kitab khana

kitab khana Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from kitab khana, Book & Magazine Distributor, Peshawar.

21/04/2025

سلطان محمد خان

21/07/2024

شاہراہ قراقرم -محض ایک سڑک نہیں !
اس عظیم الشان سڑک کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور تکمیل 1978 میں ہوئی۔ شاہراہ قراقرم کی کُل لمبائی 1,300 کلومیٹر ہے جسکا 887 کلو میٹر حصہ پاکستان میں ہے اور 413 کلومیٹر چین میں ہے۔ یہ شاہراہ پاکستان میں حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور ہری پور ہزارہ, ایبٹ آباد, مانسہرہ, بشام, داسو, چلاس, جگلوٹ, گلگت, ہنزہ نگر, سست اور خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی چائنہ میں کاشغر کے مقام تک جاتی ہے۔
اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔ ایک یورپ کی مشہور کمپنی نے تو فضائی سروے کے بعد اس کی تعمیر کو ناممکن قرار دے دیا تھا۔ موسموں کی شدت, شدید برف باری اور لینڈ سلائڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بنایا جانا بہرحال ایک عجوبہ ہے جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا۔
ایک سروے کے مطابق اس کی تعمیر میں 810 پاکستانی اور 82 چینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رپورٹ کے مطابق شاہراہ قراقرم کے سخت اور پتھریلے سینے کو چیرنے کے لیے 8 ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال کیا گیا اور اسکی تکمیل تک 30 ملین کیوسک میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔
یہ شاہراہ کیا ہے؟ بس عجوبہ ہی عجوبہ!
کہیں دلکش تو کہیں پُراسرار, کہیں پُرسکون تو کہیں بل کھاتی شور مچاتی, کہیں سوال کرتی تو کہیں جواب دیتی۔۔۔۔۔
یہ سڑک اپنے اندر سینکڑوں داستانیں سموئے ہوئے ہے, محبت, نفرت, خوف, پسماندگی اور ترقی کی داستانیں!!
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ
"انقلاب فکر و شعور کے راستے آیا کرتے ہیں لیکن گلگت بلتستان کا انقلاب تو سڑک کے راستے آیا"
شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے آپ کا تجسس بڑھتا ہی جاتا ہے کبھی پہاڑوں کے پرے کیا ہے یہ دیکھنے کا تجسس تو کبھی یہ جاننے کا تجسس کہ جب یہ سڑک نہیں تھی تو کیا تھا؟ کیسے تھا؟ اسی سڑک کنارے صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی کہانیاں سننے کا تجسس تو کبھی سڑک کے ساتھ ساتھ پتھروں پر سر پٹختے دریائے سندھ کی تاریخ جاننے کا تجسس !!
شاہراہ قراقرم کا نقطہ آغاز ضلع ہزارہ میں ہے جہاں کے ہرے بھرے نظارے اور بارونق وادیاں "تھاکوٹ" تک آپ کا ساتھ دیتی ہیں۔
تھاکوٹ سے دریائے سندھ بل کھاتا ہوا شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ جگلوٹ تک چلتا ہے پھر سکردو کی طرف مُڑ جاتا ہے۔
تھاکوٹ کے بعد کوہستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے جہاں جگہ جگہ دور بلندیوں سے اترتی پانی کی ندیاں سفر کو یادگار اور دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔کوہستان کے بعد چلاس کا علاقہ شروع ہوتا ہے جوکہ سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ چلاس ضلع دیا میر کا ایک اہم علاقہ ہے اسکو گلگت بلتستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ ناران سے بذریعہ بابو سر ٹاپ بھی چلاس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ چلاس کے بعد شاہراہ قراقرم نانگا پربت کے گرد گھومنے لگ جاتی ہے اور پھر رائے کوٹ کا پُل آجاتا ہے یہ وہی مقام ہے جہاں سے فیری میڈوز اور نانگا پربت بیس کیمپ جانے کے لیے جیپیں کرائے پر ملتی ہیں۔
