Guard of Rights

  • Home
  • Guard of Rights

Guard of Rights Guard of Rights is an organization which coordinate with media to solve problems of people related w

29/06/2024

ﺍﯾﮏ ﭼﻮﮨﺎ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﻞ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ،

ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﭼﻮﮨﮯ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﺴﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﯾﮏ ﺗﮭﯿﻠﮯ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻧﮑﺎﻝ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ،ﭼﻮﮨﮯ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺷﺎﯾﺪ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮨﮯ -
ﺧﻮﺏ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﭼﻮﻫﮯﺩﺍﻧﯽ ﺗﮭﯽ - ﺧﻄﺮﮦ ﺑﮭﺎﻧﭙﻨﮯ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﭘﭽﮭﻮﺍﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﮐﺒﻮﺗﺮ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﭼﻮﻫﮯﺩﺍﻧﯽ ﺁ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ - ﮐﺒﻮﺗﺮ ﻧﮯ ﻣﺬﺍﻕ ﺍﮌﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﯿﺎ؟

ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺴﻨﺎ ﮨﮯ؟ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﭼﻮﮨﺎ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻣﺮﻍ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮔﯿﺎ - ﻣﺮﻍ ﻧﮯ ﻣﺬﺍﻕ ﺍﮌﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ... ﺟﺎ ﺑﮭﺎﻳﻴﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﭼﻮﮨﮯ ﻧﮯ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺑﮑﺮﮮ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﺋﯽ

ﺍﻭﺭ ﺑﮑﺮﺍ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﻟﻮﭦ ﭘﻮﭦ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﺳﯽ ﺭﺍﺕ ﭼﻮﻫﮯﺩﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻛﮭﭩﺎﻙ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺯﮨﺮﯾﻼ ﺳﺎﻧﭗ ﭘﮭﻨﺲ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ

ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻡ ﮐﻮ ﭼﻮﮨﺎ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻧﮑﺎﻻ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﻧﭗ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮈﺱ ﻟﯿﺎ - ﻃﺒﯿﻌﺖ ﺑﮕﮍﻧﮯ ﭘﺮ ﮐﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﺣﮑﯿﻢ ﮐﻮ ﺑﻠﻮﺍﯾﺎ، ﺣﮑﯿﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﺒﻮﺗﺮ ﮐﺎ ﺳﻮﭖ ﭘﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﺩﯾﺎ،

* ﮐﺒﻮﺗﺮ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﺮﺗﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﺧﺒﺮ ﺳﻦ ﮐﺮ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﮐﺌﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭ ﻣﻠﻨﮯ ﺁ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺟﻦ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﻣﺮﻍ ﮐﻮ ﺫﺑﺢ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﭽﮫ ﺩﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻣﺮ ﮔﺌﯽ

ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﺕ ﺿﯿﺎﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮑﺮﺍ کاٹنے ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﺎﺭﮦ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ

ﭼﻮﮨﺎ ﺩﻭﺭ ﺟﺎ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ!
ﺑﮩﺖ ﺩﻭر. ﺍﮔﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﺑﺘﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻟﮕﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﯿﺠﺌﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺳﻮﭼﯿﮟ
ﮨﻢ ﺳﺐ ﺧﻄﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺳﻤﺎﺝ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻋﻀﻮ، ﺍﯾﮏ ﻃﺒﻘﮧ، ﺍﯾﮏ ﺷﮩﺮﯼ ﺧﻄﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﻣﻠﮏ ﺧﻄﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺫﺍﺕ ﻣﺬﮨﺐ ﺍﻭﺭ ﻃﺒﻘﮯ ﮐﮯ ﺩﺍﺋﺮﮮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﻜﻠﻴﮯ -
منقول

22/05/2024

⚖️ حیض والے مرد 😊

منیر نیازی صاحب کہتے ہیں کہ میں ابا جی کے ساتھ بیٹھا ھوا تھا۔

اچانک انہوں نے مجھ سے پوچھا: بیٹا "حیض کے بارے میں کیا جانتے ہو؟"

میں نے اپنے دل میں الحمد للہ پڑھ کر اللہ پاک کا شکر ادا کیا کہ ہم بھی اب اپنے آپ کو ان آزاد خیال لوگوں میں شمار کر سکتے ہیں جو اپنے گھر میں ہر قسم کے موضوع پر کھل کر بات کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی مجھے وہ سارے بیتے سال یاد آ گئے جو میں نے ابا جی کے رعب اور دہشت کے ساتھ اس گھر کے گھٹن زدہ ماحول میں گزار دیئے تھے۔

میں نے مسکراتے ہوئے کہا : "ابا جی، حیض ایک ایسے سرکل کا نام ہے جس سے ھر جوان عورت مہینے میں ایک بار گزرتی ہے.."

