
27/09/2025
شہزادی زیب النساء کی جدوجہد: بندوقوں کے سائے میں ورثے کی جنگ
سوات میں والی سوات کے تاریخی محل کا ایک حصہ اس وقت شدید تنازعہ کی زد میں ہے، جس نے جائیداد کے قانونی مسئلے کو تاریخی ورثے کی بقا کے سوال میں بدل دیا ہے۔ ایک طرف 72 سالہ شہزادی زیب النساء (والی سوات کی نواسی) ہیں جو محل کے تقدس اور ورثے کی حفاظت کے لیے کوشاں ہیں، اور دوسری طرف صوبائی وزیر فضل حکیم فیملی ہے، جو جائیداد کی قانونی ملکیت کا دعویٰ کر رہی ہے۔ تنازعہ کی جڑ والی سوات کی دوسری اہلیہ کے حصے میں آنے والے بنگلے کی فروخت ہے، جسے ان کے منہ بولے بیٹے شازیب نے مبینہ طور پر خاندانی مشاورت کے بغیر فضل حکیم فیملی کو فروخت کر دیا۔ شہزادی زیب النساء کے مطابق، 2021 میں جب وہ امریکہ میں تھیں، تو اس فروخت کے لیے ان کی بیمار نانی (والی سوات کی دوسری بیوی) سے مبینہ طور پر دھوکے سے دستخط لیے گئے، اور وہ اس غیر قانونی فروخت کو چیلنج کر رہی ہیں تاکہ شاہی خاندان کے 72 ورثاء کے حقوق کی حفاظت کی جا سکے۔ اس کے برعکس، فضل حکیم فیملی اپنی قانونی ملکیت پر قائم ہے، اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہ جائیداد ان کی اہلیہ کو ان کی والدہ کے ذریعے ملی تھی۔
شہزادی زیب النساء کی واپسی کے بعد، محل کے اندر فضل حکیم فیملی کے سکیورٹی اہلکاروں اور سیاسی کارکنان کی موجودگی پر کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ شہزادی کا کہنا ہے کہ فضل حکیم فیملی کے گھر میں داخل ہونے کا اصل راستہ الگ ہے، اور وہ جان بوجھ کر محل پر قبضہ کرنے کی نیت سے ان کے حصے کے مشترکہ راستے کو استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری جانب، فضل حکیم کے بیٹے کا کہنا ہے کہ دوسرا دروازہ چھت پر ہے، اور ان کی جائیداد کی دستاویزات میں یہی راستہ درج ہے، جس کے استعمال سے انہیں روکا جا رہا ہے۔ شہزادی زیب النساء نے اپنے والی سوات کی عزت کی خاطر اپنی رقم اکٹھی کی اور فضل حکیم فیملی کو تقریباً دوگنی رقم دے کر یہ حصہ واپس حاصل کرنے کی پیشکش کی۔ ابتدائی طور پر فضل حکیم کی بیوی کے بھائی ارشد خان شاہد نے رقم لے کر جائیداد واپس کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی، مگر جب شہزادی نے مطلوبہ رقم کا بندوبست کر لیا، تو فیملی نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ بنگلہ واپسی کے لیے مقرر کی گئی تاریخ گزر چکی ہے۔ زیب النساء کا دعویٰ ہے کہ رقم متعلقہ جرگہ مشران کے حوالے کر دی گئی تھی، جبکہ فضل حکیم فیملی اس کی سختی سے تردید کرتی ہے۔ کشیدگی اس وقت عروج پر پہنچی جب شہزادی کی جانب سے بنگلے کو تالہ لگائے جانے پر فضل حکیم کے حامیوں نے تالے سمیت گیٹ کو جڑ سے اکھاڑ دیا، جس پر شہزادی نے فضل حکیم فیملی پر بدمعاشی اور بچوں کی طرح جھوٹ بولنے کا الزام بھی عائد کیا۔
اور ایف آئی آر درج کیا جس پر ابھی تک کوئی کاروائی نہیں کی گئی زیبانسا کا کہنا تھا کے قانون صرف غریبوں کے لئے کسی وزیر یا طاقتور کے لیے کوئی قانون یا حد نہیں
اس صورتحال میں، سوات کا جرگہ تنازعہ حل کرانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن فضل حکیم فیملی کے انکار کے باوجود، وہ ان کے منتیں ترلے کر رہے ہیں کہ وہ بنگلہ واپسی پر راضی ہو جائے۔ اس تناظر میں بعض جرگہ ارکان (جیسے فیاض ظفر اور عبدالرحیم) کے بیانات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بظاہر تنازعہ کی ذمہ داری فضل حکیم صاحب پر عائد ہوتی ہے۔ اس تمام تر کشمکش کے دوران، وہ لوگ جو ہمیشہ والی سوات کے قصیدے پڑھتے تھے، وہ اس دلیر خاتون کی جدوجہد پر حیران کن طور پر خاموش ہیں۔ 72 سالہ شہزادی زیب النساء نے الزام لگایا ہے کہ وہ دھمکیوں اور بندوقوں کے سائے میں اپنی جنگ لڑ رہی ہیں۔ تاہم، ان کی تاریخی عزم واضح ہے: "یہ گھر والی سوات کا تاریخی ورثہ ہے اور وہ ہر حال میں اس گھر کے اس حصے کو واپس حاصل کرکے اس کے تقدس کو بحال کریں گی۔" حال ہی میں، اسی بنگلے پر سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی اور رائل فیملی سے اظہارِ یکجہتی کیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ معاملہ اب ایک عوامی مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا مقامی نظام اور قانون دونوں فریقین کو انصاف فراہم کرتے ہوئے اس تاریخی تنازعے کو حل کر پاتا ہے یا نہیں۔