Master Babar

Master Babar رزق حلال عین عبادت ہے

07/06/2025

تمام اہلِ اسلام کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے عیدالاضحی کی خوشیاں مبارک ♥️♥️♥️♥️♥️

02/06/2025
02/06/2023

پرویز الٰہی کو رہائی کے بعد گوجرانوالہ میں درج ایک مقدمے میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے

14/10/2022

ایک فلم تھیٹر نے اعلان کیا کہ 8 منٹ کی ایک فلم نے دنیا کی بہترین شارٹ فلم کا خطاب جیتا ہے ...
لہذا ، یہ فلم سینما میں مفت ڈسپلے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تاکہ اسے دیکھنے کے لئے بڑا ہجوم جمع ہو.

مووی ایک کمرے کی چھت کی تصویر سے شروع ہوئی تھی جو کسی بھی سجاوٹ اور کسی بھی نقش و نگار سے خالی ہے۔ صرف ایک سفید چھت ...
3 منٹ بغیر کیمرے کے حرکت کیے گزرے اور کسی دوسرے سین کو نہیں دکھایا گیا... مزید 3 منٹ بغیر کیمرے کے حرکت کیے اور منظر کو تبدیل کیے بغیر گزرے ...
6 بورنگ منٹ کے بعد ، دیکھنے والوں نے آوازیں لگانا شروع کردی۔ ان میں سے کچھ ہال چھوڑنے والے تھے۔
اور ان میں سے کچھ لوگوں نے تھیٹر کے عہدیداروں پر اعتراض کیا کیونکہ انہوں نے چھت دیکھنے میں اپنا وقت ضائع کیا ...
پھر اچانک اکثریت میں تشویش پیدا ہونے لگی اور رخصت ہونے ہی والے تھے ،کہ بغیر کسی تفصیل کے کیمرہ آہستہ آہستہ چھت سے دیوار کی طرف چلا گیا یہاں تک کہ وہ نیچے کی طرف فرش تک پہنچا.
وہاں ایک بچہ بستر پر دکھائی دیا ، جو کسی وجہ سے مکمل طور پر معذور تھا۔ اس کے چھوٹے سے جسم میں ریڑھ کی ہڈی نہیں تھی اور نا ہی وہ حرکت کر سکتا تھا اُس کی نظریں اُسی خالی سفید چھت کی طرف تھیں اور انکھ میں آنسو نمایاں تھے.
کیمرا آہستہ آہستہ معذور کے بستر کی سمت چلا گیا ، بغیر پیٹھ کے پہیے والی کرسی دکھاتے ہوئے ... کیمرا دوبارہ چھت کے بورنگ مقام پر چلا گیا۔ اس بار اس نے ایک جملہ دکھایا: * "ہم نے آپ کو یہ منظر صرف 8 منٹ دیکھایا ، اور اس منظر کو یہ معذور بچہ اپنی زندگی کے سارے گھنٹے دیکھتا ہے ، اور آپ نے صرف 6 منٹ میں شکایت کرنا شروع کر دیں۔ آپ سے خالی چھت کو 6 منٹ کے لئے بھی دیکھنا برداشت نہیں ہوا.
لہذا اپنی زندگی کے ہر سیکنڈ کی قدر جانیں جو آپ خیریت سے گذارتے ہیں ، اور آپ کو عطا کردہ ہر نعمت پر خدا کا شکر ادا کریں 💞
الحمدللہ رب العالمین 💞
Copied

