Global Info Entertainment

Global Info  Entertainment Graphics designing,Vedios, Digital Creator,Entertainment,Learn and Earn ,Bussiness ,Consultancy, Print Media Online earnings.Play games.🎮🤑

14/06/2025

*(سانحۂ ماڈل ٹاؤن پس پردہ محرکات و مضمرات)*

*جون 2014 میں ہونیوالا حکومتی پلان بہت خطرناک تھا۔ اگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو جو ہوا اصلی منصوبہ اس سے کہیں ہولناک تھا۔ طاقت اور اقتدار عمومی طور پر ایک سفاک کھیل ہے۔ اسکے آگے اخلاق اصول انسانیت سبھی کو پامال ہونا پڑتا ہے*
*مبینہ طور پر ن لیگ کی مرکزی حکومت نے فیصلہ کیا کہ منہاج القرآن اور ڈاکٹر طاہرالقادری پر پابندی لگا کر ملک بھر میں تمام اثاثہ جات ضبط کر لئے جائیں۔ بطور کالعدم جماعت ملک بھر سے اسکے ہزاروں متحرک عہدیداروں اور کارکنوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا جائے۔ اس طرح منہاج القرآن اور تحریک انصاف کے مشترکہ متوقع حکومت مخالف مارچ کو ناکام بنایا جائے۔ آپ ایک ایسی تنظیم جو دنیا بھر میں اسلام کی دعوت کے فروغ اور جدید دنیا کے سامنے اسلام کو ایک جدید اور آفاقی دین کے طور پر پیش کررہی ہے اس پر کسی بہت بڑے جواز کے بغیر ایسا نہیں کر سکتے، سو اس کیلئے ایک خطرناک اور انتہائی منصوبہ تشکیل دیا گیا۔ جسکے نفاذ کی ذمہ داری ن لیگ کی پنجاب حکومت کے سپرد کی گئی*

*ہوا یہ کہ جب ن لیگ کی قیادت کو اپنے خاص ذرائع سے منہاج القرآن اور تحریک انصاف کی اس انڈرسٹینڈنگ کی خبر ہوئی کہ دونوں جماعتیں حکومت گرانے کیلئے ایک بڑی تحریک چلانے جا رہی ہیں تو انہوں نے دونوں جماعتوں کو علیحدہ علیحدہ اسٹریٹجی سے deal کرنے کا فیصلہ کیا۔ ن لیگ کیلئے منہاج القرآن کو مینج کرنا زیادہ ضروری تھا کیونکہ وہ منہاج القرآن کی تنظیمی اور افرادی قوت جوش و جذبے اور نظم سے بہت اچھی طرح آگاہ تھے۔ اس حکومت مخالف تحریک میں منہاج القران کا کردار کلیدی ہو سکتا تھا۔ ایک دفعہ منہاج القران مینج ہو جاتی تو تحریک انصاف کو ڈیل کرنا بہت آسان ہوتا۔ اسلئے منہاج القرآن کے بارے میں اسے کالعدم قرار دے کر اسکی قیادت اثاثوں اور سرگرمیوں پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا*

*جون 17 اور سال 2014 کو پچھلی رات سے بیرئیر ہٹانے کے نام پر ہونے والے آپریشن کے اختتام پر علی صبح میڈیا بریفنگ ہونا تھی جس میں میڈیا کے سامنے منہاج القرآن سے غیر قانونی اسلحے کے انبار اور پاکستان اور اسلام مخالف پرنٹڈ مواد پیش کیا جانا تھا۔ یہ سب کچھ جن گاڑیوں پر لایا گیا تھا وہ فیصل ٹاؤن تھانے کے پاس موجود تھیں*

*بھلا ہو جناب محسن نقوی کے چینل کا جن سے آپریشن سے پہلے ہی براہ راست منہاج القرآن کو خبر ہو گئی کہ آپ پر زبردست چڑھائی کی جانیوالی ہے۔ یہ بھی رپورٹنگ کا کمال معیار رہا کہ پولیس سے بھی پہلے واحد اس مذکورہ چینل کی گاڑی منہاج القرآن سے کچھ دور موجود تھی*

*یہ ایک بہت بڑا آپریشن تھا جس میں کئی جگہوں سے پولیس اکٹھی کی گئی تھی۔ بہر حال اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ حکومت کی توقع سے برعکس منہاج القران کے کارکنان کی ایک مخصوص تعداد اکٹھی ہو گئی اور انکی طرف سے بہت زیادہ مزاحمت پیش کی گئی۔ حکومت جو خیال کر رہی تھی کہ پولیس کی کثیر نفری کی بنیاد پر رات کے پچھلے پہر سوئے ہوئے لوگوں اور مرکز پر آسانی سے حاوی ہو کر قبضہ کر لیا جائے گا وہ غلط ثابت ہوا اور انہیں صبح تک مطلوبہ ہدف حاصل نہ ہو سکا۔ خبر عام ہو گئی اور سارا میڈیا حکومتی اہداف کے حصول سے پہلے ہی موقع پر آ موجود ہوا*

*دوپہر سے پہلے تک یہ کھنچا تانی چلتی رہی پھر ایک وقفے کے بعد اچانک پولیس کی تروتازہ وردیوں میں ملبوس سنائپرز میدان میں اتارے گئے جنہوں نے کچھ ہی دیر میں کشت و خون کا وہ بازار گرم کیا جو پوری دنیا نے دیکھا۔ ۱۴ بے گناہ معصوم شہری شہید اور سو سے زائد شدید زخمی ہوئے۔ ان شہداء اور زخمیوں سمیت پچھلی رات سے مزاحمت کرنیوالے سب مر د زن اس قوم کے محسنین ہیں جنہوں نے اپنی قربانیوں سے ایک مکروہ فتنے کو وقوع پذیر ہونے سے روکا جو شاید ملک و ملت کیلئے ناقابل تلافی نقصان کا سبب ہوتا*

