Ghulam Murtaza

Ghulam Murtaza "فتنہ لوگوں کی رہنمائی کیلئے نہیں آتا؛ بلکہ مومن کو اُس کے دین کے بارے میں آزمانے کیلئے آتا ہے!"
امام مطرف رحمه اللہ
(الإبانة : 593/2)
(3)

16/07/2025

‏معاشرے کو صرف مجرم نہیں، خاموش لوگ بھی برباد کرتے ہیں!

16/07/2025
16/07/2025

tawakal allah par kariyn us par bharosa rakhiyn jo ap ky sab sy ziyadha qareeb ha
Molana Ghulam Murtaza sahab

15/07/2025

ناموس رسالت ﷺ کے مقدمہ کی عدالتی کارروائی کا آنکھوں دیکھا کچھ احوال؛

ایڈووکیٹ محترم کامران مرتضیٰ صاحب
ایڈووکیٹ محترم سید انتخاب شاہ صاحب
ایڈووکیٹ محترم جان محمد صاحب
تینوں کو سننے سے انکار کر دیا گیا

آج عدالت میں سائلان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جب راؤ عبد الرحیم صاحب کے وکیل، جناب جان محمد ایڈووکیٹ نے دلائل دینا چاہے تو انہیں بارہا بحث سے روکا گیا۔
جناب انتخاب حسین شاہ ایڈووکیٹ بار بار مؤقف پیش کرتے رہے کہ انہیں سنا جائے کیونکہ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع پر سائلان کی جانب سے بے بنیاد پراپیگنڈا کیا گیا ہے جس کا جواب آنا ضروری ہے، لیکن افسوس کہ عدالت نے ان گزارشات کو مسلسل نظر انداز کیا اور دفاع کو سنے بغیر کارروائی کو آگے بڑھایا۔

عدالت سے مؤدبانہ گزارش کی گئی کہ معروف قانون دان جناب کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ بھی دلائل دینا چاہتے ہیں، لہٰذا انہیں موقع دیا جائے۔ ابتدا میں عدالت نے اس پر آمادگی کا اظہار کیا لیکن بعد ازاں جج صاحب نے شدید غصے کی کیفیت میں فیصلہ لکھوانا شروع کیا۔
یہ یکطرفہ کارروائی اور بغیر سنے کیا گیا فیصلہ نہ صرف انصاف کے اصولوں کے منافی ہے بلکہ قانون کی روشنی میں یقینی طور پر کالعدم قرار پانے کے قابل ہے۔

"بہرحال ایک بات آج پوری طرح واضح ہو گئی کہ تمام کارروائی کے باوجود عدالت میں راؤ عبد الرحیم اور دیگر مسؤل علیہان کے خلاف کوئی ٹھوس یا قابلِ اعتبار ثبوت سامنے نا آ سکا۔
"میں نے ابتدا ہی سے کہا تھا کہ یہ توہین رسالت ﷺ کا مقدمہ ہے، یہ نہ جھوٹے پروپیگنڈے کے زیر اثر چلے گا، نہ کسی دباؤ کے تحت، بلکہ حق و انصاف کا اپنا راستہ خود بنائے گا — اور آج کی
عدالتی کارروائی نے اس سچائی پر مہر ثبت کر دی ہے۔"

راجہ یاسر شکیل ایڈووکیٹ سابق جنرل سیکرٹری اسلام آباد بار ایسوسی ایشن

15/07/2025

مکالمہ ہے یا مناظرہ
لیکن دلچسپ ہے
منیر احمد علوی عفا اللہ عنہ
♦️♦️♦️♦️♦️♦️♦️♦️

کل میری ایک صاحب سے دورانِ ملاقات بلاسفیمی کے حالیہ کیسز پر گفتگو ہوئی تو وہ فرمانے لگے، "مجھے ان کیسز پر تحفظات ہیں، اور ان پر دل مطمئن نہیں۔"
میں نے پوچھا، "کیا یہ تحفظات آپ کی ذاتی تحقیق کا نتیجہ ہیں؟"
فرمایا، "جی ہاں، میری ذاتی تحقیق ہے۔"

میں نے تحقیق کے ذرائع دریافت کیے تو حیرت ہوئی کہ جناب نے محض سوشل میڈیا پر دو تین پیغامات اور ایک آدھ وائس میسج سنا تھا، اور کچھ عدالتی کارروائیوں کے شاٹ کلپس دیکھے تھے، بس یہی ساری "تحقیق" تھی۔

میں نے پوچھا، "کیا آپ کسی گستاخ سے خود ملے؟"
کہنے لگے، "نہیں۔"

