Nisha Umar Novels

Nisha Umar Novels Paid Promotion Available ❤️
Novels Promotion
US TikTok available
TikTok Prmote
Story prmote

مم میں نن نہیں کروں گی نکاح ۔۔"!خرہ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہونے تھے کہ ایک تیس پینتیس سال کی کرخت عورت جو کہ سردار شیر ...
16/09/2025

مم میں نن نہیں کروں گی نکاح ۔۔"!

خرہ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہونے تھے کہ ایک تیس پینتیس سال کی کرخت عورت جو کہ سردار شیر دل کی حویلی کی ملازمہ تھی کے زور دار طمانچے نے حرہ کے وجود کو زمین بوس کر دیا
" کے کہا تو نے۔۔؟ اک بار پھر سے بول۔۔"!

ناہید جھک کر خڑہ کے بالوں کو اپنے شکنجے میں سختی سے لیتے ہوئے غرائی کہ شدت درد سے بلکتی حرہ کر اپنے لگی

" شکر کر لڑکی بڑے سردار کا کہ چھوٹے سردار کو راضی کر لیا انہوں نے۔۔ نہیں تو حویلی میں چھوٹے سردار کی رکھیل بن کے رہ جاتی تو ۔۔ اور نخرے تو یوں کر رہی ہے تو جیسے آسمانوں سے اتری ہوئی حور ہے۔۔ خبر دارا گر مولوی صاحب کے سامنے نکاح کے لیے انکار کیا تو نے۔۔ اتنا ماروں گی نا تجھے کہ ساری اکٹر ختم ہو جائے گی تیری "__

ناہید مسلسل محرہ کو جھنجوڑتی ہوئی غرارہی تھی اور حرہ جیسی دبلی پتلی سی نازک لڑکی اس وقت ناہید کی بے رحمی کا شکار بنی ہوئی تھی وہاں موجود ایک دوسری ملازمہ ناہید کو چاہ کر بھی نہیں روک سکتی تھی جانتی تھی کہ یہ حکم
بڑے سردار کا ہو گا

مم میری حج جان لے لو مم مگر مم میں نکاح نہیں کروں گی۔۔"

ناہید کے بے رحمانہ تشدد کے بعد بھی حرہ کی زبان پر یہی الفاظ سن کر ناہید کا غصہ مزید بڑھ گیا
کالے جوڑے میں نکاح کے بعد حمزہ کو ناہید ہی گھسیٹتی ہوئی گاڑی تک لائی اور کب حویلی کی حدود میں گاڑی داخل ہوئی کب حرہ کو ٹھسیٹتے ہوئے حویلی میں لے جایا گیا ہوش اسے تب آیا جب سردار بی بی کے قدموں میں اسے کسی بے کار شے کی طرح پھینکا گیا بے تحاشہ درد کرتے وجود سے جان نکلتی محسوس کرتی خرہ نے جب سر اٹھایا تو سردار بی بی کی زور دار ٹھوکر سے ایک مرتبہ پھر دور جا گری
پکڑتے ہوئے سردار بی بی کے سامنے کھڑا کیا مگر جسم میں اٹھتی ٹیسوں سے حرہ کا اپنے پیروں پر کھڑا ہونا مشکل ترین تھا اسی لیے ایک مرتبہ پھر سردار بی بی کے قدموں میں گر پڑی سردار بی بی نے کڑہ کے کاندھوں سے پکڑتے ہوئے اپنے سامنے کیا اور اسے سر سے پاؤں تک دیکھنے لگی

کالے منجھے ہوئے لباس میں بڑی سی کالی چادر جو کہ اس ساری کاروائی میں سر سے اتر کر کاندھوں پر آگئی تھی لمبی چھیا سے آدھے بال نکلے ہوئے تھے مار پیٹ کے باعث چہرہ اور ہاتھ سرخ ہو رہے تھے مسلسل بہتے آنسو، سرداربی بی کو وہ لڑکی بمشکل سترہ اٹھارہ سال کی لگی تھی ایک پل کو اس لڑکی کی اجڑی بکھری حالت دیکھ کر ان کا ہاتھ اپنے دل پر گیا مگر وہ ان لڑکی ان کی بیٹی کے قاتل کے گھر سے آئی تھی یہ سوچ آتے ہی سردار بی بی نے حرہ کے رخسار پر زور سے طمانچہ رسید کیا
"ری ناہید اٹھا اس کو۔۔ " !

سردار بی بی ( سردار شیر دل کی زوجہ اور سردار عباس کی ماں) اپنے کاندھے پر پھیلائی ہوئی چادر کو درست کرتی ہوئیں دھاڑی وہاں موجود ہر ملازم ان کی دھاڑ پر کانپ گیا ناہید نے فوراً درد سے تڑپتی حرہ کو سختی سے بازو سے
تت تو ایک بات اپنے ذہن میں بیٹھا لے۔۔ تو میرے بیٹے کے نکاح میں ضرور ہے مگر اس حقیقت کو کبھی فراموش نہ کریں کہ تو خون بہا میں آئی ہوئی ہے۔۔ تو محض انتقام ہے ہمارا ۔۔ جس طرح ظالموں نے میری بیٹی کو مارا ہے نا اس سے برا حال کرے گا میر اعباس تیرا۔۔"

سردار بی بی حرہ کے رخساروں پر پے در پے طمانچہ رسید کرتی دھاڑ رہیں تھیں جب چیختی چنگھاڑتی اس کا گلا بیٹھ گیا تو انہوں نے روتی بلکتی حرہ کو اسی ناپسندیدہ چیز کی طرح زمین پر دے مارا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی
سردار بی بی کے جانے کے بعد ہر کوئی وہاں سے بوتل کے جن کی طرح غائب ہوا تھا مگر کڑہ نے اپنے قریب آتے کسی کو محسوس کیا جب درد کرتے سر کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر تھوڑا بلند کیا تو آنسوؤں کے باعث دھندلائی ہوئی آنکھوں سے سامنے کھڑی ایک نہایت خوبصورت لڑکی کو دیکھنے لگی جو گہرے رنگ کے جوڑے میں سر پر دوپٹہ لیے سینے پر ہاتھ باندھے کھڑی بے تاثر چہرہ لیے خڑہ کے زخمی وجود کو دیکھ رہی تھی

Link 👇
https://www.google.com/search?q=novel21091&sca_esv=1720fa6fb76a49fc&sxsrf=AE3TifPo3N4KbIlxtGqkzSDJAaR448Qyow%3A1758046298216&source=hp&ei=WqjJaNKVC9uz4-EPgIvF2Q4&oq=novel21091&gs_lp=EhFtb2JpbGUtZ3dzLXdpei1ocCIKbm92ZWwyMTA5MTIIEAAYgAQYogQyBRAAGO8FMgUQABjvBTIIEAAYgAQYogRI_UNQjgpY1T5wAXgAkAEAmAH0A6ABhBaqAQkyLTcuMS4xLjG4AQPIAQD4AQGYAgugApcXqAIPwgIHECMYJxjqAsICBBAjGCfCAgoQIxiABBgnGIoFwgIKEAAYgAQYQxiKBcICDhAuGIAEGLEDGNEDGMcBwgIIEAAYgAQYsQPCAgsQABiABBixAxiKBcICBRAAGIAEwgIEEAAYA8ICBhAAGAMYCsICBBAAGB6YAy3xBa-presQwscmkgcJMS4wLjcuMS4yoAf8N7IHBzItNy4xLjK4B-oWwgcJMi01LjQuMS4xyAeMAQ&sclient=mobile-gws-wiz-hp

"ہیلو سویٹ ہارٹ۔۔۔۔۔۔ "انداز محبت بھرارکھا گیاک ک کون ہیں آپ۔۔۔۔۔"حورین کی آواز لڑکھڑارہی تھی مسلسل رونے کی وجہ سے اس کی...
16/09/2025

