بیانڈ دہ لیمٹ

بیانڈ دہ لیمٹ Social Services

یہ شخص بے ضرر آدمی ہے، جو عمل ہے اس کا اپنا ہے کسی کو کبھی اس نے برا بھلا نہیں کہا، اسے روتے دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ جس نے ...
13/09/2025

یہ شخص بے ضرر آدمی ہے، جو عمل ہے اس کا اپنا ہے کسی کو کبھی اس نے برا بھلا نہیں کہا، اسے روتے دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ جس نے اس پر انڈے مارے ہیں میں اسے قبیح حرکت کہوں گا اور پرزور مذمت کرتا ہوں، یہ ہم لوگوں کا شعار نہیں۔

13/09/2025

سندھ اور پنجاب میں ان سکولوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) کے تحت پرائیویٹ اداروں کے سپرد کیا گیا جو یا تو بند ہو چکے تھے یا پھر غیر فعال تھے۔ ان سکولوں کی کارکردگی میں اب واضح مثالی تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ یہ سکول اب بہترین نتائج دے رہے ہیں، جبکہ ان کی ملکیت سرکار کے پاس ہی ہے، کتابیں سرکاری فراہم کی جا رہی ہیں، اور فیس بھی حکومت ادا کر رہی ہے۔ اس طرح تعلیم مکمل طور پر مفت فراہم کی جا رہی ہے۔ نجکاری اور پی پی پی کے درمیان فرق کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ نجکاری میں سرکاری اداروں کو مکمل طور پر فروخت کر دیا جاتا ہے، جبکہ پی پی پی میں سرکاری اور پرائیویٹ شعبے کے درمیان شراکت داری قائم کی جاتی ہے، جس میں ادارے کی ملکیت سرکار کے پاس رہتی ہے۔ پی پی پی کے تحت سکول چلانے کا ماڈل نجکاری نہیں ہے، بلکہ یہ ایک انتظامی شراکت داری ہے جس کا مقصد عوامی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانا ہے۔ اس ماڈل کے تحت نہ تو کسی استاد کی نوکری متاثر ہوتی ہے اور نہ ہی طلبہ کو تعلیمی سہولیات میں کوئی کمی محسوس ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلے ایسے سکول تھے جہاں اساتذہ کام کرنے سے کتراتے تھے، یا پھر ایسے سکول تھے جہاں اساتذہ تو موجود تھے لیکن طلبہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس کے علاوہ، بعض سکولوں میں 12 طلبہ پر 8 اساتذہ تعینات تھے، جبکہ دوسری طرف بعض سکولوں میں 150 طلبہ کے لیے صرف ایک استاد دستیاب تھا۔ پی پی پی ماڈل نے ان عدم توازنوں کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جبکہ سندھ اور پنجاب میں یہ ماڈل کامیابی سے لاگو کیا جا رہا ہے، خیبر پختونخوا میں بعض حلقوں کی طرف سے اس کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔کچھ حلقے بہترین اور مفت تعلیمی سہولیات کے خلاف والدین کو بھڑکا رہے ہیں، حالانکہ پی پی پی ماڈل کے تحت تعلیم مکمل طور پر مفت فراہم کی جا رہی ہے۔ سندھ اور پنجاب میں کئی سالوں سے پی پی پی کے تحت چلائے جا رہے سکولز کی کارکردگی میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ طلبہ کے نتائج بہتر ہوئے ہیں، اساتذہ کی کارکردگی میں اضافہ ہوا ہے، اور سکولز کے انفراسٹرکچر میں بہتری آئی ہے۔ یہ ماڈل نہ صرف سرکاری وسائل کے مؤثر استعمال کو یقینی بنا رہا ہے، بلکہ معیاری تعلیم تک رسائی بھی بہتر بنا رہا ہے۔ پی پی پی ماڈل نجکاری نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں سرکاری اور پرائیویٹ شعبہ مل کر عوامی خدمات کی فراہمی کو بہتر بناتے ہیں۔ سندھ اور پنجاب میں اس کی کامیابی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اگر اسے درستی سے نافذ کیا جائے تو یہ تعلیمی شعبے میں انقلاب لانے کا باعث بن سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام میں اس ماڈل کے بارے میں آگاہی پھیلائی جائے اور اس کے خلاف پھیلائے جا رہے غلط پروپیگنڈے کا علمی انداز میں جواب دیا جائے۔

