Muhammad Tahir

Muhammad Tahir Aspirant, Civil Servant, Writer, Motivator, Social Behavior Analyst, Explorer, Social Media Manager

08/03/2025

If you have one boy and a girl at home with limited resources,educate the girl first!( Aga Khan )
So,Invest in women's education to accelerate progress in society.
Today, let's acknowledge and celebrate the extraordinary contributions and achievements of women around the world.
We owe to every mother, sister, wife and daughter; without you this earth would have been a barren place to live in!
Happy Women's day!!

Official vibes❤
14/11/2024

Official vibes❤



21/10/2024

جو شخص غصے کی کیمسٹری کو سمجھتا ہو وہ بڑی آسانی سے غصہ کنٹرول کر سکتا ہے“
”ہمارے اندر سولہ کیمیکلز ہیں‘ یہ کیمیکلز ہمارے جذبات‘ ہمارے ایموشن بناتے ہیں‘ ہمارے ایموشن ہمارے موڈز طے کرتے ہیں اور یہ موڈز ہماری پرسنیلٹی بناتے ہیں“ ”ہمارے ہر ایموشن کا دورانیہ 12 منٹ ہوتا ہے“ ”مثلاً غصہ ایک جذبہ ہے‘ یہ جذبہ کیمیکل ری ایکشن سے پیدا ہوتا ہے‘مثلاً ہمارے جسم نے انسولین نہیں بنائی یا یہ ضرورت سے کم تھی‘ ہم نے ضرورت سے زیادہ نمک کھا لیا‘
ہماری نیند پوری نہیں ہوئی یا پھر ہم خالی پیٹ گھر سے باہر آ گئے‘ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟ ہمارے اندر کیمیکل ری ایکشن ہو گا‘ یہ ری ایکشن ہمارا بلڈ پریشر بڑھا دے گا اور یہ بلڈ پریشر ہمارے اندر غصے کا جذبہ پیدا کر دے گا‘ ہم بھڑک اٹھیں گے لیکن ہماری یہ بھڑکن صرف 12 منٹ طویل ہو گی‘ ہمارا جسم 12 منٹ بعد غصے کو بجھانے والے کیمیکل پیدا کر دے گا اور یوں ہم اگلے 15منٹوں میں کول ڈاؤن ہو جائیں گے چنانچہ ہم اگر غصے کے بارہ منٹوں کو مینیج کرنا سیکھ لیں تو پھر ہم غصے کی تباہ کاریوں سے بچ جائیں گے“
ہمارے چھ بیسک ایموشنز ہیں‘ غصہ‘ خوف‘ نفرت‘ حیرت‘ لطف(انجوائے) اور اداسی‘ ان تمام ایموشنز کی عمر صرف بارہ منٹ ہو تی ہے‘ ہمیں صرف بارہ منٹ کیلئے خوف آتا ہے‘ ہم صرف 12 منٹ قہقہے لگاتے ہیں‘ ہم صرف بارہ منٹ اداس ہوتے ہیں‘ ہمیں نفرت بھی صرف بارہ منٹ کیلئے ہوتی ہے‘ ہمیں بارہ منٹ غصہ آتا ہے اور ہم پر حیرت کا غلبہ بھی صرف 12 منٹ رہتا ہے‘
ہمارا جسم بارہ منٹ بعد ہمارے ہر جذبے کو نارمل کر دیتا ہے“ ”آپ ان جذبوں کو آگ کی طرح دیکھیں‘ آپ کے سامنے آگ پڑی ہے‘ آپ اگر اس آگ پر تھوڑا تھوڑا تیل ڈالتے رہیں گے‘ آپ اگر اس پر خشک لکڑیاں رکھتے رہیں گے تو کیا ہو گا ؟ یہ آگ پھیلتی چلی جائے گی‘ یہ بھڑکتی رہے گی‘
ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنے جذبات کو بجھانے کی بجائے ان پر تیل اور لکڑیاں ڈالنے لگتے ہیں چنانچہ وہ جذبہ جس نے 12 منٹ میں نارمل ہو جانا تھا وہ دو دو‘ تین تین دن تک وسیع ہو جاتا ہے‘ ہم اگر دو تین دن میں بھی نہ سنبھلیں تو وہ جذبہ ہمارا طویل موڈ بن جاتا ہے اور یہ موڈ ہماری شخصیت‘ ہماری پرسنیلٹی بن جاتا ہے یوں لوگ ہمیں غصیل خان‘ اللہ دتہ اداس‘ ملک خوفزدہ‘ نفرت شاہ‘ میاں قہقہہ صاحب اور حیرت شاہ کہنا شروع کر دیتے ہیں“
وجہ صاف ظاہر ہے‘ جذبے نے بارہ منٹ کیلئے ان کے چہرے پر دستک دی لیکن انہوں نے اسے واپس نہیں جانے دیا اور یوں وہ جذبہ حیرت ہو‘ قہقہہ ہو‘ نفرت ہو‘ خوف ہو‘ اداسی ہو یا پھر غصہ ہو وہ ان کی شخصیت بن گیا‘ وہ ان کے چہرے پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے درج ہو گیا‘ یہ لوگ اگر وہ بارہ منٹ مینج کر لیتے تو یہ عمر بھر کی خرابی سے بچ جاتے‘ یہ کسی ایک جذبے کے غلام نہ بنتے‘ یہ اس کے ہاتھوں بلیک میل نہ ہوتے“ ” لیکن ہم سب بارہ منٹ کے قیدی ہیں‘ ہم اگر کسی نہ کسی طرح یہ قید گزار لیں تو ہم لمبی قید سے بچ جاتے ہیں ورنہ یہ 12 منٹ ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑتے“۔
جب بھی کسی جذبے کے غلبے میں آئیں تو میں سب سے پہلے اپنا منہ بند کر لیں زبان سے ایک لفظ نہیں بولیں میں قہقہہ لگانے کی بجائے صرف ہنسیں اور ہنستے ہنستے کوئی دوسرا کام شروع کر دیں ‘ خوف‘ غصے‘ اداسی اور لطف کے حملے میں واک کیلئے چلے جائیں ‘ غسل کرلیں ‘ فون کرلیں ‘ اپنے کمرے‘ اپنی میز کی صفائی شروع کر دیں اپنا بیگ کھول کر بیٹھ جائیں ‘ اپنے کان اور آنکھیں بند کر کے لیٹ جائیں یوں بارہ منٹ گزر جاتے ہیں‘ طوفان ٹل جاتا ہے‘ عقل ٹھکانے پر آ جائے اور فیصلے کے قابل ہو جائیں ”آسمان گر جائے یا پھر زمین پھٹ جائے‘ منہ نہیں کھولیں
خاموش رہیں اور سونامی خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو وہ خاموشی کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ وہ بہرحال پسپا ہو جاتاہے‘ آپ بھی خاموش رہ کر زندگی کے تمام طوفانوں کو شکست دے سکتے ھیں۔
____منقول

