Urdu Adab

Urdu Adab Welcome to Social Cafe! ☕️ A space where stories are shared over steaming cups of chai and friendships are brewed ✨. Come join our community!😊✨

We're all about creating a cozy spot for you to relax, connect, and enjoy a little escape from the everyday.

18/10/2025

بسم اللہ الرحمن الرحیم

وہ اپنے آپ کو "ماں" کہلانے کی مستحق نہیں تھی۔ پرندوں کے گھونسلے تک اپنے بچوں کو دانہ چگنے کے لیے باہر نکلتے دیکھ کر پکار اٹھتے ہیں، مگر زینب کے حصے میں تو اپنی ہی ماں کی نظرِ بد پڑی تھی۔ وہ زینب کو "زینو" کہہ کر پکارتی، اور یہ نام بھی طنز کے ساتھ۔

***"زینو! یہ برتن کیوں نہیں دھوئے؟"***
***"زینو! بھائی کےکپڑےاستری کر کے دیے؟"***
***"زینو! تم سے تو کوئی کام درست سے ہوتا ہی نہیں۔"***

گھر کے ہر کام کی ذمہ دار زینب تھی، مگر اس کی محنت کا صلہ صرف ڈانٹ تھا۔ اس کا بھائی، احمد، ماں کا لاڈلا تھا۔ وہ جو کہہ دیتا، ماں فوراً مان لیتی۔ زینب کی خواہشات ہمیشہ نظر انداز ہوتیں۔ اسکول میں فرسٹ پوزیشن لانے پر بھی ماں کے چہرے پر مسکراہٹ نہ آتی، جبکہ احمد کے اوسط نمبروں پر بھی اسے تحفے ملتے۔

ایک دن زینب نے اپنی کلاس میں ایک تقریری مقابلوں میں اول پوزیشن حاصل کی۔ وہ بہت خوش تھی۔ وہ دوڑتی ہوئی گھر پہنچی اور اپنا تمغہ ماں کے سامنے رکھ دیا۔

ماں نے تمغے کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا اور کہا، **"تمغہ کھانے میں ڈالا جا سکتا ہے کیا؟ کچن میں جا کر دوپہر کے کھانے کا بندوبست کرو۔ شام ہو گئی ہے۔"**

زینب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ تمغہ اٹھا کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور رات بھر سسکیاں لیتی رہی۔

وقت گزرتا گیا۔ زینب نے گھر والوں کے دباؤ کے باوجود پڑھائی جاری رکھی اور ایک اچھے کالج میں داخلہ لے لیا۔ وہ گھر سے دور ہاسٹل میں رہنے لگی۔ وہاں اسے سکون ملا۔ مگر ماں کا رویہ نہیں بدلا۔ وہ زینب کو فون کر کے صرف مالی مشکلات کا رونا روتی۔ زینب اپنی چھوٹی موٹی جزوقتی ملازمت کی آمدنی میں سے ماں کو بھیج دیتی۔

پھر ایک دن، زینب کی شادی طے ہوئی۔ اس کے ہونے والے شوہر نے اس کی صلاحیتوں کو سراہا۔ شادی کے بعد، زینب اپنے شوہر کے ساتھ دوسرے شہر چلی گئی۔ اس نے ایک اچھی نوکری حاصل کی اور خوشحال زندگی گزارنے لگی۔

ادھر، اس کی ماں کی حالت دن بدن خراب ہوتی گئی۔ احمد نے نوکری چھوڑ دی اور ماں کے سارے پیسے ضائع کر دیے۔ وہ بوڑھی ہو چکی تھی، اب اس کے پاس کوئی نہیں تھا۔ ایک دن، اسے فالج کا حملہ ہوا۔ احمد نے تو ماں کو ہسپتال چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کر لی۔

ہسپتال والوں نے زینب کا نمبر ڈھونڈا اور فون کیا۔

زینب فوراً ہسپتال پہنچی۔ وہ دیکھ کر دل برداشتہ ہو گئی کہ اس کی ماں ایک ویران بیڈ پر پڑی تھی، بدن مفلوج ہو چکا تھا، آنکھوں میں صرف پچھتاوا تھا۔

ماں نے زینب کو دیکھا اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بہہ نکلی۔ اس نے ہچکی لے کر کہا، **"زینب... میری بیٹی... میں نے تیرے ساتھ بہت زیادتی کی۔ میں ایک ناکام ماں تھی۔ معاف کر دے مجھے۔"**

