03/07/2025
عاشوراء محرّم کا تاریخی پسِ منظر اور
روزہ کی فضیلت فرامینِ نبوی کی روشنی میں
تحریر ✍️: محمد اسماعیل قریشی
=========================
جس دن خلّاقِ عالَم نے اس جہانِ رنگ و بو کو وجود بخشا اور ماہ و سال مقرر فرمائے تو بارہ مہینوں کی گنتی پوری کر کے ان میں سے چار کو حرمت و شرافت کا چوغہ پہنا دیا جس پر آیت قرآنی "مِن٘ھَا أر٘بَعَۃٌ حُرُمٌ" دالّ ہے، اور ان چار میں سے ایک ماہِ محرّم ہے، افضل الأشھُر (مہینوں میں سے سب سے زیادہ فضیلت والے) رمضان المبارک کو بہت بعد میں بوجہ نزولِ قرآن فضیلت ملی ہے، پھر محرم میں عاشوراء (دسویں محرّم) کو ایک خاص مقام حاصل ہے، قبل از اسلام زمانۂ جاھلیت میں بھی عاشوراء کے روزہ کو دینی رواج حاصل تھا، جیسا کہ اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے،
عَن عَائِشَةَ رَضِىَ اللّٰه عَنْهَا أَنَّ قُرَيْشًا كَانَتْ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصِيَامِهِ حَتَّى فُرِضَ رَمَضَانُ،
(صحيح البخاري | كِتَابٌ : الصَّوْمُ. | بَابُ وُجُوبِ صَوْمِ رَمَضَانَ)
سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ عنھا نے بتایا کہ قریش دورِ جاھلیت میں یومِ عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بھی اس روزے کے رکھنے کا حکم فرمایا یہاں تک کہ رمضان (کے روزے) فرض ہوگئے،
قابلِ غور بات یہ ہے کہ وہ جاھلیت کے دور میں بھی روزے رکھتے تھے اور ہم مھذب دور میں روزہ ترک کر دیتے ہیں شاید یہ اسی جاھلیت کا عروج ہے یا اسے جاھلیت کا جدید ورژن ہی کہہ سکتے ہیں،
اور قریش قبل از اسلام یومِ عاشوراء کو غلافِ کعبہ تبدیل کرتے تھے،
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ : كَانُوا يَصُومُونَ عَاشُورَاءَ قَبْلَ أَنْ يُفْرَضَ رَمَضَانُ، وَكَانَ يَوْمًا تُسْتَرُ فِيهِ الْكَعْبَةُ،
(صحيح البخاري، كِتَابُ الْحَجِّ، بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى : جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِلنَّاسِ)
ترجمہ: سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ عنھا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ وہ (اہلِ مکہ) فرضیتِ رمضان سے پہلے عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور اسی دن کعبہ کو غلاف پہنایا جاتا تھا، (صحیح البخاری)
اس دور میں قریش کا یومِ عاشوراء کو غلافِ کعبہ کا تبدیل کرنا بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے ہاں اس دن کی فضیلت و اہمیت مسلّم تھی، پھر مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ کے مکین ہو جانے کے بعد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے علم میں لایا گیا کہ محرم کے مہینے میں دسویں تاریخ کو وہاں کے یہود روزہ رکھتے ہیں اور اس دن کو عید قرار دیتے ہیں،
عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ : كَانَ أَهْلُ خَيْبَرَ يَصُومُونَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، يَتَّخِذُونَهُ عِيدًا، وَيُلْبِسُونَ نِسَاءَهُمْ فِيهِ حُلِيَّهُمْ، وَشَارَتَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " فَصُومُوهُ أَنْتُمْ "
(صحيح مسلم، كِتَابٌ : الصِّيَامُ. بَابٌ : صَوْمُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ)
ترجمہ: سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ اہلِ خیبر (یہودی لوگ) عاشوراء کے دن روزہ رکھتے تھے، اس دن وہ عید مناتے تھے، اور اپنی عورتوں کو زیورات پہناتے اور بناؤ سنگھار کرواتے تھے، تو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بھی اس دن روزہ رکھا کرو،
عاشوراء کا روزہ اور خوشی منانا یہود کے نزدیک اس لئے تھا کہ دس محرم کو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات حاصل ہوئی تھی، جیسا کہ حدیث پاک سے مفہوم ہے،
قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَرَأَى الْيَهُودَ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ : " مَا هَذَا ؟ " قَالُوا : هَذَا يَوْمٌ صَالِحٌ ؛ هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ فَصَامَهُ مُوسَى. قَالَ : " فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ ". فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ.
