Numal Info

Numal Info Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Numal Info, Media/News Company, Mianwali.

اس لڑکے کا نام محمد اکرم ہے یہ میانوالی نمل کے آبائی گاؤں حاجی عطر موڑ پر رہتا ہے اور پچھلے پانچ سالوں سے گھر سے لاپتہ ہ...
17/06/2025

اس لڑکے کا نام محمد اکرم ہے یہ میانوالی نمل کے آبائی گاؤں حاجی عطر موڑ پر رہتا ہے اور پچھلے پانچ سالوں سے گھر سے لاپتہ ہے اس کا دماغی توازن درست نہیں ہے گھر والوں نے ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کو یہ نہیں ملا۔آج صبح اس شخص کو چشمہ کی سڑک پر دیکھا گیا یہ تصویر اس کی پانچ سال پہلے کی ہے اگر کسی بھائی کو یہ شخص نظر ائے تو نیچے دیے گئے نمبر پر رابطہ کرے یا قریبی پولیس اسٹیشن میں اطلاع دیں۔ اپ کی خبر دیتے ہی وہاں لوا حقین پہنچ جائیں گے۔اپ کا ایک چھوٹا سا کام ایک گھر میں خوشی لا سکتا ہے۔*

*03323217804*
*ملک اویس اشرف اعوان*

کچھ لوگ دوسروں کو پریشان کرنے کے لئے بڑی محنت کرتے ہیں  ، پیسہ ضائع کرتے ہیں اور دوسروں کو پریشان کرتے ہیں  - ایسی صورت ...
17/06/2025

کچھ لوگ دوسروں کو پریشان کرنے کے لئے بڑی محنت کرتے ہیں ، پیسہ ضائع کرتے ہیں اور دوسروں کو پریشان کرتے ہیں - ایسی صورت میں سکون کہاں سے ملے۔
ایک تھا کتا اور ایک تھا بیل - بیل کھرلی سے گھاس کھاتا تھا اور کتا وہاں بیٹھ کر بھوکنے لگ جاتا تھا - کسی نے کتے سے پوچھا یہ گھاس تو تیرے کام کی نہیں ہے ، تو کیوں بھونکتا ہے؟
کہنے لگا جب یہ کھاتا ہے تو مجھے بڑی تکیلف ہوتی ہے ۔
مسلمانوں کا اصل پرابلم یہ ہے کہ خود کھا نہیں سکتے اور دوسرے کے کھانے سے تکلیف ہوتی ہے - سیاست میں زیادہ تر لوگ اس لئے پریشان ہیں کہ سارا مال ہی اس کا مخالف کھا گیا -
بے مقصد قسم کی پریشانی اور نفرت پیدا ہو جاتی ہے - اگر کوئی مکان بنا لے تو دوسرے خواہ مخواہ پریشان ہو جاتے ہیں حالانکہ ان کا تعلق ہی نہیں ہوتا - کسی نے پوچھا کہ بارش کا فائدہ کیا ہے اور نقصان کیا ہے؟

کہتا ہے بارش کا فائدہ یہ ہے کہ یہ ہمارے کھیت پہ برستا ہے اور نقصان یہ ہے کہ ساتھ والے کے کھیت پہ بھی برستا ہے - بس لوگوں کو اتنی بے سکونی ہے کہ کسی کو سکون میں بھی نہیں دیکھ سکتے۔
لوگ اس لئے کماتے ہیں کہ زندہ رہ سکیں اور اس لئے زندہ ہیں تاکہ کما سکیں۔

*مہمان کے لیے ڈنڈا*ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی دُور اُفتادہ دیہات میں ایک معزز مہمان آیا۔ بڑی آؤ بھگت ہوئی۔ گاؤں کا گاؤں ا...
16/06/2025