ابا جی نے پھر پوچھا : "تو پھر عورت اس حالت میں کیا کرتی ہے؟" 🤔

میں نے کہا: "ابا جی..، عورت اس حالت میں نہ نماز پڑھ سکتی ھے نہ قران مجید پڑھ سکتی ھے اور نہ ہی روزہ رکھ سکتی ہے۔۔۔"

ابا جی نے اس بار قدرے سخت اور اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا: "پُتر اس کا مطلب یہ ہے کہ تجھ میں اور اُس حیض والی عورت میں کوئی فرق نہیں ہے

کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔

تم بھی نہ تو نماز پڑھتے ھو نہ قرآن پڑھتے ہو اور .. ... ! 😰😠
یہ سن کر میں شرم سے ڈوب ڈوب گیا ۔۔۔ اور میرے اندر سکت باقی نا رہی کہ سر اٹھا سکوں یا وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں جا سکوں ۔ 😔

ہاں اس کے بعد سے میں نے باقاعدہ نماز پڑھا شروع کر دی ۔ اور روزانہ قرآن مجید کی تلاوت بھی بآواز بلند کیا کرتا۔ تاکہ "حیض_والے_مرد " کے جیسے شرمناک الزام سے ابا جی کی نگاہوں میں خود کو بری ثابت کر سکوں۔ 🙄

""""""""""""""""""""""""""""""""""
اب آپ خود اپنے بارے میں بھی فیصلہ کر لیجئے کہ آپ اپنے آپ کو کہاں دیکھتے ہیں ؟؟؟

؟ _ یا _ حقیقی مسلمان مرد ؟

29/04/2024

حیران کن سچا واقعہ
میرے پاس چند دن قبل ایک ریٹائرڈ
پولیس افسر آئے‘ ان کا چھوٹا سا مسئلہ تھا‘
میں ان کی جتنی مدد کر سکتا تھا میں نے کر دی‘
اس کے بعد گفتگو شروع ہوئی تو میں نے
ان سے زندگی کا کوئی حیران کن واقعہ
سنانے کی درخواست کی۔
میری فرمائش پر انھوں نے ایک ایسا
واقعہ سنایا جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور
میں نے سوچا‘ مجھے یہ آپ کے ساتھ بھی
شیئر کرنا چاہیے‘

پولیس افسر کا کہنا تھا میں 1996 میں لاہور میں ایس ایچ او تھا‘ میرے والد علیل تھے‘ میں نے انھیں سروسز اسپتال میں داخل کرا دیا‘ سردیوں کی ایک رات میں ڈیوٹی پر تھا اور والد اسپتال میں اکیلے تھے‘ اچانک ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور وہ الٹیاں کرنے لگے۔

میرے خاندان کا کوئی شخص ان کے پاس نہیں تھا‘ وہ دو مریضوں کا کمرہ تھا‘ ان کے ساتھ دوسرے بیڈ پر ایک مریض داخل تھا‘ اس مریض کا اٹینڈنٹ موجود تھا‘ وہ اٹھا‘ اس نے ڈسٹ بین اور تولیہ لیا اور میرے والد کی مدد کرنے لگا‘ وہ ساری رات ابا جی کی الٹیاں صاف کرتا رہا‘ اس نے انھیں قہوہ بھی بنا کر پلایا اور ان کا سر اور بازو بھی دبائے‘ صبح ڈاکٹر آیا تو اس نے اسے میرے والد کی کیفیت بتائی اور اپنے مریض کی مدد میں لگ گیا‘

میں نو بجے صبح وردی پہن کر تیار ہو کر والد سے ملنے اسپتال آ گیا۔ اباجی کی طبیعت اس وقت تک بحال ہو چکی تھی‘ مجھے انھوں نے اٹینڈنٹ کی طرف اشارہ کر کے بتایا‘ رات میری اس مولوی نے بڑی خدمت کی‘

میں نے اٹینڈنٹ کی طرف دیکھا‘ وہ ایک درمیانی عمر کا باریش دھان پان سا ملازم تھا‘ میں نے مسکرا کر اس کا شکریہ ادا کیا لیکن پھر سوچا‘ اس نے ساری رات میرے والد کی خدمت کی ہے‘ مجھے اسے ٹپ دینی چاہیے‘ میں نے جیب سے پانچ سو روپے نکالے اور اس کے پاس چلا گیا‘ وہ کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اپنا ایک ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے اسے پانچ سو روپے پکڑانے لگا‘

وہ کرسی پر کسمسایا لیکن میں نے رعونت بھری آواز میں کہا ’’لے مولوی‘ رکھ یہ رقم‘ تیرے کام آئے گی‘‘ وہ نرم آواز میں بولا ’’نہیں بھائی نہیں‘ مجھے کسی معاوضے کی ضرورت نہیں‘ میں نے آپ کے والد کی خدمت اللہ کی رضا کے لیے کی تھی‘‘

میں نے نوٹ زبردستی اس کی جیب میں ڈال دیے‘ اس نے واپس نکالے اور میرے ہاتھ میں پکڑانا شروع کر دیے جبکہ میں اسے کندھے سے دباتا جا رہا تھا اور اصرار کر رہا تھا‘ میں اسے بار بار ’’او مولوی چھڈ‘ ضد نہ کر‘ رکھ لے‘ تیرے کام آئیں گے‘‘ بھی کہہ رہا تھا مگر وہ بار بار کہہ رہا تھا‘ میرے پاس اللہ کا دیا بہت ہے‘ مجھے پیسے نہیں چاہییں‘

میں نے رات دیکھا‘ آپ کے والد اکیلے ہیں اور تکلیف میں ہیں‘ میں فارغ تھا لہٰذا میں اللہ کی رضا کے لیے ان کی خدمت کرتا رہا‘ آپ لوگ بس میرے لیے دعا کردیں وغیرہ وغیرہ

لیکن میں باز نہ آیا‘ میں نے فیصلہ کر لیا میں ہر صورت اسے پیسے دے کر رہوں گا۔ پولیس افسر رکے‘ اپنی گیلی آنکھیں اور بھاری گلہ صاف کیا اور پھر بولے‘ انسان جب طاقت میں ہوتا ہے تو یہ معمولی معمولی باتوں پر ضد باندھ لیتا ہے‘ یہ ہر صورت اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا ہے‘ میں نے بھی پیسے دینے کی ضد بنا لی تھی مگر مولوی مجھ سے زیادہ ضدی تھا‘ وہ نہیں مان رہا تھا‘ میں اس کی جیب میں پیسے ڈالتا تھا اور وہ نکال کر کبھی میری جیب میں ڈال دیتا تھا اور کبھی ہاتھ میں پکڑا دیتا تھا۔

