Abdul Waheed Sarkar News

21/07/2025

بریکنگ نیوز ریپوٹ وحید

چند دن پہلے ایک انگریز لڑکی، ایک پشتون لڑکے سے محبت کر کے خود اس کے گھر چلی آئی۔ نہ صرف پورے خاندان نے اس واقعے کو فخر س...
21/07/2025

چند دن پہلے ایک انگریز لڑکی، ایک پشتون لڑکے سے محبت کر کے خود اس کے گھر چلی آئی۔ نہ صرف پورے خاندان نے اس واقعے کو فخر سے سوشل میڈیا پر دکھایا، بلکہ اردگرد کے مرد، صحافی اور عام لوگ تک اس کے گھر پہنچ کر اس سے ملاقات کرتے رہے۔ نہ کہیں غیرت کا تقاضا کیا گیا، نہ پشتون ولی کا حوالہ دیا گیا، نہ پردے کی پاسداری ہوئی، نہ شرم و حیا کو یاد رکھا گیا۔

دوسری طرف، ڈیڑھ سال پہلے ایک بلوچ لڑکی نے اپنی پسند سے نکاح کیا۔ شرعی پردے میں لپٹی، قرآن ہاتھ میں تھامے، قبیلے کے مسلح افراد کے سامنے کھڑی تھی۔ اسے اس کے شوہر کے سامنے نہایت بے دردی سے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اور پھر اس کے شوہر کو بھی قتل کر دیا گیا۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ہمارا معاشرہ غیرت مند ہے اور بے غیرتی برداشت نہیں کرتا، تو پہلے واقعے میں غیرت کہاں سوئی رہی؟
اور اگر پہلا واقعہ درست ہے، تو پھر دوسرے واقعے جیسے سانحے کیوں پیش آتے ہیں؟

یہ کہنا کہ کچھ لوگ غیرت مند ہیں اور کچھ نہیں، محض خود فریبی ہے۔ اصل بات غیرت کی نہیں، بلکہ ضد، انا، ہٹ دھرمی اور جھوٹی مردانگی کی ہے۔ ہم نہ قرآن کا مطلب سمجھتے ہیں، نہ اسلام کا اصل پیغام جانتے ہیں۔ جب تک ہماری جھوٹی انا اور رواج پرستی سلامت رہتی ہے، ہم ہر حد پار کر لیتے ہیں۔ مگر جہاں ذاتی ضد کو ٹھیس پہنچے، وہاں ہمیں اچانک اپنی نام نہاد غیرت یاد آ جاتی ہے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ
بے شک ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

لڑکی کا تاریخی جملہ صرف گولی سے مارنے کی اجازت ہیں پسند کی شادی اسلام میں جائز ہے پر ہمارے جاہل معاشرے میں نہیں ،لڑکے او...
20/07/2025

لڑکی کا تاریخی جملہ
صرف گولی سے مارنے کی اجازت ہیں

پسند کی شادی اسلام میں جائز ہے پر ہمارے جاہل معاشرے میں نہیں ،
لڑکے اور لڑکی دونوں کو قت ل کردیا

موت سامنے دیکھ کر بھی نہ وہ روئی، نہ چیخی، نہ
چلائی۔۔۔۔۔
قاتل ہجوم کے سامنے دلیری سے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھی کہ " سم ائنا اجازت اے نمے پین ہچ اف" یعنی ۔۔۔۔
“گولی کی اجازت ہے صرف ، اسکے علاوہ کچھ نہیں۔ “

مقتل سجانے والوں نے قرآن مجید اُسکے ہاتھوں سے تو لے لیا مگر اس قرآن مجید کو پڑھ کر تھوڑی دیرسمجھنے کیلئے ہجوم کو بٹھاتے تو نوبت یہاں تک کبھی نہ جاتی۔

