07/10/2025
طبیعات (فزکس) کا نوبل انعام سنہ 2025۔۔۔۔۔
آج طبیعات کے نوبل انعام سنہ 2025 (Nobel Prize in Physics 2025) کا اعلان ہوا تو بہت سی خبریں اسے ’’کوانٹم سرنگ ٹنلنگ‘‘ (quantum tunneling) اور ’’توانائی کی مقدار بندی‘‘ (energy quantization) کی پہلی تجرباتی تصدیق کہہ کر اچھال رہے ہیں۔ حالانکہ نہ ٹنلنگ کوئی نئی چیز ہے نہ ہی مقدار بندی کوئی نئی دریافت ہے۔ مقدار بندی کا تصور پہلی بار میکس پلانک (Max Planck) نے 1900 میں بلیک باڈی سپیکٹرم (Black body spectrum) کو بیان کرتے وقت دیا۔ آئن سٹائن (Einstein) نے فوٹون کے ذریعے اسے روزمرّہ روشنی کی فہم میں بدلا، اور نیلز بوہر (Bohr) نے ایٹم کے مدار کی سطحوں کو متعین کر کے اس کی ایک نئی جہت متعارف کرائی۔ بعد میں برائن جوزفسن (Brian Josephson) آئے جو اُس وقت کیمبرج یونیورسٹی (Cambridge University) کے نوجوان طالبِ علم تھے اور فِلِپ اینڈرسن (Phillip Anderson) کے کیمبرج یونیورسٹی میں بطور وزٹنگ پروفیسر (Visiting Professor) سمر لیکچرز کے دوران باقاعدگی سے بیٹھتے تھے اور اس دوران اس تحقیقی میدان سے متاثر ہوئے۔ جوزفسن نے یہ تصور دیا کہ دو مافوقِ موصل (superconductors) کے بیچ باریک رکاوٹ (Insulator) پرایک جنکشن بنتا ہے جو اب جوزفسن جنکشن (Josephson Junction) کہلاتا ہے اور جس میں برقی رو (current) بغیر وولٹیج کے بہہ سکتی ہے۔اس تصور کو ان کے نام کے ساتھ منسوب کر کے آج کل کی کتابوں میں جوزفسن اثر (Josephson effect) کہا جاتا ہے، جس پر انہیں 1973 میں نوبل ملا۔ ان مافوقِ موصلوں میں الیکٹران خاص جوڑے بنا کر چلتے ہیں جنہیں کوپر پیئرز (Cooper pairs) کہا جاتا ہے۔ یہ تصور لیون کوپر (Leon Cooper) کے نام سے منسوب ہے، اور انہی کے ساتھ جان بارڈین ( John Bardeen) اور شریفر (Schrieffer) نے بی سی ایس نظریہ (BCS theory) قائم کیا جس پر انہیں بھی نوبل انعام ملا۔
اصل تازہ کارنامہ جس کی روح کو آج کے نوبل میں سراہا جا رہا ہے وہ جان کلارک (John Clarke) اور ان کے پوسٹ ڈاکٹریٹ میشیل ڈیفوریٹ (Michel Devoret) اور پی ایچ ڈی طالب علم جان مارٹینس (John Martinis) کے 1985 کے تجربات ہیں، جن میں دکھایا گیا کہ کوانٹم قوانین صرف ذرات تک محدود نہیں ہیں بلکہ ایک پورا برقی سرکٹ بھی میکروسکوپک کوانٹم سرنگ (Macroscopic Quantum Tunneling) کا عمل دکھا سکتا ہے۔ اس آلے کا کلیدی عنصر فیز (phase) ہے۔ جیسے میں اور آپ اپنے گھروں میں رہائش پذیر ہیں ایسے ہی یہ فیز (phase) ایک دائرے (circle) کے اندر رہتا ہے۔ فیز کو اردو میں عرفِ عام میں زاویہ (angle) بھی کہا جاتا ہے۔ انتہائی کم درجہ حرارت پر، جب حرارت فریکوینسی سے انتہائی کم ہو (T≪ ω) تو وہاں حرارت کا اثر کافی حد تک کم ہو جاتا ہے مگر ٹنلنگ کے امکانات پھر بھی موجود رہتے ہیں اور ایسی صورت میں اس ٹنلنگ کا منبع نہ گرمی ہے نہ بیرونی شور، بلکہ فطرت کے اپنے بنیادی ارتعاشات یعنی کوانٹم شور کی حد (quantum noise limit)ہیں۔