رائے کوٹ کے بعد نانگا پربت, دریائے سندھ اور شاہراہ قراقرم کا ایک ایسا حسین امتزاج بنتا ہے کہ جو سیاحوں کو کچھ وقت کے لیے خاموش ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔
اس کے بعد گلگت ڈویژن کا آغاز ہوجاتا ہے جس کے بعد پہلا اہم مقام جگلوٹ آتا ہے جگلوٹ سے استور, دیوسائی اور سکردو بلتستان کا راستہ جاتا ہے۔ جگلوٹ کے نمایاں ہونے میں ایک اور بات بھی ہے کہ یہاں پر دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ, کوہ ہندوکش اور قراقرم اکھٹے ہوتے ہیں اور دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں تین بڑے سلسلے اکھٹے ہوتے ہوں۔
جگلوٹ کے بعد شمالی علاقہ جات کے صدر مقام گلگت شہر کا آغاز ہوتا ہے جو تجارتی, سیاسی اور معاشرتی خصوصیات کے باعث نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ نلتر, اشکومن, غذر اور شیندور وغیرہ بذریعہ جیپ یہیں سے جایا جاتا ہے۔
گلگت سے آگے نگر کا علاقہ شروع ہوتا ہے جس کی پہچان راکا پوشی چوٹی ہے۔ آپکو اس خوبصورت اور دیوہیکل چوٹی کا نظارہ شاہراہ قراقرم پر جگہ جگہ دیکھنے کو ملے گا۔
نگر اور ہنزہ شاہراہ قراقرم کے دونوں اطراف میں آباد ہیں۔ یہاں پر آکر شاہراہ قراقرم کا حُسن اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے میرا نہیں خیال کہ شاہراہ کے اس مقام پر پہنچ کر کوئی سیاح حیرت سے اپنی انگلیاں دانتوں میں نا دباتا ہو۔ "پاسو کونز" اس بات کی بہترین مثال ہیں۔
ہنزہ اور نگر کا علاقہ نہایت خوبصورتی کا حامل ہے۔ بلند چوٹیاں, گلیشیئرز, آبشاریں اور دریا اس علاقے کا خاصہ ہیں۔ اس علاقے کے راکاپوشی, التر, بتورہ, کنیانگ کش, دستگیل سر اور پسو نمایاں پہاڑ ہیں۔
عطاآباد کے نام سے 21 کلومیٹر لمبائی رکھنے والی ایک مصنوعی لیکن انتہائی دلکش جھیل بھی ہے جو کہ پہاڑ کے گرنے سے وجود میں آئی۔
ہنزہ کا علاقہ "سست" پاک چین تجارت کے حوالے سے مشہور ہے اور یہ چائنہ سے درآمد اشیاء کی مارکیٹ ہے۔
سست کے بعد شاہراہ قراقرم کا پاکستان میں آخری مقام خنجراب پاس آتا ہے۔
سست سے خنجراب تک کا علاقہ بے آباد, دشوار پہاڑوں اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ خنجراب پاس پر شاہراہ قراقرم کی اونچائی 4,693 میٹر ہے اسی بنا پر اسکو دنیا کے بلند ترین شاہراہ کہا جاتا ہے۔ خنجراب میں دنیا کے منفرد جانور پائے جاتے ہیں جس میں مارکوپولو بھیڑیں, برفانی چیتے, مارموٹ, ریچھ, یاک, مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔
اسی بنا پر خنجراب کو نیشنل پارک کا درجہ مل گیا ہے۔
اس سڑک پر آپکو سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پتھریلے و بنجر پہاڑی سلسلے اور دیوقامت برفانی چوٹیوں, دریاؤں کی بہتات, آبشاریں, چراگاہیں اور گلیشیئر سمیت ہر طرح کے جغرافیائی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جو نا صرف آپکا سفر خوبصورت بناتے ہیں بلکہ آپ کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔
شاہراہِ قراقرم محض ایک سڑک نہیں ہے
بلکہ یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے,
یہ تہذیب و تمدن کی امین ہے, یہ پسماندگی سے نکلنے کا زریعہ ہے, یہ ہر سال ہزاروں سیاحوں کی سیاحت کی پیاس بجھانے کا آلہ کار ہے, یہ محبت و دوستی کی علامت ہے, یہ سینکڑوں مزدوروں کے لہو سے سینچی وہ لکیر ہے جس نے پورے گلگت بلتستان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنیوں کے سفر پر ڈالا۔
بلاشبہ یہ شاہراہ ایک شاہکار ہے۔