میں نے اس دھینگا مشتی میں اس سے پوچھا ’’مولوی یار تم کرتے کیا ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’بس ایسے ہی لوگوں کی خدمت کرتا ہوں‘‘ وہ مجھے اپنا کام نہیں بتانا چاہتا تھا‘ میں نے اب اس کا ذریعہ روزگار جاننے کی ضد بھی بنا لی‘
میں اس سے بار بار اس کا کام پوچھنے لگا‘ اس نے تھوڑی دیر ٹالنے کے بعد بتایا ’’میں کچہری میں کام کرتا ہوں‘‘ مجھے محسوس ہوا یہ کسی عدالت کا اردلی یا کسی وکیل کا چپڑاسی ہو گا‘

میں نے ایک بار پھر پانچ سو روپے اس کی مٹھی میں دے کر اوپر سے اس کی مٹھی دبوچ لی اور پھررعونت سے پوچھا
’’مولوی تم کچہری میں کیا کرتے ہو؟‘‘
اس نے تھوڑی دیر میری طرف دیکھا اور پھر میرے والد کی طرف دیکھا‘ لمبی سانس لی اور پھر آہستہ آواز میں بولا ’’مجھے اللہ نے انصاف کی ذمے داری دی ہے‘
میں لاہور ہائی کورٹ میں جج ہوں‘‘

مجھے اس کی بات کا یقین نہ آیا‘ میں نے پوچھا ’’کیا کہا؟ تم جج ہو!‘‘
اس نے آہستہ آواز میں کہا ’’جی ہاں‘ میرا نام جسٹس منیر احمد مغل ہے اور میں لاہور ہائی کورٹ کا جج ہوں‘‘

یہ سن کر میرے ہاتھ سے پانچ سو روپے گر گئے اور میرا وہ ہاتھ جو میں نے پندرہ منٹ سے اس کے کندھے پر رکھا ہوا تھا وہ اس کے کندھے پر ہی منجمد ہو گیا۔
میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور آواز حلق میں فریز ہو گئی‘ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی میں اب کیا کروں؟

جسٹس صاحب نے بڑے پیار سے میرا ہاتھ اپنے کندھے سے اتارا‘ کھڑے ہوئے‘ جھک کر فرش سے پانچ سو روپے اٹھائے‘ میری جیب میں ڈالے اور پھر بڑے پیار سے اپنے مریض کی طرف اشارہ کر کے بتایا ’’یہ میرے والد ہیں‘ میں ساری رات ان کی خدمت کرتا ہوں‘ان کا پاخانہ تک صاف کرتا ہوں۔

میں نے رات دیکھا آپ کے والد اکیلے ہیں اور ان کی طبیعت زیادہ خراب ہے لہٰذا میں انھیں اپنا والد سمجھ کر ان کی خدمت کرتا رہا‘ اس میں شکریے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘

یہ سن کر میں شرم سے زمین میں گڑھ گیا کیوںکہ میں صرف ایس ایچ او تھا اور میرے پاس والد کے لیے وقت نہیں تھا‘ میں نے انھیں اکیلا اسپتال میں چھوڑ دیا تھا

جبکہ ہائی کورٹ کا جج پوری رات اپنے والد کے ساتھ ساتھ میرے والد کی خدمت بھی کرتا رہا اور ان کی الٹیاں بھی صاف کرتا تھا‘ میرے لیے ڈوب مرنے کا مقام تھا‘ میں ان کے پاؤں میں جھک گیا
مگر اس عظیم شخص نے مجھے اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔

وہ پولیس افسر اس کے بعد رونے لگے‘

میں نے ان سے پوچھا ’’کیا آپ کی اس کے بعد جسٹس صاحب سے دوبارہ کبھی ملاقات ہوئی؟‘‘
وہ روندھی ہوئی آواز میں بولے ’’بے شمار‘ میں نے زندگی میں ان سے اچھا‘ دین دار‘ ایمان دار اور نڈر انسان نہیں دیکھا‘
ان کا پورا نام جسٹس ڈاکٹر منیر احمد خان مغل تھا‘ انھوں نے دو پی ایچ ڈی کی تھیں‘ ایک پاکستان سے اور دوسری جامعۃ الاظہر مصر سے‘ دوسری پی ایچ ڈی کے لیے انھوں نے باقاعدہ عربی زبان سیکھی تھی ۔

انھوں نے اس کے علاوہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین پر 24 کتابیں لکھی تھیں‘ وہ ان تمام کاموں کے ساتھ ساتھ تیزی سے مقدمات نبٹانے میں مشہور تھے‘
چیف جسٹس جس مقدمے کا فوری فیصلہ چاہتے تھے وہ مقدمہ جسٹس منیر مغل کی عدالت میں لگ جاتا تھا‘

میں خاموشی سے سنتا رہا‘ پولیس افسر کا کہنا تھا‘ جسٹس صاحب غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ ایل ایل بی کے بعد مجسٹریٹ بھرتی ہو گئے‘ محنت کی عادت تھی۔