"ہیلو سویٹ ہارٹ۔۔۔۔۔۔ "
انداز محبت بھرارکھا گیا
ک ک کون ہیں آپ۔۔۔۔۔"
حورین کی آواز لڑکھڑارہی تھی مسلسل رونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں زامن کے منہ سے سویٹ ہارٹ سن کر اس کا دل بری طرح گھبرا گیا تھا
بتادیتا ہوں لیکن۔۔۔۔۔ پہلے میرے ساتھ چلو۔۔۔۔۔۔ "
زامن نے آگے بڑھ کر حورین کو کاندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پیچھے زبردستی چلانے
" نہیں پلیز نہیں۔۔۔۔۔۔ کہاں لے کر جارہے ہیں آپ مجھے ۔۔۔۔۔ پلیز چھوڑیں۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ پلیز
حورین روتے ہوئے اپنا ہا تھ زامن کے ہاتھ سے چھوڑارہی تھی لیکن بے سود
" خاموشی سے چلو۔۔۔ شور پسند نہیں مجھے ۔۔۔۔ "
زامن نے رک کر سخت لہجے میں کہا اور پھر اسے اپنے ساتھ گھسیٹنے لگا
پلیز چھوڑ دیں۔۔۔۔ جانے دیں مجھے میرے ماما پاپا پریشان ہور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"
الفاظ ابھی حورین کے منہ سے پورے ادا بھی نہیں تھے کہ ایک زور دار تھپیڑ زامن نے اسے مارا تھا تھپڑ اتنا زور سے لگا تھا کہ حورین کا ہونٹ پھٹ گیا اور خون جاری ہو گیا
" میں بات دوہرانے کا عادی نہیں ہوں۔۔۔۔۔
حورین کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں دبوچ کر غصے سے کہا
اور پھر سیڑھیاں چڑھتا ہو از امن، حورین کو اپنے کمرے میں لا چکا تھا اور کمرے کا دروازہ لوک کر کے اس کی طرف مڑا
دور رہو مجھ سے۔۔۔۔۔۔ خدا کے لئے مجھے جانے دو۔۔۔۔۔ پلیز زز مجھے چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔۔ میرے قریب مت آنا۔۔۔"
زامن جیسے جیسے حورین کی طرف قدم بڑھارہا تھا حورین ویسے ہی ڈرتے ہوئے پیچھے ہوتی جارہی تھی کہ اچانک زامن نے حورین کو بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کیا
مائی ڈیئر وائف۔۔۔۔۔ اپنے شوہر کو نہیں پہچان رہی آپ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہو گیا آپ کی یاد داشت کو
حورین کو کمر سے پکڑ کر اب وہ اسے اپنے بے حد قریب کر چکا تھا نظر حورین کے لرزتے ہو نہ رین کے کے لرزتے ہونٹوں پر تھی
زامن کی نظروں سے گھبرا کر حورین نے اپنی آنکھیں جھکا لیں لیکن دل زور سے دھڑک رہا تھا
" آ آپ۔۔۔۔۔۔۔
بے یقینی سے کہا گیا جبکہ آنکھیں ہنوز جھکی ہوئیں تھیں
" ہاں میری جان۔۔۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ سید زامن علی شاہ۔۔۔۔"
اس کی آنکھوں میں دیکھتا وہ مغرورانہ انداز میں کہہ رہا تھا
" پلیز جانے دیں۔۔۔۔ ماما پاپا پریشان ہوں گے۔ "
اب حورین نے ذراسی نظریں اٹھا کر زامن کو دیکھا لیکن اس کی نظروں کی تپش سے گھبرا کر فورا ہی آنکھیں بند کر لیں
لیکن زامن نے اسے بے دردی سے اپنے سے دور بیڈ پر پھینکا اس طرح اچانک زامن نے اسے بیڈ پر پھینکا تو وہ سہم گئی
" آج نہیں۔۔۔۔۔ اور کچھ مت سوچوں ۔۔۔۔۔ صرف میرے بارے میں سوچو۔۔۔۔ "
زامن نے خمار آلود لہجے میں کہتے ہوئے بیڈ کی سائیڈ دراز کو کھول کر سگریٹ نکالی اور چلتا ہوا صوفے کی جانب آیا
صوفے پر بیٹھ کر ٹانگیں سامنے پڑے ٹیبل کے اوپر رکھ کر اب وہ سگریٹ سلگا چکا تھا نظریں ہنوز حورین کی طرف تھیں جو کہ بیڈ پر سمٹی ہوئی بیٹھی تھی اور شاید کانپ بھی رہی تھی
" اب وقت آگیا ہے کہ ہم دونوں ساتھ رہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ کچھ حساب بھی برابر کرنے ہیں مجھے تمہارے گھٹیا باپ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "
جذبات سے عاری لہجے میں کہا گیا
"نہیں میرے پاپا گھٹیا۔۔۔۔۔ میرے پاپا کے بارے میں ایسے بولنے کی آپ کی ہمت کیسے ہوئی۔۔۔۔۔۔ ہیں میں گھٹیا میرے پاپا نہیں آپ ہیں۔۔۔ کیونکہ آپ مجھے کڈنیپ کر کے لائے ہیں آپ کو اندازہ ہے اس وقت میرے ماں باپ پر کیا گز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "
خود کو مضبوط ظاہر کرتی وہ بولی تھی اس کو بلکل اچھانہ لگا تھا۔ امن کا اس کے باپ کو برا کہنا
ابھی حورین بول ہی رہی تھی جب زامن اس کی طرف آیا اور بالوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا
بد تمیز ، گھٹیا، بے غیرت لڑکی ۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری اتنی جرات کہ تم زامن علی شاہ کے سامنے اونچی آواز سے بات کرو۔۔۔۔۔ سارے پر پرزے کاٹ دوں گا میں ابھی تمہارے۔۔۔۔۔۔۔ بد کردار ہو تم ۔۔۔۔۔ غیر مردوں کے سامنے ایسے بے ہودہ لباس میں گھومتی پھرتی ہو۔۔۔۔۔۔۔ "
اشارہ اس کے لباس کی طرف تھا، اس کے بالوں کو سختی سے جھٹکا دے کر کہا اور وہ ساتھ دو تین زور دار تھپڑ بھی اسے مار چکا تھا
"آہ۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔۔۔"
کچھ دیر پہلے والی ہمت اب کہیں نہیں تھی حورین میں، چہرے پر ہاتھ رکھتی وہ زامن سے بے حد خوفزدہ تھی
بکواس بند رکھو اپنی۔۔۔۔۔۔۔۔"
اسے اس وقت شدید غصہ آرہا تھا غصے میں کہتا حورین کو ایک دفعہ پھر بیڈ پر پھینکتا سگریٹ اور لائٹر لے کر ٹیرس میں چلا گیا اور حورین زمین پر بیٹھتی چلی گئی آنسو آنکھوں سے ہنوز جاری تھے

link........
https://www.google.com/search?q=novel20190&sca_esv=8fb985a9e177f272&lns_surface=26&authuser=0&biw=1366&bih=641&hl=en-PK&sxsrf=AE3TifMRDpP6Lhk9XQZA5z1uVdWrYLBVkg%3A1758021876552&ei=9EjJaIS2IeWQxc8PjcfSwQE&ved=0ahUKEwiEgNbrld2PAxVlSPEDHY2jNBgQ4dUDCBA&uact=5&oq=novel20190&gs_lp=Egxnd3Mtd2l6LXNlcnAiCm5vdmVsMjAxOTAyCBAAGIAEGKIEMggQABiABBiiBDIIEAAYgAQYogQyCBAAGIAEGKIEMggQABiABBiiBEi0FlChDFjhEHABeACQAQCYAccCoAGIBaoBAzMtMrgBA8gBAPgBAZgCA6ACqgXCAggQABiwAxjvBcICCxAAGIAEGLADGKIEwgIFEAAY7wWYAwCIBgGQBgOSBwUxLjMtMqAHvAWyBwMzLTK4B58FwgcFMi0xLjLIBxw&sclient=gws-wiz-serp

