LÀKKi VīÑ3S

LÀKKi VīÑ3S Voice of Peshawar

24/03/2025

عجیب ملک ہے لاشیں بھی ملک چلا رہا ہے 🥱🤔

دنیا کا سب سے بڑا ہوائی جہاز اڑنے کے لیے تیار ہے اس کا نام Airlander 10 ہے جسے لندن میں شو آف کیا گیا ہے اس جہاز کو اڑان...
11/10/2024

دنیا کا سب سے بڑا ہوائی جہاز اڑنے کے لیے تیار ہے اس کا نام Airlander 10 ہے جسے لندن میں شو آف کیا گیا ہے اس جہاز کو اڑانے کیلئے aerostatic اور aerodynamic قوتوں کا استعمال کیا جائے گا تاہم اس کی Shape بہت ہی منفرد، دلچسپ اور جانی پہچانی سی لگتی ہے.

۔دن رات محنت کر کے آئی پی پیز کے ساتھ اچھے ماحول میں مذاکرات کے بعد معاہدوں کی تفصیلات تحریک انصاف کے وفاقی وزیر برائے ت...
11/08/2024

۔دن رات محنت کر کے آئی پی پیز کے ساتھ اچھے ماحول میں مذاکرات کے بعد معاہدوں کی تفصیلات تحریک انصاف کے وفاقی وزیر برائے توانائی عمر ایوب قوم کے سامنے رکھتے ہوئے۔

⬅تحریک انصاف نے 2018ء تا 2021ء کے دور حکومت میں 30 آئی پی پیز کے ساتھ طویل مدتی معاہدے کیے۔

⬅ن لیگ نے 2013ء تا 2018ء کے دور حکومت میں 130 آئی پی پیز کے ساتھ طویل مدتی معاہدے کیے۔

⬅پی پی پی نے 2008ء تا 2013ء کے دور حکومت میں 35 آئی پی پیز کے ساتھ طویل مدتی معاہدے کیے۔

⬅جنرل پرویز مشرف نے 1999ء تا 2008ء کے دور حکومت میں 48 آئی پی پیز کے ساتھ طویل مدتی معاہدے کیے۔

نوٹ: موجودہ اپوزیشن لیڈر اور جنرل سیکرٹری پی ٹی آئی عمر ایوب نے 2002 کا الیکشن ق لیگ کے ٹکٹ پر جیتا اور پرویز مشرف کی کابینہ میں وفاقی وزیر کی حثیت سے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں شریک رہے۔

مزید نوٹ: موجودہ اپوزیشن لیڈر اور جنرل سیکرٹری پی ٹی آئی عمر ایوب نے 2013 کا الیکشن ن لیگ کے ٹکٹ پر جیتا اور نوازشریف کی کابینہ میں وفاقی وزیر کی حثیت سے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں شریک رہے۔

اہم نوٹ: موجودہ اپوزیشن لیڈر اور جنرل سیکرٹری پی ٹی آئی عمر ایوب نے 2018 کا الیکشن تحریک انصاف کے ٹکٹ پر جیتا اور عمران خان کی کابینہ میں وفاقی وزیر برائے توانائی کی حثیت سے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کیے۔

اپوزیشن لیڈر و سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی عمر ایوب ق لیگ، ن لیگ، پی ٹی آئی اور آئی پی پیز کا مشترکہ اثاثہ ہیں
منقول

28/05/2024

تو بہت تھے ۔۔پر اب نہیں !
#ویڈیو #دیکھ #کر #دل #بہت 😭 #دکھی #ہوا #بچے، کی #دکھ #برای #داستان


ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اچھا صحت دیا ہے۔

اخری پیراگراف میں سویٹی کہتی ہے کہ ایک بار اپنی پیاری امی سے کسی رشتہ دار کے ہاں ایک رات کو تھوڑے عرصے کے لیے ملاقات ہوئ...
19/05/2024