مجسٹریٹی کے دور میں ان کے پاس کام کم ہوتا تھا لہٰذا انھوں نے عدالتی صفحات کی بیک سائیڈ پر کلمہ لکھنا شروع کر دیا‘ یہ سارا دن کلمہ طیبہ لکھتے رہتے تھے شاید اس پریکٹس کا صلہ تھا اللہ تعالیٰ نے ان کی انرجی اور ٹائم میں برکت ڈال دی‘ انھوں نے دوران ملازمت ایک پی ایچ ڈی کی‘ پھر عربی زبان سیکھی‘ جامعۃ الاظہر میں داخلہ لیا اور عدالتی ٹائم کے بعد عربی زبان میں تھیسس لکھ کر مصر سے بھی پی ایچ ڈی کی ڈگری لے لی‘ وہ ہر نیا قانون پڑھتے اور اس پر فوری طور پر کتاب لکھ دیتے تھے‘ وہ کتاب بھی خود ٹائپ کرتے تھے اور اس سارے کام کے دوران عدالتی کارروائی بھی متاثر نہیں ہوتی تھی‘ وہ دھڑا دھڑ مقدمات نبٹا دیتے تھے۔

انھوں نے پوری زندگی اپنے والد کی خدمت خود کی‘ ان کا پیشاب و پاخانہ تک خود صاف کرتے تھے‘ والد زیادہ بیمار ہوئے تو ان کے بیڈ پر پاؤں کے قریب گھنٹی کا بٹن لگا دیا اور گھنٹی اپنے کمرے میں رکھ لی‘ والد ضرورت پڑنے پر پائوں سے بٹن دبا دیتے تھے اور وہ بھاگ کر ان کے پاس پہنچ جاتے تھے‘
اپنی بیگم کو بھی والد کا کوئی کام نہیں کرنے دیتے تھے۔

میں نے ان سے جسٹس صاحب کی زندگی کے مزید واقعات سنانے کی درخواست کی‘
پولیس افسر ہنس کر بولے‘ ایک بار ان کی عدالت میں جائیداد کے تنازع کا کیس آیا‘ ایک طرف سوٹیڈ بوٹیڈ امیر لوگ کھڑے تھے‘ ان کے ساتھ مہنگے وکیل تھے جبکہ دوسری طرف ایک مفلوک الحال بوڑھا کھڑا تھا‘ اس کا وکیل بھی مسکین اور سستا تھا‘
جسٹس صاحب چند سکینڈز میں معاملہ سمجھ گئے لہٰذا انھوں نے بوڑھے سے پوچھا ’’باباجی آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘

بزرگ نے جواب دیا ’’میں پرائمری ٹیچر ہوں‘‘ یہ سن کر جسٹس صاحب اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور کہا‘ ماشاء اللہ ہماری عدالت میں آج ایک استاد آئے ہیں لہٰذا یہ استاد کرسی پر بیٹھیں گے اور عدالت سارا دن ان کے احترام میں کھڑی ہو کر کام کرے گی اور اس کے بعد یہی ہوا‘ وہ بوڑھا استاد کرسی پر بیٹھا رہا جب کہ جسٹس صاحب اپنے عملے اور وکلاء کے ساتھ کھڑے ہو کر کام کرتے رہے‘ جسٹس صاحب نے سارے مقدمے نبٹانے کے بعد آخر میں بوڑھے استاد کا کیس سنا اور پانچ منٹ میں وہ بھی نبٹا دیا‘

میں نے ان سے پوچھا’’ کیا جسٹس صاحب حیات ہیں؟‘‘
ان کا جواب تھا ’’جی ہاں لیکن بیمار ہیں اور مفلوج ہیں‘‘
پولیس افسر نے اس کے بعد پرس سے سو سو روپے کے پانچ بوسیدہ نوٹ نکالے‘ میرے سامنے رکھے اور کہا ’’یہ وہ پانچ سو روپے ہیں‘ میں آج بھی انھیں تعویذ کی طرح جیب میں رکھتا ہوں‘‘
میں نے نوٹ اٹھائے‘ انھیں بوسا دیا اور اسے واپس پکڑا دیے‘ اس نے بھی وہ چومے اور دوبارہ پرس میں رکھ لیے‘
وہ واقعی تعویذ تھے‘ انھیں ایک اصلی انسان نے چھوا تھا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام کو پڑھنے سمجھنے عمل کرنے دوسروں کو پہنچانے اور دین کو زندگی کے ہر شعبے میں قائم کرنے کی جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
آمین ثم آمین یا رب العالمین.
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
منقول

20/04/2024

بادشاہ عبدالملک بن مروان بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا- اس کی نظر ایک نوجوان پر پڑی- جس کا چہرہ بہت پُر وقار تھا- مگر وہ لباس سے مسکین لگ رہا تھا- عبدالملک نے پوچھا، یہ نوجوان کون ہے۔ تو اسے بتایا گیا کہ اس نوجوان کا نام سالم ہے اور یہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیٹا اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا پوتا ہے۔
خلیفہ عبدالملک کو دھچکا لگا۔ اور اُس نے اِس نوجوان کو بلا بھیجا-
عبدالملک نے پوچھا کہ بیٹا میں تمہارے دادا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بڑا مداح ہوں۔ مجھے تمہاری یہ حالت دیکھ کر بڑا دکھ ہوا ہے۔ مجھے خوشی ہو گی اگر میں تمھارے کچھ کام آ سکوں۔ تم اپنی ضرورت بیان کرو۔ جو مانگو گے تمہیں دیا جائے گا-
نوجوان نےجواب دیا، اے عبدالملک بادشاہ! میں اس وقت اللہ کے گھر بیتُ اللّٰہ میں ہوں اور مجھے شرم آتی ہے کہ اللہ کے گھر میں بیٹھ کر کسی اور سے کچھ مانگوں۔