سلطان قطب الدین ایبک۔۔۔۔1150ء میں ترکستان (ترک، ترکی پھر ترکیہ) کے غریب گھر میں پیدا ہونے والے قطب کے گھرانے کا ایک غلام...
18/07/2024

سلطان قطب الدین ایبک۔۔۔۔
1150ء میں ترکستان (ترک، ترکی پھر ترکیہ) کے غریب گھر میں پیدا ہونے والے قطب کے گھرانے کا ایک غلاموں پر مشتمل "ایبک" نامی قبیلے سے تھا۔ دور جہالت تھا، ابھی لڑکپن ہی تھا، والدین نے اپنے سے جدا کر کے نشاپور میں لگنے والی غلاموں کی منڈی میں بولی لگا کر اسے بیچ ڈالا، اسے آگے فخرالدین عبد العزیز کوفی، قاضی، تاجر اور ابوحنیفہ کی اولاد میں سے ایک نے خرید لیا۔
گھر پہنچ کر قاضی نے بچے سے اس کا نام ہوچھا، کمسن غلام نے نام بتانے سے انکار کر دیا:
" اگر نام بتا دیا تو یہ میرے نام کی توہین ہو گی، اب آپ کا غلام ہوں، جس نام سے پکاریں گے، وہی میرا نام ہو گا"
قاضی کو بچے سے ایسے جواب کی امید نہیں تھی حیرت ہوئی اور اس کا جواب اچھا لگا کہ ابھی بچہ ہے، غلام ہے، عزت نفس کا کتنا احساس رکھتا ہے۔ رحمدل قاضی نے مشقت لینے کی بجاے اس کی اچھی تربیت، تعلیم اور پرورشں کرنے کا فیصلہ کیا اور چھوٹے غلام پر خاص توجہ دی۔
بچہ شروع سے ہی بہادر تھا، جنگجوانہ مشاغل کھیلنے سے شوق رکھتا۔ بہت کم عرصے میں تعلیم کے ساتھ ساتھ گھڑ سواری، تلوار، نیزہ بازی اور تیراندازی میں مہارت حاصل کر لی۔ قاضی غلام کی صلاحیتیں دیکھ کر حیران رہ جاتا۔
-----------
سلطان شہاب الدین غوری، غزنی کا شہنشاہ، ایک روز شاہی گھڑ دوڑوں کا مقابلہ دیکھ رہا تھا۔ قاضی غلام کو لے کر سلطان کے پاس پہنچ گیا:
" سرکار، ساری سلطنت میں اس غلام کا گھڑ سواری میں کوئی مقابل نہ ثانی ملے گا"
سلطان خوبصورت، صحت مند، سانولہ، پرکشش رنگت والے نوجوان غلام کو دیکھ کر مسکرایا۔ جنگلی گھوڑا وحشی تصور کیا جاتا یے، جسے تربیت دینا مشکل ترین کام یے۔ غلام سے پوچھا:
" گھوڑے کو کتنا تیز دوڑا سکتے ہو؟"
غلام نے نہایت ادب کے ساتھ جواب دیا:
" حضور, گھوڑے کو تیز دوڑانے میں کوئی مہارت نہیں، اصل مہارت اسے اپنا تابع بنانا ہے"
سلطان نے ستائشگی سے غلام کو دیکھا، ایک بہترین گھوڑے کی لگام غلام کے ہاتھ میں تھما دی۔ وہ اچھل کر گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ گیا، کچھ دور دوڑا کر واپس لے آیا، انتہائی انوکھی بات یہ ہوئی کہ گھوڑا واپسی پر اپنے سُموں کے جن نشانات پر چل کر گیا تھا، انہیں قدموں واپس لایا۔ یہ سب دیکھنے والوں کے لئیے نہایت ناقابل یقین تھا، اس سے پہلے ایسی مہارت کبھی کسی میں دیکھی گئی تھی۔ سلطان غلام کی مہارت سے نہایت متاثر ہوا۔ جو جانور کو اپنا تابع و مطیع بنا سکتا ہے اس کے لئیے انسانوں کو فرمانبردار بنانا مشکل نہیں ہو گا