*ن لیگ، ،بیورو کریسی اور صحافت کے تمام آفیشل ان آفیشل ذرائع ایک بات پر متفق ہیں کہ ن لیگ سب کچھ کرنا چاہتی تھی مگر قتل عام نہ انکا ہدف تھا نہ ان کا فیصلہ*

*ذرائع جو بھی کہیں اس آپریشن کی پلاننگ کیونکہ ن لیگ کی حکومت نے کی تھی اسلئے اس کے نتائج کی براہ راست ذمہ داری بھی ان پر عائد ہوتی ہے*
*اگر قتل عام کے براہ راست احکامات ن لیگ کی قیادت نے نہیں بھی دئیے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جناب شہباز شریف ماڈل ٹاؤن میں ہی ہوتے ہوئے یہ سب کچھ خاموشی سے کیوں دیکھتے رہے ؟ انہوں نے اتنے بڑے قومی سانحے کو کیوں ہونے دیا؟ انہوں نے پولیس کو واپس کیوں نہیں بلوایا؟ پنجاب اسمبلی میں قتل عام سے پہلے آپریشن کے خاتمے کیلئے اپوزیشن جماعتیں اپنے تحفظات پیش کر رہی تھیں۔ حکومت نے ان کی بھی کسی بات کو قابل توجہ کیوں نہیں سمجھا؟*

*اگر آپ اس میں ملوث نہیں تھے تو آپ صوبے کی انتظامیہ کے سربراہ تھے کیا آپ نے آج تک اس قتل عام کے ذمہ داران کا تعین کر کے ان کے خلاف کوئی کارروائی کی؟ نہیں کیونکہ یہ سب آپ کی سپورٹ میں ہو رہا تھا۔ آپ اندر سے خوش تھے اور اس سب قتل عام پر آپکی زبردست عملی حمایت موجود رہی*
*اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ یہ بے بنیاد ماڈل ٹاون آپریشن اس وقت کی ن لیگ کی پنجاب حکومت کا اقدام تھا ، اس آپریشن کی نگرانی براہ راست جناب رانا ثنا کررہےتھے۔ اس کی مکمل تیاری بھی جناب رانا ثنا کی سربراہی میں 16 جون کو منعقدہ میٹنگ میں ہوئی تھی۔ ن لیگ اس الزام سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی بلکہ ن لیگ اگر اپنے اصلی منصوبے میں کامیاب ہو جاتی تو وہ جو ہوا اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین صورتحال پیدا ہو جاتی*
*ن لیگ ایک ایسا فتنہ انگیز اقدام کرنے جا رہی تھی جو اسلام اور پاکستان دونوں کیلئے بہت خوفناک ہو سکتا تھا۔ قرآن کا حکم ہے کہ فتنہ قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔ اسلئے ن لیگ کی قیادت پر کم ازکم اس قتل عام جو انکی حکومت اور انتظامیہ کے براہ راست اقدامات کے نتیجہ میں ہوا اسکی ذمہ داری تو عائد کی ہی جانی چاہئے۔ لیکن اگر اس میں کوئی اور عامل بھی ملوث ہے تو کیا اس میں صرف ن لیگ کو ہی سزا ملنی چاہئے یا انصاف کیلئے اس سے آگے بھی کچھ ہونا چاہئے*

*سوال پیدا ہوتا ہے کہ گولی چلانے کا حکم کسی نادیدہ قوت نے دیا۔ ماڈل ٹاؤن کے سانحے میں لاشیں کس کے حکم سے گرائی گئیں*

*حقائق بولتے ہیں کہ ماڈل ٹاؤن قتل عام میں وہ کچھ اور لوگ بھی ملوث ہیں*
*وہ لوگ جو شہدائے ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے رستے میں حائل ہیں۔جنہوں نے ماڈل ٹاؤن آپریشن کے کرداروں کو نہ صرف بچایا بلکہ اس خدمت پر انعامات اور ترقیوں سے نوازا ہے*
*جنہیں حکومت مخالف تحریک میں ردعمل اور شدت پیدا کرنے کی ضرورت تھی*
*جنہیں ایسی بنیاد چاہیے تھی جسکے سبب اپنے مطلوبہ افراد کو موم کی ناک کی طرح جب اور جس طرف چاہیں موڑا جا سکے*
*نظام انصاف جنکے گھر کی لونڈی ہے، عدالتیں جج اور فیصلے جن کے اشارہ ابرو کے مرہون منت ہیں۔ جو اس ملک کے اداروں کی بربادی، کرپٹ رجیم ، کرپشن اور ناانصافی کے ذمے دار ہیں*
*جو عام محنت کش پاکستانی کی زندگی میں محرومیوں دکھوں اور تکلیفوں کے ذمے دار ہیں جو اس استحصالی نظام کے مالک اور ذمے دار ہیں*

*رہی یہ بات کہ کیا یہ ہمیں پہلے نہیں پتہ تھا؟ شاید پہلے ایک دو سالوں میں نہیں پتہ تھا۔ جب پتہ چل گیا تو ہمیں اس بات کا بھی پتہ چل گیا کہ اس معاملے میں ہماری کوشش اور مرضی سے کچھ نہیں ہونا ۔ جو ہونا ہے انہیں کی مرضی اور انہی کی متعین کردہ سمت میں ہونا ہے۔ اسی لئے تو ہم نے عملی احتجاج پر توانائیاں ضائع کرنے کی بجائے یہ نقطہ نظر اختیار کر لیا کہ “ہم ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کا انصاف صرف عدالت کے ذریعے لیں گے اور اگر ہمیں اس دنیا میں انصاف نہ ملا تو قیامت کے دن ہم اس کا انصاف لے کر رہیں گے”۔ اور ہم اپنی عدالتوں کو بھی جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ قیامت تو ہے ہی انصاف قائم ہونے کیلئے*

