02/10/2025
یہی ہونا تھا، جو ہوا،سینیٹر مشتاق اور پانچ سو سے زیادہ فلوٹیلا بردار گرفتار کر لئے گئے۔ اگر سانپ کی فطرت ڈسنا ہے اور بچھو کی فطرت زہر اگلنا ہے تو اس+رائیل اپنی فطرت جبر و دھونس سے کیسے باز آ سکتا تھا؟ وہ قوم جس نے انبیا سے جفا کی، جس قوم کی ایک رقاصہ نے اپنے نسوانی وجود کی قیمت یحیی نبی کا ق ت ل بتائی،اس سے ہمیں انسانی بہبود کی کیا امید ہو سکتی تھی؟
تاریخ بتاتی ہے کہ یہ قوم ایسے معاملات میں کوئی بھی انسانی زبان نہیں سمجھتی ،یہ صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے، وہی جو انھیں بخت نصر نے سمجھائی اور جو حالیہ تاریخ میں جرمنی کے بدنام زمانہ ستم گر نے سمجھائی اور بدقسمتی سے طاقت کی جو زبان بولنا ایک زمانے سے یہ امت بھول چکی ہے، سو دنیا کے کان اس کی بات سنتے تو ہیں مگر سمجھ نہیں پاتے۔ یہی ہونا تھا، یہی ہوا
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سینیٹر مشتاق نے ثابت کر دکھایا کہ اسلام آباد میں اس کے کیمپ اکھاڑنے اور اسے غ+زہ جانے کا مشورہ دینے والا اہلکار غلط تھا اور ڈھلتی عمر کا یہ جوان درست تھا۔
اس نے ثابت کیا کہ وہ ایسا فراخ حوصلہ شخص ضرور ہے، جو اپنوں کیلئے ایک رائیگاں سفر میں اتنی جان مار سکے۔
اس نے ثابت کیا کہ ایسے سیاستدان بھی ہو سکتے ہیں، جو سینٹ میں تقریر کرنے کے علاوہ عمل کے سمندر میں بھی کود سکتے ہیں۔
اس نے غ+زہ کے محصور انسانوں اور دینی رشتے میں جڑے مسلمانوں کو بتایا کہ کوئی دیوانہ ان کے پنجرے سے سرٹکرانے بھی آ سکتا ہے۔
اس نے ثابت کیا کہ حکمرانوں کی مجبوریاں اورمصلحتیں ہوسکتی ہیں، لیکن اس امت میں اب بھی اتنا دم ہے کہ وہ طارق بن زیاد کی طرح سمندروں میں کشتیاں ڈال کے اپنے عزم کو بادباں اور اپنی ہمت کو چپو بنا سکے۔
سینیٹر مشتاق ، پیر مظہر شاہ ،ان کے دوسرے پاکستانی ساتھی اور صمود گلوبل فلوٹیلا کے یہ سارے انسانیت کے مجاہد تاریخ میں ذکر ہوں گے۔ یہ تاریخ میں زندہ رہیں گے، بہت بعد میں جب کبھی دنیا کو انسانیت کی سمجھ آئے گی ، وہ اپنے بچوں کو پڑھایا کریں گے کہ جب دنیا نے ملکر کئی لاکھ لوگوں کو پنجرے میں قید کرنا قبول کر لیا تھا تو کچھ لوگ تب بھی تھے، جو سمندر کے سینوں پر تیر کر اس پنجرے تک چند نوالے پہنچانے آیا کرتے تھے اور ان سرفروشوں سے لاکھوں دل امید لگایا کرتے تھے، ان کیلئے دست دعا اٹھایا کرتے تھے۔
یہ لوگ زندہ رہیں گے۔