Dr Mahrang Baloch Fan

Dr Mahrang Baloch Fan Release Dr Mahrang Baloch

Young activists holding placards with 'Free Dr. Mahrang' slogans beside an empty chair during the WEXFO event in Lilleha...
03/06/2025

Young activists holding placards with 'Free Dr. Mahrang' slogans beside an empty chair during the WEXFO event in Lillehammer, Norway 🇳🇴

03/06/2025

NORWAY 🇳🇴: In a packed hall, voices from 40 countries united in a powerful chant:

“Free Dr. Mahrang Baloch.”

‎ ڈاکٹر صبیحہ بلوچرسوا ہوا بدخواہ فقط اپنو میں ہی نہیں‎دیس پردیس میں پہنچی ہے مظلوم صدائیں‎“This Seat Is Empty for a Rea...
02/06/2025

‎ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

رسوا ہوا بدخواہ فقط اپنو میں ہی نہیں
‎دیس پردیس میں پہنچی ہے مظلوم صدائیں

‎“This Seat Is Empty for a Reason.”

‎A note placed on an empty chair at the World Expression Forum (WEXFO) — the same chair where Dr. Mahrang Baloch spoke last year.

‎This year, that seat remains empty. Dr. Mahrang, along with other leaders of the Baloch Yakjehti Committee (BYC), is imprisoned.

‎The message reads:
‎“In honor of Dr. Mahrang Baloch and others who are silenced, imprisoned, or prevented from being here — simply for using their voice.”

‎This is not just a gesture of solidarity with the oppressed. It is a powerful statement — one that challenges the false narratives being built against us.

‎Repression cannot bury the truth. Day by day, it only exposes the reality of those who fear peaceful resistance.

‎Our struggle remains nonviolent. It will continue — until the politics of violence ends, until every Baloch has the right to life, liberty, and dignity
‎⁦‪‬⁩ ⁦‪‬⁩ ⁦‪‬⁩


“This seat is empty for a reason”A tribute to an extraordinary woman Dr  by WEXFO.
02/06/2025

“This seat is empty for a reason”

A tribute to an extraordinary woman Dr by WEXFO.


Nadia Baloch Dr Mahrang Baloch Sister I am deeply grateful to the World Expression Forum (WEXFO) for making sure that Dr...
02/06/2025

Nadia Baloch Dr Mahrang Baloch Sister

I am deeply grateful to the World Expression Forum (WEXFO) for making sure that Dr. Mahrang Baloch was remembered today, not just as a name, but as a symbol of courage and conscience during a global conference that brought together some of the world’s most respected activists, scholars, and academics.

Just last year, Mahrang herself stood here, fearless and clear, speaking truth to power. Today, she is in prison, punished for the very same bravery that once earned her admiration on this stage. Her only “crime” was refusing to stay silent in the face of injustice.

As we approach a second Eid without her, her absence is a wound that hasn’t healed. That empty chair today did more than mark her absence. It reminded us of the silence that regimes try to force on those who dare to dissent. But it also reminded us that even in silence, resistance endures.

Mahrang is being punished. And in many ways, so are we all of us who dream of a freer, fairer world. But we won’t stop speaking her name. And we won’t stop telling her story.

نوبل انعام یافتہ ماریا ریسا جو رپلر کی شریک بانی ہیں، ناروے میں ورلڈ ایکسپریشن فورم میں خطاب کر رہی ہیں تو ایک خالی کرسی...
02/06/2025

نوبل انعام یافتہ ماریا ریسا جو رپلر کی شریک بانی ہیں، ناروے میں ورلڈ ایکسپریشن فورم میں خطاب کر رہی ہیں تو ایک خالی کرسی ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کے لیے خاموش خراج تحسین کے طور پر موجود ہےجو ان لوگوں کی ایک طاقتور یاد دہانی ہےجنہیں طاقت کے سامنے سچ بولنے کی وجہ سے خاموش کر دیا گیا


Thank You Maria RessaAs Nobel Laureate Maria Ressa, co-founder of Rappler, addresses a packed hall at the World Expressi...
02/06/2025

Thank You Maria Ressa

As Nobel Laureate Maria Ressa, co-founder of Rappler, addresses a packed hall at the World Expression Forum in Norway, an empty chair stands in quiet tribute to Dr. Mahrang Baloch, a powerful reminder of those silenced for speaking truth to power.


