63 News

63 News ہر خبر صرف سچ

17/03/2024

Deputy Commissioner Pakpattan
پاکپتن میں نگہبان رمضان پیکج کے تحت راشن کی ترسیل جاری ہے۔۔۔ضلعی انتظامیہ کے اہلکار راشن بیگز لیکر بے گھر افراد کے پاس خیمہ بستی میں پہنچ گئے ۔۔۔ رپورٹ کر رہے ہیں محمد عمران اپنی اس رپورٹ میں

14/03/2024


پاکپتن رمضان المبارک میں شہریوں کو معیاری اشیاء خوردونوش کی فراہمی کے لیے ماڈل بازار قائم کر دیئے گئےجہاں بیسن ۔کھجور۔ سیب ۔پیاز سمیت 13 قسم کی اشیاء صارفین کو عام مارکیٹ سے 25 فیصد کم نرخوں پر فروخت کی جارہی ہیں۔۔۔مزید تفصیلات محمد عمران کی رپورٹ میں

13/03/2024

پاکپتن۔ڈکیتی کی واردات کے دوران خاتون کے قتل کا ڈراپ سین ہوگیا، شوہر نے بیوی کو سر میں گولی مار کرقتل کرکے ڈکیتی کا ڈرامہ رچایا، پولیس نے ملزم کو گرفتار کرلیا۔۔
مزید تفصیلات پاکپتن سے 63News کے نمائندے محمد عمران کی رپورٹ میں

لاہور پنجاب فوڈ اتھارٹی کا ڈپٹی ڈائریکٹر منشیات فروش نکلاپنجاب فوڈ اتھارٹی میں گریڈ 18کے افسر عبدالغفور کوگرفتار کرکے اس...
07/03/2024

لاہور پنجاب فوڈ اتھارٹی کا ڈپٹی ڈائریکٹر منشیات فروش نکلا
پنجاب فوڈ اتھارٹی میں گریڈ 18کے افسر عبدالغفور کوگرفتار کرکے اس کے قبضے سے 3 کلو ہیروئن برآمد کر لی ہے

پنجاب کے ضلع اٹک میں سونے کے ذخائر دریافت ہوگئے ۔صوبائی وزیر کان کنی و معدنیات ابراہیم حسن مراد نے دعوی کیا ہے کہ اٹک می...
11/02/2024

پنجاب کے ضلع اٹک میں سونے کے ذخائر دریافت ہوگئے ۔

صوبائی وزیر کان کنی و معدنیات ابراہیم حسن مراد نے دعوی کیا ہے کہ اٹک میں سونے کے ذخائر دریافت ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سونے کے ذخائر کی مجموعی مالیت 28 لاکھ تولہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 600 ارب روپے کا ریونیو جنریٹ ہوگا جب کہ اس حوالے سے جیو لوجیکل سروے آف پاکستان کی رپورٹ مکمل ہوگئی ہے۔

ابراہیم حسن مراد نے کہا کہ پلیسر گولڈ کے 9 بلاکس کی نشاندہی ہو چکی ہے جنکی جلد نیلامی کردی جائے گی ۔

ابراہیم حسن مراد نے واضح کیا کہ جیولوجیکل سروے پاکستان نے 127 سیمپلز کا معائنہ کیا۔ سیمپلز میں گولڈ کے ساتھ زنک، سلور، نکل، میگنیز، کاپر وغیرہ کی نشاندہی بھی ہوئی ہے ۔

ابراہیم حسن مراد نے کہا کہ پلیسر گولڈ کے ذخائر کی ریسرچ 75 اسکئیر کلومیٹر تک کی گئی ہے تاہم معدنیات کے شعبے سے ملکی معیشت کو استحکام ملیگا

 #الیکشن2024اس بات پر تو تقریباً سب ہی اتفاق کریں گے کہ 2024 کے  #الیکشن(صبح 8 سے شام 5 بجے) اور پھر تقریباً  #فارم45 کے...
11/02/2024

