Online Magazine Jamiat Ahl e Hadees

Online Magazine Jamiat Ahl e Hadees Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Online Magazine Jamiat Ahl e Hadees, News & Media Website, HEAD OFFICE: Utca E. T Housing Society Lahore, Lahore.

مکمل مضمون پڑھنے کے لیے see more  پر کلک کریں۔۔۔آن لائن میگزین جمعیت اہل حدیث کا فیس بک پیج لائیک کریں https://www.face...
05/08/2025

مکمل مضمون پڑھنے کے لیے see more پر کلک کریں۔۔۔
آن لائن میگزین جمعیت اہل حدیث کا فیس بک پیج لائیک کریں
https://www.facebook.com/profile.php?id=61574579324796
آن لائن میگزین جمعیت اہل حدیث کے ایکس( ٹوئٹر) کو فالو کریں
https://x.com/japnewslhr

معــوذاتین
آپ نے کبھی قرآن مجید کی آخری دو سورتوں پر غور فرمایا……؟؟

”سورہ فلق“ میں چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی گئی ہے…اور وہ چاروں بڑی خطرناک، خوفناک اور ہلاکت خیز چیزیں ہیں……
جبکہ ”سورۃ الناس“ میں صرف ایک چیز سے پناہ مانگی گئی ہے…مگر وہ ایک چیز…اپنی تباہی اور ہلاکت میں…سورہ فلق والی چار چیزوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے……
اب غور کریں ”سورہ فلق“ میں چار چیزوں سے پناہ مانگی گئی…مگر اس کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی صرف ایک ”صفت“ کا وسیلہ پکڑا گیا……
”اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ“ میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے رب کی…ان چار چیزوں سے
(١) تمام مخلوق کے شر سے
(٢) چھا جانے والے اندھیرے کے شر سے
(٣) جادوگر عورتوں کے شر سے
(٤) حسد کرنے والوں کے شر سے جب وہ اپنے حسد پر چل پڑیں……

اب ”سورۃ الناس“ کو دیکھیں…اس میں پناہ صرف ایک چیز سے مانگی گئی…مگر آغاز میں اللہ تعالیٰ کی تین صفات کا وسیلہ پکڑا گیا……
اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ، مَلِكِ النَّاسِ، اِلٰهِ النَّاسِ……
میں پناہ مانگتا ہوں…تمام انسانوں کے رب کی…تمام انسانوں کے بادشاہ اور مالک کی…تمام انسانوں کے حقیقی معبود کی…صرف ایک چیز سے…اور وہ چیز ہے…خنّاس کا وسوسہ……
اے تمام انسانوں کے رب!…اے تمام انسانوں کے شہنشاہ!…اے تمام انسانوں کے معبود برحق!…مجھے خنّاس کے وسوسے کے شر سے بچالے… یہ ”خنّاس“ یعنی چھپا ہوا دشمن انسان ہو یا کوئی جن یا شیطان……
”خنّاس“ اسے کہتے ہیں جو سیدھا آپ کے دل پر وار کرے…اور آپ کو پتا ہی نہ چلے…اور وہ یہ وار کرکے چھپ جائے…چھپ جانے کا مطلب یہ ہے کہ… یا تو نظر ہی نہ آئے… یا بظاہر دوست اور خیر خواہ نظر آئے…مگر حقیقت میں وہ آپ کے دل میں کوئی برائی اُتار دے……
بڑا خطرناک معاملہ ہے… بہت ہی خطرناک…دل میں وسوسہ اُتر گیا تو پھر تباہی ہی تباہی ہے……
یہ جو آج کل ملک شام میں لمبی داڑھیوں اور گھنی مونچھوں والے دروزی نظر آرہے ہیں…جو بے دردی سے مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں…صہیونیوں کے ساتھ مل کر اہل اسلام کے خلاف لڑتے ہیں… یہ کون ہیں؟……
ایک ”خنّاس“ آیا…اس نے انہیں امام برحق سے ملانے کا وعدہ کیا…اُن کے دل میں وسوسے کا بیج بویا…اور لاکھوں انسان…ایمان سے محروم ہوگئے……
مرزا قادیانی نام کا ایک ”خنّاس“ آیا…اس نے وسوسہ کی سوئی بعض افراد کے دلوں تک پہنچائی…اور دیکھتے ہی دیکھتے…لاکھوں مسلمان…کائنات کی سب سے سچی اور حسین ہستی…حضرت محمد ﷺ سے کٹ کر…ایک بدصورت اور بدسیرت انسان کا کلمہ پڑھنے لگے……

خاوند بیوی محبت سے رہ رہے ہوتے ہیں…کوئی آتا ہے ہنستے کھیلتے دو لفظ بول کر…اُن میں سے کسی کے دل میں وسوسے کا بیج بوتا ہے…اور چلا جاتا ہے… بس اس کے دو لفظ کا وسوسہ…اتنے حسین اور قریبی رشتے کو برباد کر دیتا ہے…اور محبت فنا ہوجاتی ہے…دکھ، غم اور شکوے جنم لے لیتے ہیں……
آپ کسی اچھے انسان سے محبت کرتے ہیں…اس کی محبت سے آپ کو دینی فائدہ ہوتا ہے…ایک چغل خور آتا ہے… باتوں باتوں میں غیر محسوس طریقے سے آپ کے کان میں وہ ڈال جاتا ہے کہ…آپ کی محبت…نفرت اور شک میں تبدیل ہوجاتی ہے…اور سالہا سال کی محنت اور محبت کا منٹوں میں جنازہ نکل جاتا ہے……
اسی طرح…شیاطین جو جنات ہیں…نظر نہیں آتے آپ کو کسی ایسی بدگمانی میں ڈال دیتے ہیں کہ…پھر آپ خود کو روک نہیں سکتے…اور اس بدگمانی کے طوفان میں…آپ کے کتنے رشتے، نعمتیں اور محبتیں تنکوں کی طرح بہہ جاتی ہیں……

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۝
کہہ دیجئے: میں لوگوں کے رب کی پناہ مانگتا ہوں۔

مَلِكِ النَّاسِ ۝
لوگوں کے بادشاہ کی۔

إِلَـٰهِ النَّاسِ ۝
لوگوں کے معبود کی۔

مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ۝
وسوسہ ڈالنے والے خناس (چھپ کر وسوسہ ڈالنے والے) کے شر سے۔

الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ۝
جو لوگوں کے سینوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔

مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ۝
خواہ وہ جنّات میں سے ہو یا انسانوں میں سے

مکمل مضمون پڑھنے کے لیے see more  پر کلک کریں۔۔۔آن لائن میگزین جمعیت اہل حدیث کا فیس بک پیج لائیک کریں https://www.face...
04/08/2025