شیتل کے آخری الفاظ محبت کے ہر دشمن کے منہ پہ طمانچہ رہیں گے۔۔۔

شیتل اور زرک آپ دونوں امر ہیں محبت کی انمٹ داستانوں
میں ♥️

بریکنگ نیوز نوابشاهه ڇھن ڄڻن جي قتل جي ايف آئي آر م نالو  شامل ٿيندڙ وٽنري اينڊ اينيمل يونيورسٽيءَ سڪرنڊ جي رجسٽرار ۽ پر...
19/07/2025

بریکنگ نیوز نوابشاهه

ڇھن ڄڻن جي قتل جي ايف آئي آر م نالو شامل ٿيندڙ وٽنري اينڊ اينيمل يونيورسٽيءَ سڪرنڊ جي رجسٽرار ۽ پروجيڪٽ ڊائريڪٽر محمد خان ڀنگوار جو وڊيو بيان سامھون اچي ويو قرآن مجيد ھٿ م کڻي بي گناھ ٿيڻ جوقسم ڏنو آھي ی

نوابشاهه ۾ ڀنگوار برادري جي تازي سانحي ۾ . 20 کان 25 سالن جي عمر جا نوجوان قتل ٿي ويا، بئي پاسي
اڄ رجسٽرار شهيد بينظير ڀٽو وٽنري يونيورسٽي محمد خان ڀنگوار هٿ ۾ قرآن پاڪ کڻي پنهنجي بيڏوهي هجڻ جو قسم ڏنو آهي، ھن چيو ته ڪيس ۾ معزز شهرين کي ملوث ڪيو ويو آهي، جن ۾
منھنجو پنھنجو نالو محمد خان ڀنگوار مان پروجيڪٽ ڊائريڪٽر ۽ رجسٽرار آھيان وٽنري يونيورسٽي م ۽ منھنجا ڀائر ايگزيڪيوٽو انجنيئر محمد ياسين ڀنگوار
ڊاڪٽر ڌڻي بخش ڀنگوار شامل آهن،
اسين فرد قانون جي پاسداري ڪندڙ ۽ پڙهيا لکيا عزتدار شهري آهيون جن جو واقعي سان ڪو به تعلق ناهي. اسان جا ايف آءِ آر ۾ نالا بي بنياد شامل آ ھین

18/07/2025

نوابشاھ پوليس ڪيس ۾ نامزد جوابدار اعظم ڀنگوار کي گرفتار ڪري ورتو
ڪيس ۾ شھيد بينظير ڀٽو وٽرنري يونيورسٽي جي آفيسر محمد خان ڀنگوار ۽ ميونسپل ڪارپوريشن نوابشاھ جي انجنئير ياسين ڀنگوار کي به نامزد ڪيو ويو آھي ٻڌايو پيو وڃي تہ محمد خان ڀنگوار ٿاھ لاءِ وڏيون ڪوششون ڪيون ھيوننوابشاھ پوليس ڪيس ۾ نامزد جوابدار اعظم ڀنگوار کي گرفتار ڪري ورتو
ڪيس ۾ شھيد بينظير ڀٽو وٽرنري يونيورسٽي جي آفيسر محمد خان ڀنگوار ۽ ميونسپل ڪارپوريشن نوابشاھ جي انجنئير ياسين ڀنگوار کي به نامزد ڪيو ويو آھي ٻڌايو پيو وڃي تہ محمد خان ڀنگوار ٿاھ لاءِ وڏيون ڪوششون ڪيون ھيون

16/07/2025

‏ويا مور مري کدڙن ٻڌا موڙ
وڏيرن جي اوطاق تي چمچا ڏٺم کوڙ،
واھ ڙي برياني ئي ڳاڙها ٻوڙ،
تو غيرت ختم ڪئي جوانن جي

۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ایک گالی نے انصافی چاچے کو سلیبرٹی بنا دیا!نہ کوئی خدمت، نہ کوئی کارنامہ، بس زبان کی گندگی اور قوم کی واہ واہ!...
16/07/2025

۔۔۔۔۔
۔۔۔۔
"ایک گالی نے انصافی چاچے کو سلیبرٹی بنا دیا!

