QURAN IN URDU

QURAN IN URDU Quran urdu Translation

کیا ساڑھے پانچ ہزار سال پہلے فنا ہونے والی ایک قوم کو ایٹمی تابکاری کے ذریعے عذاب دیا گیا تھا؟؟؟تقریبا" ساڑھے پانچ ہزر س...
04/03/2025

کیا ساڑھے پانچ ہزار سال پہلے فنا ہونے والی ایک قوم کو ایٹمی تابکاری کے ذریعے عذاب دیا گیا تھا؟؟؟
تقریبا" ساڑھے پانچ ہزر سال پہلے کی بات ھے ۔ ایک بہت ہی زبردست قوم ہوا کرتی تھی ۔ وہ لوگ سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ترقیوں کی معراج پر تھی ۔ وہ لوگ پہاڑوں کو اس خوبصورت طریقے سے تراش کر مضبوط ترین محلات اور تعمیرات کیا کرتے تھے کہ آج کی سائنس ان کی عقل دانش پر اش اش کر اٹھے ۔ وہ لوگ اس قدر زہین اور ماہرین تعمیرات تھے کہ اللہ کے مقابلے (نعوذ باللہ) میں جنت بنا دیا کرتے تھے ۔ وہ انتہائی طاقتور قدآور اور جینیئس تھے ۔ اپنی انہی خصوصیات کی وجہ سے وہ اس دور کی سپر پاور کہلاتے تھے۔
اپنی ترقی تعمیرات اور خصوصیات کی وجہ سے سرکش ہوتے چلے گئے ۔ وہ خدائے وحدہ لاشریک کے وجود سے منکر ہوگئے تھے ۔ انبیاء ان کو ہدایت کی بات سمجھاتے تو وہ ان کا مذاق اڑاتے اذیتیں پہنچاتے ، اپنی بستیوں سے تشدد کرکے نکال دیا کرتے ۔
وہ خطہ بہت سر سبز وشاداب تھا۔ لیکن جب ان پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تو ان کے ہاں بارشیں روک دی گئیں لیکن وہ پھر بھی باز نہ آئے ۔ ان کے ہاں بارشوں اور بادلوں نے اپنے رب کے حکم سے بالکل رخ پھیر لیا جس کی وجہ سے وہاں قحط سالی والی صورتحال پیدا ھوچلی تھی ۔ پھر ایک روز انتہائی عجیب و غریب واقعہ رونما ہوا۔
انہوں ایک روز آسمان پر اٹھنے والے ایک دھوئیں کے بادل کو دیکھا جو تیزی سے ان کی طرف بڑھ رہا تھا اس بادل کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے اور سمجھے کہ ان کی قحط سالی ختم ہوگئی ہے یہ بادل خوب برسے گا اور ایک بار پھر ان کے ہاں ہر طرف ہریالی اور سبزے کا دور دورہ ہو جائے گا۔ لیکن یہ بادل قہر برسانے والا تھا ۔ یہ وہ بادل نہیں تھا بلکہ اس بادل نے سوائے ان کے مضبوط مکانات محلات کے کچھ بھی نہیں چھوڑا تھا۔
قرآن پٌاک میں اس واقعہ کا ذکر کچھ اس طرح ملتا ھے ۔

فَلَمَّا رَاَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِيَــتِهِمْ ۙ قَالُوْا ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ۭ بَلْ هُوَ مَا اسْـتَعْــجَلْتُمْ بِهٖ ۭرِيْحٌ فِيْهَا عَذَابٌ اَلِيْمٌ 24؀ۙ

تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍۢ بِاَمْرِ رَبِّهَا فَاَصْبَحُوْا لَا يُرٰٓى اِلَّا مَسٰكِنُهُمْ ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَ 25؀
پھر جب انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ ایک ابر ہے جو ان کے میدانوں کی طرف بڑھا چلا آ رہا ہے، کہنے لگے کہ یہ تو ابر ہے جو ہم پر برسے گا، (نہیں) بلکہ یہ وہی ہے جسے تم جلدی چاہتے تھے یعنی آندھی جس میں دردناک عذاب ہے۔ وہ اپنے رب کے حکم سے ہر ایک چیز کو برباد کر دے گی پس وہ صبح کو ایسے ہو گئے کہ سوائے ان کے گھروں کے کچھ نظر نہ آتا تھا، ہم اسی طرح مجرم لوگوں کو سزا دیا کرتے ہیں۔ 24/25 سورہ احقاف
وہ ایک ایسی تندوتیز اور تابکاری اثرات والی ھوا تھی جس نے ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی اس خطہ زمین کو آباد نہیں ھونے دیا تھا۔ وہاں پر کسی نباتات اور ہریالی کو نہ تو چھوڑا تھا اور نہ ہی کسی کو سلامت رھنے دیا تھا۔ وہ ہوا جہاں جہاں سے گزرتی انسانوں کے جسموں سے گوشت کو اتار کر اسے صرف ہڈیوں کا پنجر رھنے دیتی (ایٹمی حملے کی طرح انسانوں کے جسموں کا گوشت پگھل کر بھاپ میں تبدیل ہوگیا۔ )۔۔ وہ ھوا ایسی بانجھ کر دینے والی تھی جیسے تابکاری کسی جگہ کی زمین کے اندر تک اثر کرکے اس کو بانجھ کر دیتی ھے کسی چیز کو پیدا نہیں ھونے دیتی ۔
اللہ تعالی قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے ۔

وَفِيْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيْحَ الْعَقِيْمَ 41؀ۚ
اور (تمہاریی لیے نشانی ہے) عاد میں ، جبکہ ہم نے ان پر ایک ایسی بے خیر ہوا (بانجھ ہوا)بھیج دی۔(41)

مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ اَتَتْ عَلَيْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيْمِ 42؀ۭ

وہ جس چیز پر سے گزرتی اسے بوسیدہ ہڈیوں کی طرح کئے بغیر نہ چھوڑتی ۔ الذاریات 41/42
اس تابکاری نما ھوا نے ان کے جسموں کو گوشت کے بغیر بوسیدہ ہڈیوں جیسا بنا دیا۔ سب کچھ مٹ گیا۔ نہ نخلستان رھے نہ خوشنما باغات نہ سبزہ ۔ ھر طرف اڑتی ریت اور انسانی ڈھانچے رہ گئے ۔ یہ پورا خطہ خالی ہوگیا۔ آج بھی یہاں دور دور تک صرف ریت اڑتی نظر آتی ھے ۔ آج کے زمانے میں اس خطے کو ربع خالی کے نام سے ہی پکارا جاتا ھے ۔
چار ہزار سال گزر گئے ۔۔
ایک روز اسی علاقے سے دنیا کے بہترین انسانوں کا ایک لشکر گزرا جس کی قیادت کائنات کے سب سے بہترین انسان کر رھے تھے۔ لشکر ایک طویل مسافت طے کرکے آ رھا تھا۔ اھل لشکر نے اس خطے میں کچھ کھنڈرات دیکھے تو وھاں کچھ دیر رک کر آرام کرنے اور کھانے پینے کا ارادہ کیا۔ وہیں ایک کنواں بھی موجود تھا۔ اھل لشکر نے کنوئیں سے پانی لیا وھاں کچھ خشک لکڑیاں اکٹھی کی اور ان کو جلا کر روٹی اور سالن تیار کرنے لگے۔
جب دوجہاں کے سردارﷺ اور لشکر کے قائد کو اس بارے معلوم ھوا تو آپ ﷺ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ کنوئیں سے نکالا ھوا پانی ، پکائی ھوئی روٹیاں اور تیارشدہ سالن کو ضائع کر دو اور اس میں سے کچھ بھی نہ کھاؤ اور نہ ہی پیو ۔۔ جتنی جلدی ھوسکے یہاں سے آگے نکل جاؤ ورنہ تم سب پر بھی بلا آ سکتی ھے ۔ یہاں پر ایک قوم کو عذاب دیا گیا تھا۔ یہاں کی کسی چیز کو مت استعمال کرنا۔
یہ کھانا جو ایک بڑے لشکر کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ بہت بڑی مقدار میں تھا۔ لیکن آپ ﷺ کے حکم پر سارے کا سارا ضائع کر دیا گیا۔
یہ آپ ﷺ کا علم جو اللہ نے عطا کیا تھا کہ آپ ﷺ نے اس جگہ پر نہ نظر آنے والی وبا یا بلا کا پتہ لگا لیا تھا جو انسانوں کے لئے مہلک تھی ۔
قران پاک میں اس ھوا کے لئے لفظ ریح العقیم استعمال کیا گیا ھے۔ ریح کا مطلب ھوا اور عقیم بانجھ عورت مرد یا زمین کو کہا جاتا ھے ۔
علماء ا کرام اس لفظ بانجھ ھوا کے معنی عرصہ دراز تک تلاش کرتے رھے لیکن ایسی بانجھ ھوا کے بارے میں نہ جان سکے جو اتنی ہلاکت خیز تھی کہ جسم سے گوشت پگھلا کر ھڈیوں کو بوسیدہ کر دے اور اس جگہ پر موجود ھر چیز کوایسا بانجھ کردے کہ وہاں ھزاروں سال بعد بھی کوئی چیز کچھ نہ پیدا کر سکے ۔ موجودہ دور میں جب ایٹمی تجربات اور ان کی نابکاری کے بارے جاننے کے بعد خیال اس طرف جاتا ھے اور قران پاک کی ان آیات کے مفہوم واضح ھونے لگے ۔ ایک ایسا بادل جو نہایت برق رفتاری سے بڑھتا ھے۔۔ اور پھر آناً فاناً تباہی مچا دیتا ھے۔۔ کسی کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیتا۔ پھر اس کے بعد ایک ایسی بانجھ ھوا جو سب کچھ ختم کرکے ہزاروں سال تک وہاں کچھ پیدا نہیں ھونے دیتی ۔۔
اللہ پاک ھم سب کو ہدایت عطا فرمائے
اور اپنے حبیب ﷺ کے صدقے کسی بھی ایسی پکڑ سے محفوظ رکھے آمین ثم آمین یا رب العالمین

