08/10/2025
بیس سال پہلے (8اکتوبر،2005)
آج سے 20 سال پہلے 8 اکتوبر 2005 کو صبح 8:50 بجے (پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق) پاکستان کے شمالی حصوں خاص طور پر آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا (اس وقت صوبہ سرحد) میں ایک زبردست زلزلہ آیا جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر شدت 7.6 تھی اورمرکز (Epicenter) اسلام آباد سے تقریباً 100 کلومیٹر شمال مشرق میں مظفر آباد کے قریب تھا۔اکتوبر2005 کا زلزلہ دنیا کا چوتھا بڑازلزلہ تھا۔اگر تاریخ دیکھیں تو اس سے قبل دسمبر 2004ء میں 9.0ریکٹر اسکیل کی شدت سے انڈونیشیا کے زیر سمندر زلزلے کے باعث اٹھنے والی سونامی کی لہر کے نتیجے میں لاکھوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ایران کے شہر بام میں 2003ء میں زلزلے سے 30ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کی شدت 6.7تھی۔جنوری 2001 میں بھارتی صوبے گجرات میں زلزلہ سے 20ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔جون 1990ء میں ایران میں زلزلے کے نتیجے میں 40ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔جولائی 1976ء میں چین میں آنے والے زلزلے سے اڑھائی لاکھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔مئی 1970میں پیرو کے شہر ماونٹ ہواسکاران میں زلزلے اور مٹی کے تودے گرنے سے 70ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔اسی طرح دسمبر 1939ء میں ترکی کے شہر ایر زنکن میں تقریباً 40ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔1935میں کوئٹہ میں آنے والے زلزلے سے 50ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔1927ء میں چین میں زلزلے کی تباہی سے 80ہزار افراد ہلاک ہوئےتھے،چین ہی میں 1927میں ایک اور زلزلے میں دولاکھ افراد ہلاک ہو گئے۔1923ء میں جاپان کے شہر اوکلا ہوما میں زلزلے نے ایک لاکھ 40ہزار افراد کو موت کی نیند سلا دیا۔ جب کہ چین ہی میں 1920میں آنے والے ایک زلزلے سے 2لاکھ 35ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔1908میں اٹلی میں ایک زلزلہ آیا جس نے 83ہزار افراد کو ہلاک کر دیاتھا۔8 اکتوبر، 2005 کا زلزلہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے مہلک زلزلہ تھا جس نے وسیع پیمانے پر تباہی مچائی۔ تقریباً 73,000 سے 75,000 افراد ہلاک ہوئے، جبکہ 128,000 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔اندازاً 2.8 ملین سے زیادہ افراد بے گھر ہو گئے۔سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مظفر آباد، بالاکوٹ، راولاکوٹ، باغ، شنگلہ اور منگلا شامل تھے۔ہزاروں مکانات،اسکولز، ہسپتال اور بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو گیا۔اتنی بڑی تباہی کے پیش نظر دنیا بھر سے امدادی اداروں اور حکومتوں نے ریسکیو اور ریلیف آپریشنز میں مدد کے لیے فوری طور پر ردعمل ظاہر کیا۔دراصل یہ واقعہ پاکستان کے لیے ایک قومی سانحہ تھا جس نے لاکھوں زندگیاں بدل کر رکھ دیں۔ اس کے بعد پہلی بار ملک میں تباہی سے نمٹنے کے اداروں(جیسے NDMA) کو مضبوط بنانے اور عوامی عمارتوں کے تعمیری معیارات پر نظر ثانی کرنے پر زور دیا گیا۔اقوام متحدہ نے امدادی سرگرمیوں کی قیادت کی اور ہنگامی امداد کے طور پر خیمے، خوراک، اور ادویات فراہم کیں۔عالمی مالیاتی اداروں نے بحالی اور تعمیر نو کے لیے قرضے اور مالی معاونت فراہم کی جس سے انفراسٹرکچر کی بحالی میں مدد ملی۔دنیا بھر سے مختلف این جی اوز نے متاثرہ علاقوں میں براہ راست امداد پہنچائی۔بین الاقوامی خیراتی اداروں نے بھی مکانات کی تعمیر، اسکولز اور ہسپتالز کی بحالی اور لوگوں کی آبادکاری کے لیے بھرپور امداد کی۔اقوامِ متحدہ کے ساتھ ساتھ یورپ اور اسلامی ممالک نے بھی تعمیرِ نو اور آبادکاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پاکستان کے دوست ممالک میں چین سرفہرست رہا۔مظفرآباد میں ٹھوٹھہ اور لنگرپورہ سیٹلایٹ ٹاؤنز چین کے تعاون سے ڈیزائن ہوئے۔ جاپان کے تعاون سے شہر کا خوبصورت نلوچھی پل تعمیر ہوا۔برادر اسلامی ملک سعودی عرب نے مرکزی عیدگاہ۔مظفرآباد اور AJK یونیورسٹی۔چھتر کلاس کی تعمیر کے لیے فنڈ دیے۔