
02/08/2025
فراز کو میں اتنی پسند آئی کہ انہوں نے نانی سے میرا رشتہ مانگنے کا پکا ارادہ کر لیا اور انہیں منانے لگے کہ وہ مجھ سے شادی کریں گے۔ میں حیران بھی تھی اور پریشان بھی، کیونکہ وہ پہلے سے شادی شدہ اور بچوں والے تھے۔ خدا جانے کیا ہونے والا تھا۔ تیسرے روز انہوں نے نانی کے قدموں میں بیٹھ کر منتیں شروع کر دیں۔
👇👇
میں نے کبھی سوچا بھی نا تھا کہ ایسے محبت میں کھو جاؤں گی کہ جینا دو بھر ہو جائے گا۔ لیکن قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ میں بھارت کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئی۔ جب میں تین سال کی تھی تو میری ماں دنیا سے رخصت ہو گئیں اور چھ سال کی عمر میں والد بھی اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی نشانی تھی۔ بابا جان نے اپنی وفات سے قبل تمام جائیداد، زمین اور باغ میرے نام کر دیے تھے۔ ماں باپ کے بعد میری نانی ہی میرا واحد سہارا بنیں۔ انہوں نے ہی مجھے پالا پوسا۔
ہمارا خاندان تو خاصا بڑا تھا، مگر سب کے سب پاکستان میں آباد تھے۔ میری ایک خالہ کراچی میں رہتی تھیں۔ خالو جان اور ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں وہیں مقیم تھے۔ خالہ کا انتقال ہو چکا تھا، لیکن خالو جان حیات تھے۔ ہمارے پاس اکثر خالہ زاد بھائی فراز کے خطوط آتے، جنہیں پڑھ کر نانی جان بہت خوش ہوتیں۔ وہ کہا کرتیں کہ میری مرحوم بیٹی کا بیٹا مجھے یاد کرتا ہے، تو دل کو راحت ملتی ہے۔ جب میں نانی کی طرف سے فراز کو جواب لکھنے لگی، تو اسے معلوم ہوا کہ میں بھی نانی کے پاس رہتی ہوں اور اپنی خالہ کی اکلوتی نشانی ہوں، تو وہ مجھے بھی الگ سے خط لکھنے لگا۔
اس کے خطوط پیار سے بھرے ہوتے تھے۔ وہ مجھے کبھی گڑیا کہہ کر پکارتا اور کبھی ننھی منی۔ ہماری عمروں میں کافی فرق تھا۔ میں سات برس کی تھی اور وہ انیس سال کا۔ اس کی شادی ہو چکی تھی۔ مجھے فراز کے خط کا بے چینی سے انتظار رہتا، کیونکہ اس کی تحریر میں میرے لیے صرف محبت، شفقت اور اپنائیت ہوتی تھی۔ جب اس کا خط آتا تو میں لفافہ چوم لیا کرتی، حالانکہ میں نے اسے کبھی دیکھا نہ تھا۔ وہ اکثر میری تصویر مانگتا، مگر میں بے بس تھی۔ ہمارا گاؤں بہت چھوٹا تھا، قریبی شہر بھی دور تھا، اور گھر سے باہر نکلنے کی سخت ممانعت تھی۔ نانی مجھے سخت نگرانی میں رکھتی تھیں۔
ایک دن میرے ذہن میں شرارت آئی۔ ویسے بھی اس نے مجھے کبھی دیکھا تو ہے نہیں۔ میں نے اپنی ایک سہیلی کی خوبصورت تصویر لفافے میں رکھ کر اسے بھیج دی۔ جب اس نے تصویر دیکھی تو اس کی سوچ ہی بدل گئی۔ وہ سمجھ بیٹھا کہ میں کوئی بڑی لڑکی ہوں۔ تب اس کے خطوط کا لہجہ بھی بدل گیا۔ وہ پہلی سی معصوم باتیں اب باقی نہ رہیں۔ اس بار میں نے اس کے خط کا جواب نہیں دیا، بس اتنا لکھا کہ آپ انڈیا آجائیں، دل چاہ رہا ہے آپ سے ملنے کو۔ اب تو وہ ہر خط میں انڈیا آنے کی بات کرتا۔
ان دنوں میں سولہ برس کی ہو چکی تھی۔ خدا نے اچھی صورت دی تھی، شریف زادی تھی، اور چہرے پر ایسی نوخیزی تھی کہ آئے دن رشتے آ رہے تھے۔ نانی جان کو ایک رشتہ پسند آ گیا۔ یہ میری سہیلی کا بھائی تھا، جو فوج میں ایک اچھے عہدے پر فائز تھا اور بنگلور سے آنے والا تھا۔ اتوار کا دن مقرر ہوا۔ میں نہا دھو کر تیار ہو کر بیٹھ گئی تو نانی نے کہا، چائے اچھی بنانا، خاص مہمان آ رہے ہیں، تجھے دیکھنے کے لیے۔ دل میں عجیب سے ولولے اٹھنے لگے، ایک بےچینی سی طاری تھی۔ دن کے تقریباً دس بجے ہوں گے کہ کسی نے آ کر اطلاع دی کہ مہمان آ چکے ہیں۔ ہم نے پوچھا، کیا بنگلور سے آئے ہیں؟ جواب ملا، ہاں، بنگلور سے آئے ہیں، نام فراز بتایا۔ میں چونک گئی کہ شاید ان کا نام بھی فراز ہے!نانی نے مجھے اندر بلا لیا۔
میرے دل میں پہلے ہی بڑی امنگیں تھیں، مجھ سے رہا نہ گیا۔ دوڑی دوڑی دروازے پر پہنچی۔ ہمارے ہاں پردے کی سخت پابندی ہے، مگر میں نے آہستہ سے دروازے سے جھانک کر دیکھا۔ گورا رنگ، لمبا قد، خوبصورت چہرہ۔ مجھے وہ بہت اچھے لگے۔ میں پردے کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔ وہ نانی سے لپٹ گئے، نانی نے بھی انہیں گلے سے لگایا اور رونے لگیں۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ تو پاکستان سے آئے ہیں، اور یہ وہی فراز ہیں، میری خالہ کے بیٹے، جو مجھے خط لکھا کرتے تھے۔ تبھی نانی نے مجھے بلا کر ان سے کہا، کیا اپنی گڑیا سے نہیں ملو گے؟ مجھے دیکھ کر وہ ہنس دیے۔ ارے بھئی، گڑیا تو بہت بڑی ہو گئی ہے!تب وہ میرے قریب آ کر آہستہ سے بولے، تمہیں میرے ساتھ جانا ہوگا، میں تمہیں لینے آیا ہوں۔
خدا کی کرنی، اسی دن وہ صاحب نہ آ سکے جنہوں نے میرے رشتے کے لیے بنگلور سے آنا تھا۔ فراز کو میں اتنی پسند آئی کہ انہوں نے نانی سے میرا رشتہ مانگنے کا پکا ارادہ کر لیا۔ (مکمل کہانی کا لنک اوپن کرلیں شکریہ)
https://sublimegate.blogspot.com/2025/07/choti-sokan.html