یہ کانٹریکٹ پیپرس ہےماہی نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھاہماری شادی کا کانٹریکٹاہل نے کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے کہاشادی کا کانٹ...
16/09/2025

یہ کانٹریکٹ پیپرس ہے
ماہی نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا
ہماری شادی کا کانٹریکٹ
اہل نے کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا
شادی کا کانٹریکٹ
ماہی نے زیر لب دہرایا اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا لیکن اسے عجیب سی گھبراہٹ ہو رہی تھی اس کانٹریکٹ کے مطابق تم مجھ سے شادی کرو گی اور چھ مہینے کے لیئے میرے گھر میری بیوی بن کر رہو گی صرف چھ مہینے کے لیے اس کے بعد تم اپنے راستے میں اپنے راستے اور اس کے لینے میں تمہیں منہ مانگی رقم دینے کے
لی نے تیار ہوں
ماہی کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا
اپ مذاق کر رہے ہیں
وہ بمشکل اتنا بول پائی
میں مذاق نہیں کرتا
اس نے غصے سے دانت پیس کر کہا
ماہی کو لگا جیسے وہ کسی اور دنیا میں ہے یہ کوئی خواب ہے یا کوئی وہم وہ خاموش بیٹھی رہی جیسے وہان موجود تھی ہی
نہیں
تم اتنی شاکر کیوں ہو تمہیں تو خوش ہونا چاہئے اتنا اچھا موقع ملا ہے تمہیں اور کیا چاہیے
ماہی بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی
آپ ... آپ ایسا کیسے کیوں کر رہے ہیں یہ سب اگر آپ کو ہم سے شادی نہیں کرنی تو آپ انکار کیوں نہیں کر دیتے یہ سب کیوں
میں نے انکار کیا لیکن میرے ڈیڈ کے لیئے اس میری مرضی معنی نہیں رکھتی ان کی ضد ہے کہ میری شادی تم سے ہی ہو
میں جتنی مخالفت کر سکتا تھا میں نے کی لیکن میں نہیں چاہتا اس وجہ سے ہمارے بیچ اور پرابلمس ہو گھر کا ماحول خراب ہو اس لیے مجھے یہ فیصلہ کرنا پڑا میری دادی کی طبیعت ٹھیک نہیں میں نہیں چاہتا ان سب باتوں کی وجہ سے ان کی صحت زیادہ خراب ہو
اور چھ مہینے بعد
اس نے بڑی ہمت کر کے پوچھا
تب تک انہیں خود اندازہ ہو جائے گا سہی غلط کا اور نا بھی ہو تو میں انھیں صاف کہہ دونگا کہ میں نے ان کی خوشی
کے لیے شادی تو کر لی لیکن تمہارے ساتھ مزید نہیں رہ سکتا وہ خاموش بیٹھی رہی اسے اہل کی سوچ پر بہت افسوس ہو رہا تھا
مجھے نہیں لگتا تمہیں اتنا سوچنے کی ضرورت ہے اتنا
دس از آگولڈن اپار چھٹی فور یو
ہمیں اپکا یہ سودا منظور نہیں آہل جی آپ فکر نہ کریں ہم خود اس رشتے سے انکار کر دینگے خدا حافظ فکر وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی
انکار کرنے کو تو میں بھی کہہ سکتا تھا لیکن پھر میرے ڈیڈ تم جیسی کوئی اور لڑکی کو لا کر میرے سامنے کھڑے
کر دینگے جو میں نہیں چاہتا تو آپ ان سے سودا کر لیجیے گا ہم چلتے ہیں
الرائٹ ....... اس بارے میں سوچنا ضرور کل شام تک کا وقت ہے تمہارے پاس کل شام میری مام تمہارے گھر آئینگی انہیں ہاں کہنا ہے یا نا یہ فیصلہ تمہیں کرنا ہے
ماہی نے اسے بغور دیکھا اور وہاں سے چل دی
وہ افس میں بیٹھا کوئی بہت ضروری کام کر رہا تھا جب دروازے پر دستک ہوئی
Come in
اس نے بنا نظریں اٹھائیں اجازت دی
Yes
لیکن کافی دیر خاموشی پا کر اس نے سر اٹھا کر دیکھا
تم ...
ماہی کو اپنے سامنے خاموش دیکھ کر وہ حیرت سے بولا
اب آئی ہو تو وجہ بھی بتا دو ...
اس کی مسلسل خاموشی سے تنگ اکر بولا
و وہ ہم ..... ہمیں آپ کی شرط منظور ہے
اس نے ساری ہمت مجتمع کر کے کہا آہل کے چہرے پر ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ بکھری لیکن بولا کچھ نہیں خاموشی سے اسے دیکھنے لگا
آپ .... آپ ہمیں ایسے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں آپ ہی نے کہا تھا کہ ہم آپ کو چو بیس گھنٹے تک جواب دے سکتے ہیں
ایکچولی میں شاکر ہوں ... مجھے تمہارے اتنی جلدی انے کی امید نہیں تھی۔ لیکن خیر اب آہی گئی ہو تو یہ
کا نٹیر کٹ ٹھیک سے پڑھ کر سائن کر دو ....
اس نے ڈر اور سے پیپرس نکال کر اسے دیے
ہمیں آپ کی شرطیں منظور ہے لیکن ہماری بھی ایک شرط ہے
آہل نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا
اپکو ہمیں پچیس لاکھ روپیے دینے ہوگے وہ بھی ابھی ...
اس نے کہا تو اہل نے پہلے اسے حیرت سے دیکھا
الرائٹ
اہل نے چیک بک نکال کر اسے پچیس لاکھ کی رقم دے دی اور پیپرس سائن کرنے لگی جان سکتا ہوں اتنی جلدی یہ فیصلہ لینے کی وجہ ...
اہل بول پڑا تو وہ رک کر اسے دیکھنے لگی
آپ کے کا کے کانٹریکٹ میں یہ بھی لکھا ہے کیا کہ ہمیں آپ کو وجہ بھی بتانی پر ، آپ کو وجہ بھی بتانی پڑے گی
آہل نے اس کے طنز پر خاموش ہو کر رخ پھیر لیا اس نے پیپرس سائن کیے اور اس کے ہاتھ میں تھمائے
اپ ہی نے کہا تھانا یہ ہمارے لیے سنہرا موقع ہے ہمیں اسے ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے
اس نے آہل پر چوٹ کی اور وہاں سے نکل گئی
یہ ہے آپ کی چوائس ڈیڈ جسے چوبیس گھنٹے بھی نہیں لگے بکنے میں .... کاش کہ یہ سب آپ کو نظر آتا اس نے افسوس سے سوچا

link.......
https://www.google.com/search?q=novel20197&sca_esv=8fb985a9e177f272&lns_surface=26&authuser=0&biw=1366&bih=641&hl=en-PK&sxsrf=AE3TifNyhMtSA_TSU7uLvXIczNWPHLTnXQ%3A1758020172616&ei=TELJaJSoJfXgxc8PpJHSgA0&ved=0ahUKEwiU_pW_j92PAxV1cPEDHaSIFNAQ4dUDCBA&uact=5&oq=novel20197&gs_lp=Egxnd3Mtd2l6LXNlcnAiCm5vdmVsMjAxOTcyCBAAGIAEGKIEMggQABiABBiiBDIIEAAYgAQYogQyCBAAGIAEGKIEMggQABiABBiiBEj0QlDEEFjDMHABeACQAQCYAeYHoAHlEaoBCTItMS4zLjYtMbgBA8gBAPgBAZgCBqACshLCAgkQABiwAxgHGB7CAggQABiABBiwA8ICBhAAGAcYHsICCBAAGAcYCBgewgIFEAAY7wXCAgsQABiABBiGAxiKBZgDAIgGAZAGCpIHCTEuMy00LjYtMaAHlROyBwczLTQuNi0xuAelEsIHBTItMS41yAdE&sclient=gws-wiz-serp