نہ کوئی خدمت، نہ کوئی کارنامہ، بس زبان کی گندگی اور قوم کی واہ واہ!
حکام کو غلیظ گالیاں دینے والے اس 'انقلابی' چاچے کا انقلاب تو بارش کے پانی میں بہہ گیا، جس کا ثبوت اگلے ہی روز سامنے آنے والی معذرت خواہانہ ویڈیو ہے۔
افسوس! نوجوان آج اس کے ساتھ فخر سے سیلفیاں لے کر اسے ہیرو بنا رہے ہیں۔

کاش ہم محنت، اخلاق، علم اور کردار کو بھی اسی جوش و خروش سے سر آنکھوں پر بٹھاتے۔

یہ رویہ ہمارے اجتماعی اخلاقی دیوالیے اور ذہنی پستی کی بدترین مثال ہے۔

گالی کو ٹرینڈ نہ بنائیں، بدتمیزی کو شہرت کا زینہ نہ بنائیں

اگر کسی ریاست میں ایک فرد 8 گھنٹے کام کرنے کے باوجود روٹی،تعلیم،علاج اور مکان نہیں خرید سکتا تو وہ ریاست نہیں بلکہ  ایک ...
10/07/2025

اگر کسی ریاست میں ایک فرد 8 گھنٹے کام کرنے کے باوجود روٹی،تعلیم،علاج اور مکان نہیں خرید سکتا تو وہ ریاست نہیں بلکہ ایک عیاش طبقے کی جاگیر ہوگی.!

تقسیم کے بعد جو دردناک داستانیں سننے میں آئیں ان میں بوٹا سنگھ کی روداد بھی ناقابل فراموش ہے۔ جالندھر کے ایک کسان بوٹا س...
08/07/2025