#الیکشن2024

اس بات پر تو تقریباً سب ہی اتفاق کریں گے کہ 2024 کے #الیکشن(صبح 8 سے شام 5 بجے) اور پھر تقریباً #فارم45 کے حصول تک صاف شفاف الیکشن تھے پورا دن کوئی بھی بڑی بے ضابطگی رات کو انٹرنیٹ سروسز بحال ہونے کے بعد بھی سامنے نہیں آئی ۔ حتیٰ کہ اس کے بعد بھی پچھلے الیکشن کے برعکس اس بار غلط ووٹ ڈالنے ، پولنگ سٹیشنوں کے اندر لوگوں کو ہراساں کرنے ، یا بیلٹس پیپرز کے تھیلے چھیننے جیسا کوئی بڑا واقعہ کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے رپورٹ نہیں ہوا، اندازوں کے بالکل برعکس تحریک انصاف کے #پولنگ کیمپس کو بھی نہیں چھیڑا گیا اور جہاں تک میں نے چیک کیا وہ مکمل #آزادی کے ساتھ اور جوش و خروش کے ساتھ اپنی #پارٹی اور قائد کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔ اس کا سب سےبڑا ثبوت اور دلیل یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے اتنے شدید مخالف ہونے کے باوجود قومی اسمبلی کی زیادہ نشستوں پر انہوں نے کامیابی حاصل کی کچھ نشستوں پر ان کی واضح کامیابی کو اگلے دن ناکامی سے بدل دیا گیا ، اگر اسٹیبلشمنٹ الیکشن والے دن دھاندلی کرتی تو خیبر پختونخوا اور پنجاب سے اتنی بڑی تعداد میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کا جیتنا ناممکن تھا ۔
نادیدہ قوتوں نے اس بار اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور پہلے چیک کیا کہ عوام پارٹی سے کتنے متنفر ہوئے اگر چند سیٹیں #تحریک انصاف کو ملتی تو سب کو فارم 45 کے مطابق رزلٹ تھما دیے جاتے اور رات کو کم از کم 12 بجے تک 60 فیصد رزلٹ کا اعلان بھی ہو جاتا تو تحریک انصاف کے پاس لگانے کے لیے کوئی الزام نہ ہوتا (کیونکہ دن واقعی خوشگوار گزرا تھا) لیکن گڑ بڑ اس وقت شروع ہوئی جب نادیدہ قوتوں کے اندازوں کے برعکس آزاد امیدواروں نے حیرت انگیز طور پر دوسرے امیدواروں پر سبقت حاصل کر لی، لیکن ان کے پاس اس کے مطابق (پلان بی) جس پر عملدرآمد کیا گیا وہ بھی تیار تھا، لیکن سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ #پلان پر عمل کرنے میں کافی غلطیاں سرزد ہو گئیں اور رزلٹس کو زیادہ ٹائم تک روکنا پڑا ،
#الیکشن #کمیشن سے اس معاملے میں یہ غلطی ہوئی کہ الیکشن سے پہلے انہوں نے خطرناک قسم کے اور اپنے وزن سے بڑے دعوے کر دیے کہ ہمارا #انٹرنیٹ اور سسٹم اس بار جام نہیں ہو گا، ان کا ایک دعویٰ جس کو سن کر میں پہلے دن ہی بڑا خوش ہوا تھا
"اگر الیکشن والے دن انٹرنیٹ یا موبائل فون سروس معطل بھی ہوئی تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اس بار ہمارے پاس ایک پرائیویٹ انٹرنیٹ ہے جو صرف الیکشن کمیشن استعمال کرے گا اور ڈائریکٹ فائبر کیبل کے ساتھ منسلک ہو گا، اگر وہ وہاں سے بھی جواب دے دیتا ہے تو متبادل کے طور پر ہمارے پاس سیٹلائیٹ والا آپشن موجود ہے اور ہم نے اس کو ٹیسٹ بھی کر لیا ہے بالفرض اگر ان میں کوئی ہلکی پرابلم یا ڈیوائس پرابلم بھی آتی ہے تو پریذائیڈنگ آفیسرز فارم 45 اور 46 کی جو تصاویر بھیجیں گے وہ سسٹم میں محفوظ اور خود کارلاک ہو جائیں گی جیسے ہی سگنل آئیں گے وہ آٹو سینڈ ہو جائیں گی اور یہاں پر بھی متبادل کے طور پر پریذائیڈنگ آفیسرز اپنے موبائل فون اور فارم پر بھی رزلٹس جمع کروانے کے پابند ہوں گے"
اب اتنی بڑی باتیں سن کر میرے جیسا بندہ تو خوش ہی ہوتا ہے لیکن کیا الیکشن کمیشن کو معلوم نہیں تھا کہ ان سے بھی بڑی قوتیں ان کے سر پر موجود ہیں جو ان کو چوں چراں بھی نہیں کرنے دیں گی ؟