*مہمان کے لیے ڈنڈا*
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی دُور اُفتادہ دیہات میں ایک معزز مہمان آیا۔ بڑی آؤ بھگت ہوئی۔ گاؤں کا گاؤں اُس کے سامنے بچھا جا رہا تھا۔ کھانے کا وقت آیا تو انواع و اقسام کی نعمتیں اُس کے سامنے دسترخوان پر لا کر چُن دی گئیں۔ ساتھ ہی ایک بڑی سی سینی میں ایک لمبا سا اور موٹا سا ڈنڈا بھی لا کر رکھ دیا گیا۔ مہمان نعمتیں دیکھ کر تو خوش ہوا مگر ڈنڈا دیکھ کر ڈر گیا۔ سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا: ’’آپ لوگ یہ ڈنڈا کس لیے لائے ہیں؟‘‘۔
میزبانوں نے کہا: ’’بس یہ ہماری روایت ہے۔ بزرگوں کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ مہمان آتا ہے تو اُس کے آگے کھانے کے ساتھ ساتھ ڈنڈا بھی رکھ دیتے ہیں‘‘۔
مہمان کی تسلی نہ ہوئی۔ اُسے خوف ہوا کہ کہیں یہ تمام ضیافت کھانے کے بعد ڈنڈے سے ضیافت نہ کی جاتی ہو۔ اُس نے پھر تفتیش کی:
’’پھر بھی، اس کا کچھ تو مقصد ہوگا۔ کچھ تو استعمال ہوگا۔ آخر صرف مہمان کے آگے ہی ڈنڈا کیوں رکھا جاتا ہے؟‘‘۔
میزبانوں میں سے ایک نے کہا: ’’اے معزز مہمان! ہمیں نہ مقصد معلوم ہے نہ استعمال۔ بس یہ بزرگوں سے چلی آنے والی ایک رسم ہے۔ آپ بے خطر کھانا کھائیے‘‘۔
مہمان نے دل میں سوچا: ’’بے خطر کیسے کھاؤں؟ خطرہ تو سامنے ہی رکھا ہوا ہے‘‘۔
پھر اس نے اعلان کردیا: ’’جب تک آپ لوگ یہ نہیں بتائیں گے کہ آپ کے یہاں بزرگوں کے زمانے سے مہمان کے دسترخوان پر ڈنڈا کیوں رکھا جاتا ہے، کیڑے کو پتھر میں رزق پہنچانے والے کی قسم! میں آپ کا ایک لقمہ بھی نہیں کھاؤں گا‘‘۔
اب تو پورے گاؤں میں کھلبلی مچ گئی کہ مہمان نے کھانے سے انکار کر دیا ہے۔ گاؤں کے ایک بزرگ بلائے گئے۔ انہوں نے سارا ماجرا سنا اور دسترخوان پر رکھا ہوا ڈنڈا دیکھا تو برس پڑے:
’’ارے کم بختو! تم نے اتنا بڑا ڈنڈا لا کر رکھ دیا؟ اِسے کم کرو۔ ہمارے بزرگ مہمان کے سامنے اتنا بڑا ڈنڈا نہیں رکھتے تھے‘‘۔.

ڈنڈا فی الفور آری سے کاٹ کر دو تین فٹ کم کر دیا گیا۔ مگر مہمان پھر بھی مطمئن نہیں ہوا۔ اسے اپنے سوال کا جواب درکا ر تھا۔ اب ایک نسبتاً زیادہ بزرگ بلائے گئے۔ انہوں نے بھی سارا ماجرا سنا۔ انہوں نے بھی ڈنڈا ناپ کر دیکھا۔ اور انہوں نے بھی اعتراض کیا:
’’ڈنڈا اب بھی بڑا ہے۔ ہمارے بزرگ تو مہمانوں کے آگے ایک چھوٹی سی پتلی سی ڈنڈی رکھا کرتے تھے‘‘۔
مذکورہ بزرگ کے کہنے پر باقی ماندہ ڈنڈا کاٹ کر اور چھیل کر ایک چھوٹی سی ڈنڈی بنا دیا گیا۔

گو کہ اب ڈنڈے کا سائز اور جسامت خطرے سے باہر ہوگئی تھی، مگر مہمان کا تجسس برقرار رہا۔ اب تک آنے والے بزرگوں نے صرف سائز اور خطرات ہی کم کیے تھے۔ اس کا استعمال اور اس کا مقصد کوئی نہ بتا سکا تھا۔ مہمان اب بھی کھانا زہر مار کرنے پر تیار نہ ہوا۔ اب ڈھونڈ ڈھانڈ کر گاؤں کا ایک ایسا بزرگ ڈنڈا ڈولی کرکے لایا گیا جس کے سر کے بال ہی نہیں بھنویں تک سفید ہو چکی تھیں۔

محتاط سے محتاط اندازے کے مطابق بھی بزرگ کی عمر ۹۹ سال سے کم نہ ہوگی۔ سجھائی بھی کم دیتا تھا۔ جب انھیں ڈنڈے کی شکل و صورت اور اس کا سائز تفصیل سے بتایا گیا تو وہ بھڑک کر اپنی لاٹھی ڈھونڈنے لگے۔ چیخ کر بولے: ’’ارے عقل کے اندھو! ہمارے بزرگ مہمان کے سامنے ایک چھوٹی سی پیالی میں ایک ننھا منا سا تنکا رکھا کرتے تھے، تاکہ اگر مہمان کے دانتوں کی ریخوں میں گوشت کا کوئی ریزہ پھنس جائے تو وہ خلال کرکے اسے نکال باہر کرے‘‘۔

زندگی کے کسی بھی شعبے میں کوئی نئی بات، کوئی بدعت، شروع تو خلال کے تنکے ہی سے ہوتی ہے، مگر پھر اس کے پیروکار اسے بڑھا کر لمبا سا اور موٹا سا ڈنڈا بنا دیتے ہیں اور اس پر بھی مطمئن نہیں ہوتے.
( احمد حاطب صدیقی صاحب کی تحریر '' مہمان کے لیے ڈنڈا'' سے

بھیک دینے سے غریبی ختم نہیں ہوتی!"ہم نے دو نوعمر بچوں کو لیاایک کو پرانے کپڑے پہنا کر بھیک مانگنے بھیجااور دوسرے کو مختل...
16/06/2025

بھیک دینے سے غریبی ختم نہیں ہوتی!
"ہم نے دو نوعمر بچوں کو لیا
ایک کو پرانے کپڑے پہنا کر بھیک مانگنے بھیجا
اور دوسرے کو مختلف چیزیں دے کر فروخت کرنے بھیجا،
شام کو بھکاری بچہ آٹھ سو
اور مزدور بچہ ڈیڑھ سو روپے کما کر لایا.
اس سماجی تجربے کا نتیجہ واضح ہے۔
دراصل بحیثیت قوم، ہم بھیک کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں
اور محنت مزدوری کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں.