ماضی میں جب عورت کی حیثیت محض ایک بازار میں فروخت ہونے والی شے کی سی تھی، تو کوٹھے کی مالکن کو یہی فکر ستاتی کہ اس کی اپ...
10/09/2025

ماضی میں جب عورت کی حیثیت محض ایک بازار میں فروخت ہونے والی شے کی سی تھی، تو کوٹھے کی مالکن کو یہی فکر ستاتی کہ اس کی اپنی جوانی ختم ہو چکی ہے اور اگر اس کے تحت کام کرنے والی نوجوان لڑکیاں اپنا جسم نہ بیچیں تو اس کا گزارہ کیسے ہو گا۔

لیکن آج کا منظر نامہ یکسر بدل چکا ہے۔ وہ عورت جس کی قیمت کسی بازار میں چند سو روپے بھی نہ لگائی جاتی، آج مہنگے ترین موبائل فون کے فلٹرز استعمال کر کے اور اپنی تصاویر کو پردہٴ سکرین پر پیش کر کے لاکھوں کما رہی ہے۔

وہ خواتین جن کی جسمانی ساخت اور شکل و صورت دیکھ کر معمولی سی بھی کشش محسوس نہ کی جائے، وہی آج سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خصوصاً ٹک ٹاک پر نیم عریاں حالت میں اپنے جسم کے مخصوص اعضا کی نمائش کر کے ہوس پرست مردوں کے جذبات بھڑکا کر کما رہی ہیں۔

یہ وہ طبقہ ہے جس کے پیچھے نہ کوئی خاندان ہے، نہ والدین کی شفقت، نہ ہی نسب کا کوئی معتبر سہارا۔ یا پھر وہ اپنے ہی گھرانوں کی باغی اولاد ہیں جو خود کو لاوارث بنا چکی ہے۔

ایسے افراد معاشرے کے لیے ایک ناسور بنتے جا رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کا صفایا کون کرے گا؟

شارٹ ویڈیوز اور رییلز میں بدن کے تھرکتے ہوئے اعضا، پردوں کی بے حرمتی... یہ سب کچھ دیکھ کر معاشرے کے اخلاقی اقدار خطرے میں پڑ رہے ہیں۔ جنہیں مال و دولت نے گمراہ نہیں کیا، وہ مفت میں اور بے لذت گناہوں کے مرتکب ہو کر اپنی اخلاقیات سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

اس وائرس کا فوری علاج ناگزیر ہے۔ انتہائی فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

ہر معاشرے میں عورت کو بازار کی زینت نہیں بلکہ ایک بلند مقام دیا جانا چاہیے۔ صحیح تعلیمات یہ ہیں کہ عورت پر شہوت کی نظر ڈالنے کے بجائے اس کے ساتھ عزت کے ساتھ پیش آیا جائے، اس کے لیے گھر مہیا کیا جائے، اس کی تمام ضروریات پوری کی جائیں، تب جا کر ایک مرد عورت کے ساتھ حقیقی تعلقات قائم کر سکتا ہے۔

یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عورت محض مظلوم ہے، بلکہ اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ وہ نرم مزاج اور مرد کے مقابلے میں مختلف حیثیت رکھتی ہے۔ آج کل کی عدالتیں عورت کو صرف مظلوم سمجھتی ہیں، جس کے نتیجے میں آسانیاں عورت کو غلط راستے پر ڈال رہی ہیں۔

عورت کے حقوق کے نام پر درحقیقت اسے ایک "برانڈ" بنا کر مارکیٹ میں پیش کر دیا گیا ہے۔ ثناء یوسف، سامعہ حجاب جعفری، ڈولی، مناہل ملک، اور سسٹرلوجی جیسے چند ناموں پر غور کر لیں، تو واضح ہو جاتا ہے کہ ہماری نئی نسل کے ساتھ کس طرح کی ذہنی برین واشنگ کی جا رہی ہے۔