11 چھوڑو دو مجھے ،، مجھے بابا کے پاس جانا ہے ،، معاف کر دو مجھے ،، خدا کے لئے میر بادی چھوڑ دو مجھے ،، فرعون مت بنو،، اس...
16/09/2025

11 چھوڑو دو مجھے ،، مجھے بابا کے پاس جانا ہے ،، معاف کر دو مجھے ،، خدا کے لئے میر بادی چھوڑ دو مجھے ،، فرعون مت بنو،، اس کی آئیں اور سسکیاں کئی گھنٹوں سے اس تین منزلہ ویران عمارت کی تیسری منزل پر گونج رہیں تھیں ۔ ۔ مگر یہاں اس کی پکار سننے والا کوئی نہیں تھا۔ بس رانا میر بادی کے دیو ہیکل آدمی تھے جو دروازے کے باہر چوکس سے کھڑے تھے ۔۔
اس سے سے نیچے والے پورشن میں رانا میر بادی اپنے شاہانہ بیڈ روم میں بلیک شلوار قمیض پہنے مردانہ شال کندھوں پر ڈالے صوفے پر کروفر سے بیٹھا لال انگارا آنکھوں اور تنی
رگوں سے گھونٹ گھونٹ اپنے اندر حرام مشروب انڈیل رہا تھا اور اوپر سے آنے والی آہوں، سسکیوں کی آوازیں سن کر سکون حاصل کرنے کی ناکام سی کوشش کر رہا تھا۔ دل و دماغ کی ضمیر کے ساتھ ایک جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ اب دیکھنا یہ تھا کہ گھمنڈ اور سو کالڈ انا کی جیت ہوئی تھی یا تھپک تھپک کر سلانے کی کوشش کرتے ضمیر کی۔ وہ جتنے سکون سے بیٹھا تھا ،، اتنا ہی اس کے اندر غم و غصے اور اشتعال کا
طوفان اٹھ رہے تھے ۔۔ جو کرنے جا رہا تھا اس کے لئے اس حرام مشروب کا سہارا لینا بہت ضروری تھا۔
تتلیوں کے موسم میں نوچنا گلابوں کا دیکھ کر پرندوں کو باندھنا نشانوں کا
ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
شہر کے یہ باشندے، نفرتوں کو بو کر بھی،، انتظار کرتے ہیں ،،،،،،، فصل ہو محبت کی،،
بھول کر حقیقت کو ڈھونڈنا سرابوں کا
ربیت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
آخر وہ مغرور ، گھمنڈی انا پرست شخص دھیمے مگر مغرور قدموں سے اٹھتا اوپر کی جانب چل دیا ۔۔ سیڑھیاں چڑھ کر وہ اس کمرے کی جانب بڑھا، کسی کو برباد کرنے ،، ایک بے بس لاچار، اور کمزور سے وجود کو روندنے کے لئے،، ایک معصوم کلی کو مسلنے چلا تھا۔
دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھا۔ روح کو کچوکا لگا ۔ مگر انا اور غرور نے سینے سے سر پٹخا تو وہ سب بھلائے تنی رگیں لیے اندر داخل ہو گیا۔۔
سامنے ہی وہ بیڈ پر گھٹنوں میں سر دیئے اسی طرح آہ و زاری کرنے میں مصروف تھی ۔ آہٹ پر جھٹکے سے سر اٹھا کر اپنے سامنے تنے کھڑے اس فرعون شخص کو نفرت و بے بسی کی ملی جلی کیفیت سے دیکھا۔
تم جانتی ہو کہ تم یہاں کیوں لائی گئی ہو لویزا اقبال،، تم کچھ بھی کرتیں،، مگر پوری یونی کے سامنے تمہیں رانا میر بادی کو تھپڑ مار کر ذلیل نہیں کرنا چاہیے تھا،، اور اب آج کی رات یہی زلالت میں تمھارے مقدر میں لکھ دوں گا تاحیات کے لئے ،، وہ ایک ایک لفظ چباتا اتنا نشہ کرنے کے باوجود اپنے پاؤں پر کھڑا سامنے بیٹھے کمزور اور نازک وجود کو
خونخوار نگاہوں سے گھور رہا تھا۔
اس کے تیکھے اور کڑوے لہجے اور بڑھتے قدموں نے لویزا کی جان لبوں پر لائی تھی۔۔
میر ہادی نہیں ،، تم ایسا کچھ بھی نہیں کر سکتے میرے ساتھ،، وہ چلائی۔ مگر میر ہادی نے ہاتھ بڑھا کر اس کا دوپٹہ نوچ کر دور اچھال کر اسے اس بات کا ثبوت دیا تھا کہ آج وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ "میں تمھیں برباد کر دوں گا لویزا اقبال ،، اور اپنی اس بربادی کی زمہ دار تم خود ہوگی،، سمجھیں ،، وہ غرایا تھا
وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر جھٹکے سے میر بادی کے قدموں میں گری تھی۔۔
اور اس سے تمھیں کیا ملے گا میر بادی .. صرف وقتی انا کی تسکین، یا اس وقت جو شیطان تم پر سوار ہے اس کی تسکین؟ اس کے بعد کیا؟ ساری زندگی خود سے نگاہیں ملا پاؤ
گے؟ کفارہ ادا کر پاؤ گے ؟ اس رات میں کیے گئے گناہ کا کفارہ کبھی نہیں ادا کر پاؤ گے میر ہادی، مجھے معاف کر دو ،، جانے دو مجھے ،، میں وعدہ کرتی ہوں پوری یونی کے سامنے تم سے معافی مانگو گی، کبھی تمھارے سامنے نہیں آؤں گی، وعدہ کرتی ہوں، جانے دو مجھے ،،

link...
https://www.google.com/search?q=novel20182&sca_esv=8fb985a9e177f272&lns_surface=26&authuser=0&biw=1366&bih=641&hl=en-PK&sxsrf=AE3TifOLdZLrWjuhPFBnklCkH-y6j7HQ5g%3A1758016114316&ei=cjLJaKeGE-fixc8P1Znq8Ag&ved=0ahUKEwinh4OwgN2PAxVncfEDHdWMGo4Q4dUDCBA&uact=5&oq=novel20182&gs_lp=Egxnd3Mtd2l6LXNlcnAiCm5vdmVsMjAxODIyCBAAGIAEGKIEMggQABiABBiiBDIIEAAYgAQYogQyCBAAGIAEGKIESOQiUNQPWK8fcAF4AJABAJgB8QGgAfAIqgEDMi01uAEDyAEA-AEBmAIGoAK7CcICCRAAGLADGAcYHsICCxAAGLADGAcYChgewgINEAAYgAQYsAMYQxiKBcICCBAAGIAEGLADwgIGEAAYBxgewgIIEAAYBxgKGB7CAggQABgHGAgYHsICBRAAGO8FwgIIEAAYogQYiQWYAwCIBgGQBgqSBwUxLjAuNaAH9A6yBwMyLTW4B6sJwgcFMi0xLjXIBz8&sclient=gws-wiz-serp

‎یوسف ملک نے ہر طرح یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ کوئی قدرتی موت نہی ہے‎‎انکے بھائی کے ساتھ ضرور کُچھ انہونی ہوئی ہے‎‎لی...
16/09/2025

‎یوسف ملک نے ہر طرح یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ کوئی قدرتی موت نہی ہے

‎انکے بھائی کے ساتھ ضرور کُچھ انہونی ہوئی ہے

‎لیکن مرینہ بیگم اور شوکت نے بڑی صفائی سے اپنا کام کیا تھا

‎آفتاب ملک کی باڈی کو کار میں ڈال کر بریک فیل کر دی گئی

‎ڈاکٹرز اور انسپکٹر کو چند لاکھ روپے میں خرید کر آسانی سے اس قتل کو کار حادثے کا نام دے دیا تھا