ہوٹل کے ویٹر، سبزی فروش اور چھوٹی سطح کے محنت کشوں کے ساتھ ایک ایک پائی کا حساب کرتے ہیں
اور بھکاریوں کو دس بیس بلکہ سو پچاس روپے دے کر سمجھتے ہیں کہ جنت واجب ہوگئی.
ہونا تو یہ چاہئے کہ مانگنے والوں کو صرف کھانا کھلائیں
اور مزدوری کرنے والوں کو ان کے حق سے زیادہ دیں.
ہمارے استاد فرماتے ہیں کہ بھکاری کو اگر آپ ایک لاکھ روپے نقد دے دیں تو وہ اس کو محفوظ مقام پر پہنچا کر اگلے دن پھر سے بھیک مانگنا شروع کر دیتا ہے.

اس کے برعکس
اگر آپ کسی مزدور یا سفید پوش آدمی کی مدد کریں تو
وہ اپنی جائز ضرورت پوری کرکے زیادہ بہتر انداز سے اپنی مزدوری کرے گا.
کیوں نہ گھر میں ایک مرتبان رکھیں؟ بھیک کے لئے مختص سکے اس میں ڈالتے رہیں.
مناسب رقم جمع ہو جائے تو اس کے نوٹ بنا کر ایسے آدمی کو دیں جو بھکاری نہیں.
اس ملک میں لاکھوں طالب علم، مریض، مزدور اور خواتین ایک ایک ٹکے کے محتاج ہیں.

صحیح مستحق کی مدد کریں تو ایک روپیہ بھی آپ کو پل صراط پار کرنے کے لئے کافی ہو سکتا ہے.
یاد رکھئے!
بھیک دینے سے گداگری ختم نہیں ہوتی،بلکہ بڑھتی ہے.
خیرات دیں،
منصوبہ بندی اور احتیاط کے ساتھ،
اس طرح دنیا بھی بدل سکتی ہے اور آخرت بھی.
باقی مرضی آپ کی"
مزیدایسی اور پوسٹ کیلئے لائک فالو لازمی کر لیں۔۔۔

موٹروے کے دونوں طرف جو باؤنڈری کے اندر زمین ہے اس پہ سفیدہ لگا ہوا ہے سمجھ نہیں آتی کہ اس سفیدے کا کیا فائدہ ہے. انتہائی...
16/06/2025

موٹروے کے دونوں طرف جو باؤنڈری کے اندر زمین ہے اس پہ سفیدہ لگا ہوا ہے سمجھ نہیں آتی کہ اس سفیدے کا کیا فائدہ ہے. انتہائی زرخیز زمین ہے پھر سفیدہ لگانے کی بات کچھ سمجھ نہیں آتی.

اگر موٹر وے "ون "جو پشاور سے اسلام باد تک ہے اس کے گرد آڑو, زیتون, انار, کالی مرچ, اور سیب وغیرہ کے پودے لگا دیے جائیں جن کے لئے وہاں کی آب و ہوا ساز گار ہے تو کتنی خوبصورتی ہوگی اور کتنا زیادہ فروٹ بھی حاصل ہوجائے گا.
اسی طرح موٹروے" ٹو" پہ اسلام آباد سے کلر کہار تک صنوبر اور لوکاٹ بڑا زبردست ہو سکتا.لِلہ سے لے کر بھیرہ تک بیری کا درخت بہت کامیاب ہے.
اسی پہ بھیرہ سے لے کر پنڈی بھٹیاں تک مسمی, کنو, سنگترہ اور گریٹ فروٹ بہت کامیاب ریے گا. پنڈی بھٹیاں سے لاہور تک امرود, فالسہ, لیچی, انگور اور جامن بہترین پرورش پا سکتے.

موٹروے" تھری" پہ پنڈی بھٹیاں سے فیصل آباد اور موٹروے "فور" پہ لاہور سے عبدالحکیم اور فیصل آباد سے عبدالحکیم پہ بھی امرود, آم, جامن, فالسہ ,بیری اور شہتوت وغیرہ کامیاب پودے رہیں گے. موٹروے" فائیو "ملتان سے سکھر پہ بھی بہت اعلٰی اقسام کےکھجور اور آم کے درخت لگائے جا سکتے.

