14/06/2025
*(سانحۂ ماڈل ٹاؤن پس پردہ محرکات و مضمرات)*
*جون 2014 میں ہونیوالا حکومتی پلان بہت خطرناک تھا۔ اگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو جو ہوا اصلی منصوبہ اس سے کہیں ہولناک تھا۔ طاقت اور اقتدار عمومی طور پر ایک سفاک کھیل ہے۔ اسکے آگے اخلاق اصول انسانیت سبھی کو پامال ہونا پڑتا ہے*
*مبینہ طور پر ن لیگ کی مرکزی حکومت نے فیصلہ کیا کہ منہاج القرآن اور ڈاکٹر طاہرالقادری پر پابندی لگا کر ملک بھر میں تمام اثاثہ جات ضبط کر لئے جائیں۔ بطور کالعدم جماعت ملک بھر سے اسکے ہزاروں متحرک عہدیداروں اور کارکنوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا جائے۔ اس طرح منہاج القرآن اور تحریک انصاف کے مشترکہ متوقع حکومت مخالف مارچ کو ناکام بنایا جائے۔ آپ ایک ایسی تنظیم جو دنیا بھر میں اسلام کی دعوت کے فروغ اور جدید دنیا کے سامنے اسلام کو ایک جدید اور آفاقی دین کے طور پر پیش کررہی ہے اس پر کسی بہت بڑے جواز کے بغیر ایسا نہیں کر سکتے، سو اس کیلئے ایک خطرناک اور انتہائی منصوبہ تشکیل دیا گیا۔ جسکے نفاذ کی ذمہ داری ن لیگ کی پنجاب حکومت کے سپرد کی گئی*
*ہوا یہ کہ جب ن لیگ کی قیادت کو اپنے خاص ذرائع سے منہاج القرآن اور تحریک انصاف کی اس انڈرسٹینڈنگ کی خبر ہوئی کہ دونوں جماعتیں حکومت گرانے کیلئے ایک بڑی تحریک چلانے جا رہی ہیں تو انہوں نے دونوں جماعتوں کو علیحدہ علیحدہ اسٹریٹجی سے deal کرنے کا فیصلہ کیا۔ ن لیگ کیلئے منہاج القرآن کو مینج کرنا زیادہ ضروری تھا کیونکہ وہ منہاج القرآن کی تنظیمی اور افرادی قوت جوش و جذبے اور نظم سے بہت اچھی طرح آگاہ تھے۔ اس حکومت مخالف تحریک میں منہاج القران کا کردار کلیدی ہو سکتا تھا۔ ایک دفعہ منہاج القران مینج ہو جاتی تو تحریک انصاف کو ڈیل کرنا بہت آسان ہوتا۔ اسلئے منہاج القرآن کے بارے میں اسے کالعدم قرار دے کر اسکی قیادت اثاثوں اور سرگرمیوں پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا*
*جون 17 اور سال 2014 کو پچھلی رات سے بیرئیر ہٹانے کے نام پر ہونے والے آپریشن کے اختتام پر علی صبح میڈیا بریفنگ ہونا تھی جس میں میڈیا کے سامنے منہاج القرآن سے غیر قانونی اسلحے کے انبار اور پاکستان اور اسلام مخالف پرنٹڈ مواد پیش کیا جانا تھا۔ یہ سب کچھ جن گاڑیوں پر لایا گیا تھا وہ فیصل ٹاؤن تھانے کے پاس موجود تھیں*
*بھلا ہو جناب محسن نقوی کے چینل کا جن سے آپریشن سے پہلے ہی براہ راست منہاج القرآن کو خبر ہو گئی کہ آپ پر زبردست چڑھائی کی جانیوالی ہے۔ یہ بھی رپورٹنگ کا کمال معیار رہا کہ پولیس سے بھی پہلے واحد اس مذکورہ چینل کی گاڑی منہاج القرآن سے کچھ دور موجود تھی*