*رہی بات یہ کہ عمران خان نے اپنے دور میں متاثرین ماڈل ٹاؤن کو انصاف نہیں دیا ۔ تو سادہ سی بات ہے جب تک عمران اقتدار میں تھا وہ نظام کا مہرہ تھا یہ کیسے ممکن ہے کہ نظام کے مالک اپنے مہرے کو اتنی کھلی چھوٹ دے دیں کہ وہ من مرضیاں کرنے لگے۔ اسلئے عمران خان چاہ کر بھی ایسا کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ بیچارہ تو اپنی حکومت میں اپنے اوپر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر تک درج نہ کروا سکا کسی اور کیلئے کیا کرسکتا تھا۔ جب تک وہ نظام کا مہرہ تھا اقتدار میں تھا جب نظام کیلئے چیلنج بننا شروع ہوا باہر پھینک دیا گیا*

*ایک اوسط سے کم درجے کا ذہن بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ سیاسی بساط پر عمران خان کی سب سے بڑی حریف جماعت ن لیگ تھی ۔ اگر اس کے پاس اختیار ہوتا تو اپنے مخالفین کو کچلنے کیلئے ماڈل ٹاؤن کیس سے بڑا کوئی موقع اور ہتھیار نہیں ہو سکتا تھا۔اپنے بد ترین سیاسی مخالفین کو بچانے کا عمران خان کو کیا فائدہ تھا؟
اگر ہم بہت چھوٹے دائروں میں دیکھنے کے عادی ہیں تو تمام دستیاب حقائق سے بھی ہم کبھی مکمل اور صحیح تصویر نہیں دیکھ سکتے*

*کسی کو یہ شک بھی نہیں ہونا چاہئے کہ زبردست تنظیمی اور افرادی قوت کے ہوتے ہوئے بھی ہم نے یہ خاموشی محترمہ مریم ، جناب رانا ثنا جناب نوز شریف یا جناب شہباز شریف کے احترام میں اختیار کر رکھی ہے*

*بات نظام پر ہی ختم ہوتی ہے۔ جب تک یہ نظام نہیں بدلتا اس نظام میں کسی انصاف کسی خیر کی کوئی ضمانت نہیں۔ کسی مرد قلندر نے جو اس نظام کو اندر باہر سے خوب جانتا ہے کہہ رکھا ہے کہ “اس نظام میں سو الیکشنز ہو جائیں تو کوئی تبدیلی نہیں آئے گی”۔ کیونکہ نظام کے مالک ایسا ہونے ہی نہیں دیں گے۔ اس کیلئے کروڑوں پاکستانیوں کو پر امن جمہوری طریقے سے نظام کے عاملین کے سامنے اپنی مؤثر اور ناقابل تردید اجتماعی رائے کا اظہار کرنا ہوگا۔ ان سے کہنا ہوگا کہ ہم سب ایک ہیں آپ بھی ہم ہی ہیں اور ہم بھی آپ ہی ہیں۔ آئیں مل کر اپنے اجتماعی شعور کا احترام کرتے ہیں۔ آئیں دنیا کے سامنے ایک ایسے نظام کی بنیاد رکھتے ہیں جو امن اور ترقی کی اوج ثریا کا ضامن ہو*

*ہو سکتا ہے نظام کے مالک اپنے تئیں دیانتداری سے سمجھتے ہوں کہ ہماری قوم ابھی اس قابل نہیں ہے کہ اجتماعی امور اور چیلنجز کو بہتر انداز سے لے کر چل سکے۔ ہمیں انہیں یہ سمجھانا ہے کہ یہ ایک ارتقائی عمل ہے۔ پوری جدید دنیا اسکی عملی مثال ہے کہ اسکا آغاز ہوگا تو بتدریج بہتری آئیگی۔ آپ اگر بچے کو اس وجہ سے چلنے کیلئے زمین پر نہیں اتاریں گے کہ وہ گر جائیگا تو یقین رکھیں وہ کبھی چل ہی نہیں پائے گا*

*ہمیں ٹکراؤ اور تصادم کی بجائے اپنی محب وطن مقتدر قوتوں کے سامنے اجتماعی قومی مطالبے کو پر امن طور سے اور بھر پور انداز سے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام پاکستان کو کسی بھی ذاتی اور گروہی مفاد اور تفریق سے بالا تر ہوکر، ہر طرح کی جماعتی اور شخصی تقیسم سے اوپر اٹھ کر پوری دیانتداری استعداد اور موثریت سے نظام کی آزادی کی جدوجہد کرنی ہوگی۔ اگر ہم اپنی آخرت اور دنیا دونوں سنوارنا چاہتے ہیں، ہم اپنے بچوں کو انصاف تحفظ اور خوشحالی والا بہتر مستقبل دینا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر طرح کے تعصبات سے بالا تر ہو کر حق کیلئے ایستادہ ہونا ہوگا*

14/06/2025

17 جون
14 خون

سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور

🟥 شہباز شریف کا کردار — سانحہ ماڈل ٹاؤن میں
1️⃣ اعلیٰ ترین صوبائی اختیار

سانحہ کے دن پنجاب میں حکومت شہباز شریف کی تھی

پولیس، انتظامیہ، رینجرز سب ان کے احکامات کے پابند تھے

آپریشن سے پہلے کی میٹنگز، احکامات اور تبادلے — سب انہی کی حکومت کے ماتحت ہوئے
2️⃣ "آپریشن رکوانے" کا متنازع دعویٰ

