Nisha Umar Novels

Nisha Umar Novels Paid Promotion Available ❤️
Novels Promotion
US TikTok available
TikTok Prmote
Story prmote

" فروین مہر کاظم، آپ حاملہ ہیں۔"الفاظ تھے یا کمان سے نکلے تیر، جو اس کے وجود کے آر پار ہوئے تھے۔ وہ حیرت کا بت بن گئی تھ...
03/07/2025

" فروین مہر کاظم، آپ حاملہ ہیں۔"
الفاظ تھے یا کمان سے نکلے تیر، جو اس کے وجود کے آر پار ہوئے تھے۔ وہ حیرت کا بت بن گئی تھی جیسے، ساکت آنکھوں سے، وہ اپنے سامنے بیٹھی اس ڈاکٹر کو دیکھ رہی تھی جس کے الفاظ بجلی کی مانند تھے جو اس کے کانوں میں بجے تھے کہ خواب آلود سی بیٹھی، فروین مہر کاظم کی آنکھیں، حیرت سے مکمل کھل گئی تھی
"… کیا؟"
وہ مکمل شاک میں آ چکی تھی کہ الفاظ بھی ٹوٹ کے بکھر رہے تھے ۔
" یہ کیسے ؟؟؟ کیا کہہ رہی ہے آپ ڈاکٹر؟ میں پریگننٹ؟؟ میں۔۔۔ "
وہ انیس سال کی ایک معصوم لڑکی تھی، جس کی زندگی میں کوئی مرد کبھی شامل نہ ہوا تھا، وہ تو شادی شدہ بھی نہیں تھی اور نہ ہی اس کا تعلق ان لڑکیوں میں سے تھا جو ہر مرد کے ساتھ جنسی تعلقات بنائے تو پھر یہ کیا سننے کو مل رہا ہے اسے۔
ڈاکٹر نے اس کے سامنے میڈیکل رپورٹ رکھی تھی جسے اس نے کانپتے ہاتھوں اٹھایا تھا کہ شاک اس قدر بھرپور لگا تھا کہ فروین مہر کاظم جیسی مضبوط اعصاب کی مالک، اس لڑکی کو مکمل ہلا کے رکھ دیا تھا۔
"آپ کی پریگننسی کا 4th منتھ چل رہا ہے فروین اور آپ کی ہیلتھ اس قدر بھی اچھی نہیں ہے کہ ہم ایبارشن کا سوچےبھی اور آپ جڑواں بچوں کو جنم دے گی "
ایک اور شاک، جو اس کے وجود اور اعصاب کو مکمل لرزا گیا تھا۔ وہ نم آنکھوں میں حیرت لیے، ڈاکٹر کو دیکھ رہی تھی جیسے وہ فروین کو موت کا پروانہ دے رہی ہو اور اسے یقین نہ آ رہا ہو لیکن کاش وہ موت کا پروانہ ہی ہوتا، کاش ان رپورٹس میں اس کی موت کی کوئی مقرر تاریخ ہی لکھ دی گئی ہوتی تو وہ اپنا نصیب سمجھ کے، موت کا انتظار کرتی لیکن یہ تو وہ روح فرسا خبر تھی جو اسے سنا دی گئی تھی...

Novel NAME : Maseer e Mamnu , Available on Nisha Umar Novels yt chanel

Link 🔗 👇👇

https://youtu.be/_C_-eWIYKwY?si=goKAq7eSowswZpOy

مجھے تباہ کرنے میں کوئی کسر باقی رہ گئی تھی جو یہاں بھی چلی آئی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ نینا نے اس کا ہاتھ تھام کر آنکھوں سے لگال...
03/07/2025

مجھے تباہ کرنے میں کوئی کسر باقی رہ گئی تھی جو یہاں بھی چلی آئی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ نینا نے اس کا ہاتھ تھام کر آنکھوں سے لگالیا پھر بلک بلک کر رونے لگی ۔
زار ! مجھے معاف کردیں ، مجھ سے غلطی ہوگئی ۔ میں مانتی ہوں میں نے آپ کے ساتھ بہت برا کیا ہے مگر مجھے جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں آپ کو بتانا بھی چاہتی تھی مگر آپ کو کھونے سے ڈرنے لگی اور میر جازب نے بھی مجھے روک دیا ۔ اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ یہ راز کسی کو نہیں بتائے گا پھر میں نے سوچا کے ہماری شادی ہوجائے گی تو شرط والی بات کی کوئی اہمیت بھی نہیں رہے گی ۔ وہ میر زوار کا ہاتھ تھامے لب کاٹتے ہوئے ندامت سے کہے جارہی تھی ۔
تمھیں میری ذات ، میرے جذبات پر شرط لگانے کا حق کس نے دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ تم مجھے پھنسا کر کیا ثابت کرنا چاہتی تھی کہ تم اپسرا ہو جس کے سامنے میر زوار اپنا سب کچھ ہار گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر تم نے یہی سب کچھ سوچا تھا تو تم بہت خوش نصیب ہو نینا شاہ ! تم جیت چکی ہو ۔ میں واقعی تم پر مرمٹا ، تم سے ہار گیا۔ میر زوار اسی دھیمے لہجے میں بے بسی سے بولا ۔
زار ! ایسا مت بولیں ، مجھے معاف کردیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمیز سے نام لو ۔ میر زوار ! میرا نام میرزوار علی ہے ۔ آج کے بعد مجھے کسی اور نام سے پکارہ تو نتیجہ بہت برا ہوگا ۔ تم شرط جیت چکی ہو مگر مجھے اس نام سے پکارنے کا حق اب تمھارے پاس نہیں رہا ۔میر زوار درشتی سے بولا ۔
پلیز ! اتنی بڑی سزا مت دیں ، میں اپنی غلطی تسلیم کر تو رہی ہوں ۔ میں نے آپ کا دل دکھایا ہے مگر خوش میں بھی نہیں ہوں ۔ احساس نہیں ہوتا تو یہاں تک کیوں آتی ۔ اس نے تڑپ کرمیر زوار کے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا ۔
ساجد سائیں ! اندر آؤ ۔ میر زوار اس کا ہاتھ جھٹک کر بلند آواز میں دہاڑا ۔
مجھے دوبارہ چھونے کی غلطی مت کرنا ورنہ بہت پچھتاؤگی ۔ تم اپنا اعتبار کھو چکی ہو ۔ میں تمھیں اپنے ساتھ کھڑے رہنے کے قابل بھی نہیں سمجھتا ۔ اب چپ چاپ یہاں سے چلی جاؤ ورنہ بدنامی اور رسوائی تمھارا مقدر بن جائے گی ۔ میں اپنے ساتھ تمھیں بھی ختم کردوں گا اور یہ داغ میرے خاندان سے ذیادہ تمھارے خاندان کے لئے بدنما ثابت ہوگا ، جب تمھاری لاش پاکستان پہنچے گی ۔میری برداشت کا امتحان مت لو ، چلی جاؤ۔ میر زوار دہشت ناک لہجے میں کہتا ہوا دور ہوگیا ۔ ساجد اندر آچکا تھا ۔
اسے لے جاؤ اور جہاں بولے ڈراپ کردینا ۔ اسے ابھی اسی وقت یہاں سے لے جاؤ ۔ میں ایک پل بھی اس کا وجود یہاں برداشت نہیں کرسکتا۔میر زوار پشت پر ہاتھ باندھے رخ پھیرے کھڑا تھا ۔ نینا کی سسکیوں سے اس کے کان کے پردے پھٹے جارہے تھے ۔
نینا کو اپنے لئے میرزوار کے لہجے میں زرا سے بھی گنجائش نظر نہیں آرہی تھی ۔ اس کی نفرت آمیز دھتکار نے نینا کو خاموشی سے واپسی کا احساس دلادیا ۔
https://readelle.com/novels/ye-bandhan-pyaar-ka-season-02-by-umme-mariyam-shaikh-readelle50045/

