
08/09/2025
کے پی کے والے اور سیاست کا فلسفہ
ڈاکٹر عطاء اللہ آف لنڈی شاہ
ہم خیبر پختونخوا والے بڑے عجیب لوگ ہیں۔ ایک طرف اپنے نمائندوں کو جیتا کر اسمبلی میں بھیجتے ہیں اور دوسری طرف راستے بنانے کے لیے مسجد کے باہر چارپائی رکھ کر چندہ بھی جمع کرتے ہیں۔ گویا ووٹ نمائندے کو اور چندہ چارپائی کو!
جمعے کے دن مولوی صاحب نے اعلان کیا کہ مسجد کے سامنے والا راستہ اتنا خراب ہو گیا ہے کہ کسی بھی وقت قیمتی جان جا سکتی ہے۔ اور اس کا حل یہ نکالا گیا کہ “چندہ دو اور ثواب دارین کماؤ۔” یہ سن کر مجھے اپنے ایم پی اے یاد آگئے جو ہر تقریر میں چیختے ہیں: “ہم راستوں اور نالوں کی سیاست نہیں کرتے۔” دل نے کہا: واقعی سچ بولتے ہیں!
میں نے پی ٹی آئی کے ایک مخلص کارکن سے پوچھا کہ بھائی، تم نے اپنے ایم پی اے کو راستے کے بارے میں کیوں نہیں کہا؟ اس نے جواب دیا: “کہا تھا، مگر وہ سنتے ہی نہیں۔” اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر وہ سنتے ہی نہیں تو پھر کرتے کیا ہیں؟
یہی سوال میں نے گاؤں کے سیدھے سادے گل خان سے کیا۔ اس نے فوراً کہا: “وہ عمران خان کو آزاد کر رہے ہیں۔” میں نے کہا: “خان صاحب تو ابھی تک آزاد نہیں ہوئے اور ہمارے راستے بھی وہی ہیں۔” گل خان نے نہایت سادگی سے کہا: “وہ معافی مانگیں گے تو آزاد ہو جائیں گے۔”
میں نے پھر پوچھا: “اگر انہوں نے معافی نہ مانگی تو؟” گل خان مسکرا کر بولا: “تو پھر ہم کے پی کے والے معافی مانگ لیں گے کہ ہم نے راستوں اور نالوں کی سیاست نہ کرنے والوں کو ووٹ دے دیا تھا۔”
سو بات یہ ہے کہ ہمارے نمائندے راستے نہیں بناتے، بجلی کے کھمبے نہیں لگاتے، نالے نہیں کھودتے۔ تو آخر وہ کرتے کیا ہیں؟ بس یہ سمجھ لیں کہ وہ خواب بیچتے ہیں اور ہم آنکھیں بند کر کے خرید لیتے ہیں۔ اور جب خواب پورے نہ ہوں تو پھر ہم ہی معافی مانگ لیتے ہیں۔