Abu Bakar Siddiqui Razi

Abu Bakar Siddiqui Razi تاریخ کے پہلو، موجودہ حالات کی تجزیہ اور حوصلہ افزا اقتباسات
[https://whatsapp.com/channel/0029Vb87SAXBPzjWAwALEk2p]

07/06/2025

دل کی شریانیں صرف چکنائـــی
سے ہی بند نہیں ہوتیں بلکــــہ یہ
مخلــــــوق کے راستے میں رَوڑے
اَٹکانے سے بھی بند ہوسکتی ہیں۔

07/06/2025

بغیر فریزر کے گوشت محفوظ رکھنے کا طریقہ ۔۔
گوشت کے کلو کلو کے شاپر بنالیں اور ان گھروں میں پہنچادیں جنہوں نے قربانی نہیں کی ۔ یہ گوشت قیامت تک خراب نہیں ہوگا۔

27/05/2025

"اصولوں پر ہار جانا، جھوٹ پر جیتنے سے بہتر ہے"

زندگی میں بعض اوقات ایسے لمحات آتے ہیں جب سچائی کا ساتھ دینا نقصان کا سودا محسوس ہوتا ہے، اور جھوٹ کا سہارا وقتی کامیابی دلاتا ہے۔ مگر وہ کامیابی جو اصولوں کو روند کر حاصل کی جائے، درحقیقت ایک باطنی شکست ہوتی ہے۔

اصول وہ چراغ ہیں جو اندھیروں میں راستہ دکھاتے ہیں، جب انسان ان چراغوں کو بجھا دیتا ہے تو وہ بظاہر جیت تو جاتا ہے، مگر اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ سکون، جو ایک سچے اور بااصول انسان کو حاصل ہوتا ہے، جھوٹے فریب کار کے نصیب میں کبھی نہیں ہوتا۔

دنیا کی نگاہ میں ہارنے والا اگر حق پر ہو تو وہ رب کی نگاہ میں کامیاب ہوتا ہے۔ اور دنیا میں جیتنے والا اگر جھوٹ پر ہو، تو وہ رب کی عدالت میں مجرم ہوتا ہے۔

اصولوں پر ڈٹ کر کھڑے ہونے والے تاریخ کے اوراق پر سرخرو ہوتے ہیں، جب کہ جھوٹ سے کامیابی حاصل کرنے والے وقت کے ساتھ گمنامی اور پچھتاوے کا شکار ہو جاتے ہیں۔

یاد رکھیں:
سچ وقتی طور پر تکلیف دیتا ہے، مگر آخرکار عزت بخشتا ہے۔ جھوٹ وقتی طور پر راحت دیتا ہے، مگر آخرکار رسوائی لاتا ہے۔

ابوبکر صدیق رازی

زندگی کا حقدنیا کی خوبصورتی صرف فطرت کے حسین مناظر میں نہیں، بلکہ انسانوں کے دلوں میں بستی ہے۔ اگر ہر انسان، دوسرے انسان...
21/05/2025

زندگی کا حق

دنیا کی خوبصورتی صرف فطرت کے حسین مناظر میں نہیں، بلکہ انسانوں کے دلوں میں بستی ہے۔ اگر ہر انسان، دوسرے انسان کو وہی عزت، محبت اور جینے کا حق دے، جو وہ اپنے لیے چاہتا ہے، تو یہ دنیا واقعی جنت کا نمونہ بن سکتی ہے۔

ہم اکثر اپنے لیے آزادی، سکون اور انصاف چاہتے ہیں، لیکن دوسروں کے لیے یہی چیزیں دینے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ یہی تضاد دنیا کے دکھوں کی جڑ ہے۔ نہ رنگ کا فرق ہو، نہ مذہب کا، نہ ذات پات کا – صرف ایک انسان کا دوسرے انسان سے انسانیت کا رشتہ ہو۔

اگر ہم دوسروں کو بھی اپنی طرح جینے دیں، ان کی رائے، سوچ، اور طریقِ زندگی کو برداشت کریں، تو نفرت کی جگہ محبت لے سکتی ہے، اور فساد کی جگہ امن۔