شہباز شریف نے کہا تھا:

> "میں نے جیسے ہی سنا، فوری طور پر فائرنگ رکوانے کا حکم دیا"
مگر فائرنگ سوا دو گھنٹے جاری رہی!
نہ کوئی پولیس واپس ہوئی، نہ ہی کوئی SHO معطل ہوا
> سوال یہ ہے:
❓ اگر واقعی حکم دیا تھا، تو فائرنگ بند کیوں نہ ہوئی؟
❓ کیا پولیس نے وزیرِاعلیٰ کا حکم ماننے سے انکار کیا؟ یا حکم تھا ہی نہیں؟
3️⃣ پلاننگ کا الزام

ڈاکٹر طاہر القادری کی واپسی سے پہلے کنٹینرز لگانا، بیرئیر ہٹانا اور تحریک منہاج القرآن پر کریک ڈاؤن —
یہ سب پہلے سے پلان کیا گیا تھا

چیف سیکریٹری، ہوم سیکریٹری، اور پولیس افسران — سب نے وزیرِاعلیٰ سے مشاورت کی
4️⃣ بعد ازاں فریقِ تحقیقاتی کارروائی میں رکاوٹ

سانحہ کے بعد بھی کسی پولیس افسر کو سزا نہیں ملی

FIR تک درج نہ ہونے دی گئی

متاثرین کو دھمکیاں، رکاوٹیں، اور انصاف سے محرومی ملی

شہباز شریف نے خود بنائی گئی JIT پر اعتماد کیا — جو صرف کلین چٹ دینے کے لیے بنائی گئی تھی

5️⃣ سیاسی فائدہ، اخلاقی دیوالیہ پن

شہباز شریف نے "ماڈل آف گڈ گورننس" کا دعویٰ کیا

مگر جب عوام کا خون بہا، وہ صرف "پریس کانفرنسوں میں دکھ" کا اظہار کرتے رہے

انصاف کی بجائے پردہ پوشی، رکاوٹیں اور تاخیری حربے استعمال کیے
📣 قوم کا سوال:

> اگر وزیرِاعلیٰ بے گناہ تھے تو قاتل کون؟
اگر قاتل پنجاب پولیس تھی تو جواب دہی کس کی؟
اگر فائرنگ شہباز شریف کے حکم کے بغیر ہو رہی تھی تو
کیا پنجاب میں "ریاست کے اندر ریاست" چل رہی تھی؟
⚖️ خلاصہ:

> شہباز شریف کا کردار براہِ راست انتظامی حکم دینے یا روکنے کا تھا۔
مگر جو کچھ ہوا، وہ یا تو ان کی ناکامی تھی، یا منصوبہ بندی۔
دونوں صورتوں میں وہ بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔


14/06/2025

💚🤍🖤♥️

*یہ جو دنیا تم کو*
"ناممکن"
*سے ڈراتی ہے!*
*تمہارا اللہ اکیلا ہی اس*
*"دنیا پر بھاری ہے"*

*اللّٰـــہ جی۔۔۔♥️*
ہمارے اٹھے ہوئے ہاتھوں کی لاج رکھ لیں🤲🏻
آمیـــــــن♥️🖤🤍💚

14/06/2025

Pak 💕 Iran
Zindabad...
Pakistan kia dekhta hi Rahe ga?

01/06/2025

Diploma in Quran Studies in Lalian 💖

*خاموشی بھی کبھی انقلاب ہوتی ہے: تاریخ میں "خاموش مزاحمت" کی حکمت (امام حسین علیہ السّلام سے ڈاکٹر طاہر القادری تک):**دن...
28/05/2025

*خاموشی بھی کبھی انقلاب ہوتی ہے: تاریخ میں "خاموش مزاحمت" کی حکمت (امام حسین علیہ السّلام سے ڈاکٹر طاہر القادری تک):*

*دنیا کی انقلابی تاریخ میں صرف وہی کردار نہیں جو شمشیر بکف میدانِ کارزار میں نمودار ہوں، بلکہ وہ بھی ہیں جنہوں نے خاموشی کے پردے میں ایسا فکری، روحانی یا حکمت عملی کا بیج بویا جو آنے والی نسلوں کو بیدار کر گیا۔ ایسی "خاموش مزاحمت" اکثر بظاہر پسپائی لگتی ہے، مگر درحقیقت یہ ظالمانہ نظام کے خلاف ایک گہری اور دور رس منصوبہ بندی کا حصہ ہوتی ہے۔ ذیل میں تاریخ اور عصر حاضر کی چند مثالوں سے واضح کیا جاتا ہے کہ خاموشی کس طرح خود ایک "انقلاب" بن جاتی ہے۔ کیونکہ تاریخ ایسی شخصیات کی مثالوں سے بھری پڑی ہے جو کسی بڑے مقصد کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے وقتی خاموشی یا انقطاع اختیار کرتے ہیں، اور پھر دوبارہ پوری قوت کے ساتھ ابھرتے ہیں۔ درج ذیل مسلم و غیر مسلم تاریخی شخصیات اس معیار پر پوری اترتی ہیں:*

*1- امام حسین علیہ السلام (اسلامی تاریخ)*

*فعالیت کا مرحلہ: حضرت علی کے ساتھ جمل و صفین میں شرکت، امام حسن کے ساتھ سیاسی جدوجہد میں شانہ بشانہ۔ حضرت معاویہ سے صلح کی تجویز کی مخالفت لیکن پھر امام حسن کی ہدایت پر دلی مخالفت کے باوجود ظاہری خاموشی*