"کیا آپ نے کسی گستاخ کی فورنزک رپورٹ خود دیکھی ہے؟"
"نہیں۔"

"کیا کسی گستاخ کا ڈی این اے رپورٹ خود پڑھا یا پرکھا؟"
"نہیں۔"

"کیا آپ نے کسی ایسے وکیل یا وارث سے ملاقات کی جس نے ناموسِ رسالت کے محافظین یا کسی ادارے پر مالی کرپشن یا بلیک میلنگ ثابت کی ہو؟"
کہنے لگے، "نہیں۔"

میں نے عرض کیا، "آج تک کوئی ایک شخص بھی، کسی ایک کیس میں، مالی بدعنوانی یا بلیک میلنگ کا کوئی ثبوت نہیں دے سکا۔"
وہ صاحب حیرت سے بولے، "ایمان مزاری گروپ تو اس پر زور و شور سے بات کرتا ہے۔"

میں نے عرض کیا، "کیا شور دلیل ہوتا ہے؟"

پھر میں نے سوالات کی صورت میں بات واضح کرنے کی کوشش کی:

کیا ممکن ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں کسی اہم ادارے کے چند لوگ اتنا بڑا جھوٹا کام کرتے رہیں کہ بےگناہوں کو گستاخ بنا کر پکڑتے جائیں، اور پورا ادارہ خاموش تماشائی بنا رہے؟ اور حکومتی رٹ بھی قائم نہ ہو سکے ؟

کیا ممکن ہے کہ عدالتیں چار سال سیکنڑوں کیس چلاتی رہیں اور 36 افراد کو ناقابلِ تردید ثبوت کی بنیاد پر سزا سنا دیں، ضمانتیں کینسل کر دیں، پھر بھی یہ سب جھوٹ ہو؟

اگر واقعی یہ سب "بزنس" ہے تو پھر چار سو سے زائد افراد جیلوں میں کیسے پہنچے؟ ان میں سے کسی ایک سے بھی کوئی "ڈیل" کیوں نہ ہو سکی؟

آخر کون فری میں عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات لڑ رہا ہے؟ اگر مقصد صرف پیسہ ہے تو یہ کیسے ممکن ہے؟

پھر میں نے پوچھا، "کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ صرف ایک ادارے کا کام نہیں، بلکہ ملک کا کئی مستند ادارے ہیں جو اس ناپاک سلسلے کے خلاف تحقیقاتی رپورٹ بنا کر پیش کر چکے ہیں جبکہ کوئی ایک ملکی ادراہ اس کے رد میں کوئی روپورٹ پیش نہیں کر سکا ؟"

فرمایا، "آپ کی باتیں درست لگتی ہیں، لیکن اگر یہ سب حقیقت ہے تو علماء، خصوصاً اس موضوع پر کام کرنے والے، کیوں خاموش ہیں؟"

میں نے عرض کیا، "محترم، آپ کو ان کیسز کا ابھی علم ہوا ہے۔ بہت سے علماء کی بیانات، کلپس، اور پریس ریلیز پہلے سے موجود ہیں۔"
پھر میں نے ان کو قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن، مولانا حنیف جالندھری، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، مفتی منیب الرحمان، مولانا سعد رضوی، پنجاب قرآن بورڈ اور دیگر علماء کے واضح موقف دکھائے۔

میں نے الزامی طور پر مزید کہا، "اس ناپاک سوشل میڈیا مہم سے پہلے بھی پاکستان میں کئی گستاخ گرفتار ہوئے۔ کیا تب بھی علماء اور جماعتوں کی پریس ریلیز، بیانات اور تحریکی سرگرمیاں موجود تھیں؟"
جب ان معاملات پر علماء و جماعتوں کی خاموشی پر کوئی اعتراض نہیں تھا تو اب اعتراض کیوں؟

پھر میں نے قادیانیوں کے خلاف جاری قانونی کارروائیوں کی مثال دی، امتناع قادیانیت آرڈیننس کے تحت عبادت گاہوں کی بندش، شعائرِ اسلامی کی حفاظت، قربانی پر پابندیاں۔
پوچھا، "کیا یہ سب درست ہے تو کہنے لگے قادیانیوں کی خلاف اسلام سرگرمیوں پر قانونی کاروائی ضروری ہے
میں نے پھر سوال کیا کیا ایسی کارروائیوں پر جماعتوں اور قائدین کے بیانات آپ کے پاس موجود ہیں؟"
کہنے لگے، نہیں

پھر عرض کیا، "جب ان معاملات پر جماعتوں کی خاموشی قابلِ اعتراض نہیں، تو محافظینِ ناموسِ رسالت پر ایسی شرط کیوں؟"