یہ تبدیلی حکومتوں سے نہیں، معاشروں سے نہیں، بلکہ ہم سے شروع ہوتی ہے۔ ایک فرد اگر دوسروں کا حق پہچان لے، تو ایک نئی دنیا کی شروعات ہو سکتی ہے – ایک ایسی دنیا جو خوبصورت بھی ہو، اور پُرامن بھی۔

ابوبکر صدیق رازی

زندگی میں نقصان ایک ایسی حقیقت ہے جس سے بچا نہیں جا سکتا۔ کبھی ہم رشتے ہارتے ہیں، کبھی خواب، کبھی عزت، اور کبھی خود کو۔ ...
21/05/2025

زندگی میں نقصان ایک ایسی حقیقت ہے جس سے بچا نہیں جا سکتا۔ کبھی ہم رشتے ہارتے ہیں، کبھی خواب، کبھی عزت، اور کبھی خود کو۔ لیکن اصل سوال یہ نہیں کہ ہم نے کیا کھویا، بلکہ یہ ہے کہ اس کھونے کے بعد ہم نے خود کو کیسے سنبھالا۔
اگر آپ کا نقصان حتمی ہے، اگر بازی ہاتھ سے نکل چکی ہے، تو اتنا ضرور کیجیے کہ وہ نقصان کسی اور کی فتح نہ بنے۔
اپنا دکھ، اپنی ہار، کسی کی خوشی کا جواز نہ بننے دیں۔
کیونکہ بعض اوقات لوگ ہمارے زخموں پر نمک نہیں چھڑکتے، بلکہ خوشی سے ناچتے ہیں کہ وہ ہمیں گرا ہوا دیکھتے ہیں۔
تو گر بھی جائیں، ٹوٹ بھی جائیں، شکست کھا بھی لیں،
تو اپنی خاموشی کو وقار بنائیے،
اپنے صبر کو طاقت،
اور اپنے درد کو چراغ کی مانند جلا لیجیے۔
کیونکہ سچے لوگ شاید بازی ہار جائیں،
مگر کردار سے کبھی شکست نہیں کھاتے۔

ابوبکر صدیق رازی

21/05/2025

زندگی کے تضادات

زندگی واقعی عجیب ہے…
یہ کبھی سیدھی لکیر میں نہیں چلتی، نہ ہی صرف ایک رنگ میں ڈھلتی ہے۔ خوشی ہمیں تب مکمل محسوس ہوتی ہے جب ہم نے غم کی شدت کو سہہ رکھا ہو۔ وہ آنسو، جو تنہائی میں بہتے ہیں، انہی کی نمی ہمیں مسکراہٹ کی روشنی کا احساس دلاتی ہے۔

ہم شور میں الجھ کر جب تھک جاتے ہیں، تب جا کر خاموشی کا سکون ہماری روح کو چھوتا ہے۔ تب ہم جانتے ہیں کہ کچھ آوازیں سننے سے بہتر ہے کہ خود سے ایک ملاقات کی جائے… تنہائی میں، خاموشی کے دامن میں۔

اور سب سے اہم سبق ہم تب سیکھتے ہیں، جب کوئی اپنا، جو ہمیشہ ساتھ ہوتا ہے، یکدم غیر حاضر ہو جاتا ہے۔ تب ہم جان پاتے ہیں کہ موجودگی صرف جسم کی نہیں ہوتی، بلکہ دل میں اتر جانے والی موجودگی وہ ہوتی ہے جس کا خالی پن لفظوں سے بیان نہیں کیا جا سکتا۔

زندگی کے یہ تضادات ہمیں توڑتے بھی ہیں، مگر یہی ہمیں جوڑتے بھی ہیں…
یہی ہمیں انسان بناتے ہیں — محسوس کرنے والا، سمجھنے والا، اور آخر کار، قدر کرنے والا انسان۔

ابوبکر صدیق رازی

20/05/2025

معافیاں کبھی بھی تکلیف کا خسارہ ادا نہیں کرسکتی

بسا اوقات الفاظ تیر بن جاتے ہیں، رویے زخم دے جاتے ہیں، اور خاموشیاں دل چیر دیتی ہیں۔ ان زخموں پر "معاف کر دو" کا مرہم رکھنا تو آسان لگتا ہے، لیکن جو ٹوٹ پھوٹ اندر ہی اندر ہو چکی ہوتی ہے، وہ کبھی مکمل نہیں جڑتی۔