*خاموشی کا دور: حضرت معاویہ کے دور میں تقریباً 10 سال تک خاموش رہے، جب تک یزید کی خلافت نہ آئی*

*وجۂ خاموشی: معاہدہ امام حسنؓ–معاویہؓ، اور اس وقت سیاسی حکمت و مصلحت کا تقاضا*

*دوبارہ سرگرمی: یزید کے ظالمانہ نظام کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا، جو کربلا میں عظیم قربانی پر منتج ہوا*

*2- امام زین العابدین علیہ السلام کی خاموشی*

*فعالیت: کربلا کے سفر اور تحریک میں ہر لمحہ اپنے والدِ محترم کے شانہ بشانہ رہے ۔ آپ کربلا کے واحد بالغ مرد قیدی تھے جو زندہ بچے*

*خاموشی: واقعہ کربلا کے بعد جب ہر طرف خونِ حسین کے انتقام پر سیاست ہو رہی تھی، توابین، عبداللہ بن زبیر، مختار ثقفی سب خونِ حسین کے انتقام کی بنیاد پر سیاست کر رہے تھے، سیاسی و عسکری میدانوں میں ہر طرف ایک ہی نعرہ گونجتا تھا "یا لثارات الحسین" (اے خون حسین کا انتقام لینے والو ۔۔ اٹھو)، اس پرجوش ترین دور میں امام حسین کے اصل وارث ہو کر بھی آپ نے حکمت آمیز خاموشی اختیار فرمائی۔ کیونکہ آپ کی نگاہِ بصیرت دیکھ رہی تھی کہ وقتی جوش کے باوجود ابھی انقلاب کی دور دور تک کوئی امید نہیں، میدان سیاست میں شور شرابا کرنے والے سب بالآخر ناکام ہو جائیں گے، عوام کا وقتی جوش و خروش ٹھنڈا پڑ جائے گا اور صرف جانیں ضائع ہوں گی نتیجہ خون خرابے کے سوا کچھ اور نہ نکلے گا۔ لہذا اپنے والد امام حسینؑ اور دیگر اعزہ کی شہادت کے بعد بھی آپ نے براہ راست سیاسی قیادت نہیں سنبھالی، آپ کو سیاسی قیادت کی بار بار آفر ہوتی رہی مگر آپ اسے مسلسل ٹھکراتے رہے۔۔امام زین العابدین علیہ السلام کی آنکھوں کے سامنے واقعہ حرہ ہوا، مدینہ شریف پر حملہ ہوا، ہزاروں لوگ قتل ہوئے، عورتوں کی عصمت دری ہوتی رہی، مدینہ کی ایک ہزار عفت مآب خواتین نے حرام کے بچے پیدا کیے۔۔ لیکن آپ خاموش رہے، نہ کوئی بیان نہ کوئی جدوجہد، الٹا آپ کے خاندان کو یزیدی فوج تحفظ فراہم کرتی رہی۔۔ آپ کے سامنے خونِ حسین کا انتقام لینے کیلیے کوفہ سے ہزاروں کی تعداد میں توابین اٹھے، وہ کربلا حضرت امام حسین کے مزار پر حاضر ہو کر روتے رہے اور پھر میدان جنگ میں دیوانہ وار اموی افواج سے ٹکرا گئے، ہزاروں شہید ہو گئے مگر امام خاموش رہے، نہ کوئی بیان، نہ احتجاج، نہ حکومت کی مخالفت ۔۔۔ 94 ھجری تک آپ زندہ رہے اور آپ کی آنکھوں کے سامنے ظلم پہ ظلم ہوتے رہے مگر آپ اپنے باطنی اصلاح کے طریقہ پر ہی کاربند رہے، کہ جب سیاسی اصلاح ناممکن ہو جائے، لوگ نعروں کے عادی ہو جائیں، علمی و فکری اور تقوی پر مشتمل جدوجہد کو نظر انداز کر دیں تو اس وقت خاموشی ہی طریقِ امام ہے*

*خاموشی کی وجوہات:*

*1. خوفناک ریاستی جبر: یزید کے دور میں علویوں کا قتل عام، قید، اور مسلسل نگرانی*

*2. قیادت کی منتقلی: امام حسینؑ کی قربانی کے بعد قوم صدمے میں تھی، سیاسی نہیں بلکہ روحانی قیادت کی ضرورت تھی*

*3. تحریک کو اندر سے زندہ رکھنا: آپ نے احتجاج کی بجائے دعاؤں، علم و عرفان اور باطنی اصلاح کے ذریعے کربلا کے پیغام کو نسلوں تک منتقل کیا (مثلاً صحیفہ سجادیہ، دعائے ابو حمزہ ثمالی)*

*4. تربیت و بیداری: آپ نے اہلِ بیت کے فکری ورثے کو اگلی نسلوں کے لیے محفوظ رکھا، جس کا اثر بعد ازاں امام باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کے ادوار میں ظاہر ہوا*
نتیجہ:
*آپ کی خاموشی نے اہل حق کے علمی، عرفانی، اور باطنی پہلو کی بنیاد رکھی، جس نے بعد ازاں فکری انقلاب کو جنم دیا*
*آپ کی اپنی مختصر کتاب "رسالة الحقوق" کا نچوڑ یہ ہے کہ:*
*جب ظالمانہ نظام کی سخت گرفت کی وجہ سے سیاست ناقابلِ اصلاح ہو جائے تو اس وقت بندے کو اپنے اور اللہ کے درمیان حقوق پر توجہ مرکوز کر دینی چاہیے، اور لوگوں کی باطنی اصلاح پر ساری توجہ مرکوز کر دینی چاہیے*