مکمل مضمون پڑھنے کے لیے see more پر کلک کریں۔۔۔
آن لائن میگزین جمعیت اہل حدیث کا فیس بک پیج لائیک کریں
https://www.facebook.com/profile.php?id=61574579324796
آن لائن میگزین جمعیت اہل حدیث کے ایکس( ٹوئٹر) کو فالو کریں
https://x.com/japnewslhr

صبح دیر سے اٹھنے والے۔۔۔ اور بہادر شاہ ظفر
تحریر: صدیقی

✓بہادر شاہ ظفر کے سارے شہزادوں کے سر قلم کر کے اس کے سامنے کیوں پیش کیے گئے✓قبر کیلئے زمین کی جگہ کیوں نہ ملی ✓آج بھی اسکی نسل کے بچے کھچے لوگ بھیک مانگتے پھرتے ہیں کیوں؟پڑھیں اور اپنی نسل کو بھی بتائیں تباہی 1 دن میں نہیں آ جاتیصبح تاخیر سے بیدار ہو نے والے افراد درج ذیل تحریر کو غور سے پڑھیں:زمانہ 1850ء کے لگ بھگ کا ہے مقام دلی ہےوقت صبح کے ساڑھے تین بجے کا ہے سول لائن میں بگل بج اٹھا ہےپچاس سالہ کپتان رابرٹ اور اٹھارہ سالہ لیفٹیننٹ ہینری دونوں ڈرل کیلئے جاگ گئے ہیںدو گھنٹے بعد طلوع آفتاب کے وقت انگریز سویلین بھی بیدار ہو کر ورزش کر رہے ہیںانگریز عورتیں گھوڑ سواری کو نکل گئی ہیں سات بجے انگریز مجسٹریٹ دفتروں میں اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے ہیںایسٹ انڈیا کمپنی کے سفیر سر تھامس مٹکاف دوپہر تک کام کا اکثر حصہ ختم کر چکا ہے کوتوالی اور شاہی دربار کے خطوں کا جواب دیا جا چکا ہےبہادر شاہ ظفر کے تازہ ترین حالات کا تجزیہ آگرہ اور کلکتہ بھیج دیا گیا ہےدن کے ایک بجے سر مٹکاف بگھی پر سوار ہو کر وقفہ کرنے کیلئے گھر کی طرف چل پڑا ہےیہ ہے وہ وقت جب لال قلعہ کے شاہی محل میں ''صبح'' کی چہل پہل شروع ہو رہی ہے۔ظل الہی کے محل میں صبح صادق کے وقت مشاعرہ ختم ہوا تھا جس کے بعد ظلِ الٰہی اور عمائدین خواب گاہوں کو گئے تھے۔اس حقیقت کا دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ لال قلعہ میں ناشتے کا وقت اور دہلی کے برطانوی حصے میں دوپہر کے لنچ کا وقت ایک ہی تھا۔

دو ہزار سے زائد شہزادوں کا بٹیر بازی، مرغ بازی، کبوتر بازی اور مینڈھوں کی لڑائی کا وقت بھی وہی تھا۔اب ایک سو سال یا ڈیڑھ سو سال پیچھے چلتے ہیں۔برطانیہ سے نوجوان انگریز کلکتہ، ہگلی اور مدراس کی بندرگاہوں پر اترتے ہیں، برسات کا موسم ہے مچھر ہیں اور پانی ہے ملیریا سے اوسط دو انگریز روزانہ مرتے ہیں لیکن ایک شخص بھی اس ''مرگ آباد'' سے واپس نہیں جاتا۔لارڈ کلائیو پہرول گھوڑے کی پیٹھ پر سوار رہتا ہےاب 2020 میں آتے ہیں۔پچانوے فیصد سے زیادہ امریکی رات کا کھانا سات بجے تک کھا لیتے ہیںآٹھ بجے تک بستر میں ہوتے ہیں اور صبح پانچ بجے سے پہلے بیدار ہو جاتے ہیںبڑے سے بڑا ڈاکٹر چھ بجے صبح ہسپتال میں موجود ہوتا ہے۔پورے یورپ، امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور سنگاپور میں کوئی دفتر، کارخانہ، ادارہ، ہسپتال ایسا نہیں جہاں اگر ڈیوٹی کا وقت نو بجے ہے تو لوگ ساڑھے نو بجے آئیں!آج چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن چکی ہے پوری قوم صبح چھ سے سات بجے ناشتہ اور دوپہر ساڑھے گیارہ بجے لنچ اور شام سات بجے تک ڈنر کر چکی ہوتی ہےﷲ کی نعمت کسی کیلئے نہیں بدلتی اسکا کوئی رشتہ دار نہیں نہ اس نے کسی کو جنا، نہ کسی نے اس کو جنا جو محنت کریگا تو وہ کامیاب ہوگا۔عیسائی ورکر تھامسن میٹکاف سات بجے دفتر پہنچ جائیگا تو دن کے ایک بجے تولیہ بردار کنیزوں سے چہرہ صاف کروانے والا، بہادر شاہ ظفر مسلمان بادشاہ ہی کیوں نہ ہو' ناکام رہے گا۔