عبدالملک نے اس کے پُرمتانت چہرے پر نظر دوڑائی اور خاموش ہو گیا۔
بادشاہ نے اپنے غلام سے کہا- کہ یہ نوجوان جیسے ہی عبادت سے فارغ ہو کر بیتُ اللّٰہ سے باہر آئے، اسے میرے پاس لے کر آنا-
سالم بن عبداللہؓ بن عمرؓ جیسے ہی فارغ ہو کر حرمِ کعبہ سے باہر نکلے تو غلام نے اُن سے کہا کہ بادشاہ نے آپکو یاد کیا ہے۔
سالم بن عبداللہؓ خلیفہ کے پاس پہنچے۔
عبدالملک نےکہا،
نوجوان! اب تو تم بیتُ اللّٰہ میں نہیں ہو، اب اپنی حاجت بیان کرو۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں تمہاری کچھ مدد کروں۔
سالم بن عبداللہؓ نےکہا،
اے بادشاہ! آپ میری کونسی ضرورت پوری کر سکتے ہیں، دنیاوی یا آخرت کی؟
بادشاہ نےجواب دیا،
کہ میری دسترس میں تو دنیاوی مال و متاع ہی ہے۔ سالم بن عبداللہؓ نے جواب دیا- امیر المؤمنین! دنیا تو میں نے کبھی اللّٰہ سے بھی نہیں مانگی۔ جو اس دنیا کا مالکِ کُل ہے۔ آپ سے کیا مانگوں گا۔ میری ضرورت اور پریشانی تو صرف آخرت کے حوالے سے ہے۔ اگر اس سلسلے میں آپ میری کچھ مدد کر سکتے ہیں تو میں بیان کرتا ہوں۔
خلیفہ حیران و ششدر ہو کر رہ گیا-
اور کہنے لگا- کہ نوجوان یہ تُو نہیں، تیرا خون بول رہا ہے۔
بادشاہ عبدالملک کو حیران اور ششدر چھوڑ کر سالم بن عبداللہؓ رحمہ اللّٰہ وہاں سے نکلے اور حرم سے ملحقہ گلی میں داخل ہوئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

یوں ایک نوجوان حاکمِ وقت کو آخرت کی تیاری کا بہت اچھا سبق دے گیا۔

کیا آپ نے بھی آخرت کے بارے میں کچھ سوچا؟ نہیں سوچا تو اللہ کے واسطے ابھی اسی لمحہ سے سوچیں, کیا پتہ اگلا لمحہ ہمیں نصیب ہو یا نہ ہو

نوٹ اس پیغام کو اپنے ساتھیوں تک پہنچائیے ہوسکتاہے اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے۔۔۔۔

15/04/2024

*غم کسے کہتے ہیں؟ جب اللہ کی جانب سے آنے والی کوئی چیز قبول کرنے میں ہمیں دِقّت محسوس ہو رہی ہو تو ہم اسے غم کہتے ہیں ۔ اگر غم قبول کر لیا جائے تو اللہ اور ہم ایک پارٹی ہو گئے اور ایک جماعت ہو گئے ۔
یعنی اگر اللہ کہے کہ ہم تمہارے باغ کا سب سے خوبصورت پھول لے جانا چاہتے ہیں تو رضا والا کہے گا کہ باغ ہی آپ کا ہے اور آپ مالک ہیں ، اس باغ سے جو مرضی لے جائیں ۔ لیکن اس نے کیا لے جانا ہے ۔ دینے والا بھی وہ ہے اور لے جانے والا بھی وہ ہے ، اِدھر بھی وہ ہے اور اُدھر بھی وہ ہے ، اوّل بھی وہ ہے اور آخر بھی وہ ہے ، ظاہر بھی وہ ہے اور باطن بھی وہ ہے ۔ ہم اس کو دل میں رکھتے ہیں ۔ لہٰذا آپ اس کو اپنی مرضی کا مکمل اختیار دے دیں ۔ اگر نہیں دیں گے تو بھی اس نے اختیار استعمال کر لینا ہے کیونکہ سارا اختیار اس کا ہے ۔ لہٰذا آپ اپنی مرضی کا اختیار مکمل طور پر اسے دے دیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ

29/03/2024

🍃🌻 *آج آٹھارواں روزہ بھی گذر گیا....*
*ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے رمضان ہاتھ سے نکل جائے گا.... ان لمحات کی قدر کیجئے.*

اس میں کوئی برائی نہیں ہے کہ اپنے اور اپنے گھروالوں کے لیے شاپنگ کی جائے۔انسان کا اس کے کمائے ہوئے رزق پر پورا حق ہے۔ لیکن بس تھوڑی سی دیر کے لیے اتنا خیال کر لیں کہ اکثر وقت جو ہوتے ہیں، وہ ایک ساتھ پوری قوم اور انسانوں کے لیے آزمائش کے ہوتے ہیں، اور جو لوگ ان آزمائشوں میں سر خرور ہوجاتے ہیں تو رب کے یہاں ان کے لیے بہت بڑے بڑے انعام مقرر ہو جاتے ہیں۔ یہ جو مہنگائی کا وقت ہے، اس میں اچھے اچھے سفید پوش لوگ بہت برے حالات دیکھ رہے ہیں۔
میں ایک طرف شاپنگ مالز، بازار،وغیر ہ میں اندھا دھن رش دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں غربت نہیں ہے، کہیں کوئی غریب نہیں ہے۔ سب جھوٹ ہے،
*پاکستان بہت ہی زیادہ خوشحال ملک ہے۔لیکن پھر ذرا سا سفید پوش لوگوں کو دیکھیں، تو ایسی ایسی کہانیاں سننے کے لیے ملتی ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں* ،
مجھے نہیں معلوم کہ خبر سچی ہے یا جھوٹی، لیکن ایک باپ نے اپنی اولاد کو پانی سے افطار کرتے دیکھا تو زہر کھا لیا۔
کئی کئی میل پیدل چل کر بزرگ خواتین اس پوائنٹ پر جاتی ہیں جہاں راشن تقسیم ہوتاہے۔
گرمی اور دھوپ میں کھڑی ہیں تاکہ آٹا لے سکیں۔