‎اور پھر جب یوسف ملک نے قرت کو اپنے ساتھ لے جانے کی بات کی

‎تو مرینہ بیگم نے اپنی ممتا کا رونا دھونا مچا کر یوسف ملک پر کیس کر دیا

‎اور یہیں یوسف ملک کا شک اور گہرا ہو گیا

‎اور انہوں نے اپنے ذرائع سے حقیقت پتہ کروانے کی کوشش کی

‎اور ایک ایماندار آفیسر کے سامنے اپنا شک ظاہر کرتے ہوئے ان سے ساری حقیقت پر سے پردہ اٹھانے کی گذارش کی

‎اور پھر وہی آفیسر اپنے ایک کانسٹبل کے ساتھ باورچی بن کر ملک ہاؤس میں داخل ہوا

‎اور چند دن بعد جو حقائق سامنے آئے

‎انہیں جان کر سچ میں یوسف ملک کے پاؤں سے زمین کھسک گئی

‎لیکن ان سب حقائق کو جانتے ہوئے بھی وہ مرینہ بیگم کا کچھ نہی بگاڑ سکتے تھے

‎کیونکہ ابھی تک مرینہ بیگم کے خلاف کوئی ثبوت انکے ہاتھ نہی لگا تھا

‎اور بنا کسی ثبوت کے وہ مرینہ بیگم کا کوئی جرم ثابت نہیں کر سکتے تھے
‎اور اس سب کے درمیان وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ننھی قرت کی جان کو خطرہ ہے

‎مگر یہاں ایک بات سب کے فیور میں جا رہی تھی جسکا انہیں دل سے سکون تھا

‎جب تک قرت اٹھارہ سال کی نہی ہو جاتی

‎خود مرینہ بیگم اسے کُچھ نہی ہونے دے گی

‎لیکن اس کے بعد کوئی نہی کہہ سکتا تھا

‎کہ مرینہ بیگم اپنے مفاد کے لیے کیا نہ کر گزریں

‎اور ان سب سے جوجھنے کے لیئے انہوں نے سب سے پہلے

‎اپنے بیٹے اسود کو ساری حقیقت بتائی

‎اور تب سے قرت کی حفاظت کی ذمہ داری اسود نے اپنے ہاتھوں میں لی

‎چھوڑیں مجھے چھوڑیں

‎غصے سے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ ہوئے اُسکے سینے پر

‎مکوں بوچھاڑ کرتے ہوئے

‎اس نے پر زور احتجاج کیا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا

‎تمہیں نہی لگتا تمہارے ان نازک ہاتھوں کی مار سے میرا کچھ نقصان نہیں ہونے والا

‎پر شوق نظروں سے اسکی مزاحمت دیکھتے ہوئے اس نے

‎معصومیت سے کہا

‎آپ برے ہیں اور اب مجھے پتہ چل گیا ہے آپ صرف برے نہی بلکہ

‎ٹھرکی،،، لوفر ،،،، لفنگے ،،، بھی ہیں

‎گندے امران ہاشمی

‎استغفر اللہ اتنے حسین القابات سے نواز دیا آج مجھے میری چھوٹی سی جانو مانو نے







‎Link👇
https://readelle.com/novels/mein-teri-hogayi-aa-by-si-writes-readelle50229/

‎تھوڑی دیر بعد رمل نے آ کر کھانا لگنے کی اطلاع دی تو وہ اچھلتی کودتی ٹیبل کی طرف بڑھی اس پہلے کہ وہ ٹیبل پر جا کہ بیٹھتی...
16/09/2025

‎تھوڑی دیر بعد رمل نے آ کر کھانا لگنے کی اطلاع دی تو وہ اچھلتی کودتی ٹیبل کی طرف بڑھی اس پہلے کہ وہ ٹیبل پر جا کہ بیٹھتی ساریہ بیگم نے اسکا بازو پکڑ کر ایک جھٹکے سے پیچھے کھینچا

‎سنبھالو اسے تم ان دونوں کو ساتھ بٹھاؤ گے کھانے کے“ دوران انہوں نے اپنے ازلی جنگلی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگر میری عزت کا کباڑہ کیاناں تو میں بتا رہی ہوں شہری میں انکا گلا دبا دوں گی اور تم سلیقے سے کھانا کھاؤ گی اب یہ دوسرا کہاں دفع ہوگیا ہے انہوں نے بازل کی تلاش میں نظریں دوڑاتے ہوئے امثال کا بازو شہریار کے ہاتھ میں پکڑا کر وارن کیا ۔ پیچھے آتے امان اور دریاب نے امثال کو ٹیبل کی طرف بڑھتے دیکھ کر اور ساریہ بیگم کی دھمکی سن کر اپنا قہقہ دبایا تھا ۔ سب لوگ ٹیبل پر اپنی اپنی جگہ سنبھال چکے تھے ۔ ایک کرسی کم پڑ رہی تھی تو بی جان نے فوزیہ تائی سے کہا کہ وہ سٹور سے نکال کر لے آئیں ارے کیا ضرورت ہے کرسی لانے کی میں اور ژلے نیچے بیٹھ جاتے ہیں کیوں ژلے ؟ بازل" نے کچن کے دروازے کے پاس ڈیرہ لگاتے ہوئے امثال کو اشارہ کیا۔ ایک پل کے لیے امثال نے ماں کی طرف دیکھا اور پھر ان کی تنبیہہ کرتی نظروں کو نظر انداز کرتی بازل کے پاس جا بیٹھی۔ تائی جان آپ کرسی کو رہنے دیں۔ بس کھانا لے آئیں "وہ" بازو اوپر کرتے آلتی پالتی مار کے بیٹھ گئی۔ جیسے کھانا نہ کھانا ہو بلکہ کہیں حملہ کرنا ہو

‎نہیں بیٹا میں لے آتی ہوں نہ فوزیہ بیگم نے حیرانگی سے " ان نمونوں کو دیکھا

‎اوہو چھوڑیں بھی ۔ آپ کھانا دے دیں ۔ بلکہ رہنے دیں میں خود ہی لے لیتا ہوں بازل اٹھ کر ٹیبل کی طرف گیا اور پلیٹیں اُٹھائیں۔ چھ روٹیاں اُٹھا کر ٹرے میں رکھیں اور بڑا باؤل لے کر قورمے کا بھر کر سائیڈ میں رکھا اور دو پلیٹوں
‎میں بریانی ڈال کر اس کے اوپر بوٹیوں اور سلاد کا ڈھیر لگا کر دو دو کباب رکھے اور چمچ بھر بھر کر رائتے کے ڈالنے لگا

‎بیٹا آرام سے۔ نہ تو یہ مال غنیمت ہے اور نہ ہی سیل لگی ہوئی ہے جو اندھا دھند ڈالے جا رہے ہو۔ ساریہ بیگم نے دانت پیستے ہوئے اسے ٹوکا، جس کو اس نے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا اور جا کر امثال کے پاس بیٹھا کھانا تو اچھا بنا ہے بازل" نے چمچ بھر کر منہ میں ڈالا ہاں ں ں۔ تمہیں پتا ہے میں نے پورے چھ کباب کھائے ہیں

‎امثال نے بھرے منہ جواب دیا

‎ہیں کب؟ بازل نے ہاتھ روک کر حیرانگی سے پوچھا

‎جب میں کچن میں آئی تھی تب رمل آپو بنا رہی تھیں۔

‎فریش فریش کھائے تھے امثال نے پانی کا گلاس منہ لگاتے ہوئے کہا

‎بے وفا لڑکی مجھے نہیں بتا سکتی تھی۔ چلو اب یہ والے " میرے ہوئے بازل نے اس کی پلیٹ سے دونوں کباب اُٹھائے اوئے منحوس آدمی رکھو واپس ۔ امثال ایک دم سے "

‎چیخی۔ اسکی چیخ سن کر بی جان دہل کر رہ گئی تھی انہوں نے بے ساختہ ساریہ بیگم کی طرف دیکھا تو وہ سر جھکا گئیں۔ راسم صاحب نے مسکراہٹ چھپانے کے کی خاطر سر جھکا کر کھانا کھانے میں مصروف ہوگے بیٹا آرام سے کھاؤ پلیز۔ ساریہ بیگم نے منت آمیز انداز اپنایا۔ بس ہاتھ جوڑنے کی کسر باقی تھی