بدر میں فرشتے نصرت کیلئے اتارے گئے تھے لیکن اس سے پہلے مسلمان پانی کے چشموں پر قبضہ کر چکے تھے جو آسان کام نہیں تھا اور خدا کے محبوب ﷺ رات بھر یا تو پالیسی بناتے رہے یا سجدے میں پڑے رہے تھے!حیرت ہے ان حاطب اللیل دانش وروں پر جو یہ کہہ کر قوم کو مزید افیون کھلا رہے ہیں کہ پاکستان ستائیسویں رمضان کو بنا تھا کوئی اسکا بال بیکا نہیں کر سکتا کیا سلطنتِ خدا داد پاکستان ﷲ کی تھی اور کیا سلطنت خداداد میسور ﷲ کی نہیں تھی۔ (ٹیپو سلطان کی سلطنت)جس ملک کے ووٹر ذہنی غلام ہوں، پیر غنڈے ہوں مولوی منافق ہوں، ڈاکٹر بے ایمان ہوں، سیاستدان، اور پولیس ڈاکو ہوں، کچہری بیٹھک ہو ججز بےاعتبار ہوں، لکھاری خوشامدی ہوں، اداکار بھانڈ ہوں، ٹی وی چینل پر مسخرے ہوں، تاجر بےایمان اور سود خور ہوں، دکاندار چور ہوں، اور جہاں تین سال کی بچی سے پچاس سال تک کی عورتوں ریپ عام ہو اور مجرموں کو سیاسی دباؤ میں آکر چھوڑ دیا جائے۔ اسلام آباد مرکزی حکومت کے دفاتر ہیں یا صوبوں کے دفاتر یا نیم سرکاری ادارے، ہر جگہ لال قلعہ کی طرز زندگی کا دور دورہ ہے، کتنے وزیر کتنے سیکرٹری کتنے انجینئر کتنے ڈاکٹر کتنے پولیس افسر کتنے ڈی سی کتنے کلرک آٹھ بجے ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں؟ کیا اس قوم کو تباہ وبرباد ہونے سے دنیا کی کوئی قوم بچا سکتی ہے جس میں کسی کو تو اس لئے مسند پر نہیں بٹھایا جاسکتا کہ وہ دوپہر سے پہلے اٹھتا ہی نہیں، اور کوئی اس پر فخر کرتا ہے کہ وہ دوپہر کو اٹھتا ہے لیکن سہ پہر تک ریموٹ کنٹرول کھلونوں سے دل بہلاتا ہے، جبکہ کچھ کو اس بات پر فخر ہے کہ وہ دوپہر کے تین بجے اٹھتے ہیں، کیا اس معاشرے کی اخلاقی پستی کی کوئی حد باقی ہے.جو بھی کام آپ دوپہر کو زوال کے وقت شروع کریں گے وہ زوال ہی کی طرف جائے گا۔کبھی بھی اس میں برکت اور ترقی نہیں ہوگی۔اور یہ مت سوچا کریں کہ میں صبح صبح اٹھ کر کام پر جاؤں گا تو اس وقت لوگ سو رہے ہونگے میرے پاس گاہک کدھر سے آئے گا۔گاہک اور رزق ﷲ رب العزت کے زمہ ہے۔رازق رب العالمین ہے، اور وہ بہترین رزق دینے والاہے۔

مکمل مضمون پڑھنے کے لیے see more  پر کلک کریں۔۔۔آن لائن میگزین جمعیت اہل حدیث کا فیس بک پیج لائیک کریں https://www.face...
03/08/2025

مکمل مضمون پڑھنے کے لیے see more پر کلک کریں۔۔۔
آن لائن میگزین جمعیت اہل حدیث کا فیس بک پیج لائیک کریں
https://www.facebook.com/profile.php?id=61574579324796
آن لائن میگزین جمعیت اہل حدیث کے ایکس( ٹوئٹر) کو فالو کریں
https://x.com/japnewslhr

دل میں بدگمانی کیوں؟
تحریر: ہشام عبداللہ

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:"اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں"(سورۃ الحجرات: 12) کسی کے بارے میں بغیر تحقیق منفی سوچنا دل کو کالااور رشتوں کو زہر آلود کر دیتا ہے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ دوسروں کے بارے میں حسنِ ظن (اچھا گمان) رکھو۔ بدگمانی چھوڑو، اعتماد پیدا کرو، محبتیں پھیلاؤ۔ دوسروں کی نیت کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دو،خود کو دل کی گندگی سے بچاؤ۔مفسر قرآن فضیلتہ الشیخ حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: بدگمانی، جاسوسی اور غیبت۔ یہ تینوں کام انتہائی کمینگی اور بزدلی کے کام ہیں، کیونکہ انھیں کرنے والے میں جرأت ہی نہیں ہوتی کہ وہ لوگوں کے سامنے آ سکے۔ یہ اس سورت کی پانچویں آیت ہے جس کا آغاز ’’ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ‘‘ سے ہوا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ تینوں کام ایمان اور اس کے دعوے کے منافی ہیں، اس لیے ان سے بچ جاؤ۔ اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ ....: پہلی بات یہ فرمائی کہ اس چیز سے بچو کہ کسی کے متعلق جو سنو یا دیکھو اس سے اس کے متعلق برا گمان ہی قائم کر لو، بلکہ جہاں تک ہو سکے مومن کے تمام اقوال و اعمال کے متعلق اچھا گمان رکھنے کی کوشش کرو، کیونکہ بعض گمان بالکل بے بنیاد اور گناہ ہوتے ہیں۔ اس لیے زیادہ گمان سے بچو، کیونکہ اس کا نتیجہ ایسے گمانوں میں پڑ جانا ہے جو گناہ ہیں۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے بعض گمانوں کو گناہ قرار دیا ہے، سب گمانوں کو نہیں، کیونکہ ظن کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک ظن غالب ہے، جو کسی دلیل یا مضبوط علامت کے ساتھ قوی ہو جائے، اس پر عمل کرنا درست ہے۔ شریعت کے اکثر احکام اس پر مبنی ہیں اور دنیا کے تقریباً تمام کام اسی پر چلتے ہیں، مثلاً عدالتوں کے فیصلے، گواہوں کی گواہی، باہمی تجارت، ٹیلی فون اور خطوط کے ذریعے سے اطلاعات اور خبرِ واحد کے راویوں کی روایات۔ ان سب چیزوں میں غور وفکر، جانچ پڑتال اور پوری کوشش سے حاصل ہونے والا علم بھی ظن غالب ہے، مگر اس پر عمل واجب ہے۔ اسے ظن اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی مخالف جانب کا یعنی اس کے درست نہ ہونے کا نہایت ادنیٰ سا امکان رہتا ہے، مثلاً ہو سکتا ہے کہ گواہ کی گواہی درست نہ ہو، اطلاع دینے والا جھوٹ بول رہا ہو، یا راوی کو غلطی لگی ہو، مگر اس امکان کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس امکان پر جائیں تو دنیا کا کوئی کام ہو ہی نہ سکے۔ اس لیے اپنی پوری کوشش کے بعد دلائل سے جو علم حاصل ہو اس پر بھی اگرچہ ظن کا لفظ بول لیا جاتا ہے مگر درحقیقت یہ علم ہی ہے اور اس پر عمل واجب ہے۔ ظن کی ایک قسم یہ ہے کہ کسی وجہ سے دل میں ایک خیال آ کر ٹھہر جاتا ہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ دلیل نہ ہونے کی وجہ سے دل میں اس کے ہونے یا نہ ہونے کا امکان برابر ہوتا ہے، اسے شک بھی کہتے ہیں، یا اس کے ہونے کا امکان اس کے نہ ہونے کے امکان سے کم ہوتا ہے، یہ وہم کہلاتا ہے۔ ظن کی یہ صورتیں مذموم ہیں اور ان سے اجتناب واجب ہے۔ ’’ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ‘‘ (بے شک بعض گمان گناہ ہیں) سے یہی مراد ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿ اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَيْـًٔا ﴾ [ یونس : ۳۶ ] (بے شک گمان حق کے مقابلے میں کچھ فائدہ نہیں دیتا) اور اللہ کے فرمان : ﴿ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ مَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ﴾ [ النجم : ۲۳ ] ( یہ لوگ صرف اپنے گمان کی اور اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں) میں اسی ظن کا ذکر ہے اور اسی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيْثِ )) [ بخاري، الأدب، باب : ﴿یأیھا الذین آمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن....﴾: ۶۰۶۶ ] ’’گمان سے بچو! کیونکہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے۔‘‘ اسے سب سے جھوٹی بات اس لیے کہا گیا کہ جب کوئی شخص کسی کے متعلق بدگمانی کرتا ہے تو وہ دلیل کے بغیر فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ شخص ایسا ایسا ہے۔