آپ کو پتہ ہوگا آم پھلوں کا بادشاہ ہے اور اس کی 100 سے زیادہ اقسام ہیں لہذا اس پہ یہ ساری اقسام لگائی جا سکتی ہیں. اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کی ان پھل دار پودوں کی نگہداشت کون کرے گا تو اس کے لئے مالی بھی رکھے جا سکتے ہیں, یا پھر باغات ٹھیکے پر دئیے جا سکتے ہیں اس طرح ملک پہ بوجھ بھی نہیں بنے گا الٹا یہ پھل دار درخت گورنمنٹ کو منافع دیں گے. اور ہزاروں لوگوں کو روز گار ملے گا. اور مزید برآں پھل پورے ملک میں سستا ھو جائے گا اور پھر حکومت اسے ایکسپورٹ بھی کر سکتی ھے۔

سفیدے کے درخت کے کئی نقصان ہیں، علاقے کا زیر زمین پانی چوس لیتے ہیں.
نہروں اور سڑکوں کے کنارے ہمیشہ جو مقامی درخت لگتے آئے ہیں، شیشم (ٹاہلی)، نیم ، دیسی کیکر، شرینہ، پیپل، املتاس، بڑ (بوڑھ) وغیرہ، ان پر بھی غور کرلیا جائے۔
ایک اور درخت جس کا آج کل دنیا بھر میں چرچا ہے، جسے سپر فوڈ قرار دیا جارہا ہے یعنی سوہانجنا، بہت آسانی سے لگایا اور پھیلایا جاسکتا ہے.

اور دونوں سڑک کے درمیانی جگہ میں تمام سبزیاں اور فروٹ کی کاشت کی جائے۔

حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سکھ گھرانے سے تھے، اسلام قبول کرلیا، دارالعلوم دیوبند میں پڑھنے آ گئے، یہ فرمایا کرتے تھے ک...
16/06/2025

حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سکھ گھرانے سے تھے، اسلام قبول کرلیا،
دارالعلوم دیوبند میں پڑھنے آ گئے،
یہ فرمایا کرتے تھے کہ میرے سسر بڑے سمجھ دار آدمی تھے، انہوں نے احمد علی کو اس وقت پہچانا جبکہ احمد علی احمد علی نہیں تھا،

حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ یہ ولایت کبری کے مقام کے لوگوں میں سے تھے، مستجاب الدعوات بزرگوں میں سے تھے، ان کا درس قرآن بہت مقبول تھا، بہت مانی ہوئی غیر متنازع شخصیت تھی، اپنی شادی کا واقعہ سناتے ہیں، ذرا شوق و توجہ سے سنیں، فرماتے ہیں کہ میرے سسر کو بیوی نے اطلاع دی کہ میری بیٹی کی عمر پوری ہو گئی کوئی مناسب رشتہ ہو تو اس کا فرض نبھائیں، تو میرے سسر پنجاب کے مدارس میں اپنی بیٹی کے لیے مناسب بچہ ڈھونڈنے کے لیے نکلے، مدارس میں راؤنڈ کرتے کرتے بالآخر دارالعلوم میں پہنچے،
شیخ الہندؒ کے خصوصی دوست تھے، ان سے ملاقات ہوئی تو دورۂ حدیث کے طلباء پر نظر ڈالی، فوراً ان کی نظر میرے اوپر ٹک گئی، انہوں نے شیخ الہندؒ سے پوچھا کہ یہ بچہ شادی شدہ ہے؟ انہوں نے کہا،
نہیں اسے کون لڑکی دے گا، یہ نو مسلم گھرانے کا لڑکا ہے اور یہاں کئی دفعہ بیٹھا ہوتا ہے، چپ رہتا ہے بے چارہ، اس درویش کو کون بیٹی دے گا؟ انہوں نے کہا کہ اچھا آپ ان سے پوچھیں اگر یہ تیار ہوں تو میں اپنی بیٹی کے ساتھ نکاح کر دوں گا؟ فرمایا پوچھ لیتے ہیں، شیخ الہندؒ نے پوچھا تو کہنے لگے کہ حضرت میں بے یارومددگار سا بندہ ہوں، اگر کوئی مجھے اپنا بیٹا بنائے اور اپنی بیٹی کا رشتہ دے تو میں تو اس سنت پر عمل کر لوں گا اور اس سے زیادہ خوش نصیبی کیا ہو سکتی ہے؟

انہوں نے بتا دیا، چنانچہ سسر نے کہا کہ کل عصر کے بعد ہم ان کا نکاح پڑھ دیں گے، فرمانے لگے کہ میں کمرے میں آ گیا، اب میں نے اپنے دوستوں کو بتا دیا کہ بھئی کل میرا نکاح ہونا ہے، لہٰذا یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح سب لڑکوں میں پھیل گئی، اب لڑکے آنے شروع ہو گئے،
جناب کوئی کچھ کہتا ہے، ایک نے کہا بھئی بات یہ ہے کہ یہ جو تم نے کپڑے پہنے ہوئے ہیں یہ تو بہت میلے کچیلے پرانے ہیں، تم کسی سے ادھار لے کر دوسرے پہن لو، میں نے کہہ دیا بھائی بات یہ ہے کہ میں نے کبھی کسی سے ادھار نہیں مانگا، جو ہیں میرے اپنے ہیں،
میں کسی سے لے کر نہیں چلتا۔ ساتھی نے کہا اچھا اگر آپ کسی سے ادھار نہیں مانگ سکتے تو مت مانگئے، ایسا کریں کہ کل ان کپڑوں کو آپ دھو کر صاف کرکے پھر پہن لینا، مجمع میں کم از کم صاف کپڑوں میں تو بیٹھو گے، فرمانے لگے میری بدبختی آ گئی کہ میں نے ہاں بھر لی، اگلے دن سبق ختم ہوا تو میں نے دھوتی سی باندھی اور کپڑے اتارے اور ان کو دھو ڈالا۔ اللہ کی شان سردیوں کا موسم اوپر سے بادل آگئے،