معافی مانگ لینا اور معاف کر دینا دونوں عظیم صفات ہیں، مگر ہر معافی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ بعض زخم ایسے ہوتے ہیں جو صرف وقت سے نہیں، بلکہ احساسِ ندامت اور حقیقی تلافی سے ہی مندمل ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات "معاف کر دینا" مجبوری بن جاتا ہے، کیونکہ دل مزید بوجھ نہیں اٹھا سکتا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دل بھول چکا ہوتا ہے۔

معافی دینا بڑا پن ہو سکتا ہے، مگر تکلیف کا خسارہ، جو روح میں پیوست ہو چکا ہو، صرف معافی سے پورا نہیں ہوتا۔ اس کے لیے حساس دل، بدلے ہوئے عمل، اور سچی توبہ درکار ہوتی ہے۔ ورنہ معافی محض ایک لفظ رہ جاتی ہے، جس کی گونج میں پچھتاوے اور درد کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔

معافی صرف لفظ نہیں، احساس ہے۔
اور بعض احساسات خالی لفظوں سے مطمئن نہیں ہوتے۔

ابوبکر صدیق رازی

دنیا کی اس چمکتی دمکتی بھیڑ میں، جہاں ہر طرف ظاہری نمائش کا شور ہے، انسان کا اپنے اصل وجود کو سنبھال کر رکھنا ایک عظیم ہ...
20/05/2025

دنیا کی اس چمکتی دمکتی بھیڑ میں، جہاں ہر طرف ظاہری نمائش کا شور ہے، انسان کا اپنے اصل وجود کو سنبھال کر رکھنا ایک عظیم ہنر ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ دوسروں کی چمک دمک سے متاثر ہو کر اُن جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کے انداز، اُن کی باتیں، حتیٰ کہ اُن کی شخصیت کی نقل کرنے لگتے ہیں۔ لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ جو چیز ہمیں خاص بناتی ہے، وہ ہماری "اپنی" انفرادیت ہے، نہ کہ کسی اور کی نقل؟

جب انسان اپنی پہلی اور اصل شکل میں جیتا ہے، تو وہ نہ صرف اپنے دل کو سکون دیتا ہے بلکہ دنیا کے سامنے ایک سچی، مخلص اور مضبوط شخصیت رکھتا ہے۔ لوگ وقتی طور پر بناوٹ سے متاثر ہو سکتے ہیں، لیکن دیرپا اثر صرف سچائی ہی ڈالتی ہے۔ سچائی وہ طاقت ہے جو شخصیت کو نکھارتی ہے اور کردار کو جِلا بخشتی ہے۔

یاد رکھو، دنیا میں ہر انسان ایک خاص مقصد اور انوکھے رنگ لے کر آیا ہے۔ اگر ہم دوسروں کی نقل کرتے رہیں گے تو اپنی اصل چمک کھو بیٹھیں گے۔ اس لیے بہتر ہے کہ ہم خود پر بھروسہ رکھیں، اپنی خوبیوں کو پہچانیں اور اپنے اصل وجود کو گلے لگائیں۔

کیونکہ جو اصل ہوتا ہے، وہی دلوں میں جگہ پاتا ہے۔ نقل صرف وقتی ہوتی ہے، مگر اصلیت... وہ ہمیشہ کے لیے ہوتی ہے۔

ابوبکر صدیق رازی

19/05/2025

کچھ باتیں دل پر اس شدت سے لگتی ہیں کہ انسان بولنا نہیں بھولتا، صرف چپ اختیار کر لیتا ہے۔
ایسا لگتا ہے جیسے لفظ کہیں گُم ہو گئے ہوں،
جیسے آواز کے رستے پر درد کا پہرہ ہو۔

جب کوئی بات دل کو زخمی کرتیں ہے،
تو آنکھیں بولنے لگتی ہیں، اور زبان خاموش ہو جاتی ہے۔
لوگ سمجھتے ہیں ہم بدل گئے ہیں،
حالانکہ ہم بس وہ بات جھیل رہے ہوتے ہیں،
جو کہی نہیں جا سکتی، اور بھلائی نہیں جاتی۔

خاموشی اکثر چیخوں سے زیادہ زور سے بولتی ہے...
بس سننے والے کان اور سمجھنے والے دل کم ہوتے ہیں۔