چاہے دھاندلی ہوئی یا زور زبردستی، ظلم ہوا یا زیادتی وہ رات کو 2 بجے کے بعد شروع ہوا اور اس کا نقصان الیکشن میں دھاندلی سے بھی کئی گنا بڑھ کر ہے کیونکہ عوام کو #ووٹ کے حق سے محروم کرنا اگر غلط ہے تو اس کے ووٹ کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنا #ظلم عظیم ہے ، عوام غلطی برداشت کر سکتی ہے لیکن ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

گزشتہ مالی سال کے دوران مہنگے ذرائع سے سب سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔نیپرا کی جانب سے جاری کی گئی پاور پلا...
11/02/2024

گزشتہ مالی سال کے دوران مہنگے ذرائع سے سب سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔

نیپرا کی جانب سے جاری کی گئی پاور پلانٹس کی کارکردگی جائزہ رپورٹ 23-2022 کے مطابق گزشتہ مالی سال متبادل ذرائع سے 4 فیصد اور جوہری ایندھن سے 20 فیصد بجلی پیدا کی گئی۔

مختلف وجوہات کی بنا پر پن بجلی پاور پلانٹس سے پیداوار انتہائی کم رہی اور پانی سے صرف 18 فیصد بجلی پیدا کی گئی، جبکہ تھرمل ذرائع سے 58 فیصد بجلی پیدا کی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانی کے اخراج کی ناقص حکمت عملی سے پن بجلی کی پیداوار کم رہی اور ونڈ پاور پلانٹس کی دستیابی کا دورانیہ 82 سے 100 فیصد تک رہا، جبکہ سولر پاور پلانٹس کی دستیابی کا دورانیہ 49.3 سے 98.7 فیصد رہا

کیا پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اپنا وزیراعظم لا سکتے ہیں ؟پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی قومی...
10/02/2024

کیا پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اپنا وزیراعظم لا سکتے ہیں ؟

پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی قومی اسمبلی کی نشستوں پر برتری، ایسے میں پی ٹی آئی کے پاس کیا آپشنز موجود ہیں؟ آئیے اس سوال کا جواب معروف تجزیہ کاروں سے جانتے ہیں۔

پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر 24/7 نظر رکھنے والے موسمی سیاسی پنڈتوں کی تمام تر پیش گوئیوں کے برخلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اس وقت انتخابی نتائج (جو پولنگ ختم ہوئے 36 گھنٹوں سے زائد گزر جانے کے باوجود مکمل سامنے نہیں آئے) کے مطابق قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستوں کے ساتھ سرِفہرست ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے وقت سے پہلے کی جانے والی اپنی وکٹری اسپیچ میں عندیہ دیا کہ وہ مخلوط حکومت بنانے کے لیے تیار ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے مورچے میں موجود آزاد امیدواروں کا جھکاؤ کس طرف ہے، یہ ابھی واضح نہیں