اب ظہر کا وقت بھی قریب آ گیا، میرے کپڑے گیلے میں مسجد کے پیچھے جا کر کپڑوں کو لہرا رہا ہوں اور اللہ سے دعا مانگ رہا ہوں،
اللہ میرے کپڑے خشک کر دے، وہ تو نہ ہونے تھے نہ ہوئے اور ظہر کی اذان ہو گئی، اب مجھے مجبوراً گیلے کپڑے پہن کر سردی کے موسم میں مجمع میں بیٹھنا پڑا، اب سب کہیں کہ جی دولہا کون ہے؟ اب سب کی نظر مجھ پر پڑے اور پتہ چلے گیلے کپڑے سردی میں پہن کے بیٹھا ہے،
فرمانے لگے میرے سسر کو اللہ نے وہ سونے کادل دیا تھا انہوں نے دیکھا کہ کل یہی کپڑے تھے اور میلے تھے، آج یہی ہیں اور گیلے ہیں،

اس کا مطلب یہ کہ اس بچے کے پاس دوسرا جوڑا بھی نہیں ہے، ان کے دل پر اس بات کا کوئی اثر نہ ہوا وہ تو میری پیشانی کے نور کو دیکھ رہے تھے۔مرد حقانی کی پیشانی کا نور۔۔کب چھپا رہتا ہے پیش ذی شعور۔تو کہنے لگے انہوں نے میرا نکاح پڑھ دیا، جب میں فارغ ہوگیا،
دورۂ حدیث سے اور رخصتی ہوگئی تو جب میں بیوی کو لے آیا تو ابتدائی ایک دو مہینے میرے پاس رہی، ان میں بھی اسے فاقہ کرنا پڑا، کیوں کہ میرے پاس تو کچھ ہوتا نہیں تھا، جو ملتا ہم دونوں کھا لیتے ورنہ فاقہ سے دن گزارتے۔
مہینہ کے بعد وہ اپنے میکے گئی جیسے بچیاں جاتی ہیں، شادی کے بعد تو فرماتے ہیں کہ جب وہ اپنے گھر گئی تو اس کی ماں نے پوچھا بیٹی تو نے اپنے گھر کو کیسا پایا؟ فرمانے لگی،
اتنی عفیفہ صالحہ عابدہ وہ بچی تھی اپنی ماں سے کہنے لگی کہ امی میں تو سنتی تھی کہ مر کر جنت میں جائیں گے اور میں تو جیتے جاگتے جنت میں پہنچ گئی ہوں، اللہ اکبر کبیرا! اتنی صابرہ شاکرہ تھی، کہنے لگے بس پھر اللہ تعالیٰ نے میرے گھر میں برکتیں دینی شروع کر دیں، جب خاوند ایسا ہو اور بیوی ایسی ہو تو پھر برکتیں کیوں نہ ہوں گی، چنانچہ حضرت فرمانے لگے ایک وہ وقت تھا کہ کھانے کو نہیں ملتا تھا،
اور ایک آج احمد علی پر وہ وقت ہے کہ میرے کھانے کے لیے طائف سے پھل آتے ہیں اور پھر انہوں نے فرمایا کہ سرگودھا کے علاقہ کے بڑے بڑے لوگ جو سرگودھا کے کلیار ہیں، ان کی بیویاں آج میرے گھر میں آ کر برکت کے لیے جھاڑو دے کر جاتی ہیں،آج اللہ کا مجھ پر اتنا کرم ہے۔
تو کتنی عجیب بات ہے کہ سکھ گھرانے کا بچہ جس کا کوئی اپنا نہیں تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کو دنیا میں ایسی عزتیں عطا فرما دیں، چنانچہ مشہور واقعہ ہے کہ اپنی وفات کے بعد وہ علماء میں سے کسی بڑے عالم کو خواب میں نظر آئے، اس نے پوچھا حضرت آگے کیا بنا تو حضرت کثیر البکاء تھے (کثرت سے روتے تھے) خوف خدا ہر وقت دل پر رہتا تھا، فرمانے لگے اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی ہوئی تو پروردگار نے فرمایا احمد علی تو اتنا روتا کیوں تھا؟ کہنے لگے جب مجھ سے پوچھا تو مجھے خیال آیا کہ نبی کریمؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے ’’جس سے حساب کتاب میں پوچھ شروع ہو گئی وہ نہیں بچے گا‘‘ تو میں ڈر گیا اور جب میں ڈرا تو پروردگار نے فرمایا احمد علی اب بھی ڈر رہے ہو، آج تمہارے ڈرنے کا نہیں خوش ہونے کا دن ہے،
ہم نے تمہیں معاف کر دیا اور جس قبرستان میں تمہیں دفن کیا وہاں کے سب گناہ گاروں کو بھی ہم نے معاف کر دیا، چنانچہ ان کی قبر کی مٹی سے خوشبو آیا کرتی تھی، ہزاروں انسانوں نے ان کی قبر کی مٹی اٹھا کر گھر لے جانا شروع کر دیا تھا، تو علماء متوجہ ہوئے، پھر انہوں نے مل کر مستقل دعا مانگی اے اللہ! بس جو چیز ظاہر ہو رہی ہے ، اس ظہور کو ختم کر دے، ورنہ لوگ مٹی ہی نہیں چھوڑیں گے،
اللہ تعالیٰ نے اتنے صلحاء کی دعا کو قبول کر لیا، تب جا کر ان کی قبر سے خوشبو آنی بند ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ عزتیں عطا فرما دیتے ہیں، جس کا اپنا کوئی نہیں ہوتا ساری دنیا پھر اس کی بن جاتی ہے، جس کو کھانے کے لیے روٹی نہیں ملتی، اس کو کھانے کے لیے پھر طائف سے پھل آیا کرتے ہیں، ماشاء اللہ میرے دوستو آج کے زمانے میں تو یہ آسان ہے، جب بحری جہاز آتے جاتے تھے اس زمانہ میں طائف سے پھل آنا کوئی آسان کام نہیں تھا، تو اللہ رب العزت دنیا میں عزتیں عطا فرماتے ہیں۔

