Inspire Mix Trend Vault

Inspire Mix Trend Vault graphics، posts nd videos
motivation

17/10/2025

forGhaza
9.PM TO 9.30 PM
for Ghaza
**ایک نہایت اہم اعلان**
📍 آج سے، ان شاء اللہ، ہم **"غزہ کے لیے خاموشی"** مہم کا آغاز کر رہے ہیں۔
یہ ایک عالمی ڈیجیٹل تحریک ہے، ایک اجتماعی پرامن احتجاج کی صورت۔
یہ ہے اس کا تصور، مختصر اور واضح انداز میں:

✅ **یہ مہم ہے کیا؟**
روزانہ رات 9:00 بجے سے لے کر 9:30 بجے تک (آپ کے مقامی وقت کے مطابق):
⛔️ اپنا موبائل فون بند کر دیں۔
⛔️ کوئی ایپ استعمال نہ کریں، کچھ پوسٹ نہ کریں، کمنٹ نہ کریں، لائک نہ کریں، اور سوشل میڈیا بالکل بھی نہ کھولیں۔

**مہم کا دورانیہ:** ایک ہفتہ (ضرورت پڑنے پر توسیع کی جا سکتی ہے)

✅ **ہم یہ کیوں کر رہے ہیں؟**

1. **ڈیجیٹل نظاموں کے لیے ایک طاقتور پیغام:**
جب لاکھوں لوگ ایک ہی وقت میں سوشل میڈیا کا استعمال بند کر دیں،
تو یہ ایپس کے الگورتھمز کو متاثر کرتا ہے
اور سرورز کو ایک "غیر معمولی سگنل" جاتا ہے۔
ٹیکنالوجی کی زبان میں، اس کا مطلب ہوتا ہے: "کچھ بڑا اور ناراض کُن ہو رہا ہے۔"

2. **غزہ پر مسلط خاموشی کے خلاف علامتی آواز:**
غزہ کے عوام بمباری اور محاصرے کے باعث خاموش رہنے پر مجبور ہیں۔
تو ہم یہ خاموشی ان کے ساتھ بانٹتے ہیں—مگر احتجاج کی صورت میں۔

3. **عالمی عوامی دباؤ:**
اگر شرکاء کی تعداد بڑھتی ہے،
تو سیاستدان اور میڈیا عوامی غصے کو نظرانداز نہیں کر پائیں گے۔

**پیغام بالکل سادہ ہے:**
ایک ایسی دنیا میں جو کبھی خاموش نہیں ہوتی،
غزہ کے لیے صرف 30 منٹ کی خاموشی، ہزاروں لفظوں سے زیادہ بلند آواز رکھتی ہے۔

✅ **شرکت کا طریقہ:**
رات 9:00 بجے کے لیے الارم لگائیں۔
جب الارم بجے، تو اپنا فون مکمل طور پر بند کر دیں یا ایک طرف رکھ دیں۔
کوئی ایپ نہ کھولیں، کوئی تعامل نہ کریں، کچھ پوسٹ نہ کریں۔
روزانہ صرف 30 منٹ۔

اسے شیئر کریں، تاکہ ہماری آواز سن جائے خاموشی مزاحمت ہے... اور خاموشی طاقت ہے!

14/10/2025

دل انتہائی غمگین ہے۔۔۔شاید کا آپ ک بھی ہوا ہو💔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2640 کلومیٹر طویل ڈیورنڈ لائن صرف ایک لکیر نہیں، بلکہ تاریخ، رشتوں اور ثقافت کا تسلسل ہے۔ اس کے ساتھ واقع پاکستانی علاقے جیسے شمالی و جنوبی وزیرستان، خیبر، باجوڑ، کرم، ژوب، قلعہ سیف اللہ اور چمن نہ صرف قومی سلامتی بلکہ تجارت اور عوامی روابط کے لحاظ سے بھی نہایت اہم ہیں۔ دونوں جانب بسنے والے پشتون قبائل — محسود، وزیر، آفریدی، مہمند، اچکزئی، نورزئی اور دیگر — صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ خونی، ثقافتی اور لسانی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ یہی وہ بندھن ہیں جو دشمنی نہیں بلکہ امن، بھائی چارے اور باہمی احترام کا پیغام دیتے ہیں اور ان کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔۔

