Muslim ilmi Kitabi

  • Home
  • Muslim ilmi Kitabi

Muslim ilmi Kitabi We are dedicated to sharing and exploring the teachings of Islam through the Quran, the Sunnah, and the Hadith (the recorded traditions of the Prophet).

Our goal is to provide a space for learning, reflection, and respectful discussion.

24/11/2024

نبی کے جیسا ہے ای کوئی نئیں💖
بابے تے شے ای کوئی نئیں🔥

゚viralシ

06/11/2024

نبی کے جیسا ہے ای کوئی نئیں💖

بابے تے شے ای کوئی نئیں🔥

06/10/2024

Dawat e Haq sa Khianat ka Anjaam💯😬😭🔥

05/10/2024

🤔Ghos e Pak ka Dhobi ki Kahani Engineer Muhammad Ali Mirza ki Zubani💯🔥🔥

Sahih Bukhari   11. (The book of belief (faith).) Read Complete Hadees:حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْق...
19/05/2024

Sahih Bukhari 11. (The book of belief (faith).)
Read Complete Hadees:
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقُرَشِيِّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَيُّ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ .
ہم کو سعید بن یحییٰ بن سعید اموی قریشی نے یہ حدیث سنائی، انہوں نے اس حدیث کو اپنے والد سے نقل کیا، انہوں نے ابوبردہ بن عبداللہ بن ابی بردہ سے، انہوں نے ابی بردہ سے، انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے، وہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! کون سا اسلام افضل ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جس کے ماننے والے مسلمانوں کی زبان اور ہاتھ سے سارے مسلمان سلامتی میں رہیں۔
Narrated Abu Musa: Some people asked Allah's Apostle, Whose Islam is the best? i.e. (Who is a very good Muslim)? He replied, One who avoids harming the Muslims with his tongue and hands.
Hadees Number: 11 / Arabic Hadees Number: 11
Reference
Hadees Number
حدیث نمبر
International: 11

Arabic: 11

Status
حکمِ حدیث
Sahih

صحیح
Status Reference
حوالہ حکم
أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
صحیح بخاری کی تمام احادیث صحیح ہیں
All narations of Sahih Bukhari are Sahih
Explanation
شرح و تفصیل
چونکہ حقیقت کے لحاظ سے ایمان اور اسلام ایک ہی ہیں، اس لیے ای الاسلام افضل کے سوال سے معلوم ہوا کہ ایمان کم وبیش ہوتا ہے۔ افضل کے مقابلہ پر ادنیٰ ہے۔ پس اسلام ایمان، اعمال صالحہ واخلاق پاکیزہ کے لحاظ سے کم وزیادہ ہوتا رہتا ہے۔ یہی حضرت امام کا یہاں مقصد ہے۔

19/05/2024

Sahih Bukhari 10. (The book of belief (faith).)
Read Complete Hadees:
حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ ، وَإِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ : وَقَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ : حَدَّثَنَا دَاوُد ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَالَ عَبْدُ الْأَعْلَى : عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے یہ حدیث بیان کی، ان کو شعبہ نے وہ عبداللہ بن ابی السفر اور اسماعیل سے روایت کرتے ہیں، وہ دونوں شعبی سے نقل کرتے ہیں، انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) نے فرمایا اور ابومعاویہ نے کہ ہم کو حدیث بیان کی داؤد بن ابی ہند نے، انہوں نے روایت کی عامر شعبی سے، انہوں نے کہا کہ میں نے سنا عبداللہ بن عمرو بن عاص سے، وہ حدیث بیان کرتے ہیں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( وہی مذکورہ حدیث ) اور کہا کہ عبدالاعلیٰ نے روایت کیا داؤد سے، انہوں نے عامر سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
Narrated 'Abdullah bin 'Amr: The Prophet said, A Muslim is the one who avoids harming Muslims with his tongue and hands. And a Muhajir (emigrant) is the one who gives up (abandons) all what Allah has forbidden.
Hadees Number: 10 / Arabic Hadees Number: 10
Reference
Hadees Number
حدیث نمبر
International: 10