انتخابات میں کامیابی کے باوجود پی ٹی آئی اب بھی نقصان میں ہے اور جس کی وجہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ان کے لیے اہم ’بلے‘ کا انتخابی نشان واپس لے لینا اور ان کے خلاف مقدمات کے باعث سینیئر قیادت کا جیل میں ہونا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک بھر سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سب سے زیادہ قومی نشستیں جیتنے کے باوجود اپنی حکومت قائم نہیں کرپائیں گے کیونکہ پارٹی کو اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کا کوٹا نہیں مل سکتا۔ تو اب ایسے میں پی ٹی آئی کے پاس کیا آپشنز ہیں؟ ہم نے اس سے متعلق چند سوالات اپنے پینل کے سامنے رکھے ہیں جس پر انہوں نے اپنا مؤقف پیش کیا۔

کیا قومی اسمبلی میں اس سے قبل اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدوار منتخب ہوئے ہیں؟
معروف صحافی وسعت اللہ خان کے مطابق، ’جنرل ضیاالحق کے دور میں آزاد امیدواروں کی تعداد پارلیمنٹ میں اس سے بھی کئی زیادہ تھی، اتنی زیادہ کہ پوری پارلیمنٹ ہی آزاد امیدواروں پر مشتمل تھی‘۔

انہوں نے وضاحت کی کہ 1985ء میں غیرجماعتی بنیاد پر انتخابات کا انعقاد ہوا تھا جن میں کسی بھی جماعت کو حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی تو ایسے میں سب نے آزاد حیثیت سے انتخاب لڑا۔ انہوں نے کہا، ’ظاہر ہے سب کو کسی نہ کسی جماعت کی حمایت حاصل تھی لیکن کاغذ پر وہ آزاد امیدوار تھے‘۔

ان میں سے آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد قومی اسمبلی گئی اور اپنے گروپ یا جماعت کو پاکستان مسلم لیگ کا نام دیا۔ وسعت اللہ خان نے یاد کرکے بتایا، ’آج ہم ان جماعتوں کو مسلم لیگ (ق)، مسلم لیگ (ن) یا پہلے چٹھہ لیگ کے نام سے جانتے تھے۔ یہ تمام جماعتیں 1985ء کی غیرجماعتی اسمبلی کی پیداوار ہیں

اگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار قومی اسمبلی آنے سے انکار کردیں تو ایسے میں کیا ہوگا؟
وسعت اللہ خان نے کہا کہ یہ پارٹی کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوگا۔ ’یہ کام وہ پہلے بھی کرچکے ہیں اور ہم نے دیکھا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایک خراب تجربے کے بعد وہ ایسا اقدام ایک بار پھر اٹھائیں گے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ممکن ہے کہ وہ ایک گروپ بنا کر اسے انصاف گروپ یا کوئی اور نام دے دیں۔

اگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کا قومی اسمبلی میں سب سے بڑا بلاک ہو تو ایسے میں کیا پارٹی انہیں اپنے ممبران کہہ سکتی ہے؟
سینیئر صحافی ضرار کھوڑو ایسے امکانات کے حوالے سے زیادہ پُرامید نہیں۔ انہوں نے حالیہ چند ماہ میں پی ٹی آئی اور اس کی سینیئر قیادت کو درپیش مشکلات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’اس سوال کے پیچھے بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ سب قواعد اور قانون کی کتاب کے مطابق چلے لیکن میرے خیال میں یہ واضح ہے کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔

’ہمیں اسے عمران خان کو یکے بعد دیگرے دی جانے والی سزاؤں کے تناظر میں دیکھنا ہوگا جس میں سب سے مضحکہ خیز غیرشرعی نکاح کا مقدمہ تھا۔ ہم نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور حامیوں کو دی گئی ناقابلِ یقین حد تک متنازع اور غیر متناسب سزاؤں کو بھی دیکھنا ہوگا جیسے کہ پارٹی کا انتخابی نشان تک چھین لیا گیا تھا۔ جب ہم ان مخصوص سیاق و سباق پر نظر ڈالتے ہیں تو اس بات سے قطع نظر کہ وہ کن اصولوں پر عمل کرتے ہیں یا نہیں کرتے، مجھے ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ پی ٹی آئی کو اچانک کوئی جادوئی ریلیف مل جائے گا‘