عروش نے کسمسا کر انگڑائی لی ، اس کا ایک ہاتھ اٹھا اور معظم شاہکے سینے پر لگا شاہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور زور دار جھٹکے سے...
03/07/2025

عروش نے کسمسا کر انگڑائی لی ، اس کا ایک ہاتھ اٹھا اور معظم شاہکے سینے پر لگا شاہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور زور دار جھٹکے سے دور پٹخ دیا عروش ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی ۔
شاہ خونخوار نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔عروش نے جلدی سے اپنا دوپٹا اٹھایا اور گلے میں اٹکالیا ۔
اس بے ڈھنگے پن سے سونا ہے تو اپنا ٹھکانا دوسرے روم میں کر لو ورنہ آئندہ اس حرکت پر تمھیں اٹھا کر کمرے سے باہر پھینک دوں گا ۔
اس میں تمھاری ہی رسوائی ہوگی ۔گھر والوں کو جواب تمھیں دینا پڑیگا
مجھے نہیں ۔وہ ماتھے پر ڈھیروں بل ڈالے کہہ رہا تھا ۔عروش کی آنکھیں یکلخت آنسوؤں سے بھیگ گئیں ۔وہ بغیر کوئی جواب دئیے بیڈ سے نیچے
اتر گئی ۔
وائیٹ سوٹ نکال کر ریڈی کرو ،میں شاور لے رہا ہوں ۔پندرہ منٹ بعد بریک فاسٹ کروں گا ،جو تم خود تیار کروگی۔اس نے سگریٹ ایش ٹرے میں مسل کر حکم صادر کیا ۔
اس کا رخ واش روم کی طرف تھا۔عروش کے دل میں آیا کہہ دے ،میں آپ کی نوکر نہیں ہوں یہ سارے کام کرنے کے لئے آپ کے گھر میں ملازموں کی فوج موجود ہے ، ان
سے کروالیں مگر اسے شاہ سے کوئی بعید نہیں تھی اتنی جرأت پر صبح ہی صبح ٹھکائی نا لگادے ۔
اس لئے چپ چاپ سلیپر میں پیر ڈال کر ڈریسنگ روم میں آگئی ۔ اس کے لئے ڈریس سلیکٹ کر کے وہ کچن
میں چلی آئی ۔

https://readelle.com/novels/dilon-ke-bandhan-by-umme-mariyam-sheikh-readelle50044/

ارادہ تو میرا تمھیں پوری عزت سے اپنانے کا تھا مگر تمھارے گاؤں کے سردار نے تم سے یہ حق چھیننے پر مجھے مجبور کر دیا ہے ۔اس...
03/07/2025

ارادہ تو میرا تمھیں پوری عزت سے اپنانے کا تھا مگر تمھارے گاؤں کے سردار نے تم سے یہ حق چھیننے پر مجھے مجبور کر دیا ہے ۔اس نے میرے خاندان کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہے ۔۔۔۔۔۔۔میری بہن کو اغوا کرنے جیسا گناہ کیا ہے۔

اب میں اسے بتاؤں گا کہ عزت کو پامال کرنا کسے کہتے ہیں ۔جب تم اپنی لٹی پٹی عزت کے ساتھ گاؤں پہنچوگی تب اس کے ہوش ٹھکانے آئیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تب اسے پتا چلے گا کہ میر سجاول کے ساتھ کھیل کھیلنے کا کیا نتیجہ نکلاہے ۔میرے خلاف کی گئی سازش اسے کتنی مہنگی پڑی ہے ۔۔۔۔۔۔یہ بات اسے آنے والا وقت اچھی طرح سمجھا دے گا ۔آئیندہ وہ میرسجاول سے ٹکرانے سے پہلے سو بار سوچے گا۔

اپنے گاؤں کی ہر لڑکی کی عزت کو وہ اپنی عزت سمجھتا ہے ،اب دیکھتا ہوں کیسے وہ میر سجاول سے اپنی عزت بچاتا ہے ۔۔۔۔میرا بدلہ یہیں پر ختم نہیں ہو جائے گا ۔۔۔۔اس کا غرور توڑنے کے بعد اس کو قبر تک پہنچا کر ہی دم لوں گا ۔میر کے لہجے میں اس وقت ایک درندہ بول رہا تھا ،اس کے اندر کا عاشق جیسے مر چکا تھا ۔انتقام کی آگ میں وہ اندھا ہوگیا تھا ۔