ایک نایاب جانوراور ہماری غلط فہمی              پنگولین ایک نایاب جانور ہے اور دنیا میں اس کی نسل اب نایاب ہوتی جا رہی ہے...
16/06/2025

ایک نایاب جانوراور ہماری غلط فہمی
پنگولین ایک نایاب جانور ہے اور دنیا میں اس کی نسل اب نایاب ہوتی جا رہی ہےاس جانور کے اوپر مھچلی کی طرح کے چھلکے ہوتے ہیں وہ اس مادے کے بنے ہوتے ہیں جس سے ہمارے ناخن اور بال بنے ہوتے ہیں ۔یہ انسان دوست جانور ہے ۔بعض افریقی ممالک میں پنگولین کی نسل کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔لاعلمی کی بدولت ہم اس ماحول دوست جانور کی نسل کُشی کر رہے ہیں جو کہ ہمارے ماحول کے لیے بھی دُرست نہیں اور نایاب نسل بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔پچھلے سال ھری پور میں بھی مقامی آبادی نے پینگولین کو مارڈالا تھا۔ اکثر ھمارے علاقوں میں لوگ اس بے ضرر اور معصو م جانور کو مار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ " گور کح می مڑ کو" اسے ھم جہالت کیوجہ سے مردے کھانے والا سمجھتے ہیں۔
پینگولین جسے عام زبان میں چیونٹی خور یا مُورخور کہتے ہے۔ یہ ایک بےضرر ممالیہ اور ماحول دوست جانور ہے۔ بدقسمتی سے یہ جانور بعض اوقات غلطی سے آبادی کی طرف آجاتاہے۔ یہ عام طور پر قبرستانوں میں نظر آتا ہے جس کو عام لوگ قبر سےمردے نکالنے والا جانور مردہ خور (گورگخ) سمجھ کرماردیتے ہے۔۔۔ شاید آپ کےسامنےبھی اس طرح کا واقعہ ہوا ہو۔ پاکستان میں تو اس کی نسل قریبا'' معدوم ہونے کے قریب ہے۔ہمارے یہاں ہر وہ جانور جو عام نہ ہو اسے بلا سمجھ کر مار دیا جاتا ہے۔
جبکہ اس کی قبرستانوں میں موجودگی وہاں پائ جانے والی چیونٹیاں ہیں جو اس کی خوراک ہیں۔ یہ ایک دن میں پینتیس ہزار کے قریب چیونٹیاں کھا جاتا ہے۔ اس کا منہ بہت پتلا تھوتھنی نما ہوتا ہے جس میں انتہائی لمبی زبان ہوتی ہے۔ تو بھلا یہ مردہ یا ھڈیاں کیسےکھا چبا سکتا ہے؟ یہ دودھ پلانے والا جانور ہے جو Myrmecophagidae خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی غذا چیونٹی اور دیمک ہے۔ تحقیق کے مطابق چیونٹی خوروں کی نسل میں اب تک دریافت کئے جانے والے جانوروں میں سب سے بڑے جانور کی جسامت 4 فِٹ (1.2 میٹر) ہے جو دُم کے علاوہ ہے اور 2 فِٹ (60 سینٹی میٹر) تک اس کی اونچائی ہے۔ اس کا سر سَنکی نُما اور دُم کانٹوں والی ہوتی ہے۔ یہ زیادہ تر مٹیالا ہوتا ہے جبکہ سینے پر کالی دھاریاں پائی جاتی ہیں جو کاندھوں سے ہوتی ہوئی کمر تک آتی ہیں۔ اس کی ایک قسم بال دار جبکہ ایشیا افریہ میں پائ جانے والی قسم کے جسم پر مضبوط چھلکے نما اسکیلز ہوتے ہیں۔ ان کے بازو انسانی بازو جیسے اور تیز لمبے مضبوط نوکیلے مڑے ہوئے پنجوں والے ہوتے ہیں جن کی مدد سے یہ زمین کھود کر چیونٹیاں یا دیمک نکالتے ہیں۔ان کی زبان انتہائ لمبی اور لیسدار چپکنے والی ہوتی ہے۔ یہ چیونٹی دیمک کے بل میں اپنی زبان داخل کرتا ہے جس سے بے شمار چیونٹیاں اس کی زبان سے چپک جاتی ہیں جن کو یہ کھاجاتا ہے۔چیونٹی خور جنوبی اور وسطی امریکا کے بڑے رقبے پر پائے جاتے ہیں اس کے علاوہ یہ گرم مرطوب، دریائی اور دلدلی خطّوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں پائے جانے والا پینگولین جسے انڈین پینگولین Manis crassicaudata کہتے ہیں ۔اس کو انٹر نیشنل یونین فار کنزرویوشن آف نیچر IUCN نے 2014 میں اپنے رڈ لسٹ میں شامل کردیا ہے۔ یہ انڈیجرڈ سپیشی ہے۔
پاکستان میں آبادی میں آنےکے علاوہ بھی پہاڑ میں نظر آنےپر لوگ اسے مردہ خور سمجھ کر ماردیتے ہے۔ انسانوں کی کم واقفیت کی وجہ سے پینگولین کی نسل ختم ہونےکی قریب ہے
محکمہ وائلڈ لائف کو چاہیے کہ اس جانور کے بارے میں عوام میں اگاہی مہم چلائی جائے تاکہ اس نایاب جانور کی نسل محفوظ بنایا جا سکے۔