*یہ ایک بہت بڑا آپریشن تھا جس میں کئی جگہوں سے پولیس اکٹھی کی گئی تھی۔ بہر حال اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ حکومت کی توقع سے برعکس منہاج القران کے کارکنان کی ایک مخصوص تعداد اکٹھی ہو گئی اور انکی طرف سے بہت زیادہ مزاحمت پیش کی گئی۔ حکومت جو خیال کر رہی تھی کہ پولیس کی کثیر نفری کی بنیاد پر رات کے پچھلے پہر سوئے ہوئے لوگوں اور مرکز پر آسانی سے حاوی ہو کر قبضہ کر لیا جائے گا وہ غلط ثابت ہوا اور انہیں صبح تک مطلوبہ ہدف حاصل نہ ہو سکا۔ خبر عام ہو گئی اور سارا میڈیا حکومتی اہداف کے حصول سے پہلے ہی موقع پر آ موجود ہوا*
*دوپہر سے پہلے تک یہ کھنچا تانی چلتی رہی پھر ایک وقفے کے بعد اچانک پولیس کی تروتازہ وردیوں میں ملبوس سنائپرز میدان میں اتارے گئے جنہوں نے کچھ ہی دیر میں کشت و خون کا وہ بازار گرم کیا جو پوری دنیا نے دیکھا۔ ۱۴ بے گناہ معصوم شہری شہید اور سو سے زائد شدید زخمی ہوئے۔ ان شہداء اور زخمیوں سمیت پچھلی رات سے مزاحمت کرنیوالے سب مر د زن اس قوم کے محسنین ہیں جنہوں نے اپنی قربانیوں سے ایک مکروہ فتنے کو وقوع پذیر ہونے سے روکا جو شاید ملک و ملت کیلئے ناقابل تلافی نقصان کا سبب ہوتا*
*ن لیگ، ،بیورو کریسی اور صحافت کے تمام آفیشل ان آفیشل ذرائع ایک بات پر متفق ہیں کہ ن لیگ سب کچھ کرنا چاہتی تھی مگر قتل عام نہ انکا ہدف تھا نہ ان کا فیصلہ*
*ذرائع جو بھی کہیں اس آپریشن کی پلاننگ کیونکہ ن لیگ کی حکومت نے کی تھی اسلئے اس کے نتائج کی براہ راست ذمہ داری بھی ان پر عائد ہوتی ہے*
*اگر قتل عام کے براہ راست احکامات ن لیگ کی قیادت نے نہیں بھی دئیے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جناب شہباز شریف ماڈل ٹاؤن میں ہی ہوتے ہوئے یہ سب کچھ خاموشی سے کیوں دیکھتے رہے ؟ انہوں نے اتنے بڑے قومی سانحے کو کیوں ہونے دیا؟ انہوں نے پولیس کو واپس کیوں نہیں بلوایا؟ پنجاب اسمبلی میں قتل عام سے پہلے آپریشن کے خاتمے کیلئے اپوزیشن جماعتیں اپنے تحفظات پیش کر رہی تھیں۔ حکومت نے ان کی بھی کسی بات کو قابل توجہ کیوں نہیں سمجھا؟*
*اگر آپ اس میں ملوث نہیں تھے تو آپ صوبے کی انتظامیہ کے سربراہ تھے کیا آپ نے آج تک اس قتل عام کے ذمہ داران کا تعین کر کے ان کے خلاف کوئی کارروائی کی؟ نہیں کیونکہ یہ سب آپ کی سپورٹ میں ہو رہا تھا۔ آپ اندر سے خوش تھے اور اس سب قتل عام پر آپکی زبردست عملی حمایت موجود رہی*
*اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ یہ بے بنیاد ماڈل ٹاون آپریشن اس وقت کی ن لیگ کی پنجاب حکومت کا اقدام تھا ، اس آپریشن کی نگرانی براہ راست جناب رانا ثنا کررہےتھے۔ اس کی مکمل تیاری بھی جناب رانا ثنا کی سربراہی میں 16 جون کو منعقدہ میٹنگ میں ہوئی تھی۔ ن لیگ اس الزام سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی بلکہ ن لیگ اگر اپنے اصلی منصوبے میں کامیاب ہو جاتی تو وہ جو ہوا اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین صورتحال پیدا ہو جاتی*
