16/09/2025
مم میں نن نہیں کروں گی نکاح ۔۔"!
خرہ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہونے تھے کہ ایک تیس پینتیس سال کی کرخت عورت جو کہ سردار شیر دل کی حویلی کی ملازمہ تھی کے زور دار طمانچے نے حرہ کے وجود کو زمین بوس کر دیا
" کے کہا تو نے۔۔؟ اک بار پھر سے بول۔۔"!
ناہید جھک کر خڑہ کے بالوں کو اپنے شکنجے میں سختی سے لیتے ہوئے غرائی کہ شدت درد سے بلکتی حرہ کر اپنے لگی
" شکر کر لڑکی بڑے سردار کا کہ چھوٹے سردار کو راضی کر لیا انہوں نے۔۔ نہیں تو حویلی میں چھوٹے سردار کی رکھیل بن کے رہ جاتی تو ۔۔ اور نخرے تو یوں کر رہی ہے تو جیسے آسمانوں سے اتری ہوئی حور ہے۔۔ خبر دارا گر مولوی صاحب کے سامنے نکاح کے لیے انکار کیا تو نے۔۔ اتنا ماروں گی نا تجھے کہ ساری اکٹر ختم ہو جائے گی تیری "__
ناہید مسلسل محرہ کو جھنجوڑتی ہوئی غرارہی تھی اور حرہ جیسی دبلی پتلی سی نازک لڑکی اس وقت ناہید کی بے رحمی کا شکار بنی ہوئی تھی وہاں موجود ایک دوسری ملازمہ ناہید کو چاہ کر بھی نہیں روک سکتی تھی جانتی تھی کہ یہ حکم
بڑے سردار کا ہو گا
مم میری حج جان لے لو مم مگر مم میں نکاح نہیں کروں گی۔۔"
ناہید کے بے رحمانہ تشدد کے بعد بھی حرہ کی زبان پر یہی الفاظ سن کر ناہید کا غصہ مزید بڑھ گیا
کالے جوڑے میں نکاح کے بعد حمزہ کو ناہید ہی گھسیٹتی ہوئی گاڑی تک لائی اور کب حویلی کی حدود میں گاڑی داخل ہوئی کب حرہ کو ٹھسیٹتے ہوئے حویلی میں لے جایا گیا ہوش اسے تب آیا جب سردار بی بی کے قدموں میں اسے کسی بے کار شے کی طرح پھینکا گیا بے تحاشہ درد کرتے وجود سے جان نکلتی محسوس کرتی خرہ نے جب سر اٹھایا تو سردار بی بی کی زور دار ٹھوکر سے ایک مرتبہ پھر دور جا گری
پکڑتے ہوئے سردار بی بی کے سامنے کھڑا کیا مگر جسم میں اٹھتی ٹیسوں سے حرہ کا اپنے پیروں پر کھڑا ہونا مشکل ترین تھا اسی لیے ایک مرتبہ پھر سردار بی بی کے قدموں میں گر پڑی سردار بی بی نے کڑہ کے کاندھوں سے پکڑتے ہوئے اپنے سامنے کیا اور اسے سر سے پاؤں تک دیکھنے لگی
کالے منجھے ہوئے لباس میں بڑی سی کالی چادر جو کہ اس ساری کاروائی میں سر سے اتر کر کاندھوں پر آگئی تھی لمبی چھیا سے آدھے بال نکلے ہوئے تھے مار پیٹ کے باعث چہرہ اور ہاتھ سرخ ہو رہے تھے مسلسل بہتے آنسو، سرداربی بی کو وہ لڑکی بمشکل سترہ اٹھارہ سال کی لگی تھی ایک پل کو اس لڑکی کی اجڑی بکھری حالت دیکھ کر ان کا ہاتھ اپنے دل پر گیا مگر وہ ان لڑکی ان کی بیٹی کے قاتل کے گھر سے آئی تھی یہ سوچ آتے ہی سردار بی بی نے حرہ کے رخسار پر زور سے طمانچہ رسید کیا
"ری ناہید اٹھا اس کو۔۔ " !
سردار بی بی ( سردار شیر دل کی زوجہ اور سردار عباس کی ماں) اپنے کاندھے پر پھیلائی ہوئی چادر کو درست کرتی ہوئیں دھاڑی وہاں موجود ہر ملازم ان کی دھاڑ پر کانپ گیا ناہید نے فوراً درد سے تڑپتی حرہ کو سختی سے بازو سے
تت تو ایک بات اپنے ذہن میں بیٹھا لے۔۔ تو میرے بیٹے کے نکاح میں ضرور ہے مگر اس حقیقت کو کبھی فراموش نہ کریں کہ تو خون بہا میں آئی ہوئی ہے۔۔ تو محض انتقام ہے ہمارا ۔۔ جس طرح ظالموں نے میری بیٹی کو مارا ہے نا اس سے برا حال کرے گا میر اعباس تیرا۔۔"
سردار بی بی حرہ کے رخساروں پر پے در پے طمانچہ رسید کرتی دھاڑ رہیں تھیں جب چیختی چنگھاڑتی اس کا گلا بیٹھ گیا تو انہوں نے روتی بلکتی حرہ کو اسی ناپسندیدہ چیز کی طرح زمین پر دے مارا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی
سردار بی بی کے جانے کے بعد ہر کوئی وہاں سے بوتل کے جن کی طرح غائب ہوا تھا مگر کڑہ نے اپنے قریب آتے کسی کو محسوس کیا جب درد کرتے سر کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر تھوڑا بلند کیا تو آنسوؤں کے باعث دھندلائی ہوئی آنکھوں سے سامنے کھڑی ایک نہایت خوبصورت لڑکی کو دیکھنے لگی جو گہرے رنگ کے جوڑے میں سر پر دوپٹہ لیے سینے پر ہاتھ باندھے کھڑی بے تاثر چہرہ لیے خڑہ کے زخمی وجود کو دیکھ رہی تھی
Link 👇
https://www.google.com/search?q=novel21091&sca_esv=1720fa6fb76a49fc&sxsrf=AE3TifPo3N4KbIlxtGqkzSDJAaR448Qyow%3A1758046298216&source=hp&ei=WqjJaNKVC9uz4-EPgIvF2Q4&oq=novel21091&gs_lp=EhFtb2JpbGUtZ3dzLXdpei1ocCIKbm92ZWwyMTA5MTIIEAAYgAQYogQyBRAAGO8FMgUQABjvBTIIEAAYgAQYogRI_UNQjgpY1T5wAXgAkAEAmAH0A6ABhBaqAQkyLTcuMS4xLjG4AQPIAQD4AQGYAgugApcXqAIPwgIHECMYJxjqAsICBBAjGCfCAgoQIxiABBgnGIoFwgIKEAAYgAQYQxiKBcICDhAuGIAEGLEDGNEDGMcBwgIIEAAYgAQYsQPCAgsQABiABBixAxiKBcICBRAAGIAEwgIEEAAYA8ICBhAAGAMYCsICBBAAGB6YAy3xBa-presQwscmkgcJMS4wLjcuMS4yoAf8N7IHBzItNy4xLjK4B-oWwgcJMi01LjQuMS4xyAeMAQ&sclient=mobile-gws-wiz-hp