زرتاج اس کی باتیں سن کر پتھر ہوگئی تھی وہ اپنا رونا بھول کر ٹکر ٹکر میر کو دیکھ رہی تھی ۔اس کی آنکھوں سےبیک وقت حیرت ،بے یقینی اور نا امیدی چھلک رہی تھی مگر میر سجاول نے انہیں پڑھتے ہوئے بھی نظر چرانے کی کوشش نہیں کی تھی ۔وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا تھا ۔ زرتاج یکدم ہوش میں آکر میر کے قدموں سے لپٹ گئی ۔

میر سائیں ! اپنی محبت کو اس دشمنی کی بھینٹ مت چڑھائیں ۔مت بھولیں کے آپ نے مجھ سے بے حد پیار کیا ہے ،مجھ سے ان گنت وعدے کئے ہیں ،قسمیں کھائی ہیں ،پلیز !مجھے برباد مت کریں ۔وہ اس کے پاؤں پکڑے پھوٹ پھوٹ کر رودی ۔

نہیں کی میں نے تم سے کبھی محبت ،کوئی وعدہ نہیں کیا ،کوئی قسم مجھے یاد نہیں ۔اس وقت مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ تم معظم شاہ کی عزت ہو ،اس کے گاؤں کی عزت ہو ۔میر سجاول نے دہاڑتے ہوئے کہا ۔

ابھی آپ بہت غصے میں ہیں ۔۔۔۔۔دماغ کو ٹھنڈا کر کے سوچیں ، اس میں ہم دونوں کی بربادی ہے ۔۔۔۔۔آپ کا یہ جذباتی پن ہم دونوں کو جدا کر دے گا ۔وہ اب تحمل سے اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی ۔

برباد تو میں ہو چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔میں تمھارے عشق میں دنیا بھلائے بیٹھا تھا، نہ مجھے دشمنی کی کوئی فکر تھی نا اس (گالی) کی کوئی پرواہ ۔۔۔۔وہ مجھے زک پر زک پہنچاتا رہا اور میں تمھاری محبت کے خمار میں گم اسے ڈھیل دیتا گیا ۔۔۔۔۔مگراب مجھے ہوش آگیا ہے ۔وہ درشتگی سے کہتا اسے اپنے قدموں سے اٹھا کر کھینچتا ہوا بیڈ تک لے آیا ۔

زرتاج نے روتے ہوئے بیڈ سے اٹھنے کی کوشش کی مگر میر سجاول نے اس کے سر سے چادر کھینچ لی ۔
زرتاج نے دونوں ہاتھوں سے خود کو چھپالیا ۔وہ سر جھکائے بیٹھی تھی مگر اس کے سامنے اس کا محبوب نہیں ایک وحشی درندہ کھڑا تھا ۔جس نے اس دن اپنی وحشت اور درندگی دکھانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی ۔

زرتاج تڑپ تڑپ کر روتی رہی ،اس کی چیخ و پکار ،سسکیوں نے بھی میر سجاول کے اندر سوئے ہوئے انسان کو نہیں جگایا ۔زرتاج کی بھر پور مزاحمت بھی اس کی درندگی کے سامنے دم توڑ چکی تھی کیونکہ وہ میر سجاول کی مضبوط گرفت میں تھی ۔
آج اسے محبت اور احترام سے چھونے والے ہاتھ نوچ کھسوٹ رہے تھے ۔ بس صرف گھٹی گھٹی سی سسکیاں باقی رہ گئی تھیں۔
میر سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا رہا ۔۔۔۔۔جب طبیعت حد سے ذیادہ بوجھل ہوگئی تو اس نے کروٹ لے کر سونے کی ناکام سی کوشش کی
مگر دل پر پڑے بوجھ نے اسے ایک پل کی بھی نیند نہیں لینے دی ۔

https://readelle.com/novels/dilon-ke-bandhan-by-umme-mariyam-sheikh-readelle50044/

“میں بہت عام سی لڑکی ہوں جو آپ جیسے شخص کے بالکل قابل نہیں۔ آپ کے لیے آپی جیسی لڑکی ہونی چاہیے ہر لحاظ سے پرفیکٹ۔ آپ آپی...
03/07/2025

“میں بہت عام سی لڑکی ہوں جو آپ جیسے شخص کے بالکل قابل نہیں۔ آپ کے لیے آپی جیسی لڑکی ہونی چاہیے ہر لحاظ سے پرفیکٹ۔ آپ آپی سے شادی کرکے خوش رہیں گے۔” یہ سب بولنے کے لئے جتنی ہمت اس کو درکار تھی یہ صرف وہی جانتی تھی لیکن مقابل کھڑا شخص کوئی ردعمل ہی نہیں دے رہا تھا۔ اسے برا بھلا کہے کہہ دے کہ وہ سچ میں اس کے لائق نہیں کہ اس سے شادی کی جائے۔
“اپنے گھر والوں میں تم بھی شامل ہو۔”فاطر کی طرف سے سوال آیا تھا۔وہ خاموش رہی تھی۔
“کچھ پوچھا ہے میں نے۔”اب کی بار وہ اتنی ذور سے بولا کہ وہ اپنی جگہ سے ہل سی گئی۔اس کی ساری ہمت ڈگمگا گئی تھی۔اس کا سر اثبات میں ہلا تھا۔
ی”یہ وہی ہے نا جو تم سے اظہار محبت کررہا تھا۔”وہ دو قدم کا فاصلہ طے کرتے بلکل اس کے مقابل آکر کھڑا ہوگیا۔ذہرہ بےساختہ پیچھے ہٹی تھی۔

