اٹ از کمپلیٹ، آئی ایم ہیپی۔ تھینک یو سر، اٹ از فنشڈ، تہہ لا پانے والے ہیں۔
```





میں مردانگی ہوںمیں مردانگی ہوں۔لوگ مجھے طاقت، غیرت، جُرأت اور وقار کا نشان سمجھتے ہیں۔ بچپن سے ہی لڑکوں کو میرے نام پر پ...
30/06/2025

میں مردانگی ہوں

میں مردانگی ہوں۔
لوگ مجھے طاقت، غیرت، جُرأت اور وقار کا نشان سمجھتے ہیں۔ بچپن سے ہی لڑکوں کو میرے نام پر پالا جاتا ہے۔ جب وہ روتے ہیں تو کہا جاتا ہے: "مرد بنو، مرد روتے نہیں!"
جب وہ تھکتے ہیں، ڈرتے ہیں یا درد محسوس کرتے ہیں، تو اُن سے کہا جاتا ہے: "کمزور مت بنو، مرد ہو تم!"

مگر سچ یہ ہے...
میں صرف طاقت یا سختی کا نام نہیں، میں احساس بھی ہوں، محبت بھی ہوں، اور ذمہ داری بھی۔
میرا اصل مطلب کسی کو دبانا نہیں بلکہ سب کو سہارا دینا ہے۔
میری اصل خوبصورتی اُس مرد میں ہے جو عورت کو عزت دے، بچوں سے پیار کرے، اور بزرگوں کی خدمت کرے۔
جو اپنے جذبات کو سمجھتا ہو، دوسروں کی تکلیف محسوس کر سکے، اور خود کو بھی انسان سمجھتا ہو۔

میں تب بُری بن جاتی ہوں،
جب میرا مطلب زبردستی، انا، تشدد اور برتری سمجھ لیا جائے۔
جب میرے نام پر عورت کو چپ کرایا جائے، اور مرد کو روکے رکھا جائے۔

اب وقت ہے مجھے نئے انداز سے سمجھنے کا۔
نئی نسل کو سکھانے کا کہ
"مرد ہونا کمزوری چھپانے کا نہیں، ہمدردی دکھانے کا نام ہے"۔



If you agree then please comment like and share

Address

Lahore

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Aajsocialpolitics posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Aajsocialpolitics:

Share

Our Story

Rayyan Estate & Builders prides itself as having the highest performance level in our industry. A combination of our experience, dedication to our craft, professionalism and reliability makes us the most dominating in the market. We are authorized by the DHA, professionally acclaimed and trustworthy, we have qualified and educated agents, we are setting standards in the real estate, which attract both buyers and sellers to our fair representation policies. Our multi-cultural team is an integral part of the way we succeed as one of the leading real estate companies. We are dedicated, diverse, and highly qualified; we are committed to meet each client's specific demands so as to ensure absolute customer satisfaction. We are focused on providing sound and honest advice for real estate investments, weather buying or selling, residential or commercial, apartments or villas, and even property management in DHA, Askari, Bahria Town, Lake City, and Valencia we offer undiminished solutions to our client's real estate needs.