وکیل عبدالمعیز جعفری اس حوالے سے قدرے پُرجوش تھے جس کا جواز انہوں نے یہ پیش کیا کہ اگرچہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے ان کا انتخابی نشان چھین لیا ہے لیکن جماعت کو ڈی لسٹ نہیں کیا۔ انہوں نے یہ بات پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار سلمان اکرم راجا کی درخواست پر اپنے جائزے کی بنیاد پر کہی۔ سلمان اکرم راجا نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا کہ وہ آزاد امیدوار کے طور پر نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر کے طور پر الیکشن لڑیں گے۔ عبدالمعیز جعفری نے کہا کہ قانونی طور پر پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت کے طور پر اب بھی موجود ہے۔

سپریم کورٹ میں دائر اپنی درخواست میں سلمان اکرم راجا نے جواز پیش کیا کہ اگرچہ پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کردیا گیا ہے لیکن ایک جماعت کے طور پر ان کی حیثیت اور فعالیت متاثر نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا تھا کہ پارٹی ختم نہیں ہوئی ہے۔

کیا آزاد امیدواروں کو شامل کرکے مسلم لیگ (ن) کی حکومت بننے کا امکان موجود ہے؟
ضرار کھوڑو کے مطابق، ’بہت سے لوگ ان کے ساتھ اتحاد کرنے پر آمادہ ہوں گے۔ اب اس بارے میں، میں ایک واضح بات تو نہیں کرسکتا کہ تمام آزاد امیدوار ایسا کریں گے اور میں یہاں فرض کرتا ہوں کہ ہم پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے بارے میں ہی بات کر رہے ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ تاہم مختلف علاقوں میں صورتحال مختلف ہوگی۔ ’خیبرپختونخوا میں میرے خیال میں وہ آزاد امیدوار جو پی ٹی آئی کو چھوڑیں گے، عوام کی طرف سے انہیں بہت سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم نے دیکھا کہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے امیدواروں نے کلین سویپ کیا ہے۔

جنوبی پنجاب میں تاہم صورتحال مختلف ہوسکتی ہے جہاں مسلم لیگ (ن) چند آزاد امیدواروں کو اپنے ساتھ ملا سکتی ہے۔ ضرار کھوڑو نے کہا ’کچھ اس حساب کی بنیاد پر جماعت میں شامل ہونے کا انتخاب کرسکتے ہیں جن پر انہیں کسی بھی قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شاید ردِعمل عارضی ہو اور اگر عارضی نہ بھی ہو تو کم از کم وہ ان کے لیے قابلِ برداشت ہوگا

نامور صحافی شاہ زیب جیلانی کے مطابق جب امیدواروں کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری ہوجائے تو ان کے پاس فیصلہ کرنے کے لیے صرف 3 دن کا وقت ہوتا ہے کہ کیا وہ آزاد حیثیت سے کسی سیاسی جماعت کی حمایت کرنا چاہتے ہیں یا ایک گروپ کی صورت میں سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا چاہتے ہیں۔

شاہ زیب جیلانی کے نزدیک اگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار قومی اسمبلی میں ایک بڑی طاقت بن کر سامنے آنا چاہتے ہیں تو انہیں پہلے سے رجسٹرڈ کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوگی۔ ’اس حوالے سے جس جماعت کا نام سامنے آرہا ہے وہ مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم) ہے جوکہ پہلے سے ہی ایک رجسٹرڈ جماعت ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اور ایم ڈبلیو ایم پہلے بھی بلدیاتی انتخابات میں اتحاد کرچکی ہیں۔ اگر آزاد امیدوار جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں تو انہیں مخصوص نشستیں بھی ملیں گی جس سے ان کی نشستوں میں اضافہ ہوگا جبکہ اس کے بعد وہ قائدِ ایوان کے انتخاب میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔

شاہ زیب جیلانی نے مزید کہا کہ انہیں پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑنے کے لیے متعدد پیش کش کی جاسکتی ہیں، ’لیکن اگر وہ ایک گروپ میں، ایک پارٹی میں رہتے ہیں تو وہ ایک بڑا بلاک ہوں گے اور پارلیمنٹ میں ان کا کافی اثر و رسوخ ہوگا‘۔