*ن لیگ ایک ایسا فتنہ انگیز اقدام کرنے جا رہی تھی جو اسلام اور پاکستان دونوں کیلئے بہت خوفناک ہو سکتا تھا۔ قرآن کا حکم ہے کہ فتنہ قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔ اسلئے ن لیگ کی قیادت پر کم ازکم اس قتل عام جو انکی حکومت اور انتظامیہ کے براہ راست اقدامات کے نتیجہ میں ہوا اسکی ذمہ داری تو عائد کی ہی جانی چاہئے۔ لیکن اگر اس میں کوئی اور عامل بھی ملوث ہے تو کیا اس میں صرف ن لیگ کو ہی سزا ملنی چاہئے یا انصاف کیلئے اس سے آگے بھی کچھ ہونا چاہئے*
*سوال پیدا ہوتا ہے کہ گولی چلانے کا حکم کسی نادیدہ قوت نے دیا۔ ماڈل ٹاؤن کے سانحے میں لاشیں کس کے حکم سے گرائی گئیں*
*حقائق بولتے ہیں کہ ماڈل ٹاؤن قتل عام میں وہ کچھ اور لوگ بھی ملوث ہیں*
*وہ لوگ جو شہدائے ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے رستے میں حائل ہیں۔جنہوں نے ماڈل ٹاؤن آپریشن کے کرداروں کو نہ صرف بچایا بلکہ اس خدمت پر انعامات اور ترقیوں سے نوازا ہے*
*جنہیں حکومت مخالف تحریک میں ردعمل اور شدت پیدا کرنے کی ضرورت تھی*
*جنہیں ایسی بنیاد چاہیے تھی جسکے سبب اپنے مطلوبہ افراد کو موم کی ناک کی طرح جب اور جس طرف چاہیں موڑا جا سکے*
*نظام انصاف جنکے گھر کی لونڈی ہے، عدالتیں جج اور فیصلے جن کے اشارہ ابرو کے مرہون منت ہیں۔ جو اس ملک کے اداروں کی بربادی، کرپٹ رجیم ، کرپشن اور ناانصافی کے ذمے دار ہیں*
*جو عام محنت کش پاکستانی کی زندگی میں محرومیوں دکھوں اور تکلیفوں کے ذمے دار ہیں جو اس استحصالی نظام کے مالک اور ذمے دار ہیں*
*رہی یہ بات کہ کیا یہ ہمیں پہلے نہیں پتہ تھا؟ شاید پہلے ایک دو سالوں میں نہیں پتہ تھا۔ جب پتہ چل گیا تو ہمیں اس بات کا بھی پتہ چل گیا کہ اس معاملے میں ہماری کوشش اور مرضی سے کچھ نہیں ہونا ۔ جو ہونا ہے انہیں کی مرضی اور انہی کی متعین کردہ سمت میں ہونا ہے۔ اسی لئے تو ہم نے عملی احتجاج پر توانائیاں ضائع کرنے کی بجائے یہ نقطہ نظر اختیار کر لیا کہ “ہم ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کا انصاف صرف عدالت کے ذریعے لیں گے اور اگر ہمیں اس دنیا میں انصاف نہ ملا تو قیامت کے دن ہم اس کا انصاف لے کر رہیں گے”۔ اور ہم اپنی عدالتوں کو بھی جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ قیامت تو ہے ہی انصاف قائم ہونے کیلئے*
*رہی بات یہ کہ عمران خان نے اپنے دور میں متاثرین ماڈل ٹاؤن کو انصاف نہیں دیا ۔ تو سادہ سی بات ہے جب تک عمران اقتدار میں تھا وہ نظام کا مہرہ تھا یہ کیسے ممکن ہے کہ نظام کے مالک اپنے مہرے کو اتنی کھلی چھوٹ دے دیں کہ وہ من مرضیاں کرنے لگے۔ اسلئے عمران خان چاہ کر بھی ایسا کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ بیچارہ تو اپنی حکومت میں اپنے اوپر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر تک درج نہ کروا سکا کسی اور کیلئے کیا کرسکتا تھا۔ جب تک وہ نظام کا مہرہ تھا اقتدار میں تھا جب نظام کیلئے چیلنج بننا شروع ہوا باہر پھینک دیا گیا*