Arabic: 10

Status
حکمِ حدیث
Sahih

صحیح
Status Reference
حوالہ حکم
أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
صحیح بخاری کی تمام احادیث صحیح ہیں
All narations of Sahih Bukhari are Sahih
Explanation
شرح و تفصیل
امیر المحدثین رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں یہ بات ثابت کی ہے کہ اسلام کی بنیاد اگرچہ پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ مگر اس سے آگے کچھ نیک عادات، پاکیزہ خصائل بھی ایسے ہیں جو اگرحاصل نہ ہوں تو انسان حقیقی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ نہ پورے طور پر صاحب ایمان ہو سکتا ہے اور اسی تفصیل سے ایمان کی کمی وبیشی وپاکیزہ اعمال ونیک خصائل کا داخل ایمان ہونا ثابت ہے۔ جس سے مرجیہ وغیرہ کی تردید ہوتی ہے۔ جوایمان کی کمی وبیشی کے قائل نہیں۔نہ اعمال صالحہ واخلاق حسنہ کو داخل ایمان مانتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا قول نصوص صریحہ کے قطعاً خلاف ہے۔ زبان کو ہاتھ پر اس لیے مقدم کیا گیا کہ یہ ہر وقت قینچی کی طرح چل سکتی ہے اور پہلے اسی کے وارہوتے ہیں۔ ہاتھ کی نوبت بعد میں آتی ہے جیسا کہ کہا گیا ہے۔ جراحات السنان لہا التیام ولایلتام ماجرح اللسان “ یعنی نیزوں کے زخم بھرجاتے ہیں اور زبانوں کے زخم عرصہ تک نہیں بھرسکتے۔ ” “ من سلم المسلمون ” کی قید کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غیرمسلمانوں کو زبان یاہاتھ سے ایذا رسانی جائز ہے۔ اس شبہ کو رفع کرنے کے لیے دوسری روایت میں “ من امنہ الناس ” کے لفظ آئے ہیں۔ جہاں ہر انسان کے ساتھ صرف انسانی رشتہ کی بنا پر نیک معاملہ واخلاق حسنہ کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسلام کا ماخذ ہی سلم ہے جس کے معنی صلح جوئی، خیرخواہی، مصالحت کے ہیں۔ زبان سے ایذارسانی میں غیبت، گالی گلوچ، بدگوئی وغیرہ جملہ عادات بدداخل ہیں اور ہاتھ کی ایذارسانی میں چوری، ڈاکہ، مارپیٹ، قتل وغارت وغیرہ وغیرہ۔ پس کامل انسان وہ ہے جو اپنی زبان پر، اپنے ہاتھ پر پورا پورا کنٹرول رکھے اور کسی انسان کی ایذا رسانی کے لیے اس کی زبان نہ کھلے، اس کا ہاتھ نہ اٹھے۔ اس معیار پر آج تلاش کیا جائے تو کتنے مسلمان ملیں گے جو حقیقی مسلمان کہلانے کے مستحق ہوں گے۔ غیبت، بدگوئی، گالی گلوچ توعوام کا ایسا شیوہ بن گیا ہے گویا یہ کوئی عیب ہی نہیں ہیں۔ استغفراللہ! شرعاً مہاجر وہ جودارالحرب سے نکل کر دارالسلام میں آئے۔ یہ ہجرت ظاہر ی ہے۔ ہجرت باطنی یہ ہے جو یہاں حدیث میں بیان ہوئی اور یہی حقیقی ہجرت ہے جو قیامت تک ہر حال میں ہرجگہ جاری رہے گی۔ حضرت امام قدس سرہ نے یہاں دوتعلیقات ذکر فرمائی ہیں۔ پہلی کا مقصد یہ بتلانا ہے کہ عامر اور شعبی ہردو سے ایک ہی راوی مراد ہے۔ جس کا نام عامر اور لقب شعبی ہے۔ دوسرا مقصد یہ کہ ابن ہندہ کی روایت سے شبہ ہوتا تھا کہ عبداللہ بن عمروبن عاص سے شعبی نے براہِ راست اس روایت کو نہیں سنا۔ اس شبہ کے دفعیہ کے لیے عن عامر قال سمعت عبداللہ بن عمرو کے الفاظ نقل کئے گئے۔ جن سے براہ ِ راست شعبی کا عبداللہ بن عمروبن عاص سے سماع ثابت ہوگیا۔ دوسری تعلیق کا مقصد یہ کہ عبدالاعلیٰ کے طریق میں “ عبداللہ ” کو غیرمنتسب ذکر کیاگیا جس سے شبہ ہوتا تھا کہ کہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مراد نہ ہوں جیسا کہ طبقہ صحابہ میں یہ اصطلاح ہے۔ اس لیے دوسری تعلیق میں “ عن عبداللہ بن عمرو ” کی صراحت کردی گئی۔ جس سے حضرت عبداللہ بن عمرو عاص مراد ہیں۔