زینب نے ماں کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔ وہ ساری تکلیفیں بھول گئی۔ اس کے دل میں ماں کے لیے صرف پیار تھا۔ وہ روزانہ ماں کی تیمارداری کے لیے آتی، اسے کھانا کھلاتی، اس کے بدلتے بیڈ کرتی۔

ایک دن، ماں کی حالت زیادہ خراب ہو گئی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اب زیادہ دن نہیں رہے۔ زینب اس کے پاس بیٹھی تھی۔ ماں نے اپنی آخری سانسوں میں کہا:

**"زینب... تیرا ہر ظلم برداشت کرنے والا دل ہی میری نجات کا ذریعہ بنے گا۔ میں تیرے سامنے شرمندہ ہوں۔ تجھے سب کچھ دے کر بھی میں نے تجھے کبھی وہ نہیں دیا جس کی تو حقدار تھی۔ میری پیاری بیٹی۔"**

یہ کہہ کر اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔

زینب نے ماں کی میت کو غسل دیا۔ اس نے ماں کو ہمیشہ یاد رکھا، مگر اس کے دل میں کبھی شکایت نہیں رہی۔ وہ جانتی تھے کہ ایک ماں کی سب سے بڑی خوشی اس کی اولاد کی خوشی ہوتی ہے، مگر اس کی ماں یہ سمجھنے سے قاصر رہی۔

آج بھی جب زینب اپنی بیٹی کو گلے لگاتی ہے، تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ وہ اسے پیار سے نوازتی ہے اور دعا کرتی ہے کہ کوئی بچی اپنی ماں کی بے جا ڈانٹ اور نظرِ بد کا شکار نہ ہو۔

کیونکہ ایک ماں کا وجود اس کے بچے کے لیے رحمت ہوتا ہے، مگر ایک "ظالِم ماں" کا وجود اس کے بچے کے لیے زندگی بھر کا عذاب بن جاتا ہے۔
بقلم:رزاق رضا

17/10/2025
😭😭😭😭جنت کو جب ہسپتال لایا گیا ڈاکٹرز کانوں کو ہاتھ لگاتے رہے لاہور چائنہ سیکم کی جنت اور شیخوپورہ کا عثمان 13 سال قبل دو...
17/10/2025

😭😭😭😭
جنت کو جب ہسپتال لایا گیا ڈاکٹرز کانوں کو
ہاتھ لگاتے رہے

لاہور چائنہ سیکم کی جنت اور شیخوپورہ کا عثمان 13 سال قبل دونوں کی شادی ہوئی 7 سال کا بیٹا اور 8 ماہ کی بیٹی کے دونوں ماں باپ ہیں۔اب بس ظلم سنتے جائے روح کانپ جائے گی۔۔

1 سال قبل عثمان نے بیوی پر سانپ گھر لا کر چھوڑ دیا مطالبہ تھا دوسری شادی میں بیوی شاید رکاوٹ یوں تھی کہ پہلے ہمارے اخراجات تو پورے کر لوں لیکن ہمارے معاشرے کے مرد حضرات سنت تو پوری کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں مگر گھر میں جو پہلی بیوی اور اولاد موجود ہوتی ہے ان کو پورا حق نہیں دیتے۔یہ بے شرم شخص جس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا اس پر پیسہ نچھاور کرتا تھا کھانے کھلانا شاپنگ کروانی جب بیوی نے پیسے مانگنے تو خالی جیب دکھا دینی ۔

سانپ جب چھوڑے کے شاید سانپ کے کاٹنے سے بیوی فوت ہو جائے گی اللہ نے جنت کی حفاظت کی جنت بچ گئی ،اپنے گھر کو جنت توڑنا نہیں چاہ رہی تھی لیکن شوہر ہر اس حد تک جا رہا تھا کہ کسی طرح جنت کا خاتمہ ہو جائے۔

8 اکتوبر 2025 شوہر گھر داخل ہوا اپنی بہنوں کو بلایا بہنوں کے خاوندوں کا بلایا دوبارہ دوسری شادی کی بات شروع بیوی نے سوال وہی کیے پہلے ہمارے اخراجات پورے کر لوں۔بے شرم شوہر نے بہنوں کے خاوندوں کے سامنے بیوی سے جسمانی تعلق قائم کیا اپنی بہنوں کے خاوندوں سے بھی کھلے عام جسمانی تعلق قائم کروایا سر پر ڈنڈے مارتے سر کی ساری ہڈیاں ٹوٹ گئی ظلم ابھی ختم نہیں ہوا عثمان کے ماں باپ بہنیں انکے شوہر جو کر سکتے تھے کیا مار مار کر بہوش کر دیا آخر میں عثمان کی بہنوں نے جنت پر پیشاب کیا استغفراللہ 💔