آہستہ آہستہ مظلومیت کے جذبات ابھار کر، پھر اسے آزادی دلانے کے نام پر بننے والی نام نہاد انسانی حقوق اور نسوانی حقوق کی تنظیمیں درحقیقت عورت کو غیر مستحکم تعلقات میں دھکیل رہی ہیں۔ ایسا نظام جہاں مرد عورت کے ساتھ غیر شادی شدہ تعلقات (ریلیشنشپ) تو قائم کر سکتا ہے، لیکن مستحکم رشتہ نہیں بناتا۔ عورت خود مختاری کے جھوٹے نعرے کے تحت گھر کی قید سے نکل تو آتی ہے، مگر پھر کبھی حقیقی گھر نہیں بنا پاتی۔

حقیقت یہ ہے کہ جو قوم اس پیشے کو معیوب سمجھتی تھی، وہ دھوکہ کھا رہی ہے۔ آج کل کی طوائف خود کو "انفلونسر" کہلوانا پسند کرتی ہے۔ نام تبدیل ہو گئے ہیں، مگر کام وہی پرانے اور شرمناک ہیں۔

‏خوبصورتی نے کبھی محسوس نہیں ہونے دیا ورنہ تاج محل ایک " قبر " ہے
04/09/2025

‏خوبصورتی نے کبھی محسوس نہیں ہونے دیا
ورنہ تاج محل ایک " قبر " ہے

04/09/2025

دنیا ایک نئے موڑ پر ہے۔ محض تبدیلی کا عمل نہیں بلکہ ایک نیا عالمی منظرنامہ ابھر چکا ہے۔ چین کی حالیہ وکٹری پریڈ اس کی واضح جھلک ہے، جس میں اگرچہ دو درجن ممالک کو مدعو کیا گیا، مگر اسٹیج پر جگہ صرف تین رہنماؤں کو دی گئی: پاکستان، روس اور شمالی کوریا۔ اس فیصلے کے پیچھے پیغام بالکل صاف ہے—یہ چاروں ممالک ایٹمی قوت ہیں، اور چین نے دنیا کو یہ باور کرایا کہ طاقت کا نیا توازن کہاں قائم ہو رہا ہے۔

پاکستان کے لیے یہ لمحہ خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ کئی دہائیوں بعد عالمی منظرنامے پر ہمیں وہ عزت ملی ہے جس کے ہم مستحق تھے۔ مگر افسوس، ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا ہے جو ہر خوشی پر بھی ماتم ڈھونڈ لیتا ہے۔ یہ لوگ نہ جینے میں سکون پاتے ہیں نہ مرنے میں۔ دن کو ناامیدی کے سائے اور رات کو گولیوں کے سہارے نیند کا بہانہ تراشتے ہیں۔

چینی صدر شی جن پنگ نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اب کوئی دباؤ، دھونس یا بدمعاشی ان کے راستے کو نہیں روک سکتی۔ یہ اعلان دراصل عالمی طاقتوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ چین اپنی منزل کا تعین خود کرے گا۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شی جن پنگ کو مبارکباد تو دی، مگر روس اور شمالی کوریا کے نام کے ساتھ یہ جملہ چسپاں کیا کہ یہ سب امریکہ کے خلاف سازش میں ایک ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ٹرمپ نے پاکستان کا ذکر گوارا نہ کیا—کیا یہ نظراندازی ہے یا عالمی سیاست کی کوئی نئی چال؟

پاکستان میں آنے والی قدرتی آفات، جیسے 2005 کے زلزلے، 2010 اور 2022 کی سیلاب اور ممکنہ 2025 کے واقعات، کارل مارکس کے اس ق...
28/08/2025

پاکستان میں آنے والی قدرتی آفات، جیسے 2005 کے زلزلے، 2010 اور 2022 کی سیلاب اور ممکنہ 2025 کے واقعات، کارل مارکس کے اس قول کی واضح تصویر پیش کرتے ہیں کہ "آفتیں غریب کے لیے تباہی اور امیر کے لیے تجارت ہوتی ہیں۔" ہر بار یہ آفات غریب عوام کے لیے مکمل تباہی کا باعث بنی ہیں۔ 2005 کے زلزلے میں لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے، ان کے روزگار تباہ ہو گئے اور صحت و تعلیم کے بنیادی ڈھانچے ملیامیٹ ہو گئے۔ اسی طرح 2010 اور 2022 کے سیلابوں میں کسانوں کی فصلیں تباہ ہوئیں، مویشی بہہ گئے اور دیہاتی آبادیاں مکمل طور پر بے آسرا ہو گئیں۔ ان کے پاس نہ تو بیمہ تھا اور نہ ہی بچت، جس کی وجہ سے یہ بحران ان کے لیے دائمی غربت اور قرضوں کا باعث بن گئے۔