19/05/2024

Sahih Bukhari 09. (The book of belief (faith).)
Read Complete Hadees:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ .
ہم سے بیان کیا عبداللہ بن محمد جعفی نے، انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا ابوعامر عقدی نے، انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا سلیمان بن بلال نے، انہوں نے عبداللہ بن دینار سے، انہوں نے روایت کیا ابوصالح سے، انہوں نے نقل کیا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نقل فرمایا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں۔ اور حیاء ( شرم ) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, Faith (Belief) consists of more than sixty branches (i.e. parts). And Haya (This term Haya covers a large number of concepts which are to be taken together; amongst them are self respect, modesty, bashfulness, and scruple, etc.) is a part of faith.
Hadees Number: 9 / Arabic Hadees Number: 9
Reference
Hadees Number
حدیث نمبر
International: 9

Arabic: 9

Status
حکمِ حدیث
Sahih

صحیح
Status Reference
حوالہ حکم
أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
صحیح بخاری کی تمام احادیث صحیح ہیں
All narations of Sahih Bukhari are Sahih
Explanation
شرح و تفصیل
حضرت ا میرالمحدثین علیہ الرحمۃ سابق میں بنیادی چیزیں بیان فرما چکے اب فروع کی تفصیل پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے باب میں “ امور الایمان ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مرجیہ کی تردید کرنا بھی مقصود ہے۔ کیونکہ پیش کردہ قرآنی آیات کریمہ میں سے پہلی آیت میں بعض امور ایمان گنائے گیے ہیں اور دوسری آیتوں مین ایمان والوں کی چند صفات کا ذکر ہے۔ پہلی آیت سورۃ بقرہ کی ہے جس میں دراصل اہل کتاب کی تردید مقصود ہے۔ جنہوں نے تحویل قبلہ کے وقت مختلف قسم کی آواز یں اٹھائی تھیں۔ نصاریٰ کا قبلہ مشرق تھا اور یہود کا مغرب۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کو قبلہ قراردیا، پھر مسجد الحرام کو آپ کا قبلہ قرار دیاگیا اور آپ نے ادھر منہ پھیر لیا۔ اس پر مخالفین نے اعتراضات شروع کئے۔ جن کے جواب میں اللہ پاک نے یہ آیت شریفہ نازل فرمائی اور بتلایا کہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرکے عبادت کرنا ہی بالذات کوئی نیکی نہیں ہے۔اصل نیکیاں تو ایمان راسخ، عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ معاشرتی پاک زندگی اور اخلاق فاضلہ ہیں۔ حافظ ابن حجر نے عبدالرزاق سے بروایت مجاہد حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے یہ نقل کیا ہے کہ انہو ں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں سوال کیا تھا۔ آپ نے جواب میں آیت شریفہ لیس البر ان تولو ا وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من آمن باللہ والیوم الآخرہ والملائکۃوالکتٰب والنبیین واٰتی المال علی حبہ ذوی القربی ٰ والیتمی والمساکین وابن السبیل والسائلین وفی الرقاب واقام الصلٰوۃ واتٰی الزکٰوۃ والموفون بعھدھم اذا عاھدوا والصٰبرین فی الباساءوالضراءو حین الباس اولٰئک الذین صدقوا واولٰئک ھم المتقون ( البقرہ : 177 ) ترجمہ اوپر باب میں لکھا جا چکا ہے۔ آیات میں عقائد صحیحہ وایمان راسخ کے بعد ایثار، مالی قربانی، صلہ رحمی، حسن معاشرت، رفاہ عام کو جگہ دی گئی ہے۔ اس کے بعد اعمال اسلام نماز، زکوٰۃ کا ذکر ہے۔ پھر اخلاق فاضلہ کی ترغیب ہے۔ اس کے بعد صبر واستقلال کی تلقین ہے۔ یہ سب کچھ “ بر ” کی تفسیرہے۔ معلوم ہوا کہ جملہ اعمال صالحہ واخلاق فاضلہ ارکان اسلام میں داخل ہیں۔ اور ایمان کی کمی وبیشی بہر حال وبہر صورت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ مرجیہ جو اعمال صالحہ کو ایمان سے الگ اور بیکا ر محض قرار دیتے ہیں اور نجات کے لیے صرف “ ایمان ” کو کافی جانتے ہیں۔ ان کا یہ قول سراسر قرآن وسنت کے خلاف ہے۔ سورۃ مومنون کی آیات یہ ہیں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم قد افلح المومنون الذین ھم فی صلاتھم خٰشعون والذین ھم عن اللغومعرضون والذین ھم للزکوۃ فٰعلون والذین ھم لفروجھم حٰفظون الا علیٰ ازواجھم اوما ملکت ایمانھم فانھم غیر ملومین فمن ابتغیٰ وراءذلک فاولٰئک ھم العٰدون والذین ہم لامٰنٰتھم وعھدھم رٰعون والذین ھم علیٰ صلاتھم یحافظون اولٰئک ھم الوارثون الذین یرثون الفردوس ھم فیھا خٰلدون ( المؤمنون: 11-1 ) اس پیرایہ میں یہ بیان دوسر ااختیار کیا گیا ہے۔ مقصد ہر دو آیات کا ایک ہی ہے۔ ہاں اس میں بذیل اخلاق فاضلہ، عفت۔