17/09/2024

١٢ ربیلاول ایک عظیم ہستیٰ ایک عظیم انقلابی اور خاتم النبیإٕٕ کی ولادت مبارک۔۔ ہم اس عظیم ہستی کی روایت میں سے ہیں جنہوں نے ایک تعصب سے بھرے طبقاتی معاشرے میں حضرت بلال جیسے ایک غلام کو نہ صرف آزادی دلوائی بلکہ ان کو نئے دین کی آواز بنادیا۔ اپنے ناقدین کو اپنے بہترین کردار کے ذریعے متاثر کیا اور اپنے بدترین مخالفین کو معاف کیا۔ حاکموں کے آگے رویہ سخت رکھا اور مظلوموں کے ساتھ ہمیشہ شفقت سے پیش آئے ۔ بے شک، کمزوروں کا ساتھ دینا، ظالموں کے آگے ڈٹ جانا، اور نجی معاملات میں صبر و درگزر سے کام لینا ہی سنت محمدی ﷺ ہے اور ایک باوقار زندگی گزارنے کا بہترین راستہ ہے۔

CC
Amar ali jan


16/09/2024

اپنے کام، اپنی فیلڈ، اپنے پروفیشن کے ساتھ اس قدر مخلص ہوجائیں اور ڈٹ کر محنت کریں کہ لوگ آپ کے نام کی بجائے آپ کے کام کے سبب آپ کو یاد رکھیں، آپ کا ذکر کریں، آپ کو فالو کریں اور آپ کو عزت دیں۔۔