کہنے لگے، "لیکن ان گستاخوں کو گرفتار کروانے والوں میں ایک شخص مشکوک ہے۔"

میں نے پوچھا، "مبارک ثانی کیس کا مدعی کون تھا؟"
جواب نہیں آیا۔
میں نے بتایا، "وہی شخص جس پر آپ آج شک کر رہے ہیں۔"
میں نے کہا تعجب کی بات تو یہ ہے کہ آپ کو محافظین پر تحفظات ہیں اور ایمان مزاری، سونیا خٹک اور بھینسا گروپ کے لوگوں پر اعتماد اور اطمینان

میں نے کہا، "ایسے سخت پروپیگنڈے، دباؤ، اور مخالفت کے باوجود جو ٹیم ڈٹی ہوئی ہے، یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حق و سچ پر ہے۔ یہ عشقِ رسول ﷺ ہی ہے جو انہیں جرأت اور استقامت عطا کرتا ہے۔"

پھر بڑی سادگی سے پوچھنے لگے، "کیا مسلمان توہین کر سکتا ہے؟"

میں نے کہا، محترم "توہین کرنے والا مسلمان ہوتا ہی نہیں۔"
پھر پوچھا، "مرزا قادیانی گستاخ تھا؟"
کہنے لگے، "بالکل۔"
پوچھا، "کس کے گھر پیدا ہوا؟"
کہنے لگے، "مسلمان گھرانے میں۔"

پھر سلمان رشدی اور دیگر گستاخوں کے نام لے کر پوچھا، "یہ سب کہاں پیدا ہوئے؟"
کہنے لگے، "مسلمانوں کے گھر۔"

عرض کیا، "تاریخ اسلام بھری پڑی ہے ایسے نامرادوں سے جو مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے، لیکن بعد میں مرتد اور گستاخ بنے۔ آج بھی قادیانیت، الحاد، اور دیگر فتنوں میں اکثر لوگ مسلمان گھرانوں ہی سے آتے ہیں۔"

پھر میں نے حضرت صوفی محمد اکرم صاحب کے بارے میں پوچھا۔ وہ صاحب انہیں جانتے تھے۔
میں نے ان کے دو مریدوں کا واقعہ سنایا جن کے علاقے میں مسجد کے متولی کا بیٹا مسجد کے قرآن پر انزال کرتا اور گستاخی کرتے ہوئے ویڈیوز بناتا تھا، موقع پر موجود لوگوں نے ویڈیوز دیکھی تو کانپ گئے، الماریوں میں رکھے قرآن مجید کھولے گئے تو معتدد قرآن نجاست زدہ تھے، اور بعد میں فارنزک اور ڈی این اے رپورٹ بھی مثبت آئی۔
میں نے کہا، "یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں، بلکہ میرے قریبی، چشم دیدہ گواہوں کا بیان ہے۔"

چند مزید واقعات سنائے جن پر معتمد اور پرانے دوست چشم دیدہ ہیں تو مجھے کہنے لگے:
"مجھ سے سخت غلطی ہوئی کہ سوشل میڈیا کے پروپیگنڈے میں آ گیا اور انجانے میں ناموسِ رسالت کی مخالفت میں جا کھڑا ہوا۔"

قابلِ احترام دوستو،
میری آج تک جتنے لوگوں سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی، کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو "بلاسفیمی بزنس" کا کوئی ثبوت پیش کر سکا ہو۔ یا گستاخی کے نہ ہونے پر کوئی ثبوت دے سکا ہو

حیرت اور دکھ کی بات یہ ہے کہ آج کا مسلمان بلا تحقیق صرف سوشل میڈیا کی بنیاد پر ناموسِ رسالت کے محافظین کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے۔
اسے علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس کی مخالفت میں ہے، یہ صرف افراد کی مخالفت نہیں، یہ صاحبِ لولاک ﷺ کی عزت و حرمت کے دفاع میں رکاوٹ ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام، پیغمبر اسلام ﷺ اور ان کے ناموس کے تحفظ میں لگے افراد کی قدر دانی اور حمایت کی توفیق عطا فرمائے۔
اور ہمیں ایسی ناقدری، لاعلمی، اور بے بنیاد مخالفت سے محفوظ رکھے، جو ہمیں جانے انجانے میں اہلِ باطل کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے۔

سچ یہ ہے کہ:
"اہلِ باطل کی حمایت اور اہلِ حق کی بے دلیل مخالفت، انسان کو حق کی پہچان اور اس پر اطمینان کی قوت سے محروم کر دیتی ہے۔"

