
07/07/2025
🌿 نوشکی کا سوکھتا ہوا سایہ درختوں کی کمی اور ماحولیاتی بحران
✍️ تحریر: محمد عارف زہری
بلوچستان کا ضلع نوشکی اپنی سرسبز وادیوں اور پہاڑی دامنوں سے زیادہ اپنے خشک، سنگلاخ اور بے آب و گیاہ زمین کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہاں بارشیں کم اور دھوپ زیادہ ہوتی ہے۔ مگر جو کچھ فطرت نے دیا تھا وہ تھوڑے بہت درخت، ٹھنڈی چھاؤں، پرندوں کا بسیرا وہ بھی اب ماضی بنتا جا رہا ہے۔ درختوں کی تیزی سے ہوتی کمی نے نہ صرف مقامی ماحول کو بدلا، بلکہ ماحولیاتی تبدیلی کو یہاں ایک ناقابلِ انکار حقیقت بنا دیا ہے۔
درختوں کی کمی: وجوہات اور نتائج
نوشکی جیسے نیم صحرائی علاقے میں ویسے ہی شجرکاری کے مواقع کم ہوتے ہیں، مگر جو کچھ قدرتی درخت، جھاڑیاں اور سبزہ تھا، وہ بھی تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی چند بڑی وجوہات
ایندھن کے لیے درختوں کی کٹائی
بڑھتی ہوئی نئی آبادیوں کی تعمیراتی کام
ماحول دوست منصوبوں کا فقدان
سرکاری اداروں کی عدم توجہ اور مالی وسائل کی کمی
اس کے نتیجے میں نہ صرف درجہ حرارت میں اضافہ ہوا بلکہ خاک آلود ہوائیں، گرد و غبار، پانی کی کمی، اور پرندوں و حشرات کی کمی بھی دیکھنے میں آئی۔
نوشکی میں ماحولیاتی تبدیلی درختوں کی شجرکاری کا نہ ہونا ایک تلخ حقیقت
درخت صرف آکسیجن ہی نہیں دیتے، بلکہ زمین کی نمی، بارشوں کی ترتیب، ہوا کے معیار اور انسانوں کے سکون کو برقرار رکھتے ہیں۔ جب درخت نہیں رہتے، تو
زمین تیزی سے خشک ہو جاتی ہے۔
بارشیں یا تو نہیں ہوتیں یا شدید نقصان دہ طوفانوں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔
گرمی کی شدت میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے۔
گلیشیئرز کے پگھلنے کی عالمی رفتار میں بھی اضافہ ہوتا ہے، جس کا اثر مقامی سطح پر بھی آتا ہے۔
زرعی پیداوار میں بھی کمی ہو جاتی ہے، جس سے غربت اور غذائی قلت پیدا ہوتی ہے۔
نوشکی میں بھی یہی ہو رہا ہے
نہ زمین میں وہ زرخیزی رہی، نہ ہوا میں وہ تازگی، نہ فضاؤں میں وہ پرندوں کی چہچہاہٹ۔
اس حل کیا ہے امید کہاں سے ملتی ہے؟
خوش آئند پہلو یہ ہے کہ مایوسی کے باوجود تبدیلی ممکن ہے، بشرطیکہ ہم اجتماعی طور پر سوچیں اور عمل کریں:
1. جامع شجرکاری مہم صرف پودے لگانا نہیں، ان کی دیکھ بھال بھی شامل ہو۔
2. مقامی نوعیت کے درخت لگائے جائیں جو کم پانی میں زندہ رہ سکیں، جیسے کہ بیری، کھجور، کیکر وغیرہ۔
3. طلباء اور نوجوانوں کو شامل کیا جائے تاکہ شعور گھر گھر پہنچے۔
4. مقامی حکومت اور NGOs کی مشترکہ مہمات بنائی جائیں فنڈز، رضاکار اور ٹیکنیکل تربیت فراہم کی جائے۔
5. زرعی شعبے کو درختوں سے جوڑا جائے تاکہ کسان بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں جیسے پھل دار درخت
نوشکی کا سبز سایہ آج سوکھ چکا ہے۔ مگر اگر ہم سب مل کر، دل سے درختوں کو زندگی کا حصہ سمجھ لیں، تو یہی بیابان دوبارہ گلزار بن سکتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی ہمارے دروازے پر ہے۔اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم خاموش تماشائی بنیں یا درختوں کی جڑیں تھام کر اپنے کل کو سنواریں۔