جب بھی کسی کام کو آپ سرسری انداز میں لیں گے۔۔ٹوٹل پورا کریں گے۔۔اس کا آپ کو ہمیشہ نقصان ہی ہوگا۔۔ہمیشہ یہ سوچا کریں کہ لوگ آپ کے پاس ہی کیوں آئیں؟ آپ کو ہی فالو کیوں کریں؟ آپ کو ہی شہرت کیوں ملے؟ آخر ایسا کیا ہے آپ میں جو باقی ملین لوگوں میں بھی نہیں ہے۔۔

پتا ہے ایسا کیا ہوتا ہے ایک انسان میں جو اسے دوسروں میں ممتاز بناتا ہے؟جو اسے کروڑوں کی موجودگی میں نمایاں کرتا ہے۔۔وہ ہے آپ کا فوکسڈ ہونا۔۔اپنے کام پر مکمل طور پر فوکس رکھنا۔۔اسی کے لیے محنت کرنا۔۔۔اسی کے لیے کوشش کرنا۔۔پھر آپ کا اسکوپ بھی بنے گا۔۔لوگ آپ کو سنیں گے بھی اور عزت بھی دیں گے۔۔بس ضرورت اس فوکس اور محنت کی ہے جو ہم میں سے اکثر نہیں کرپاتے اور پھر شکوہ کرتے ہیں کہ ہم ناکام ہوگۓ۔۔۔

یاد رکھیں۔۔

لیس للانسان الا ماسعی۔۔
انسان کے لیے وہی ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔۔۔

سلامت رہیں۔۔

سدرہ نسیم

نشر مکرر

07/09/2024

لاہور آدمی کو بوڑھا نہیں ہونے دیتا،
کرشن چندر

کسی شہر میں رہنا اور کسی شہر میں بسنا دو مختلف چیزیں ہیں اور دونوں مختلف کیفیات۔
لاہور میں رھنا نہیں بسنا پڑتا ہے اور پھر لاہور آپ کے دل میں بس جاتا ہے اور ایسا بستا ہے کہ پھر کوئی اور اس دل میں بس نہیں سکتا۔

‏ مہرالنساء لاہور میں نور جہاں بن کر آسودۂ خاک ہوئیں۔ لاہور سے انہیں بڑی محبت تھی، جس کا اظہار اس لازوال شعر کی صورت میں کیا
‏ لاہور را بہ جان برابر خریدہ ایم
‏جاں دادہ ایم و جنتِ دیگر خرید ہ ایم
‏(لاہور کو ہم نے جان کے برابر قیمت پر حاصل کیا ہے۔ ہم نے جان قربان کر کے نئی جنت خرید لی ہے)

‏پطرس بخاری نے کہا تھا کہ لاہور کے کاٹے کا علاج نہیں۔
کرشن چندر نے لکھا کہ لاہور آدمی کو بوڑھا نہیں ہونے دیتا۔
مشہور افسانہ نگار کرشن چندر لاہور میں رہے، ایف سی کالج میں تعلیم پائی۔ وہ اس شہر سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ آزادی کے وقت ہندوستان جانے کے بعد بھی اپنی روح لاہور ہی میں چھوڑ گئے۔
اس شہر کا تذکرہ وہ کسی بچھڑے ہوئے محبوب کی طرح رقت آمیز لہجے میں کیا کرتے تھے۔ وہ لاہور سے آنے والوں کو بڑی حسرت سے دیکھتے اور اپنے محبوب شہر کی گلی کوچوں، بازاروں، عمارتوں، باغوں کا تفصیل سے حال معلوم کیا کرتے۔ کرشن چند ر نے احمد ندیم قاسمی کے نام اپنے خط میں لکھا کہ لاہور کا ذکر تو کجا اس شہر کے بارے میں سوچتا بھی ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی جنہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز محسن لاہوری کے قلمی نام سے کیا تھا، مرتے دم تک لاہور کے عشق میں گرفتار رہے۔ لاہور کی باتیں کرتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی۔ ایک مرتبہ ٹی وی پر انٹرویو کے دوران لاہور کا ذکر آیا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ اے حمید برما میں قیام کے دوران اپنی جنم بھومی امرتسر کی بجائے لاہور کو یاد کیا کرتے تھے۔ وہ کہاکرتے تھے کہ لاہور کا نام زبان پر آتے ہی طلسم و اسرارکی الف لیلہ کا ایک باب کھل جاتا ہے۔ لاہور ایک شہر ہی نہیں، یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔
سید احمد شاہ پطرس بخاری کا شمار بھی لاہور کے سچے عاشقوں میں ہوتا تھا۔ نیویارک میں قیام کے دوران انہوں نے صوفی تبسم کے نام ایک خط میں پوچھا، "کیا راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے؟"
گویا یہ شہر اپنے عاشقوں کے اعصاب پر ایسا سوار ہوتا ہے کہ وہ کبھی کسی دوسری جگہ پر سکون نہیں پا سکتے۔ جمنا داس اختر، گوپال متل، پران نوائل، اور ان جیسے کئی قلمکار آزادی کے بعد لاہور سے کوچ کر گئے، لیکن ان کا دل میں لاہور ہی اٹکا رہا۔ معروف شاعرہ شبنم شکیل لاہور کے ہجر میں غزلیں کہتی رہیں۔ بھارتی فلمی اداکار پران، اوم پرکاش، دیو آنند، یش چوپڑا، اور ناول نگار بپسی سدھوا جیسے مشاہیر لاہور کی بزم سے اٹھ جانے کے باوجود اس کی طرف بار بار مڑ کر دیکھتے رہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ لاہور ایک کیف و مستی کا نام ہے، ایک نشہ ہے جو طاری ہوجائے تو اترنے کا نام نہیں لیتا۔ پیدا ہونے کے لئے لاہور کے درشن کرنا بھی ضروری ہے۔