ابوبکر صدیق رازی

19/05/2025

ہم ہمیشہ وہ نہیں کہہ پاتے جو ہمارے دل کی گہرائیوں میں ہوتا ہے۔
کبھی الفاظ کم پڑ جاتے ہیں، اور کبھی وقت مناسب نہیں ہوتا۔
اور جو کچھ کہہ دیا جائے، وہ بھی ہمیشہ شعوری فیصلہ نہیں ہوتا — بعض اوقات جذبات بے قابو ہو جاتے ہیں، اور باتیں خودبخود لبوں سے نکل جاتی ہیں۔

تحریر بھی ایسی ہی ہے...
جو کچھ لکھا جاتا ہے، وہ ہمیشہ ہمارے سچ کا عکس نہیں ہوتا۔
اکثر وہ صرف ہمارے خیالات ہوتے ہیں، یا شاید وہ جذبے جو ہم کبھی جی نہ سکے، بس محسوس کرتے رہے۔

اور جو لمحے ہم واقعی جیتے ہیں — وہ اتنے نازک، اتنے انمول ہوتے ہیں کہ ان کے لیے الفاظ ناکافی ہو جاتے ہیں۔
کچھ سچ صرف دل کے کونے میں رہنے کے لیے ہوتے ہیں، صفحے پر اترنے کے لیے نہیں۔

ہم انسان ہیں...
اک نرم سا لفظ ہماری دنیا روشن کر سکتا ہے،
اور ایک تلخ سا جملہ برسوں کے سکون کو چھین سکتا ہے۔

ابوبکر صدیق رازی

علم کے نام پر کیا گیا ظلم — ایک سوچ انگیز تحریرانسان نے جب سے شعور کی آنکھ کھولی ہے، وہ ظلم و عدل کی لکیر پر سفر کرتا آی...
19/05/2025

علم کے نام پر کیا گیا ظلم — ایک سوچ انگیز تحریر

انسان نے جب سے شعور کی آنکھ کھولی ہے، وہ ظلم و عدل کی لکیر پر سفر کرتا آیا ہے۔ کچھ ظلم تلواروں کی گھن گرج میں ڈھلے، کچھ بندوقوں کی بارش میں گرے، اور کچھ ایسے بھی تھے جو سفید لیبارٹری کوٹ پہنے، علم و تحقیق کے پرچم تلے کیے گئے — خاموش، بے آواز اور ناقابلِ فراموش۔

ہم جب ظلم کا تصور کرتے ہیں تو ذہن میں میدانِ جنگ، قید خانے یا قتل و غارت کے مناظر ابھرتے ہیں۔ لیکن سب سے بھیانک ظلم وہ ہے جو "بھلائی" اور "ترقی" کے خوشنما لبادے میں لپٹا ہو۔ جب انسان کو تجربہ گاہ میں محض ایک "نمونہ" سمجھا جائے، جب اس کی چیخیں ڈیٹا بن جائیں اور اس کی اذیت محض ایک گراف پر نقطہ بن کر رہ جائے، تب انسانیت کا اصل چہرہ دھندلا پڑ جاتا ہے۔

آج میں آپ کو ایک ایسی کہانی سنانے جا رہا ہوں جو تاریخ کی کتابوں میں شاید ایک سطر سے زیادہ نہ ہو، لیکن اس ایک سطر میں ایک پوری نسل کی اذیت، ایک پوری قوم کی بے بسی اور "علم" کے نام پر کیا گیا وہ ظلم چھپا ہے، جو تلوار سے زیادہ گہرا اور بندوق سے زیادہ مہلک تھا۔

یہ کہانی صرف ایک تجربے کی نہیں، بلکہ ہمارے ضمیر کے امتحان کی ہے

آئیے آپ کو دو ایسی سچی کہانیاں سنائیں جہاں علم کے نام پر ایسا ظلم ہوا کہ انسانیت شرما گئی۔

1932، امریکہ:
600 سیاہ فام امریکیوں کو بتایا گیا کہ ان کا "خون صاف کیا جا رہا ہے"، مگر درحقیقت ان پر ایک خطرناک بیماری سائفلس کا تجربہ کیا جا رہا تھا۔ ان میں سے 399 افراد اس مرض میں مبتلا تھے، لیکن انہیں علاج نہ دیا گیا تاکہ دیکھا جا سکے کہ بغیر علاج کے سائفلس کس طرح جسم کو برباد کرتا ہے۔