چونکہ حقیقت میں وہ شخص ایسا نہیں ہوتا، اس لیے اس کے اس فیصلے کو جھوٹ کہا گیا ہے اور سب سے بڑا جھوٹ اس لیے کہ اس نے بغیر کسی قرینے یا سبب کے محض نفس یا شیطان کے کہنے پر اسے براقرار دے لیا، جب کہ اس کے برے ہونے کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ 3۔ آیت میں ایسے گمان سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے جو بے دلیل ہو، مثلاً ایک آدمی جو ظاہر میں صالح ہے، اس کے عیوب پر اللہ کی طرف سے پردہ پڑا ہوا ہے، عام مشاہدہ میں وہ عفیف اور امانت دار ہے اور اس کے بددیانت یا گناہ گار ہونے کی کوئی دلیل یا علامت موجود نہیں، اس کے متعلق بدگمانی کرنا حرام ہے۔ ہاں، اگر گمان کرنے کی کوئی واقعی دلیل یا علامت موجود ہے تو اس وقت گمان منع نہیں۔

مثلاً ایک شخص کا اٹھنا بیٹھنا ہی ان لوگوں کے ساتھ ہے جو چوری یا زنا کے ساتھ معروف ہیں، یا رات کو وہاں پھرتا ہے جہاں اس کا کوئی کام نہیں، اس کے متعلق گمان پیدا ہونا فطری بات ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر گمان سے منع نہیں فرمایا، بلکہ فرمایا : ﴿اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ﴾ ’’بہت سے گمان سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں فرمایا : ’’بَابُ مَا يَجُوْزُ مِنَ الظَّنِّ‘‘ ’’وہ گمان جو جائز ہیں۔‘‘ اور اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنھا سے حدیث ذکر کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا أَظُنُّ فُلاَنًا وَ فُلاَنًا يَعْرِفَانِ مِنْ دِيْنِنَا شَيْئًا قَالَ اللَّيْثُ كَانَا رَجُلَيْنِ مِنَ الْمُنَافِقِيْنَ )) [ بخاري، الأدب، باب ما یجوز من الظن ....: ۶۰۶۷ ] ’’میں فلاں اور فلاں کے متعلق گمان نہیں کرتا کہ وہ ہمارے دین میں سے کچھ بھی جانتے ہیں۔‘‘ لیث نے فرمایا : ’’یہ دونوں آدمی منافق تھے۔‘‘ اس جائز گمان سے مراد وہ گمان ہے جس کی علامات یا دلیلیں واضح ہوں۔ 4۔ جس طرح دوسرے مسلمان کے حق میں بدگمانی کرنا منع ہے اسی طرح خود مسلمان کو بھی لازم ہے کہ ایسے ہر کام سے اجتناب کرے جس سے کسی کے دل میں اس کے متعلق برا گمان پیدا ہو۔ علی بن حسین بیان کرتے ہیں کہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی صفیہ رضی اللہ عنھا نے خبر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی آپ کے پاس تھیں۔ وہ جانے لگیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا : ’’جلدی نہ کرنا، یہاں تک کہ میں تمھارے ساتھ جاؤں۔‘‘ ان کا مکان اسامہ کی حویلی میں تھا۔

چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ نکلے تو آپ کو دو انصاری ملے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آگے بڑھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا: (( تَعَالَيَا إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ)) ’’ادھر آؤ! یہ (میری بیوی) صفیہ بنت حیی ہے۔‘‘ انھوں نے کہا : ’’سبحان اللہ! یا رسول اللہ! (بھلا ہم آپ کے متعلق برا گمان کر سکتے ہیں)۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِيْ مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ، وَ إِنِّيْ خَشِيْتُ أَنْ يُلْقِيَ فِيْ أَنْفُسِكُمَا شَيْئًا )) [ بخاري، الاعتکاف، باب زیارۃ المرأۃ زوجھا في اعتکافہ : ۲۰۳۸ ] ’’شیطان انسان میں خون کے پھرنے کی طرح پھرتا ہے، تو میں ڈرا کہ وہ تمھارے دلوں میں کوئی بات ڈال دے۔

مکمل مضمون پڑھنے کے لیے see more  پر کلک کریں۔۔۔آن لائن میگزین جمعیت اہل حدیث کا فیس بک پیج لائیک کریں https://www.face...
01/08/2025

مکمل مضمون پڑھنے کے لیے see more پر کلک کریں۔۔۔
آن لائن میگزین جمعیت اہل حدیث کا فیس بک پیج لائیک کریں
https://www.facebook.com/profile.php?id=61574579324796
آن لائن میگزین جمعیت اہل حدیث کے ایکس( ٹوئٹر) کو فالو کریں
https://x.com/japnewslhr

اسم اعظم کا مجرب وظیفہ۔۔۔۔۔

جو چاہتا کہ کہ مجھے صحت ملے، مجھے رزق ملے، میں مقروض ہوں میرا قرض ادا ہو جائے الغرض یہ کہ ہر جائز ضرورت کے لیے اسم اعظم کا ایک بہترین اور مجرب وظیفہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اسم اعظم اللہ کا ایک ایسا نام ہےکہ جس کہ ذریعے جو مانگا جائےتو اللہ تعالیٰ فوری عنایت کرتا ہے ویسے تو دعا کے تین نتیجے ہیں اللہ تعالیٰ یا فوری دیتا ہے یا اس کے بدلے ممیں کوئی حادثہ ٹالتا ہے یا قیامت کےدن کے لیے ذخیرہ ہو جاتا ہے، تو انسان قیامت والے یہ خواہش کرے گا کہ اللہ تعالیٰ میری کوئی دعا قبول ہی نہ کرتا۔
لیکن اگر کوئی چاہتا ہے دنیا میں اس کی دعا قبول ہو تو نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اسم اعظم ایک ایسی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کو ایک واسطہ ہی ہے۔ تو نبی کریم ﷺ نے بتایا کہ اسم اعظم سورہ بقرہ میں ہے، سورہ آل عمران میں اور سورہ طہٰ میں ہے، کیوں کہ ان تینوں سورتوں میں الحی اور القیوم موجود ہے اور اکثر علماء نے یہ استدلال کیا کہ اسم اعظم یہ ہے ۔
تو اس حولے سے میرے نانا جی حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ وہ یہ بیان کیا کرتے تھے کہ اسم اعظم کا جو وظیفہ کرنا چاہتا ہے وہ اس طرح پڑھے۔۔۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، الم، اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم، یا واحد یا ذالجلال والاکرام۔