U.A.E نے CMH مظفرآباد کی عمارت تعمیر کی۔اسی طرح برادر اسلامی ملک ترکیہ نے ڈسٹرکٹ کملیکس اور مسجدِ عثمانیہ تعمیر کر کی۔یہ وہ وقت تھا جب پاکستانی قوم نے ایثار و قربانی کا بہترین مظاہرہ کیا۔ پاکستان کا بچہ بچہ مشکل کی اس گھڑی میں کشمیریوں بھایئوں ساتھ کھڑا ہوگیا۔پاکستانیوں کی خاصیت یہ ہے کہ مشکل وقت میں یک جان ہوجاتے ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستانی ایک ہمدرد قوم کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ پاکستانی حکومت اور عوام نے کشمیری بھائیوں کی اس زلزلہ کے وقت ہر لحاظ سے دل کھل کر مدد کی۔پاکستان کے اس احسان کا بدلہ چکانا ناممکن ہے۔
قومی و بین الاقوامی تعاون سےخطہِ کشمیر ایک بار پھر زندگی رواں دواں ہو گئی۔ اگرچہ شہر میں بڑی بڑی عمارات، مساجد اور پل تعمیر ہوئے وہیں زلزلہ تباہی و بربادی کے انمِٹ نقوش چھوڑ گیا۔جانی و مالی نقصان کے ساتھ ساتھ کافی حد تک ہمارا Joint Family System بکھر گیا۔ لوگ اپنے پیاروں سے جدا ہوگئے۔کئی معذور ہو گئے، کتنے گھر اجڑ گئے۔ کئی لکھ پتی کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے۔اس زلزلہ سے بالاکوٹ اور مظفرآباد سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے بالخصوص مظفرآباد شہر۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مظفرآباد شہر کی طرف بڑے پیمانے پر مضافات سے نقل مکانی کی وجہ سے بے ہنگم تعمیرات کا نا رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔یوں آبادی میں اضافہ کی وجہ سے نا صرف آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ شہری آبادی پانی، سیوریج اور دیگر بہت سے مسائل کا شکار ہے۔بدقسمتی سے ماسٹر پلان پر عملدرآمد نا ہو سکا جس کی وجہ سے جگہ جگہ بڑے بڑے پلازے تو تعمیر ہوئے مگر احتیاطی تدابیر کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ہر گلی، چوراہے پر غیر معیاری تعمیرات مستقبل میں کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہیں۔زلزلہ کے بعد پہلے سے موجود گلیاں بھی ان بے ہنگم تعمیرات کی وجہ سے مزید تنگ ہو گئی ہیں۔نالوں میں اور پہاڑیوں پر اب ہر طرف مکانات ہی مکانات نظر آتے ہیں۔شہری آبادی کو شہر سے باہر منتقل کرنے کے لیے بنائے گئے لنگر پورہ اور ٹھوٹھہ سیٹلائٹ ٹاؤنز تاحال آباد نا ہوسکے۔زلزلہ میں بڑی تعداد میں تعلیمی ادارے تباہ ہوئے۔ڈونرزکانفرنس 2005ء میں 6 سے 8 ارب امداد کا اعلان ہوا جو اس وقت کی پاکستانی حکومت پر عالمی دنیا کے اعتماد کا اظہار تھا۔اس رقم کا ایک بڑا حصہ تعلیمی اداروں کی تعمیرِ نو پر خرچ ہونا تھا مگر افسوس کہ 2798 تباہ شدہ تعلیمی اداروں میں سے صرف 1490 ہی مکمل تعمیر ہوئے ہیں۔گذشتہ سال کے اعدادوشمار کے مطابق کل 6103 تعلیمی اداروں میں سے 1500 کے قریب تعلیمی اداروں کی عمارتیں تاحال تعمیر نہیں ہوسکی ہیں۔
دارالحکومت مظفرآباد آباد جو سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا اس شہر کے لیے جن منصوبہ جات کو فائنل کیا گیا تھا ان میں سلاٹر ہاوس، سبزی منڈی،چہلہ پل،مین سٹی پارک،دریائے نیلم کی دونوں اطراف واک وے، نیلم پل چوک،چہلہ پل چوک، دومیل پل چوک، رنگ روڈ، گاربج ری سائیکلنگ یونٹس شامل تھے۔ ان 104 منصوبہ جات میں سے اکثر منصوبہ جات بیس سال گزر جانے کے باوجود بھی مکمل نہیں ہو سکے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مذکورہ بالا منصوبہ جات جلدازجلد مکمل ہوں، تعلیمی اداروں کی تعمیر ترجیح بنیادوں پرمکمل کی جائے۔ شہری آبادی میں بے پناہ اضافہ ہو رہا جس کا فوری حل یہ ہے کہ سیٹلائٹ ٹاؤنز کی آبادکاری کے ساتھ ساتھ نئی ہاؤسنگ اسکیمز کے لیے پلاننگ کی جائے۔وقت آگیا ہے کہ نئے شہر آباد کیے جائیں نیز ہر دیہات میں بنیادی ضروریاتِ زندگی آسانی سے میسر ہوں تاکہ نقل مکانی کا رحجان کم ہو۔ بطورایک ذمہ دار شہری ہمیں بھی گھر یا کوئی اور عمارت تعمیر کرتے وقت احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں تاکہ مستقبل میں خدانخواستہ اگر زلزلہ یا کوئی آفت آئے تو جانی نقصان کا خدشہ کم سے کم ہو۔ اللہ پاک شہداءِ زلزلہ کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبرِجمیل عطا فرمائے۔آمین