عصمت شرم وحیا کو بھی خاص جگہ دی گئی ہے۔ اس جگہ سے آیت کا ارتباط اگلی حدیث سے ہو رہا ہے جس میں حیا کو بھی ایمان کی ایک شاخ قرار دیا گیا ہے۔ حضرت امام نے یہاں ہر دو آیت کے درمیان واؤ عاطفہ کا استعمال نہیں فرمایا۔ مگر بعض نسخوں میں واؤ عاطفہ اور بعض میں و قول اللہ کا اضافہ بھی ملتا ہے۔ اگران نسخوں کو نہ لیا جائے تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ وجہ بیان فرمائی کہ حضرت الامام پہلی آیت کی تفسیر میں المتقون کے بعد اس آیت کو بلا فصل اس لیے نقل کر رہے ہیں۔ تاکہ متقون کی تفسیر اس آیت کو قرار دے دیا جائے۔ مگر ترجیح واؤ عاطفہ اور و قول اللہ کے نسخوں کو حاصل ہے۔ آیات قرآنی کے بعد حضرت امام نے حدیث نبوی کو نقل فرمایا اور اشارتاً بتلایا کہ امور ایمان ان ہی کو کہا جاناچاہیے جو پہلے کتاب اللہ سے اور پھر سنت رسول سے ثابت ہوں۔ حدیث میں ایمان کو ایک درخت سے تشبیہ دیکر اس کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں بتلائی گئی ہیں۔ اس میں بھی مرجیہ کی صاف تردید مقصود ہے جو ایمان سے اعمال صالحہ کو بے جوڑ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ کی درخت کی جڑمیں اور اس کی ڈالیوں میں ایک ایسا قدرتی ربط ہے کہ ان کو باہمی طور پر بے جوڑ بالکل نہیں کہا جا سکتا۔ جڑ قائم ہے تو ڈالیاں اور پتے قائم ہیں۔ جڑ سوکھ رہی ہے تو ڈالیاں اور پتے بھی سوکھ رہے ہیں۔ ہو بہو ایمان کی یہی شان ہے۔ جس کی جڑ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ ہے۔ اور جملہ اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ وعقائد راسخہ اس کی ڈالیاں ہیں۔ اس سے ایمان واعمال صالحہ کا باہمی لازم ملزوم ہونا اور ایمان کا گھٹنا اور بڑھنا ہر دو امور ثابت ہیں۔ بعض روایت میں بضع وستون کی جگہ بضع وسبعون ہے اور ایک روایت میں اربع وستون ہے۔ اہل لغت نے بضع کا اطلاق تین اور نو کے درمیان عدد پر کیا ہے۔ کسی نے اس کا اطلاق ایک اور چار تک کیا ہے، روایت میں ایمان کی شاخون کی تحدید مراد نہیں بلکہ کثیر مراد ہے۔ علامہ طیبی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے۔ بعض علماءتحدید مراد لیتے ہیں۔ پھر ستون ( 60 ) اور سبعون ( 70 ) اور زائد سبعون کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیونکہ زائد میں ناقص بھی شامل ہو جاتا ہے۔بعض حضرات کے نزدیک ستون ( 60 ) ہی متیقن ہے۔ کیونکہ مسلم شریف میں بروایت عبداللہ بن دینار جہاں سبعون کا لفظ آیا ہے بطریق شک واقع ہوا ہے۔ والحیاءشعبۃ من الایمان میں تنوین تعظیم کے لیے ہے۔ حیا طبیعت کے انفعال کو کہتے ہیں۔ جو کسی ایسے کام کے نتیجہ میں پیدا ہو جو کام عرفاً شرعاً مذموم، برا، بےحیائی سے متعلق سمجھا جاتا ہو۔ حیا وشرم ایمان کا اہم ترین درجہ ہے۔ بلکہ جملہ اعمال خیرات کا مخزن ہے۔اسی لیے فرمایا گیا اذا لم تستحی فاصنع ما شئت جب تم شرم وحیا کو اٹھا کر طاق پر رکھ دو پھر جو چاہو کرو۔ ” کوئی پابندی باقی نہیں رہ سکتی۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے حدیث ہذا کی تشریح میں مستقل ایک کتاب شعب الایمان کے نام سے مرتب فرمائی ہے۔ جس میں ستر سے کچھ زائد امور ایمان کو مدلل ومفصل بیان فرمایا ہے۔ ان کے علاوہ امام ابو عبداللہ حلیمی نے فوائد المنہاج میں اور اسحاق ابن قرطبی نے کتاب النصائح میں اور امام ابو حاتم نے وصف الایمان وشعبہ میں اور دیگر حضرات نے بھی اپنی تصنیفات میں ان شاخوں کو معمولی فرق کے ساتھ بیان کیا ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان سب کو اعمال قلب ( دل کے کام ) اعمال لسان ( زبان کے کام ) اعمال بدن ( بدن کے کام ) پر تقسیم فرماکر اعمال قلب کی 24شاخیں اور اعمال لسان کی سات شاخیں اور اعمال بدن کی 38شاخیں بالتفصیل ذکر کی ہیں۔ جن کا مجموعہ 69بن جاتا ہے۔ روایت مسلم میں ایمان کی اعلیٰ شاخ کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ اور ادنیٰ شاخ اماطۃ الاذی عن الطریق بتلائی گئی ہے۔ اس میں تعلق باللہ اور خدمت خلق کا ایک لطیف اشارہ ہے۔ گویا دونوں لازم وملزوم ہیں۔ تب ایمان کامل حاصل ہوتا ہے۔ خدمت خلق میں راستوں کی صفائی، سڑکوں کی درستگی کو لفظ ادنیٰ سے تعبیر کیا گیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ خدمت خلق کا مضمون بہت ہی وسیع ہے۔ یہ توایک معمولی کام ہے جس پر اشارہ کیا گیا ہے۔ ایمان باللہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے شروع ہوکر اس کی مخلوق پر رحم کرنے اور مخلوق کی ہرممکن خدمت کرنے پر جاکر مکمل ہوتا ہے۔ اس شعر کے یہی معنی ہیں خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر کرو مہربانی تم اہل زمیں پر خدا مہربان ہوگا عرش بریں پر