*3- ائمہ اہلبیت: امام محمد باقر تا امام حسن عسکری:*

*امام محمد باقر علیہ السلام کے چھوٹے بھائی امام زید بنو امیہ کے جبر کے خلاف فوج لے کر نکلے، خود بھی شہید ہوئے اور ان کے اٹھارہ سال جوان بیٹے بھی شہید ہوئے۔۔ امام محمد باقر نے پھر بھی امام زین العابدین کی پالیسی کو ہی جاری رکھا۔ چاہنے والے، ماننے والے، سر کٹانے والے بھی بہت تھے لیکن آپ امام زین العابدین کی طے کردہ پالیسی پر ہی عمل پیرا رہے۔۔ بعد کے ائمہ اہلبیت نے بھی اسی پالیسی کو جاری رکھنا ہی حکمت کا تقاضا سمجھا*

*4-؛امام ابو حنیفہ رحمہ اللّہ*

*فعالیت: بنو امیہ و بنو عباس کے ظالمانہ نظام عدل کے خلاف مزاحم ہوئے اور امام حسن علیہ السّلام کی نسل سے ائمہ اہلبیت امام نفس زکیہ و امام نفس مرضیہ کی عباسی حکومت کے خلاف تحریک میں ان کا ہر طرح سے ساتھ دیا*

*خاموشی: قید و نظر بندی کے بعد تدریس تک محدود ہو گئے*

*وجۂ خاموشی: سیاسی دباؤ، مگر فکری طور پر وہ ہمیشہ "عدم تعاون" کے نظریے پر قائم رہے*

*اثر: بعد میں ان کے شاگردوں نے اسی فکر کو سیاسی و فقہی تحریک کی صورت دی*

5- *سید جمال الدین افغانی : کئی بار فعالیت اور کئی بار خاموشی:*

*فعالیت کا مرحلہ: خلافتِ عثمانیہ، مصر، ایران، افغانستان میں سیاسی اصلاحات کی دعوت*

*خاموشی کا دور: بعض ادوار میں وہ مکمل خاموشی یا جلاوطنی کا شکار رہے (مثلاً پیرس یا ایران میں نظر بندی)*

*وجۂ خاموشی: سیاسی مخالفت، مقامی سازشیں، مذہبی طبقے یا حکمرانوں سے تصادم*

*دوبارہ سرگرمی: ہر بار نئے ملک یا نئی تحریک کے ساتھ میدان میں لوٹے*

*6- مہاتما گاندھی (ہندوستان)*

*فعالیت: ستیہ گرہ، چمپارن تحریک، عدم تعاون (1919–1922)*

*خاموشی کا دور: چورا چوری واقعہ کے بعد کئی سال سیاست سے کنارہ کشی*

*وجۂ خاموشی: پرتشدد ردعمل پر مایوسی، عوام کو عدم تشدد کی تربیت دینے کی ضرورت*

*دوبارہ سرگرمی: سول نافرمانی، ڈانڈی مارچ، اور آزادی کی تحریک کی قیادت*

*7- ڈاکٹر محمد اقبال*

*فعالیت: فلسفیانہ و سیاسی شعور کی تحریک، ابتداً مسلم لیگ میں شمولیت*

*خاموشی: ابتدائی عرصے میں سیاست سے علیحدگی، تقریبًا 16 سال سیاست سے کنارہ کش رہے اور شاعری و فکر میں مصروف۔ سیاست سے ریٹائرمینٹ جیسا رویہ ۔۔*

*وجۂ خاموشی: قوم کی فکری تربیت، علامتی پیغام رسانی*

*دوبارہ سرگرمی: 1930 کی مشہور خطبہ الٰہ آباد میں علیحدہ مسلم ریاست کا تصور پیش کیا*

*8- قائد اعظم :*

*فعالیت: کانگریس کی ممبرشپ، بعد میں مسلم لیگ کی بھی ممبرشپ، بیک وقت دونوں پارٹیوں کے ممبر، ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کے طور پر شہرت، بعد میں صرف مسلم لیگ کی رکنیت اور کانگریس کی رکنیت سے استعفٰی ۔۔ چودہ نکات*

*خاموشی: سیاست سے بیزار اور ہندوستانی مسلمانوں کے رویے اور مستقبل سے مایوس ہو کر انگلینڈ منتقلی۔ سیاست سے ریٹائرمینٹ ۔۔ تین سال تک مکمل خاموشی*

*دوبارہ فعالیت: علامہ اقبال کی دعوت اور سمجھانے پر دوبارہ ہندوستان آمد اور سیاسی سرگرمیوں کا دوبارہ سے آغاز*

9-؛ *ایمل کار کابریل (گنی بساؤ، افریقہ)*

*فعالیت: پرتگالی سامراج کے خلاف بغاوت کی قیادت (63-1956)*

*خاموشی: خود ساختہ جلاوطنی اور چار سال کے عرصہ میں خاموش نظریاتی تیاری*

*دوبارہ سرگرمی:۔۔ 73-1963۔۔ قومی آزادی کی مسلح جدوجہد کی دوبارہ قیادت۔ گنی بساؤ کی آزادی سے نو ماہ پہلے قتل کر دیا جانا۔ قتل کے نو ماہ بعد گنی بساؤ کا آزاد ہونا*