اخری پیراگراف میں سویٹی کہتی ہے کہ ایک بار اپنی پیاری امی سے کسی رشتہ دار کے ہاں ایک رات کو تھوڑے عرصے کے لیے ملاقات ہوئی تھی 😭
پشتو تحریر : محمد عالم الم
اردو ترجمہ : انعام کاکڑ
میرے ساتھ اس تصویر میں نظر آنے والا لڑکا ایک خواجہ سرا (ٹرانس جینڈر) ہے، یوں ہوا کہ میں اپنے دوست کے کسی کام سے چکدرہ بورڈ گیا تھا۔ واپسی پر 1 بج رہا تھا اور مجھے کافی بھوک لگ رہی تھی، گاڈی کا رخ سید محمد مچھلی والے کی طرف کیا، سردی تھی باہر چار پائی پر بیٹھا اور مناسب مچھلی کا آرڈر دیا۔

اسی دوران ایک اور گاڈی میری گاڈی کے ساتھ آ کھڑی ہوئی، اس گاڈی سے دو خواجہ سرا اور ایک ڈرائیور نیچے اترے۔
دونوں خواجہ سرا اترتے ساتھ ہی مچھلی والے کی جھونپڑی کے اندر جا بیٹھے اور ڈرائیور میرے ساتھ چارپائی پر بیٹھ گئے، مجھ سے رہا نہیں گیا اور ڈرائیور سے پوچھنے لگا کہ یہ نیک اندر کیوں گئے، ادھر ہی بیٹھ جاتے، اسی طرح کچھ باتیں ہوئی۔ ڈرائیور نے کہا نہیں یہ باہر بیٹھنا پسند نہیں کرتے، پھر ہجوم انہیں تنگ کرنے آتی ہے، اور بعض اوقات کچھ طاقتور آکہ لے جاتے ہیں اور میں بھی ان کے سامنے بے بس پڑ جاتا ہوں۔ میں نے کہاں ایک تو اندر بہت سردی ہے، انہیں سردی لگ جائے گی اور دوسرا یہ کہ میں نے ان سے ان کی زندگیوں کے بارے میں کچھ پوچھ گچھ بھی کرنی ہے۔ ڈرائیور اندر گئے اور ساتھ وہ دونوں حسن کی مالائیں سنگار کئے باہر آئیں اور میرے ساتھ باہر چارپائی پر آ بیٹھے، ان میں سے ایک کی عمر کچھ زیادہ تھی اور دوسرے کی عمر کافی کم۔

میں نے سب سے پہلے اپنا ادبی تعارف پیش کیا اور ان میں سے جو چھوٹی عمر والا تھا اس سے پوچھا کہ کیا آپ پیدائشی خواجہ سرا ہیں ؟ یا پھر بعد میں خواجہ سرا بنے ؟
وہ کہنے لگا کہ میں لنڈی تانڑی کا رہنے والا ہوں اور میرا اپنا نام شہزاد ہے، اب فیلڈ میں میرا نام سویٹی ہے، میرے والد صاحب گاؤں میں ایک قد آور اور جانی پہچانی شخصیت ہیں، ہمارے اپنے باغات اور کافی جائیداد ہیں۔
میں بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہوں، میں بچپن سے ہی بہت پیارا تھا۔
جب توڑا سا بڑا ہوا تو والد صاحب نے قریبی سکول میں داخلہ لے کر دیا تو سکول میں سارے دوست مجھے بہت تنگ کرتے تھے، میں نے والد صاحب سے کہا کہ میں نے آئندہ سکول نہیں جانا، سب لوگ مجھے بہت تنگ کرتے ہیں، اپنے دوستوں سے لیکر آس پاس ہمسایہ اور راستے میں دکھنے والا ہر لڑکا مجھے چھیڑتا ہے، والد صاحب میرے ساتھ سکول گئے اور اساتذہ سے شکایت کی، کہ یہ کیا چل رہا ہے، اس کے بعد کلاس کے لڑکوں نے تنگ کرنا بند کر دیا، میں بہت ذہین تھا، ہر سال سکول میں پہلی پوزیشن آتی تھی، دسویں جماعت تک یہی سلسلہ چلتا رہا۔

میں خود بھی باہر نہیں جانا چاہتا تھا اور والدین کی بھی یہی مرضی تھی، یہ اثرات مجھ میں بچپن سے تھے، میں جب حجرے کی طرف چائے لے کر جاتا تھا تو مجھ سے برتن ٹوٹ جاتے تھے، میرا اٹھنا بیٹھنا بھی اپنی بہنوں اور خواتین کے ساتھ تھا۔

