08/01/2025
بخار ا کا بخاری؟؟
کچھ بچے اپنے بچپن سے ہی صحت مند ہوتے ہیں اورجوانی میں اس میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے،بچپن میں ایسے بچوں کو ”موٹو“اورجوانی میں” موٹا“ کہہ کر چھیڑنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہوتی ۔ بچپن میں ماں باپ جن بچوں کے کھانے پینے پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں وہ عموماً بہت اچھی صحت کے مالک نہیں ہوتے اورجن بچوں کو جو مل جائے اوروہ کھاپی لیں وہ عمومی طور پر دوسروں کی نسبت بہتر صحت کے حامل ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ جو بچپن میں” موٹو“ ہو وہ جوانی میں بھی” موٹا“ رہے ۔ اوراگر ایسے کسی صحت مند بچے کا قد ساڑھے پانچ فٹ سے زیادہ ہو تو وہ خوامخواہ چھے فٹ سے زیادہ کامحسو س ہونا شروع ہوجاتاہے ۔عموماً گول مٹول نظرآنے والے بچے کی کٹنگ بھی گولائی میں کروائی جاتی ہے جو اسے مزید گول بنادیتی ہے ۔لیکن اگر یہی بچہ جوانی میں بھی اپنے بالوں کے کٹنگ سٹائل پرتوجہ نہ دے تو” موٹو“ کے بجائے ”آلو “ کہلانا شروع کردیتا ہے۔ یوں تو ہرنظر کا اپنا زاویہ ہوتا ہے اس لیے جن بچوں کے بارے میں ماں یاباپ کی رائے ہوتی ہے کہ وہ اُن جیسا دکھتاہے ،بہت سوں کی اس کے بارے میں رائے مختلف ہوتی ہے ۔لگ بھگ دو دہائیوں سے ہم انہیں دیکھ رہے ہیں،ویسے کے ویسے ہی ہیں ،گول مٹول ،کٹنگ بھی گول ،چہرہ بھی گول ،حد تو یہ ہے کہ بیٹا ہوبہو باپ کی کاپی ہے ،اُسے دیکھ کر موصوف کے بچپن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔بے لوث اورمخصوص مسکراہٹ کے ساتھ ہمیشہ ملنے والے بخاری صاحب اپنے معاملات میں اس قدر”ذمہ دار “ ہیں کہ اگرقسمت کے دھنی نہ ہوتے تو نہ جانے آج کہاں ہوتے ۔کوئی کام خود نہیں کرتے ،کوشش ہوتی ہے بس ہوجائے اورسچ میں ایسا ہوبھی جاتا ہے ۔عامرسلامت انہیں ”ڈورے مون“ کہہ کر چھیڑتاہے حالاں کہ یہ” جیان“ ہیں،مجال ہے جو کوئی کام خود سے کرلیں۔نفع نقصان بارے ہرگز نہیں سوچتے ،خدا پر اس قدرکامل یقین کہ خداکی پناہ۔۔۔