منیر احمد علوی عفا اللہ عنہ

14/07/2025

*دنیا کا خوبصورت انسان وہی ہے جس سے بات کرنا آسان ہو، جس سے مدد طلب کرنا آسان ہو، جو دوسروں کے دکھ درد میں شامل ہو، اگر آپ میں یہ ساری خصوصیات پائی جاتی ہیں تو یقین جانئیے اللہ نے آپ کو بہت خاص بنایا ہے ♥️*

14/07/2025

جنت ہمیں پکارتی ہے کہ تیرے لیے ہوں میں
اور دنیا گلے پڑی ہے کہ جنت سمجھ مجھے

13/07/2025

‏اگر تم اپنی پوری کوشش کے باوجود اُجالا نہ لاسکو
‏ تب بھی کبھی اندھیروں سے صلح نہ کرنا!

13/07/2025

ہر چیز کا علم ہونا فائدے مند سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے

13/07/2025

ہر ایک سے تعلق توڑا جا سکتا ہے،
رخ موڑا جا سکتا ہے،
مفاد چھوڑا جا سکتا ہے،
لیکن
اللہ کی قسم
حضور سے تعلق نہیں توڑا جا سکتا
ان سے رخ نہیں موڑا جا سکتا
مفاد کو ان پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔
سب چھوڑ دیں، رخ موڑ لیں،
الزامات لگائے جائیں،
طعنے دئیے جائیں،
اور ان کی خاطر ❤️
سبحان اللہ، پھر کیا چاہیے
ان کی خاطر
جو محبوب کبریاء ہیں
جنہوں نے ہم پر اپنا سب لگا دیا
سبحان اللہ ❤️ اور کیا چاہئے

13/07/2025

خطرناک اور بھیانک سازش
ضرور پڑھیں
اور
مکمل پڑھیں

یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ عالمی کفر کے لیے پاکستان کا قانونِ ناموسِ رسالت (295/C) ناقابلِ برداشت بن چکا ہے، اور پاکستان میں جاری حالیہ ناموس رسالت کے خلاف تحریک کا اصل ہدف بھی یہی قانون ہے۔ مگر اس بار انداز مختلف ہے، اس بار گستاخ عناصر براہِ راست قانون کی منسوخی یا اس میں ترمیم کا مطالبہ کرنے کے بجائے ایک چالاک اور منظم حکمتِ عملی کے تحت اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

▪️سازش کی پہلی جہت:

ایک منظم نیٹ ورک کے ذریعے سوشل میڈیا پر توہینِ رسالت جیسے قبیح جرم کو عام کیا گیا۔ جب ریاستی اداروں نے اس سنگین جرم میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی تو اُن گستاخوں کی رہائی کے لیے باضابطہ تحریک شروع کر دی گئی۔ اس تحریک کے دو بڑے اہداف ہیں:

پہلا ہدف
محافظینِ ناموسِ رسالت کو مشکوک بنانا:
اس کے لیے میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ بیانیہ عام کیا جا رہا ہے کہ پہلے قانونِ ناموسِ رسالت کو ذاتی دشمنیوں کی خاطر استعمال کیا جاتا تھا اور اب مالی مفادات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور معصوم لوگوں کو پھنسا کر انھیں بلیک میل کیا جا رہا ہے، ان سے پیسے بٹورے جا رہے ہیں۔ اس پروپیگنڈے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جہاں قانون کے محافظ بدنام ہوں گے، وہیں آئندہ ہر گستاخِ رسول کو ایک “شکوک و شبہات کی چادر” فراہم کر دی جائے گی اور ہر گستاخ کے بارے میں تردد کا ماحول بن جائے گا کہ معلوم نہیں گستاخ ہے یا فقط پروپیگنڈا ہے اور پھنسایا گیا ہے۔
اور یوں ناموس رسالت پر کام کرنے والے افراد اور جماعتیں بدنام ہونگی اور ان کی ساکھ خراب ہو گی، حوصلے پست ہونگے۔

دوسرا ہدف
ریاستی اداروں کو دباؤ میں لانا:
جو ملکی ادارے عدالتی حکم پر توہینِ رسالت کے خلاف عملی اقدامات کر رہے تھے، اُن کی نیت اور کارکردگی کو مشکوک بنایا جا رہا ہے تاکہ یہ شکنجہ جو قانون کے ذریعے گستاخوں پر کسا گیا تھا، ڈھیلا ہو جائے اور مجرم ایک بار پھر آزاد ہو جائیں۔ یہ قانون کو عملاً غیر مؤثر بنانے کی خطرناک سازش ہے۔