19/05/2024

Sahih Bukhari 08. (The book of belief (faith).)
Read Complete Hadees:
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ ، شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ، وَالْحَجِّ ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ .
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے یہ حدیث بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس کی بابت حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی۔ انہوں نے عکرمہ بن خالد سے روایت کی انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔
Narrated Ibn 'Umar: Allah's Apostle said: Islam is based on (the following) five (principles): 1. To testify that none has the right to be worshipped but Allah and Muhammad is Allah's Apostle. 2. To offer the (compulsory congregational) prayers dutifully and perfectly. 3. To pay Zakat (i.e. obligatory charity) . 4. To perform Hajj. (i.e. Pilgrimage to Mecca) 5. To observe fast during the month of Ramadan.
Hadees Number: 8 / Arabic Hadees Number: 8
Reference
Hadees Number
حدیث نمبر
International: 8

Arabic: 8

Status
حکمِ حدیث
Sahih

صحیح
Status Reference
حوالہ حکم
أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
صحیح بخاری کی تمام احادیث صحیح ہیں
All narations of Sahih Bukhari are Sahih
Explanation
شرح و تفصیل
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مرفوع حدیث کو یہاں اس مقصد کے تحت بیان فرمایا کہ ایمان میں کمی وبیشی ہوتی ہے اور جملہ اعمال صالحہ وارکان اسلام ایمان میں داخل ہیں۔ حضرت امام کے دعاوی بایں طور ثابت ہیں کہ یہاں اسلام میں پانچ ارکان کو بنیاد بتلایاگیا اور یہ پانچوں چیزیں بیک وقت ہرایک مسلمان مردوعورت میں جمع نہیں ہوتی ہیں۔ اسی اعتبار سے مراتب ایمان میں فرق آ جاتا ہے عورتوں کو ناقص العقل والدین اسی لیے فرمایا گیا کہ وہ ایک ماہ میں چندایام بغیرنماز کے گزارتی ہیں۔ رمضان میں چند روزے وقت پر نہیں رکھ پاتیں۔ اسی طرح کتنے مسلمان نمازی بھی ہیں جن کے حق میں واذا قامواالی الصلوۃ قاموا کسالیٰ ( النساء: 142 ) کہا گیا ہے کہ وہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں توبہت ہی کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پس ایمان کی کمی وبیشی ثابت ہے۔ اس حدیث میں اسلام کی بنیادی چیزوں کو بتلایا گیا ہے۔ جن میں اوّلین بنیادتوحید ورسالت کی شہادت ہے اور قصراسلام کے لیے یہی اصل ستون ہے جس پر پوری عمارت قائم ہے۔ اس کی حیثیت قطب کی ہے جس پر خیمہ اسلام قائم ہے باقی نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ بہ منزلہ اوتاد کے ہیں۔ جن سے خیمے کی رسیاں باندھ کر اس کو مضبوط ومستحکم بنایا جاتا ہے، ان سب کے مجموعہ کا نام خیمہ ہے جس میں درمیانی اصل ستون ودیگر رسیاں واوتاد چھت سب ہی شامل ہیں۔ ہوبہو یہی مثال اسلام کی ہے۔ جس میں کلمہ شہادت قطب ہے۔ باقی اوتاد وارکان ہیں جن کے مجموعہ کا نام اسلام ہے۔ اس حدیث میں ذکر حج کو ذکرصوم رمضان پر مقدم کیا گیا ہے۔ مسلم شریف میں ایک دوسرے طریق سے صوم رمضان حج پر مقدم کیا گیا ہے۔ یہی روایت حضرت سعید بن عبیدہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ذکر کی ہے، اس میں بھی صوم رمضان کا ذکر حج سے پہلے ہے اور انھیں حنظلہ سے امام مسلم نے ذکرصوم کو حج پر مقدم کیا ہے۔ گویا حنظلہ سے دونوں طریق منقول ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں طرح سنا ہے۔ کسی موقع پر آپ نے حج کا ذکر پہلے فرمایا اور کسی موقع پر صوم رمضان کا ذکر مقدم کیا۔ اسی طرح مسلم شریف کی روایت کے مطابق وہ بیان بھی صحیح ہے جس میں ذکر ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہمانے جب والحج و صوم رمضان فرمایا تو راوی نے آپ کو ٹوکا اور صوم رمضان والحج کے لفظوں میں آپ کو لقمہ دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ ہکذا سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم یعنی میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے “ والحج و صوم رمضان ” سنا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مسلم شریف والے بیان کو اصل قرار دیا ہے اور بخاری شریف کی اس روایت کو بالمعنی قراردیا ہے۔ لیکن خودامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع تصنیف میں ابواب حج کو ابواب صوم پر مقدم کیا ہے۔ اس ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہی روایت اصل ہے جس میں صوم رمضان سے حج کا ذکر مقدم کیا گیا ہے۔ صیام رمضان کی فرضیت 2ھ میں نازل ہوئی اور حج 6ھ میں فرض قراردیا گیا۔ جوبدنی ومالی ہردوقسم کی عبادات کا مجموعہ ہے۔ اقرار توحید ورسالت کے بعد پہلارکن نماز اور دوسرا رکن زکوۃ قرار پایا جوعلیحدہ علیحدہ بدنی ومالی عبادات ہیں، پھر ان کا مجموعہ حج قرار پایا، ان منازل کے بعد روزہ قرار پایا جس کی شان یہ ہے۔ الصیام لی وانا اجزی بہ ( بخاری کتاب الصوم ) یعنی روزہ خاص میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں ہی دے سکتا ہوں۔ فرشتوں کو تاب نہیں کہ اس کے اجروثواب کو وہ قلم بندکرسکیں۔ اس لحاظ سے روزے کا ذکر آخر میں لایاگیا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے غالباً ایسے ہی پاکیزہ مقاصد کے پیش نظر ابواب صیام کو نماز، حج کے بعد قلم بندفرمایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے ان ارکان خمسہ کو اپنی اپنی جگہ پر ایسا مقام حاصل ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ سب کی تفصیلات اگرقلم کی جائیں توایک دفتر تیارہوجائے۔ یہ سب مراتب باہم ارتباط تام رکھتے ہیں۔ ہاں زکوٰۃ وحج ایسے ارکان ہیں جن سے غیرمستطیع مسلمان مستثنیٰ ہوجاتے ہیں۔ جو لایکلف اللہ نفسا الاوسعہا کے تحت اصول قرآنی کے تحت ہیں۔ حضرت علامہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاں ارکان خمسہ میں جہاد کا ذکر اس لیے نہیں آیا کہ وہ فرض کفایہ ہے جو بعض مخصوص احوال کے ساتھ متعین ہے۔ نیز کلمہ شہادت کے ساتھ دیگر انبیاءوملائکہ پر ایمان لانے کا ذکر اس لیے نہیں ہوا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہی ان سب کی تصدیق ہے۔فیستلزم جمیع ماذکر من المعتقدات اقامت صلوٰۃ سے ٹھہرٹھہر کرنماز ادا کرنا اور مداومت ومحافظت مراد ہے۔ ایتاءزکوٰۃ سے مخصوص طریق پر مال کاایک حصہ نکال دینا مقصود ہے۔ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ومن لطائف اسناد ہذا الحدیث جمعہ للتحدیث والاخبار والعنعنۃ وکل رجالہ مکیون الا عبیداللہ فانہ کوفی وہومن الرباعیات واخرج متنہ المولف ایضا فی التفسیر ومسلم فی الایمان خماسی الاسناد۔ یعنی اس حدیث کی سند کے لطائف میں سے یہ ہے کہ اس میں روایت حدیث کے مختلف طریقے تحدیث واخبار و عنعنہ سب جمع ہوگئے ہیں۔ ( جن کی تفصیلات مقدمہ بخاری میں ہم بیان کریں گے ان شاءاللہ ) اور اس کے جملہ راوی سوائے عبیداللہ کے مکی ہیں، یہ کوفی ہیں اور یہ رباعیات میں سے ہے ( اس کے صرف چارراوی ہیں جو امام بخاری اور آنحضرت کے درمیان واقع ہوئے ہیں ) اس روایت کے متن کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب التفسیر میں بھی ذکر فرمایا ہے اور امام مسلم رحمہ اللہ نے کتاب الایمان میں اسے ذکرکیا ہے۔ مگروہاں سند میں پانچ راوی ہیں۔