سلطان نے اسی وقت غلام کو منہ بولے دام دے کر مصایب خاص میں شامل کر لیا۔
ایک روز سلطان دربار میں بیٹھا خوش ہو کر غلاموں کو تحائف تقسیم کر رہا تھا، غلام خاص نے وہ تمام ضعیف غلاموں میں بانٹ دئیے۔ سلطان یہ دیکھ کر اسے مزید پسند کرتے اعلیٰ ترین عہدے " امیر خور" پر ترقی دے دی، پھر شاہی اصطبل کا سربراہ مقرر کر دیا جہاں سینکڑوں مال بردار اور جنگی تربیت یافتہ گھوڑوں کو ہمہ وقت سلطنت کی حفاظت کرنے کی تربیت دی جاتی تھی۔ غلام نے رفتہ رفتہ قدرت کی عطا کردہ صلاحیتوں کا سکہ سلطان پر بٹھا کر اس کا مزید قرب حاصل کر لیا۔
1192ء کو سلطان محمد غوری نے دہلی اور اجمیر فتح کیا 42 سالہ غلام کو پہلے یہاں کا گورنر اور پھر شاہی افواج کا سپہ سالار مقرر کر دیا۔ اگلے سال نوجوان غلام سپہ سالار نے سلطان کے حکم پر پڑوسی دشمن قنوج پر چڑھائی کر دی، پہلے سے بڑھ کر سپہ گری کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ سلطان نے غلام کو اپنا فرزند بنا کر "فرمان فرزندی" کے اختیارات دے دئیے اور دو میں سے ایک نایاب ترین قیمتی سفید ہاتھی اسے انعام میں دیا۔
یہ وہ دور تھا جب اسلام اپنے عروج پر اور سارا یورپ جاہلیت کے اندھیروں میں ڈوبا پڑا تھا۔ اسلامی تاریخ کا ایک بہادر غلام سپہ سالار، قطب الدین ایبک پھر وہ عظیم حکمران بنا جس نے دہلی فتح کر کے یہاں سب سے پہلی اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی۔ یہاں سے غلام قطب الدین کا ستارہ چمکتا رہا، اس کی افواج گجرات، راجپوتانہ، گنگا جمنا، دوآبہ، بہار اور بنگال میں اسلام کا سبز پرچم لہراتی داخل ہو گئیں۔
15 مارچ 1206ء کو سلطان محمد غوری کو جہلم کے قریب گکھڑوں قبیلے کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا ہڑا، غلام پاس نہیں تھا، یہ مارا گیا۔
23 جون 1206ء کو لاہور میں ایبک کی تخت نشینی کا اعلان کر دیا گیا۔ قطب الدین ایبک کی زندگی کا سارا زمانہ فتوحات میں گزرا، کبھی شکست نہیں کھائی۔ تخت پر بیٹھ کر سب سے پہلے عظیم ترین سلطنت پر توجہ دی۔ بیشتر وقت نوزائیدہ اسلامی سلطنت کا امن و امان قائم رکھنے میں گزرا۔ عالموں کا قدر دان، فیاضی اور داد و درویشی سے تاریخ میں "لکھ بخش" کے نام سے مشہور ہوا۔
یکم نومبر 1219ء لاہور میں چوگان (پولو) کھیلتے گھوڑے سے گر کر راہ ملک عدم ہوا، انار کلی بازار لاہور کے ایک کوچے ایبک، اب ایبک روڈ میں دفنا دیا گیا۔
از، کتاب "خدا اور میں"