‎بھائی آپ ماما کو دیکھ لیں سکون سے کھانا بھی نہیں کھانے دے رہی ہیں ۔ امثال" نے شہریار کو پکارا "

‎ماما کھانے دیں نہ کیوں ٹوک رہی ہیں۔ شہریار اور ان کی حمایت نہ کرتا ۔ ممکن ہی نہیں تھا۔ جواب میں ساریہ بیگم کے گھورنے پر نظریں چرا گیا۔

‎بازل میں کہہ رہی ہوں واپس کرو ورنہ ۔ بازل کو دھمکایا۔"
‎" نہیں دے رہا اس نے پلیٹ پیچھے کی۔ اس بات سے بے نیاز کہ سب کھانا چھوڑ کر انہیں ہی دیکھ رہے ہیں، وہ دونوں چھینا جھپٹی میں مصروف تھے ۔ مصطفی شاہ دونوں ہاتھوں کی مٹھی بنا کر ٹھوڑی تلے رکھے انہیں دیکھ رہے تھے ۔ بی جان بھی حیرانی سے انہیں دیکھ رہی تھیں کہاں حویلی کی لڑکیوں کو اونچی آواز میں بات کرنے کی اجازت نہیں تھی اور کہاں یہ جب سے ملی تھی طوفان کھڑا کیے ہوئے تھی۔ ساریہ بیگم کا شدت سے جی چاہ رہا تھا کہ وہ اٹھ کر جوتیوں سے انکی طبعیت صاف کر دیں کوئی بات نہیں امثال میں اور لا دیتی ہوں ۔ رمل ان کو لڑتے دیکھ کر پچکارا۔

‎ہاں ٹھیک ہے ۔ اب اگر آپ اتنا اصرار کر رہی ہیں تو لے آئیں مگر چار لائیے گا ۔ امثال نے احسان کرنے والے انداز میں کہا شہری۔ ان دونوں پر بس نہ چلا تو ساریہ بیگم شہریار پر چڑھائی کی۔

‎بازی ژلے ۔ سوہنے آرام سے ۔ شہریار کے اتنے پیار سے کہنے" پر ساریہ بیگم دانت کچکچا کر رہ گئی۔

‎افوہ بھائی بعد میں ۔ امثال نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا۔

‎برخودار مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ ان دونوں کی ایسی حالت کے زمہ دار تم ہو ۔ مصطفی شاہ نے دونوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شہریار کو کہا تو وہ کھسیا گیا۔

‎ویسے تمہیں حیرانگی نہیں ہو رہی ہے شاہ خاندان کا بیٹا اور بیٹی اور حرکتیں ایسی دریاب امان کی طرف جھکا ہاں بلکل میں تو حیران ہوں۔ راسم چاچو بھی خاموشی سے بیٹھے ہیں۔ زریاب نے کہا

‎نہیں۔ کیونکہ میں ان دونوں کو پہلے بھی ایسے کھاتا " دیکھ چکا ہوں۔ اور جہاں تک رہی انکی حرکتیں تو ڈونٹ وری ابھی تو بس شروعات ہے۔ آگے آگے دیکھو کیا ہوتا ہے






‎Link👇
https://readelle.com/novels/tum-joh-aaye-zindagi-mein-by-shagufta-kanwal-readelle50238/

‎مام یہ کیا ہے؟ ٹیبل پر موجود ڈبوں کو دیکھ سارہ نے " حیرت سے سوال کیا تھا۔‎‎یہ میری شادی کا زیور ہے۔۔۔ اب ماشااللہ سے حا...
16/09/2025

‎مام یہ کیا ہے؟ ٹیبل پر موجود ڈبوں کو دیکھ سارہ نے " حیرت سے سوال کیا تھا۔

‎یہ میری شادی کا زیور ہے۔۔۔ اب ماشااللہ سے حائقہ اپنے" گھر کی ہوجائے گی تو نکال لیا۔۔۔ جو اسے پسند آئے وہ رکھ لے۔۔۔" مانگ ٹیکا کو نکال کر دیکھتے انہوں نے مصروف انداز میں جواب دیا تھا۔

‎جہاں ان کی اس محبت پر سارہ اور میسم نے آنکھیں گھمائی تھی وہی ارسم مسکرا دیے تھے۔

‎نسرین میرا ناشتہ تیار کرو۔۔۔۔ لاؤنج میں آتی حائقہ نے نسرین کو آواز دی تھی۔

‎حائقہ بچے ادھر آؤ۔۔۔ میرے پاس بیٹھو۔۔۔ طاہرہ بیگم کی

‎پکار پر وہ ناچاہتے ہوئے بھی ان کے پاس جا بیٹھی تھی۔ "جی؟"

‎یہ دیکھو کیسے ہیں؟" انہوں نے تین سیٹ اس کے سامنے" رکھے اور ساتھ میں ایک کنگن اور ایک سونے کی چوڑیوں کا ڈبہ بھی موجود تھا۔

‎سوال کرتے ساتھ ہی انہوں نے ہاتھ میں موجود مانگ ٹیکا اس کے ماتھے پر سجایا تھا۔

‎یہ آپ کیا کر رہی ہے؟ حائقہ نے فوراً سر پیچھے کو کیا تھا۔

‎چیک کررہی ہوں کہ ایسے ہی پیارا لگ رہا ہے یا سونار سے کہہ کر نیا بنوا لوں۔۔۔ تم بتاؤ تمہارا کیا خیال ہے؟ آپ کا زیور ہے جو مرضی کیجیئے میرا اس سے کیا تعلق۔۔۔

‎تعلق ہے۔۔۔ یہ تمہارے لیے ہی تو نکالا ہے۔۔۔" وہ مسکرائی۔" مگر کیوں ؟ حائقہ کے ماتھے پر بل در آئے۔"

‎کیوں کا کیا مطلب۔۔۔ خیر سے اب شادی ہونے والی تمہاری ہے۔۔۔ اور ماں ہونے کے ناطے اتنا فرض تو بنتا ہے میرا۔۔۔ آپ میری ماں نہیں ہے۔۔۔ وہ درشت لہجے میں بولی۔
‎اور اس زیور کا تعلق مجھ سے نہیں سارہ سے ہونا

‎چاہیے۔۔۔ آپ کی بیٹی سے۔۔۔" اس کی آنکھوں میں سرد پن چھا گیا تھا۔

‎حائقہ ۔۔۔ اس سے پہلے ارسم اسے کچھ کہتے طاہرہ بیگم نے نظروں ہی نظروں میں انہیں منع کردیا تھا۔

‎اچھا چھوڑو یہ سب۔۔۔ میں اور تمہارے ڈیڈ سوچ رہے تھے"

‎کہ گھر میں سادگی سے نکاح رکھ لیا جائے بس کچھ قریبی رشتہ داروں کو بلوا کر۔۔۔۔ تمہارا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ دل میں اٹھتی تکلیف کو انہوں نے نظر انداز کیا تھا۔

‎سادگی سے کیوں ؟۔۔۔ ارسم امین کی بیٹی کی شادی اور سادگی کتنا مس فٹ ہے نا یہ ورڈ؟

‎" سادگی سے رکھنے کی وجہ ہے۔۔۔" ارسم پہلی بار بولے تھے۔“ کیا وجہ ؟۔۔۔ یہ وجہ کہ میری دوسری شادی ہے یا یہ وجہ کے شادی سارہ امین کی نہیں بلکہ حائقہ امین کی ہے؟" باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اس نے سوال کیا تھا۔ ہم بس آپس میں ڈسکشن کی ہے فائنل فیصلہ تمہارا ہوگا!" طاہرہ بیگم فوراً بولی تھی۔

