Kashif Nadeem

Kashif Nadeem Content Writer

فراز کو میں اتنی پسند آئی کہ انہوں نے نانی سے میرا رشتہ مانگنے کا پکا ارادہ کر لیا اور انہیں منانے لگے کہ وہ مجھ سے شادی...
02/08/2025

فراز کو میں اتنی پسند آئی کہ انہوں نے نانی سے میرا رشتہ مانگنے کا پکا ارادہ کر لیا اور انہیں منانے لگے کہ وہ مجھ سے شادی کریں گے۔ میں حیران بھی تھی اور پریشان بھی، کیونکہ وہ پہلے سے شادی شدہ اور بچوں والے تھے۔ خدا جانے کیا ہونے والا تھا۔ تیسرے روز انہوں نے نانی کے قدموں میں بیٹھ کر منتیں شروع کر دیں۔
👇👇
میں نے کبھی سوچا بھی نا تھا کہ ایسے محبت میں کھو جاؤں گی کہ جینا دو بھر ہو جائے گا۔ لیکن قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ میں بھارت کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئی۔ جب میں تین سال کی تھی تو میری ماں دنیا سے رخصت ہو گئیں اور چھ سال کی عمر میں والد بھی اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی نشانی تھی۔ بابا جان نے اپنی وفات سے قبل تمام جائیداد، زمین اور باغ میرے نام کر دیے تھے۔ ماں باپ کے بعد میری نانی ہی میرا واحد سہارا بنیں۔ انہوں نے ہی مجھے پالا پوسا۔

ہمارا خاندان تو خاصا بڑا تھا، مگر سب کے سب پاکستان میں آباد تھے۔ میری ایک خالہ کراچی میں رہتی تھیں۔ خالو جان اور ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں وہیں مقیم تھے۔ خالہ کا انتقال ہو چکا تھا، لیکن خالو جان حیات تھے۔ ہمارے پاس اکثر خالہ زاد بھائی فراز کے خطوط آتے، جنہیں پڑھ کر نانی جان بہت خوش ہوتیں۔ وہ کہا کرتیں کہ میری مرحوم بیٹی کا بیٹا مجھے یاد کرتا ہے، تو دل کو راحت ملتی ہے۔ جب میں نانی کی طرف سے فراز کو جواب لکھنے لگی، تو اسے معلوم ہوا کہ میں بھی نانی کے پاس رہتی ہوں اور اپنی خالہ کی اکلوتی نشانی ہوں، تو وہ مجھے بھی الگ سے خط لکھنے لگا۔

اس کے خطوط پیار سے بھرے ہوتے تھے۔ وہ مجھے کبھی گڑیا کہہ کر پکارتا اور کبھی ننھی منی۔ ہماری عمروں میں کافی فرق تھا۔ میں سات برس کی تھی اور وہ انیس سال کا۔ اس کی شادی ہو چکی تھی۔ مجھے فراز کے خط کا بے چینی سے انتظار رہتا، کیونکہ اس کی تحریر میں میرے لیے صرف محبت، شفقت اور اپنائیت ہوتی تھی۔ جب اس کا خط آتا تو میں لفافہ چوم لیا کرتی، حالانکہ میں نے اسے کبھی دیکھا نہ تھا۔ وہ اکثر میری تصویر مانگتا، مگر میں بے بس تھی۔ ہمارا گاؤں بہت چھوٹا تھا، قریبی شہر بھی دور تھا، اور گھر سے باہر نکلنے کی سخت ممانعت تھی۔ نانی مجھے سخت نگرانی میں رکھتی تھیں۔

ایک دن میرے ذہن میں شرارت آئی۔ ویسے بھی اس نے مجھے کبھی دیکھا تو ہے نہیں۔ میں نے اپنی ایک سہیلی کی خوبصورت تصویر لفافے میں رکھ کر اسے بھیج دی۔ جب اس نے تصویر دیکھی تو اس کی سوچ ہی بدل گئی۔ وہ سمجھ بیٹھا کہ میں کوئی بڑی لڑکی ہوں۔ تب اس کے خطوط کا لہجہ بھی بدل گیا۔ وہ پہلی سی معصوم باتیں اب باقی نہ رہیں۔ اس بار میں نے اس کے خط کا جواب نہیں دیا، بس اتنا لکھا کہ آپ انڈیا آجائیں، دل چاہ رہا ہے آپ سے ملنے کو۔ اب تو وہ ہر خط میں انڈیا آنے کی بات کرتا۔

ان دنوں میں سولہ برس کی ہو چکی تھی۔ خدا نے اچھی صورت دی تھی، شریف زادی تھی، اور چہرے پر ایسی نوخیزی تھی کہ آئے دن رشتے آ رہے تھے۔ نانی جان کو ایک رشتہ پسند آ گیا۔ یہ میری سہیلی کا بھائی تھا، جو فوج میں ایک اچھے عہدے پر فائز تھا اور بنگلور سے آنے والا تھا۔ اتوار کا دن مقرر ہوا۔ میں نہا دھو کر تیار ہو کر بیٹھ گئی تو نانی نے کہا، چائے اچھی بنانا، خاص مہمان آ رہے ہیں، تجھے دیکھنے کے لیے۔ دل میں عجیب سے ولولے اٹھنے لگے، ایک بےچینی سی طاری تھی۔ دن کے تقریباً دس بجے ہوں گے کہ کسی نے آ کر اطلاع دی کہ مہمان آ چکے ہیں۔ ہم نے پوچھا، کیا بنگلور سے آئے ہیں؟ جواب ملا، ہاں، بنگلور سے آئے ہیں، نام فراز بتایا۔ میں چونک گئی کہ شاید ان کا نام بھی فراز ہے!نانی نے مجھے اندر بلا لیا۔

میرے دل میں پہلے ہی بڑی امنگیں تھیں، مجھ سے رہا نہ گیا۔ دوڑی دوڑی دروازے پر پہنچی۔ ہمارے ہاں پردے کی سخت پابندی ہے، مگر میں نے آہستہ سے دروازے سے جھانک کر دیکھا۔ گورا رنگ، لمبا قد، خوبصورت چہرہ۔ مجھے وہ بہت اچھے لگے۔ میں پردے کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔ وہ نانی سے لپٹ گئے، نانی نے بھی انہیں گلے سے لگایا اور رونے لگیں۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ تو پاکستان سے آئے ہیں، اور یہ وہی فراز ہیں، میری خالہ کے بیٹے، جو مجھے خط لکھا کرتے تھے۔ تبھی نانی نے مجھے بلا کر ان سے کہا، کیا اپنی گڑیا سے نہیں ملو گے؟ مجھے دیکھ کر وہ ہنس دیے۔ ارے بھئی، گڑیا تو بہت بڑی ہو گئی ہے!تب وہ میرے قریب آ کر آہستہ سے بولے، تمہیں میرے ساتھ جانا ہوگا، میں تمہیں لینے آیا ہوں۔

خدا کی کرنی، اسی دن وہ صاحب نہ آ سکے جنہوں نے میرے رشتے کے لیے بنگلور سے آنا تھا۔ فراز کو میں اتنی پسند آئی کہ انہوں نے نانی سے میرا رشتہ مانگنے کا پکا ارادہ کر لیا۔ (مکمل کہانی کا لنک اوپن کرلیں شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/07/choti-sokan.html