11/02/2025

موت کی چھ علامتیں جو اس کے قریب ہونے کی نشانی ہیں

موت کے چھ مراحل ہوتے ہیں۔
پہلا مرحلہ "یوم الموت" کہلاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب انسان کی زندگی کا اختتام ہو جاتا ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ زمین پر جائیں اور انسان کی روح قبض کریں تاکہ اسے اپنے رب سے ملاقات کے لیے تیار کیا جا سکے۔
بدقسمتی سے، کوئی بھی اس دن کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، اور جب وہ دن آتا ہے، انسان کو یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ یہ اس کی موت کا دن ہے۔
تاہم، انسان اپنے جسم میں تبدیلیاں محسوس کرتا ہے۔ مثلاً مؤمن کے دل کو اس دن خوشی اور سکون ملتا ہے، جبکہ برے اعمال کرنے والے کو سینے اور دل میں دباؤ محسوس ہوتا ہے۔
اس مرحلے پر شیاطین اور جنات فرشتوں کے نزول کو دیکھتے ہیں، لیکن انسان انہیں نہیں دیکھ سکتا۔
قرآن کریم میں اس مرحلے کا ذکر یوں کیا گیا ہے:
"اور اس دن سے ڈرو جس دن تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر جان کو اس کے کیے کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔"
(سورة البقرة: 281)

دوسرا مرحلہ: روح کا تدریجی طور پر نکلنا

یہ مرحلہ پاؤں کے تلووں سے شروع ہوتا ہے۔ روح آہستہ آہستہ اوپر کی طرف بڑھتی ہے، ٹانگوں، گھٹنوں، پیٹ، ناف اور سینے سے گزرتی ہے، یہاں تک کہ وہ ایک مقام پر پہنچتی ہے جسے "ترقی" کہا جاتا ہے۔
اس مقام پر انسان تھکن اور چکر محسوس کرتا ہے اور کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہتا۔ اس کی جسمانی طاقت ختم ہو جاتی ہے، لیکن وہ اب بھی نہیں سمجھ پاتا کہ اس کی روح جسم سے نکل رہی ہے۔

تیسرا مرحلہ: "ترقی" کا مرحلہ

قرآن کریم میں اس کا ذکر یوں آیا ہے:
"ہرگز نہیں، جب روح حلق تک پہنچ جائے گی۔ اور کہا جائے گا، کون جھاڑ پھونک کرے گا؟ اور وہ سمجھے گا کہ یہ جدائی کا وقت ہے۔ اور ایک پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ جائے گی۔"
(سورة القیامة: 26-29)