جب والدین کوئی چیز منگوانے کیلئے مجھے دکان کی طرف بھیجتے تھے تو دوکاندار مجھے تنگ کرتے تھے اور قسم قسم کے ڈیمانڈز کرتے تھے، لوگوں کے اس رویے نے مجھے گھر تک محدود کر دیا، جماعت نہم میں والد صاحب نے ہوم ٹیوشن کیلئے ایک لڑکا رکھا اس کی بھی میرے بارے میں نیت ٹھیک نہیں تھی اور بجائے پڑھانے کے وہ خراب باتیں کرتے تھے۔

دسویں پاس کرنے کے بعد میں نے تانڑی ڈگری کالج میں ایڈمیشن لیا، پہلے دن ہی لڑکوں کا ہجوم میرے گرد منڈلانے لگا کہ حسین مرغہ آیا ہے اور یوں میرے ساتھ جسمانی پولینگز شروع کرنے لگیں، اس جسمانی چھیڑ چھاڑ کی وجہ سے میرے جسم میں چینجز آنے لگتے، یوں میرا چلنا پھرنا اور لھجہ یک دم خواجہ سراؤں والا ہوگیا، پرنسپل صاحب تک رپورٹس پہنچ گئی، مجھے بلایا گیا، میں نے کافی منت سماجت کی لیکن مجھے کالج سے خارج کر دیا گیا۔ اور کالج کے گیٹ کے اندر آنے کی پابندی لگا دی۔

میرے بہن، بھائی بہت دل برداشتہ ہوگئے کہ یہ آپ کو ہو کیا گیا ہے، زندگی ہے، چلتی رہی، ایک رات امی مجھے اپنی کمرے لے گئیں، اور رونے لگیں کہ میرے شہزاد آپ کے بھائیوں نے آپ کو جان سے مارنے کی پلاننگ بنائی ہے، اور آپ کو اس لئے مار رہے ہیں کہ آپ ان کیلئے باعث شرمندگی ہیں، لوگ انہیں آپ کا طعنہ دیتے ہیں۔ میں نے آپ کے کپڑے اور کچھ سامان پیک کر دیا ہے، اور آپ کو ابھی رات کے اندھیرے میں گھر سے نکلنا ہوگا، ورنہ صبح تک بھائیوں نے آپ کو قتل کر دینا ہے، زندہ انہوں نے نہیں چھوڑنا، میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی، اور میں اس قدر رویا، چیختا رہا کہ آخر میں جاؤں تو کہاں جاؤں ؟ میں گھر سے کبھی باہر گیا ہی نہیں، نا مجھے کسی رستے کا پتا ہے، اور نا مجھے کسی شہر کا پتا۔ امی مجھے تسلی دیتی رہیں اور کہاں کہ فلائنگ کوچ میں بیٹھ کہ اسے کہو پشاور جانا ہے میں نے۔ اسی دوران میری چھوٹی بہن جو اب فلاں خان کی بیوی ہے، اندر آئی اور ہمارے ساتھ مل کہ زار و قطار رونے لگیں، کہ بس نکلنے میں ہی بہتری ہیں، بھائیوں نے صبح تک مارنے کی ٹھان لی ہے۔ اور کرنا بھی کیا تھا میں رات کے گھپ اندھیرے میں اپنے ساتھ دو جوڑ کپڑے لے کہ باہر آیا۔

راستے میں دو لوگوں نے پوچھا کہ شہزاد اس وقت کس سے ملنے کا پروگرام ہے، میں انہیں نظر انداز کر کے مین روڈ کی طرف آیا، دل ہی دل میں رو رہا ہوں کہ آخر اس رات کو میں نے جانا کہاں ہے، مجھے تو کچھ پتا ہی نہیں ہے، اسی دوران ایک کوسٹر آیا اور میں دتانی سے بیٹھ گیا، کوسٹر میں پہلے سے بیٹھے لوگ میرے حسن کا تماشا کرنے لگیں، لیکن میں کس قرب سے گزر رہا ہوں اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں، راستے میں لوگ ایسے ایسے جملے کستے رہیں کہ یہ میرے لئے انتہائی عجیب قسم کی باتیں ہوتیں، رات کے پورے دس بجے میں مردان کے اڈے پر کوسٹر سے اترا اور سوچا کہ امی نے پشاور جانے کا کہا تھا سو میں پشاور جانے والے فلائنگ کوچ میں بیٹھ گیا، لیکن رات بہت ہو چکی تھی اس بار زیادہ تر لوگوں نے بس کے اندر مجھے دیکھا نہیں۔