دوسری طرف، امیر طبقے کے لیے یہی آفات منافع کمانے کے نئے مواقع بن گئے۔ بین الاقوامی امداد اور حکومتی فنڈز کی تقسیم میں بدعنوانی نے ایلیٹ کلاس کے لیے راستے ہموار کیے۔ 2005 کے زلزلے کے بعد تعمیراتی کمپنیوں نے اینٹوں اور سیمنٹ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کروائیں اور ریلف کاموں میں بھاری منافع کما لیا۔ اسی طرح 2010 اور 2022 کے سیلابوں کے بعد بڑے زمینداروں اور صنعتکاروں نے امدادی سامان کی خرید و فروخت میں منافع خوری کی، جبکہ غریب عوام تک صحیح طریقے سے راشن نہ پہنچ سکا۔

یہ صورتحال 2025 میں بھی بدلتی نظر نہیں آتی۔ امیروں کے پاس وسائل ہیں کہ وہ خطرے سے پہلے ہی محفوظ مقامات پر منتقل ہو جائیں، اپنے کاروبار کو بچا لیں اور بحالی کے کاموں میں ٹھیکے حاصل کر کے اپنی تجوریاں بھر لیں۔ جبکہ غریب کے پاس نہ تو نقل مکانی کے متبادل ہوتے ہیں اور نہ ہی بحالی کے وسائل۔ اس طرح ہر آفت امیر اور غریب کے درمیان فرق کو اور گہرا کر دیتی ہے.

28/08/2025

ہزارہ صوبے کا مطالبہ درحقیقت خیبر پختونخوا کے ہزارہ ڈویژن کے عوام کا طویل عرصے سے اٹھایا جانے والا ایک علاقائی اور انتظامی مطالبہ ہے، جو انتظامیہ کو عوام کے قریب لانے، ترقی کے عمل کو تیز کرنے اور مقالی ثقافتی و لسانی شناخت کو تحفظ فراہم کرنے کے مقصد سے وابستہ ہے۔ اس مطالبے کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہزارہ ڈویژن انتظامی طور پر سات اضلاع پر مشتمل ہے۔ اگر صرف ایک یا دو اضلاع کو ہی ایک الگ صوبہ بنا دیا جائے، تو یہ ایک چھوٹی سی انتظامی اکائی ہوگی، نہ کہ ایک حقیقی صوبہ، جس سے خطے کے دیگر اضلاع کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید الجھنوں کا شکار ہو جائیں گے۔

پاکستان میں صوبوں کی تشکیل کا عمل تاریخی طور پر انتظامی سہولت اور علاقائی شناخت کی بنیاد پر رہا ہے، جیسا کہ 1970ء میں ون یونٹ کے خاتمے کے بعد یا جنوبی پنجاب کے صوبے کے حالیہ مطالبے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی اصول کے تحت ہزارہ ڈویژن کو ایک صوبے کے طور پر تسلیم کرنا منطقی ہوگا۔ تاہم، اس خطے میں موجود لسانی و ثقافتی تنوع ایک اہم حقیقت ہے۔ یہ خطہ صرف ہندکو بولنے والوں پر مشتمل نہیں ہے، بلکہ اس میں گوجر، کوہستانی، شینا اور پشتون برادریاں بھی آباد ہیں۔ اگر صوبے کا مرکز اور نام صرف ہندکو بولنے والے اضلاع کے گرد گھومتا ہے، تو اس سے خطے کے دیگر اضلاع کی الگ ثقافتی و لسانی شناخت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، اور انہیں یہ خدشہ ہو سکتا ہے کہ ان کے وسائل، سیاسی نمائندگی اور ثقافتی ورثے کو نظرانداز کر دیا جائے گا۔