(صحيح البخاري، كِتَابٌ : الصَّوْمُ. بَابُ صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ.)
ترجمہ: نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ یہ خوشگوار دن ہے، اس دن اللّٰہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تو موسیٰ علیہ السلام نے روزہ رکھا، سو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تو میں تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کا حق رکھتا ہوں، چنانچہ آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو اس دن روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا،
دوسری حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام کی طرف سے عاشوراء کے روزے کا حکم ملنے پر لوگوں نے آپ کو بتایا،
"قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ، وَالنَّصَارَى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ - إِنْ شَاءَ اللَّهُ - صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ ". قَالَ : فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
(صحيح مسلم، كِتَابٌ : الصِّيَامُ. بَابٌ : أَيُّ يَوْمٍ يُصَامُ فِي عَاشُورَاءَ ؟)
ترجمہ: عرض کرنے لگے، اے اللّٰہ کے پیغمبر! یہ عاشوراء وہ دن ہے جس کی تعظیم یہود و نصاری بھی کرتے ہیں، (یعنی اس دن روزہ رکھتے ہیں) تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو ان شاءاللہ جب آئندہ سال ہوگا تو ہم نویں محرم کا روزہ بھی رکھیں گے، راوی (عبد اللہ بن عباس رض) فرماتے ہیں کہ اگلا سال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے نہ آ سکا"
اس سے اندازہ لگائیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنی عبادات میں بھی یہود و نصاری کی مشابہت سے بچنا چاہتے ہیں لیکن دوسری طرف آپ کی نام لیوا امت ہے جو تہذیب وتمدن، ثقافت، رہن سہن، چال، ڈھال غرض پورا طرزِ زندگی غیر قوموں کی تقلید اور نقل اتارنے میں مری جا رہی ہے، یہاں تک صرف عاشوراء محرّم کی بات ہوئی لیکن دراصل پورے محرم کی فضیلت اممِ ماضیہ سے چلی آ رہی ہے، اور سیدنا حسین ابن علی رضی اللّٰہ عنہما کی شہادت کی عظمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کے یومِ شہادت کو ماہِ محرّم بلکہ یومِ عاشوراء سے سرفراز فرمایا ہے، آخر میں عرض گذار ہوں کہ یہ پورا مہینہ روزے رکھنے کا ہے نہ کہ کسی قسم کی اوٹ پٹانگ حرکتوں کا،
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ ؛ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ، وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ ؛ صَلَاةُ اللَّيْلِ ".
(صحيح مسلم، كِتَابٌ : الصِّيَامُ. بَابٌ : فَضْلُ صَوْمِ الْمُحَرَّمِ.)
ترجمہ: سیدنا ابوھریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والے روزے اللّٰہ کے مہینے محرم کے ہیں، اور فرض نماز کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والی نماز صلاۃ اللیل (نمازِ تہجد) ہے،
اور دسویں محرم کے روزے کی فضیلت جو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمائی یہ ہے، "وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ ". (صحيح مسلم، كِتَابٌ : الصِّيَامُ. بَابٌ : اسْتِحْبَابُ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ)
ترجمہ: میں اللّٰہ سے امید رکھتا ہوں کہ دسویں محرم کا روزہ گزشتہ سال کے گناہوں کو مٹا کر رکھ دے گا،
یاد رہے کہ دسویں محرم کے ساتھ نویں یا گیارہویں محرم کا روزہ رکھنا ضروری ہے تاکہ یہود و نصارٰی کی مشابہت سے بچا جاسکے اور یہ دو روزے ہوں یا پورے محرم کے روزے ہوں مستحب عمل ہیں، اور مؤمن کی شان بھی یہ ہے کہ فرائض، واجبات اور سنن کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ وہ نفلی عبادت اور مستحبات کو بھی ترک نہیں کرتا، محرم (احترام والا مہینہ) امن وامان، سلامتی والا مہینہ ہے، اس کے تقدس کا خیال رکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے،
اللّٰہ جل شانہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو،
وما علینا الا البلاغ ۔۔۔۔
#لوحِ_اصلاح