  guide
20/07/2023

guide

20/07/2023

Hi, thanks for contacting us. We've received your message and appreciate you reaching out.

20/07/2023
انگریز سامراج کے خلاف برسر پیکار تحریکوں میں سے ایک منفرد اور مزاحمت سے بھرپور تحریک فرائضی تحریک ہے۔اس تحریک کے روح روا...
03/05/2023

انگریز سامراج کے خلاف برسر پیکار تحریکوں میں سے ایک منفرد اور مزاحمت سے بھرپور تحریک فرائضی تحریک ہے۔

اس تحریک کے روح رواں حاجی شریعت اللہ تھے۔ یہ برصغیر میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بنگال میں شروع ہوئی۔ اس تحریک نے مقامی کسانوں اور مزارعین کو اتنا متاثر کیا کہ وہ اس تحریک کے گرویدہ ہو گئے۔ اس تحریک کو کمال اس وقت پھنچا جب اس کی قیادت تیتو میر شہید کے ہاتھ آئی۔

تیتو میر کا اصل نام میر نثار علی تھا۔ وہ27 جنوری 1782ء کو مغربی بنگال ( بھارت ) کے ایک گائوں میں پیدا ہوا۔ وہ تحریک مجاہدین کے سید احمد بریلوی کے جانثاروں میں سے تھے۔ تیتو میر نے ابتدائی تعلیم مدرسہ سے حاصل کی وہ حافظ قرآن اور علم حدیث کے ماہر تھے۔ وہ عربی اور فارسی زبانوں سے واقف تھے۔

جب سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ جہادِ آزادی کی تیاری کے سلسلہ میں حجاز مقدس گئے ہوئے تھے تو تیتو میر بھی اسی سال یعنی کہ 1822 میں حج کرنے کے لئے مکہ پہنچے تو وہاں ان کی ملاقات اپنے مربی سید احمد بریلوی سے ہوئی جو بعد ازاں بالا کوٹ کے مقام پہ سکھوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ اس ملاقات نے ان میں جزبہ جہاد وحریت پیدا کر دیا۔اور وہ سید احمد بریلوی کے ہاتھ پر بیعت ہوگئے۔

تیتو میر نے حج سے واپسی پہ بنگال پہنچتے ہی فرائضی تحریک کو منظم کیا۔مقامی کسانوں اور مزارعین کے ہمراہ جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کو ٹیکس دینا بند کر دیا۔بنگال کے زمیندارکسانوں کا خون چوس رہے تھے اور انھیں انگریز سامراج کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ تیتو میر کے ٹیکس نہ دینے کےاس اقدام کی بدولت بنگالی ساہوکار اور بڑے قطعہ دار ان کے مخالف ہو گئے۔

لیکن تیتو میر نے جدوجہد جاری رکھی ۔ انھوں نےبنگالی مسلمان کسانوں کو ہندوجاگیرداروں کے خلاف منظم کیا جو ان کا خون چوسنے میں مصروف تھے۔ یاد رہے کہ انگریزوں نے بنگال میں نواب سراج الدولہ کے بعد مسلمان زمینداروں سے زمینیں چھین کر ہندوؤں کی جاگیرداریاں قائم کی تھیں جب کہ مسلمان اپنی زمینوں سے بے دخل ہوکر زمیندار سے کسان بن کر رہ گئے تھے۔

تیتو میر شہید نے اس مزاحمتی جدو جہد کے ساتھ ساتھ بنگال میں شریعت کے نفاذ کی کوششیں بھی کی۔ جن میں سر فہرست داڑھی کی پابندی اور خواتین کے لئے پردہ شامل تھا۔ یہ ایک طرح سےاصلاحی تحریک تھی۔ اس میں شرعی فرائض کی بجا آوری پر زور دیا جاتا تھا۔ ان کے جانثار زیادہ تر غریب کسانوں اور مزدوروں میں سے تھے۔ اس تحریک کے ذریعے انہوں نے ان پس ماندہ مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ غیر اسلامی رسم و رواج ترک کردیں اور فرائض اسلامی کی ادائیگی کو اپنا شعار بنائیں۔

بنگال میں موجود جاگیرداروں کو یوں لگا کہ تیتو میر شہید کے ان اقدامات کی بدولت ان کا اقتدار ڈوب جائے گا۔ اس پر انھوں نے تیتو میر اور فرائضی تحریک کے حامیوں پہ داڑھی ٹیکس اور مساجد ٹیکس لگانا شروع کر دیا۔ یہ ٹیکس لگانے میں ہندو ساہوکار کرشنا رائے پیش پیش تھا۔ اس اقدام سے محاذ آرائی بڑھنے لگی ۔ ان امتیازی اقدامات پر انگریز حکومت نے خاموشی برقرار رکھی۔ جس پر پورا بنگال مشتعل ہو گیا ۔

تیتو میر شہید نے کلکتہ کے نزدیک " نرکل باڑیہ " نامی گاؤں کو اپنا مرکز بنایا۔ جب وہاں پر خاصے مرید جمع ہو گئے تو انہوں نے آزادی کا اعلان کر دیا اور خاص طور پر اپنی فوج بنانا شروع کر دی تاکہ ان ساہوکاروں اور جاگیرداروں کے خلاف جہاد کیا جاسکے۔ تیتو میر اور ان کے ساتھیوں نے زمینداروں پر مسلح حملے شروع کر دئیے ، اس پر زمینداروں کی راتوں کی نیند حرام ہو گئی جس پر انہوں نے اپنے انگریز آقاؤں کی مدد طلب کی۔