14/10/2022

یہ تیزگام ہے اور دینہ میں نہیں رکتی

تیزگام میں سفر کر رہا تھا ۔مسافروں سے پوچھا دینہ کب آئے گا مجھے اترنا ہے
تو مسافروں نے بتایا بھائی یہ تیزگام ہے ۔دینہ سے گزرے گی مگر رکے گی نہیں
یہ سن کر میں گھبرا گیا مگر مسافروں نے کہا گھبراؤ نہیں
دینہ اسٹیشن سے گذرتے ہوئے یہ ٹرین سلو ہو جاتی ہے
تم ایک کام کرنا جیسے ہی ٹرین آہستہ ہو تو تم دوڑتے ہوئے ٹرین سے اتر کر آگے کی طرف بھاگ پڑنا ،جس طرف ٹرین جا رہی ہےاس طرح کرو گے تو تم گروگے نہیں
دینہ آنے سے پہلے ہی مسافروں نے مجھے گیٹ پر کھڑا کر دیا
اب دینہ آتے ہی میں ٹرین آہستہ ہوئی تو ان کے بتانے کے مطابق پلیٹ فارم پر کودا اور کچھ زیادہ ہی تیزی سے دوڑ گیا
اتنا تیز دوڑا کہ اگلے کوچ تک جا پہنچا
اگلے کوچ کے کچھ مسافر دروازے میں کھڑے تھے ان مسافروں میں کسی نے میرا ہاتھ پکڑا تو کسی نے شرٹ پکڑی اور مجھے کھینچ کر ٹرین میں چڑھا لیا
اب ٹرین رفتار پکڑ چکی تھی اور سب مسافر کہے رہے تھے
تیرا نصیب اچھا ہے جو تجھے یہ گاڑی مل گئی
ورنہ یہ تیزگام ہے اور دینہ میں نہیں رکتی!!
🤭😉 اک وچارہ پاکستانی

10/10/2022

‏ایک چھوٹا لڑکا بھاگتا ھوا "شیوانا" (قبل از اسلام ایران کا ایک مفکّر) کے پاس آیا اور کہنے لگا.. "میری ماں نے فیصلہ کیا ھے کہ معبد کے کاھن کے کہنے پر عظیم بُت کے قدموں پر میری چھوٹی معصوم سی بہن کو قربان کر دے..
آپ مہربانی کرکے اُس کی جان بچا دیں.."
‏شیوانا لڑکے کے ساتھ فوراً معبد میں پہنچا اور کیا دیکھتا ھے کہ عورت نے بچی کے ھاتھ پاؤں رسیوں سے جکڑ لیے ھیں اور چھری ھاتھ میں پکڑے آنکھ بند کئے کچھ پڑھ رھی ھے..
‏بہت سے لوگ اُس عورت کے گرد جمع تھے .
اور بُت خانے کا کاھن بڑے ‏فخر سے بُت کے قریب ایک بڑے پتّھر پر بیٹھا یہ سب دیکھ رھا تھا..
‏شیوانا جب عورت کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ اُسے اپنی بیٹی سے بے پناہ محبّت ھے اور وہ بار بار اُس کو گلے لگا کر والہانہ چوم رھی ھے.
مگر اِس کے باوجود معبد کدے کے بُت کی خوشنودی کے لئے اُس کی قربانی بھی دینا چاھتی ھے.
‏شیوانا نے اُس سے پوچھا کہ وہ کیوں اپنی بیٹی کو قربان کرنا چاہ رھی ھے..
عورت نے جواب دیا..
"کاھن نے مجھے ھدایت کی ھے کہ میں معبد کے بُت کی خوشنودی کے لئے اپنی عزیز ترین ھستی کو قربان کر دوں تا کہ میری زندگی کی مشکلات ھمیشہ کے لئے ختم ھو جائیں.."
‏شیوانا نے مسکرا کر کہا..
"مگر یہ بچّی تمہاری عزیز ترین ھستی تھوڑی ھے..؟
اِسے تو تم نے ھلاک کرنے کا ارداہ کیا ھے..
تمہاری جو ھستی سب سے زیادہ عزیز ھے وہ تو پتّھر پر بیٹھا یہ کاھن ھے کہ جس کے کہنے پر تم ایک پھول سی معصوم بچّی کی جان لینے پر تُل گئی ھو..
یہ بُت احمق نہیں ھے..
وہ تمہاری عزیز ترین ھستی کی قربانی چاھتا ھے.. تم نے اگر کاھن کی بجائے غلطی سے اپنی بیٹی قربان کر دی تو یہ نہ ھو کہ بُت تم سے مزید خفا ھو جائے اور تمہاری زندگی کو جہنّم بنا دے.."
‏عورت نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بچّی کے ھاتھ پاؤں کھول دیئے اور چھری ھاتھ میں لے کر کاھن کی طرف دوڑی‏
مگر وہ پہلے ھی وھاں سے جا چکا تھا..
کہتے ھیں کہ اُس دن کے بعد سے وہ کاھن اُس علاقے میں پھر کبھی نظر نہ آیا..
‏دنیا میں صرف آگاھی کو فضیلت حاصل ھے اور ‏واحد گناہ جہالت ھے..
‏جس دن ہم اپنے "کاہنوں" کو پہچان گئے ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے !!