افغانستان کی جنگوں میں پاکستان نے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں۔ روس کے خلاف جہاد کے دوران جہاں پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی وہیں سرخ ریچھ روس کے خلاف مجاہدین بھیج کر اسلامی اخوت کا ثبوت بھی دیا اور بعد ازاں افغان امن عمل میں کلیدی کردار بھی ادا کیا۔ بعد میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے عالمی دباؤ کے تحت لاجسٹک سپورٹ فراہم کی اور مشرف کی کچھ غلط پالیسیوں کی بنا پر ایسے اقدام بھی سرزد ہوئے کہ جن کے نتیجے میں دہشت گردی، خودکش حملے اور معاشی مشکلات ہمارے حصے میں آئیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان نے افغانستان کے لیے دو محاذوں پر قربانیاں دیں: ایک وقت میں اس کی جنگ لڑی اور دوسرے وقت میں اس کے امن کے لیے سہولت کاری بھی کی۔

تاہم آج پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ تحریکِ طالبانِ پاکستان (TTP) سے ہے، جو ملک میں دہشت گردی اور خودکش حملوں میں ملوث ہے۔ یہ گروہ افغانستان میں پناہ لیتا ہے اور وہاں سے حملے منظم کرتا ہے۔ افغانستان کی حکومت پر لازم ہے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان دہشت گردوں کو گرفتار کرے، پاکستان کے حوالے کرے، اور یہ یقینی بنائے کہ افغان سرزمین کسی بھی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔ یہ عمل نہ صرف پاکستان بلکہ خود افغانستان کے امن اور استحکام کے لیے بھی ناگزیر ہے۔

اسی طرح پاکستان پر بھی اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ افغانستان کی خودمختاری، اس کے وقار اور استقلال کا احترام کرے۔ افغانستان نے گزشتہ چار دہائیوں میں جنگوں، مداخلتوں اور خونریزی کی ایک بھاری قیمت ادا کی ہے۔ اب اسے تعمیرِ نو، استحکام اور لاجسٹک سپورٹ کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ طاقت کی زبان یا دباؤ کی پالیسی کے بجائے گفت و شنید، برادرانہ تعلقات اور علاقائی تعاون کو فروغ دے۔ اس مقصد کے لیے ترکی، قطر، سعودی عرب اور ایران جیسے برادر اسلامی ممالک کو شامل کر کے ایک ایسا مکالمہ شروع کیا جا سکتا ہے جو دونوں ممالک کے لیے پائیدار امن کی بنیاد بنے۔

یہ بات دونوں طرف سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسائل کا حل دباؤ، الزام تراشی یا دھمکیوں میں نہیں، بلکہ بات چیت، صبر، احترام اور مشترکہ مفاد میں پوشیدہ ہے۔ دونوں ممالک کو ایک دوسرے پر تنقید کے بجائے ایک دوسرے کے زخموں کو سمجھنے اور انہیں بھرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اسلام ہمیں دشمنی نہیں بلکہ بھائی چارے اور صلح کا درس دیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

> “مومن آپس میں بھائی ہیں، پس ان کے درمیان صلح کراؤ” (الحجرات: 10)

اگر پاکستان اور افغانستان اخوت، انصاف اور احترام کے اصولوں پر آگے بڑھیں تو یہی سرحد نفرت کی دیوار نہیں بلکہ ترقی، تعاون اور محبت کی علامت بن سکتی ہے۔ امن، اعتماد اور باہمی احترام ہی وہ راستہ ہے جو دونوں ملکوں کو اصل استحکام اور حقیقی آزادی دے سکتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم طاقت نہیں، بات چیت اور بھائی چارے کو اپنا ہتھیار بنائیں — کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جو ہمارے خطے کو جنگ کی نہیں بلکہ امن کی سرزمین بنا سکتا ہے۔