یہ بہت ہی مجرب وظیفہ ہے اول و آخر درود شریف پڑھ کر یہ اسم اعظم 313 بار پڑھ کو کوئی بھی جائز دعا کی جائے تو اللہ کریم دعا قبول کر لیتے ہیں۔
یہ وظیفہ حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ اپنے شاگردوں کو بہت زیادہ بتایا کرتے تھے۔

مکمل مضمون پڑھنے کے لیے see more  پر کلک کریں۔۔۔آن لائن میگزین جمعیت اہل حدیث کا فیس بک پیج لائیک کریں https://www.face...
30/07/2025

مکمل مضمون پڑھنے کے لیے see more پر کلک کریں۔۔۔
آن لائن میگزین جمعیت اہل حدیث کا فیس بک پیج لائیک کریں
https://www.facebook.com/profile.php?id=61574579324796
آن لائن میگزین جمعیت اہل حدیث کے ایکس( ٹوئٹر) کو فالو کریں
https://x.com/japnewslhr

اسلامی اصولوں کی پامالی
اور گدھے کا گوشت

حمیداللہ خان عزیز
(ایڈیٹر:ماہنامہ مجلہ"تفہیم الاسلام")

حلال رزق سے دل کو سکون ملتا ہے
حرام مال سے بڑھتا ہے اضطرابِ حیات

جب معاشرہ حلال و حرام کے فرق کو مٹا دے، جب رزق کی طہارت غیر ضروری اور نفع کا حصول ہی سب کچھ بن جائے، تو پھر صرف اجسام نہیں، کردار، ذہن اور نسلیں بھی آلودہ ہو جایا کرتی ہیں۔
خوراک انسانی وجود کی بنیاد ہے۔ یہ فقط جسم کو توانائی نہیں دیتی بلکہ انسان کی فکر، فہم، عبادت، اخلاق اور کردار تک پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں حلال و طیب رزق پر بار بار تاکید کی گئی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

> "يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الأَرْضِ حَلاَلاً طَيِّباً"
(البقرہ: 168)
"اے لوگو! زمین میں جو کچھ حلال اور پاکیزہ ہے، وہ کھاؤ۔"

اس آیت میں "حلال" اور "طیب" دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے والی چیز کا صرف شرعی طور پر جائز ہونا کافی نہیں بلکہ وہ طبعی طور پر بھی پاکیزہ ہو، یعنی انسانی صحت، طبیعت اور اخلاق کے لیے مفید ہو۔ گدھے، کتے یا دیگر حرام جانوروں کا گوشت نہ شرعاً حلال ہے نہ طبعاً طیب، بلکہ یہ نفرت انگیز، گندہ، اور انسانیت سوز ہے۔

آج جب ہم اپنے گرد و پیش پر نگاہ ڈالتے ہیں تو دل کانپ اٹھتا ہے۔
‏اسلام آباد کے علاقے ترنول میں فوڈ اتھارٹی نے چھاپہ مار کر 600 کلو (25 من) گدھے کا گوشت برآمد کیا، اور کئی زندہ گدھے بھی قبضے میں لیے گئے۔
یہ پہلا واقعہ نہیں۔ ماضی میں بھی لاہور، کراچی، راولپنڈی، فیصل آباد اور دیگر شہروں سے ایسی خبریں سامنے آ چکی ہیں جہاں ہوٹلوں، شادی ہالوں اور بازاروں میں کتے، گدھے اور مردار جانوروں کا گوشت فروخت کیا جاتا رہا۔
یہ جرم صرف پیٹ کا نہیں، ضمیر، شریعت، صحت اور انسانیت کا قتل ہے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ ایک طرف ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم "ریاستِ مدینہ" کے وارث ہیں، دوسری طرف حرام خوراک کا بازار کھلے عام گرم ہے اور ہم صرف "اناللہ وانا الیہ راجعون" کہہ کر چپ ہو جاتے ہیں۔
یہ صرف قانون کا مسئلہ نہیں، یہ ایمان، تہذیب، اور بقا کا مسئلہ ہے۔
اگر آج ہم نے خوراک کو پاکیزہ بنانے، حرام کو جڑ سے ختم کرنے، اور ریاست و معاشرے کو جوابدہ بنانے کی کوشش نہ کی، تو کل ہماری نسلیں مردار کھانے کو معمول سمجھیں گی، اور ایمان فقط رسومات تک محدود ہو جائے گا۔

حلال و حرام کے اسلامی تصورات

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کی زندگی کے ہر پہلو کو اپنی تعلیمات کی روشنی میں منظم کرتا ہے۔ غذا انسان کی بنیادی ضرورت ہے، مگر اسلام نے اسے صرف حیوانی تقاضے کے تحت جائز قرار نہیں دیا، بلکہ اس کے لیے ایک پاکیزہ، متعین اور روحانی ضابطہ مقرر کیا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبوی ﷺ میں بار بار "طیب" (پاکیزہ) اور "حلال" خوراک کی تاکید کی گئی ہے۔ ایک مسلمان کے لیے صرف پیٹ بھرنا مقصد نہیں بلکہ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ اس کے پیٹ میں جو لقمہ جا رہا ہے، وہ اللہ کے احکام کے مطابق ہے یا نہیں۔

قرآن مجید کی سورہ البقرہ میں فرمایا گیا:

> "يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا"
"اے لوگو! زمین میں جو کچھ حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں ان کو کھاؤ".
(سورۃ البقرہ: 168)

اسی طرح سورہ المائدہ میں صراحت کے ساتھ حرام اشیاء کی فہرست دی گئی ہے:

> "حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ..."
"تم پر حرام کی گئی مردار، خون، سور کا گوشت..."
(المائدہ: 3)

اسلام صرف حلال جانور کے گوشت پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس جانور کا ذبح بھی اللہ کے نام پر مخصوص طریقے سے ہونا ضروری قرار دیتا ہے۔ اگر ذبح میں اللہ کا نام نہ لیا جائے، تو وہ جانور بھی "میتہ" (مردار) کے حکم میں آ جاتا ہے، خواہ وہ بظاہر حلال جانور ہی کیوں نہ ہو۔

یہی وجہ ہے کہ حلال خوراک صرف جسمانی صحت کا معاملہ نہیں بلکہ ایمان، عبادت اور روحانی بالیدگی کا ذریعہ بھی ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

> "اے سعد! اپنی خوراک کو پاکیزہ بناؤ، تمہاری دعائیں قبول ہوں گی"
(مسند احمد)

