26/03/2025
پرنسپل، سٹیپ سکول سسٹم جی ٹی روڈ کیمپس پشاور
محترمہ،
میں انتہائی افسوس اور مایوسی کے ساتھ یہ خط لکھ رہا ہوں کہ آج میری اہلیہ اپنے چھوٹے بچے کے ہمراہ اسکول آئیں تاکہ سالانہ امتحانات کے بعد اس کا سرٹیفکیٹ حاصل کر سکیں۔ لیکن انہیں محض اس بنیاد پر روک دیا گیا کہ ایک ماہ کی فیس باقی ہے، اور یہ کہ پہلے فیس ادا کریں، تب ہی سرٹیفکیٹ دیا جائے گا۔
یہ رویہ نہ صرف غیر پیشہ ورانہ ہے بلکہ ایک ماں اور اس کے معصوم بچے کے لیے ذہنی اذیت کا باعث بھی بنا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ میں سالانہ 1,10,000 روپے فیس ادا کر رہا ہوں، جس میں وہ تین مہینے بھی شامل ہیں جن میں میرا بچہ اسکول آتا ہی نہیں۔ اس کے باوجود، اسکول انتظامیہ نے کسی لچک یا پیشہ ورانہ اخلاقیات کا مظاہرہ کیے بغیر ایک خاتون کو محض ایک کاغذ کے ٹکڑے کے لیے یوں واپس بھیج دیا جیسے وہ کوئی ناگہانی درخواست لے کر آئی ہو۔
اگر یہ فیصلہ اسکول مالکان کا ہے تو انہیں اپنے رویے پر ازسرِنو غور کرنا چاہیے کیونکہ اس طرح کے غیر منطقی اور غیر لچکدار اصول کسی بھی ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اور اگر یہ فیصلہ اسکول کے عملے کا تھا تو پھر مالکان کو ایسے عملے کے انتخاب پر نظر ثانی کرنی چاہیے جو والدین اور طلبہ کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنا جانتا ہو۔
ہمیں اس بات کا افسوس نہیں کہ ہمیں سرٹیفکیٹ نہیں دیا گیا، بلکہ ہمیں اس رویے پر افسوس ہے جو ایک ماں کو اس کے معصوم بچے کے ساتھ برداشت کرنا پڑا۔ کیا ایک ماں کو اس طرح واپس بھیج دینا، وہ بھی غیر شائستہ انداز میں، کسی تعلیمی ادارے کے شایانِ شان ہے؟ کیا اسکول انتظامیہ کی بنیادی ذمہ داری بچوں اور والدین کی عزتِ نفس کا خیال رکھنا نہیں؟
ہم امید کرتے ہیں کہ اسکول انتظامیہ اس رویے پر غور کرے گی اور ایسے اقدامات کرے گی جو والدین کے اعتماد کو بحال کر سکیں، ورنہ والدین کے لیے یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑے گا کہ آیا وہ اپنے بچوں کو ایسے ادارے میں تعلیم دلوائیں جہاں کاروباری مفادات کو اخلاقیات اور عزتِ نفس پر فوقیت دی جاتی ہے۔
ایک فکر مند والد