✍️ حافظ زبیرفاروق

14/10/2025

خاموش ہے گاؤں تیری ہجرت کے ہی دن سے
پیڑوں پہ پرندے بھی تیرے بعد نہ بولے

14/10/2025



اپنی بیٹی ہو یہ بیٹا کو کبھی کسی سہیلی کے گھر نہ چھوڑو
نہ پڑھائی کے بہانے نہ دوستی کے نام پر

اپنے بیٹے کو ایسا موبائل مت دو جس کا استعمال تم خود نہیں جانتے

اپنے بچوں سے پہلے کبھی مت سو جانا
جب تک وہ سو نہ جائیں تم جاگتے رہو

رات کے دس بجے سے زیادہ کا وقت گھر سے باہر رہنے کی اجازت مت دو
یہی حد ہونی چاہیے

اپنے بچوں کو سکھاؤ کہ صبح سات بجے اٹھنا زندگی کی عادت ہے نہ کہ سزا

اپنی بیوی کی عزت بچوں کے سامنے کبھی نہ توڑو
ورنہ وہ اس کی نہیں اپنی ماں کی قدر کھو دیں گے

آج کل کے کیفے اور کھیل کے میدان اکثر بگاڑ کے اڈے بن چکے ہیں
اپنے بچوں کو اکیلا وہاں نہ بھیجو
ان کے ساتھ رہو ان کی نگرانی کرو

اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری بیٹی کسی غیر کے میٹھے لفظوں میں نہ بہکے
تو خود اسے سب سے پہلے پیار اور تعریف دو
تاکہ وہ کسی باہر والے سے یہ تلاش نہ کرے

بیٹی تمہارا سکون اور تمہاری پناہ ہے
اس پر سختی مت کرو
ماں کو تربیت کرنے دو اور خود رہنمائی اور محبت کا کردار ادا کرو

بیٹے کا دوست اس کا مستقبل ہے
اس کے دوستوں کے انتخاب میں خود شریک رہو چاہے دخل دینا پڑے

تمہارے بیٹے یا بیٹی کے موبائل کا پاس ورڈ تمہیں معلوم ہونا چاہیے
یہ بدگمانی نہیں بلکہ حفاظت ہے

ان کے فون اور سوشل میڈیا پر اچانک نظر ڈالنا کبھی کبھار ضروری ہے
مگر ایسا خفیہ رکھو تاکہ اعتماد قائم رہے

بچوں کے ساتھ دوستی رکھو
زیادہ سختی سے وہ دور بھاگتے ہیں
مگر عزت اور ادب کی لکیر ہمیشہ واضح رکھو

اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری بیٹی پڑھائی میں کامیاب ہو
تو اسے ہمیشہ حوصلہ دو
کیونکہ لڑکیوں کے لیے حوصلہ ہی دوا ہے
انہیں مارنا نہیں محبت سے سوارنا ہے

یاد رکھو تم اپنی فیملی کے لیے جیتے ہو
تو فیملی کو اپنی زندگی کا مرکز بنا لو
اپنے بچوں کو ایسے تربیت دو کہ وہ تمہاری زندگی کے بعد بھی تمہارا صدقہ جاریہ بن جائیں
اور لوگ تمہیں تمہاری اچھی اولاد کے اخلاق سے پہچانیں

اللہم صل وسلم وبارك على سيدنا محمد

بچوں کو وقت دو کیونکہ کل وقت تمہیں بچے نہیں دے گا

13/10/2025

#


#


# Vibes
اللہ تعالیٰ نے رزق کے 16 دروازے مقرر کئے ہیں اور اس کی چابیاں بھی بنائی ہیں جس نے یہ چابیاں حاصل کرنیں وہ کبھی تنگدست نہیں رہے گا