ترقی حلق کے نیچے کے دو ہڈیوں کو کہا جاتا ہے جو کندھوں تک پھیلتی ہیں۔
"وَقِيلَ مَنْ رَاقٍ" کا مطلب ہے کہ کون روح کو لے کر جائے گا؟
یہ وہ وقت ہوتا ہے جب لوگ ڈاکٹر یا ایمبولینس بلانے یا قرآن پڑھنے کی بات کرتے ہیں، لیکن انسان ابھی بھی زندگی کی امید رکھتا ہے۔
"وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ" کا مطلب ہے کہ انسان کو موت کے قریب ہونے کا احساس ہوتا ہے، لیکن وہ اب بھی بقا کی کوشش کرتا ہے۔
"وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ" یعنی روح کے نکلنے کا عمل مکمل ہو چکا ہے، اور جسم کے نچلے حصے بے جان ہو چکے ہیں۔

چوتھا مرحلہ: "حلقوم" کا مرحلہ

یہ موت کا آخری مرحلہ ہے، جو انسان کے لیے انتہائی مشکل ہوتا ہے، کیونکہ اس کے سامنے پردے ہٹ جاتے ہیں، اور وہ اپنے ارد گرد موجود فرشتوں کو دیکھتا ہے۔
یہاں سے انسان آخرت کو دیکھنا شروع کرتا ہے:
"ہم نے تمہاری آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا، آج تمہاری نظر تیز ہے۔"
(سورة ق: 22)

قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"پھر کیوں نہیں جب روح حلق تک پہنچ جائے۔ اور تم اس وقت دیکھ رہے ہو، اور ہم تم سے زیادہ قریب ہیں، لیکن تم دیکھ نہیں سکتے۔"
(سورة الواقعة: 83-85)

یہ وہ وقت ہے جب انسان اللہ کی رحمت یا غضب دیکھتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کے اعمال کو اپنی نظروں کے سامنے گزرتا ہوا دیکھتا ہے، اور شیطان اسے گمراہ کرنے کی آخری کوشش کرتا ہے۔
قرآن کہتا ہے:
"اور کہو، اے میرے رب، میں شیطان کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اور اس سے بھی کہ وہ میرے پاس آئیں۔"
(سورة المؤمنون: 97-98)

پانچواں مرحلہ: "ملک الموت" کا داخلہ

یہ مرحلہ وہ ہے جہاں انسان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ رحمت والوں میں سے ہے یا عذاب والوں میں سے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"اور جن کی روحیں فرشتے سختی سے نکالتے ہیں، ان کے چہروں اور پشتوں پر مارتے ہیں۔"
(سورة محمد: 27)

اگر انسان مؤمن ہے تو اس کی روح نرمی سے نکلتی ہے، جیسے پانی کا قطرہ مشکیزے سے نکلتا ہے۔
اللہ فرماتا ہے:
"اے اطمینان والی روح، اپنے رب کی طرف لوٹ، راضی اور مرضی، اور میرے بندوں میں شامل ہو جا، اور میری جنت میں داخل ہو جا۔"
(سورة الفجر: 27-30)

چھٹا اور آخری مرحلہ

یہ مرحلہ وہ ہے جب انسان کی روح مکمل طور پر جسم سے نکل جاتی ہے۔ اگر وہ گناہ گار ہے تو کہتا ہے:
"اے میرے رب، مجھے واپس بھیج دے، تاکہ میں نیک عمل کر سکوں۔"
لیکن اللہ فرماتا ہے:
"ہرگز نہیں، یہ صرف ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے۔ اور ان کے پیچھے ایک پردہ ہے، قیامت کے دن تک۔"
(سورة المؤمنون: 99-100)

"اور موت کی سختی حق کے ساتھ آئے گی، یہی وہ ہے جس سے تم بھاگتے تھے۔"
(سورة ق: 19)

یہاں مؤمن کے لیے جنت کی بشارت ہے، جبکہ گناہ گار کے لیے عذاب کی وعید۔
ایک مفسر سے پوچھا گیا کہ لوگ موت سے کیوں ڈرتے ہیں؟
انہوں نے جواب دیا:
"کیونکہ تم نے دنیا کو آباد کیا اور آخرت کو برباد کر دیا۔"

اے میرے اللّٰہ؟ ہمارے اخری خاتمہ دین اسلام پر فرما۔۔۔ (آمین)

