24/07/2025
ہم کوسٹر میں 17 افراد سوار تھے ۔ جب ہم کوسٹر سے اترے تو شروع میں ہلکی پھلکی سی بارش ہونے لگی ۔ پھر اچانک سے تیز ہوا اور پھر زمین ہلنے لگی ۔ ہم نے دیکھا ہمارے بلکل ہی قریب سیلابی ریلا پہنچ چکا تھا ۔ پتھر ، مٹی اور لکڑی ریلے کے ساتھ بہہ رہی ہیں ۔ میں نے اپنے والد محترم کا ہاتھ پکڑ لیا اور پہاڑ پر چڑھنے لگا ۔ اس وقت میری والدہ محترمہ کو بھائی نے ہاتھ سے پکڑا تھا جبکہ میری مسز ڈاکٹر مشعل اور پانچ سالہ بیٹے ہادی کو میڈ نے ۔
پھر اچانک ہم سب ایک دوسرے کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ اور اوسان خطا ہو گے۔
یہ درد بھری داستان لودھراں سے تعلق رکھنے والے شاہدہ اسلام میڈیکل کالج کے مالک سعد اسلام ریجنل ہسپتال چلاس کے آپریشن تھیٹر سے متصل راہداری میں جب ہمیں سنا رہے تھے تو ہم درجن بھر لوگ وہاں موجود تھے ۔سعد اسلام جب آپ اپنی کہانی سنا رہے تھے وہاں پہ موجود سب لوگوں کی آنکھیں نم ہو گئی تھی اور وہ اپنی داستاں سناتے ہوئے بار بار آنکھیں صاف کرتے تو وہاں موجود لوگوں کی حالت دیکھنے کی قابل تھی ۔ شاہدہ اسلام میڈیکل کالج کے مالک سعد نے کہا کہ زندگی میں پہلی بار ہمیں اس طرح کی صورتحال کا سامنا ہوا تھا ۔ سیلابی ریلے کے ساتھ ہم سب جب ایک دوسرے کے نظروں سے اوجھل ہو گئے تو میں والد محترم کا ہاتھ تھامے پہاڑ پر سیلابی پانی میں کھڑا تھا کہ اچانک اس کا ہاتھ مجھ سے چھٹ گیا ۔ میں نے والد محترم کو آواز دی۔ کہ نیچے بیٹھنے کی کوشش ہرگز نہ کریں کیونکہ وہاں پہ زمین کچی ہے۔۔
پلک جھپکتے ہی دیکھا کہ والد محترم میرے آنکھوں کے سامنے سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔۔ میرے والد دل کے مریض بھی ہیں ۔ میرے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔ میں بےبسی کی تصویر بنا بیٹھا ہوا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے پانی کم ہونے لگا ۔ میں پہاڑ سے اترا ، میرے جوتے سیلابی ریلے میں بہہ گئے تھے ۔میں زرا سا آگے گیا تو والدہ نے آواز دی بیٹا آگے مت جاؤ ۔ میں نے کہا آپ سب خیریت سے ہیں ناں؟
انہوں نے کہا جی ہم سب خیریت سے ہیں ۔ پھر میں نے آگے دوڑ لگائی تاکہ سیلابی ریلے میں اپنے والد محترم کو تلاش کروں ۔ میں آگے دوڑتے جا رہا تھا پاؤں میں جوتی نہ ہونے کی وجہ سے میرے پاؤں بری طرح زخ می ہوئے تھے ۔ تقریباً دو کلومیٹر تک پیدل آگے گیا تو ریسکیو 1122 کی گاڑی میرے والد محترم کو ریسکیو کرکے چلاس ریجنل ہسپتال کی طرف منتقل کر رہی تھی میں نے آواز دی کہ یہ میرے والد محترم ہیں گاڑی روکیں ۔ شاید انہوں نے میری آواز نہیں سنی اور وہ آگے بڑھے ۔اور ریسکیو والوں نے جس انداز میں اسے ریسکیو کیا ہے وہ ان کا کمال تھا ۔ اس وقت ان کے لئے مجھ سے زیادہ میرے والد محترم کی زندگی عزیز تھی اس لئے وہ انتہائی تیز رفتاری سے ہسپتال پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن سڑک پر پتھر اور کیچڑ سے جس انداز میں گاڑی نکال رہے تھے وہ ان کا کمال تھا ۔اس کے باوجود میں ان کے پیچھے دوڑتے ہوئے آگے آنے لگا ۔ کافی آگے پہنچ کر ان لوگوں نے گاڑی روک لی اور ہم ریجنل ہسپتال چلاس پہنچے ۔ والد محترم کو ابتدائی طبی امداد دی گئی پھر مرہم پٹی میری بھی کی گئی تو میں واپس اپنی فیملی سے ملنے تھک ویلی کی طرف روانہ ہوا ۔ اس وقت لوگوں کی ایک بڑی تعداد شاہراہِ بابوسر ناراں پہ ریسکیو میں مصروف نظر آرہی تھی ۔ میں تھک ویلی پہنچ گیا اور امی سے ملا تو امی نے پہلے بھائی کی خبر سنائی کہ آپکے بھائی فہد اسلام سیلابی ریلے میں بہہ گیا ہے ۔ پھر کچھ لمحوں بعد والدہ نے کہا کہ آپکی مسز ڈاکٹر مشعل فاطمہ بھی سیلابی ریلے میں بہہ گئی ہے ۔اس وقت میری جو حالت تھی وہ ناقابل بیان ہے ۔اسی وقت ہی والدہ نے میرے ننھے بیٹے ہادی کی بھی خبر دی کہ ہادی جب سیلابی ریلے میں بہہ گیا تو اسکو بچانے کے لئے ڈاکٹر مثل فاطمہ پھر ڈاکٹر مثل فاطمہ کو بچانے کے لئے فہد اسلام سیلابی ریلے کے بے رحم موجوں کا شکار ہوئے ۔
اس وقت میرا ذہن ماؤف ہو چکا تھا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی ۔ اسی وقت انتظامیہ کے آفیسران ، پولیس آفیسران اور مقامی لوگوں نے ہمیں جس انداز میں حوصلہ دیا ، ہمت بڑھائی ، اپنائیت دی ، عزت و احترام دیا اس کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا ۔ ڈپٹی کمشنر دیامر کیپٹن ریٹائرڈ عطاء الرحمان کاکڑ ہماری پوری فیملی کو اپنے گھر لے گئے اور پھر ہمارے ساتھ صبح سے لیکر رات گئے تک میرے لخت جگر سمیت و دیگر لاپتہ افراد کے ریسکیو آپریشن میں مصروف رہے ۔
سیلابی ریلے کے شکار ہونے والے ہر فرد کی کہانی الگ الگ ہے لیکن دکھ ، پریشانی یکساں ہیں ۔ کوئی اپنوں کو کھو کر پریشان ہے تو کوئی اپنا گھر ، زمین ، فصلیں اور باغات کو صفحہ ہستی مٹتے ہوئے دیکھ کر دکھی ۔
دنیا دھوکے کا گھر ہے ۔ نہ خوشیاں تاحیات ہوتی ہیں اور نہ دکھ تا حیات ۔ اس لئے جب تک جو فرد حیات ہے وہ کبھی کسی کے لئے برا نہ سوچیں ۔۔۔زرا سوچیئے ۔۔۔میری سوچ ۔۔۔