پہلا دروازہ نماز ہے جو لوگ نماز نہیں پڑھتے ان کے رزق میں برکت اٹھا دی جاتی ہے وہ پیسہ ہونے کے باوجود بھی پریشان رہتا ہے

دوسرا دروازہ استغفار ہے جو انسان زیادہ سے زیادہ استغفار کرتا ہے توبہ کرتا ہے اس کے رزق میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اللہ ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے کبھی اس نے سوچا بھی نہیں ہوتا

تیسرا دروازہ صدقہ ہے ، اللہ نے فرمایا کہ تم اللہ کی راہ میں جو خرچ کرو گے اللہ اس کا بدلہ دے کر رہے گا، انسان جتنا دوسروں پر خرچ کرے گا اللہ اسے دس گنا بڑھا کر دے گا

چوتھا دروازہ تقویٰ اختیار کرنا ہے جو لوگ گناہوں سے دور رہتے ہیں اللہ اس کیلئے آسمان سے رزق کے دروازے کھول دیتے ہیں

5 پانچواں دروازہ کثرت نفلی عبادت ہے جو لوگ زیادہ سے زیادہ نفلی عبادت کرتے ہیں اللہ ان پر تنگدستی کے دروازے بند کر دیتے ہیں اللہ کہتا ہے اگر تو عبادت میں کثرت نہیں کرے گا تو میں تجھے دنیا کے کاموں میں الجھا دوں گا، لوگ سنتوں اور فرض پر ہی توجہ دیتے ہیں نفل چھوڑ دیتے ہیں جس سے رزق میں تنگی ہوتی ہے

چھٹا دروازہ حج اور عمرہ کی کثرت کرنا ، حدیث میں آتا ہے حج اور عمرہ گناہوں اور تنگدستی کو اس طرح دور کرتے ہین جس طرح آگ کی بھٹی سونا چاندی کی میل دور کر دیتی ہے

ساتواں دروازہ رشتہ داروں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آنا ایسے رشتہ داروں سے بھی ملتے رہنا جو آپ سے قطع تعلق ہوں

آٹھواں دروازہ کمزوروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا ہے غریبوں کے غم بانٹنا، مشکل میں کام آنا اللہ کو بہت پسند ہے

نواں دروازہ اللہ پر توکل ہے جو شخص یہ یقین رکھے کہ اللہ دے گا تو اسے اللہ ضرور دے گا اور جو شک کرے گا وہ پریشان ہی رہے گا

دسواں دروازہ شکر ادا کرنا ہے انسان جتنا شکر ادا کرے گا اللہ رزق کے دروازے کھولتا چلا جائے گا

گیارہواں دروازہ ہے گھر میں مسکرا کر داخل ہونا ،، مسکرا کر داخل ہونا سنت بھی ہے حدیث میں آتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ فرماتا ہے کہ رزق بڑھا دوں گا جو شخص گھر میں داخل ہو اور مسکرا کر سلام کرے

بارہواں دروازہ ماں باپ کی فرمانبرداری کرنا ہے ایسے شخص پر کبھی رزق تنگ نہین ہوتا

تیرہواں دروازہ ہر وقت باوضو رہنا ہے جو شخص ہر وقت نیک نیتی کیساتھ باوضو رہے تو اس کے رزق میں کمی نہیں کرتی

چودہواں دروازہ چاشت کی نماز پڑھنا ہے جس سے رزق میں برکت پڑھتی ہے حدیث میں ہے چاشت کی نماز رزق کو کھینچتی ہے اور تندستی کو دور بھگاتی ہے

پندرہوان دروازہ ہے روزانہ سورہ واقعہ پڑھنا ۔۔ اس سے رزق بہت بڑھتا ہے

سولہواں دروازہ اللہ سے دعا مانگنا جو شخص جتنا صدق دل سے اللہ سے مانگتا ہے اللہ اس کو بہت دیتا ہے