اس کو ایک انسانی مثال کے ذریعے سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ تصور کریں کہ ایک بھیڑ بھاڑ والا کمرہ ہے جہاں سب کے بولنے کی گہماگہمی حرارتی شور (thermal noise) کی طرح ہے۔ اگر درجہ حرارت بڑھے تو شور بھی بڑھے گا۔ لیکن اگر سب یکایک خاموش ہو جائیں تو بھی ایک ہلکی گونج رہتی ہے، جیسے ہوا خود سرگوشی کر رہی ہو۔ یہی کوانٹم شور (quantum noise) ہے۔ کوئی آلہ بند ہو، کمرہ ٹھنڈا ہو، تب بھی کائنات کی سانس باقی رہتی ہے۔ اسی کو طبیعیات میں اصولِ ارتعاش و زوال (Fluctuation–Dissipation Theorem) کہا جاتا ہے جو فزکس کی میدان تھرموڈائینامکس (Thermodynamics) کے اندر ایک اہم موضوع ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جہاں توانائی کے ضائع ہونے (dissipation) کی گنجائش ہے وہاں خودبخود ارتعاش (fluctuation) بھی جنم لیتے ہیں۔ یعنی اگر نظام توانائی خارج کر سکتا ہے تو وہ کبھی مکمل خاموش نہیں رہتا، تھوڑا بہت شور اس کی جبلّت ہے۔ یہی بنیادی شور جوزفسن جنکشن میں فیز کے ’’ذرّے‘‘ کو توانائی کی دیوار کے پار پہنچا دیتا ہے۔
کلارک کے دھارے کی دوسری شہہ رگ اطلاق (applications) پہلو ہے۔ سکویڈ SQUID (SQUID: Superconducting Quantum Interference Device) کا دل جوزفسن جنکشن ہوتا ہےجو غیر معمولی مقناطیسی میدان (magnetic field) کو سینس کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ SQUID کی مدد سے نینو سے لے کر مائیکرو اسکیل تک کے انتہائی باریک مقناطیسی سگنلز ناپے جا سکتے ہیں۔ کلارک اور رفقا نے مائیکرو اسٹرپ سکوئیڈ ایمپلیفائر (Microstrip SQUID Amplifier, MSA) بنا کر ریڈیو فریکوئنسی (GHz) پر تقریباً 30 dB تک کے کم شور اضافہ (low-noise gain) دکھائے جو ملی کیلون درجہ حرارت پر کوانٹم شور کی حد کے قریب جا پہنچتے ہیں۔ اسی تحقیق کی ایک نہایت دلکش شاخ لو فیلڈ ایم آر آئی (low-field MRI) اور این ایم آر (NMR: Nuclear Magnetic Resonance) ہے۔SQUID سے انتہائی کم مقناطیسی میدانوں حتیٰ کہ تقریباً 0.132 mT پر بھی اعلیٰ درجے کے سگنل ناپے گئے جو روایتی اسپتالوں کی MRI کے ٹیسلا (Tesla) پیمانے سے چار گنا (four orders of magnitude) کم ہیں۔ اتنے کم میدانوں پر بعض بافتوں (tissues) کے فرق نمایاں طور پر نظر آتے ہیں، اس لیے ایم آر آئی اور این ایم آر میں SQUID کی افادیت غیر معمولی ہے۔ اور عین اسی کم شور (non-dissipative, dispersive readout) کے باعث کوانٹم کمپیوٹرز (quantum computers) میں کیوبٹ (qubit) کی حالت پڑھنا ممکن ہوپاتا ہے۔پڑھنا بھی ایسا جو Qubit کی حالت کو بگاڑے بغیر اس کی معلومات فراہم کرے۔
یوں سمجھ لیجیے کہ پلانک، آئن سٹائن اور بوہر نے توانائی کی مقدار بندی (energy quantuzation) کو سولر سپیکٹرم (Solar soectrum) سے لے کر ایٹم جیسے چھوٹے ذرے پر اطلق کر کے دکھایا۔ جوزفسن نے دکھایا کہ مافوقِ موصل کی دنیا میں لاکھوں اربوں الیکٹران کوپر پیئرز (Cooper pairs) کی صورت میں ایک واحد کوانٹم آواز اختیار کر سکتے ہیں اور کلارک نے ثابت کیا کہ یہی آواز اصولِ ارتعاش و زوال کے عین مطابق ایک پورے سرکٹ میں خاموشی کے اندر بھی سنائی دیتی ہے۔ یہی وہ لطیف مقام ہے جہاں ’’سرنگ/ٹنلنگ‘‘ یا ’’مقدار بندی‘‘ کا قصہ نہیں دہرایا جا رہا، بلکہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ کوانٹم صرف چھوٹے کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ شور کی آخری سرحد پر کھڑا، بڑے نظاموں میں بھی پوری آب و تاب سے سانس لیتا ہے چاہے وہ کم میدان ایم آر آئی اور این ایم آر ہوں، یا کیوبٹ کے نازک دل کی دھڑکن۔