بلوچ عورت اور ریاستی جبر تحریر: ڈاکٹر صبیحہ بلوچ دی بلوچستان پوسٹپانچ سال قبل 8 مارچ کو ہم نے ماما قدیر کے کیمپ میں ان ب...
01/06/2025

بلوچ عورت اور ریاستی جبر

تحریر: ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پانچ سال قبل 8 مارچ کو ہم نے ماما قدیر کے کیمپ میں ان بلوچ خواتین کی خاطر وومن ڈے منانے کا فیصلہ کیا جو اپنے پیاروں کے لیے سالوں سے ناصرف انتظار کا غم جھیل رہی ہے بلکہ وہ سڑکوں پر ایک جابر ریاست سے اپنے پیاروں کو واپس مانگ رہی ہے۔ اسی روز پریس کلب میں بھی ایک پروگرام تھا، اور ان لوگوں نے ہمیں کہاں کہ الگ پروگرام کرنے سے بہتر ہے آجائے ہمارے ساتھ ایک پروگرام میں، ہم نے انکار کیا کہ بلوچ عورت کا مسئلہ شاید آپ لوگ صحیح سے بیان نہیں کر پاؤں گے، آپ لوگوں کے لیے آزاد عورت مقصود ہے جبکہ ہمارے لیے آزاد عورت مصیبتوں کا شکار ہے۔ پہلے ہم ماما قدیر کے کیمپ میں چھوٹا سا پروگرام رکھینگے اور اس کے بعد ہم آپ لوگوں کے پروگرام میں شرکت کرینگے۔
میں نے ماما قدیر کے کیمپ میں میں ایک شعر لکھا جس کا ایک لائن مجھے یاد ہے باقی شعر کھو چکی ہوں شاید وہ سوشل میڈیا پر موجود ہو۔ شعر کا عنوان یہ تھا
“میں ایک بلوچ عورت،
میرے وجود کو خطرہ
میری قید سے نہیں میری آزادی ہے”
یہ جملہ ہمارے ماضی کے لیے تھا اور ہمارے آج کے لیے بھی ہے۔ ہر بلوچ عورت کو دیکھے، یہ کم معنی رکھتا ہے کہ اسےسماج کتنا قید رکھ رہا ہے، بلکہ وہ آزاد ہوکر کس قدر ریاست کا نشانہ بننے کے خطرے پر ہے۔ یاد کریں نجمہ بلوچ کو جو آواران جیسے علاقے میں ایک استانی تھی، جسے ڈیتھ اسکواڈ نے مجبور کیا کہ انکے لیے کام کریں، اور جب اسے مسلسل ہراساں کیا تو اس نے خود کشی کر لی اس بلوچ عورت کو خطرہ اس کے گھر یا سماج سے نہیں تھا ، اسے ریاست کے پالے غنڈوں نے زندگی ختم ہونے پر مجبور کیا، یا کچھ ماہ قبل خضدار میں اغوا ہونے والی لڑکی ، اسما بلوچ، جسے ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکار اس کے گھر سے اغوا کرکے لے گئے، جس پر اول تو گٹر میڈیا نے خوب کیچڑ اچھالا مگر اس کے بھائی نے جدوجہد جاری رکھا تو ڈی سی خود ملزم کو منت سماجت کرکے لڑکی کو واپس لے آئی، اگر اس لڑکی کی خاندان جدوجہد نا کرتی تو وہ لڑکی ہزاروں دیگر لڑکیوں کی طرح ڈیتھ اسکوڈ کے نظر ہو جاتی۔
ریاست کے لیے پر خطر تو ہر بلوچ ہے، کیونکہ بلوچ سر زمین پر مکمل غلبے کے لیے ہر بلوچ کا خاتمہ چاہیے انہیں مگر ریاست کو سب سے زیادہ الجھن اس لڑکی سے ہے جو پڑھی لکھی ہے یا شعور رکھتی ہے۔ ماہ رنگ نے اس وقت میڈیکل کے لیے کوالیفائی کیا جب بلوچستان بھر کے لیے صرف 250 میڈیکل سیٹ تھے، وہ اپنے کلاس میں کبھی بھی کسی سبجیکٹ میں فیل نہیں ہوئی، ایف سی پی ایس پارٹ ون کرکے اب سرجری میں پوسٹ گیجویٹ ٹرینی ہے، وہ ایک اعلی تعلیم یافتہ با اعتماد خاتون ہے اسے آج تک بلوچ سماج نے نہیں روکا مگر وہ گزشتہ دو ماہ سے ریاست کے اپنے قید خانوں میں قید ہے۔
بیبو بلوچ ان کم بلوچوں میں سے ہے جس نے او لیولز اور اے لیولز کیا ہے، اس نے چارٹڈ اکاؤنٹنٹس کے کچھ امتحانات بھی دیئے البتہ کچھ مسائل کی وجہ سے بیچ میں چھوڑنا پڑھا، پھر اکنامکس میں ماسٹرز کیا ، آیف بی آر میں جوب پر تھی جہاں سے صرف احتجاجوں میں حصہ لینے پر معطل کی گئی، وہ بھی دو ماہ سے جیل میں ہے۔