02/08/2025

(PS5) Uncharted 4 - Extreme Parkour Mission - Ultra Realistic Graphics Immersive Gameplay [4K60FPS]

مجھے پہلی ہی نظر میں چچا کی دلہن سے شدید عشق ہو گیا تھا۔ ماہ پارہ چچی جب تک بیٹھک میں موجود رہیں، میری نگاہیں ان کے حسین...
02/08/2025

مجھے پہلی ہی نظر میں چچا کی دلہن سے شدید عشق ہو گیا تھا۔ ماہ پارہ چچی جب تک بیٹھک میں موجود رہیں، میری نگاہیں ان کے حسین چہرے پر مرکوزرہیں اور جب وہ اعجاز چچا کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی گئیں تو مجبورا مجھے بھی اپنے کمرے میں جانا پڑا۔ رضائی میں میں نے آنکھیں تو بند کر لیں، مگر نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ چچی کا چاند چہرہ اور ستارہ آنکھیں میری آنکھوں میں گھوم رہی تھیں۔
👇👇
میں اس وقت کوئی نو برس کا رہا ہوں گا، جب ایک رات اعجاز چچا اپنی نئی نویلی دلہن ماہ پارہ چچی کے ساتھ پہلی بار ہمارے گھر آئے تھے۔ وہ جاڑوں کی ایک ٹھٹھرتی ہوئی رات تھی۔ حسب معمول سر شام ہی کوچہ و بازار سنسان ہو گئے تھے۔ مغرب کے بعد کھانا کھلا کر امی جان نے ہم تینوں بہن، بھائیوں کو سونے کے لئے کمرے میں بھیج دیا تھا اور خود بابو جی کے ساتھ بیٹھک میں جا بیٹھی تھیں۔
تین برس پہلے ہم سب ، ہماری اکلوتی پھوپی رخشندہ کی شادی پر گائوں گئے تھے اور وہیں پہلی بار میں نے اعجاز چچا کو دیکھا تھا۔ وہ لمبے قد اور چھریرے جسم کے ایک وجیہ اور خوبرو انسان تھے ۔

وہ مجھے بے حد اچھے لگے تھے۔ انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ سے میرے بالوں کو بکھیرتے ہوئے پیار بھرے لہجے میں پوچھا تھا۔ کیوں … ولی کیسے ہو؟ میں اپنے بہن، بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اسی لئے وہ ہمیشہ مجھے ولی عہد “ کہتے تھے اور ان کا ولی عہد کہنا مجھے اچھا لگتا تھا۔ دو روز قبل ایک گارڈ کے ذریعے دادا ابا کی طرف سے ایک چٹھی موصول ہوئی تھی، جس سے حالات کے بارے میں کچھ آگاہی تو ضرور ہوئی تھی، مگر یہ پتا نہیں چل سکا تھا کہ اعجاز چچا کب تک یہاں پہنچیں گے ۔ البتہ خط ملتے ہی امی جان نے ہمارے کمرے کے ساتھ والا کمرہ ان کے لئے ٹھیک کروادیا تھا، بستر پر نئی چادر بچھادی تھی اور باتھ روم میں نیا تولیہ رکھوا دیا تھا۔ دادا ابا کا خط پڑھ کر بابوجی کسی انجانی تشویش میں مبتلا ہو گئے تھے۔ امی جان بھی فکر مند نظر آرہی تھیں مگر وہ اس بات سے خوش تھیں کہ برسوں بعد ان کے گھر کوئی سسرالی رشتے دار آنے والا تھا۔میرے چھوٹے بھائی، بہن اسد اور تہمینہ سوچکے تھے۔

میں بھی سویا ہوا تھا، مگر کسی آہٹ سے میری آنکھ کھل گئی تھی۔ میں نے بستر سے اتر کر کمرے کے نیم وا دروازے کے کواڑ سے بیٹھک کی طرف جھانکا تھا۔ بیٹھک کے کونے میں تپائی پر لالٹین دھری تھی اور سامنے بید کی کرسیوں میں سے ایک پر بابوجی بیٹھے تھے۔ ان کے سامنے صوفے پر امی جان بیٹھی تھیں۔ دونوں کے چہروں پر فکر مندی اور پریشانی لرزاں تھی۔ آپ نے اسٹیشن پر تو کسی کو بتا دیا ہے نا؟ امی جان نے دھیمی آواز میں سوال کیا۔ ”ہاں! قلی دین بخش کی ڈیوٹی لگا دی ہے۔ وہ ان کے سامان سمیت انہیں بحفاظت گھر پہنچادے گا۔ “ بابو جی نے کمرے کے داخلی دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ تب ہی دروازے پر دستک ہوئی۔ شاید آ گئے …؟ بابو جی نے کہا اور کانوں کے گرد مفلر لپیٹتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ امی جان کونے میں دھری لالٹین اٹھا کر ان کے پیچھے چلی تھیں۔ میں بھی آنکھیں ملتا ہوا ان دونوں کے پیچھے آ کھڑا ہوا تھا۔

پھاٹک کھلنے کے بعد پہلے قلی دین بخش اندر داخل ہوا تھا۔ اس کے سرپر ایک درمیانے سائز کا بکس تھا۔ اس نے بابوجی کو سلام کر کے بکس فرش پر رکھتے ہوئے کہا۔ لیجئے سرکار ! ہم آپ کے مہمان لے آئے۔“ بابو جی نے پر اشتیاق نظروں سے پھاٹک کی طرف دیکھا۔ اعجاز چچا اندر داخل ہو رہے تھے۔ بابوجی تیزی سے آگے بڑھ کر گرم جوشی کے ساتھ ان سے بغل گیر ہوئے تھے۔ ان کے پیچھے سیاہ برقعے میں ملفوف چہرے پر نقاب ڈالے خاتون کھڑی تھیں۔ امی جان انہیں دیکھتے ہی تیزی سے آگے بڑھیں اور انہیں گلے سے لگا لیا۔ چلو اندر چلو ۔ “ بابو جی نے گیٹ بند کرتے ہوئے کہا اور سب لوگ برآمدے کی سیڑھیاں چڑھتے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔

باہر کی نسبت کمرہ خاصا گرم تھا۔ اعجاز چچا، بابوجی کے پہلو میں صوفے پر بیٹھ چکے تھے جبکہ ماہ پارہ چچی صوفے کے دائیں جانب کھڑی تھیں۔ ارے تم بھی بیٹھو نا ! “ امی جان نے اپنائیت بھرے لہجے میں مخاطب کیا۔ اور یہ کیا. اب تک تم نے چہرے سے نقاب بھی نہیں اٹھایا ؟“ یہاں سب اپنے ہیں ۔ “ اعجازچچا نے چچی کی طرف دیکھ کر نرم لہجے میں کہا۔ ” یہاں پردے کی ضرورت نہیں، برقع اتار دو اور نہیں تو کیا امی جان چہکتی آواز میں بولیں ۔ ہم بھی تو دیکھیں اپنے اعجاز میاں کی پسند ! امی جان نے آگے بڑھ کر ان کے چہرے سے نقاب الٹ دیا۔ نقاب کے الٹتے ہی جانو کمرے میں اجالا پھیل گیا۔ بابوجی اورامی جان نے حیران نظروں سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا، پھر ان کی متعجب اور تحسین آمیز نظریں ماہ پارہ چچی کے چہرے پر جا ٹھہری تھیں۔ میں ٹکٹکی باندھے ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ سیاہ برقعے کی اوٹ سے ان کا چہرہ بادلوں میں گھرے چاند جیسی لگ رہا تھا۔ گھنی سیاہ پلکوں سے بھی پر کشش آنکھوں سے پل بھر کو انہوں نے بابوجی اور امی جان کی طرف دیکھا اور اپنا ہاتھ صندلی پیشانی تک لے جاکر ”آداب “ کہا۔ کمرے کی ساکن فضا میں لحظہ بھر کو ان کی نقرئی آواز کا ارتعاش جاگا۔