11/10/2025
11/10/2025
08/10/2025

💔

26/09/2025

😥😢😭😭😭😭*بد دعا کیسے تباہی پھیرتی ہے۔؟*

اگر آپ اسلام آباد میں رہتے ہیں تو راول ٹاؤن چوک کو اچھی طرح ہوں گے۔ یہ چوک کلب روڈ پر سرینا ہوٹل سے فیض آباد کی طرف جاتے ہوئے آتا ہے۔ چوک میں ایک پٹرول پمپ اور ایک پرانی مسجد ہے۔ میں 1993ء میں اسلام آباد آیا تو مسجد کے ساتھ ایک چھوٹا سا گاؤں ہوتا تھا۔ گاؤں کی زمینیں ایکوائر ہو چکی تھیں، امیر لوگ زمینوں کی قیمتیں وصول کر کے بڑے بڑے سیکٹروں اور فارم ہاؤسز میں شفٹ ہو چکے تھے لیکن وہ غرباء پیچھے رہ گئے تھے جن کی زمینوں کے پیسے امراء کھا گئے یا پھر وہ جو گاؤں کے کمی کمین تھے اور ان کے نام پر کوئی زمین نہیں تھی، حکومت نے انہیں کوئی معاوضہ نہیں دیا۔

دنیا میں ان کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا، لہٰذا وہ اپنے ٹوٹے پھوٹے گھروں میں مقیم تھے۔ سی ڈی اے اور ضلعی انتظامیہ نے ان کو بے شمار نوٹس دیے مگر مکینوں کا کہنا تھا ”ہم کہاں جائیں‘ آپ ہمیں بتا دیں ہم وہاں چلے جاتے ہیں“ حکومت ظاہر ہے ایک ٹھنڈی ٹھار مشین ہوتی ہے، اس کا دل ہوتا ہے اور نہ ہی جذبات، لہٰذا حکومت جواب میں ایک اور نوٹس بھجوا دیتی تھی۔ نوٹس بازی کے اس عمل کے دوران بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتیں آتی اور جاتی رہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے جب بھی سویلین گورنمنٹ سے آپریشن کی اجازت مانگی، حکومت نے اجازت نہ دی۔ انتظامیہ ایک بار مشینری لے کر وہاں پہنچ گئی، چودھری شجاعت حسین اس وقت وزیر داخلہ تھے، ان کو اطلاع ملی تو وہ فوراً وہاں پہنچے اور ذاتی طور پر آپریشن رکوایا۔

لیکن پھر 1999ء آ گیا اورجنرل پرویز مشرف حکمران بن گئے۔ ان کا قافلہ روز اس چوک سے گزر کر وزیراعظم ہاؤس آتا تھا۔ جنرل مشرف کی طبع نازک پر غریبوں کی وہ جھونپڑیاں ناگوار گزرتی تھیں۔ وہ ایک دن گزرے، کھڑکی سے باہر دیکھا اور آپریشن کا حکم جاری کر دیا۔ میں ان دنوں شہزاد ٹاؤن میں رہتا تھا اور روزانہ راول چوک سے گزرتا تھا۔ میں نے دوپہر کو دفتر جاتے ہوئے اپنی آنکھوں سے وہ آپریشن دیکھا۔ وہ لوگ انتہائی غریب تھے، ان کے گھروں میں ٹوٹی چار پائیوں، پچکے ہوئے برتنوں اور پھٹی رضائیوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ انتظامیہ نے وہ بھی ضبط کر لئے۔ گاؤں چند گھنٹوں میں صاف ہو گیا۔ زمین کو فارم ہاؤسز میں تبدیل کر دیا گیا اور وہ فارم ہاؤسز امراء نے خرید لئے۔