*یہاں تاریخِ انسانی سے فقط چند مثالیں پیش کی گئی ہیں ۔۔ ہر سیاسی لیڈر کی قوم کے حالات مختلف ہوا کرتے ہیں اور اس لیڈر نے ان حالات کے مطابق فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔۔ کئی بار خاموشی بھی ایک انقلاب کا ایک مرحلہ ہوا کرتی ہے۔ کتنی دیر خاموش رہنا ہے وہ فیصلہ لیڈر نے کرنا ہوتا ہے۔۔ امام حسین علیہ السلام اور امام زین العابدین علیہ السلام کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ کبھی بھرپور فعالیت ہوتی ہے، کبھی مکمل خاموشی، اندر خانے تیاری، وقت کا انتظار اور پھر دوبارہ سے فعالیت ۔۔ جن لوگوں کو ڈاکٹر طاہر القادری کی خاموشی اندر سے کھائے جا رہی ہے وہ ذرا دھیرج رکھیں، وہ غور کریں کہ ان کی خاموشی نے آپ کے اندر مخالفت کے کیا کیا طوفان کھڑے کر دیئے ہیں، یہ طوفان صرف سوشل میڈیا مخالفین کے اندر ہی بپا نہیں بلکہ اس خاموشی نے پاکستانی اسٹیبلشمینٹ تک کو شش و پنج میں ڈال رکھا ہے (اس کے حقائق شواہد ہم یہاں بیان نہیں کر سکتے کیونکہ سر عام بیان کرنا منع ہے)، ایک اشارہ کر جاتے ہیں کہ کئی رہنما جو کینیڈا میں جا جا کر ملاقاتیں کرتے رہے وہ بھی پیغامات اسٹیبلشمینٹ کے ہی لے کر بارگاہِ انقلاب میں حاضر ہو رہے تھے۔ سب کو خبر ہے کہ آج کل ایک معروف سیاسی بیانیے کا توڑ موجودہ حکمران رجیم معہ اسٹیبلشمینٹ تمام کوششوں کے باوجود نہیں کر پا رہی ۔ یہ بھی ان کو خبر ہے کہ ملک کی کوئی بھی سیاسی شخصیت اس معروف بیانیے کا توڑ کرنے کے قابل نہیں ہے۔۔ ان کو یہ بھی خبر ہے کہ سوائے ایک کینیڈا میں بیٹھی خاموش علمی و فکری قیادت کے کوئی بھی اس بیانیے کا توڑ نہیں کر سکتا۔۔ لیکن وہ قیادت بار بار کے رابطوں اور اکسانے و ڈرانے کے باوجود ابھی حکمت آمیز خاموشی کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ۔۔۔ یہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھانے والے ایک تو تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کیا کریں اور دوسرا ابھی کچھ اور انتظار کریں۔۔ جو ظاہری سیاسی جدوجہد ڈاکٹر طاہر القادری کر چکے اس کے اثرات بھی جاری ہیں اور ان کی خاموشی بھی کئی جگہ آگ لگائے ہوئے ہے۔۔ آئیں ذرا اس خاموش جد و جہد کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں:*

10-:*ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی حالیہ خاموشی*

پس منظر:
*عشروں تک عالمی سطح پر علمی، فکری، سیاسی، اور تحریکی قیادت*

*تحریک منہاج القرآن، پاکستان عوامی تحریک، اور بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف مدلل جدوجہد۔*

*سانحہ ماڈل ٹاؤن (2014)، 90 دن کا تاریخی دھرنا، اور پھر بتدریج سیاسی کنارہ کشی*

*خاموشی کی وجوہات:*

1. *ظالمانہ نظام کا ناقابل اصلاح ہونا: بارہا کوشش کے باوجود انتخابی، عدالتی، اور ریاستی نظام میں اصلاح ممکن نہ ہو سکی*

2. *تحریک کا تحفظ: کارکنوں کے جان و مال کو محفوظ رکھنا، جیسا کہ ماڈل ٹاؤن کا خونی واقعہ ایک مثال ہے*

3. *ادارہ جاتی توجہ: تحریک منہاج القرآن کو ایک بین الاقوامی علمی و تربیتی مرکز میں تبدیل کرنا، جیسے:*
*"قرآنک انسائیکلوپیڈیا"*
*"انسائیکلوپیڈیا آف حدیث"*
*"شیخ الاسلام کے خطابات کا عالمی زبانوں میں ترجمہ"*

4. *اللہ کی طرف رجوع: آپ نے بارہا فرمایا کہ اب "میرا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے"، یعنی عوامی سطح سے بالا تر ہو کر اب روحانی، نظریاتی اور الہامی خدمت کو ترجیح دے رہے ہیں*

5. *نئی نسل کی تیاری: ایک طویل المدت حکمت عملی کے تحت نئی نسل کو فکری، سائنسی اور اخلاقی قیادت کے لیے تیار کر رہے ہیں (جیسے ڈاکٹر حسین محی الدین قادری وغیرہ)*

*کیا یہ خاموشی دائمی ہے؟*

*ڈاکٹر صاحب نے خود کہا کہ "اگر میرے رب نے حکم دیا تو میں میدان میں واپس آ جاؤں گا"*

*اس خاموشی میں بھی وہ "باطنی مزاحمت"، "علمی انقلاب" اور "فکری تربیت" کے ذریعے اصل معرکہ لڑ رہے ہیں*
*(نوٹ: ڈاکٹر طاہر القادری کی خاموشی کا بیشک AI سے تجزیہ کروا لیں)*