“آپ پلیز آپی سے شادی کرلیں۔”ذہرہ بھیگی آواز میں بولی۔
“اپنا مشورہ اپنے پاس رکھو۔تم کون ہوتی ہو یہ فیصلہ کرنے والی کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔”
وہ کہ کر تیزی سے باہر کی جانب بڑھا۔
“بات سنیں فاطر بھائی پلیز آپی سے۔”وہ جو اس کے پیچھے بھاگی تھی اس کے ایکدم رکنے پہ بری طرح اس سے ٹکرائی تھی کہ درد کی شدت سے وہ بےساختہ اپنا ماتھا سہلانے لگی تھی۔
“آج تو تم نے مجھ سے یہ بات کرلی آج کے بعد میں تمہارے منہ سے اپنا نام تک نہیں سننا چاہتا اور آج کے بعد میرے سامنے مت آنا ورنہ بہت برا ہوگا۔”وہ چلا گیا تھا اور خود پہ اس کا ضبط ختم ہوگیا تھا۔اس نے روتے ہوئے مڑ کر دیکھا۔لاؤنج کے دروازے میں عفراء کھڑی تھی۔اس کی دوست اس کی ہم راز وہ تو اس کی تکلیف سمجھے گی نا یہی تصور کرکے وہ اس کی طرف بڑھی لیکن تین قدم کے فاصلے پہ جیسے اس کے پیروں کو کسی نے زمین پہ جکڑ لیا۔عفرا اندر چلی گئی تھی اور اپنے پہچھے اس نے ذور سے دروازہ بند کیا تھا اور وہ بند دروازہ اسے کسی تھپڑ کی طرح اپنے وجود پہ لگتا ہوا محسوس ہوا تھا۔

Novel Code paste on Google Search Bar and You can get desirable novel on novelistan web
👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻
Novel20145

Sneakpeek "یہ انڈہ تو ٹھنڈا ہوگیا ہے؟"۔ اس بات سے انجان کہ وہ سن چکی ہے وہ خود پر بڑبڑایا تھا۔"آپ کا انڈہ تل دیتی ہوں"۔ ...
03/07/2025

Sneakpeek
"یہ انڈہ تو ٹھنڈا ہوگیا ہے؟"۔ اس بات سے انجان کہ وہ سن چکی ہے وہ خود پر بڑبڑایا تھا۔
"آپ کا انڈہ تل دیتی ہوں"۔ صالحہ نے دھیمی آواز میں کہا اور کچن میں پلٹنے لگی۔ وجدان کو بےجا شرمندگی محسوس ہوئی۔ وہ سوچنے لگا کہ اس نے اتنی صبح کچن میں کھڑے ہوکر محنت سے ناشتہ بنایا ہے اور وہ یوں ہی بڑبڑا اٹھا۔
"ننن۔نہیں میں یہ ہی کھالیتا ہوں"۔ وہ جھینپ کر کہتا ہوا پراٹھے کا ٹکڑا توڑنے لگا۔
"مگر یہ انڈہ آپ کا تو نہیں"۔ صالحہ نے آج اسے شرمندہ کرنے کی گویا قسم کھائی ہوئی تھی۔ وجدان نے حیرت سے پلٹ کر اسے دیکھا تو صالحہ نے نگاہیں جھکالیں۔
"تو یہ کس کا ہے؟"۔ وہ ہر ممکنا کوشش کررہا تھا کہ اس بار اسے شرمندگی نہ اٹھانے پڑے۔
"یہ تو میرا ہے۔۔ میں انڈہ ٹھنڈا کرکے کھاتی ہوں اس لیے پہلے ہی اپنا تل لیا"۔ صالحہ نے اطلاع دی۔ وجدان ایک بار پھر بےجا شرمندہ ہوا۔ اب کی بار اس کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا۔
"میں آپ کے اٹھنے کا انتظار کررہی تھی تاکہ انڈہ تل سکوں"۔ وہ کہتی کچن میں چلی گئی جہاں اس نے پہلے ہی فرائی پین گرم کرنے رکھا ہوا تھا۔ وہاں انڈہ تلا جارہا تھا اور یہاں وجدان کا دل۔۔۔
"ایک تو اتنی صبح چھ بجے اٹھادیا اس پر اتنا شرمندہ /بھی کروادیا"۔ وہ دونوں ہاتھوں کو چہرے پر رکھ کر رہ رہ کے خود کو بھی کوس رہا تھا۔
https://readelle.com/novels/zanjeer-by-ayna-baig-readelle-50041/

"غضب ہوجائے گا شرجیل! گھر پہنچو جلدی!"۔ حیدر کو اس کی دماغی حالت پر شک ہوا جو ایسی بہکی بہکی باتیں کررہا تھا۔ "اصل غضب ت...
02/07/2025

"غضب ہوجائے گا شرجیل! گھر پہنچو جلدی!"۔ حیدر کو اس کی دماغی حالت پر شک ہوا جو ایسی بہکی بہکی باتیں کررہا تھا۔
"اصل غضب تو میرے آنے پر شروع ہوگا"۔ شرجیل دوسری جانب ہنسا تھا۔ "فوراً نہیں آرہا میں! اپنا کام کرکے آؤں گا۔ ایسا کرو جب تک تم داجی کا پارا چڑھاؤ۔۔۔"۔ ایک شاطر مسکراہٹ سے سامنے دیکھتا ہوا وہ اسے تاکید کررہا تھا۔
"تو پاگل ہوگیا ہے کیا؟"۔ حیدر چیخ اٹھا۔
"یہی سمجھ لو!"۔ اس نے برابر بیٹھی رفاہ پر نگاہ ڈالی جو اب بھی پیلی ہوئی رنگت سے اسے دیکھ رہی تھی۔ "کال رکھ رہا ہوں کیونکہ ابھی اپنے۔۔۔ سسرال آیا ہوں"۔ اس نے نگاہ اس بڑی عمارت پر دوڑائی جس کے باہر بنی کیاری کے اوپر ایک بلب جلا رہا تھا۔ "اور ہاں! حویلی کے ملازم شاہ جی کو کہہ دو کہ تیاری پکڑ لیں اور پھولوں کا انتظام کریں!"۔ وہ معنی خیز لہجے بولا۔ حیدر اس کی یہ تمام باتیں سمجھنے سے قاصر تھا۔
"پھول؟ اور شاہ جی کیوں؟"۔ وہ الجھا۔
"شاہ جی کیوں؟ اس کا جواب جاننے کے لیے میرے آنے کا انتظار کرو۔۔۔ پھول یا تو شادی کے لیے اور اگر بات نہ مانی تو کسی کی قبر پر تو چڑھائے جائیں گے۔۔"۔ وہ استہزایہ ہنسا اور کال رکھ دی۔
https://readelle.com/novels/zanjeer-by-ayna-baig-readelle-50041/