17/05/2024

Sahih Bukhari 06. (The Book of Revelation)
Read Complete Hadees:
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ . ح وحَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا يُونُسُ وَمَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ نَحْوَهُ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ .

ہم کو عبدان نے حدیث بیان کی، انہیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، ان کو یونس نے، انہوں نے زہری سے یہ حدیث سنی۔ (دوسری سند یہ ہے کہ) ہم سے بشر بن محمد نے یہ حدیث بیان کی۔ ان سے عبداللہ بن مبارک نے، ان سے یونس اور معمر دونوں نے، ان دونوں نے زہری سے روایت کی پہلی سند کے مطابق زہری سے عبیداللہ بن عبداللہ نے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ روایت نقل کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ جواد ( سخی ) تھے اور رمضان میں ( دوسرے اوقات کے مقابلہ میں جب ) جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔ جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے، غرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے۔
Narrated Ibn 'Abbas: Allah's Apostle was the most generous of all the people, and he used to reach the peak in generosity in the month of Ramadan when Gabriel met him. Gabriel used to meet him every night of Ramadan to teach him the Qur'an. Allah's Apostle was the most generous person, even more generous than the strong uncontrollable wind (in readiness and haste to do charitable deeds).
Hadees Number: 6 / Arabic Hadees Number: 6
Reference
Hadees Number
حدیث نمبر
International: 6