پھر انہوں نے اپنی روشن آنکھوں کے دریچوں پر پلکوں کی چلمن گرا لی تھی۔ ان کا حسن بے مثال دیکھ کر میرے ننھے سے دل پر عجب اثر ہوا تھا۔ مجھے پہلی ہی نظر میں ان سے شدید عشق ہو گیا تھا۔ (مکمل کہانی کا لنک اوپن کرلیں شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2023/12/jaldbaaz-mehboob-urdu-kahani.html


02/08/2025

Play as Nathan Drake and Chloe Frazer in their own standalone adventures as they confront their pasts and forge their own legacies.

01/08/2025

Join my Streaming and follow for more PC Gameplay streaming

وہ عورت اٹھ کرعادل کے بالکل قریب بیٹھ گی اور چھیڑ چھاڑ کرنے لگی۔ بے چارہ عادل پسینے پسینے ہو گیا۔ ظاہر ہے، اس نئی نویلی ...
01/08/2025

وہ عورت اٹھ کرعادل کے بالکل قریب بیٹھ گی اور چھیڑ چھاڑ کرنے لگی۔ بے چارہ عادل پسینے پسینے ہو گیا۔ ظاہر ہے، اس نئی نویلی دلہن کی یہ بے تکلفی اسے ایک آنکھ نہ بھائی تھی مگر خاموش رہا کہ پہلی بار ہمارے گھر آئی تھی۔ یا اللہ کیسی بے باک عورت ہے، اس نے سوچا۔ وہ گھبرا گیا اور اس کی گھبراہٹ سے محفوظ ہوتے ہوئے اس نے اٹھ کر دروازے کی چٹخنی لگا دی۔
👇👇
میرے شوہر سجاول بچپن میں ہی والدین کے سایے سے محروم ہو گئے تھے۔ انہوں نے اپنے بھائی کے ساتھ دادی کی گود میں پناہ لی، مگر تھوڑے دنوں بعد وہ چل بسیں اور یہ دونوں پھپھیوں کے رحم و کرم پر آگئے۔ کٹھن وقت بیتتا رہا۔ سجاول میری خالہ کے بیٹے تھے، میٹرک پاس کر کے نوکری پر لگ گئے۔

سسر صاحب ذاتی مکان ورثے میں چھوڑ گئے تھے۔ پھوپھی اب بوڑھی ہو چکی تھیں، انہوں نے سجاول کی شادی کرادی تا کہ گھر بس جائے ۔ میں ان کی بچپن کی منگیتر تھی، میرے والدین ان کی مجبوریاں جانتے تھے، لہذا سادگی سے شادی ہو گئی۔ مجھے سجاول کے دکھوں اور محرومیوں کا احساس تھا، اس لئے میں نے ان کے گھر کو سنبھالا اور پیار بھرا ماحول رکھا، یوں سجاول تو شادی کے بعد پر سکون ہو گئے لیکن ان کا چھوٹا بھائی عادل اب تک والدین کی محرومی کے احساس سے نہیں نکل پایا تھا۔ گاؤں میں ہمارے کئی رشتہ دار رہتے تھے، جب موقع ملتا ، وہ ان کے گھروں میں جا گھستا۔ میں اسے سمجھاتی بھی کہ تم اب بڑے ہو گئے ہو، یہ مناسب بات نہیں کہ لوگوں کے گھر میں جا بیٹھو۔ وہ میری بات ایک کان سے سنتا اور دوسرے کان سے اڑا دیتا تھا۔ وہ دراصل محبت کا بھوکا تھا۔

برداری کے ایک رشتہ دارلڑ کے فاضل سے اس کی دوستی ہوگئی تھی ۔ یہ اکثر ان کے گھر جاتا۔ ایک دن نہ جانے کس بات پر فاضل والوں کی ہم سے ان بن ہوگئی ۔ فاضل کی شادی پر تبھی انہوں نے ہمیں نہ بلایا لیکن عادل چوری چھپے اس کی شادی میں شرکت کرنے چلا گیا۔ فاضل اکثر اپنی دلہن کو بتایا کرتا تھا کہ اس کا ایک پیارا دوست عادل ہے مگر خاندان میں ناراضی کے سبب نہیں آتا۔ وہ میرے دیور کو بہت یاد کرتا تھا، تب ہی اس کی بیوی کے دل میں بھی عادل کو دیکھنے کی آرزو پیدا ہوگئی ۔ آخر ایک دن عادل اور فاضل میں صلح ہوگئی۔ اس کے نتیجے میں عادل ایک دن کپڑے استری کروانے کے بہانے ان کے گھر چلا گیا۔ اس روز ہمارے گھر بجلی نہیں تھی اور عادل کو شام میں ایک دوست کی سالگرہ میں جانا تھا۔ اس نے فاضل کی امی سے کہا۔ خالہ مجھے کپڑے استری کرنے ہیں، تب ہی آیا ہوں۔ خالہ نے اسے پیار سے بٹھایا اور استری لگا کر دی۔ جب وہ کپڑوں پر استری پھیرنے لگا، تب ہی فاضل کی دلہن آگئی۔

ساس سے پوچھنے لگی اچھا یہی وہ عادل صاحب ہیں جن کا ذکر اکثر آپ کا بیٹا مجھ سے کرتا رہتا ہے، پھر وہ عادل سے مخاطب ہوئی ۔ لاؤ میں کپڑے استری کردوں ۔ آپ تکلیف نہ کریں بھا بھی ! میں خود ہی کیے لیتا ہوں ۔ گھر میں بھی اپنے کپڑے میں خود استری کرتا ہوں ۔ دلہن نہ مانی۔ اس نے عادل کے ہاتھ سے استری لی اور کپڑے پریس کرنے لگی۔ اس کا دھیان نہ جانے کدھر تھا۔ استری قمیض پر دھری رہ گئی اور دھواں اٹھنے لگا۔ یہ دیکھ کر عادل کو بہت غصہ آیا مگرنئی دلہن تھی، لحاظ کر گیا۔ اسے مزید غصہ تب آیا، جب وہ افسوس کے بجائے ہنسی ٹھٹھول کرنے لگی۔ عادل سوچ رہا تھا کہ یہ کیسی عورت ہے، ذرا بھی اس کی آنکھ میں لحاظ نہیں۔ وہ اپنی جلی ہوئی قمیض اٹھا کر گھر آگیا۔ اس روز موڈ اتنا خراب ہوا کہ تقریب میں بھی نہ گیا، بلکہ اپنے کمرے میں جا کر سو گیا۔ هفته بمشکل گزرا تھا کہ یہ دلہن کے صاحبہ جس کا نام بلقیس تھا، ہمارے گھر آگئیں۔ عادل کرسی پر بیٹھا کوئی اخبار دیکھ رہا تھا۔ نہ سلام، نہ دعاء آتے ہی فٹ سے بولی۔ عادل تم دوبارہ کیوں نہیں آئے؟ دوست سے ملنے تو آ جاتے۔ فاضل کتنا تم کو یاد کرتے ہیں۔