یوں تولاہورپریس کلب میں بہت سے بخاری ہیں ،اُن میں سے کتنے ”بخارا“ سے ہیں ،اس بارے میںشایہ کسی نے کبھی توجہ نہیں دی ۔اگرچہ اپنے والے بخاری”بخارا“ سے نہیں براہ راست شورکوٹ سے ہیں۔لیکن یہ توطے ہے کہ جدامجد یقینا ”بخارا“ سے ہوں گے ورنہ ”بلاوجہ“ بخاری کہلانا کوئی آسان تھوڑی ہے۔اپنے اقبال بخاری کو دیکھ کرتوایساہی لگتا ہے۔ہمارے بخاری صاحب کواپنے علاقے میں” شاہ صاحب“ جیسا مقام واحترام حاصل ہے ،اسی لیے وہاں کم کم جاتے ہیں ۔ممکن ہے آبائی علاقے میںکسی گدی وغیرہ کاسلسلہ بھی ہو لیکن لاہورمیں توزیادہ تر موٹرسائیکل کی گدی(سیٹ) پرہی ہوتے ہیں۔ چینی کے بغیرچائے پینے کے اس قدر شوقین ہیںکہ اوپرتلے کئی کپ پی سکتے ہیں۔بیگم گھر پرنہ ہوں تو اپنے لیے صرف چائے ہی بنا سکتے ہیں ایساانہوں نے مشہورکررکھا ہے ،خداجانے وہ چائے ان کے علاوہ کوئی اوربھی پی سکتا ہے یانہیں۔بیگم کے اس قدرتابعدار ہیں کہ گھر پرشام کے بعدرہنا انہیں پسند نہیں۔رات گئے گھر واپسی ان کامعمول ہے اوراگر کبھی گھر جلدی جانا پڑ جائے توپریشان ہو جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ تو ساری رات گھر کے قریب واقع چائے کے ہوٹل پرگزار دی کیوں کہ جلدی جانے پر گھرکا دروازہ نہیں کھولا گیاتھا ۔اُس دن سے اُس ہوٹل والے سے بھی اچھی جان پہچان ہوگئی ہے ۔ اب اگر کبھی وہاں چائے پینے کے لیے بیٹھ جائیںتو چائے والا اُنہیں دیکھ کر خوامخواہ ہی زیرلب مسکراتا رہتا ہے۔عموماً بڑے وجود کے افراد کی خوراک بھی زیادہ ہوتی ہے ۔لیکن بخاری صاحب کھانے میں مقدار کاخاص طورپر خیال رکھتے ہیں۔بہت خوش خوراک نہیں پھر بھی ایسے کیوں ہیں ،نہ وہ سمجھے نہ کوئی اور۔کچھ محبت کرنے والے اسے” مینوفیکچرنگ فالٹ“ بھی قرار دیتے ہیں ۔ کھانے میں سالن زیادہ کھانے کی عادی ہیں اس لیے روٹی کے نوالے کو بھی چمچ کی طرح استعمال کرتے ہیں۔کسی زمانے میں چاول پسندیدہ ڈش تھی لیکن اب مہینوں سے چاولوں سے گریزکررہے ہیں،بس چار سے چھے چمچ ہی چکھتے ہیں۔دوستوں کو کھلا کرخوش ہوتے ہیں اس لیے دسترخوان وسیع ہے۔میٹھے کے اس حد تک ”شوقین“ ہیں کہ ایک چمچ سے زیادہ نہیں کھاتے،پھربھی گفتگو میں کوئی کڑواہٹ نہیں حیرت ہوتی ہے۔کھانے میںدوسے تین ہری مرچوں کاباقاعدہ استعمال کرتے ہیںلیکن مزاج میں ”مرچیں“لگانا شامل نہیں ۔صلح جُو انسان ہیں ،اس لیے بحث ومباحثہ سے گریز کرتے ہیں ،سرنڈر تویوں کرتے ہیں کہ کیا جنرل نیازی نے ڈھاکا میں کیاہوگا۔موبائل سے اس حد تک دلچسپی کے فیس بُک پر ابھی تک اکاﺅنٹ نہیں کھولا۔ حالاں کہ اس عمر کے لوگوں کی واحد دلچسپی محض فیس بُک ہی بن کررہ گیا ہے ۔ دہائیوں پہلے کسی اخبار میں بہ طور سب ایڈیٹر کام بھی کرتے رہے ہیں ،اب کیا کرتے ہیں ، دوست بھی کم ہی جانتے ہیں ۔ممکن ہے ندیم شیخ جیسے کاروباری سوچ کے حامل دوست کی صحبت اثر دکھا گئی ہو۔بتاتے ہیں کہ ندیم شیخ کسی زمانے میں محلے دار بھی ہوا کرتا تھا ،پھر اتنا اثر تو بنتا ہے ۔