‏کجھ روز گزار کے جنت وچ
سب درشن کر لَئے حوراں دے
جدوں پی لَئے جام انگوراں دے
اک بابے غم نال آہ بھری
نالے بات کہی اک صاف کھری
ایتھے ٹِشن بڑی نالے ٹَور وی اے
جو لبھنے ساں او دَور وی اے
پر میریا مولا دس مینوں
کوئی جنت تیری ہور وی اے؟
جتھے وسدے نے سب دل والے
جتھے وسدا شہر لاہور وی اے۔۔!
Copied

02/09/2024

‏ریسرچ کے مطابق آج کل ذہنی دباؤ کی ایک بڑی وجہ اپنے اردگرد کے احمقوں سے نمٹنا ہے -

ایک دانا شخص سے کسی نے پوچھا کہ” آپ اتنے خوش کیسے رہتے ہیں ۔“

اُس نے کہا :”میں بیوقوف لوگوں سے بحث نہیں کرتا۔“

پوچھا ”پھر کیا کہتے ہیں ؟“

دانا شخص بولا میں انہیں جواب دیتا ہوں

‏کہ ” آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔“

پوچھنے والے نے کہا:”پھر بھی اپنی بات یا اپنا موقف منوانے کےلئے اسے قائل کرنے کے لئے آپ کو اسے کوئی دلیل کوئی جواز تو دینا چاہیے ۔“

اس پر اُس دانا شخص نے پوچھنے والے کو تاریخی جواب دیا ۔

”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں “

~منقول
کاپیڈ

زندگیتجھے جٸیں گےمرنے تک
29/08/2024

زندگی

تجھے جٸیں گے

مرنے تک




زندگیتجھے جٸیں گےمرنے تک
23/08/2024

زندگی
تجھے جٸیں گے
مرنے تک

Attending Price control meeting .
21/08/2024

Attending Price control meeting .

کہیں جانا نہیں ہےبس یُونہی سڑکوں پہ گُھومیں گےکہیں پہ توڑیں گے سِگنلکِسی کی راہ روکیں گےکوئی چِلّا کے گالی دے گاکوئی ہار...
19/08/2024

کہیں جانا نہیں ہے
بس یُونہی سڑکوں پہ گُھومیں گے
کہیں پہ توڑیں گے سِگنل
کِسی کی راہ روکیں گے
کوئی چِلّا کے گالی دے گا
کوئی ہارن بجائے گا
ذرا احساس تو ہو گا کہ زندہ ہیں
ہماری کوئی ہستی ھے.

گلزار

#

آپ کائنات میں تنہا نہیں ہیں کم از کم آپ کے پاس پھول، دریا، پہاڑ،  ندیاں، شاعری، کتابیں، موسیقی، ستارے، سمندر اور چاند ہی...
16/08/2024

آپ کائنات میں تنہا نہیں ہیں کم از کم آپ کے پاس پھول، دریا، پہاڑ، ندیاں، شاعری، کتابیں، موسیقی، ستارے، سمندر اور چاند ہیں

Address

Nankana Sahib

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Muhammad Tahir posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Muhammad Tahir:

Share