*ایک اوسط سے کم درجے کا ذہن بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ سیاسی بساط پر عمران خان کی سب سے بڑی حریف جماعت ن لیگ تھی ۔ اگر اس کے پاس اختیار ہوتا تو اپنے مخالفین کو کچلنے کیلئے ماڈل ٹاؤن کیس سے بڑا کوئی موقع اور ہتھیار نہیں ہو سکتا تھا۔اپنے بد ترین سیاسی مخالفین کو بچانے کا عمران خان کو کیا فائدہ تھا؟
اگر ہم بہت چھوٹے دائروں میں دیکھنے کے عادی ہیں تو تمام دستیاب حقائق سے بھی ہم کبھی مکمل اور صحیح تصویر نہیں دیکھ سکتے*
*کسی کو یہ شک بھی نہیں ہونا چاہئے کہ زبردست تنظیمی اور افرادی قوت کے ہوتے ہوئے بھی ہم نے یہ خاموشی محترمہ مریم ، جناب رانا ثنا جناب نوز شریف یا جناب شہباز شریف کے احترام میں اختیار کر رکھی ہے*
*بات نظام پر ہی ختم ہوتی ہے۔ جب تک یہ نظام نہیں بدلتا اس نظام میں کسی انصاف کسی خیر کی کوئی ضمانت نہیں۔ کسی مرد قلندر نے جو اس نظام کو اندر باہر سے خوب جانتا ہے کہہ رکھا ہے کہ “اس نظام میں سو الیکشنز ہو جائیں تو کوئی تبدیلی نہیں آئے گی”۔ کیونکہ نظام کے مالک ایسا ہونے ہی نہیں دیں گے۔ اس کیلئے کروڑوں پاکستانیوں کو پر امن جمہوری طریقے سے نظام کے عاملین کے سامنے اپنی مؤثر اور ناقابل تردید اجتماعی رائے کا اظہار کرنا ہوگا۔ ان سے کہنا ہوگا کہ ہم سب ایک ہیں آپ بھی ہم ہی ہیں اور ہم بھی آپ ہی ہیں۔ آئیں مل کر اپنے اجتماعی شعور کا احترام کرتے ہیں۔ آئیں دنیا کے سامنے ایک ایسے نظام کی بنیاد رکھتے ہیں جو امن اور ترقی کی اوج ثریا کا ضامن ہو*
*ہو سکتا ہے نظام کے مالک اپنے تئیں دیانتداری سے سمجھتے ہوں کہ ہماری قوم ابھی اس قابل نہیں ہے کہ اجتماعی امور اور چیلنجز کو بہتر انداز سے لے کر چل سکے۔ ہمیں انہیں یہ سمجھانا ہے کہ یہ ایک ارتقائی عمل ہے۔ پوری جدید دنیا اسکی عملی مثال ہے کہ اسکا آغاز ہوگا تو بتدریج بہتری آئیگی۔ آپ اگر بچے کو اس وجہ سے چلنے کیلئے زمین پر نہیں اتاریں گے کہ وہ گر جائیگا تو یقین رکھیں وہ کبھی چل ہی نہیں پائے گا*
*ہمیں ٹکراؤ اور تصادم کی بجائے اپنی محب وطن مقتدر قوتوں کے سامنے اجتماعی قومی مطالبے کو پر امن طور سے اور بھر پور انداز سے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام پاکستان کو کسی بھی ذاتی اور گروہی مفاد اور تفریق سے بالا تر ہوکر، ہر طرح کی جماعتی اور شخصی تقیسم سے اوپر اٹھ کر پوری دیانتداری استعداد اور موثریت سے نظام کی آزادی کی جدوجہد کرنی ہوگی۔ اگر ہم اپنی آخرت اور دنیا دونوں سنوارنا چاہتے ہیں، ہم اپنے بچوں کو انصاف تحفظ اور خوشحالی والا بہتر مستقبل دینا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر طرح کے تعصبات سے بالا تر ہو کر حق کیلئے ایستادہ ہونا ہوگا*