انہی تمام خدشات کے پیش نظر، ہزارہ صوبے کے متبادل کے طور پر "اباسین صوبہ" کا مطالبہ زیادہ مناسب اور جامع نظر آتا ہے۔ دریائے سندھ کا پرانا نام "دریائے اباسین" ہے، جو اس پورے خطے کی جغرافیائی وحدت کی غیر جانبدار علامت ہے۔ یہ نام کسی ایک زبان یا قومیت سے منسوب نہیں ہے، بلکہ ایک جغرافیائی علامت ہے جو خطے کے تمام باشندوں کو یکساں طور پر متحد کرتی ہے۔ اس نام کے تحت ایک نیا صوبہ تشکیل دینے سے تمام لسانی و ثقافتی گروہوں کو یکساں نمائندگی، وسائل اور تحفظ کا احساس دلایا جا سکتا ہے۔

مزید برآں، ہزارہ ڈویژن کو صوبہ بنانے کی بات درحقیقت عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے نئی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش بن سکتی ہے۔ یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ تورغر، بٹگرام اور کوہستان جیسے اضلاع کی اپنی الگ شناخت ہے، جنہیں ہزارہ صوبے کے نام پر دبانے کی کوشش ان کے تشخص کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ لہٰذا، ایک ایسے متبادل نام اور تصور کی ضرورت ہے جو سب کو ساتھ لے کر چلے۔ "اباسین صوبہ" کا تصور نہ صرف اس خطے کی جغرافیائی حقیقت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ یہ تمام مقامی آبادیوں کے لیے یکساں طور پر قابل قبول اور متحد کن نام بھی ہے، جو اس مطالبے کو مضبوط منطقی اور تاریخی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

صبح سے شام تک بوجھ ڈھوتا ہوااپنی ہی لاش کا خود مزار آدمی - آپ کا خاندان نہیں جانتا کہ آپ اپنی روزمرہ کی زندگی یا ملازمت ...
23/08/2025

صبح سے شام تک بوجھ ڈھوتا ہوا
اپنی ہی لاش کا خود مزار آدمی
- آپ کا خاندان نہیں جانتا کہ آپ اپنی روزمرہ کی زندگی یا ملازمت میں کتنی مشکلات اور دباؤ سے گزرتے ہیں۔
- اور آپ کا کام آپ کی زندگی اور آپ کے گھر کے حالات کو نہیں جانتا۔
- آپ کے ساتھی، آپ کے دوست اور پیارے نئی اور پرانی ذمہ داریوں کے حجم کو نہیں سمجھیں گے جو آپ کے اوپر ہیں۔

غرض یہ کہ آپ کے علاوہ کوئی بھی آپ کے لیے احساس نہیں رکھتا۔ کوئی بھی نہیں سمجھے گا کہ آپ واقعی کس چیز سے گزر رہے ہیں اور وہ ممکنہ طور پر کوششوں کی تعریف نہیں کرتے ہیں۔

بس جاری رکھو... لڑتےرہو

22/08/2025

اگلوں نے گھر بیٹھے بیٹھے پاکستانیوں کے موبائل فونز کے ڈسپلے تبدیل کر دیئے اور وہ بھی کسی سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کے بغیر ۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ ہمارے موبائلز کی اندرونی سیٹنگ تک ان کے کنٹرول میں ہے ۔ ویسے مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے ان پاکستانی شیر جوانوں کو پیغام دیا ہے کہ یہ ہے تمہاری اوقات ۔ ادھر ہمارے شیر ہیں کہ پکًَا ہفتہ فیس بک پر تھرتھلی مچائے رکھی کہ ہم اجازت نہیں دیتے کہ فیس بک ہمارے تھوبڑے استعمال کرے !