کیا قمیض کے جل جانے سے ناراض ہو گئے ہو۔ نہیں بھابھی ، ایسی بات تو نہیں ہے۔ میں مصروف رہتا ہوں۔ بھائی کے ساتھ کھیتوں میں کام دیکھنا پڑتا ہے، وہ کہنے لگی۔ بھابھی کیوں کہتے ہو، میرا نام تو دلربا ہے۔ عجیب نام ہے۔ کیا تمہارے ماں باپ نے یہ نام رکھا ہے؟ نہیں، انہوں نے تو بلقیس رکھا مگر مجھے یہ پرانی ٹائپ کا نام پسند نہیں۔ میں نے خود اپنا نام دلربا رکھ لیا ہے۔ خیر، ہرکسی کی اپنی سوچ ہوتی ہے، مگر میں تو آپ کو بھابھی ہی کہوں گا۔ عادل نے نگاہیں نیچی کر کے کہا۔ وہ اس خاتون کی جرات پر حیران تھا۔ وہ جانتی تھی کہ آج وہ گھر میں اکیلا ہے۔ اس نے فون کرکے معلوم کر لیا تھا کہ گھر والے کہیں گئے ہوئے ہیں۔ (مکمل کہانی کا لنک اوپن کرلیں شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2024/11/gunah-ki-daldal.html


آخر میری شادی میری سہیلی کے بھائی نذیر احمد سے ہو گئی۔ اور شادی بھی ایسی ہوئی، جیسے گھر سے کوئی جنازہ اُٹھا ہو۔ ابا نے ت...
01/08/2025

آخر میری شادی میری سہیلی کے بھائی نذیر احمد سے ہو گئی۔ اور شادی بھی ایسی ہوئی، جیسے گھر سے کوئی جنازہ اُٹھا ہو۔ ابا نے تو رخصتی تک مجھ سے ترک کلام ہی رکھا۔ یوں میں دُکھے دل سے روتی ہوئی بابل کے گھر سے رخصت ہو گئی۔ ٹیچر جو پہلے غم گسار سہیلی جیسی تھی ، جب تند بنی تو یک دم بدل گئی۔
👇👇
میں نے ایسے گھرانے میں جنم لیا، جہاں تکلیف کو حمل اور غربت کو شرافت کے لبادے میں چھپا دیا جاتا ہے۔ کچھ یاد نہیں بچپن کیسے بیتا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول میں پائی جب ذرا ہوش سنبھالا ، گھر کی فضا کو مکدر پا یا ۔ وجہ والد صاحب کی تنک مزاجی تھی ۔ دنیا نے ترقی کر لی مگر ان پر زمانے کی تیز رفتاری کا کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ اب بھی اپنی سوچ و چار میں ایسے ہی تھے، جیسے ان کے دادا پر دادار ہے ہوں گے۔

جب سے ہوش سنبھالا ، یہی دیکھا کہ ہمارے والدین میں ہمہ وقت ایک فاصلہ اور خاموشی کی دیوار حائل رہتی ہے۔ خدا جانے ، کب وہ آپس میں مل بیٹھ کر اپنائیت سے بات کرتے تھے۔ ہاں کبھی کسی بات پر اختلاف کی وجہ سے لڑ پڑتے تو اس جھگڑے کا خمیازہ ہم بچوں کو بھگتنا پڑتا اور دنوں تک گھر کی فضا مکدر ، تناؤ بھری بلکہ زہریلی ہو جاتی ، اس کھنچاؤ بھری فضا میں سانس لینا بھی مشکل ہو جاتا ۔ بات بات پر کبھی اماں، کبھی ابا کے ہاتھوں ہماری پٹائی ہو جاتی۔ ابا کے سامنے تو اتنی ہمت نہ ہوتی کرکھل کر بات کر سکتے ۔ ہماری شوخیاں اور شرارتیں ان کے قدموں کی چاپ میں دب کر رہ جاتی تھی تھیں۔ گھر میں ہم دو بہنیں اور دو بھائی تھے۔ مجھے اللہ نے اچھی صورت دی تھی، تبھی نو خیز عمر میں ہی رشتوں کا تانتا بندھ گیا۔ کبھی خالہ آرہی ہیں تو کبھی پھو پھی ، انہی دنوں میری امی کی خالہ رشتے کے لئے آئیں ۔

میرے والدین نے ان سے وعدہ کر لیا کہ وہ سائرہ یعنی میرا رشتہ ان کے بیٹے مسرور کو دیں گے۔ بس پھر کیا تھا، لڑکیاں مجھ کو اس کے نام چھیڑنے لگیں۔ یہیں سے میرے دل میں منگیتر سے محبت کی ابتدا ہوئی۔ میرا جی چاہتا تھا کہ میں ایک نظر مسرور کو دیکھوں کہ وہ کیسا ہے؟ پھر یہ خواہش دل میں جڑ پکڑتی گئی۔ مجھے اپنے ننھیال والوں سے بہت محبت تھی۔ نانی جان ان دنوں کسی دوسرے شہر میں رہتی تھیں۔ میں اکثر گرمیوں کی چھٹیوں میں اس آس پر وہاں جاتی تھی کہ شاید وہ لوگ بھی وہاں آجائیں۔ میں اکثر اپنی کا پیوں پر ایم ایم لکھتی رہتی ۔ یہ کم عمر لڑکیوں کے مشغلے ہوتے ہیں ۔ میں بھی ان ہی جذباتی لڑکیوں کی مانند خود کو ان مشغلوں سے بہلائے رھتی تھی۔ مسرور کی خیالی محبت نے میرے ارد گرد حصار سا بنا لیا تھا۔ میں نے اپنے روز و شب اس کے تصورات سے سجا رکھے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ میرے ذہن میں اس کی محبت کے نقش گہرے ہوتے جاتے تھے۔ ممکن ہے یہ نو خیز عمر کی خود فریبی ہو ، لیکن ان دنوں تو یہ بات زندگی اور موت کے سوال سے اہم لگتی تھی۔ آخر ایک دن خدا نے میری سن لی۔ ابا جان موٹر سائیکل کے حادثے میں زخمی ہو گئے تو مسروران کو دیکھنے تھوڑی دیر کے لئے ہمارے گھر آیا۔

وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا اور مجھے اس کے سامنے جانے سے گھبراہٹ سی ہو رہی تھی۔ یوں وہ مجھے دیکھے اور بات کئے بناواپس چلا گیا۔ میں نویں جماعت میں تھی کہ خالہ سجو اپنے بیٹے کی منگنی کی رسم کرنے کی غرض سے آگئیں ۔ جب ابا جان کو پتا چلا کہ مسرور صرف آٹھویں تک پڑھا ہے تو انہوں نے اس بات پر میرا رشتہ دینے سے منع کر دیا اور بولے۔ لڑکا میٹرک پاس بھی نہیں ہے۔ میں بیٹی کا رشتہ اس کو کیوں کر دے سکتا ہوں؟ خالہ کو انکار کی توقع نہ تھی کہ بچپن میں بات طے ہو چکی تھی۔ ان کو بہت صدمہ ہوا اور وہ بجھے دل کے ساتھ واپس لوٹ نہیں ۔ ان کے اس طرح افسردہ جانے کا مجھ کو بے حد دکھ ہوا، لیکن میں اس دکھ کا اظہار کس سے کرتی ؟ چپکے چپکے آنسو بہا کر رہ گئی۔ اب میں ہر اپنی ہتھیلیوں ، کتابوں اور کاپیوں کے پنوں پر ایم لکھتی رہتی تھی۔ تبھی سنا کہ اس کی منگنی رشتہ داروں میں ہوگئی ہے ۔ اس خبر کو سن کر مجھے ایسا محسوس ہوا، جیسے کسی نے میری بہت قیمتی چیز چھین لی ہے اور اب میں خالی ہاتھ رہ گئی ہوں ۔ میں نے شادی نہ کرنے کی قسم کھائی۔