تقسیم کے بعد جو دردناک داستانیں سننے میں آئیں ان میں بوٹا سنگھ کی روداد بھی ناقابل فراموش ہے۔ جالندھر کے ایک کسان بوٹا سنگھ نے زینب کو بلوائیوں سے پندرہ سو روپے میں خرید کر اس کی جان بچائی تھی۔ اس کے بعد اس نے سکھوں کے رسم و رواج کے مطابق باقاعدہ اس سے شادی کر کے اپنی بیاہتا بیوی بنا کر رکھ لیا تھا۔ شادی کے گیارہ مہینے کے بعد زینب ایک لڑکی کی ماں بنی۔ بوٹا سنگھ نے اس کا نام 'تنویر' رکھا۔
چند سالوں کے بعد بوٹا سنگھ کے رشتہ داروں نے ان افسروں کو اطلاع دے دی جو فسادات کے زمانے میں اغوا کی ہوئی لڑکیوں اور عورتوں کی تلاش میں تھے۔ وجہ یہ تھی کہ بوٹا سنگھ کے شادی کرنے سے اس کے رشتہ دار اس کی جائیداد کے وارث بننے سے محروم ہو گئے تھے۔ زینب کو بوٹا سنگھ سے چھین لیا گیا اور پاکستان میں اس کے رشتہ داروں کی تلاش شروع ہوئی۔ عارضی طور پر زینب کو ایک کیمپ میں رکھا گیا۔ بوٹا سنگھ کی تو دنیا ہی اجڑ گئی۔ وہ فوراً دہلی چلا گیا۔ اس کے بعد اس نے وہ کام کیا جو کسی سکھ کے لیے انتہائی مشکل ہو سکتا ہے۔ اس نے اپنے لمبے بال کٹوا دئیے۔ جامع مسجد جا کر اسلام قبول کر لیا۔ اس کا نیا نام جمیل احمد رکھا گیا۔ اس تبدیلی کے بعد بوٹا سنگھ پاکستان ہائی کمیشن پہنچا اور اپنی بیوی کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگا لیکن اس کا یہ مطالبہ نا منظور کر دیا گیا کیونکہ دونوں ملک معاہدے کی اس شرط کی سختی سے پابندی کر رہے تھے کہ اغوا شدہ عورت خواہ کسی مذہب کے آدمی کے پاس سے برآمد ہو اور وہاں وہ خواہ کسی حیثیت سے رہ رہی ہو اسے فوراً کیمپ پہنچا دیا جائے. جب اس عورت کے خاندان کا پتا چل جائے تو اسے واپس بھیج دیا جائے۔ چھ مہینے تک بوٹا سنگھ روز اپنی بیوی سے ملنے کیمپ جاتا تھا۔ آخر وہ دن آہی گیا جب زینب کے رشتہ داروں کا پاکستان میں پتہ چل گیا۔ رخصت ہوتے وقت بوٹا سنگھ اور زینب ایک دوسرے سے رو رو کر ملے۔ زینب نے قسم کھائی کہ وہ اپنے شوہر اور بچی کے ساتھ رہنے کے لیے بہت جلد واپس آئے گی۔ بوٹا سنگھ نے ایک مسلمان کی حیثیت سے پاکستان ہجرت کرنے کی اجازت مانگی۔ اس کی درخواست نامنظور کر دی گئی۔ اس نے ویزا مانگا جو اسے نہیں ملا۔ ہار کر بوٹا سنگھ نے اپنی بچی کو ساتھ لیا جس کا نیا نام 'سلطانہ' رکھا گیا تھا اور غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہو گیا۔ سلطانہ کو لاہور میں چھوڑ کر وہ اس گاؤں کو روانہ ہوا جہاں زینب کے خاندان نے سکونت اختیار کی تھی۔ وہاں پہنچ کر بوٹا سنگھ کے دل کو انتہائی شدید صدمہ پہنچا۔ ہندوستان سے ٹرک میں بیٹھ کر زینب پاکستان کے اس گاؤں میں پہنچی ہی تھی کہ چند گھنٹوں کے اندر اس کی شادی ایک دور کے رشتہ دار سے کر دی گئی۔ بیچارہ بوٹا سنگھ روتا پیٹتا رہ گیا: "میری بیوی مجھے واپس کر دو، میں اس کے بغیر زندہ نہیں روسکتا۔“
زینب کے بھائیوں اور رشتہ داروں نے مل کر بوٹا سنگھ کو بری طرح مارا پیٹا اور پولیس کے حوالے کر دیا کہ یہ بغیر پاسپورٹ اور ویزا کے پاکستان میں داخل ہوا ہے۔ عدالت میں بوٹا سنگھ نے گڑ گڑا کر کہا کہ وہ مسلمان ہے اور اس کی بیوی اسے واپس کر دی جائے۔ اگر اسے ایک بار بیوی سے ملنے کا موقع دیا جائے تو وہ یہ خود پوچھ کر تسلی کرلے گا کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ رہنے کے لیے ہندوستان واپس جائے گی یا وہ اپنی مرضی سے پاکستان میں رہنا چاہتی ہے۔ اس کی رقت آمیز التجا سے متاثر ہو کر عدالت نے اس کی درخواست منظور کر لی. اور ایک ہفتہ بعد زینب کو عدالت میں حاضر کرنے کا حکم دے دیا۔ اخباروں کے ذریعہ اس معاملے کی خبر پھیل چکی تھی اور جب تاریخ معینہ پر زینب عدالت میں لائی گئی تو وہ بری طرح سہمی ہوئی تھی۔ اسے اپنے بہت سے رشتہ داروں کے ہجوم کے بیچ عدالت کے سامنے حاضر ہونا پڑا۔ جج نے بوٹا سنگھ کی طرف اشارہ کیا " کیا تم اسے جانتی ہو؟" زینب نے کانپتی ہوئی آواز میں جواب دیا: "ہاں۔ یہ بوٹا سنگھ ہے۔ میرا پہلا شوہر۔"
