22/08/2025
آپ نے آج صبح مجھے اٹھا یا نہیں ؟ " ۔ وہ وقت دیکھتا ہو ابولا تھا۔ دس بج رہے تھے اور وہ کچن میں کھڑی ناشتہ بنا رہی تھی۔
نہیں آپ میری وجہ سے روز تھک جاتے ہوں گے ۔ اس لیے آج میں گھر پر ہی ہوں اور صبح اس لیے نہیں اٹھایا کیونکہ آپ آفس اکثر گیارہ بجے تک جاتے ہیں بس میری وجہ سے آج کل جلدی جانے لگے تھے "۔ وہ اسے دیکھ نہیں رہی تھی اور دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ وجد ان نے حیرانی سے بنھویں اچکائیں۔
" آپ نے میری وجہ سے آج اپنے اسکول اور یونیورسٹی کا ناغہ کر لیا ؟ بھلا ایسا بھی کون کرتا ہے صالحہ ۔ بھی میں نے ۔ ایسے کہا کیا؟۔ نہیں نا؟ تو پھر خود سے تھوڑا کم اخذ کیا کیجیے ". وہ نا چاہتے ہوئے بھی تھوڑا بلند آواز میں بول گیا تھا۔ صالحہ یکدم پلٹی۔
آپ سمجھتے ہیں میں جانتی نہیں! اور اچھی بات ہے نا آج آپ کو میری وجہ سے جلدی اٹھنا بھی نہیں پڑا۔ اس کا " مجھے کبھی آپ کی وجہ سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی ہے۔ آپ کو ایسا کیوں محسوس ہوا؟"۔ وہ ماتھے پر بل ڈال کر
بولا۔
کیونکہ ایسا ہی ہے مسٹر وجدان "۔ اس کے ماتھے پر بھی بل نمودار ہوئے۔
لگتا ہے مسز وجد ان آپ صبح صبح مجھ سے لڑنا چاہتی ہیں "۔ اسے یکدم غصہ آیا تو دل کی بات زبان پر لانے سے خود کو روک نہ پایا۔
" میں لڑنا چاہتی ہوں ؟ ۔ یا آپ نے صبح صبح آکر میرے سامنے بات شروع کی ؟ "۔ اس کی آواز بلند نہیں تھی مگر لہجہ سخت تھا۔
کیا ہو تا جا رہا ہے صالحہ آپ کو ؟"۔ وہ حیران تھا۔
یہی میں کل رات آپ سے پوچھنے والی تھی "۔ وہ اس کا در شہوار سے بات کرنا بھولی نہیں تھی۔
" آپ کو کب سے سے میرے معاملات میں اتنی دلچسپی ہونے لگی ؟ "۔ اگر یہ کوئی اور وقت ہو تا تو وہ ضرور اس کی اس بات پر مسکراتا۔ یہ
مجھے کسی چیز میں دلچسپی نہیں ہے مسٹر وجد ان "۔ اس کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔
" بلکل! مید ! یہ آپ اور میں دونوں جانتے ہیں یہ رشتہ محض ایک مجبوری تحت قائم کیا گیا تھا ۔ وہ انجانے میں کیا بول گیا
تھا۔ صالحہ نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ اس کے لفظوں نے اسے ششدر کر دیا تھا۔ آنکھیں سے موٹے
موٹے آنسو نکل کر گال پر بہنے لگے۔ اس کے آنسوؤں نے وجد ان کو تھوک نگلنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے لفظ بہت سخت تھے۔ وجد ان کو احساس ہوا تو وہ لب بھینچ گیا۔ دل چاہا کہ وہ وقت واپس لے آئے جب یہ کلمات منہ سے نکلنے ہوا چاہا وہ والے تھے۔ صالحہ نے اپنے آنسو صاف کیے اور زبر دستی مسکرائی۔
" شرکیہ یاد دہانی کا! میں تو واقعی بھول گئی تھی۔ آئیندہ آپ کو کوئی شکایت نہیں ملے گی"۔ وہ مسکرائی۔ اس نے اب کی بار گرنے والے آنسوؤں کو اپنے چہرے سے صاف کرنے کی زحمت نہیں کی اور کچن سے نکل گئی۔ سانسیں ر کیں تو وجد ان کی۔۔۔ وہ اس کی بیوی تھی۔ یہ باتیں وہ اسی سے کر سکتی تھی۔ وہ یہ کیا کر گیا تھا۔ کچن سے باہر نکل گر متلاشی آنکھوں سے ارد گرد دیکھا مگر وہ کہیں نہیں تھی۔ یقینا اوپر کمرے میں تھی۔ ایک گہری سانس خارج اگر تا وہ وہیں صوفے پر بیٹھ گیا۔
Link👇
https://novelistan.pk/2025/07/02/zanjeer-by-ayna-baig-novel20147/