جب بھی ہمارے گھر رشتے کے لئے کوئی آتا ، جی چاہتا کہ میں خودکشی کرلوں۔ بچپن سے جس کے خیال نے ذہن میں رنگ بھرے ہوئے تھا، اس کو دل سے نکالنا میرے لئے محال تھا۔ میں نے اپنا غم اپنے دل میں چھپا لیا۔ اب جب بھی کوئی ہم جولی مجھے مسرور کے نام سے چھیڑتی تو میں آنسو پی کر رہ جاتی نہیں چاہتی تھی کہ ان میں سے کسی کو اس بات کا علم ہو کہ میری شادی اب اس سے نہیں ہو رہی ہے تا کہ میری سبکی نہ ہو۔ جب میں نے میٹرک کا امتحان دیا تو سجو خالہ کے بڑے لڑ کے فاضل کی شادی کا بلاوا آگیا۔ اپنے گھر والوں کے ہمراہ میں بھی دھڑکتے دل کے ساتھ اس کی شادی میں گئی ۔ (مکمل کہانی کا لنک اوپن کرلیں شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2024/10/dosri-shadi.html


متین صاحب کی بہو، جو محلے میں گنجی بہو کے نام سے مشہور تھی، اسپتال کے لیبر روم میں دردِ زہ کے باعث پڑی ہوئی تھی۔ کچھ پیچ...
01/08/2025

متین صاحب کی بہو، جو محلے میں گنجی بہو کے نام سے مشہور تھی، اسپتال کے لیبر روم میں دردِ زہ کے باعث پڑی ہوئی تھی۔ کچھ پیچیدگیاں درپیش تھیں، اس لیے ڈاکٹرز آپریشن کی تیاری کر رہے تھے کہ سلیم کی اماں اسپتال پہنچ گئیں۔ بغیر کسی جھجک کے سیدھا لیبر روم میں داخل ہو گئیں۔ نرس نے روکنے کی کوشش کی تو اسے جھڑک دیا اور لیڈی ڈاکٹر کے سامنے جا کھڑی ہوئیں۔ڈاکٹر صاحبہ، آپریشن سے پہلے مجھے بہو پر دم اور تعویذ باندھنے کی اجازت دیجیے۔
👇👇
محلے کی ساری بہوؤں نے باجماعت دعا کی کہ اللہ سلیم کی اماں کو اپنے پاس بلالے، مگر مجال ہے کہ انہیں چھینک تک آئی ہو۔ محلے بھر کی ساسیں ان کو بہت پسند کرتی تھیں، کیونکہ جو بات وہ اپنی بہو کو منہ پر نہ کہہ سکتی تھیں، وہ سلیم کی اماں سے کہلوا لیتیں۔ سلیم کی اماں اِن ڈائریکٹ انداز میں بہو کو صلواتیں سناتیں، گویا کسی اور سے مخاطب ہوں۔ تاہم جب وہ بہو شکایت کرتی اور شوہر، یعنی سلیم کی اماں کے بیٹے سے شکوا کرتی، تو وہ حیران ہو جاتا۔ اور جب بیٹا ماں سے پوچھتا، تو سلیم کی اماں کہتیں: “میں نے تمہاری بیوی سے تو کچھ نہیں کہا، میں تو خدا لگتی بات کرتی ہوں۔ اگر اُس نے میرے کہے کو اپنے اوپر لے لیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ انہی عیوب کی مالک ہے۔” اب بیچارہ شوہر لاجواب ہو کر رہ جاتا۔

شاہد صاحب کا بیٹا فوج میں تھا اور اپنی شادی کے سلسلے میں آیا ہوا تھا۔ دلہن کی والدہ نے دیکھا کہ روٹیاں پکانے کے لیے ملازمہ آتی ہے، جبکہ سالن بہوئیں بناتی ہیں۔ سالن بنانے کے لیے دن مقرر تھے کہ کس دن کس بہو کی باری ہو گی۔ ان میں سے ایک بہو کی حرکت یہ تھی کہ سالن میں کبھی نمک تیز ہوتا، کبھی مرچ، اور کبھی سالن جل جاتا۔ چنانچہ سلیم کی اماں نے فیصلہ کیا کہ اس بہو کی مستقل ڈیوٹی سالن بنانے پر لگائی جائے تاکہ وہ ٹھیک طرح سے کھانا پکانا سیکھ سکے۔ جب دلہن کی ماں کو معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی کو کھانا پکانا نہیں آتا، تو انہوں نے گزارش کی کہ اُس سے کھانا نہ پکوایا جائے۔

سلیم کی اماں نے شاہد صاحب کی بیگم کو مشورہ دیا کہ شادی کے بعد بیٹے کو تو واپس ڈیوٹی پر جانے دیں، لیکن بہو کو روک کر رکھیں، اور اُسے تبھی بھیجیں جب وہ اچھی طرح سالن بنانا سیکھ لے۔یہ بات جب دلہن کی ماں کو معلوم ہوئی تو وہ گھبرا گئیں۔ چنانچہ آٹھ دن بعد، جب دولہا واپس اپنی پوسٹنگ پر جانے لگا، تب دلہن نے خود سالن پکا کر میز پر رکھا، جس کی سب نے تعریف کی۔ یوں بہو کو ساتھ رخصت کیا گیا۔محلے میں کوئی فوتگی ہوتی تو غسلِ میت کے لیے سلیم کی اماں فوراً پہنچ جاتیں۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ وہ اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ میتوں کو غسل دیں۔ محلے کے شرارتی لڑکوں نے ایک دن ان کے گھر کے باہر بڑے حروف میں لکھ دیا: یہاں زنانہ غسلِ میت کے لیے عملہ فری دستیاب ہے! یہ پڑھ کر وہ غصے سے کانپ اٹھیں اور اُن لڑکوں کو بد دعا دی: تمہاری ماؤں کو بھی کوئی غسل دینے والی نہ ملے! امی نے بچپن میں سلیم کو قرآن پڑھایا تھا، اسی لیے وہ ان کا بہت احترام کرتی تھیں۔ ہماری امی ہی محلے کی وہ واحد خاتون تھیں جن کی بات سلیم کی اماں سن لیا کرتی تھیں۔