مگر کچھ ہی پل میں اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی تھی. .جیسے ہو ہی نا. ..د دوسراا. .. دونوں ہاتھوں کو غور سے دیکھ رہی ت...
02/07/2025

مگر کچھ ہی پل میں اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی تھی. .جیسے ہو ہی نا. ..

د دوسراا. .. دونوں ہاتھوں کو غور سے دیکھ رہی تھی. .. چہرے پر ترس. .فکر. .حیرت. .پریشانی جیسے تاثرات واضح ہونے لگے تھے. .. جھٹکے سے اس کے ہاتھ چھوڑتی اب اٹھ کر اس کے سامنے آگئی تھی. ... ٹام ایبک پریشانی سے جبکہ الیانہ بے زاری سے اسے دیکھ رہی تھی. ...

کچھ عجیب سے عمل کرتی. . پیپرز پلٹتی اس کی طرف آئی تھی. .. اس کے بالوں کی چوٹی. ہاتھوں میں پکڑے انہوں عجیب سے دیکھ رہی تھی. .

یہ اتنے تو نہیں ہیں. ... اس کے بالوں کو دیکھتی ... بولی تھی. .. الیانہ کو کوفت ہورہی تھی. .اسکی عجیب حرکتوں سے. .

ہاں یہ. . آدھے ہیں. .. فولڈ کر کے بند کئے ہیں تب اتنے لگ رہے ہیں. . الیانہ کے بجائے ایبک بولی تھی. ..

یہ. .. یہ سیاہ بال ہی اس کی سیاہ بختی کی وجہ بنیں گے. ... ان خوبصورت کالے بالوں کی وجہ سے ہی تم برباد ہوجاو گی. .. تڑپو گی. .سسکو گی. ... موت چاہو گی. .. وجہ سے کالے خوبصورت بال ہی ہوں گے. ...

وہ خوفزدہ سی کہتی رکی تھی. .. بالوں کو ایک جھٹکے سے چھوڑ دیا تھا. .جس سے اسے درد تو ہوا مگر عمر کا لحاظ کرتی دانت پیس کر رہ گئی. .. اسے اس سب میں دلچسپی تو نہیں تھی. .مگر ٹام اور ایبک سہی معنوں میں ڈری تھے. ...

تم انہیں کٹوا دو ابھی وقت ہے. . کٹوا دو. .. ورنہ پشتهاو گی. بہت کم وقت ہے. ..بہت کم وقت ہے تمہارے پاس خوشیوں کا. .... حسین لڑکی. .. تمہاری زندگی سنگین ہونے والی ہے. ... جاووو. ... جاوو. .کٹوواو. ..اگر نہیں کٹواتی تو. . انہیں کبھی کھول کر مت جانا کہیں. .. چھپا کر رکھنا انہیں. .. غلطی سے بھی باہر کھلے بالوں کے ساتھ نا جانا. .. کوئی تلاش میں ہے تمہاری. .. مجھے نظر ارہا ہے. .. اسکی تلاش ختم ہوتی جا رہی ہے. .. وہ مصیبت ہے تمہارے لیے. ... بچووو اسسےے. ..جاووو. ....وہ اور بھی کچھ کہہ رہی تھی. ..مگر الیانہ کا سخت موڈ خراب ہوا تھا. .تب ہی اسے بولتا چھوڑتی ... باہر نکل گئی غصے سے. .... اس کے پیچھے ہی ٹام آر ابیک بھی ڈرے ڈرے چہرے کے ساتھ نکل گئے.
https://novelistan.pk/2025/06/30/khud-gharz-ishq-by-sandal-novel20138/

“جاؤ دوسرا لباس پہن کر آؤ , اتنی بھی عقل نہیں تم میں اس وقت کیا پہننا ہے …ماہین شرمندگی کے مارے جلدی واشروم گئی , اسے ام...
02/07/2025

“جاؤ دوسرا لباس پہن کر آؤ , اتنی بھی عقل نہیں تم میں اس وقت کیا پہننا ہے …
ماہین شرمندگی کے مارے جلدی واشروم گئی , اسے امید نہ تھی دانش کی یہ ڈیمانڈ ہوگی …
“اس شخص کا رویہ دیکھ کر ہی تو یہ لباس منتخب کیا تھا میں نے , واقعی عمروں کا فرق بہت اہمیت رکھتا ہے ,
اسے سمجھنا بہت مشکل ہے … وہ بڑبڑائی چڑ کر … اور دوسرا لباس وہ مختصر گھٹنوں تک بلیک نائیٹی پہننا
اسے تکلیف سے دوچار کرگیا جو ایک نظر دیکھنا گوارہ نہیں کررہا اس کے کہنے پر یہ پہننا ذہنی اذیت ہی تو تھا …