🔅 *ہم سب کی مدد نہیں کر سکتے۔ لیکن تھوڑا سا اگر اپنی نظر کا دائرہ بڑھا لیں*
تو کم سے کم وہ چند لوگ جن تک ہم پہنچ سکتے ہیں، ان کی ایسی امداد کی جا سکتی ہے کہ ان کی عزت نفس بھی قائم رہے۔ اگر

*اس سال، عید کی بہت ساری شاپنگ میں تھوڑی سی کمی رہ جائے۔ اگر دستر خوان پر ایک ڈش کم ہو جائے، تو ہم رب کا سارا فضل سمیٹ سکتے ہیں۔میں اس پر اصرار نہیں کروں گا، بلکہ میں عاجزانہ نصیحت کروں گا کہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب رزق والوں کی آزمائش ہوتی ہے*

کہ انہوں نے بھوکے پیٹوں کو کس نظر سے دیکھا اور کس ہاتھ سے اس ان کی مدد کی۔ اور سب سے بہترین ہاتھ" دینے" والا ہاتھ ہے۔اور سب سے بہترین دل ، دے کر بھول جانے والا دل ہے۔
کم یا بہت کم پیسوں کو معمولی نہ سمجھیں،
اور اگلے دن کا ویٹ بھی نہ کریں، آج ابھی اس انسان یا گھرانے کو احترام کے ساتھ "رزق" پکڑا دیں اور ان سے کہیں کہ میں نے دئیے میں سے دیا ہے، اپنے پلے سے نہیں دیا۔
(ممتاز مفتی کی بات)
تمہارے رب کا دیا رزق ہے، اس میں تمہارا حصہ تمہارا ہوا، اور رب کا فضل ہم دونوں کا ہوا۔ *یہ بھی یاد رکھیں*
کہ جو مال خرچ کیا جاتا ہے اس کا حساب ہو گا۔ واحد مال جس کا حساب نہیں بلکہ انعام ہو گا وہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا جانے والا مال ہے۔
*اور یہی وہ واحد مال ہے جو دے کر" محفوظ" کیا جا تاہے*۔
واسلام

22/03/2024

تاریخ کا ایسا واقعہ جو دل چیرتا ہے۔
حضرت ابوذر غفاری نے حضرت بلال سے کہا "اے کالی ماں کے بیٹے تو بھی مجھے ٹوکتا ہے"
یہ بات بلال کا سینہ چیر گئی اور یہ بات سن کر حضرت بلال رونے لگے ..
اور کہا "میں یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤں گا"
اور پھر رحمۃ للعالمین نے جب یہ سنا تو آپکے چہرہ انور کا رنگ بدل گیا اور فرمایا
"اے ابوذر تو نے بلال کو ماں کے رنگ کا طعنہ دے کر اسکی تحقیر کی ہے تیرے اندر ابھی تک جاہلیت موجود ہے"
آپ (ص) کی زبان مبارک سے یہ سن کر ابوذر کی ہچکی بندھ گئی اور عرض کیا "یارسول اللہ میرے لیے بخشش کی دعا کیجیے" اور پھر روتے ہوئے بلال کے گھر کی جانب دوڑ لگادی
بلال کے پاس پہنچ کر اپنا چہرہ زمین پر رکھ دیا اور روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے
"اللہ کی قسم میں اپنا چہرہ اس وقت تک زمین سے نہیں اٹھاؤں گا جب تک بلال کا پاؤں اس چہرے پر نہیں پڑتا
اے بلال آپ عزت والے ہیں اور ابوذر ذلیل ہے"
اور پھر بلال نے پاس آکر ابوذر کا چہرہ چوم لیا اور کہا میں ایسے چہرے پر پاؤں نہیں رکھ سکتا جو رب کریم کے سامنے جھکتا ہو اور پھر دونوں بغل گیر ہو کر دیر تک روتے رہے ۔
کبھی غور کیا آج ہماری کیا کیفیت ہے؟
ھم کتنی دفعہ دوسروں کی تذلیل کرتے ہیں ؟
کبھی فرقہ و سیاسی گروہ کی بنیاد پر ، کبھی رنگ ونسل کی بنیاد پر ، کبھی برادری اور قومیت کی بنیاد پر کبھی علاقائی بنیاد پر کبھی مالی حالت کی بنیاد پر کبھی علم کی بنیاد پر اور کبھی عمل کی بنیاد پر کہ جیسے ہم نے ہی تقویٰ کا سرٹیفکیٹ لے رکھا ہے
اور پھر زندگی میں کم ہی وقت ملتا ہے کہ ہم اس پر معذرت کریں اور اعتراف کریں کہ ہم نے زیادتی کی تھی

اللہ پاک ہم سب کو اپنے اندر کی "میں" ختم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین،

10/03/2024

*🛑 پانچ قسم کے لوگوں کی دوستی سے پرھیز کرو*

*🔴 سید السجادین امام زین العابدین علیه السلام نے اپنے بیٹے امام محمد باقر علیه السلام سے ارشاد فرمایا:*

*👈 پانچ قسم کے لوگوں سے احتیاط برتنا اور ان کے ساتھ کسی قسم کی دوستی و هم نشینی اختیار مت کرنا.*

امام باقر علیه السلام نے دریافت کیا باباجان! یہ کون لوگ هیں.

*♻ امام علیه السلام نے ارشاد فرمایا:*

*1⃣ جهوٹے اور دروغ گو کی دوستی:*

جهوٹے کی صحبت اور دوستی سے بچو، کیونکہ جهوٹےکی مثال سراب کی مانند هے جو تمہارے لئے دور کو نزدیک اور نزدیک کو دور بنادے گا.

