18/10/2025
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وہ اپنے آپ کو "ماں" کہلانے کی مستحق نہیں تھی۔ پرندوں کے گھونسلے تک اپنے بچوں کو دانہ چگنے کے لیے باہر نکلتے دیکھ کر پکار اٹھتے ہیں، مگر زینب کے حصے میں تو اپنی ہی ماں کی نظرِ بد پڑی تھی۔ وہ زینب کو "زینو" کہہ کر پکارتی، اور یہ نام بھی طنز کے ساتھ۔
***"زینو! یہ برتن کیوں نہیں دھوئے؟"***
***"زینو! بھائی کےکپڑےاستری کر کے دیے؟"***
***"زینو! تم سے تو کوئی کام درست سے ہوتا ہی نہیں۔"***
گھر کے ہر کام کی ذمہ دار زینب تھی، مگر اس کی محنت کا صلہ صرف ڈانٹ تھا۔ اس کا بھائی، احمد، ماں کا لاڈلا تھا۔ وہ جو کہہ دیتا، ماں فوراً مان لیتی۔ زینب کی خواہشات ہمیشہ نظر انداز ہوتیں۔ اسکول میں فرسٹ پوزیشن لانے پر بھی ماں کے چہرے پر مسکراہٹ نہ آتی، جبکہ احمد کے اوسط نمبروں پر بھی اسے تحفے ملتے۔
ایک دن زینب نے اپنی کلاس میں ایک تقریری مقابلوں میں اول پوزیشن حاصل کی۔ وہ بہت خوش تھی۔ وہ دوڑتی ہوئی گھر پہنچی اور اپنا تمغہ ماں کے سامنے رکھ دیا۔
ماں نے تمغے کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا اور کہا، **"تمغہ کھانے میں ڈالا جا سکتا ہے کیا؟ کچن میں جا کر دوپہر کے کھانے کا بندوبست کرو۔ شام ہو گئی ہے۔"**
زینب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ تمغہ اٹھا کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور رات بھر سسکیاں لیتی رہی۔
وقت گزرتا گیا۔ زینب نے گھر والوں کے دباؤ کے باوجود پڑھائی جاری رکھی اور ایک اچھے کالج میں داخلہ لے لیا۔ وہ گھر سے دور ہاسٹل میں رہنے لگی۔ وہاں اسے سکون ملا۔ مگر ماں کا رویہ نہیں بدلا۔ وہ زینب کو فون کر کے صرف مالی مشکلات کا رونا روتی۔ زینب اپنی چھوٹی موٹی جزوقتی ملازمت کی آمدنی میں سے ماں کو بھیج دیتی۔
پھر ایک دن، زینب کی شادی طے ہوئی۔ اس کے ہونے والے شوہر نے اس کی صلاحیتوں کو سراہا۔ شادی کے بعد، زینب اپنے شوہر کے ساتھ دوسرے شہر چلی گئی۔ اس نے ایک اچھی نوکری حاصل کی اور خوشحال زندگی گزارنے لگی۔
ادھر، اس کی ماں کی حالت دن بدن خراب ہوتی گئی۔ احمد نے نوکری چھوڑ دی اور ماں کے سارے پیسے ضائع کر دیے۔ وہ بوڑھی ہو چکی تھی، اب اس کے پاس کوئی نہیں تھا۔ ایک دن، اسے فالج کا حملہ ہوا۔ احمد نے تو ماں کو ہسپتال چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کر لی۔
ہسپتال والوں نے زینب کا نمبر ڈھونڈا اور فون کیا۔
زینب فوراً ہسپتال پہنچی۔ وہ دیکھ کر دل برداشتہ ہو گئی کہ اس کی ماں ایک ویران بیڈ پر پڑی تھی، بدن مفلوج ہو چکا تھا، آنکھوں میں صرف پچھتاوا تھا۔
ماں نے زینب کو دیکھا اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بہہ نکلی۔ اس نے ہچکی لے کر کہا، **"زینب... میری بیٹی... میں نے تیرے ساتھ بہت زیادتی کی۔ میں ایک ناکام ماں تھی۔ معاف کر دے مجھے۔"**
زینب نے ماں کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔ وہ ساری تکلیفیں بھول گئی۔ اس کے دل میں ماں کے لیے صرف پیار تھا۔ وہ روزانہ ماں کی تیمارداری کے لیے آتی، اسے کھانا کھلاتی، اس کے بدلتے بیڈ کرتی۔
ایک دن، ماں کی حالت زیادہ خراب ہو گئی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اب زیادہ دن نہیں رہے۔ زینب اس کے پاس بیٹھی تھی۔ ماں نے اپنی آخری سانسوں میں کہا:
**"زینب... تیرا ہر ظلم برداشت کرنے والا دل ہی میری نجات کا ذریعہ بنے گا۔ میں تیرے سامنے شرمندہ ہوں۔ تجھے سب کچھ دے کر بھی میں نے تجھے کبھی وہ نہیں دیا جس کی تو حقدار تھی۔ میری پیاری بیٹی۔"**
یہ کہہ کر اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
زینب نے ماں کی میت کو غسل دیا۔ اس نے ماں کو ہمیشہ یاد رکھا، مگر اس کے دل میں کبھی شکایت نہیں رہی۔ وہ جانتی تھے کہ ایک ماں کی سب سے بڑی خوشی اس کی اولاد کی خوشی ہوتی ہے، مگر اس کی ماں یہ سمجھنے سے قاصر رہی۔
آج بھی جب زینب اپنی بیٹی کو گلے لگاتی ہے، تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ وہ اسے پیار سے نوازتی ہے اور دعا کرتی ہے کہ کوئی بچی اپنی ماں کی بے جا ڈانٹ اور نظرِ بد کا شکار نہ ہو۔
کیونکہ ایک ماں کا وجود اس کے بچے کے لیے رحمت ہوتا ہے، مگر ایک "ظالِم ماں" کا وجود اس کے بچے کے لیے زندگی بھر کا عذاب بن جاتا ہے۔
بقلم:رزاق رضا