دوسری جہت:
اسی سازش کے تحت، جو لوگ انسانیت کے نام پر گستاخوں کو ریلیف دلوانے کی کوشش میں مصروف ہیں، اُنہیں بین الاقوامی سطح پر نہ صرف سپورٹ کیا جا رہا ہے بلکہ ایوارڈز اور مالی امداد دے کر اُن کی ساکھ کو مستحکم کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مفاد پرست، دین بیزار لبرل، اور بعض ناواقف انسانیت کی ہمدردی کے ٹائٹل کو دیکھ کر ایسے عناصر کے ساتھ جُڑ جائیں، اور ایک مضبوط نیٹ ورک تشکیل دیا جائے جو مستقبل میں گستاخوں کو، دین دشمنوں کو تحفظ دے سکے اور اس قانون کو ختم کروانے کی راہ ہموار کر سکے اور اسی نیٹ ورک کے ذریعے بے حیائی، دین دشمن تحریکوں اور بین الاقوامی سازشوں کو ملک میں قوت مل سکے۔

موجودہ عدالتی ماحول:

اسلام آباد کی عدالت میں جاری حالیہ مقدمہ اس تمام تر سازش کی عملی مثال ہے۔ حالات و واقعات پر غور کیا جائے تو تمام تر بیانیہ اور کوششیں قانونِ ناموسِ رسالت کو کمزور کرنے کے گرد گھومتی نظر آتی ہیں۔

▪️"بلاسفیمی بزنس گروپ" نامی پروپیگنڈا اپنے عروج پر ہے، حالانکہ گزشتہ تقریباً آٹھ مہینوں میں عدالت کے سامنے اس حوالے سے ایک روپیہ کا بھی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا۔
▪️جن اداروں نے عدالتی حکم پر توہینِ رسالت کے خلاف قانونی سیل قائم کیے، اُنہیں متنازع بنانے کے لیے باقاعدہ مہم چلائی جا رہی ہے اور ایسے اداروں کی ساکھ خراب کی جا رہی ہے۔ تاکہ آئندہ کوئی ادارہ ناموس رسالت کے حق میں اپنی ذمہ داری ادا نہ کرے۔
▪️جن مجرموں پر ناقابلِ تردید ثبوتوں کی بنیاد پر عدالتوں سے پھانسی کی سزائیں دی جا چکی ہیں، اُنہیں معصوم ثابت کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

عالمی حمایت:

اسی تناظر میں ایمان مزاری جیسے کرداروں کو، جو "میرا جسم میری مرضی" اور ہم جنس پرستی کے نظریات کی علمبردار رہی ہیں، ناروے میں ایوارڈ سے نوازا جا رہا ہے اور اعلانیہ کہا جا رہا ہے کہ یہ ایوارڈ بلاسفیمی کے مجرموں کے دفاع کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔

اس کے بعد ایمان مزاری، سونیا خٹک، اور دیگر بدنامِ زمانہ گستاخ مزید دلیر ہو کر کھلم کھلا گستاخوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ اسلام آباد بار میں ایمان مزاری کو ایوارڈ ملنے پر باقاعدہ مبارکباد دی جا رہی ہے۔
حالانکہ ایسے بے شمار وکلا موجود ہیں جنہوں نے حقیقی مظلوموں کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں، مگر آج تک انہیں کوئی ایوارڈ یا عالمی پذیرائی نصیب نہ ہوئی۔ لیکن عاصمہ جہانگیر اور ایمان مزاری جیسی شخصیات کو نہ صرف بین الاقوامی اداروں کی سرپرستی حاصل ہے بلکہ ان کے لیے اعزازات اور مواقع بھی مہیا کیے جا رہے ہیں۔

خدارا، فتنے کو سمجھیں
میڈیائی پروپیگنڈا کا شکار مت بنیں،
اس مشکل وقت میں اپنی، اپنے ادارے اور جماعت کی ساکھ سے بالاتر ہو کر، شخصی و ذاتی مخالفت، تعصبات کو چھوڑ کر
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی حمایتی بن جائیں، کسی کے پاس دامن میں ان کی نسبت کے علاوہ کچھ نہیں۔۔
ہماری عزتیں، انھی کی عزت سے قائم
ہماری ساکھ انھی کی ناموس کے سہارے
اور سچ اور حق یہی ہے
عزت، ساکھ، ذات، ادارہ اور جماعت ہی نہیں، کل کائنات اس کے نعلین پاک پر قربان۔۔
اس عارضی اور مختصر سی زندگی میں عمل و کردار کے ساتھ انھی کے ہو جائیں۔۔۔۔

علوی عفی عنہ

Address

Mansehra

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Ghulam Murtaza posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Ghulam Murtaza:

Share

Category