زینب نے اپنی لڑکی کو بھی پہچان لیا۔ اس سے پوچھا گیا کہ " کیا تم ان لوگوں کے ساتھ ہندوستان واپس جانا چاہتی ہو؟"
زینب کا جواب سننے کے لیے عدالت میں سناٹا چھا گیا۔ ایک طرف بوٹا سنگھ اور اس کی بچی کی نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ دوسری طرف اس کا موجودہ شوہر اور اس کے تمام رشتہ دار اس کی طرف آنکھیں لگائے ہوئے تھے۔ زینب نے سر ہلایا اور دھیرے سے کہا "نہیں."
اس کے رشتہ داروں نے زینب کو سمجھا دیا تھا کہ بوٹا سنگھ سکھ ہے اور سکھ ہی رہے گا۔ اس نے اگر اسلام کے خلاف ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو اس کے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔ زینب کی زبان سے انکار سن کر بوٹا سنگھ کے پیروں تلے سے زمین سرک گئی۔ وہ جس امید کی کرن کی تلاش میں اپنا ملک اور مذہب چھوڑ کر یہاں تک چلا آیا تھا وہ اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ وہ بری طرح لڑکھڑایا کہ اسے عدالت کے جنگلے کا سہارا لینا پڑا۔ جب اس نے اپنے آپ کو سنبھالاتو بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر زینب کی طرف بڑھا۔
"ٹھیک ہے. لیکن میں تم سے تمہاری بیٹی نہیں چھین سکتا۔ میں اسے تمہارے سپرد کیے جاتا ہوں ۔"
اس نے اپنی جیب سے سارے نوٹ نکال کر اپنی بیٹی کی جیب میں ڈال دیے۔ اس نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا:
"میری زندگی میں اب کیا رہ گیا ہے۔"
جج صاحب نے زینب سے پھر پوچھا کہ "کیا وہ اپنی بیٹی کی ذمہ داری قبول کرنا چاہتی ہے؟" عدالت میں موجود زینب کے رشتہ داروں نے غصہ میں سر ہلا دیا۔ وہ اپنے خاندان میں سکھ کا خون نہیں ملانا چاہتے۔
زینب سہم گئی۔ اس نے اچٹتی ہوئی نگاہ اپنی بچی پر ڈالی۔ بچی کو ساتھ رکھنے کا مطلب یہ ہوتا کہ بے چاری ساری زندگی طعنے سنتی رہے۔ اسے اتنا ستایا جائے گا جس کا کوئی حساب نہ ہو گا۔ زینب کا سارا وجود سسکیوں میں ڈوبا جا رہا تھا۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا: "نہیں۔"
اب بوٹا سنگھ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی دھار بہہ نکلی۔ چند لمحوں تک وہ اپنی بیوی کو دیکھتا رہا. اس کی آنکھیں آنسوؤں سے نم تھیں. بوٹا سنگھ اس چہرے کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھوں میں بسا لینا چاہتا تھا.
اس نے بڑے پیار سے اپنی بچی کو گود میں اٹھا لیا اور بغیر کچھ کہے اور بغیر کسی کی طرف دیکھے، وہ عدالت سے نکل گیا۔ بوٹا سنگھ کا دل ہمیشہ کے لیے ٹوٹ چکا تھا۔ وہ رات اس نے داتا گنج بخش کی درگاہ میں رونے اور دعائیں مانگنے میں گزار دی۔ اس کے قریب ایک کھمبے کے پاس اس کی بچی پڑی سوتی رہی. صبح ہوئی تو بوٹا سنگھ بچی کو بازار لے گیا. پچھلے دن دوپہر کو اس نے جو روپے بچی کی جیب میں بھر دیے تھے، ان سے اس نے بچی کے لیے نئے کپڑے اور جوتے خرید کر اسے پہنا دیے.
اس کے بعد ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے باپ بیٹی قریب کے ریلوے اسٹیشن کی طرف چل پڑے. پلیٹ فارم کی طرف بڑھتی ہوئی گاڑی کی سیٹی دور سے سنائی دی. بوٹا سنگھ نے بے حد پیار سے بیٹی کو اٹھایا اور چوم لیا. اسے گود میں بھر کر بوٹا سنگھ پلیٹ فارم کے کنارے کھڑا ہو گیا. بھاپ کے بادل اڑاتا ہوا انجمن جھپٹا چلا آ رہا تھا. بچی نے محسوس کیا کہ بوٹا سنگھ کی گرفت اس پر بہت زیادہ مضبوط ہو گئی ہے. بوٹا سنگھ نے بچی کے ساتھ اچانک انجن کے سامنے چھلانگ لگا دی لیکن بچی سامنے کی طرف گر گئی. اس نے انجن کی سیٹی اوراس کا بھیانک شور سنا، جس میں اس کی اپنی چیخیں بھی شامل تھیں. اگلے ہی لمحہ وہ انجن کے نیچے پڑی تھی. بوٹا سنگھ فوراً مر گیا لیکن قدرت نے معجزہ دکھایا، اس کی بچی کے بدن پر ایک خراش تک نہیں آئی. اس کی خون سے لت پت لاش سے پولیس کو وہ الوداعی خط ملا جو اس نے اپنی بیوی کے نام لکھا تھا جس نے اسے ٹھکرا دیا تھا.