21/08/2025

بظاہر ایسا لگتا تھا کہ گزشتہ پچاس سالوں سے جاری اس سیاسی بحث کا یہ سلسلہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی چلتا رہے گا، مگر حقیقت میں پاکستان کے بارہ صوبوں والی اسکیم انتہائی سنجیدگی کے ساتھ مخصوص حلقوں میں زیرِ غور آ چکی ہے۔ اطلاعات کے مطابق، قریباً کسی بھی وقت یہ اعلان متوقع ہے کہ سندھ کے دو، پنجاب کے تین، خیبر پختونخوا کے تین اور بلوچستان کے چار نئے صوبوں کی تشکیل سے متعلق آئینی ترمیم پارلیمان میں پیش کی جائے گی۔

خیال یہ ہے کہ سندھ میں کراچی، حیدرآباد اور ٹھٹھہ کو ملا کر ایک نیا صوبہ "کراچی" بنایا جائے گا، جبکہ باقی ماندہ علاقوں پر مشتمل سکھر ایک علیحدہ صوبہ ہوگا۔ پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کر کے لاہور، ملتان اور راولپنڈی کے نام سے نئے صوبے تشکیل دیے جائیں گے۔ خیبر پختونخوا میں پشاور، مالاکنڈ اور ڈیرہ اسماعیل خان کے صوبے ہوں گے، جبکہ بلوچستان کو چار حصوں—مکران (جس کا نام گوادر رکھا جائے گا)، خضدار، کوئٹہ اور چاغی—میں تقسیم کیا جائے گا۔

اس اسکیم پر تنقیدی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ مبصرین کے خیال میں یہ محض صوبوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ان کی سیاسی اور انتظامی طاقت ختم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ ایک طرح سے ماضی میں نافذ ہونے والی "ون یونٹ اسکیم" کا ہی جدید روپ دکھائی دیتی ہے، جس کا مقصد صوبائی خودمختاری کو محدود کرنا اور مرکز کو مضبوط بنانا نظر آتا ہے۔

خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ اس اقدام کے بعد اٹھارویں آئینی ترمیم کو بہانہ بنا کر واپس لیا جا سکتا ہے—یہ کہہ کر کہ صوبوں کے پاس اتنی استعداد نہیں ہے کہ وہ اپنے اختیارات سنبھال سکیں—اور پھر متعدد وزارتیں اور انتظامی اختیارات دوبارہ مرکز کی طرف منتقل ہو سکتے ہیں۔

ایسے میں، اس طرح کے متنازع اور دور رس اثرات والے فیصلوں سے پہلے ہر پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنا ضروری ہے۔ یہ ایک پنڈورا باکس کھولنے کے مترادف ہو سکتا ہے، جس کے نتائج کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ بالآخر، فیصلہ ساز ادارے ہی اس بارے میں حتمی رائے قائم کریں گے، اور عوام کی تو ویسے ہی روز مرہ کی مشکلات میں الجھے رہنے کی صورت حال برقرار ہے۔

16/08/2025

دریائے سوات میں آنیوالی طغیانی اور بونیر وغیرہ میں کلاؤڈ برسٹ سے ہونے والے جانی و مالی نقصان پر دل نہایت افسردہ ہے۔ ان معصوم دیہاتیوں نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی فیکٹری نہیں دیکھی ہوگی لیکن امریکہ، بھارت، یورپ اور چین میں لگی فیکٹریوں اور موٹر کاروں کی آلودگی سے ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں نے ان معصوموں کے گھر اجاڑ کر رکھ دئیے ہیں۔
لیکن کرے کوئی بھرے کوئی نہیں ہونا چاہیے بلکہ پاکستان کو اس بار پھر سے عالمی سطح پر آواز اٹھانی چاہیے اور ان موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے ہر جانی و مالی نقصان کا ہرجانہ وصول کرنا چاہیے۔

13/08/2025

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سونے کی ندی: خیبرپختونخوا میں غیر قانونی سونے کی کان کنی کا تاریک سچ

دریائے سندھ خیبرپختونخوا (KPK) کے پہاڑوں سے گزرتا ہوا ایک سنہری وعدہ لیے بہتا ہے۔ مگر اس چمک کے نیچے ایک زہریلا سچ چھپا ہے: قانونی طور پر غیر قانونی سونے کی کان کنی کا وہ وسیع سایہ اقتصادیات جو سرکاری اہلکاروں کی سرپرستی میں پنپ رہا ہے۔ شکردرہ (کوہاٹ)، گردونواح اور پنجاب میں دریا کے پار یہ منظر عام ہے.