Arabic: 6

Status
حکمِ حدیث
Sahih

صحیح
Status Reference
حوالہ حکم
أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
صحیح بخاری کی تمام احادیث صحیح ہیں
All narations of Sahih Bukhari are Sahih
Explanation
شرح و تفصیل
اس حدیث کی مناسبت باب سے یہ ہے کہ رمضان شریف میں حضرت جبرئیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کا دور کیا کرتے تو معلوم ہوا کہ قرآن یعنی وحی کا نزول رمضان شریف میں شروع ہوا۔ جیسا کہ آیت شریفہ شہررمضان الذی انزل فیہ القرآن ( البقرۃ: 185 ) میں مذکور ہے۔یہ نزول قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت میں سماءدنیا کی طرف تھا۔ پھر وہاں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول بھی رمضان شریف ہی میں شروع ہوا۔ اسی لیے رمضان شریف قرآن کریم کے لیے سالانہ یادگار مہینہ قرار پایا اور اسی لیے اس مبارک ماہ میں آپ اور حضرت جبرئیل ں قرآن مجید کا باقاعدہ دور فرمایا کرتے تھے۔ساتھ ہی آپ کے “ جود ” کا ذکر خیر بھی کیاگیا۔ سخاوت خاص مال کی تقسیم کا نام ہے اور جود کے معنی “ اعطاءما ینبغی لمن ینبغی ” کے ہیں جو بہت زیادہ عمومیت لئے ہوئے ہے۔پس جود مال ہی پر موقوف نہیں۔بلکہ جوشے بھی جس کے لئے مناسب ہودے دی جائے،اس لئے آپ اجودالناس تھے۔حاجت مندوں کے لئے مالی سخاوت،تشنگان علوم کے لئے علمی سخاوت،گم راہوں کے لئے فیوض روحانی کی سخاوت،الغرض آپ ہر لحاظ سے تمام بنی نوع انسان میں بہترین سخی تھے۔آپ کی جملہ سخاوتوں کی تفصیلات کتب احادیث وسیرمیں منقول ہیں۔آپ کی جودوسخاوت کی تشبیہ بارش لانے والی ہواؤںسے دی گئی جوبہت ہی مناسب ہے۔باران رحمت سے زمین سرسبزوشاداب ہوجاتی ہے۔آپ کی جودوسخاوت سے بنی نوع انسان کی اجڑی ہوئی دنیا آباد ہو گئی۔ ہر طرف ہدایات کے دریا بہنے لگے۔خداشناسی اور اخلاق فاضلہ کے سمندرموجیں مارنے لگے۔آپ کی سخاوت اور روحانی کمالات سے ساری دنیائے انسانیت نے فیض حاصل کئے اور یہ مبارک سلسلہ تا قیام دنیا قائم رہے گا۔کیوں کہ آپ پر نازل ہونے والا قرآن مجید وحی متلو اور حدیث شریف وحی غیرمتلوتاقیام دنیا قائم رہنے والی چیزیں ہیں۔ پس دنیا میں آنے والے انسان ان سے فیوض حاصل کرتے ہی رہیں گے۔اس سے وحی کی عظمت بھی ظاہر ہے اور یہ بھی کہ قرآن وحدیث کے معلمین ومتعلمین کوبہ نسبت دوسرے لوگوں کے زیادہ سخی،جوادووسےع القلب ہونا چاہئیے کہ ان کی شان کا یہی تقاضہ ہے۔خصوصاً رمضان شریف کا مہینہ جودوسخاوت ہی کا مہینہ ہے کہ اس میں ایک نیکی کاثواب کتنے ہی درجات حاصل کرلیتا ہے۔جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ مبارک میں خصوصیت کے ساتھ اپنی ظاہری وباطنی سخاوتوں کے دریا بہا دیتے تھے۔ سند حدیث: پہلا موقع ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سند حدیث میں تحویل فرمائی ہے۔ےعنی امام زہری تک سند پہنچا دینے کے بعد پھر آپ دوسری سندکی طرف لوٹ آئے ہیں اور عبدان پہلے استادکے ساتھ اپنے دوسرے استاد بشر بن محمد کی روایت سے بھی اس حدیث کونقل فرمایا ہے اور زہری پر دونوں سندوں کو یکجا کردیا۔محدثین کی اصطلاح میں لفظ ح سے یہی تحویل مرادہوتی ہے۔اس سے تحویل سند اور سند میں اختصارمقصود ہوتا ہے۔آگے اس قسم کے بہت سے مواقع آتے رہیں گے۔بقول علامہ قسطلانی رحمہ اللہ اس حدیث کی سند میں روایت حدیث کی مختلف اقسام تحدیث،اخبار،عنعنہ،تحویل سب جمع ہوگئی ہیں۔جن کی تفصیلات مقدمہ میں بیان کی جائیں گی۔ان شاءاللہ تعالیٰ۔

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Muslim ilmi Kitabi posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share