گلزادی اپنے عمر سے زیادہ بہادر اور ہوشیار لڑکی ہے، جس نے مچھ جیسے علاقے سے میٹرک کیا جہاں لوگوں کی زندگیاں کوئلے کی کانوں میں گزرتی ہے وہی گلزادی بچپن میں ہی یتیمی کے غم کے ساتھ اپنا بوجھ اٹھانا سیکھ لیا، والد اور والدہ دونوں کا سایہ چھن جائے، بھائی کوئلے کی کھان میں مزدور ہو اور بہن میٹرک بھی کرلے پھر پرائیویٹ ایف اے کر کے لا ایڈمیشن ٹیسٹ پہلے مقابلے میں پاس کرلے وہ قابل تحسین ہے، اور اسی دوران وہ دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ سڑکوں پر بھی موجود ہو، پھر وہی لڑکی جیل میں بھیج دیا جائے۔
میرا سفر تو میرے ارد گرد کے تمام لوگوں کے ہمیشہ باعث فخر رہا ہے، خود کو تشکیل دینے میں گو کہ مدد بہت ملی مگر یہ سفر میں نے اپنے بل بوتے پر کیا، ایک گاؤں سے پرائمری پڑھ کر نکلنے کے بعد ایف سی پی اس تک، شاید میری کہانی ان لوگوں کے لیے باعث فخر ہو جو سمجھتے ہے کہ مسائل آپکا راستہ روکتے ہیں، میرے پاس اسکول کا مسئلہ، قبائلی معاشرے کا مسئلہ، اور معاشی مسئلہ سب کچھ تھا مگر مجھے کسی نے نہیں روکا، اور میں آگے بڑھتی گئی پر آج لگتا ہے جیسے میں رکی ہوئی ہوں، اور وہ تمام مسائل جنہیں میں پار کرکے آئی شاید وہ چھوٹی تھی، سامنے ایک بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہے “ریاست”، دو ماہ سے روپوشی میں ہوں، نا اپنی پڑھائی جاری رکھ پارہی ہوں اور نا ہی اپنے مرضی سے کہیں جاسکتی ہوں، والد کا غم ایک طرف اور ساتھیوں کا غم ایک طرف، اور اس بیچ قوم پر ہوتا ہوا ظلم دیکھ کر جیسے آپ کو اندر سے کھا رہی ہو، اور یہ سب جو میرے وجود کو اندر سے توڑ رہے ہیں، یہ صرف ریاست کا دیا ہوا جبر ہے۔
ماہ جبین بلوچ، جو ایک بلوچ عورت ہے، بیسیمہ میں پیدا ہونا جہاں کالج و یونیورسٹی موجود نہیں، پھر پولیو کا شکار ہوجانا ، معذور بچی کو گھر سے دور شہر پڑھنے بھیجنا ماں کے لیے کتنا دردناک ہوگا؟ اور معاشی حالت ایسی نہیں کہ ماں بھی ساتھ آجائے، پھر وہی لڑکی جو سہم کر رہے دنیا سے دور دور، اپنے کام سے کام، کیونکہ اس کے لیے زندگی ہم جیسی نہیں تھی۔ جب میں نے صبح سویرے فون کھولا تو ایک سہیلی کا میسج آیا تھا ماہ جبین کو لے گئے؟ کونسی ماہجبین وہی جو معذور ہے؟ آگے سے جواب آیا ہاں، میں نے دو مرتبہ واپس پوچھا، وہی بیسیمہ والی؟ لڑکی نے جواب دیا ہاں وہی، میں حیران تھی کیوں؟ کیسے لوگ تھے؟ میں اب بھی ششدر ہوں، کب سے سوچ رہی ہوں، کیوں لے گئے وہ ماہ جبین کو؟ شاید ماہل کی طرح اسے بھی تشدد کا نشانہ بنا کر کوئی زبردستی جھوٹ موٹ کا پریس کانفرنس کروالیں اور خوشیاں منا لیں کہ جی دہشت گرد پکڑ لیا، اس حقیقت کو جھٹلاتے ہوئے کہ بزور تشدد لیا گیا بیان قابل قبول نہیں ہوتا، اس حقیقت کو جھٹلاتے ہوئے کہ جبری گمشدہ کرنے کے لیے کوئی بھی جواز نہیں ہوتا، کوئی دہشتگرد ہو بھی تو گرفتار کیا جاتا ہے جبری گمشدہ نہیں۔۔ کسی بھی سرگرمی میں شامل ہونے پر یا مشکوک ہونے پر اسے اس کے کلاس سے بھی گرفتار کیا جاسکتا تھا، اسے پہلے مطلع کرکے تحقیقات کےلیے کہیں بھی بلوایا جاسکتا تھا، مگر اسے اغوا کیا گیا۔۔۔ چوروں کی طرح۔۔۔ آدھی رات کو، ہاسٹل سے۔۔۔ اور اب اڑتالیس گھنٹے گزر چکے ہیں مگر اب تک گمشدہ ہے، یہی عمل خود غیر قانونی ہے، اور غیر قانونیت کا سہارا لے کر کوئی عمل قانونی نہیں ہوسکتا ہے۔
دنیا بھر کی خواتین کے لیے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے کہ انہیں معاشرہ صنفی امتیازی سلوک کا نشانہ بناتا ہے۔ ایک ہی معاشرے میں مردوں کے لیے اصول کچھ اور ہوتے ہیں اور خواتین کے لیے کچھ اور۔ ان کی زندگیوں کے فیصلے اکثر مردوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ اور بلوچستان کے چند علاقوں میں بھی یہی صورتحال پائی جاتی ہے، جہاں زندگی کے بعض اہم معاملات کا فیصلہ مرد ہی کرتے ہیں۔