صرف مسجد اور اس کے ساتھ چند قبریں بچ گئیں۔ وہ قبریں بھی اب کم ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ یہ کہانی یہاں پر ختم ہو گئی۔ 2007 ء میں اس کہانی کا ایک نیا پہلو میرے سامنے آیا۔ ملک میں اس وقت جنرل پرویز مشرف کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ ایک روز ایک صاحب وہیل چیئر پر میرے پاس تشریف لائے۔ وہ ٹانگوں سے معذور تھے اور چہرے سے بیمار دکھائی دیتے تھے، میں انہیں بڑی مشکل سے گھر کے اندر لا سکا۔ وہ مجھے اپنی کہانی سنانا چاہتے تھے، ان کا کہنا تھا "راول چوک کا وہ آپریشن انہوں نے کیا تھا، وہ اسے لیڈ کر رہے تھے"

میں خاموشی سے ان کی داستان سنتا رہا۔ ان کا کہنا تھا: ان کے تین بچے تھے، دو لڑکے اور ایک لڑکی، شادی پسند کی تھی۔ وہ سی ایس پی آفیسر تھے، کیریئر بہت برائیٹ تھا، سینئر اس کی کارکردگی سے بہت مطمئن تھے، ان کا اپنا خیال بھی تھا وہ بہت اوپر تک جائیں گے۔ وہ رٹ آف دی گورنمنٹ کے بہت بڑے حامی تھے‘ وہ سمجھتے تھے قانون پر سو فیصد عمل ہونا چاہیے اور جو شخص قانون کے راستے میں حائل ہو، ریاست کو اس کے اوپر بلڈوزر چلا دینا چاہیے چنانچہ جنرل مشرف نے جب راول چوک کے مکانات گرانے کا حکم دیا تو یہ ذمہ داری انہیں سونپی گئی۔ یہ فورس لے کر وہاں پہنچے اور گھر گرانا شروع کر دیے۔

لوگ مزاحم ہوئے، پولیس نے ڈنڈے برسائے، لوگوں کو گرفتار بھی کیا اور ایک آدھ موقع پر ہوائی فائرنگ بھی کرنا پڑی، بہرحال قصہ مختصر آپریشن مکمل ہو گیا اور انتظامیہ نے ملبہ اٹھانا شروع کر دیا۔ وہ رکے اور پھر بھولے: آپریشن کے بعد اینٹوں کے ایک ڈھیر پر درمیانی عمر کی ایک خاتون بیٹھی تھی، وہ ملبے سے نہیں اٹھ رہی تھی، اس کا صرف ایک مطالبہ تھا، وہ کہہ رہی تھی کہ وہ بس ایک بار آپریشن کرنے والے صاحب سے ملنا چاہتی ہے۔ انتظامیہ عموماً ایسے مواقع پر خواتین سے زبردستی نہیں کرتی چنانچہ اہلکاروں نے انہیں بتایا اور وہ خاتون کے پاس چلے گئے۔

خاتون نے ان کی طرف دیکھا اور کہا ”صاحب! یہ آپریشن آپ نے کیا؟“ میں نے جواب دیا ”ہاں“ اس نے جھولی پھیلائی، آسمان کی طرف دیکھا اور بولی ”یا پروردگار! اس شخص نے میرے اور میرے بچوں کے سر سے چھت چھینی، یا اللہ اسے اور اس کے بچوں کو برباد کر دے“ میں اس وقت جوان تھا، میں نے منہ دوسری طرف پھیر دیا۔ اس خاتون نے اس کے بعد کہا: ”یا اللہ! ہم سے ہمارے گھر چھیننے والے تمام لوگوں کو برباد کر دے“ اس نے اس کے بعد اپنی پوٹلی اٹھائی، اپنے بچے ساتھ لیے اور چلی گئی۔