شہزاد کی کہانی یہاں تک پہنچی تو ویٹر میرا اور ان کا آرڈر لے آیا، ویٹر کہنے لگا کہ باس کہہ رہے ہیں انہیں اندر بٹھا دے پھر لیوی والے ہمیں تنگ کرتے ہیں، میں نے کہاں یہاں لیوی والے سب مجھے جانتے ہیں، آپ بے فکر رہیں، میں ذمہ داری لیتا ہوں۔ مچھلی کھانے لگیں، لیکن مچھلی میرے گلے سے گزر نہیں رہی تھی اور شہزاد کے برے دن میری آنکھوں کے سامنے آتے رہیں، خیر! ہم نے ایک ساتھ کھانا کھایا اور قہوے کا آرڈر دے دیا۔ میں شہزاد کی طرف نم آنکھوں سے اشارہ کرنے لگا کہ آپ اپنی بات جاری رکھیں۔

میں نے کہا کہ یہ کہانی میں تحریر کرونگا، شاید آپ کے گاؤں کے لوگوں کو آپ کے بھائیوں کی بد نیتی کا پتا چل سکے، شہزاد نے لمبی سانس لی اور بات جاری کرنے کا ارادہ کیا، اور خوف زدہ انداز سے کہنے لگا کہ میرے گروہ کو پتا نہیں چلنا چاہیے، میں نے تسلی دی کہ نہیں ایسا نہیں ہوگا، شہزاد نے کہانی جاری رکھی۔

مجھے پشاور کے بڑے اڈے پر اتار دیا گیا، اب میں پریشان کہ جانا کہاں ہے، مجھے دیکھتے ساتھ ہی کچھ لفنگے لڑکے میرے گرد گھومنے لگیں، اور کہنے لگیں کہ چلو چلییے، لیکن میں انکار کرتا رہا، یہ سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ کوئی دس پندرہ رکشے میرے آگے پیچھے گھوم رہے ہیں، سٹارٹ کھڑے رکشوں کے ہر ڈرائیور کا میرے طرف اشارہ کرنا اور ساتھ لیجانے کا پروگرام مجھے اتنا خوفزدہ کرنے لگا کہ میرا دل اب تنگ سے تنگ ہوتا جا رہا تھا، میں جو زندگی میں پہلے کبھی باہر نکلا ہی نہیں تھا، مجھے تو اپنے والدین نے زیادہ سے زیادہ اپنے گھر اور حجرے میں بڑا کیا تھا، میرے لئے یہ سب کچھ بہت حیران کن تھا، مجھ سے اب کوئی فیصلہ بھی نہیں بن رہا کہ کرنا کیا ہے۔ اسی دوران اچانک میری نظر ایک امیر صاحب(جو سنت پر تھے ) پر پڑی، اور آہستہ آہستہ انکی طرف بڑھنے لگا، رکشے والے اور وہ لڑکے میرے پیچھے پیچھے آرہے ہیں اور میں امیر صاحب کی طرف بڑھ رہا ہوں، میں نے کھڑے کھڑے مختصراً امیر صاحب کو اپنی نا آشنائی کا قصہ سنایا، اور ان سے پناہ مانگی کہ کسی طرح بھی ان سے میری جان چھڑوا دیں، امیر صاحب کہنے لگیں کہ وہ سامنے والی بلڈنگ میں میرا کوارٹر ہے، اچھا تم وہاں تک جاؤ، تاکہ کچھ محفوظ ہو سکو، میں آپ کے پیچھے ہی آرہا ہوں، آپ کے ساتھ نہیں آ سکتا، یہاں سب مجھے جانتے ہیں، میں امیر صاحب کہ کہنے پر توڑا آگے گیا اور توڑا سیف محسوس ہونے لگا، امیر صاحب کچھ لمحہ بعد آئیں، اور دوسری منزل میں انکا کوارٹر تھا، وہاں گئے، میں نے لمبی سانس لی، کہ چلو ان آوارہ کتوں سے تو جان بچ گئی، امیر صاحب کے ساتھ چائے پی اور میں نے امیر صاحب کو اپنی کہانی سنائی کہ مجھے اب کوئی ایسی محفوظ جگہ ڈھونڈ کر دیں، جہاں میں ان جنسی درندوں سے چھپ کہ محفوظ رہ سکوں، امیر صاحب ہنسنے لگیں، اور کہنے لگیں کہ دن کو گھوم پھر کہ رات یہی آیا کرو، کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن شرط یہ کہ مجھے ہر رات کو پھر خوش کرنا ہوگا، امیر صاحب کی بھی نیت خراب ہوگئی، اور میرے جسم پر ہاتھ پھیرنے لگیں، مجھے پھر خوف نے آ گیر لیا کہ اب اس بڑے پیٹ والے مولوی سے اپنی جان کیسے بچانی، امیر صاحب کی حوس اس قدر بڑھ گئی کہ میری مرضی پوچھے بنا جنسی عمل شروع کرنے تک بات پہنچ گئی، رات تھی، نا چاہتے ہوئے بھی امیر صاحب کے باہنوں میں گزارنی پڑی۔