اس حوالے سے بھی شاہ زیب جیلانی نے کہا کہ پی ٹی آئی کو کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوگی۔ ’اگر وہ ایک بلاک کی شکل میں پہلے سے موجود جماعتوں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو ظاہر ہے اکثریتی نشستیں ملنے پر وہ قائد ایوان کا بھی انتخاب کرسکتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر پائے تو ہاں ان کے لیے دوسرا بہترین انتخاب ایوان میں اپنا قائد حزب اختلاف لانا ہوگا

نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت میں ’محبت کے جھانسے‘ میں آ کر مبینہ طور پر پاکستانی خفیہ ایجنسی کو حساس معلومات دینے پر ا...
10/02/2024

نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت میں ’محبت کے جھانسے‘ میں آ کر مبینہ طور پر پاکستانی خفیہ ایجنسی کو حساس معلومات دینے پر ایک اور عہدیدار کو گرفتار کر لیا گیا۔ انڈیا ٹائمز کے مطابق اس عہدیدار کا نام ستیندر سیوال ہے جو روس کے دارالحکومت ماسکو میں واقع بھارتی سفارتخانے میں تعینات تھے۔
ستیندر سیوال چھٹی پر بھارت میں اپنے گائوں ہیپور گئے ہوئے تھے جہاں انہیں ریاست اترپردیش کے اینٹی ٹیرر سکواڈ نے گرفتار کر لیا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے لیے جاسوسی کر رہے تھے۔ کہا گیا ہے کہ مبینہ طور پر انہیں بھی انٹرنیٹ کے ذریعے محبت کا جھانسہ دے کر آئی ایس آئی کے ایجنٹس نے اپنے چنگل میں پھنسایا اور اہم معلومات حاصل کیں۔
ستیندر سیوال بھارتی سفارتخانے میں 2021ء سے سکیورٹی اسسٹنٹ کے عہدے پر کام کر رہے تھے۔ اخبار کے مطابق دوران تفتیش ستیندر سیوال نے بھارت مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ انہیں ایک نامعلوم شخص کی اطلاع پر گرفتار کیا گیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ستیندر سیوال سے ’پوجا‘ نامی لڑکی نے فیس بک پر دوستی کی۔ اس نے سیوال کو بتایا کہ وہ ایک ریسرچر ہے اور تحقیق کے لیے ان سے کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتی ہے۔ جھانسے میں آ کر ستیندر سیوال نے اسے حساس معلومات مہیا کر دیں۔ واضح رہے کہ بھارت میں اس سے پہلے بھی متعدد اعلیٰ عہدیداران کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان پر بھی یہی الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے انٹرنیٹ پر لڑکیوں سے دوستی کرکے انہیں حساس معلومات دیں، جبکہ لڑکیوں کے یہ سوشل میڈیا اکائونٹ دراصل جعلی تھے اور پاکستانی خفیہ ایجنسی کی طرف سے بنائے گئے تھے

وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی قیادت میں موجود نگران حکومت نے اب تک بینکوں سے تقریباً 4 کھرب روپے کے قرض لینے کا ریکارڈ بنا...
10/02/2024

وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی قیادت میں موجود نگران حکومت نے اب تک بینکوں سے تقریباً 4 کھرب روپے کے قرض لینے کا ریکارڈ بنادیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پہلے ہی قرض کے بھاری بوجھ تلے دبی معیشت 24-2023 کے آخر 30 جون تک قرض میں غیر معمولی اضافے کا شکار ہو سکتی ہے جب کہ حاصل کردہ رقم پہلے ہی پورے مالی سال 2023 میں لیے گئے مجموعی قرض سے تجاوز کر چکی ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ حکومت نے یکم جولائی سے 19 جنوری 2023-24 کے درمیان 3.99 ٹریلین روپے کا قرض لیا جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 1.398 ٹریلین روپے کے مقابلے میں 185 فیصد زیادہ ہے۔