*آخر میں اہل فکر کی نظر چند سوالات:*

* *کیا ڈاکٹر طاہر القادری سے بڑی کوئی علمی شخصیت عالم اسلام اور پاکستان میں موجود ہے؟*
* *کیا ڈاکٹر طاہر القادری کے علاوہ اس وقت پاکستان کی کسی قیادت کے پاس کوئی فکری اثاثہ موجود ہے؟*
* *کیا ڈاکٹر طاہر القادری سے بڑا کوئی مصنف پاکستان اور عالم اسلام میں موجود ہے؟*
* *کیا ڈاکٹر طاہر القادری نے ملک کے اصل مسائل اور ان کا شافی حل پیش نہیں کیا ہے؟*
* *کیا ڈاکٹر طاہر القادری کا بچپن سے ماضی و حال اعلی ترین تقوی، تہجد گزاری ، عشقِ رسول، محبت الہی کی تڑپ پر مشتمل نہیں ہے؟*
* *کیا ڈاکٹر طاہر القادری کی اللہ و رسول اللہ کی بارگاہ میں مقبولیت کے متعلق مختلف اولیاء اللہ، صالحین، متقین اور علماء کے اقوال موجود نہیں ہیں؟ سینکڑوں بشارات اس کے علاوہ ہیں۔۔*

*اب ایک اخری سوال ہے کہ اللہ کے نزدیک مقام اہل علم و اہل تقوی کا ہے یا وقتی سیاسی طور پر مقبول لوگوں کا؟ ۔۔ اللہ کے ارشادات تو واضح ہیں کہ: ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم ۔۔۔ اور ۔۔ ھل یستوی الذین یعلمون و الذین لا یعلمون ۔۔۔۔*

*جب ڈاکٹر القادری صاحب تقوی بھی ہیں، عشقِ الٰہی اور عشق رسول کا پیکر بھی ہیں اور صاحبِ علم بھی تو اللہ تعالی کے ہاں ان کی قربت کا انکار کون کر سکتا ہے؟*
*وقتی سیاسی مقبولیتیں جن کا ماضی بھی سب کو معلوم ہو ان کی کیا حیثیت ہو سکتی بارگاہِ خداوندی میں۔۔ قربت اور ہوتی ہے اور معافی اور ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔ برابری تو کیا دور دور تک کوئی جوڑ ہی نہیں شیخ الاسلام کا۔۔۔ ان کا تو چہرہ ہی قربتِ الہی کی گواہی دیتا ہے۔۔*
*بنی سرائیل جیسی قومیں اگر من و سلوی کی بجائے ساگ-ککڑی کی محبت میں گرفتار ہو جائیں تو اللہ تعالی ان کو ذلت میں مبتلا کرتا ہے بلندیاں عطا نہیں کرتا۔ ۔۔ نبی بھی اپنا ایجنڈا و پروگرام پیش کرے تو قبول قوم نے کرنا ہوتا ہے، قوم قبول نہ کرے تو حضرت عیسی علیہ السلام جیسی عظیم شخصیت کو بھی آسمان پر اٹھا لیا جاتا ہے اور قوم کو ذلیل و خوار کر دیا جاتا ہے* *ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنا ایجنڈا و پرگرام قوم کے سامنے پوری قوت سے پیش کیا، قوم نے قبول نہ کیا اور من و سلوی کی بجائے ساگ-ککڑی کو پسند کر لیا تو قصور کس کا ہے؟ قوم کا یا ڈاکٹر صاحب کا؟ ۔۔ اب اگر وہ امام زین العابدین اور ائمہ اہلبیت کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے خاموش ہیں تو الٹا قصووار ان کو ہی قرار دینا صرف بغض و عناد کی آگ میں جلنا ہی ہے اور تو کچھ نہیں۔۔ ۔۔ کیا امام زین العابدین کی خاموشی نے ان کا کربلا کا حصہ ہونے کے اجر پر پانی پھیر دیا؟ کیا جو خون حسین کے انتقام کیلئے لوگ بعد میں اٹھتے رہے اس پر بھی آپ کے خاموش رہنے نے آپ کو مجرم بنا دیا؟ تف ہے ایسی سوچ پر ۔۔۔ قائد قائد ہوتا، عوام عوام ہوتے ہیں ۔۔۔*
*معترض لوگوں کو کئی بار کہا ہے کہ کڑھتے رہنے کی بجائے اپنی پسندیدہ پارٹی کو جوائن کر لیں اور کریں اپنی پسند کی جدوجہد۔۔ یا اپنی الگ سے ایک انقلابی سیاسی پارٹی قائم کر لیں اور لے آئیں انقلاب ۔۔۔ آپ کو روکا کس نے ہے؟ ۔۔۔ لیکن نہیں وہ ایسا بالکل بھی نہیں کریں گے کیونکہ ذہن بھی ناپختہ ہیں، صلاحیت بھی کوئی نہیں، قیادت کے وہ قابل ہی نہیں ہیں، مانتا ان کو ہے کوئی نہیں، نہ کوئی سماجی حیثیت ہے، نہ سیاسی، نہ علمی، نہ فکری ۔۔۔ سوائے سابقہ ہونے کے کچھ بھی سرمایہ پاس نہیں۔۔ لہذا سوائے کڑھتے رہنے کے اور کوئی کام نہیں ان کے پاس ۔۔۔*
*قرآن مجید کی نظر میں۔۔*
*فستبصر و یبصرون0 بایکم المفتون*
*عنقریب آپ بھی دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے اصل بیوقوف کون ہے۔۔*

*فیض احمد فیض کے انقلابی کلام پر اختتام کرتے ہیں:*

*لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں​*
*اک ذرا صبر، کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں​*
*عرصۂ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں​*
*ہم کو رہنا ہے پہ یونہی تو نہیں رہنا ہے​*
*اجنبی ہاتھوں کا بے نام گرانبار ستم​*
*آج سہنا ہے، ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے*

*تحریر و تحقیق:*
*ڈاکٹر سید محمد۔ہارون بخاری*

Address

Sangra Road
Lalian
35470

Website

https://www.tiktok.com/@mtjanjua786?_t=8qcwAuAi

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Global Info Entertainment posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share