*2⃣ فاسق و فاجر کی دوستی:*

فاسق سےدوستی کرنے سے پرهیز کرو،
کیونکہ فاسق تمہیں وقت آنے پر ایک لقمہ یا اس سے کم قیمت پر بیچ دیگا.

*3⃣ بخیل و کنجوس کی دوستی:*

کنجوس سے دوستی کرنے سے محتاط رهو، کیونکہ وه تمهیں اپنے مال سےمحروم کردے گا اس وقت جب که تمہیں مال کی ضرورت هوگی.

*4⃣ بیوقوف اور احمق کی دوستی:*

بیوقوف سے دوستی کرنے سے اجتناب کرو، کیونکہ وه تمهیں فائده پہنچانا چاهے گا (مگر اپنی حماقت کی بنا پر) تم کو نقصان پہنچا دے گا.

*5⃣ قطع رحم کرنے والے کی دوستی:*

قطع رحم روا رکهنے والے سے دوستی کرنے سے پرهیز کرو، کیونکہ ایسے شخص کو قرآن میں تین جگہ رحمت الہی سے دور شمار کیا گیا هے.
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•

09/03/2024

آج سے 100 سال بعد مثال کے طور پر 2121 میں ہم سب اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ زیر زمین ہوں گے, اور اجنبی ہمارے گھروں میں رہیں گے اور ہماری جائیداد غیر لوگوں کی ملکیت ہوں گی,انہیں ہماری کچھ یاد بھی نہیں رہے گی ابھی بھی ہم میں سے کون اپنے دادا کے باپ کا سوچتا ہو گا .. ہم اپنی نسلوں کی یاد میں تاریخ کا حصه بن جائیں گے، جبکہ لوگ ہمارے نام اور شکلیں بھول جائیں گے. سو سال میں کئی اندھیرے اور ٹھہراؤ آئیں گے تب ہمیں اندازہ ہوگا کہ دنیا کتنی معمولی تھی، اور سب کچھ اور دوسرے سے زیادہ پا لینے کے خواب کتنے نادان اور خسارے کی سوچ کے حامل تھے، اور ہم چاہیں گے کہ اگر ہم اپنی ساری زندگی نیکیاں سمیٹتے اور نیکیاں کرتے ہوئے گزاریں تو وه موقع آج ھمارے پاس خوش قسمتی سے موجود ھے.. جب تک ہم باقی ہیں۔ ابھی زندگی باقی ہے غور کریں اور بدلیں..

اے اللہ ہمیں ہدایت دے..

اے اللہ ہمارا انجام اچھا کر..

04/03/2024

بہت مصروف رہنا بھی
خدا کی ایک نعمت ھے

ھجومِ دوستاں ھونا
کسی سنگت کا مِل جانا
کبھی محفل میں ہنس لینا
کبھی خِلوت میں رو لینا
خدا کی ایک نعمت ہے

کبھی تنہائی ملنے پر
خود اپنا جائزہ لینا
کبھی دُکھتے کسی دل پر
تشفّی کا مرہم رکھنا
خدا کی ایک نعمت ہے

کسی آنسو کو چُن پانا
کسی کا حال لے لینا
کسی کا راز ملنے پر
لبوں کو اپنے سِی لینا
خدا کی ایک نعمت ہے

کسی بچے کو چھُو لینا
کسی بُوڑھے کی سُن لینا
کسی کے کام آ سکنا
کسی کو بھی دُعا دینا
خدا کی ایک نعمت ہے

کسی کو گھر بلا لینا
کسی کے پاس خود جانا
نگاھوں میں نمی آ نا
بِلا کوشش ہنسی آ نا
خدا کی ایک نعمت ہے

تلاوت کا مزہ آ نا
کوئی آیت سمجھ پانا
کبھی سجدے میں سو جانا
کسی جنت میں کھو جانا
خدا کی ایک نعمت ہے

26/01/2024

*چین نے انسانی استعمال کے لیے کوکا کولا پر پابندی لگا دی اور اسے صفائی کے مواد کے طور پر درجہ بندی کر دیا*

*چین* میں، کوکا کولا کو سیوریج کلینر کے طور پر فروخت کیا جائے گا، اور امریکی کوکا کولا کمپنی کے تیار کردہ کوکا کولا سافٹ ڈرنک کو چینی مرکزی کمیٹی برائے فوڈ کوالٹی کے فیصلے کے مطابق اس زمرے میں منتقل کیا جائے گا۔ پائپوں کی صفائی کے لیے تجویز کردہ سینیٹری مائعات...

اس سخت فیصلے کی وجہ مشروبات کے مواد اور انسانی صحت پر اس کے اثرات پر سائنسی تحقیق ہے۔ تجربات اور تحقیق کے لیے چینی جیلوں میں 500 سے زائد قیدیوں کا انتخاب کیا گیا۔ انہوں نے چھ ماہ تک دن میں تین بار کوکا کولا پیا۔ تجربہ 75 افراد کی موت کے ساتھ ختم ہوا، اور 150 لوگ متاثر ہوئے۔ دیگر معذور تھے، اور باقی دائمی بیماریوں کی شدت میں مبتلا پائے گئے اور ان کی صحت کو مختلف درجات کی شدت کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا...
ان اعداد و شمار کی بنیاد پر، اتھارٹی سافٹ ڈرنکس کے انسانی زندگی اور صحت کے لیے خطرے کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچی، جس کی وجہ سے چینی ملک میں تمام گروسری اسٹورز سے کوکا کولا کو فوری طور پر واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا 🇨🇳...
ایک ہی وقت میں، مائع کی مثبت خصوصیات کو نوٹ کیا جاتا ہے. خاص طور پر، غسل خانوں، کچن میں گٹر کے پائپوں اور بیت الخلاء کے لیے ایک مؤثر کلینر کے طور پر پلمبنگ میں...