اسلامی نظام میں غذا ک پاکیزگی، معاشرے کی اخلاقی اور روحانی فضا پر براہ راست اثر ڈالتی ہے۔ جب معاشرہ حلال و حرام کے فرق کو مٹانا شروع کر دیتا ہے تو پھر صرف پیٹ کا مسئلہ باقی رہ جاتا ہے، اور روحانیت کا زوال یقینی ہو جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے فتنوں کا آغاز ہوتا ہے۔

کیا ہر ذبیحہ گوشت قابلِ قبول ہے؟

اسلامی تعلیمات کے مطابق حلال گوشت صرف اس جانور کا کہلائے گا:

جو خود فطری طور پر حلال ہو (جیسے گائے، بکری، بھیڑ، اونٹ وغیرہ)

جسے مسلمان یا اہلِ کتاب نے اسلامی طریقے سے ذبح کیا ہو

ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہو

جانور کو زندہ ذبح کیا گیا ہو، نہ کہ پہلے سے مرا ہوا

اس کے برعکس کتا، گدھا، خنزیر، درندے، اور مردار وغیرہ کا گوشت سراسر ناجائز ہے، خواہ اسے کوئی بھی ذبح کرے۔

لہٰذا کتے یا مردار جانور کا گوشت نہ صرف انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ روحانی اعتبار سے بھی زہر ہے۔ اور اگر کوئی دکان دار یا ہوٹل والا ایسے گوشت کو انسانی غذا بنا کر بیچتا ہے، تو وہ نہ صرف گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے بلکہ معاشرتی خیانت کا بھی مجرم قرار پاتا ہے۔

معاشرتی اثرات اور روحانی تباہی

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

> "حرام غذا، دعا کی قبولیت، عبادت کی نورانیت اور دل کی صفائی کو تباہ کر دیتی ہے"
(الجواب الکافی)

اگر افرادِ معاشرہ اپنے جسموں کو مردار و حرام سے پالتے رہیں تو نہ صرف ان کے دلوں پر زنگ لگتا ہے بلکہ ظلم، بے حسی، خیانت، حرام خوری، اور روحانی فساد ان کے کردار کا جزو بن جاتے ہیں۔

اسی لیے آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم معاشروں میں کرپشن، خیانت، ظلم اور بے ایمانی بڑھتی جا رہی ہے، کیونکہ حلال و حرام کا شعور مٹ چکا ہے، اور پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لیے ہر ناپاک طریقہ اپنایا جا رہا ہے۔

قرآن وسنت کی روشنی میں حلال و حرام کے اصول

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو زندگی کے ہر پہلو پر راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ خوراک، طہارت، عبادات، معاملات، اخلاقیات، معاشرت، معیشت حتیٰ کہ انسان کے اندرونی احساسات اور رجحانات تک کے لیے قرآن و سنت نے اصول وضع کیے ہیں۔ خوراک کا معاملہ چونکہ براہ راست انسان کے جسم، صحت، اخلاق اور روحانیت پر اثرانداز ہوتا ہے، اس لیے شریعتِ اسلامیہ نے اس معاملے میں انتہائی واضح اور سخت احکامات دیے ہیں۔ قرآن و حدیث میں بار بار حلال اور پاکیزہ (طیّب) رزق کھانے کا حکم دیا گیا ہے اور حرام و ناپاک اشیاء سے اجتناب کی تلقین کی گئی ہے۔

قرآن مجید کے فرامین

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

> "يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا"
"اے لوگو! زمین میں جو کچھ حلال اور پاکیزہ ہے، اسے کھاؤ۔"
(سورہ البقرہ: 168)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

> "كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ"
"جو کچھ ہم نے تمہیں رزق دیا ہے، اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔"
(سورہ طٰہٰ: 81)

یہ آیات اس امر پر زور دیتی ہیں کہ صرف وہی خوراک جائز ہے جو حلال بھی ہو اور طیب (پاکیزہ) بھی۔ ہر حلال چیز طیب نہیں ہوتی، مثلاً بعض چیزیں شرعی لحاظ سے جائز تو ہو سکتی ہیں، لیکن اگر وہ غلاظت، بدبو، گندگی یا نفرت انگیز کیفیت رکھتی ہوں، تو ان کا استعمال "طیب" کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔

حرام چیزوں کی تفصیل

اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہوں پر ان چیزوں کی صراحت فرمائی ہے جو مسلمانوں کے لیے حرام ہیں۔ مثلاً:

> "حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ"
"تم پر مردار، خون، سور کا گوشت، اور وہ (جانور) جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو، حرام کر دیے گئے ہیں۔"
(سورہ المائدہ: 3)

گویا ہر وہ جانور جو خود مر جائے، یا جس کو شرعی طریقہ (ذبیحہ) سے ذبح نہ کیا جائے، یا جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے، یا جو ناپاک ہو (جیسے سور یا درندہ)، وہ حرام ہے۔

گدھے کا گوشت — شریعت کی روشنی میں

گھریلو گدھے کا گوشت کھانا اجماعِ امت سے حرام ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

> "نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ"
"نبی کریم ﷺ نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا۔"
(صحیح بخاری: 4219)

اسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

> "أن رسول الله ﷺ أمر أن يُكسر كل قدر طبخت فيها لحوم الحمر الأهلية، فكسرت القدور."
"نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ جن دیگوں میں گدھوں کا گوشت پکایا گیا ہے، انہیں توڑ دیا جائے۔ پس وہ دیگیں توڑ دی گئیں۔"
(صحیح بخاری: 5520)

یہ سختی اس لیے اختیار کی گئی کہ امت پر یہ واضح ہو جائے کہ گدھے کا گوشت نہ صرف حرام ہے بلکہ اس کے استعمال سے بچاؤ انتہائی ضروری ہے۔

طیب اور خبیث کی تمییز

اسلامی تعلیمات میں صرف "حلال" کافی نہیں بلکہ "طیب" یعنی پاکیزہ اور طبیعت کے لیے قابل قبول ہونا بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

> "يُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ"
"وہ (رسول) ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کرتا ہے اور گندی چیزیں ان پر حرام کرتا ہے۔"
(سورہ الاعراف: 157)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ خبیث (گندی، نجس یا مکروہ) اشیاء جیسے مردار، خون، سور، اور ناپاک جانور، اسلامی معیار پر کبھی بھی جائز قرار نہیں دی جا سکتیں۔

حرام کھانے کے دینی، جسمانی اور روحانی اثرات

حرام خوراک سے انسان کے جسم میں ناپاک اثرات پیدا ہوتے ہیں۔ دل سخت ہو جاتا ہے، دعا قبول نہیں ہوتی، عبادات بے اثر ہو جاتی ہیں، اور انسان حلال و حرام میں تمییز کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے نبی کریم ﷺ سے دعا کی قبولیت کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