‎تو میرا فیصلہ یہ ہے کہ یہ شادی بالکل ویسے ہی ہوگی جیسے ہر لڑکی کی ہوتی ہے۔۔۔ برائڈل شاور سے لے کر مایوں، مہندی برات ولیمہ ہر فنکشن بڑے لیول پر رکھا جائے گا۔۔۔۔ سب رشتہ دار دوست احباب کے علم میں آنا چاہیے۔۔۔ نیوز چینلز کی ہیڈلائن ہوگی یہ شادی۔۔۔ فنکشن ایسا ہوکہ کے دیکھنے والا ہر ایک شخص دنگ رہ جائے ۔۔۔۔کسی بھی چیز پر کمپرومائز میں برداشت نہیں کروں گی۔۔۔۔ سب کو معلوم ہو کہ مشہور زمانہ ہسپتال کے قابل سائکائٹرسٹ ڈاکٹر ارسم امین کی بیٹی حائقہ امین کی شادی ہے۔۔۔۔۔ وہ کیاں ہے نا پچھلی بار کسی کو بھی پتہ نہ چل سکا تھا۔۔۔ اپنی خواہشات بتاتی آخر میں ارسم امین پر طنز کیے وہ ناشتے کے لیے جاچکی تھی۔
‎بی بی جی اگلے ہفتے شادی ہوکر آپ یہاں سے چلی جائے گی؟۔۔۔ سوال تو بڑے عام انداز میں کیا تھا نسرین نے مگر اس کی آنکھوں سے پھوٹتی خوشی حائقہ کی آنکھوں سے مخفی نہ رہ سکی تھی۔

‎ویسے جہیز میں کیا دے رہے ہیں آپ لوگ مجھے ؟ کافی"

‎کا سپ لیے اس نے وہی بیٹھے بیٹھے سوال کیا تھا۔

‎وہ بھی آپ محترمہ خود بتادے ۔۔۔ کیا پتہ ہمارا دیا پسند نہ آئے۔۔۔ سارہ نے جل بھن کر جواب دیا۔

‎حائقہ کے لبوں پر مسکراہٹ مچلی۔

‎جہیز میں مجھے نسرین چاہیے۔۔۔

‎"کیا؟"

‎جتنے عام انداز میں اس نے خواہش ظاہر کی تھی اتنی ہی بلند سب کی چیخ تھی۔۔۔ سب سے برا حال تو نسرین کا تھا جو بے ہوش ہونے کے در پر تھی۔

‎نسرین ؟... مگر کیوں ؟ طاہرہ بیگم نے نسرین کی جانب

‎دیکھا جس کا سر تیزی سے نفی میں ہلا تھا۔

‎نسرین کے ہاتھ کے کھانوں کی عادت سی ہوگئی ہے۔۔۔ اس کے علاوہ کسی اور کا ذائقہ بھلا نہیں لگتا مجھے ۔۔۔۔ اب اتنا تو کرہی سکتے ہیں آپ لوگ میرے لیے؟

‎ٹھیک ہے جیسا تم چاہو! ایک بار پھر طاہرہ بیگم کو اس

‎کی ہاں میں ہاں ملائے دیکھ سارہ اور میسم جل بھن گئے تھے۔

‎آخر ایسا کیا تھا اس عورت میں کہ ان کی ماں اسے انکار نہ کرپاتی تھی۔

‎مجھے بھی وہ جادو سیکھنا جو ماما پر کیے یہ سارے کام نکلوا لیتی ہیں اپنے میسم سارہ کے کان میں بولا تھا۔

‎سیکھ لو تو مجھے بھی سیکھا دینا سارہ دونوں بازو

‎غصے سے سینے پر باندھے جل کر بولی تھی۔

‎ڈیٹس گڈ۔۔۔ چلو پھر تیاری پکڑ لو نسرین کیونکہ ہفتے بعد
‎میرے ساتھ ساتھ تمہاری بھی رخصتی ہے۔۔۔ نسرین کو ایک آنکھ مارے وہ مسکراہٹ دبائے اپنا بیگ اٹھاتی وہاں سے جاچکی تھی۔

‎نسرین بیچاری تو دکھی ہیروئینز کی طرح وہی کرسی پر ڈھے گئی تھی۔

‎حائقہ کے جاتے ہی طاہرہ بیگم نے سب سے پہلے جبران کو کال کیے حائقہ کی خواہشات سے آگاہ کیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اسے وارن بھی کیا تھا کہ وہ کسی قسم کا انکار نہیں سنے گی۔۔۔ اس کی خواہشات کی لسٹ سنتے ہی جبران کا جی چاہا تھا کہ وہ اپنا سر دیوار میں مار لے۔

‎جیسا آپ کا حکم کہے اس نے کال کاٹی تھی۔

‎چل بھئی شیر تیاری پکڑ لیے کیونکہ تیری سگی ماں آرہی ہے۔۔۔ آدم کو دیکھ وہ بڑبڑایا تھا جو اتنی سی عمر میں کارٹون دیکھنے کی بجائے سیریل کلر بیسڈ ڈوکومینٹری دیکھ رہا تھا۔

‎خالہ امی کے منہ سے ہونے والی ناپسندیدہ بیوی کی خواہشات سن کر اسے وہ آدم کی سگی ماں ہی لگی تھی اسی کہ جیسی ضدی بدتمیز اور ہٹ دھرم

‎ایک ہفتہ پر لگائے اڑ چکا تھا جس کی شادی تھی اس کے علاوہ سب کی سپیڈے لگی ہوئی تھی۔۔۔ شہر بھر سے تمام معزز دوستوں اور رشتہ داروں کو دعوت دی گئی تھی۔

‎کچھ لوگوں نے خوشی، کچھ نے حیرانگی تو کچھ نے ایک ہفتے پہلے شادی کا کارڈ ملنے پر دال میں کچھ کالا ہے جیسے جملوں سے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔

‎آج حائقہ امین کی مایوں تھی اور وہی گھر سے غائب تھی۔۔۔ ایک ضروری کام کا کہہ کر وہ گھر سے نکل چکی تھی۔



‎Link👇
https://readelle.com/novels/man-maane-naw-by-qaneeta-khadija-redelle50237/

‎وہ گھر آیا تو سلیمان اور حیدر اُسے ہال میں بیٹھے ہی مل گئے وہ اپنے کمرے میں جانے کا ارادہ کینسل کرتا ان دونوں کی طرف پل...
16/09/2025

‎وہ گھر آیا تو سلیمان اور حیدر اُسے ہال میں بیٹھے ہی مل گئے وہ اپنے کمرے میں جانے کا ارادہ کینسل کرتا ان دونوں کی طرف پلٹ آیا۔

‎ہم آپکا کب سے ویٹ کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ! حیدر اسے دیکھ کر اُٹھ کھڑا ہوا۔

‎خیریت تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سامنے صوفے پر ٹک کر ہاتھ میں پکڑا موبائل صوفے پر رکھ گیا۔

‎ہاں وہ مجھے شاپنگ پر جانا تھا ، سلیمان بھائی کے ساتھ ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے دیکھنے پر وہ جلدی سے سلیمان کی طرف اشارہ کر گیا جس پر سلیمان مسکرایا۔

‎ہاں ضرور جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بولتا سلیمان کو تو نہیں حیدر کو ضرور حیران کر گیا۔

‎مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " برزل کے مگر پر وہ سانس روک گیا۔

‎اپنی آنکھیں کھلی رکھا کرو حیدر، اس ملک میں بہت سے " لوگ ایسے ہیں جو میری کمزوریوں کی تلاش میں ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ تم میری کمزوری بنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‎جی بھائی آپ فکر نہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مضبوط لہجے میں" بولا برزل ابراہیم نے سر ہلایا۔

‎کل دوپہر کو تم دونوں مجھے تیار ملو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اُٹھتا ہوا" دونوں سے مخاطب ہوا۔

‎کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔ سلیمان نے پوچھا۔"

‎بارات لے کر جانا ہے ایس پی کے گھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ آرام و