"میری پیاری زینب تم نے بِھیڑ کی آواز سنی لیکن ایسی آواز کبھی سچی نہیں ہوتی۔ اب بھی میری آخری خواہش یہی ہے کہ میں تمہارے ساتھ رہوں۔ مجھے تم اپنے ہی گاؤں کے قبرستان میں دفن کرنا. کبھی کبھی آکر میری قبر پر پھول چڑھا دیا کرنا۔"
بوٹا سنگھ کی المناک موت کی خبر جلد ہی پورے لاہور میں آگ کی طرح پھیل گئی. ہزاروں مسلمان اس کے جنازے کے ساتھ زینب کے گاؤں آئے مگر وہاں اس کے رشتہ داروں نے میت کو دفن نہیں ہونے دیا. انتظامی افسروں نے ہدایت کی کہ جھگڑا فساد کرنے کی بجائے بوٹا سنگھ کو لاہور میں ہی دفن کر دیں۔ اسے لاہور میں میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا. لاہور میں اس کی قبر پر لوگوں نے اتنے پھول چڑھائے کہ پھولوں کے پہاڑ بن گئے۔ بوٹا سنگھ کو اتنی زیادہ عزت ملنا زینب کے خاندان والوں کو گوارا نہیں ہوا۔ انہوں نے ایک گروہ لاہور بھیجا جس نے بوٹا سنگھ کی قبر کو نہ صرف توڑا پھوڑا بلکہ اسے ناپاک بھی کر دیا۔ اس وحشیانہ حرکت سے سارے لاہور کے لوگ سناٹے میں آگئے۔ لاہور والوں نے بوٹا سنگھ کو دوبارہ دفن کیا اور اس کی قبر کو ایک بار پھر اے پھولوں کے پہاڑ سے ڈھک دیا۔ اس بار سینکڑوں مسلمان اس کی قبر کی حفاظت کیلئے تعینات ہو گئے۔
بوٹا سنگھ کی بیٹی سلطانہ کو لاہور کے ایک خاندان نے منہ بولی بیٹی بنا کر پالا۔
آخری وقت تک وہ اپنے انجینئر شوہر اور تین بچوں کے ساتھ لیبیا میں رہ رہی تھی۔
(فریڈم ایٹ مڈ نائٹ کا مسودہ جون 1975ء میں پریس میں جا چکا تھا۔ اس لیے اس کے بعد کے واقعات کا اس میں احاطہ نہیں کیا گیا۔)
بحوالہ فریڈم ایٹ مڈ نائٹ از لیری کولنز اینڈ ڈامینیق لیپیری
لاہور کے لوگوں نے بوٹا سنگھ کو "شہیدِ محبت" کا ٹائٹل دیا تھا. ایسی کئی داستانیں مٹی کی دھول میں دفن ہو گئیں جب مذہب کے نام پر خون کی ہولی کھیلی گئی تھی. تقسیمِ پنجاب کے نتیجے میں دس لاکھ سے زائد لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے.
یہ کہانی لیری کولنز اور ڈامینیق لیپیری کے علاوہ کچھ دیگر مصنفین نے بھی بیان کی تھی.۔ فضل بلوچ جي وال تان ورتل