وہ رکا، اس نے اپنے آنسو پونچھے اور بولا: جاوید صاحب! آپ یقین کریں، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، میں بحرانوں سے نہیں نکل سکا۔ میں اس پوٹلی والی کی بددعا کا نشانہ بن گیا۔ میرا ایکسیڈنٹ ہوا، میری بیوی اور میری بچی مر گئی، میری ٹانگیں کٹ گئیں۔ میرے دونوں بیٹے ایک ایک کر کے بیمار ہوئے، میں نے اپنی ساری جمع پونجی ان کے علاج پر لگا دی لیکن وہ فوت ہو گئے۔ مجھے سسرال سے گھر ملا تھا، وہ بک گیا۔ میں نے اپنا گھر بنایا تھا، وہ 2005ء کے زلزلے میں گر گیا۔

محکمے نے میرے اوپر الزام لگایا، میری انکوائری شروع ہوئی، میں ڈس مس ہوا اور بے گناہی کے باوجود آج تک بحال نہیں ہو سکا۔ میں مقدمے پر مقدمہ بھگت رہا ہوں، میں 38 سال کی عمر میں شوگر، بلڈ پریشر اور دل کا مریض بھی بن چکا ہوں اور میرے تمام رشتے دار اور دوست بھی میرا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ میں دل سے سمجھتا ہوں مجھے اس عورت کی بددعا لگی تھی۔ حکومت، میرا محکمہ اور آرڈر دینے والے لوگ، تینوں پیچھے رہ گئے لیکن میں برباد ہو گیا۔میں آج سوچتا ہوں تو میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں‘میں کتنا بے وقوف تھا! میں نے جنرل مشرف کے حکم پر غریبوں کے سروں سے چھت چھین لی.

وہ رکا اور پھر بولا: آپ کو میری باتیں عجیب لگیں گی لیکن میں نے تحقیق کی ہے، اس آپریشن کا حکم دینے والا ہر شخص میری طرح ذلیل ہوا، ان میں سے آج کوئی شخص اپنے گھر میں آباد نہیں، وہ سب اولاد اور بیویوں کے بغیر عبرت ناک اور بیمار زندگی گزار رہے ہیں یہاں تک کہ اس وقت کے چیئرمین سی ڈی اے کی ساری پراپرٹی بھی بک گئی اور اس کی اولاد بھی دربدر ہو گئی، وہ بھی عبرت کا نشان بن کر آخری سانسیں لے رہا ہے۔ہم سب کو اس عورت کی آہ کھا گئی.

میرا تجربہ اور میرا مشاہدہ ہے دنیا کا ہر وہ شخص جو کسی کے سر سے چھت اور اس کا روزگار چھینتا ہے یا پھر کسی معزز شخص کو بے عزت کرنے کی کوشش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے سب کچھ چھین لیتا ہے اور وہ شخص اس کے بعد روز مرتا اور روز جیتا ہے مگر اس کی سزا ختم نہیں ہوتی لہٰذا آپ جو دل چاہے کریں، لیکن کسی کی بددعا نہ لیں۔ دنیا کے تمام عہدے، کرسیاں اور تکبر عارضی ہوتے ہیں، یہ پیچھے رہ جاتے ہیں اور دنیا اور آخرت دونوں میں صرف پوٹلی والیوں کی دعائیں یا پھر بد دعائیں کام کر جاتی ہیں۔

۔۔جاوید چودھری۔۔

25/09/2025

*رئیس الملائکہ اور سلطان الارض (ابلیس) کا تاریخی لقب* 💦

ابن ابی حاتم سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ اس ابلیس کا نام پہلے عزازیل تھا اور وہ چار پروں والا بازو رکھنے والے فرشتوں میں افضل سمجھا جاتا تھا۔ ابن ابی حاتم نے اپنی اس روایت کا مزید استناد حجاج، ابن جریج اور ابن عباس سے کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ابلیس اشرف الملائکہ اور اپنے قبیلے کی عظیم ترین شخصیت تھا۔ اسی لیے وہ فرشتوں کا خازن تھا اور پہلے آسمان کی سلطنت اس کے حوالے کی گئی تھی بلکہ زمین کی سلطنت بھی اس کے سپرد تھی اور وہ سلطان الارض کہلاتا تھا۔