تیتو میر شہید نے اپنے مجاھدین کی مدد سے ایک فوج منظم کی ۔اس فوج میں شامل ہونے والے کو لاٹھی چلانے کی تربیت دی جاتی تھی۔یہ لاٹھی بانس کی بنی ہوتی تھی۔بنگال میں بانس کی فصل کثرت سے ہونے کی وجہ سے یہ لاٹھی بنانا آسان اور بغیر سرمائے کے تھا۔ ان مجاھدین نے بنگال میں ایک بانس کا قلعہ ( Fort of bamboos ) بھی تعمیر کیا یہ قلعہ بنگالی قصبے " ناری کیلیبیریا " میں تعمیر کیا گیا۔جو اپنی نوعیت کی ایک انوکھی مثال تھی۔ قلعہ کی دیوار دو رویہ تھی اور بانس کی لکڑی سے تعمیر کردہ تھی۔ایک طرح سے یہ لاٹھی بردار فورس کی چھاؤنی تھی جہاں مجاھدین کو لاٹھی کے ساتھ لڑنے کی تربیت دی جاتی تھی۔

وسائل کی کمی کی وجہ سے ان کے پاس گھوڑے ، اونٹ اور دوسرے جانوروں کی قلت تھی۔ نیز سامان حرب سوائے لاٹھیوں کے کچھ نہ تھا۔ تیتو میر کے جانثاروں نے بڑے بڑے جاگیرداروں کے اصطبل خانوں پہ حملے کیے اور گھوڑوں کو اپنی فوج کا حصہ بنایا۔ بلکہ بعض دفعہ تھانوں پہ بھی حملہ کیا اور سرکاری گھوڑے قبضے میں لے لئے۔

جب اس تحریک نے زیادہ زور پکڑناشروع کر دیا تو برطانوی حکومت نے 7000 سپاہیوں پر مشتمل فوج بھیجی۔ اس وقت تیتو میر کے پیروکاروں کی تعداد 15,000 ہو چکی تھی۔ برطانوی فوج کو پے درپے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔

برطانوی فوج کو تیتو میر اور ان کی ساتھیوں نےشکست دینے کے لیے ایک خصوصی حکمت عملی اختیار کی۔جسے “حملہ کرو اور پسپائی اختیار کرو “ ( strike and retreat ) کا نام دیا گیا۔ اس سے تیتو میر کی جنگی حکمت عملی اور نظم کا پتہ چلتا ہے۔ یہ حکمت عملی بے حد کارگر ثابت ہوئی اور برطانوی فوج کو پے درپے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔

اب مقامی جاگیرداروں نے انگریز سامراج کی مدد کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیا۔اب انگریز فوج جدید اسلحے سے لیس ہو کر تیتو میر کے مجاھدین کا مقابلہ کرنے آن پڑی۔
14نومبر 1831ء کو برطانوی فوج اور تیتو میر کے ساتھیوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہوئی ۔ شروع میں تیتو میر کے مجاھدین کا پلڑا بھاری رہا مگر بعد میں انگریزوں نےتوپوں اور بندوقوں کی مدد سے مسلسل حملے کئے ، ادھر تیتو میر اور ان کے ساتھیوں کے پاس چند لاٹھیوں ، تلواروں اور نیزوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ نتیجہ صاف ظاہر تھا تیتو میر اور ان کے ساتھی جدید اسلحے کا مقابلہ نہ کر سکے ۔

برطانوی فوجوں نے بانسوں سے بنا ہوا قلعہ بھی تباہ کر دیا اور تیتو میر اپنے کئی ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے۔

بعد میں انگریزوں نے بھی تیتو میر کی بہادری کا اعتراف کیا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ اگر تیتو میر اور ان کے ساتھیوں کے پاس جدید اسلحہ ہوتا تو ان کو شکست دینا آسان نہیں تھا۔ تیتو میر اور ان کے ساتھیوں نے محدود وسائل کے باوجود طاقتور برطانوی فوج کا مقابلہ کیا اور شہادت کا رتبہ حاصل کر کے تاریخ میں ہمیشہ کے لیے اپنا نام لکھوا لیا۔