اماں نے انہیں کئی بار ہر معاملے میں ٹانگ اڑانے پر ڈانٹا، مگر وہ گردن جھکائے خاموشی سے سن لیتی تھیں۔ وہ تین دن میں ایک قرآن پاک ختم کر لیا کرتی تھیں، اسی لیے جہاں بھی قرآن خوانی ہوتی، انہیں بلایا جاتا اور وہ فوراً پہنچ جاتیں۔ان کا خاندان چاندی کے کاروبار سے وابستہ تھا، گھر میں خوشحالی تھی، مگر ان کی جاہل بہوئیں ہر روز نت نئے فیشن اپناتیں، جس پر سلیم کی اماں کو سخت اعتراض ہوتا۔ ان کی ایک بہو نے بیل باٹم سلوایا، جو انہیں بالکل پسند نہ آیا۔ جب بھی وہ بہو کو یہ پتلون پہنے دیکھتیں، کہتیں: آج پھر ہاتھی کے کانوں والی پتلون پہن لی! البتہ، ان کے گھر کی کوئی بہو بال نہیں کٹوا سکتی تھی۔ متین صاحب کی بہو نے بال کٹوائے، تو انہوں نے اس کا نام “گنجی بہو” رکھ دیا، اور وہ اسی نام سے محلے میں مشہور ہو گئیں۔محلے کے لڑکوں کی شادی میں وہ خود ابٹن بناتی تھیں، جس کی خوشبو سے سارا کمرہ مہک جاتا۔ وہ ایسا قورمہ بناتی تھیں کہ بڑے بڑے ماہر باورچی بھی شرما جائیں۔ مگر ان کی بہوئیں کہتیں کہ یہ ان کا کمال نہیں بلکہ مصالحے اچھے ہوتے ہیں۔ جب یہ بات سلیم کی اماں کے کانوں تک پہنچی، تو انہوں نے فوراً حکم دیا کہ بہو بادام والا قورمہ بنائے۔

قورمہ تیار ہوا، مگر اس میں کچھ بادام کچے اور ٹوٹے ہوئے تھے۔ سلیم کی اماں نے موقع غنیمت جانا اور فوراً طعنہ دیا: تمہاری ماں نے تمہیں کچھ نہیں سکھایا؟ بھلا شاہی ڈش بنانا بھی کوئی عام بات ہے؟ ان کا اصول تھا کہ محلے کی کوئی لڑکی چھپکے سے نہ کھائے، ورنہ ہاتھ سے کھانے کا ذائقہ چلا جاتا ہے۔ ان کی اپنی دنیا، اپنے اصول تھے، جن سے وہ ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھیں۔یہ عجیب بات ہے کہ جن گھروں میں عورتوں کی آواز بہت اونچی ہوتی ہے، وہاں مرد بہت آہستہ بولتے ہیں۔ یہی حال سلیم کی اماں کے گھر کا تھا۔ ان کی آواز اتنی بلند تھی کہ محلے کے آخری نکڑ تک سنائی دیتی تھی۔ متین صاحب کی بہو، جو محلے میں گنجی بہو کے نام سے مشہور تھی، اسپتال کے لیبر روم میں دردِ زہ کے باعث پڑی ہوئی تھی۔ (مکمل کہانی کا لنک اوپن کرلیں شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/07/mohalay-ki-rani.html


میں بچپن میں کھوگئی تھی۔ بسکٹ لینے گھر سے نکلی اور گلی بھول گئی۔ عمر ساڑھے تین سال تھی۔ روتی روتی گھر سے دور نکل گئی۔ ام...
31/07/2025

میں بچپن میں کھوگئی تھی۔ بسکٹ لینے گھر سے نکلی اور گلی بھول گئی۔ عمر ساڑھے تین سال تھی۔ روتی روتی گھر سے دور نکل گئی۔ امی سورہی تھیں، ہمیشہ ان کے ساتھ بسکٹ خریدنے جاتی تھی۔ اس روز ماں کا پرس سامنے پڑا تھا، کھولا تو روپے نظر آگئے۔ ایک نوٹ مٹھی میں دبایا اور دروازہ کھول کر نکل پڑی۔
👇👇
اس کے بعد اصل ماں باپ، گھر، جو میرا اپنا تھا، سبھی ماضی کا حصہ ہو گئے۔ نجانے کیسے ایک عورت مل گئی اور رو رو کر ہلکان ہوتی بچی سے پوچھا۔ کیوں رو رہی ہو؟ ماں باپ گھر بار کے بارے سوال کئے۔ میں کچھ نہ بتا سکی۔ نوٹ ابھی تک میری مٹھی میں دیا تھا۔ وہ سمجھ گئیں کہ گم گئی ہوں ۔ صبح کی نکلی تھی ، اب شام ہونے آئی تھی۔ وہ مجھے اپنے گھر لے آئیں ، کھانا کھلایا، پیار کیا تھکی ہوئی تھی جلد ہی سو گئی۔

صبح اٹھی تو نہ وہ گھر تھا نہ وہ آنگن، جہاں رہتی اور کھیلتی تھی اور نہ وہ صورتیں تھیں ، جو اس گھر میں میرے ساتھ ہوتی تھیں۔ رفتہ رفتہ ماں باپ، بہن بھائی بھلا دیئے۔ مجھے اپنے ساتھ لانے والی نے یقیناً میرے ماں باپ کو ڈھونڈا ہوگا۔ میں نے اپنا نام روشی بتایا۔ اصل نام کیا تھا؟ وہ بھی یاد نہ رہا۔ ان نئے لوگوں کے گھر میں گویا میرا دوسرا جنم تھا۔ ان کی دو بیٹیاں وفات پا گئی تھیں، پھر اولاد نہ ہوئی۔ میرا انہیں یوں مل جانا گویا ان کی دعاؤں کا ثمر تھا۔ گرچہ یہ غریب یہ لوگ تھے مگر مجھے نازونعم سے پالاجب میں گیارہ برس کی ہوئی تو امی بیمار رہنے لگیں ۔ ڈاکٹروں کا علاج جاری تھا، مگر ماں کو یہ وہم تھا کہ وہ اب زیادہ نہ جئیں گی۔ یہی مجبوری تھی جس نے مجھے وقت سے پہلے دلہن بننے پر مجبور کر دیا۔ جس ڈاکٹر سے والدہ کا علاج ہو رہا تھا ، وہاں ایک بڑی عمر کے آدمی آیا کرتے تھے، جن کا اپنا چھوٹا سا میڈیکل اسٹور تھا۔ وہ دوائیں پہنچانے اسپتال آتے تھے۔ ابا جان سے ان کی سلام دعا ہوئی۔ نام ان کا قمر تھا۔

تب والد صاحب انہی کے میڈیکل اسٹور سے دوائیں لینے لگے۔ ایک دوبار میں بھی اماں کے ساتھ ڈاکٹر کے گئی تبھی قمر نے مجھے دیکھا اور ابا سے بعد میں پوھا کہ کیا آپ نے اپنی بچی کا رشتہ کرنا ہے؟ ہاں، کرنا تو ہے، دراصل اس کی ماں کو اس کی بہت فکر ہے، مگر میں ابھی اس کو بیاہنا نہیں چاہتا۔ اس کی عمر بہت چھوٹی ہے۔ ٹھیک ہے، جب بیٹی کا رشتہ کرنے کا خیال ہو مجھے بتانا۔ میرے پاس ایک اچھا رشتہ موجود ہے۔ والد نے ایک روز قمر کی کہی بات کا امی سے تذکرہ کر دیا۔ وہ بولیں۔ اگر رشتہ ٹھیک ہو تو بات کر لیں لیکن ہماری خوش بخت تو ابھی بارہ سال کی بھی نہیں ہے۔ نہیں ہے تو کیا ہوا ؟ ہو جائے گی کچھ دنوں میں۔ رشتہ پہلے سے طے کر لینے میں تو کوئی حرج نہیں۔ دو تین سال تک منگنی رہے گی پھر شادی کر دینا۔ ابا کو ماں کی یہ بات ٹھیک لگی۔ ایک روز قمر نے پھر سے رشتے کی بات چھیڑ دی تو انہوں نے کہہ دیا کہ رشتہ دکھا دو۔ پسند آیا تو بات پکی کر لیں گے اور جب ہماری بیٹی پندرہ برس کی ہو جائے گی تو شادی کریں گے۔ مجھے منظور ہے۔ وہ بولے لڑکے بارے فکر نہ کریں ، وہ شریف آدمی ہے۔ اپنا کاروبار، اپنا مکان اور تین دکانیں ہیں، جو کرایے پر لگی ہوئی ہیں۔ روپے پیسے کی بھی کمی نہیں ہے۔