کاپی پیسٹ کریں ۔ پینگولین کو معدوم ہونےسے بچایے۔۔۔۔۔

ایک مسافر کو دوران سفر رات ہوگئ۔ رات گزاری کیلئے ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا' وہ گھر میراثیوں کا تھا۔ انھوں نے مسافر کو ...
15/06/2025

ایک مسافر کو دوران سفر رات ہوگئ۔ رات گزاری کیلئے ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا' وہ گھر میراثیوں کا تھا۔ انھوں نے مسافر کو پناہ دے دی۔ رات کے دوران مسافر کی گھوڑی نے بچہ (وچھیرا) جن دیا۔ صبح تڑکے جب مسافر شکریہ ادا کر کے رخصت ہونے لگا' تو میراثیوں نے گھوڑی کے بچے کو روک لیا اور بولے کہ اس کو تم نہیں لے جا سکتے ' یہ تو ہماری گائے کا بچھڑا ہے۔ مسافر بہت پریشان ہوا اور بولا "خدا کے بندو! یہ گائے کا بچھڑا نہیں گھوڑی کا بچہ ہے، پر وہ نہ مانے ' گاؤں والوں نے بھی مسافر کو اکیلا جان کر میراثیوں کی سائیڈ لی۔

آخر کار فیصلہ گاؤں کے چوہدری کے پاس پہنچا' چوہدری صاحب نے بھی سوچا کہ مسافر تو چلا جائے گا لیکن میراثیوں نے میرے سدا کام آنا ہے'.

سو انھوں نے گہری سوچ سے چونکتےُہوئے ارشاد فرمایا کہ میرے دادا مرحوم مرتے وقت مجھے بتا گئے تھے کہ میراثیوں کی گائے جب بچہ جنتی ہے تو وہ وچھیرا (گھوڑی کا بچہ) ہی ہوتا ہے۔مسافر مایوس ہو کر فقط اپنی گھوڑی کو لے کر اپنی راہ چل پڑا کہ کہیں یہ بھی نہ چھن جائے۔

جب مسافر رخصت ہو گیا تو میراثیوں نے رونا پیٹنا شروع کر دیا' چوہدری نے حیرانگی سے پوچھا کہ روتے کیوں ہو?

میراثی نے جواب دیا کہ چوہدری روتے اس لئے ہیں کہ ُتو مر گیا تو تیرے جیسا منصف کہاں سے ڈھونڈیں گے.

زندگی کی حقیقت بس یہی ھے242 لوگ ایک ✈️۔۔۔ اپنے شہر سے لندن کے لئے اڑان بھرتے ہیں معلوم نہیں کتنے سپنے سجائے کو ئی محبوب ...
13/06/2025

زندگی کی حقیقت بس یہی ھے
242 لوگ ایک ✈️۔۔۔ اپنے شہر سے لندن کے لئے اڑان بھرتے ہیں معلوم نہیں کتنے سپنے سجائے کو ئی محبوب سے ملنے👫

کوئی کاروبار کرنے💼📁🧑‍💻 کوئی نوکری کرنے 🧑‍🏭🧑‍🔬🧑‍🚒👷‍♂️

کوئی ڈگری🧾🧑‍🎓 مکمل کرنے جا رہا ہو گا
وہاں کچھ آنکھیں منتظر👀 ۔۔۔گن گن کر منٹ گزارتی رہی⌚️ ہونگی ۔۔ لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ھے۔۔۔

کنڑول روم میں کال📞 کی دومنٹ کی پرواز کے بعد اور پھر سارے رابطہ کٹ گئے✂️ ہمیشہ کے لئے۔۔۔

دل سے دل کے💕۔۔۔ روح سے روح کے👥️۔۔۔ فون سے فون کے۔۔۔آنکھوں سے آنکھوں کے🫲🫳

😭😭

13/06/2025

‏قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران صاحبزادہ حامد رضا کا اسرائیل کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران پر حملے کے حوالے سے اظہار خیال.