آج بھی تیتو میر شہید کا نام پورے بنگال میں عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ بنگال کی فوجی بندرگاہ آج بھی ان کے نام سے منسوب ہے۔تیتو میر شہید کی اس انگریز سامراج مزاحمت نے انھیں آج بھی تاریخ میں زندہ رکھا ہوا ہے۔ #تیتومیرشہید #بنگال

10/04/2023

نماز کا ایک انوکھا اور حیران کن پہلو:

‏میں تلاوت کر رہا تھا تو سورہ المعارج کی ایک آیت پر آ کر رک سا گیا،
بات انسان کی تخلیق کے بارے میں تھی کہ انسان اصل میں پیدا کیسا ہوا ہے۔
ایسی کوئی بھی آیت آئے تو میں رک کر تھوڑا سا سوچنے لگتا ہوں۔

آیت تھی:

اِنَّ الۡاِنۡسَانَ خُلِقَ ہَلُوۡعًا
حقیقت یہ ہے کہ انسان بہت کم حوصلہ پیدا کیا گیا ہے ‏

میں نے انگریزی ترجمہ دیکھا، تو ”ھلوعا“ کا مطلب اینگوئش لکھا تھا،

اب اینگوئش کا مطلب اردو میں سمجھوں تو یہی لگتا ہے کہ ایسا انسان جس میں بے چینی، تشویش، یا بے صبری سی ہو۔

بہرحال میں نے”کم ہمت“پر ہی اکتفا کر لیا اور اسے بے صبری کے معنوں میں لے لیا۔اگلی آیت کچھ اور بھی معنی خیز تھی:

اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوۡعًا
جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جاتا ہے

”جزوعا“ کا لفظ تو مجھے سمجھ آ گیا، انگریزی میں ترجمہ بھی قریب قریب ہی تھا، امپیشنٹ، مطلب بے چین، یعنی تکلیف پہنچے تو انسان چاہتا ہے بس اب یہ رفع ہو جائے، بس ختم ہو جائے کسی طرح۔

وَّ اِذَا مَسَّہُ الۡخَیۡرُ مَنُوۡعًا
اور جب اس کے پاس خوشحالی آتی ہے تو بہت بخیل بن جاتا ہے

”منوعا“ یعنی کنجوس
جب اسے کوئی نعمت ملتی ہے، تو اس کا دل چاہتا ہے بس اس کے پاس ہی رہے وہ نعمت، کسی اور کو نہ مل جائے۔

جو رلا دینے والی آیت تھی، وہ بعد میں آئی:

اِلَّا الۡمُصَلِّیۡنَ
مگر وہ نمازی ایسے نہیں ہیں

یعنی نماز پڑھنے والے لوگوں کے علاوہ ‏انسان کی حالت اسی طرح کی ہے۔

انسان کی یہ پیدائشی حالت صرف اس صورت میں بدل سکتی ہے، جب وہ نماز قائم کر لیتا ہے۔

مجھے ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوئی یہ سوچ کرمیں پہلی تین آیات پڑھ کر حیران ہو رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہی بنائے انسان کی کمیاں اور خامیاں گنوا رہا ہے۔ ‏

لیکن ”الّا المصلّین“ پڑھا تو دل مطمئن سا ہو گیا کہ ان کمیوں اور خامیوں کو پورا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے راستہ رکھا ہوا ہے کہ اگر کوئی نماز پڑھتا ہے تو وہ

”ھلوعا“
”جزوعا“
اور
”منوعا“
کی دلی اور جذباتی حالتوں سے نکل سکتا ہے۔

اور میں سوچنے لگا، یعنی تصور کرنے لگا، کہ انسان سے تشویش، ‏بے چینی، اور کنجوسی نکل جائیں تو کیسی حالت ہوتی ہے انسان کی۔

یعنی نماز کی برکت سے اگر انسان کے دل سے تشویش، بے چینی اور کنجوسی نکل جائیں، اور اس کی پریشانی، گھٹن اور تنگدلی دور ہو جائے، تو انسان میں کیسی وسعت، اور کیسی کشادگی آ جاتی ہے۔ ‏

انسان کی طبیعت کتنی ہلکی پھلکی ہو جاتی ہے، اور اس کے دل پر بوجھ ڈالنے والی چیزیں کس طرح غائب ہو جاتی ہیں۔

بے شک نماز ایک عظیم نعمت ہے

Address

Peshawar

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when kitab khana posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share