دراصل میری بیوی بیمار ہیں۔ کافی علاج کروایا ٹھیک نہیں ہوئیں ۔ اب ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ پتے میں پتھری ہے، آپریشن کرانا پڑے گا لیکن اس کے لئے کافی رقم درکار ہے۔ ارے بھائی ، آپ اس کی فکر نہ کرو۔ جتنے پیسے چاہئیں مجھ سے لے لو۔ میں کہیں نہیں بھاگا جا رہا اور تم بھی کہیں نہیں جا رہے۔ رقم جب تمہارے پاس آ جائے دے دینا آپریشن ضروری ہے میں گاؤں سے شہر آتا ہوں بیوی کے علاج کی خاطر یہاں آنے جانے پر ہی کافی پیسے لگ جاتے ہیں۔ پرائمری اسکول کا ماسٹر ہوں معمولی تنخواہ ہے۔ آپریشن کے دوران کہاں قیام کروں گا ؟ بڑے مسائل ہیں۔ قیام بھی میرے گھر کر لینا آپ لوگ۔ انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔ میرا پانچ کمروں کا بڑا سا مکان ہے اور اس میں فی الحال میں اکیلا ہی رہتا ہوں ۔ اللہ کا دیا اتنا ہے کہ سماتا نہیں۔ یہ دولت کس کام کی جو کسی ضرورت مند کے کام نہ آئے۔

ابا کو اس آدمی نے ایسا حوصلہ دیا کہ وہ شہر کے بڑے اسپتال سے امی کا آپریشن کرانے پر راضی ہو گئے ۔ آپریشن بھی ہو گیا۔ امی ابو نے اس دوران قمر صاحب کے گھر قیام کیا۔ اسپتال آنے جانے میں بھی آسانی رہی اور امی صحت یاب ہو کر گھر لوٹ آئیں۔ اس دوران مجھے انہوں نے اپنی بہن کے گھر بھیج دیا تھا۔ خالہ نے میرا بہت خیال رکھا۔ امی تو صحت یاب ہو کر گھر آ گئیں، لیکن قرض کے بوجھ سے والد صاحب کی کمر جھک گئی۔ وہ کمر ہی نہیں آنکھیں بھی جھکا کر بات کرنے لگے۔ قرض کی واپسی کا ذہن پر بڑا بوجھ تھا۔ ان دنوں پرائمری اسکول ٹیچر کی تنخواہ بہت قلیل ہوا کرتی تھی۔ چھ ماہ تو قمر صاحب چپ رہے، پھر انہوں نے دبے لفظوں پیسوں کی واپسی کا تقاضا شروع کر دیا۔ والد صاحب تسلی دیتے کہ ذرا صبر کریں۔ کچھ دنوں میں آپ کی رقم لوٹا دوں گا۔ لوٹاتے کہاں سے، ان دنوں تو غربت گھر کی لونڈی تھی۔

میرے ابا بہت حساس، غیرت مند اور دیانت دار آدمی تھے ۔ وہ جو وعدہ کرتے، چاہتے کہ پورا کریں ورنہ ان کی جان پر بن آتی تھی۔ ادھر چھ ماہ بعد قمر صاحب کے خطوط موصول ہونے لگے ، جن میں رقم کا تقاضا ہوتا ۔ والد صاحب بالآخر شہر گئے تاکہ قمر سے مل کر قرضہ کی ادائیگی میں کچھ وقت کی اور مہلت لے لیں۔ انہیں اپنی مجبوریاں بتائیں تو وہ بولے ۔ اچھا میاں صاحب اس مسئلے کو چھوڑیں۔ آپ کی زوجہ محترمہ تو اب ما شاء اللہ سے صحت یاب ہو چکی ہیں۔ آپ نے مٹھائی تک نہ کھلائی لیکن یہ بات پرانی ہو چکی ہے، کچھ نئی بات ہو تو مٹھائی کھائیں۔ والد صاحب سمجھے نہیں تبھی وہ کہنے لگے۔ آپ کے گھر میں بچی ہے، رشتے کی بات کی تھی، بھول گئے۔ میں نے آپ ، سے کہا تو تھا کہ لڑکا اور اس کا گھر بار دکھا دیجیے تو بات آگے چلاتے ہیں۔ لڑکا اورگھر بار دونوں ہی آپ کے دیکھے بھالے ہیں۔ لڑکا آپ کے سامنے بیٹھا ہے اور گھر میں میرے آپ قیام کر چکے ہیں۔ قمر کی بات سن کر ابا جان سکتے میں آگئے۔ (مکمل کہانی کا لنک اوپن کرلیں شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2024/11/ghumshuda-larki.html


میں ایک لڑکے کیساتھ گھر سے بھاگ گئی تھی۔ کافی سالوں بعد میں اپنی ماں سے ملنے کے لیے انہیں سر پرائیز دینے کی خاطر گھر پہن...
31/07/2025

میں ایک لڑکے کیساتھ گھر سے بھاگ گئی تھی۔ کافی سالوں بعد میں اپنی ماں سے ملنے کے لیے انہیں سر پرائیز دینے کی خاطر گھر پہنچی تو دیکاھ کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے۔ میرا دل غم سے بھر گیا۔ بھائی اور بھابھی بھی شدید غم ذدہ تھے۔ مجھے افسوس ہوا کہ میں اتنے عرصے سے ماں سے بات نہیں کر پائی۔ ماں کی تدفین کے بعد میں ماں کے کمرے میں گئی تو ماں کے بستر پر میری آنکھ لگ گئی، خوان میں دیکھا کہ ماں کہ رہی ہے۔ بیٹی میرا اللہ میرے ساتھ انصاف کرے گا۔ تم دیکھانا ظالم اپنے انجام کو پہنچے گا۔ صبح اٹھی تو پاؤں تلے زمین ہی نکل گئی کیونکہ میری بھابی اور بھائی ایک دوسرے سے ۔۔۔
(مکمل کہانی کا لنک اوپن کر لیں شکریہ)
https://ladies92.blogspot.com/search/label/surprize

ناجیہ ہم سب کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی تھی، خاندان کی عزت مٹی میں ملا رہی تھی۔ آخر اس کا کوئی انجام تو ہونا ہی تھا۔ ای...
31/07/2025