صبح دھوپ نکلتے وقت امیر صاحب کی آنکھ لگ گئی تھی، اور میں چھپ چھپ کہ سیڑھیوں سے نیچھے آیا، میں چلنے کے قابل نہیں تھا، امیر صاحب نے میرے وجود کا پرزہ پرزہ کر دیا تھا، نیچھے ایک دکاندار نے آنے کا اشارہ کیا، میں جو بے یار و مددگار تھا، سوچا کہ کوئی تو ہوگا جو فقط انسانیت کا پرچاری ہو، میں دکاندار کی طرف اسی آس سے آگے بڑھا، لیکن اس کا رویہ بھی امیر صاحب والا تھا، میں نے ان کے سامنے اپنی جولی پھیلائی اور چیخ چیخ کہ رونے لگا کہ خدا را میری مدد کریں، اور مجھے سمجھا دیں کہ میرے لئے یہاں کوئی محفوظ مقام ہے؟ دکاندار نے کہاں، ہاں اقبال پلازہ ہے، وہاں سارے خواجہ سرا رہتے ہیں، وہی چلے جاؤ، میں منہ چھپا کر سیدھا رکشے میں بیٹھ گیا اور اقبال پلازہ تک پہنچ گیا۔

اقبال پلازہ پہنچتے ساتھ ہی مجھے دیکھنے کیلئے سارے خواجہ سرا اکھٹے ہوئے، واہ واہ مارکیٹ میں نیا مال آیا ہے۔ پھر مجھے دوپٹہ پہنایا گیا، اور فلاں خواجہ سرا کا چیلا بنا دیا گیا، سارا دن میرے کمرے میں ڈانس اور گانے چلتے رہے، یہ سب کچھ پہلی بار دیکھنا میرے لئے انتہائی حیران کن تھا، لیکن پھر بھی دل کو ایک حوصلہ ملتا رہا کہ چلو یہاں سب میرے جیسے تو ہیں، کوئی جنسی زیادتی کرنے والا تو ہوگا ہی نہیں۔