وہ کچھ دیر بعد واشروم سے نکلی دانش آنکھون پر بازو رکھے لیٹا تھا …
“لائیٹ آف کر دو … وہ اسی انداز میں لیٹا بولا … اس نے لائیٹ کے بورڈ کو ڈھونڈا نظر گھما کر , دوسری سائیڈ اسے بورڈ نظر آیا ,
لائیٹ آف کرتی بیڈ کے دوسرے طرف اکر لیٹ گئی … جیسے ہی کمفرٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا اس کا ہاتھ دانش نے تھام لیا …
ماہین گھبرا گئی اگلے لمحے خود کے نزدیک تر کرگیا تھا وہ اسے , وہ سانس روک گئی اس کی سخت گرفت پر ,
وہ مکمل اس کے رحم و کرم پر تھی وہ اسے اپنے برابر لٹا گیا اور پھر وہ اس پر پوری طرح چھاتا ہی چلا گیا
جابجا اپنا لمس چھوڑتا اور اپنا حق وصول کرتا اپنا فرض پورا کررہا تھا …
اس کے کسی انداز میں محبت تو دور کی بات کوئی معتبر سا احساس بھی مفلوج تھا اس کے لمس میں …
اس کا لمس ماہین کے اندر سوائے درد کے اور کچھ نہ جگا سکا … کتنا وقت گزرگیا ماہین کو احساس نہ ہوا وہ اندر ہی اندر درد سے جوچتی رہی
اور وہ شخص بےپرواہ بنا دوسری طرف کروٹ لیئے سو رہا تھا …. ماہین گُھٹ گُھٹ کر روتی ضبط کی انتہا پر تھی ….
اپنے اوپر کمفرٹ ڈھانپے وہ منہ پر ہاتھ رکھے خود کو چیخنے سے روک رہی تھی …
اس طرح تو نہیں ہوتا کسی کے ساتھ , اس رات تو شوہر اپنی بیوی کے ناز نخرے اٹھا کر حق وصول کرتا ہے …
عورت خود پر نازان ہوجاتی ہے اپنے شوہر کے شدت بھرے لمس پر … پر اس کا شوہر تو اپنی وحشتین اس کے اندر منتقل کرکے
پرسکون ہوکر سویا پڑا تھا دوسری طرف ماہین کے اندر درد کی ٹیسین اٹھ رہیں تھیں …
کچھ وقت بعد جب روکر خود کو ہلکہ پھلکہ کرچکی تھی تو خود کو سمیٹ کر سنبھال کر اٹھی تو زمین پر پاؤں رکھتے احساس ہوا

ٹانگین شل ہوچکی ہوں اور اس کا وزن اٹھانے سے انکاری ہوں جیسے … ہمت کرکے وہ واشروم گئی شاور کے نیچے کھڑی ہوگئی …
اپنے اندر کا غبار نکالا کئی آنسو ٹوٹ کر آنکھون سے بہے کر پانی کا حصہ ہوگئے …

کچھ دیر بعد فریش ہوکر شلوار قمیص پہن کر باہر آئی … نماز کے اسٹائیل میں دوپٹا پہنے جائے نماز بچھاکر اس پر کھڑی ہوگئی …
تہجد پڑھ کر خود کو پرسکون کیا … کتنی دیر ہاتھ اٹھائے بیٹھی رہی ایسا لگا لفظ گم ہوگئے ہوں جیسے …
کتنی دیر کے بعد وہ بولی تو بس اتنا …. ” یا اللہ … میری ماں کہتی ہے شوہر تو لباس کی طرح ہوتا ہے پھر کیسے کوئی شوہر اس طرح کرسکتا ہے ,
یہ محبت نہیں ہوسکتی , یہ محبت بھرا لمس بھی نہیں ہوسکتا , پھر یہ کیا تھا جو آج میں نے محسوس کیا جو میرے ساتھ ہوا ہے …
یہ کس سے پوچھون گی میرے رب , کون بتائے گا , یہ میرے ساتھ ہی کیون …. میرے ساتھ ہی کیون … وہ درد سے چور لہجے میں بولی تھی …
“یا اللہ میں صرف تجھ سے اپنے شوہر کی محبت عزت اور احساس مانگتی ہوں … وہ میری عزت کرے جس کی میں عزت کرسکون … یا اللہ مجھے سکون عطا کر …
وہ چہرے پر ہاتھ پھیرتی اٹھ گئی … جانتی تھی کچھ دیر میں فجر کی آذان بھی ہوجائے گی اس لیئے درود پاک پڑھنے بیٹھ گئی , یہ اس کی عادت بچپن سے تھی اگر تہجد کے بعد جاگتی رہتی تو درود پڑھتی رہتی فجر نماز تک … اس لیئے اکر صوفے پر بیٹھ گئی اور درود پڑھنے لگی …
پھر واقعی کچھ دیر میں آذان ہوئی تو اسے سن کر پھر نماز کے لیئے کھڑی ہوگئ نیت باندھ کر …نماز پڑھنے کے بعد جب دعا کے لیئے ہاتھ اٹھائے تو بے آواز آنسو بھاتی رہی شاید اپنی نسوانیت کی بےحرمتی اس کی برداش سے باہر تھی ….

“یا اللہ رحم , ایسی اذیت سے میں تیری پناھ مانگتی ہوں … یا اللہ رحم …. بے آواز روتی اپنے رب سے رحم کی التجہ کررہی تھی …

اپنا دل کافی حدتک ہلکہ کرچکی تھی وہ اپنے رب کے اگے روکر … پھر جائے نماز لپیٹ کر وہ ڈریسنگ کے سامنے گزری جس کی فینسی لائیٹ اس نے خود جلائی تھی نماز کے وقت , بےساختہ نظر پڑی تو خود کو غور سے دیکھا آئینے میں تو احساس ہوا گردن سے ہوکر اس کے نیچے تک اس کے شوہر نے اپنا ہر نشان اس کے جسم پر واضع کردیا کسی کے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں رہی تھی کل رات کیا ہوا , سب کے لیئے واضع نشانیان رکھ چھوڑیں تھیں اس کے وجود پر … بازو پر اس کی سخت گرفت کی وجہ کانچ کی چوڑیان ٹوٹی تھیں اس کے زخم بن گئے تھے … ایک ہوک اٹھی ماہین کے اندر لمبی سانس اندر کھینچ کر آرام کے لیئے لیٹ گئی تھی وہ …*
*https://novelistan.pk/2024/09/02/mery-dard-ko-ju-zuban-mily-by-saba-mughal/

"آپ نے بلایا؟"۔ وہ ڈوپٹے کو گھونگھٹ کے انداز میں پہنی ہوئی تھی۔ شرجیل نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔"بیٹھو"۔ اس نے نگاہوں سے ...
02/07/2025