> "اطب مطعمک تكن مستجاب الدعوة"
"اپنا کھانا پاکیزہ رکھ، تیری دعا قبول ہو گی۔"
(مسند احمد: 13620)

اسی لیے فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص حرام کھانے کا عادی ہو جائے تو اس کا باطن خراب ہو جاتا ہے، اور نیکی و برکت اس کے وجود سے دور ہو جاتی ہے۔

اہل علم وفضل کے فتاویٰ

گدھا ایک خادم جانور ہے، نہ کہ کھانے کے لیے پیدا کیا گیا جانور۔ اس کا گوشت نہ صرف گندہ اور بدبودار ہوتا ہے بلکہ اس کا استعمال انسانی فطرت، وقار اور سوسائٹی کی تہذیب کو مجروح کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی فقہ میں تقریباً تمام مکاتب فکر کے علماء نے اس کو حرام یا مکروہ تحریمی قرار دیا ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اہلی گدھے کا گوشت کھانا ناجائز ہے۔"
امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ بھی اس پر متفق ہیں کہ پالتو گدھے کا گوشت حرام ہے۔

دور حاضر کے تمام مفتیانِ کرام نے واضح طور پر فتویٰ دیا ہے کہ:
"گدھے کا گوشت کھانا حرام ہے۔"

ایسے جانور جن کا گوشت کھانا شریعت میں منع ہے، ان کا کاروبار کرنا، بیچنا یا ہوٹلوں میں ان کا استعمال جرم اور کبیرہ گناہ ہے۔

عوام کو اس سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے اور حکومت کو سختی سے اس کا سدباب کرنا چاہیے۔
حلال و حرام کا معاملہ اسلام میں صرف ایک اخلاقی مسئلہ نہیں بلکہ عقیدہ، شریعت اور روحانیت کا مسئلہ ہے۔ گدھے، کتے، مردار یا حرام جانور کا گوشت کھانا صرف جسمانی بیماری نہیں لاتا بلکہ یہ روحانی زوال، دعاؤں کی عدم قبولیت اور دین سے دوری کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ریاست، علماء اور معاشرہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس ناسور کے خلاف مؤثر کردار ادا کریں۔ حرام کھانے سے بچنا ایمان کی علامت اور اللہ کی قربت کا ذریعہ ہے۔

انسانی صحت پر اثرات

طب جدید بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ گدھے کا گوشت بیکٹریا، وائرسز اور جسمانی بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ کئی کیسز میں گدھے یا کتے کے گوشت کے استعمال سے Hepatitis، TB، اور دیگر جلدی و آنتوں کی بیماریاں پھیلتی دیکھی گئی ہیں۔ یہ گوشت نہ صرف صحت کے لیے خطرناک ہے بلکہ یہ بے شمار نفسیاتی اثرات بھی چھوڑتا ہے کیونکہ انسان جو کھاتا ہے وہی اس کی جسمانی، ذہنی اور روحانی ساخت میں شامل ہوتا ہے۔

ریاست کہاں ہے؟ — قانون، حکمرانی اور شرمناک غفلت

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر گدھوں، کتوں اور مردار جانوروں کا گوشت عوام کو کھلایا جا رہا ہو اور متعلقہ ریاستی ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہوں تو یہ صرف ایک انتظامی ناکامی نہیں بلکہ قومی سطح کی اخلاقی و انسانی تباہی ہے۔ ترنول، اسلام آباد سے فوڈ اتھارٹی کی کارروائی میں جب گدھوں کا گوشت اور زندہ گدھے برآمد ہوئے تو سوال یہ نہیں تھا کہ قصائی کون ہے، بلکہ اصل سوال یہ تھا کہ ریاست کہاں ہے؟ کہاں ہے وہ نظامِ نگرانی، وہ ضابطے، وہ ادارے اور وہ حکومتی نظم جو عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے قائم کیے گئے تھے؟ اور اگر وہ موجود ہیں تو پھر خاموش کیوں ہیں؟ عوامی صحت، انسانی وقار، اور اسلامی اصولوں کو پامال کر دینے والے اس جرمِ عظیم پر کسی بڑے افسر کی معطلی کیوں نظر نہیں آتی؟ کسی وزیر، مشیر یا سیکریٹری کو قوم سے معافی مانگتے کیوں نہیں دیکھا گیا؟
ریاست کا بنیادی فرض اپنے شہریوں کے جان، مال، آبرو اور صحت کا تحفظ ہے۔ دستور پاکستان کا آرٹیکل 9 ہر شہری کے "زندگی اور آزادی" کی ضمانت دیتا ہے، جس میں محفوظ، پاکیزہ اور صحت مند غذا بھی شامل ہے۔ جب لاہور، کراچی، فیصل آباد، حیدرآباد اور اب اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں انسانوں کو جانوروں کے برابر بلکہ اس سے بھی بدتر کھانے دیے جا رہے ہوں، تو صاف ظاہر ہے کہ ریاست اپنی آئینی و اخلاقی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ یہ معمولی جرم نہیں کہ کسی قصاب نے غیرقانونی گوشت بیچ دیا، بلکہ یہ اجتماعی نااہلی، بے حسی اور کرپشن کا عکس ہے۔ اگر ہر بار صرف چھوٹے قصاب کو پکڑ کر خبر بنا دی جائے اور اصل نیٹ ورک، اس کے سرپرست، اور نگران ادارے محفوظ رہیں، تو پھر یہ لعنت کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔

اسی تناظر میں، ریاست کی غفلت ایک طرح کی ’شراکتِ جرم‘ بن جاتی ہے۔ جب فوڈ انسپیکشن نظام میں رشوت کا بازار گرم ہو، لیبارٹریز ناکارہ ہوں، نگرانی کا نظام محض کاغذی ہو، اور عدالتی کارروائیاں برسوں پر محیط ہوں، تو پھر معاشرہ بیمار ہی نہیں، بدبودار بھی ہو جاتا ہے۔ یہی ہو رہا ہے۔ لوگ حلال و حرام کا فرق بھولتے جا رہے ہیں، کیونکہ ریاست خود گواہ ہے کہ یہاں کچھ بھی ممکن ہے — بس پیسہ ہونا چاہیے۔

ریاست کے ذمہ داران کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسلامی شریعت کی رو سے بھی اگر کوئی سربراہ رعایا کی صحت و سلامتی کے تحفظ میں ناکام ہو جائے، تو وہ دنیا و آخرت دونوں میں جواب دہ ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:

> "کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ"
(تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا)۔
(بخاری، مسلم)