طاؤس کے غلام صالح، ابن عباس کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ابلیس ہی ارض و سما کے مابین وسوسوں کی بنیاد بنا۔ یہ اصلاً ابن جریر کی روایت ہے، جب کہ قتادہ، سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ابلیس پہلے آسمان دنیا میں رئیس الملائکہ تھا۔
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابلیس کے علاوہ فرشتوں میں کوئی "طرفۃ العین" نہیں کیونکہ وہ اصل الجن ہے جیسے حضرت آدم علیہ السلام البشر ہیں۔

شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ فرشتے ابلیس سے دور دور رہتے تھے اور اسے بھی اپنے آپ سے دور رکھتے تھے لیکن بعض فرشتوں ہی نے اسے کچھ ایسے اسرار بتا دیے کہ وہ ان کی وجہ سے زمین سے آسمان پر چلا گیا۔ یہ بھی ابن جریر کی روایت ہے۔

ایسی بہت سی روایات ملتی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ تخلیقِ آدم سے قبل ابلیس سلطان الارض تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی تخلیق کا ارادہ فرمایا اور ان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنانے کا ارادہ ظاہر فرمایا تاکہ ان کی اولاد زمین پر آباد ہو تو ابلیس، جس کا نام عزازیل تھا، نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اس خدشے کا اظہار کیا کہ آدم کے نائب السلطنت ہو جانے کے بعد وہ اور ان کی اولاد اس کی ذریت کو ہلاک کر کے اس کی زمین پر تمام ملکیت چھین لے گی، جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ عبادت گزار ہے اور اسے فرشتوں پر بھی برتری حاصل ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے آدم کا پتلا بنا کر اس میں روح پھونک دی اور فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں تو عزازیل بے حد حسد میں مبتلا ہو گیا اور آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ چونکہ اس کی تخلیق آگ سے ہوئی تھی فطرتاً نامی تھا اس لیے سرکش ہو گیا۔ لہٰذا اس وقت تک اس نے اللہ تعالیٰ کی جتنی عبادت کی تھی وہ اس کی حکم عدولی کی وجہ سے بے کار ہو گئی اور وہ طوق لعنت میں گرفتار ہو گیا۔

اس نے یہ کہا کہ میں آدم سے افضل ہوں کیونکہ اس کی تخلیق مٹی سے اور میری آگ سے ہوئی ہے اور اس سے قبل اسے فرشتوں پر مشابہت تھی بلکہ ان پر جو مرتبہ حاصل تھا وہ آنًا فانًا چھین لیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ اس کا تکبر اور اپنے رب کی نافرمانی تھی۔ نیز اس کی پیدائش چونکہ آگ سے ہوئی تھی اس لیے اس کی فطرت میں سرکشی شامل تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود قرآن شریف میں ارشاد فرماتا ہے کہ جب اس نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں:

فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ إِلَّا إِبْلِيسَ اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ
اور ایک دوسری جگہ ارشاد ہوا:
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ۖ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا

ان آیاتِ مقدسہ سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ جل شانہ نے عزازیل (شیطان) کو دوسرے تمام فرشتوں سمیت حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں۔ چنانچہ شیطان کے علاوہ جملہ ملائکہ نے آدم کو سجدہ کیا لیکن اس نے تکبر کیا اور آدم کو سجدہ سے انکار کیا اور اسی طرح ارتکابِ کفر کیا۔ نیز یہ کہ اس کے اس انکار کی وجہ اس کی آگ سے تخلیق اور قومِ جنات سے ہونا تھا۔
(تاریخ ابن کثیر، ج ۱، ص

  🍂
21/09/2025

🍂

 🍂
17/09/2025

🍂

Address

Khan Khan Khan
Mirpur

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Inspire Mix Trend Vault posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Inspire Mix Trend Vault:

Share