منقول
Copy

05/10/2022

ہمارا بھی ایک زمانہ تھا!
پانچویں جماعت تک ھم سلیٹ پر جو بھی لکھتے تھے اسے زبان سے چاٹ کر صاف کرتے ، یوں کیلشیم کی کمی کبھی ہوئی ہی نہیں ۔
پاس یا فیل۔۔ صرف یہی معلوم تھا، کیونکہ فیصد سے ہم لا تعلق تھے۔
ٹیوشن شرمناک بات تھی، نالائق بچے استاد کی کارکردگی پر سوالیہ نشان سمجھے جاتے۔
کتابوں میں مور کا پنکھ رکھنے سے ھم ذہین، ہوشیار ھو جاینگے، یہ ھمارا اعتقاد بھروسہ تھا۔
بیگ میں کتابیں سلیقہ سے رکھنا سگھڑ پن اور با صلاحیت ہونے کا ثبوت تھا۔
ہر سال نئی جماعت کی کتابوں اور کاپیوں پر کورز چڑھانا ایک سالانہ تقریب ہوا کرتی تھی۔
والدین ہمارے تعلیم کے تیئں زیادہ فکرمند نہ ہوا کرتے تھے اور نہ ہی ہماری تعلیم ان پر کوئی بوجھ تھی، سالہا سال ہمارے والدین ہمارے اسکول کی طرف رخ بھی نہیں کیا کرتے تھے، کیونکہ ہم میں ذہانت جو تھی۔
اسکول میں مار کھاتے ہوئے یا مرغا بنے ہوئے ہمارے درمیاں کبھی انا (ego) بیچ میں آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوا۔ انا کیا ہوتی ہے یہی معلوم نہ تھا۔ مار کھانا ہمارے روزمرہ زندگی کی عام سی بات تھی ، مارنے والا اور مار کھانے والا دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی شکایت نہ ہوا کرتی تھی۔
ھم اپنے والدین سے کبھی نہ کھ سکے کہ ہمیں ان سے کتنی محبت ہے ۔ نہ باپ ھمیں کہتا تھا ۔ کیونکہ I love you کہنا تب رائج نہ تھا اور ہمیں معلوم بھی نہ تھا،
کیونکہ تب محبتیں زبان سے ادا نہیں کی جاتی تھیں بلکہ ہوا کرتی تھیں،
رشتوں میں بھی کوئی لگی بندھی نہیں ہوا کرتی تھی، بلکہ وہ خلوص اور محبت سے سرشار ہوا کرتے تھے۔ قلمی دوستی ھوا کرتی تھی اور خط لکھ کر اس کے جواب کا ہفتوں انتظار کیا جا تا تھا۔ واہ کیا دور تھا۔
سیل فون کا تصور بھی نہ تھا اس بیماری نے ھمارے کھیلوں کے میدان ختم کر دیئے ھیں۔ اور اسکی جگہ ٹک ٹاک پب۔جی اور پتہ نہیں کون کون سی لاعلاج بیماریوں میں مبتلا کر دیا ھے۔جس کی وجہ سے آئے روز نئے نئے گل کھل رھے ھیں۔
سچائی یہی ھے کہ ھم ( ہماری عمر یا زائد عمر کے سبھی افراد) اپنی قسمت پر ہمیشہ راضی ہی رہے، ہمارا زمانہ خوش بختی کی علامت تھا ، اسکا موازنہ آج کی زندگی سے کر ہی نہیں سکتے،

28/09/2022
28/09/2022

Address

Mandi Bahauddin

Telephone

+923036060063

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Master Babar posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Master Babar:

Share