ناجیہ ہم سب کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی تھی، خاندان کی عزت مٹی میں ملا رہی تھی۔ آخر اس کا کوئی انجام تو ہونا ہی تھا۔ ایک روز تایا ابو نے خود اسے کسی غیر کے ساتھ گاڑی میں جاتے دیکھ لیا۔ انہوں نے ناجیہ کی خوب خبر لی اور پھر اس کا اسکول جانا بند کرادیا، اس کے ساتھ ہی رشتے کے لئے تگ و دو ہونے لگی، تبھی انکشاف ہوا کہ ناجیہ کی طبیعت بہت خراب ہے۔ تائی، لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گئیں، جس نے بتادیا کہ تمہاری بچی امید سے ہے۔تائی کے پیروں تلے زمین ہی نکل گئی
👇👇
ناجیہ میری تایا زاد تھی۔ ہمارے گھر پاس پاس تھے۔ ہم عمر ہونے کی وجہ سے ایک ساتھ اسکول میں داخلہ لیا تھا اور اب نویں جماعت میں آگئے تھے۔ مڈل گرلز اسکول گھر سے پندرہ میل دور تھا۔ لاری اڈے سے بس ملتی تھی۔ اکٹھی گھر سے نکلتیں اور اڈے تک پیدل سفر کر تیں۔ یوں ایک سے دو بھلے والے مقولے پر عمل پیرا تھیں۔ امی اور تائی کی کبھی نہ بنی۔ جب تک ایک گھر میں رہنا سہنا تھا، کسی طرح گزارا کر لیا۔

بچے کچھ بڑے ہوئے تو تایا ابو نے صحن کے بیچوں بیچ دیوار اٹھا دی۔ یوں ایک مکان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ ناجیہ بھی مجھ سے ایک دیوار ادھر ہو گئی۔ مکان کی تقسیم سے ہماری محبت میں فرق نہ آیا۔ ہم روز ملتے پہلے کی طرح اکٹھے اسکول آتے جاتے۔ گرچہ اب تائی ہمارے گھر آتیں اور نہ امی سے ملتیں لیکن ہم نے اپنی مائوں کی تلخ روش کو نہ اپنایا اور اپنائیت کے رشتے کو قائم رکھا۔ مجھے اور ناجیہ کو ایک دوسرے کے گھروں میں آنے جانے کی کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ تایا ہمارے گھر آتے اور ہم سے پیار کرتے کیونکہ یہ تو عورتوں کی لڑائی تھی جس سے ابو اور تایا کے میل ملاپ میں رخنہ نہ پڑا تھا۔

نویں میں اسکول دور ہو گیا تھا۔ اب لاری سے جانا پڑتا تھا جس کے لئے صبح جلدی نکلنا ہوتا۔ ہم ٹھیک سات بجے اڈے پر پہنچ جاتے۔ سواری کے لئے ویگن، بس لاری جو اس وقت ملتی، اس میں سوار ہو جاتے تاکہ لیٹ نہ ہوں۔ زیادہ تر لاری اڈے سے بس پر ہی سوار ہوتے تھے جو ہم کو لب سڑک واقع ہمارے مڈل اسکول پر اتار دیتی تھی۔ روز کی سواریوں سے عموماً مقامی بس اور لاری ڈرائیور واقف ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاتھوں میں اسکول بیگ دیکھ کر وہ ہمارے لئے گاڑی کو روکے رکھتے گرچہ ہم ابھی کچی سڑک پر ہوتیں۔ دوچار فرلانگ سے وہ ہم کو آتا ہوا دیکھ لیتے تھے۔ ایک بس ہمارے علاقے سے ہی اسٹارٹ ہوتی تھی۔ اس کا ڈرائیور ہم کو خوب پہچانتا تھا۔ وہ سات بجے بس لے کر گائوں سے آنے والی طالبات کا منتظر ہوتا۔ بس کو روکے رکھتا کیونکہ اسکول کی لڑکیاں اس کی مستقل سواریاں ہوتیں۔ ہم بھی اسی گاڑی میں سوار ہونے کو ترجیح دیتے۔ ہاں اگر کبھی یہ بس ہم سے مس ہو جاتی تب دوسری سواری پر جانا پڑتا تھا۔

اس روز بھی یہ بس ٹھیک ٹائم پر آگئی اور ہم صحیح وقت پر پہنچ گئیں۔ جونہی بس میں سوار ہوئیں، ہم سے پچھلی نشست پر ایک خوش شکل نوجوان بھی سوار ہو گیا۔ اس روز تو ہم نے نوٹس نہ لیا لیکن اگلے کئی روز تک ایسا ہی ہوتا رہا، تب محسوس ہوا جیسے یہ نوجوان لاری اڈے پر ہمارے آجانے کا انتظار کرتا ہو اور جونہی ہم بس پر چڑھتیں، یہ بھی چڑھ آتا۔ ہم خواتین کی مخصوص نشست پر بیٹھتیں اور یہ ہم سے پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کی کوشش کرتا۔اگر وہاں کوئی دوسرا شخص بیٹھ جاتا اور اسے جگہ نہ ملتی تو پہلے سے نشست پر موجود آدمی سے درخواست کرتا۔ محترم ! آپ ذرا پچھلی سیٹ پر جانے کی زحمت گوارا کر لیں کیونکہ میرے ساتھ خواتین سفر کر رہی ہیں۔ کئی بار یہ قصہ ہوا، تب میں چوکنی ہو گئی کیونکہ اس کے ساتھ کوئی خاتون سوار نہ ہوتی تھی۔ وہ اکیلا ہی چڑھتا تھا۔ گویا کہ ہم ہی وہ خواتین تھیں جن کو وہ اپنے گھر کی خواتین ظاہر کرتا تھا۔

ہمارا توروز کا آنا جانا تھا۔ چند دن تک دھیان نہ دیا۔ لیکن ایک بار ماتھا ٹھنک گیا کیونکہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر اس روز ہم دونوں کے علاوہ کوئی خاتون سوار نہ ہوئی تھی۔ وہ پھر بھی ہم سے عین پچھلی سیٹ پر پہلے سے ؟ بیٹھے ہوئے ایک شخص سے ملتجی تھا کہ برادر ! ذرا آپ بیک سیٹ پر چلے جائیے ، میرے ساتھ خواتین ہیں۔ یہ سن کر اس شخص نے موصوف کے لئے جگہ خالی کر دی اور خود پیچھے چلا گیا۔

گائوں میں یہی رواج تھا کہ اگر کسی مرد کے ہمراہ خواتین سفر کر رہی ہوتی تھیں تو درخواست پر ہمسفر خواتین کی مخصوص نشست سے قریبی سیٹ اس کے لئے خالی کر دیتے تھے۔ میں نے ناجیہ سے کہا۔ لگتا ہے یہ شخص ہمارا تعاقب کرتا ہے۔ کون ہے یہ؟ نجانے کون ہے ، میں نہیں جانتی۔ اس نے جواب دیا۔ منزل آگئی اور ہم قریبی شہر کے اسکول اڈے پر اتر گئے، تبھی میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی نوجوان ذرا فاصلے پر ہمارے پیچھے چلا آرہا تھا۔ ناجیہ ! یقین مانو یہ ہمارا تعاقب کر رہا ہے۔ (مکمل اردو کہانی کا لنک اوپن کر لیں شکریہ)
👇👇
https://sublimegate.blogspot.com/2024/11/dowlet-ki-pyasi.html
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔

Address

Chishtian Mandi

Telephone

+923006986459

Website

https://vuinnovator.blogspot.com/

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Kashif Nadeem posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Kashif Nadeem:

Share