
18/09/2025
شیخ رشید کے ساتھ کھڑا یہ شخص جاوید بٹ ہے. راولپنڈی راجہ بازار میں رکشہ چلاتا تھا. وقت کے ساتھ ساتھ کئی رکشے لے کر رینٹ پر دے دیے. پھر مزید ترقی کرتا ہوا ایک چھوٹے سے رکشہ شوروم کا مالک بن گیا. پیسہ آتے ہی سیاست میں آنے کے خواب بھی دیکھنے لگا. مقامی رکشہ ڈیلر ایسوسی ایشن کا جنرل سیکرٹری اور صدر بھی منتخب ہوا.
نسلی طور پر پاکستان میں مقیم (مقبوضہ) کشمیری مہاجر ہے. اس لیے پاکستان کی شہریت کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کی شہریت بھی رکھتا ہے. راجہ بازار راولپنڈی میں صوبائی اور قومی اسمبلی کے حلقے کے ساتھ مہاجرین مقیم پاکستان کی آزاد کشمیر اسمبلی میں سیٹ بھی ہے. چنانچہ یہ ن لیگ میں شامل ہو کر ریلیوں، جلسوں اور کارنر میٹنگز کا حصہ بھی بنتا رہا.
اس کی شناسائی شیخ رشید سے ہوئی. اسے "دودھ مکھن" دے کر اپنا گرویدہ بنا لیا. شیخ رشید کی "جیدے" سے خاص یاری ہوگئی. 2021 کے الیکشن میں اس نے عوامی مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کے اتحادی امیدوار کے طور پر میدان میں آنے کا سوچا. اگر عوامی مسلم لیگ سے آتا تو ووٹ نہ ملتے. اور پی ٹی آئی سے ایک رکشہ ڈرائیور کا آنا بظاہر ناممکن تھا.
خیر، شیخ رشید اور بنیان والوں نے عمران خان کو "مینیج" کر لیا. یہ راولپنڈی سے الیکشن لڑ کر سات سو بیاسی ووٹ لے کر "جیت" گیا. اتنے کم ووٹ لے کر الیکشن جیتنا تو سوالیہ نشان تھا ہی، مگر حالات ہی ایسے تھے. خان اور بنیان والے ایک پیج پر تھے، پس مخفی ہاتھوں نے بھی اس کے بکسے بھرنے میں مدد کی. اس کا اپنا بیان تھا: "مجھے یقین نہیں آتا کہ میں ایم ایل اے بن گیا ہوں. سوچتا ہوں خواب ہے. پھر انگلی پر کاٹتا ہوں تو حقیقت لگتا ہے."
جیتنے کے بعد اس نے وزارت کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارے. مگر وزرا کی تعداد آئینی بندشوں کے باعث محدود تھی، تو وزیراعظم سردار قیوم نیازی نے اسے وزارت یا مشیری نہیں دی. قیوم نیازی صدر ریاست، سینئر وزیر اور دس کے قریب وزرا کی بلیک میلنگ کا شکار ہوا اور عدم اعتماد آ گئی. تنویر الیاس نئے وزیراعظم بنے لیکن وہی آئینی بندشیں، جاوید بٹ کے ہاتھ پیلے نہ ہو سکے. لیکن تنویر صاحب خزانوں کا منہ کھول کر وفادار بنا لیتے ہیں.
تنویر الیاس عدلیہ کے بارے میں نامناسب تقریر پر عدالتی نااہلی کا شکار ہوئے. پھر قوم کے وسیع تر "مفاد" میں پی پی، ن اور پی ٹی آئی کی مشترکہ حکومت بنی، جبکہ پی ٹی آئی کا ایک دھڑا اپوزیشن میں جا بیٹھا. اب دو تہائی اکثریت سے وزرا کی تعداد بڑھانے کی ترمیم منظور ہوئی.
جاوید بٹ کی لاٹری کھلی، اور نومنتخب وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے اس کے پیشہ ورانہ پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت ٹرانسپورٹ کا قلم دان عطا کیا.
ٹرانسپورٹ منسٹری کی حالت بننے کے بجائے بگڑتی چلی گئی. جاوید بٹ جیسے نااہل اور ان پڑھ انسان نے اپنے ہی بیٹے کو پی آر او بنا کر نوازا. آزاد کشمیر کے خزانے سے چلنے والی تین بڑی پرتعیش گاڑیاں راجہ بازار کی تنگ گلیوں میں اس "خوش بخت" کے گھر کھڑی رہتی ہیں. بیٹے کے گھر سرکاری تنخواہ آتی ہے.
ایک خط بھی وائرل ہوا تھا جس میں موصوف وزیراعظم سے یورپ کے سرکاری دورے کی منظوری اور اخراجات کے لیے درخواست کر رہے تھے. ہم سفروں میں بیوی اور اولاد کا نام درج تھا اور دورے کا مقصد "یورپ کے ٹرانسپورٹیشن سسٹم کا مطالعہ کرکے اس جیسی اصلاحات آزاد کشمیر میں نافذ کرنا تھا."
خط وائرل ہونے پر دورہ تو "وڑ" گیا، ساتھ ہی اچھی خاصی سبکی بھی ہوئی. آزاد کشمیر کے لوگوں نے اس سے راولپنڈی کے ٹرانسپورٹ سسٹم کا مطالعہ کرکے آزاد کشمیر میں نافذ کرنے کو کہا اور یورپ کے دورے کو محض "رنگینی" میں رنگنے کی خواہش قرار دیا.
یہ ایک جاوید بٹ کی کہانی ہے، لیکن ایسے درجنوں لوگ ہیں جو چند سو ووٹ، وہ بھی جعلی لے کر آزاد کشمیر اسمبلی میں پچاس ہزار ووٹ لینے والے معزز رکن اسمبلی کے برابر ہوتے ہیں. یہ قومی خزانے کو چوستے رہتے ہیں لیکن احتساب کی چھری کبھی ان کی گردن پر نہیں آتی. ایک طرف چالیس لاکھ کی آبادی کی سیٹیں 41 اور دوسری طرف پونے پانچ لاکھ آبادی کی بارہ نشستیں. یہ پونے پانچ لاکھ آبادی پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی ووٹر بھی ہے.
مہاجرین کی نشستوں پر براہ راست انتخاب کے بجائے ان کی آبادی کے لحاظ سے فارمولا بنا کر (مخصوص) نشستیں مختص کی جائیں. نہ صرف مہاجرین مقیم پاکستان بلکہ مہاجرین مقیم آزاد کشمیر کی بھی نشست رکھی جائے، جو کہ زیادہ کمپرسری کی زندگی گزار رہے ہیں.
جاوید بٹ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیت کر اب پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں، لیکن پھر بھی پی ٹی آئی نے انہیں فارغ نہیں کیا. اگر یہی نشست کسی بنیادی کارکن کے پاس ہوتی تو یوں ذلالت نہ اٹھانی پڑتی. لیکن دیگر روایتی سیاسی جماعتوں کی طرح پی ٹی آئی بھی سفارشی ٹکٹ
بانٹنے میں نمایاں مقام رکھتی ہے.
تحریر- قمر نقیب خان