یہ تجربہ 40 سال جاری رہا۔ یہاں تک کہ جب "پینسلین" جیسی مؤثر دوا آئی، تب بھی انہیں دوا نہ دی گئی۔ کئی افراد مر گئے، ان کی بیویاں بیمار ہوئیں، اور بچے اس بیماری کے ساتھ پیدا ہوئے۔

1972 میں یہ راز فاش ہوا اور امریکی حکومت نے عوامی معافی مانگی، لیکن ہزاروں زندگیاں اس "سائنس" کی بھینٹ چڑھ چکی تھیں۔

اسی طرح تجربے کے نام پر
1936، جاپان میں
جاپانی فوج نے چین کے منچوریا علاقے میں ایک خفیہ تجربہ گاہ قائم کی، جس کا نام تھا یونٹ 731۔ یہاں ہزاروں چینی قیدی، خواتین، بچے اور عام شہریوں پر وہ تجربات کیے گئے جنہیں سن کر روح کانپ اٹھتی ہے۔

زندہ انسانوں پر بغیر بے ہوش کیے آپریشن کیے گئے

جان بوجھ کر خطرناک بیماریاں پھیلائی گئیں

جسموں پر زہریلے کیمیکل آزمائے گئے

شدید سردی میں برہنہ رکھا گیا تاکہ فریزنگ پوائنٹ کا علم ہو

عورتوں کو زبردستی حاملہ کر کے تجربات کیے گئے

جب جنگ ختم ہوئی، تو ان سائنسدانوں کو سزا دینے کے بجائے، امریکہ نے ان کے تجربات کا ڈیٹا لے کر انہیں معاف کر دیا — کہ دشمن روس یہ معلومات حاصل نہ کرے!

یہ دونوں کہانیاں چیخ چیخ کر ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ علم اگر اخلاق سے آزاد ہو جائے، تو وہ ایک خاموش ہتھیار بن جاتا ہے — ایسا ہتھیار جو جسم سے زیادہ روح کو زخمی کرتا ہے۔

ہمیں ترقی کرنی ہے، علم حاصل کرنا ہے، لیکن انسانیت کو پیچھے چھوڑ کر نہیں۔ کیونکہ اگر علم انسانیت کو روند کر آگے بڑھے، تو وہ روشنی نہیں، ایک اندھیرا ہے — جس میں نہ ضمیر جاگتا ہے، نہ تاریخ معاف کرتی ہے۔

ابوبکر صدیق رازی

نیکی وہ عمل ہے جو خالص نیت سے، خاموشی سے اور رب کی رضا کے لیے کیا جائے۔مگر آج کے دور میں نیکی بھی ایک کانٹینٹ بن چکی ہے۔...
17/05/2025

نیکی وہ عمل ہے جو خالص نیت سے، خاموشی سے اور رب کی رضا کے لیے کیا جائے۔
مگر آج کے دور میں نیکی بھی ایک کانٹینٹ بن چکی ہے۔ کسی کو کھانا کھلائیں، تو سیلفی لازم، کسی غریب کی مدد کریں، تو ویڈیو ضروری—ایسا لگتا ہے جیسے عمل سے زیادہ اس کی تشہیر اہم ہو گئی ہے۔

نیکی کرنے کے بعد جب انسان کی نیت کیمرے کی طرف مڑ جائے، تو نیکی کا پہلا حرف، یعنی "نون"، ضائع ہو جاتا ہے۔
پھر وہ نیکی نہیں رہتی، صرف ایک نمائش بن جاتی ہے۔
کیونکہ جو کام دکھاوے کے لیے کیا جائے، اس کا صلہ لوگوں سے ملتا ہے، رب سے نہیں۔

قرآن ہمیں اخلاص کا درس دیتا ہے، اور حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعمال کو قبول فرماتا ہے جو صرف اُس کی رضا کے لیے کیے جائیں۔
پھر اگر نیکی کے بدلے تصویریں، لائکس اور تعریفیں مطلوب ہوں، تو اللہ کے ہاں اس کا اجر کیوں کر باقی رہے گا؟

ابوبکر صدیق رازی

Address

Par Hoti
Mardan
23200

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Abu Bakar Siddiqui Razi posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share