‎سکون سے بولتا موبائل ہاتھ میں پکڑتا اُن دونوں کے حیران چہروں پر نظر دوڑاتا سیڑھیاں چڑھ گیا جبکہ وہ حیرت کے شدید جھٹکوں سے نکلتے اب ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے کہ کیا جو انہوں نے سُنا اُسکا وہی مطلب تھا جو وہ سمجھ رہے تھے۔

‎فاریسہ وائٹ فراک اور چوڑی دار پاجامے میں وائٹ ڈوپٹہ
‎فاریسہ وائٹ فراک اور چوڑی دار پاجامے میں وائٹ ڈوپٹہ بائیں کندھے پر ڈالے اور سُرخ کامدار ڈوپٹہ سر پر لیے ہلکے پھلکے میک اپ اور جیولری میں بھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی کہ سامنے صوفے پر بیٹھے ھادی کی نگاہیں مسلسل اس کے ارد گرد ہی گھوم رہی تھیں جبکہ فاریسہ اس کی نگاہوں کے تاثر سے بے نیاز آنے والے وقت کے بارے میں سوچتی پریشان ہو رہی تھی بے اختیاری میں وہ بار بار انگلی میں پہنی گئی برزل ابراہیم کی انگوٹھی کو گھما رہی تھی وہ برزل ابراہیم کو زرا پسند نہیں کرتی تھی بلکہ یہ کہنا سہی ہوگا کہ اُس کے خوف کے زیر اثر وہ آج تک یہ سمجھ ہی نہیں پا رہی تھی کہ وہ اُسے نا پسند کرتی ہے کہ نفرت؟

‎احسن مہمان آ چکے ہیں تمہارے بابا کہاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

‎مه پاره بیگم احسن کے قریب آئیں۔

‎" مما، بابا زرا سیکیورٹی سسٹم چیک کرنے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‎مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی ، آخر ہو کیا رہا ہے" تمہارے بابا یہ تو کہتے ہیں کہ ڈرنے کی ضرورت نہیں وہ دھمکی دے رہا ہے پھر یہ سب کیوں کر رہے ہیں، رشتے دار کتنی باتیں بنائیں گئے آخر کار وہ بھی تو سب محسوس کررہے ہیں نہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "مہ" پاره بیگم فکرمندی سے گویا ہوئیں کیونکہ وہ لوگوں کے طرح طرح کے سوالات کے جواب دے دے کر تنگ آچکی تھیں۔

‎مما پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بابا پولیس میں ہیں اور سب کو پتہ ہے کہ جب بھی کوئی پولیس والا کسی مجرم پر ہاتھ ڈالتا ہے تو وہ اسطرح کی دھمکیاں ہی دیتے ہیں، بابا تو بس نکاح کر کے اس دھمکی کے اثر سے نکلنا چاہتے ہیں ، وہ آ گئے بابا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احسن کے نرمی سے کہنے پر مُسکرائیں پھر اُس کے نازر اعوان کی طرف اشارہ کرنے پر اُس طرف متوجہ ہوئیں جہاں نازر اعوان اور
‎شاه زر اعوان آ رہے تھے۔

‎مہمانوں کی ریفریشمنٹ کا بندوبست کریں مولوی صاحب عصر کی نماز ادا کر کے آئے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "نازر اعوان نے مہ پاره بیگم سے کہا۔

‎جی میں نے کہہ دیا ہے انجم کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک نظر ہال میں بیٹھے مہمانوں پر ڈال کر وہ فاریسہ کی طرف بڑھیں جو کچھ پریشان سی لگ رہی تھی اُن کے لاکھ دلاسے تسلیوں کے باوجود وہ اپنے ڈر سے نکل نہ پا رہی تھی اور آگے کیا ہوگا یہی سوچ کر پریشان ہو رہی تھی اس گھر میں بس فاریسہ اعوان ہی تھی جسے پورا یقین تھا کہ وہ آئے گا کیونکہ ان تین ملاقاتوں میں وہ اتنا تو اسے جان پائی تھی۔

‎مسٹر ہادی کیا آپ اپنے موبائل کا سپیکر آن کر کے میرا پیغام سب تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ هادی نے کسی انجانے نمبر سے کال یس کرکے موبائل کان سے لگایا تھا کہ دوسری طرف سے ایک مسکراتی آواز پر اُس نے اپنی آنکھوں پر لگے نظر کے چشمے کو ہاتھ کے انگوٹھے سے درست کرتا پوری اعوان فیملی پر نظر دوڑانے لگا جو سب بھی اسے کچھ پریشان سا دیکھ کر کچھ نہ کچھ معاملہ سمجھ گئے تھے۔۔

‎سپیکر آن کرو ہادی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اعوان ہاوس کے سب سے بڑے“

‎بیٹے ایس پی نازر اعوان کے کہنے پر ہادی نے سپیکر آن کیا۔ میں نے سُنا ہے یہاں نکاح کی تیاریاں چل رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف سے آتی آواز پر ایک دفعہ سب ساکت ہوئے تھے کہ اسے پتہ کیسے چل گیا وہ تو سب چوری کر رہے تھے اُس کے دیے گئے ٹائم سے ایک دن پہلے۔ آپ لوگ یہ تو نہیں سوچ رہے کہ مجھے پتہ کیسے لگ گیا تو اس کے لیے اتنا ہی کہنا چاہونگا کہ فاریسہ اعوان میری ہے تو جو میرا ہو جاتا ہے اُسکو نظر میں رکھنا اور اُس پر نظر رکھنا مجھے بخوبی آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُسکے مسکراتے لہجے
‎پر فاریسہ کے چہرے کا رنگ بدلا تھا۔

‎تمہاری یہ بھول جلد ختم ہو جائے گی برزل

‎ابراہیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب کی بار شاہ زر نے مظبوط لہجے میں کہتے ہوئے احسن اور قمر کو کو مولوی کو جلد لانے کا اشارہ کیا تھا وہ سمجھ کر سر ہلاتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

‎مجھے خوشی ہوئی یہ سب جان کر کہ آپ لوگوں نے خود ہی سارے انتظامات کروا لیے نکاح کے اب بس دولہے کی مطلب کہ میرے آنے کی دیر ہے تو وہ آپ فکر نہ کریں مولوی کے آنے تک میں بھی حاضر ہو جاؤنگا اچھا ہے میرا اور فاریسہ کا نکاح اُس کے اپنوں کے درمیان ہو تا کہ وہ مجھے بعد میں یہ تانہ نہ دے سکے کہ میں نے اُس کے اپنوں کے سامنے اُسے اپنے نام نہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے جیسے وہ بولتا جا رہا تھا سب کے سانس بیٹھے جا رہے تھے فاریسہ نے تو اپنے ساکت دل پر ہاتھ رکھ کر یہ یقین کیا تھا کہ دل کے ساکت ہو جانے پر بھی وہ سانس کیسے لے پا رہی تھی۔

‎فاریسہ میری زندگی اچھے سے تیار ہونا اور وائٹ ڈریس پہننا کیونکہ وائٹ کلر میرا فیورٹ کلر ہے جو تم پر بہت سُوٹ کرتا ہے، اوکے پھر ملتے ہیں ایک گھنٹے بعد تمہیں مسز برزل ابراہیم بنانے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاریسہ کی جان نکالتا وہ کھٹاک سے فون رکھ گیا ہادی نے اپنے چہرے پر آیا پسینہ صاف کیا اور سب کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو کہ اب کیا کرنا ہے؟ بابا ، مما پلیز بچا لیں مجھے۔ فاریسہ روتی ہوئی مہ" پاره بیگم کے سینے سے جا لگی جنہوں نے ڈبڈائی آنکھوں سے اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔





‎Link👇
https://readelle.com/novels/tera-ishq-jaan-lewa-by-amreen-riaz-readelle50198/

Address

Nisatta

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Nisha Umar Novels posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Nisha Umar Novels:

Share

Category