رات ہوگئی، میں گروہ سے کہنے لگا کہ میں نے پچھلی رات بھی بہت سخت گزاری ہے، مجھے سونا چاہیے، بہت نیند آرہی ہے، گروہ ایک دم سے کہنے لگا کہ نہیں آپ کی پہلی رات پلازے کے مالک کے ساتھ گزرے گی ورنہ وہ ہمیں اس پلازے سے نکال دیں گے، یہ سنتے ہی میرا دل درد کرنے لگا، دل ہی دل میں رو رہا ہوں، چیخ رہا ہوں لیکن کوئی سن نہیں رہا، اور دل اتنا بھر آیا کہ میں اپنے بھائیوں کو بددعائیں دینے لگا دل میں۔ پھر وہی ہوا جو گروہ نے کہا تھا، رات پلازے کے مالک کے کمرے میں گزری، جو ساری رات مجھ پر بیتی وہ بیان کرنے کے قابل نہیں ہے، صبح جسم در بدر، پرزہ پرزہ اور درد اتنا کہ میں کمرے تک صحیح سے نا جا سکا، کمرے تک آیا، پلازے کے سامنے لوگ مختلف قسم کی باتیں کر رہے ہیں، میں بھاگ کر اپنے گروہ کے کمرے گیا وہ لیٹ رہا تھا میں نے دروازہ لاک کیا اور سونے لگا، دل ہی دل میں بہت رویا، حد سے زیادہ پریشان تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے ؟ یہ میں کہاں آیا ہوں؟ جیسے ہی ان سوچوں سے نکل کہ آنکھ تھکاوٹ اور درد کی وجہ سے لگ جاتی، پھر دورازے پر دستک دینے کوئی آجاتا، میں جواب نہیں دیتا، لیکن زیادہ شور کی وجہ سے نیند بھی کہاں آنی تھی، جب دروازہ زور سے کھٹکنے لگا تو گروہ اٹھا اور مجھے غضب ناک انداز سے کہنے لگا کہ تم بہرے ہو ؟ نہیں سنتے ہو ؟ جاؤ دروازہ کھولو، دیکھو کون ہے اور اسے میرے پاس لاؤ، مجھے دروازہ کھولنا پڑا اور دو لڑکے اندر آئے، انہوں نے گروہ سے میرا ڈیمانڈ کیا، میرا جسم اتنا درد کر رہا تھا کہ مجھ سے اب کچھ بھی نہیں ہونا تھا، میں نے گروہ کے سامنے اظہار کیا تو گروہ غصہ کرنے لگا گیا کہ ایسے گاہک ہر وقت نہیں آتے، تم نئے ہو اور انہیں اس بارے میں پتا چلا ہے، حالانکہ باہر کھڑے سارے چیلے ان گاہکوں کی منتیں کررہے ہیں، لیکن یہ ان کے پاس نہیں جا رہے ہیں، بس میں نے فیصلہ کیا کہ یہاں سے تو نکلنا پڑے گا ہر صورت، یہ تو ایک وحشیانہ ماحول ہے، کسی کے پاس میرے درد کا احساس تک نہیں، لیکن ہر شخص میرے حسن کا بھوکا ہے اور مجھے اپنے حوس کا نشانہ بنائے جارہے ہیں، میں نے گروہ سے کہا کہ آپ انہیں دو منٹ بٹھا دیں میں ابھی آئی۔

میں اپنے وہ دو جوڑ کپڑے اور چھوٹا موٹا سامان بھی وہی چھوڑ کہ باہر نکلا، انتہائی زوروں اور مشقت کے بعد باہر کھڑے لوگوں سے جان چھڑوائی کہ میں آرہی ہوں واپس، اور نکلتے ساتھ ہی میں سیدھا رکشے میں بیٹھ گیا۔

رکشے والا کہتا، کہاں جانا ہے ؟ میں نے کہاں مجھے خود نہیں پتا کہ کہاں جانا اور میں نے مختصراً اپنی کہانی سنائی، وہ کہنے لگا یہ تو آپ انتہائی ایک غلط جگہ آئے ہو، چلو میں آپ کو ڈبگری چھوڑ آتا ہوں وہاں آپ کی قدر بھی ہوگی، عزت بھی، اور جنسی زیادتی تو وہاں آپ سے کوئی بھی نہیں کر سکتا، میں سوچے بنا ہی کہنے لگا ہاں چلو، وہی لے چلو۔

ڈبگری پہنچ گئے، وہ مجھے ایک صاف پلیٹ کے اندر لے گئے، وہاں ایک حسین و جمیل، بلکل میرے جیسا جوان بیٹھا تھا، رکشے والا ان سے کہنے لگا کہ جیسے حاجی صاحب آتے ہیں، انہیں ملوا لینا حاجی صاحب سے۔
وہاں مجھے پتا ہی نہیں چلا اور میں گہری نیند سو گیا تھا، اٹھا تو رات کے 10 بج گئے تھے، میرا کولیگ اپنا میک اپ کر رہا تھا اور کھانا آیا، ہم دونوں نے کھانا کھا لیا، اور پھر مجھے حاجی صاحب کے پاس لے گئے ان کے دفتر۔