"قانونی غیر قانونی" کان کنی کا طریقہ کار
دریا کے کنارے 5,000 سے زائد کھدائی مشینیں دن رات کام کر رہی ہیں۔ ہر مشین روزانہ 200-300 ٹن مٹی کھودتی ہے — یہ دستکاری نہیں بلکہ منظم صنعت ہے۔ مشینیں ماہانہ 4 لاکھ سے 18 لاکھ روپے کرائے پر چلتی ہیں، جن کے مالکان میں سرکاری اہلکار بھی "خاموش شراکت دار" ہیں۔
ہر مشین سے ہفتہ وار 50,000 سے 1,00,000 روپے (ہفتہ/بھتہ) وصول کیا جاتا ہے۔ تقریباً 5,000 مشینوں سے ماہانہ 1.25 ارب سے 2.5 ارب روپے کی رشوت اکٹھی ہوتی ہے . جو سرکاری خزانے کے ممکنہ حصے سے کہیں زیادہ ہے۔ ہر محکمہ اپنا حصہ وصول کرتا ہے:
پولیس "حفاظتی فیس" کے نام پر کان کنی جاری رکھنے کی اجازت۔
-معدنیات اور جنگلات محکمہ جعلی اجازت نامے یا چھاپوں سے پہلے خبردار کرنا۔

چھاپے صرف ان "غیر محفوظ" کان کنوں پر پڑتے ہیں جنہوں نے ہفتہ (رشوت) دینے سے انکار کیا ہو۔ کوہاٹ میں 112 مشینیں ضبط کی گئیں — مگر اہلکار تسلیم کرتے ہیں کہ یہ وہ تھے جنہوں نے ہفتہ دینے سے انکار کیا تھا۔ جبکہ کاہی گاؤں (اسکیری سیمنٹ فیکٹری کے قریب) جیسے "محفوظ" علاقے بالکل امن میں ہیں۔
ایک صوبائی وزیر نے کھلم کھلا غیر قانونی کان کنی کی حمایت کی، اعلان کرتے ہوئے: "اگر میں موجود ہوں تو تمہیں کوئی گرفتار نہیں کر سکتا!" یہ بے اِختیاری کا کلچر اسلام آباد تک پھیلا ہوا ہے، جہاں کان کنی کے بلاکس اتحادیوں کو سستے داموں (بلاکس B/C محض 3.5 ارب میں) دے دیے جاتے ہیں۔

ہر مشین پر 14 مزدور روزانہ 1,500 روپے پر کام کرتے ہیں ایسے علاقوں میں جہاں 60% بےروزگاری ہے۔

مقامی کان کن التجا کرتے ہیں"ہمیں رجسٹرڈ کرو! ہر مشین پر ماہانہ 100000 روپے ٹیکس لیں ہم خوشی سے دیں گے۔ اس سے KPK کے خزانے میں ماہانہ 50 کروڑ+ روپے آئیں گے، جبکہ70,000+ مستقل روزگار پیدا ہوں گے۔ ماحولیاتی بحالی کے لیے فنڈز میسر آئیں گے۔ ہفتہ (رشوت) کا سلسلہ ختم ہو گا۔
مگر بیوروکریٹ اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں کیونکہ قانون سازی سے ان کی رشوت بند ہو جائے گی۔ جیسا کہ ایک کان کن نے کہا: "ان کی شاہانہ گاڑیاں ہمارے 'ہفتے' سے چلتی ہیں!"
دریائے سندھ کا سونا رحمت ہونا چاہیے، زحمت نہیں۔ اس لعنت کو توڑنے کے لیے ضروری ہے:
شفاف لیزنگ: چھوٹے بلاکس مقامی کان کنوں کو دیے جائیں، سیاستدانوں کو نہیں۔
ماحولیاتی بانڈز: کان کنوں کو دریا کی بحالی کے لیے فنڈ دینا لازمی کیا جائے۔

ورنہ KPK کا یہ "سونے کا دھندا" پاکستان کی شہ رگ کو خون بہانا جاری رکھے گا — ایک ایک کنکر کے ساتھ۔

"جب آخری دریا زہریلا ہو جائے گا، اور آخری مچھلی مٹی میں دب جائے گی تب جا کر انہیں سمجھ آئے گی کہ سونے سے پیٹ نہیں بھرتا۔"
نوشہرہ، KPK کی مقامی کہاوت

Address

Near Shagi Rest House
Mingora

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when بیانڈ دہ لیمٹ posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share