عثمان کو یہی تھا جنت مر چکی ہے یہ سارا کچھ 7 سال کا بچہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا عثمان نے شیخوپورہ کے ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا سسرال والوں کو کال کی جنت بیٹے کو ٹیوشن چھوڑنے جا رہی تھی ایکسیڈنٹ کی وجہ سے شدید زخمی ہے خاوند بیوی کے کپڑے تبدیل کروا کر لے گیا تھا ہسپتال ڈاکٹرز نے کانوں کو ہاتھ لگائے حالت دیکھ کر فوری کہا لاہور لے جائے شوہر نے سسرال والوں سے کہا ایمبولینس کے پیسے آپ دینا میں لاہور لا رہا ہو لاہور کے ہسپتال پہنچنے پر ڈاکٹرز کی پھر وہی حالت پہلی نظر میں کہا یہ ایکسیڈنٹ نہیں ہے عثمان کو پہلا دھچکا یہی تھا ڈاکٹرز نے کسی طریقے سے جنت کی سانسوں کو بحال کیا دوسرا دھچکا عثمان کو یہ تھا کیونکہ سارے راستے اپنے بیٹے کو یہی سمجھاتا آیا کہ نانا نانی کو یہی بتانا ماما کا ایکسیڈنٹ ہوا یے

جب ڈاکٹرز نے جنت کا مزید معائنہ کیا رپورٹ میں ثابت ہوا جنت کے ساتھ کئی لوگوں نے جسمانی تعلق قائم کیا یے جنت کی حالت اگر آپ دیکھے روح کانپ جائے فیسبک کی پالیسی کی وجہ سے تصاویر دکھا نہیں سکتا پورے سر پر ٹانکے جسم کا ایک حصہ کام کرنا چھوڑ گیا یے بول نہیں سکتی صرف سن سکتی ہے ابھی بھی جنت زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے یہ سب دیکھنے کے بعد شوہر عثمان ہسپتال سے فرار ہو گیا کیونکہ اسے یہی تھا جنت زندہ نہیں بچ پائے گی

جنت کے گھر والوں نے جنت کے شوہر سب گھر والوں پر مقدمہ درج کروا دیا شاید شوہر گرفتار ہو چکا یے اب آپ بتائے ماں باپ بیٹیوں کی شادی کرتے وقت کیوں نہ گھبرائے یہاں ظالم اکیلا شوہر نہیں تھا یہاں ظلم کرنے والا پورا سسرال تھا
تحریر: حارث بھٹی

ابنِ انشاء لکھتے ہیں :گداگروں کے متعلق یہ فرض کرلینا درست نہ ہوگا کہ سب ہی فراڈ ہوتے ہیں۔بعض کی مجبوریاں پیدائشی ہوتی ہی...
17/10/2025

ابنِ انشاء لکھتے ہیں :
گداگروں کے متعلق یہ فرض کرلینا درست نہ ہوگا کہ سب ہی فراڈ ہوتے ہیں۔
بعض کی مجبوریاں پیدائشی ہوتی ہیں۔
ابھی کل ہی ایک معصوم لڑکا معصوم صورت بنائے گلے میں تختی لٹکائے آیا۔
تختی پر لکھا تھا کہ:
"میں گونگا اور بہرہ ہوں
راہِ مولا میری مدد کیجیئے۔"
ہم نے ایک روپیہ دیا اور چمکار کر کہا :
برخوردار کب سے گونگے اور بہرے ہو؟
بولا
جی پیدائشی گونگا بہرہ ہوں۔
😄😂

(ابن انشاء کی کتاب خمارِ گندم سے اقتباس)

سبق آموز کہانیدو بھائی چالیس برس سے آپس میں محبت اور اتفاق سے رہ رہے تھے۔ ان کا ایک وسیع زرعی فارم تھا، جس میں ان کے گھر...
17/10/2025