حاجی صاحب صحیح سوٹ بوٹ، بڑی مونچھیں اور سر پر قراقلی ٹوپی پہنے مناسب شخص لگے، میں نے اپنی پوری کہانی سنائی اور اقبال پلازے کی کہانی بھی ساری سنا دی، اور میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ دوسرے کام مجھ سے نہیں ہونے، مجھے اپنے والدین نے بہت پیار سے پالا ہے، حاجی صاحب نے تسلی دی کہ نہیں ایسا کچھ نہیں ہوگا، میں آپ کو صحیح امیر زادوں، نوابوں اور خانوں کے حجروں میں عزت سے بھیجونگا اور وہاں آپ نے ناچنا اور ان کے گودھ میں اٹھنا بیٹھنا ہوگا بس، وہ سرمایہ دار لوگ ہونگے، وہاں آپ اکیلے بھی نہیں ہونگے، آپ کے ساتھ موسیقی کی پوری ٹیم بھی ہوگی، اور تمھارے ساتھ باقی ناچنے والے خواجہ سرا بھی ہونگے، اور یہ سب کچھ آپ فری میں نہیں کریں گے، یہ لوگ اتنے پیسے پھینکیں گے کہ اٹھانے والا بندہ تھک جائے گا، اور یہ کام روز نہیں ہوگا، کبھی کبھی ہوگا۔ میں نے سانس لی، حاجی صاحب کہنے لگیں کہ لوگ آپ کے جیب میں نمبر بھی چھوڑ جائیں گے، اور آپ کا وطن کے اعلیٰ اور اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں کیساتھ تعلق بھی بن جائے گا۔ یہاں تک کہ پولیس اور انتظامیہ بھی آپ کے تابع ہوگا، یہ سب کچھ میرے لئے بہت عجیب اور حیران کن تھا، لیکن میرے پاس چونکہ اور کوئی راستہ تھا بھی نہیں، سو میں نے دستخط کر دئیے، اور دل کو توڑا بہت سکون مل گیا۔

چھ سال بیت گئے آج بھی حاجی صاحب کے ساتھ ہوں، بہت خوش ہوں، اور بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ تعلقات ہیں، اب بھی سوات کے ایک بڑے خان کے حجرے سے آ رہے ہیں، یہ میرا ڈرائیور ہیں اور یہ میری گاڈی۔

میں نے کہا شہزاد اس کے بعد کبھی گھر کا چکر لگا ہے؟ کہنے لگا ہاں ایک رات امی کو کسی ہمسایہ کے گھر بلایا تھا، انہوں نے بہت پیار کیا، بہت چھوما، روتی رہی لیکن میں نے بہت تسلی دی کہ امی میں اب خوشیوں سے بھری زندگی جی رہا ہوں، آدھی رات کو ہی واپس آگیا۔

میں نے اپنے بھائیوں کیخلاف جائیداد کا حصہ مانگنے کیلئے کیس بھی کرنا تھا، وکلاء سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے کہا کہ قانون میں یہ کیس نہیں چلے گا۔
دوسرا خواجہ سرا بار بار سویٹی کو جانے کا کہہ رہا تھا، شہزاد ہنسنے لگا اور مجھے گلے لگایا، کہنے لگا کہ چلو یہ سب لکھ لو، اور مجھے اس نمبر پر سینڈ بھی کرنا۔ شہزاد نے بار بار کال کی کہ آپ نے میری کہانی لکھ لی ؟ لیکن اپنی مصروفیات کی وجہ سے میں جلد نا لکھ سکا، کل لکھ لی پوری کہانی اور شہزاد کو بھی سینڈ کر دی۔ شکریہ کیلئے سویٹی شہزاد کا فون بھی آیا، کہ اب یہ کہانی میں اپنی بہنوں اور امی تک پہنچاؤں گا۔

15/04/2024
اس عید پر تمام غریبوں اور سفید پوش کی مدد کریں آمین
29/03/2024

اس عید پر تمام غریبوں اور سفید پوش کی مدد کریں آمین

28/03/2024

آفسوس 😢😭 گھر میں کھانے کا کچھ نہیں۔😭
ان غریب لوگوں کا اللہ کے سوا کوئی نہیں
پلیز بھائیوں انکی مدد ضرور کرے۔
میرا رابطہ نمبر ۔03324092009

06/01/2024

عوام اور ٹیکس

Address

Peshawar
28420

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when LÀKKi VīÑ3S posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to LÀKKi VīÑ3S:

Share