ہمارے ہاں ایک سابق کرکٹر نے سیاست میں آکر جس طرح لوگوں کی ذہن سازی کی ہے اُس کی مثال کم ہی ملتی ہے ۔بخاری صاحب اگرچہ ایسی ذہن سازی تو نہیںکرسکتے البتہ ذہن خراب کرسکتے ہیں اوراُ س کی واحد وجہ اُن کی ڈاکٹر شجاعت سے دیرینہ دوستی ہے ۔ بھلے اُس بےچارے کو بُرا بھلا کہتے رہیں لیکن رازونیا ز آج بھی اُسی کے ساتھ ہوتے ہیں۔یہ الگ بات ہے وہ ہمیشہ اپنی دیرینہ دوستی کے بجائے ڈاکٹر شجاعت سے ہماری محبت کوزیادہ”اچھالتے “ ہیں۔بخاری صاحب کچھ عرصہ سے پریس کلب کے اُن دوستوں میں زیادہ اُٹھتے بیٹھتے ہیں جو اُٹھتے بیٹھتے ایک ہی نام کی” مالا جپتے“ ہیں۔باوجود اس کے بخاری صاحب خودکو غیرجانبدار ثابت کرنے کے چکرمیں رہتے ہیں۔بخاری صاحب مقناطیسی کشش کے حامل ہوسکتے تھے اگراُن کی ٹانگ میں راڈ نہ ہوتا ۔ ایک ایکسیڈنٹ کے بعد ٹانگ کوچلنے پھرنے کے قابل رکھنے کے لیے ڈالا گیا یہ راڈ چوں کہ سٹین لیس سٹیل کاہے اس لیے اُس میں کسی قسم کی کوئی کشش نہیں۔موسیقی سے خاصی دلچسپی ہے ،پرانے گیت سننا پسند ہیں اورساتھ ساتھ گنگنانے کی بھی کوشش کرتے ہیں ،شکرہے یہ کوشش زیرلب ہی ہوتی ہے ۔ورنہ چاہت فتح علی خان کی دال کہاں گلنی تھی ۔حافظہ بہت اچھا ہے ،اس لیے نہیں کہ حافظ آصف سے دوستی ہے لیکن یادداشت زیادہ اچھی نہیں۔کیوں کہ ایک ہی قصہ بارہا سنائیں گے۔ شعر یاد رکھتے ہیںمگرجس قدر شعر اُن کے بچپن کے دوست مظہر اقبال کو یاد ہیں ،اس عمر میںایسا حافظہ ،یقینا خداکا خصوصی کرم ہے۔ورنہ تو صبح کی بات شام تک یاد رکھنا بھی بہت سے لوگوں کے لیے محال ہے۔بخاری صاحب توگھنٹوں پہلے کی بات یاد نہیںرکھتے ،کئی باراپنی موٹرسائیکل سے محروم ہوتے ہوتے بچے ہیں۔وہ توخدا کاشکر کہ یاد آگیا کہ کہاں کھڑی کی تھی۔ورنہ سی سی ٹی وی کیمروں کے حساب سے موٹرسائیکل تو گئی تھی ۔ کمیٹیاں ڈالنے کا شوق خواتین سے بھی زیادہ ہے ۔اورکوشش ہوتی ہے شروع کی ہی مل جائے ،بھلے بعد میں اُسی رقم سے ساری کمیٹی چلادیں۔پرائزبانڈزکی خریداری سے بھی دلچسپی ہے،اکثر بتاتے ہیں کہ بس انعام دوچارنمبروں کے فرق سے لگنے سے رہ گیا ۔یہ فرق کب ختم ہوگا ،سب دوستوں کو ا س کاانتظا ر ہے۔کیوں کہ سب جانتے ہیں بخاری صاحب کے پاس پیسا ٹکتا نہیں اوراضافی پیسے تو بالکل بھی نہیں۔