سبق آموز کہانی
دو بھائی چالیس برس سے آپس میں محبت اور اتفاق سے رہ رہے تھے۔ ان کا ایک وسیع زرعی فارم تھا، جس میں ان کے گھر آمنے سامنے بنے ہوئے تھے۔ دونوں خاندان ایک دوسرے کا خیال رکھتے، اور ان کی اولادوں میں بھی پیار و محبت کی مثالیں دی جاتی تھیں۔مگر ایک دن معمولی بات پر اختلاف ایسا بڑھا کہ نوبت گالی گلوچ تک جا پہنچی۔غصے میں چھوٹے بھائی نے دونوں گھروں کے درمیان ایک گہری اور لمبی کھائی کھدوا کر اُس میں قریبی نہر کا پانی چھوڑ دیا، تاکہ ایک دوسرے کے گھر آنے جانے کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے۔
اگلے روز بڑے بھائی نے ایک مستری کو اپنے گھر بلایا۔اس نے کہا،"سامنے والا فارم ہاؤس میرے بھائی کا ہے۔ کل اُس نے میرے اور اپنے گھر کے درمیان کھائی بنوا کر پانی چھوڑ دیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم یہاں آٹھ فٹ اونچی دیوار بنا دو تاکہ میں اُس کی شکل دیکھوں اور نہ ہی اس کا گھر۔ اور یہ کام جلد از جلد مکمل کر دو، اجرت تمہاری مرضی کے مطابق دوں گا۔"مستری نے سر ہلاتے ہوئے کہا،"پہلے وہ جگہ دکھا دیجیے جہاں سے باڑ شروع کرنی ہے، تاکہ پیمائش کے مطابق سامان ساتھ والے قصبے سے لے آئیں۔"
موقع دیکھنے کے بعد وہ بڑے بھائی کو ساتھ لے کر قریبی قصبے گیا، چند کاریگروں کے ساتھ ایک بڑی پک اپ پر سارا سامان لے آیا۔
اس نے کہا،"اب آپ آرام کریں، یہ کام ہم پر چھوڑ دیجیے، ہم یہ کام رات کو ہی مکمل کر دیں گے۔"
مستری اور اس کے کاریگر ساری رات کام کرتے رہے۔صبح جب بڑے بھائی کی آنکھ کھلی اور دیوار دیکھنے کے لیے گھر سے باہر نکلا تو سامنے منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہاں آٹھ فٹ اونچی دیوار تو کجا، ایک انچ دیوار بھی نہیں تھی... بلکہ اس کی جگہ ایک شاندار پل بنا ہوا تھا۔وہ حیرانی سے پل کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ دوسری جانب چھوٹا بھائی کھڑا، نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہا ہے۔ دونوں چند لمحے خاموشی سے کھائی اور اس پر بنے پل کو تکتے رہے۔ چھوٹے بھائی کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے... اُس نے سوچا، میں نے باپ جیسے بھائی کا دل دکھایا، مگر اس نے پھر بھی تعلق نہیں توڑا۔
بڑے بھائی کا دل بھی پگھل گیا۔ اس نے خود سے کہا، غلطی جس کی بھی تھی، مجھے یوں جذباتی ہو کر معاملہ بگاڑنا نہیں چاہیے تھا۔
دونوں بھائی آنکھوں میں آنسو لیے ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی دونوں گھروں کے بیوی بچے بھی دوڑتے ہوئے آئے اور پل پر اکٹھے ہو گئے۔بڑا بھائی مستری کو تلاش کرنے کے لیے ادھر ادھر نظر دوڑانے لگا۔ وہ اپنے اوزار سمیٹ کر جانے کی تیاری میں تھا۔
بڑا بھائی جلدی سے اس کے پاس گیا اور بولا،
"اپنی اجرت تو لیتے جاؤ!"مستری مسکرا کر بولا،
"اس پل کی اجرت میں آپ سے نہیں لوں گا، بلکہ اُس سے لوں گا جس کا وعدہ ہے کہ،'جو شخص اللہ کی رضا کے لیے لوگوں میں صلح کروائے، اللہ اسے عظیم اجر سے نوازے گا۔'"یہ کہہ کر مستری نے "اللہ حافظ" کہا اور چلا گیا۔

سبق،
کوشش کریں کہ اس مستری کی طرح لوگوں کے درمیان پل بنائیں،
خدارا دیواریں نہ اٹھائیں۔
#منقول

🤔🤔
17/10/2025

🤔🤔

Address

Lahore

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu Adab posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share