یہاں یہ بات بہت سے لوگوں کے لیے باعث تعجب ہو سکتی ہے کہ حکومت گزشتہ 6 ماہ سے مقررہ ہدف سے زیادہ ریونیو جمع کر رہی ہے، نقد رقم حاصل کرنے لیے قابل فروخت کافی اثاثے ہونے کے باجود حکومت بڑھتے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے تیزی سے قرض لے رہی ہے۔

ذرائع نے وزارت خزانہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رواں مالی سال کے 7 ماہ میں اوسطاً 28 فیصد سے زیادہ مہنگائی کے باعث حکومت زیادہ ریونیو حاصل کرنے میں کامیاب رہی، تاہم مہنگائی نے اخراجات میں بھی اضافہ کیا ہے جس کی وجہ سے وزارت بینکوں سے مزید قرض لینے پر مجبور ہے۔

محققین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معاشی شرح نمو کی خراب صورتحال نظام حکومت چلانے کے لیے مناسب آمدنی نہیں دے رہی جب کہ حکومت کو ملکی اور غیر ملکی بڑے قرضوں کے ساتھ ساتھ پاور سیکٹر کے گردشی قرض کی ادائیگی کے بڑھتے دباؤ کا بھی سامنا ہے جو کہ 5.7 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے۔

یہ 4 ٹریلین روپے کا قرض حکومت کے لیے بہت مہنگا ہے، کیونکہ ریٹرن تقریباً 21 فیصد ہے اور پورے مالی سال 2024 کے دوران اب تک تقریباً یکساں رہا ہے۔

صرف ماہرین ہی نہیں بلکہ حکومت بھی مانتی ہے کہ مہنگا قرض معیشت کے لیے بہت بڑی مشکل جبکہ پہلے ہی وہ بجٹ کے 50 فیصد سے زیادہ رقم قرض پر سود کی ادائیگی کے لیے ادا کرنی پڑھ رہی ہے۔

ایک سینئر بینکر نے کہا کہ نگران حکومت اور گزشتہ 16 ماہ کی حکومت نہ صرف اس کو روکنے میں ناکام رہیں بلکہ دونوں حکومتیں قرض لینے پر انحصار کرتی رہیں۔

ان مہنگے قرضوں سے سب سے زیادہ فائدہ بینک اٹھا رہے ہیں، زیادہ تر بینکوں کا کیلنڈر ایئر 2023 میں منافع دوگنا ہوگیا

05/02/2024

قبولہ سبزی منڈی کے قریب پولیس مقابلہ، 2 ڈاکو ہلاک 2 فرار.

ڈی پی او پاکپتن طارق ولایت جائے وقوعہ پر پہنچ گئے.

4 ڈاکو وارڈ نمبر 9 کے ایک گھر میں ڈکیتی کر کے فرار ہو رہے تھے

ڈکیتی کی اطلاع پر مقامی پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی اور فرار ہوتے ملزمان کا تعاقب کیا.

سبزی منڈی قبولہ کے پاس مسلح ملزمان نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کر دی.

حق حفاظت خود اختیاری کے تحت پولیس نے بھی جوابی فائرنگ کی.

فائرنگ کا سلسلہ رکا تو 2 ڈاکو اپنی ساتھیوں کی فائرنگ سے شدید زخمی حالت میں پائے گئے.

زخمی ڈاکوؤں کو طبی امداد کے لیے RHC قبولہ منتقل کیا گیا لیکن دونوں ڈاکو رستے میں ہی ہلاک ہو گئے.

2 ڈاکو اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے.

ہلاک ہونے والے ڈاکوؤں کی شناخت کا عمل تاحال جاری.

علاقہ کی ناکہ بندی کر کے فرار ہونے والے ڈاکوؤں کی تلاش جاری.

ترجمان پولیس پاکپتن...

Address

Sikandar Chowk
Pakpattan
57400

Telephone

03337120932

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when 63 News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to 63 News:

Share