تاہم، بلوچستان کی خواتین کو اپنے معاشرے کے علاوہ ریاست کی طرف سے نہایت ہی شدید اور خطرناک جبر کا سامنا کرنا پڑھتا ہے، جو بلواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طریقوں سے ان کی زندگیاں تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ بلوچستان کی وہ تمام خواتین جو جبری گمشدہ افراد کے لیے وکیل کے طور پر اپنی زندگیاں گزار رہی ہیں اگر وہ خاموش ہیں تو معاشرے میں زندہ رہنے کے طریقے تلاش کر رہی ہیں، اور اگر وہ سڑکوں پر نکل کر انصاف مانگتی ہیں تو:
کبھی جوڈیشل کمیشن کی جانب سے ہراسانی کا نشانہ بنتی ہیں
کبھی پولیس کے ہاتھوں تشدد کا
قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے دھمکیاں
اورایف آئی آر کاٹی جاتی ہے
یہ خواتین ہر طرح کے جبر کا شکار ہیں۔ حتیٰ کہ جب وہ ریلیوں میں شریک ہوتی ہیں، ان پر گولیاں برسائی جاتی ہیں، شیلنگ کی جاتی ہے، اور ان کے معصوم بچوں کی زندگیوں پر خوف کی گہری چھاپ چھوڑ دی جاتی ہے۔
جبری گمشدہ شبیر کی بہیں سیما بطور ماں اپنی ایک کہانی سناتی ہے کہ اس کا بیٹا میراس ایک احتجاج میں اس کے ساتھ تھا جب کراچی میں ان پر کریک ڈاؤن کیا گیا۔ اس واقعے کو چھ سال گزر چکے ہیں، مگر میراس آج تک دوبارہ کسی بھی احتجاج میں اپنی ماں کے ساتھ جانے کو تیار نہیں ہوتا، کیونکہ اس کے ذہن میں وہ وحشتناک لمحہ ایک مستقل خوف بن چکا ہے۔
ایک اور خاتون بتاتی ہیں کہ جب وہ کوئٹہ میں ریڈ زون کی جانب ایک ریلی میں جا رہی تھیں، تو ریلی پر شیلنگ ہوئی، اور ان کے بچے ان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئے۔ ان کی چھوٹی بچی سڑک پر کھڑے ہو کر چیخ رہی تھی: “میری ماں مر گئی ہے، اس کی لاش پولیس اٹھا کر لے جائے گی۔”
بلوچستان میں وہ خواتین بھی موجود ہیں جو ظلم و بربریت کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں، تو انہیں بھی شدید ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ خواتین کا استعمال محض ایک بیانیہ بنانے کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ تمام بلوچ دہشت گرد ہیں، اور ان کے ساتھ کوئی بھی سلوک جائز ہے۔
انہیں زبردستی پریس کانفرنسز میں بٹھایا جاتا ہے، ان سے بیانات رٹوائے جاتے ہیں۔ یہ خواتین کوئی بھی ہو سکتی ہیں۔ اگر ان سے بیان لینا ہو تو انہیں بلیک میل کیا جاتا ہے، یا تشدد سے مجبور کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی خاتون خوبصورت ہو، اور کسی ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکار کی نظر میں آ جائے، تو وہ اس کو گھر سے اغوا کر سکتے ہیں ان کے پاس بندوق کی طاقت ہے، انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔
بلوچستان کی خواتین کو ایجنسیاں اس حد تک مجبور کر سکتی ہیں کہ وہ خودکشی تک کر لیں۔ روز روز کے چھاپے، ذہنی دباؤ، جسمانی اور نفسیاتی تشدد انہیں اس نہج پر لے آتے ہیں ہے کہ وہ خودکشی کر لیتی ہے۔ یہ سب وہ کہانیاں ہے جو میں نے اپنے 10 سال کے جدوجہد کے سفر میں دیکھے ہیں، اور پڑھنے والوں کے یہ صرف کہانیاں ہونگے، میں انہیں دیکھا ہے سُنا ہے۔
ہم صرف صنفی امتیازی سلوک کے خلاف بات کر کے بلوچستان کی عورتوں کا درد بیان نہیں کر سکتے۔ یہ وہ عورتیں ہیں جن پر پوری ریاست اپنا جبر آزماتی ہے، اپنی پوری طاقت ان کے خلاف استعمال کرتی ہے۔ ان کے بارے میں ہم تب ہی بات کر سکتے ہیں ہم ہر بلوچ کی زندگی کا بغور جائزہ لے، کیس اسٹڈی کریں، اور بلوچ خواتین کو مسائل کو بیان کرنے لیے ایک الگ اسٹیج مختص کریں۔