دنیا کا بھولا ہوا عجوبہ: آرمینیا کا ہارٹاشین میگالتھک ایونیوکیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ دنیا میں ایسے آثارِ قدیمہ بھی موجو...
13/06/2025

دنیا کا بھولا ہوا عجوبہ: آرمینیا کا ہارٹاشین میگالتھک ایونیو

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ دنیا میں ایسے آثارِ قدیمہ بھی موجود ہیں جو آج تک دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں؟
آرمینیا کے پہاڑوں کے بیچ چھپا ہوا "ہارٹاشین میگالتھک ایونیو" دنیا کے قدیم ترین عجائبات میں سے ایک ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ مقام 6,000 سے 8,000 سال پرانا ہے — یعنی پرامڈز اور اسٹون ہینج سے بھی قدیم!

یہ جگہ دیو ہیکل پتھروں پر مشتمل ہے، جو نہایت ترتیب سے زمین پر پھیلے ہوئے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ راستہ کس لیے بنایا گیا؟
کیا یہ کوئی مذہبی رسومات کا مقام تھا؟ یا پھر کسی قدیم فلکیاتی مشاہدے کا مرکز؟
اس کے بارے میں آج بھی کوئی یقینی جواب موجود نہیں — یہ ایک ایسا راز ہے جو زمین کے نیچے دفن ہے۔
بھولی بسری تہذیب کی گواہی
جہاں دنیا بھر میں اسٹون ہینج جیسے مقامات کو شہرت ملی، وہیں ہارٹاشین آج بھی مین اسٹریم آثارِ قدیمہ کی دنیا سے چھپا ہوا ہے۔
یہ دیو قامت پتھر، جو صدیوں سے اپنی جگہ قائم ہیں، شاید ایک ایسی قدیم تہذیب کا نشان ہیں جو خلاء، زمین اور رسومات کا گہرا شعور رکھتی تھی۔

دنیا کی توجہ کا منتظر
بدقسمتی سے یہ جگہ آج بھی غیر دریافت شدہ اور تحقیقات سے محروم ہے۔ اگر دنیا کی نظریں یہاں مرکوز ہوں تو ممکن ہے کہ انسانی تاریخ کے بڑے راز کھل کر سامنے آ جائیں۔

تصور کریں — ایک قدیم راستہ، جسے ہزاروں سال پہلے بنایا گیا تھا، مگر آج بھی اپنی کہانی سنانے کے لیے خاموش کھڑا ہے۔
ایسی جگہیں نہ صرف تاریخ سے محبت رکھنے والوں کے لیے جنت ہیں بلکہ آن لائن ارننگ، یوٹیوب ڈاکیومنٹریز، اور بلاگنگ کے لیے بھی بہترین مواقع فراہم کرتی ہیں۔ جو لوگ تاریخی رازوں پر ویڈیوز یا بلاگز بناتے ہیں، ان کے لیے Hartashen Megalithic Avenue ایک گولڈ مائن بن سکتا ہے۔

ایسی مزید حیرت انگیز اور چھپی ہوئی تاریخی داستانوں کے لیے ہمارا پیج ضرور فالو کریں، تاکہ آپ کو وہ کہانیاں ملتی رہیں جو دنیا بھول چکی ہے۔


مردان کے علاقے رستم بازار میں رہنے والے نورداد اپنی آٹا چکی سے محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ 31 مئی کا د...
13/06/2025

مردان کے علاقے رستم بازار میں رہنے والے نورداد اپنی آٹا چکی سے محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ 31 مئی کا دن ان کے لیے قیامت بن کر آیا جب ان کے 14 سالہ بیٹے جواد خان کو، جو نویں جماعت کا طالب علم تھا، اسکول جاتے ہوئے ایک گاڑی نے ٹکر مار دی۔ حادثے میں جواد شدید زخمی ہوگیا۔ والدین نے اسے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی، کئی اسپتالوں کے چکر کاٹے، مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جواد وینٹی لیٹر پر پہنچ گیا اور اس کی زندگی کی امیدیں دم توڑ گئیں۔ایسے کڑے وقت میں، جب اکثر لوگ حوصلہ کھو بیٹھتے ہیں، جواد کے والد نے ایک بڑا اور انسانیت بھرا فیصلہ کیا۔ انہوں نے بیٹے کے اعضاء عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ جواد کی موت کسی اور کی زندگی کا سبب بن سکے۔ قانونی کارروائی مکمل ہونے کے بعد جواد کی دونوں آنکھیں، جگر اور گردے نکالے گئے، جن سے پانچ افراد کو زندگی کا تحفہ ملا۔
7 جون کو جواد کی تدفین کردی گئی۔ گھر والوں کو تسلی ہے کہ ان کے بیٹے کا کچھ حصہ آج بھی زندہ ہے اور دوسروں کے جسموں میں سانس لے رہا ہے۔
جواد کے دادا نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ رستم میں بائی پاس روڈ بنایا جائے تاکہ آئندہ کسی اور کا بچہ ایسے حادثے کا شکار نہ ہو۔

Address

Mianwali

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Numal Info posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Numal Info:

Share