*ترکی* میں اور دنیا میں پہلی بار امریکی کمپنی کوکا کولا کے خلاف اس مشروب کی ترکیب کی وجہ سے ٹرائل شروع ہوا، جو پھیپھڑوں، جگر، تھائیرائیڈ اور لیوکیمیا کا سبب بن سکتا ہے...

*بھارت* میں، سپریم کورٹ نے کوکا کولا مشروبات کی تقسیم پر ان کے صحت کے خطرات کی وجہ سے پابندی لگا دی...

*لاتویا* نے پرائمری اسکولوں میں کوکا کولا اور پیپسی کی تقسیم پر پابندی عائد کردی، اور *انگلینڈ* اور *یوکرین* میں، اسکولوں میں ان کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی...

*⛔ کوکا کولا کے بارے میں حقائق*:

اس میں آرتھوفاسفورک ایسڈ کے مواد کی وجہ سے کیتلی اور باتھ روم میں تختی سے زنگ یا نام نہاد پیمانے کو ہٹانے میں اسے اچھا سمجھا جاتا ہے۔

*کچھ ایشیائی ممالک* میں، کسان کیڑوں اور دیگر کو مارنے کے لیے کوکا کولا کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ کیمیکلز سے سستا ہے، اور یہ وہی اثر دیتا ہے...

★ دنیا بھر میں ہر سیکنڈ میں 8,000 ہزار کپ کوکا کولا مشروبات استعمال کیے جاتے ہیں...

مندرجہ بالا تمام چیزیں صرف کوکا کولا پر لاگو نہیں ہوتی ہیں، بلکہ دیگر تمام سافٹ ڈرنکس خطرناک ہیں، جیسے پیپسی اور ہر قسم کے دیگر مشروبات...
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مینوفیکچرنگ کمپنیاں صرف منافع کی پرواہ کرتی ہیں اور مکمل طور پر تجارت کے مقصد کے لیے انسانی صحت کا خیال نہیں رکھتیں۔ جہاں تک آپ کی صحت کا خیال رکھنا ہے، یہ صرف آپ کے ہاتھ میں ہے، لہٰذا آپ اسے پینے سے پرہیز کریں اور اپنے اردگرد رہنے والوں کو مشورہ دیں کہ وہ اسے نہ پییں... درحقیقت یہ پینا مزیدار ہے کیونکہ اس میں تیزاب، شکر اور کیمیکل ہوتے ہیں۔ لیکن ایک ہی وقت میں، یہ خطرناک اور مہلک ہے اور کینسر، آسٹیوپوروسس اور جلد یاداشت میں کمی لاتا ہے۔

زبردست ڈٹرجنٹ داغ ہٹانے والا۔ زہریلا

: بالکل اسی طرح میں کوکا کولا استعمال کرتا ہوں!

18/01/2024

حضرت خالد بن ولیدؓ کے انتقال کی خبر جب مدینہ منورہ پہنچی تو ہر گھر میں کہرام مچ گیا ۔
جب حضرت خالد بن ولیدؓ کو قبر میں اتارا جارہا تھا تو لوگوں نے یہ دیکھا کہ آپؓ کا گھوڑا ’’اشجر‘‘ جس پر بیٹھ کے آپ نے تمام جنگیں لڑیں ، وہ بھی آنسو بہارہا تھا ۔
حضرت خالد بن ولیدؓ کے ترکے میں صرف ہتھیار ، تلواریں ، خنجر اور نیزے تھے ۔
ان ہتھیاروں کے علاوہ ایک غلام تھا جو ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتا تھا ،،اللہﷻ کی یہ تلوار جس نے دو عظیم سلطنتوں (روم اور ایران) کے چراغ بجھائے ۔
وفات کے وقت ان کے پاس کچھ بھی نہ تھا ، آپؓ نے جو کچھ بھی کمایا، وہ اللہﷻ کی راہ میں خرچ کردیا۔
ساری زندگی میدان جنگ میں گزار دی ۔
صحابہؓ نے گواہی دی کہ ان کی موجودگی میں ہم نے شام اور عراق میں کوئی بھی جمعہ ایسا نہیں پڑھا جس سے پہلے ہم ایک شہر فتح نہ کرچکے ہوں یعنی ہر دو جمعوں کے درمیانی دنوں میں ایک شہر ضرور فتح ہوتا تھا۔
بڑے بڑے جلیل القدر صحابہؓ نے حضورؐ سے حضرت خالدؓ کے روحانی تعلق کی گواہی دی ۔

خالد بن ولیدؓ کا پیغام مسلم امت کے نام :

موت لکھی نہ ہو تو موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے ۔جب موت مقدر ہو تو زندگی دوڑتی ہوئی موت سے لپٹ جاتی ہے ، زندگی سے زیادہ کوئی نہیں جی سکتا اور
موت سے پہلے کوئی مر نہیں سکتا ،،
دنیا کے بزدل کو میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ اگر میدانِ جہاد میں موت لکھی ہوتی تو اس خالد بن ولیدؓ کو موت بستر پر نہ آتی۔
رضی اللہ تعالٰی عنہُ

Address


Opening Hours

Monday 09:00 - 17:00
Tuesday 09:00 - 17:00
Wednesday 09:00 - 17:00
Thursday 09:00 - 17:00
Saturday 09:00 - 17:00

Telephone

03369994909

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Guard of Rights posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Guard of Rights:

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Opening Hours
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share