‏ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کیس اور وکلا کا کردار‏ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) کی قیادت گزشتہ دو ماہ سے غیر آئ...
17/05/2025

‏ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کیس اور وکلا کا کردار

‏ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) کی قیادت گزشتہ دو ماہ سے غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر زیرِ حراست ہے۔ ریاست نے ان کی گرفتاری کے لیے تھری ایم پی او (3MPO) جیسے متنازع قانون کا سہارا لیا، مگر تاحال اس گرفتاری کا کوئی آئینی یا قانونی جواز پیش نہیں کیا جا سکا۔

‏بلوچستان ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ میں اس کیس کی سماعت جاری ہے، تاہم دو ماہ گزرنے کے باوجود ریاستی وکیل نہ کوئی ٹھوس شواہد پیش کر سکا ہے اور نہ ہی کوئی قابلِ قبول قانونی دلیل۔ اس کے باوجود عدالت کی جانب سے تاحال کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہ آنا باعثِ تشویش ہے۔

‏ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بی وائی سی کی قیادت بلوچستان کی حقیقی آواز اور عوامی سطح پر قابلِ قبول نمائندے ہیں۔ ان کے کیس میں بلوچستان کے متعدد نامور اور قابل وکلا نے ہماری مدد کی ہے اور اب بھی ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ تاہم، اس اہم کیس کے دوران بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کا بلوچستان کے نام نہاد وزیرِ اعلیٰ کے ساتھ اس کانفرنس میں شریک ہونا، جہاں وہ بلوچستان کے عوامی سیاسی رہنماؤں اور ان کی قانونی ٹیم کی تضحیک کر رہا تھا، بلوچستان کے عوامی جذبات کو مجروح کرنے اور وکلا برادری کی توہین کے مترادف ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چند مراعات یا آسائشوں کے لیے ظالم اور جابر قوتوں کا ساتھ دینا قانون جیسے مقدس شعبے کی توہین ہے۔

‏وکلا برادری کسی بھی معاشرے میں ناانصافی کے خلاف صفِ اول میں کھڑی ہوتی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ بلوچستان کے وہ وکلا یا بار کونسلز جو ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری جیسے حساس معاملے میں اب تک خاموش رہے ہیں، وہ اب اپنی خاموشی توڑ کر اس جبر کے خلاف کھڑے ہوں گے اور ظالم و جابر حکومت کو للکاریں گے۔

‏ہم بلوچستان بار کونسل، ہائی کورٹ کے وکلا اور بلوچستان بھر کی بار کونسلز سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس انسانی حقوق کے سنگین مسئلے پر آواز بلند کریں اور عملاً کردار ادا کر کے اپنے پیشے اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں۔

‏ہمشیرہ
‏ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ


09/05/2025

Baloch in the US campaigned in Washington, DC using a mobile advertising truck to highlight the illegal arrest and detention violence on Dr Mehrang Baloch and Baloch Yakjehti Committee (BYC)


09/05/2025

Baloch in the US campaigned in Washington, DC using a mobile advertising truck to highlight the illegal arrest and detention violence on Dr Mehrang Baloch and Baloch Yakjehti Committee (BYC)


Address

Nushki

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Mahrang Baloch Fan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share