04/02/2025

"حضرت مکائیل کا اصل نام کیا ہے؟" 1."عبید اللّہ"
2."عبید الرحمن "

04/02/2025

♧ دنیا کی فکر اور آخرت کی فکر

خلیفہ عبدالملک بن مروان بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا- اس کی نظر ایک نوجوان پر پڑی- جس کا چہرہ بہت پُر وقار تھا- مگر وہ لباس سے مسکین لگ رہا تھا-

خلیفہ عبدالملک نے پوچھا، یہ نوجوان کون ہے۔ تو اسے بتایا گیا کہ اس نوجوان کا نام سالم ہے اور یہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیٹا اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا پوتا ہے۔

خلیفہ عبدالملک کو دھچکا لگا۔ اور اُس نے اِس نوجوان کو بلا بھیجا- خلیفہ عبدالملک نے پوچھا کہ بیٹا میں تمہارے دادا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بڑا مداح ہوں۔ مجھے تمہاری یہ حالت دیکھ کر بڑا دکھ ہوا ہے۔

مجھے خوشی ہو گی اگر میں تمھارے کچھ کام آ سکوں۔ تم اپنی ضرورت بیان کرو۔ جو مانگو گے تمہیں دیا جائے گا-

نوجوان نےجواب دیا، اے امیر المومنین! میں اس وقت اللہ کے گھر بیتُ اللّٰہ میں ہوں اور مجھے شرم آتی ہے کہ اللہ کے گھر میں بیٹھ کر کسی اور سے کچھ مانگوں۔

خلیفہ عبدالملک نے اس کے پُرمتانت چہرے پر نظر دوڑائی اور خاموش ہو گیا۔

خلیفہ نے اپنے غلام سے کہا- کہ یہ نوجوان جیسے ہی عبادت سے فارغ ہو کر بیتُ اللّٰہ سے باہر آئے، اسے میرے پاس لے کر آنا-

سالم بن عبداللہؓ بن عمرؓ جیسے ہی فارغ ہو کر حرمِ کعبہ سے باہر نکلے تو غلام نے اُن سے کہا کہ امیر المؤمنین نے آپکو یاد کیا ہے۔

سالم بن عبداللہؓ خلیفہ کے پاس پہنچے۔ خلیفہ عبدالملک نےکہا،

نوجوان! اب تو تم بیتُ اللّٰہ میں نہیں ہو، اب اپنی حاجت بیان کرو۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں تمہاری کچھ مدد کروں۔

سالم بن عبداللہؓ نےکہا، اے امیرالمؤمنین! آپ میری کونسی ضرورت پوری کر سکتے ہیں، دنیاوی یا آخرت کی؟

امیرالمؤمنین نےجواب دیا، کہ میری دسترس میں تو دنیاوی مال و متاع ہی ہے۔ سالم بن عبداللہؓ نے جواب دیا-

امیر المؤمنین! دنیا تو میں نے کبھی اللّٰہ سے بھی نہیں مانگی۔ جو اس دنیا کا مالکِ کُل ہے۔ آپ سے کیا مانگوں گا۔

میری ضرورت اور پریشانی تو صرف آخرت کے حوالے سے ہے۔ اگر اس سلسلے میں آپ میری کچھ مدد کر سکتے ہیں تو میں بیان کرتا ہوں۔

خلیفہ حیران و ششدر ہو کر رہ گیا- اور کہنے لگا کہ نوجوان یہ تُو نہیں، تیرا خون بول رہا ہے۔

خلیفہ عبدالملک کو حیران اور ششدر چھوڑ کر سالم بن عبداللہؓ علیہ رحمہ وہاں سے نکلے اور حرم سے ملحقہ گلی میں داخل ہوئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

یوں ایک نوجوان حاکمِ وقت کو آخرت کی تیاری کا بہت اچھا سبق دے گیا۔

24/01/2025

Manzil dua /منزل دعا / جادو سے حفاظت کی قرآنی آیات
Manzil dua
Quran tilawat
Quran
Jadu se hifazat ki qurani dua
Qurani wazifa

منزل دعا
جادو سے حفاظت کی قرآنی

آمین ثم آمین یا رب العالمین                 #اللہ
06/01/2025

آمین ثم آمین یا رب العالمین
#اللہ

السلام علیکم
04/01/2025

السلام علیکم

Address

Lahore
54000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when QURAN IN URDU posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share