"آپ نے بلایا؟"۔ وہ ڈوپٹے کو گھونگھٹ کے انداز میں پہنی ہوئی تھی۔ شرجیل نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔

"بیٹھو"۔ اس نے نگاہوں سے برابر بیٹھنے کا اشارہ ساتھ دیا۔ اس کے کہنے پر رفاہ لرزتی پلکوں اور دھڑکتے دل سے اس کے برابر بیٹھ گئی۔ لمبی کی خاموشی چھا گئی۔ باغ میں صرف ایک مدھم سا بلب جل رہا تھا۔ اس کی روشی اتنی بھی نہیں تھی کہ وہ ایک دوسرے کے چہرے کے نقوش کا اندازہ کرپاتے۔

"اپنے بابا سے کیوں نہیں ملی؟"۔ اس نے ٹہھر کر پوچھا۔
"کیونکہ میں ان سے ملنا ہی نہیں چاہتی"۔ وہ ناچاہتے ہوئے بھی تھوڑا سخت ہوگئی۔ شرجیل نے اس کے چہرے کے نقوش غور سے دیکھنے کی کوشش کی۔

"وہ باپ ہے تمہارا"۔ اس نے بتایا جیسے وہ جانتی ہی نہیں۔

"مگر میں نہیں ملنا چاہتی"۔ اس نے سختی سے لفظ ادا کیا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
"اگر آپ کو یہی بات کرنی تھی تو میں اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتی"۔ غصہ میں وہ یہ بھول گئی تھی کہ وہ کس سے بات کررہی ہے۔ شرجیل نے ماتھے پر بل ڈال کر اسے دیکھا۔ وہ سر جھکا کر کہتی مڑنے لگی تھی کہ شرجیل نے سختی سے اس کا ہاتھ پکڑا۔ اپنے قدموں کے ساتھ ساتھ رفاہ کو اپنی سانس بھی رکتی محسوس ہوئی تھی۔

"میں نے جانے کا کہا کیا؟"۔ وہ سختی سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا مگر رفاہ نے اسے مجبور کردیا تھا۔ "بیٹھ جاؤ"۔ اس نے اپنی آنکھیں اس کے چہرے پر گڑا کر بلند آواز میں حکم دیا۔ وہ اس کی آواز پر سہمتی برابر میں پھر سے بیٹھ گئی۔

"جو پوچھ رہا ہوں آرام سے بتادو ورنہ اس چھت کی منڈیر پر کھڑا کردوں گا"۔ وہ حویلی کی چھت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ رفاہ نے اس کے اشارے کے تعاقب میں دیکھا تو لرز اٹھی۔ اندھیرے میں حویلی اور خوفناک لگ رہی تھی۔

"کیوں نہیں ملی ان سے؟"۔ اس نے سوال پھر سے دہرایا۔

"میرا دل نہیں چاہ رہا تھا"۔ وہ خود پر ضبط کرتے ہوئے مضبوطی سے بولی۔

"کیوں نہیں چاہ رہا تھا؟"۔ اس نے اسی کے انداز میں پوچھا تو وہ لب بھینچ گئی۔

"بس دل نہیں کررہا تھا شرجیل صاحب"۔ کہتے کہتے اس کی آواز رندھ گئی۔

"پہلی بات! شرجیل صاحب میں آپ کے سوا ہر کسی کے لیے ہوں!"۔ شرجیل نے سنجیدگی سے اسے ٹوکا۔ وہ گھبراگئی جیسے کوئی بہت بڑی غلطی کردی ہو۔ اس نے حلق میں تھوک نگل کر اپنے ہاتھوں کو دیکھا جو سردی کے باعث سفید ہورہے تھے ار ناخن ہلکے نیلے۔

"کک۔کیا کہوں آپ کو"۔ وہ ہکلاتے ہوئے بولی۔ شرجیل نے اس کے سوال پر اس کی طرف رخ موڑا جو اپنی مخروطی انگلیاں چٹخ رہی تھی۔ ہاتھوں کی سفیدی دیکھ کر شرجیل نے بےساختہ اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور غور سے دیکھنے لگا۔

"شرجیل کہہ سکتی ہو مجھے۔۔۔ اب شوہر کو صاحب بولتی اچھی لگو گی؟"۔ سنجیدگی سے گفتگو وہ اس سے کررہا تھا مگر نظریں اس کے ہاتھوں کے ناخنوں پر تھیں۔ رفاہ کو اس کی باتیں عجیب لگی تھیں۔ اسے شرجیل سے ایسی گفتگو کی امید نہیں تھی۔ وہ چہرے سے بردبار اور سخت لگتا تھا مگر وہ اندر سے اتنا ظالم نہیں تھا وہ یہ جان گئی تھی۔

"تمہیں ٹھنڈ لگ رہی ہے؟۔ کوئی گرم کپڑے نہیں ہے پہننے کے لیے؟۔ یہ کیا اتنے ہلکے کپڑے پہنی ہوئی ہو؟ اس سے بھلا کوئی ٹھنڈ رکے گی؟"۔ وہ اسے بلکل بچوں کی طرح ڈانٹ رہا تھا۔ رفاہ اسے بنا کسی تاثر کے تک رہی تھی۔

"کچھ کہو گی بھی یا یوں ہی مجھے غصہ دلاتی رہو گی؟"۔ وہ ماتھے پر بل ڈال کر بولا۔اس بندے کو سوائے ماتھے پر بل ڈالنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ رفاہ نے اس کے ماتھے پر آئے بل کو دیکھ کر دل میں سوچا۔
Link👇
https://readelle.com/novels/zanjeer-by-ayna-baig-redelle-50041/

"تم میری پیا نہیں ہوسکتی تم 'باوری' ہو اس شخص کی جس کے ساتھ تمہارا یارانہ تھامیں غلط تھا۔۔۔تم تو کہانیوں میں بھی کسی لڑک...
02/07/2025