02/07/2025

پاکستان میں سالانہ 600 ارب کی بجلی چوری ہوتی ہے۔اس کہ علاؤہ 20 ارب کی فری بجلی حکومتی اہلکار استمال کرتے ہیں۔جس میں واپڈا سمیت ججز اور پارلیمنٹرین وغیرہ شامل ہیں۔
مطلب یہ 620 ارب روپیہ عام عوام کی جیب سے نکالا جاتا ہے۔
اسی کو حل کر دیں تو ریٹ بہت کم ہو سکتے ہیں۔اس کا بہترین حل جن علاقوں میں چوری ہو رہی ہے۔وہاں مکمل سیٹنگ کہ بعد پری پیڈ میٹر سسٹم رکھیں کہ پیسے دو۔ پھر بجلی لے لوں۔۔ اور یہ سب کچھ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے یہ اب کی حکومت کا نہیں کیا ہوا بلکہ یہ پاکستان میں صدیوں سے ہو رہا ہے

کے الیکٹرک کی لسٹ میں 100 پرسنٹ ادائیگی لیاری کی ہے
جبکہ 12 13 سال سے لیاری کے اندرونی حصے والوں نے بجلی استعمال کی لیکن بل ادا نہیں کیا

30/06/2025

کسی صحافی کو دھمکی دینا زبانی کلامی بھی پڑے گی مہنگی،تشدد دھمکی یا ذرائع پوچھنے پر ناقابل ضمانت مقدمہ درج ہوگا۔۔۔جرنلسٹ پروٹیکشن بل منظور !*

صحافیوں کو زبانی دھمکی بھی مہنگی پڑے گی — تشدد، دھمکی یا ذرائع پوچھنے پر ناقابلِ ضمانت مقدمہ!

صحافیوں کے تحفظ کے لیے بڑا اقدام، "جرنلسٹ پروٹیکشن بل" منظور کر لیا گیا۔ نئے قانون کے تحت کسی صحافی کو دھمکی دینا، تشدد کرنا یا اُس کے ذرائع (سورسز) کے بارے میں پوچھنا قابلِ سزا جرم ہوگا، جس پر ناقابلِ ضمانت مقدمہ درج ہوگا۔

یہ قانون آزادیِ صحافت اور صحافیوں کے حقوق کی جانب اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

29/06/2025

اسلام علیکم دوستوں، دوستوں امین تو خوش پاش ہوں گے دوستوں میرا ذاتی نظریہ ہے کہ حکومت پاکستان جو بھی بے نظر امکم سپورٹ کے پیسے کسی بھی مد کے پیسے غریبوں کو دے رہے ہیں فل فور بند کیے جائیں کیونکہ سب سے زیادہ پیسے، 80% پیسے آفیسروں، کمیشن ایجنٹ کے جیبوں میں چلے جاتے ہیں باقی جو تھوڑے بہت پیسے بچتے ہیں وہ عوام تک یا غریبوں تک پہنچتے ہیں میرا ذاتی نظریہ ہے کہ یہ پیسے گورنمنٹ کسی اداروں میں لگائے فیکٹریاں بنایا اور بہت سی چیزیں بنایا جس میں برے صغار نوجوان روزگار کے لیے جا سکے اور اس کے علاوہ یا تو روزگار کے لیے معاہدہ گورنمنٹ سسٹم نہیں کرتی ہے تو اس کے علاوہ یہ کرنا چاہیے کہ ان پیسوں پر سبسٹی لگا کے دالیں، چینی، آٹا، گھی یہ سستا کیا جائے تاکہ غریب طبقہ خوابی سکے کیونکہ پاکستان میں کریکشن روج پہ ہے ہر بڑا بندہ آئے دن خرپتی بنتا جا رہا ہے جو غریب طبقہ ہے وہ ایک ماچس کی دیدیا کھرنے تک بہت مجبور ہے شکریہ پسند آئے کے شئیر لائک کریں

Address

Nawabshah

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Abdul Waheed Sarkar News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share