ریاستی اداروں، خصوصاً وزارتِ صحت، فوڈ اتھارٹی، میونسپل اداروں اور قانون نافذ کرنے والے حلقوں کو اس ذمہ داری سے بری نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک وہ باقاعدہ اور سخت حکمت عملی نہیں بنائیں گے، عوام کی صحت ایک تجربہ گاہ بنی رہے گی، اور گدھوں، کتوں اور مردار جانوروں کا گوشت بڑے بڑے ہوٹلوں میں بکتا رہے گا۔

حل اور تجاویز — یہ ناسور کیسے ختم ہو؟

جب معاشرہ فتنوں سے بھر جائے، جب رزق میں حرام کا زہر سرایت کر جائے، جب ریاست خاموش، اور عوام غافل ہو جائے تو پھر اصلاح کا عمل محض جذباتی ردعمل سے ممکن نہیں۔ ایک سنجیدہ، دیرپا، اور منظم حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ صرف چند افراد کا جرم نہیں، بلکہ ایک پورے نظام، رویے اور سوچ کا نتیجہ ہے۔
ایسی حالت میں صرف ماتم، واویلا یا فیس بک پوسٹ کافی نہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ شریعت، سائنس، قانون، اور عوامی شعور کو یکجا کر کے کوئی مستقل لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ ایسے اقدامات جن سے حرام گوشت کا دھندہ بند ہو، حلال رزق کا شعور عام ہو، اور جرم کے مرتکبین کو ایسا انجام دیا جائے کہ دوبارہ کوئی اس طرف نگاہ بھی نہ کرے۔

مندرجہ ذیل تجاویز صرف نعرے نہیں بلکہ وہ عملی نکات ہیں جن پر سنجیدگی سے عمل ہو تو معاشرہ اس لعنت سے پاک ہو سکتا ہے:

شرعی سزاؤں کا نفاذ:

فاسد، حرام یا مشتبہ گوشت بیچنے والے افراد کو عبرتناک سزا دی جائے تاکہ وہ دوسروں کے لیے نشانِ عبرت بنیں۔

ایسے افراد کو شریعت کی روشنی میں فاسق و فاجر قرار دے کر ان کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے۔

اسلامی فوجداری نظام کے تحت اگر کوئی قصداً امت مسلمہ کو حرام کھلاتا ہے تو وہ نہ صرف فاسد بلکہ ملت کا خائن ہے۔

عدالتوں میں فوری مقدمات کے ذریعے واضح اور میڈیا پر نشر کی جانے والی سزائیں دی جائیں۔

زکوٰۃ اور صدقات سے محرومی جیسے اجتماعی اقدامات بھی شرعی طور پر زیر غور لائے جا سکتے ہیں۔

علماء اور میڈیا کا کردار:

علماء کرام جمعہ کے خطبوں میں حلال خوراک کو ایمان کا مسئلہ قرار دیں اور عوام کو شرعی نقطہ نظر سے آگاہ کریں۔

سوشل میڈیا، ریڈیو، ٹی وی پر آگاہی مہمات چلائی جائیں جس میں فوڈ فراڈ کو "اخلاقی جرم" نہیں، "دینی غداری" تصور کیا جائے۔

اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں بھی نصاب میں حلال و حرام کی تعلیم شامل کی جائے۔

اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے ایسے فتویٰ عام کریں جو حرام خوراک کے سدباب کو ایک شرعی فریضہ قرار دیں۔

فوڈ لیبارٹریز اور QR کوڈ سسٹم:

ہر شہر، ضلع اور تحصیل کی سطح پر فوڈ سیفٹی لیبارٹریز قائم کی جائیں۔

گوشت کی ہر سپلائی پر QR کوڈ سسٹم نافذ کیا جائے جسے اسکین کرنے پر ذبح کرنے والی جگہ، جانور کی نوعیت، اور میڈیکل سرٹیفکیٹ معلوم ہو سکیں۔

سستے گوشت پر فوری طور پر خودکار جانچ پڑتال کا نظام قائم ہو تاکہ جعلی گوشت فوری پکڑا جا سکے۔

ہوٹلوں، قصائیوں اور شادی ہالوں کو ریگولر انسپیکشن کے نظام سے جوڑا جائے، جس میں کسی بھی خلاف ورزی پر فوری تالہ بندی کی جائے۔

عوامی ردعمل:

ایسے افراد یا ہوٹلز جو اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہوں، ان کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے۔

نامیاتی حلال گوشت سپلائرز کی عوامی فہرست بنائی جائے، اور جعلی یا مشکوک سپلائرز کی فہرست سوشل میڈیا پر نمایاں کی جائے۔

عوام خود بھی گوشت خریدتے وقت سوال کریں، رسید طلب کریں، اور حلال تصدیق کے بغیر خریداری سے انکار کریں۔

محلے کی سطح پر فوڈ واچ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو شکایات کو فوڈ اتھارٹی یا میڈیا تک پہنچائیں۔

ایمان، غیرت اور احتساب کا تقاضا:

یہ محض پیٹ بھرنے کی بات نہیں — یہ دین کی تذلیل، غیرت کا جنازہ، اور امتِ مسلمہ کے تشخص کا بحران ہے۔

> "كل جسد نبت من سحت فالنار أولى به"
"ہر وہ جسم جو حرام سے پلا ہو، جہنم اس کا پہلا مقام ہے۔" (مشکوٰۃ)

ایسا معاشرہ جہاں گدھے کا گوشت ہوٹلوں میں، اور کتوں کا گوشت شادی ہالوں میں دیا جا رہا ہو، وہاں نہ دعائیں قبول ہوں گی، نہ قیادت صالح ہوگی، نہ نسلیں پاک۔
اب وقت ہے کہ ہم فیصلہ کریں:

یا تو ہم ذائقے، سستی اور لاپروائی کے پیچھے اپنے دین، صحت اور نسل کو قربان کرتے رہیں؛
یا پھر کھڑے ہو کر علم، غیرت اور قانون کے ساتھ اس ناسور کا قلع قمع کریں۔

اللّٰهُمَّ ارزُقْنَا رِزقاً حَلَالًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ، وَجَنِّبْنَا الحَرَامَ وَأَهْلَهُ۔
(اے اللہ! ہمیں حلال، پاکیزہ اور بابرکت رزق عطا فرما، اور ہمیں حرام اور حرام خوروں سے بچا۔)

جو فرق جانے حلال و حرام کا، وہی ہے بندۂ خاص
ورنہ تو سب کچھ ہے دنیا میں، بس کردار کی ہے پیاس

Address

HEAD OFFICE: Utca E. T Housing Society Lahore
Lahore
54000

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Online Magazine Jamiat Ahl e Hadees posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share