"تم میری پیا نہیں ہوسکتی تم 'باوری' ہو اس شخص کی جس کے ساتھ تمہارا یارانہ تھا
میں غلط تھا۔۔۔
تم تو کہانیوں میں بھی کسی لڑکی کو بدکردار نہ لکھتی تھی اور خود کیسے وہ بن گئی جسے لکھتے ہوئے بھی تمہیں گھن آتی تھی۔۔۔"
وہ سر جھکائے کھڑی تھی جیل کے گپ اندھیرے میں چین کے ساتھ بندھی ہوئی وہ مجرم۔۔۔
"بدکردار۔۔؟؟ باوری۔۔؟؟ آپ جانتے ہیں آپ میرے زندگی میں وہ پہلے شخص تھے جو میری ہر چیز میں پہلے تھا اور آخر بھی۔۔۔
میرے نکاح میں میرے وجود پر میری زندگی میں۔۔۔آپ ہر جگہ پہلے تھے آپ جانتے ہیں نہ حنین۔۔؟؟"
"مگر میں محبت میں پہلا شخص نہیں تھا پیا۔۔ تم نے دھوکا دیا مجھے۔۔۔"
وہ آگے بڑھا تھا دونوں کے چہرے اتنے پاس تھے۔۔۔ اور ایک دم سے حنین نے پریہان کو بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا
"کیوں پریہان۔۔؟؟ کیوں کیا میرے ساتھ ایسا۔۔؟ کیا کمی تھی۔۔؟ کیا بستر پر اچھا نہیں تھا میں۔۔؟؟ کیا میں کم تھا کسی بھی چیز میں۔۔؟؟ کیا میں۔۔۔"
"حنین۔۔۔میری نظروں سے آپ اسی دن گر گئے تھے جب مجھے طلاق دی تھی
آج یہ الفاظ بول کر اپنی نظروں سے نہ گر جانا۔۔۔"
"پیا۔۔۔"
اس چہرے پر پچھتاوے کے بادل جیسے ہی چھائے تھے پریہان کے چہرے کو اور پاس کیا تھا اس نے
"میں آج بھی تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔۔۔میں تمہیں معاف کرکے اپنا لوں گا پیا۔۔"
حنین کی گرفت ابھی بھی مظبوط تھی پریہان کی گردن پر اسکے ہونٹ جیسے ہی پریہاں کے لبوں پر محسوس ہوئے تھے اس نے منہ پیچھے کرلیاتھا
اور حنین کے ہونٹ اسکے رخصار کو چھو گئے تھے
"حنین آپ تو میرا مسیحا تھے۔۔ میں دردر بھٹک رہی تھی زندگی کے بنجر میدانوں میں
آپ میری اس تلاش کا پھل تھے آپ وہ کنواں تھے جس سے کسی پیاسے کی پیاس بجھنی ہو لمبی مسافت کے بعد۔۔۔
آپ میرا حاصل تھے۔۔۔ مگر آپ۔۔"
"پیا۔۔۔"
"آپ بستر پر بھی اچھے تھے آپ میرے شوہر تھے۔۔۔ آپ ہر جگہ اچھے تھے جہاں کوئی بھی مرد اچھا ہوتا۔۔۔
مگر جہاں شریکِ حیات اچھے ہوتے وہاں آپ بہت بُرے ثابت ہوئے حنین۔۔۔
بیوی کے کردار پر تہمت لگا کر طلاق دینا یہ کوئی محبت نہیں۔۔۔
بستر پر تو لوگ اچھے ہو ہی جاتے ہیں۔۔۔ مگر یقین کا بھرم چند ایک ہی رکھ سکتے۔۔۔"
وہ کچھ قدم پیچھے ہوگئی تھی
"پیا۔۔۔"
"باوری کہیں۔۔۔ بدکردار باوری۔۔۔ میں کہاں پیا باوری رہی ہوں۔۔ یہ دیکھیں میری حالت۔۔۔
حنین۔۔۔۔ سب کچھ تو چھین لیا اس باوری سے۔۔۔آپ نے۔۔ دنیا نے۔۔"
۔
https://readelle.com/novels/piya-baawari-by-sidra-sheikh-readelle50037/

اس لڑکی کو اب جب اسے پتا چل گیا تھا اسکی کزن کی پسندیدگی کا اسے لیکر بھی۔۔۔۔اس کے دل میں غصہ نہیں تھا پر اسکا دماغ اسے م...
02/07/2025

اس لڑکی کو اب جب اسے پتا چل گیا تھا اسکی کزن کی پسندیدگی کا اسے لیکر بھی۔۔۔۔
اس کے دل میں غصہ نہیں تھا پر اسکا دماغ اسے مجبور کر رہا تھا جیسے اسکی کزن نے اسے پسند کر کے بہت بڑا گناہ کر لیا ہو۔۔۔۔۔
۔
"نایاب التمش۔۔۔۔غلط کیا تم نے مجھے پسند کر کے۔۔۔۔ میں تمہیں کتنا پارسا سمجھتا آیا۔۔۔اور تم ایک چھت تلے مجھ پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔۔۔
میں تمہیں کبھی پسند نہیں کروں گا نایاب التمش۔۔۔۔اور اب تمہیں اس چھت کے نیچے برداشت بھی نہیں کروں گا۔۔۔۔
تمہاری شادی مجھ سے پہلے کرواں گا۔۔۔۔ اور یہ میرا وعدہ ہے۔۔۔۔"
۔
آج جہاں اسکے دماغ میں غصہ تھا وہاں اسکے دل میں سکون بھی تھا۔۔۔
پر دل اور دماغ کی اس جنگ میں جیت دماغ کی ہوئی تھی۔۔۔۔
"زاران عابدی دکھ اس بات کا نہیں کہ درگزر کر رہے ہو۔۔۔۔
افسوس اس چیز کا ہے کہ ظاہر کروا کر کر رہے ہو۔۔۔۔
https://novelistan.pk/2025/06/30/jeeny-bhi-de-dunya-hamain-by-sidra-sheikh-novel20140/

Address

Nisatta

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Nisha Umar Novels posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Nisha Umar Novels:

Share

Category