03/02/2025
نفسیاتی اصول: جب مرہم کی توقع ختم ہوجائے
انسانی نفسیات میں امید اور توقعات کا گہرا تعلق ہے۔ جب کوئی فرد جذباتی یا جسمانی تکلیف میں ہوتا ہے، تو وہ فطری طور پر ان لوگوں سے دلاسے، مدد، یا ہمدردی کی توقع رکھتا ہے، جو اس کے قریب ہوتے ہیں۔ لیکن جب وہی لوگ اسے نظر انداز کر دیں یا اس کے درد کو محسوس نہ کریں، تو اس کی نفسیاتی دنیا میں ایک اہم تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ یہ تبدیلی جذباتی برداشت (emotional resilience) کی تعمیر کر سکتی ہے، یا پھر مایوسی اور رشتوں کی بے حسی کو بے نقاب کر دیتی ہے۔
---
عزتِ نفس اور جذباتی مرہم:
ہر فرد کی عزتِ نفس (self-esteem) اس کی ذہنی صحت کا بنیادی جزو ہے۔ جب کسی کی عزتِ نفس مجروح ہو اور وہ تکلیف میں ہو، تو وہ لاشعوری طور پر اس شخص سے ہمدردی کی امید کرتا ہے جسے وہ قریب سمجھتا ہے۔ اگر یہ امید پوری نہ ہو، تو فرد کے اندر شدید جذباتی ردِعمل پیدا ہوتا ہے، جیسے:
- دکھ اور بے بسی (Sadness & Helplessness)
- غصہ اور مایوسی (Anger & Frustration)
- خود پر شک اور عدمِ تحفظ (Self-doubt & Insecurity)
اگر یہ احساسات زیادہ دیر تک برقرار رہیں، تو وہ فرد یا تو جذباتی طور پر مضبوط ہوجاتا ہے یا پھر وہ جذباتی لاتعلقی (emotional detachment) کا شکار ہوجاتا ہے۔
دفاعی نظام اور جذباتی برداشت:
نفسیاتی دفاعی نظام (Defense Mechanisms) انسان کے ذہن کو شدید جذباتی تکلیف سے بچانے کے لیے متحرک ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں، مختلف ردِعمل دیکھنے میں آتے ہیں:
- جذباتی بے حسی (Emotional Numbness):انسان اپنے جذبات کو دبا کر کسی پر توقع نہ رکھنے کا عہد کر لیتا ہے۔
- خودانحصاری (Self-Reliance): فرد سیکھ لیتا ہے کہ دوسروں سے امید رکھنے کی بجائے، اسے خود اپنی ہمت بننا ہوگا۔
- رشتوں پر نظرثانی (Relationship Reevaluation): وہ جان جاتا ہے کہ کون حقیقت میں اس کے قریب ہے اور کون محض رسمی تعلق نبھا رہا تھا۔
ذہنی لچک (Psychological Resilience) کی تعمیر:
اگر یہ عمل صحت مند طریقے سے آگے بڑھے، تو انسان کے اندر جذباتی لچک (resilience) پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اب درد سے بھاگنے کے بجائے اسے جھیلنا سیکھ لیتا ہے۔ یہ کیفیت ابتدا میں مشکل لگتی ہے، مگر وقت کے ساتھ وہ خود کو اتنا مضبوط بنا لیتا ہے کہ چھوٹے موٹے جذباتی دھچکوں سے متاثر نہیں ہوتا۔
مایوسی اور جذباتی لاتعلقی کے خطرات
اگر یہ عمل غیرمتوازن ہو جائے، تو فرد مکمل مایوسی کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔ وہ محبت، خلوص، اور ہمدردی جیسے جذبات پر یقین کھو دیتا ہے اور خود کو جذباتی طور پر دوسروں سے کاٹ لیتا ہے۔ یہ کیفیت تعلقات کو مزید نقصان پہنچا سکتی ہے، کیونکہ جب انسان خود کو دوسروں سے الگ کر لیتا ہے، تو وہ اپنی خوشیوں اور محبت کی صلاحیت بھی کھو سکتا ہے۔
---
جب کسی کی عزتِ نفس بار بار مجروح ہو، اور جس سے ہمدردی کی توقع ہو، وہی مرہم رکھنے سے انکار کر دے، تو دماغ دو راستے اختیار کرتا ہے: یا تو وہ خود کو مزید مضبوط بنا کر جذباتی طور پر خودانحصار ہو جاتا ہے، یا پھر وہ تعلقات سے لاتعلق ہو کر مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر یہ تبدیلی متوازن ہو، تو یہ جذباتی مضبوطی میں بدل جاتی ہے، اور اگر غیرمتوازن ہو، تو مایوسی اور بے حسی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس لیے، جذباتی تکلیف میں خود کو مضبوط کرنا ضروری ہے، مگر اپنے اندر کے حساس جذبات کو مکمل ختم کرنا بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