31/10/2025
قیدی نمبر 804 کی ریاست
مسرت اللہ جان
کبھی کبھی لگتا ہے کہ خیبر پختونخواہ کی سیاست ایک ٹی وی ڈرامہ ہے، جس کے کردار بدلتے نہیں، صرف ڈائیلاگ بدل جاتے ہیں۔ نیا سیزن، پرانی کہانی، اور نیا نعرہ۔ پی ٹی آئی کی حکومت کا سفر اگر کسی تاریخ دان کے سپرد کیا جائے تو وہ شاید ہسٹری نہیں بلکہ کامیڈی لکھ دے۔
2013 سے 2018 تک یہ دور تھا "نواز شریف ہٹاؤ تحریک" کا۔ خیبر پختو نخواہ کی حکومت کو ایسا لگا جیسے ان کی اصل ذمہ داری پشاور یا سوات کے عوام نہیں بلکہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دینا ہے۔ صوبے کے بجٹ، سکول، اسپتال، کھیل کے میدان، سب کسی ’اگلے ہفتے‘ کے وعدے میں ٹال دیے گئے۔
پشاور میں مچھر خوشی سے ناچ رہے تھے، کیونکہ صحت کارڈ سے زیادہ تو مچھر اسپرے ناپید تھا۔
لیکن دھرنے کا نعرہ تھا "گھر جاؤ نواز شریف!"
سو پورا صوبہ چائے کے ہوٹلوں پر یہی بحث کرتا کہ نواز گیا یا نہیں۔
پھر 2018 سے 2023 تک، حکومت تو اپنی تھی، وزیراعظم بھی اپنا تھا، لیکن کام پھر بھی کسی اور کا تھا۔ کبھی "واسکٹ" موضوعِ بحث بن جاتی، کبھی اقوام متحدہ کی تقریر۔ ایک وقت آیا کہ پوری قوم نے سوچا شاید اقوام متحدہ میں وزیراعظم نے کشمیر آزاد کروا لیا ہے، کیونکہ ملک میں بجلی، گیس اور آٹا تو پہلے ہی آزادانہ غائب تھے۔
اس دوران خیبر پختونخواہ کے وزراء ایسے خوش تھے جیسے کسی کو وظیفے پر بھیج دیا گیا ہو: کام نہیں، بس ٹویٹ کر دو۔
پھر آیا 2024 اور نیا سیزن شروع ہوا — عنوان: قیدی نمبر 804 کی رہائی۔ اب صوبائی حکومت کا ایجنڈا، ترقیاتی بجٹ، یا نوجوانوں کے روزگار نہیں، بس روزانہ ایک ہی کام: “قیدی کب رہا ہوگا؟” کوئی افسر فائل پر دستخط کرنے سے پہلے دعا مانگتا ہے کہ شاید آج رہائی ہو جائے،
کوئی ایم پی اے صبح وٹس ایپ کھول کر دیکھتا ہے، “کیا آج جلسے میں کوئی نیا نعرہ آیا؟” یوں لگتا ہے کہ صوبے کی قسمت بھی جیل کے شیڈول سے بندھی ہوئی ہے۔
پشاور میں سڑکیں اب بھی ادھوری ہیں، لیکن سوشل میڈیا پر بحث مکمل۔ پرانے زمانے میں لوگ “نالی اور سڑک” کا وعدہ سنتے تھے، اب سننے کو ملتا ہے “رہائی اور جلسہ”۔ اگر کوئی شہری پوچھ بیٹھے کہ بھائی، اسپتال میں دوائی کیوں نہیں؟ تو جواب ملتا ہے “پہلے قیدی آزاد ہو، پھر سب بنے گا” خیبر پختونخواہ میں اب منصوبے نہیں، صرف میمز بنتے ہیں۔ کبھی کسی وزیر کی ویڈیو وائرل، کبھی کسی کے بیٹے کا ٹینڈر۔ کوئی وزیر کھیلوں کا ہے تو اس کا کھیل صرف سیاست ہے، کوئی تعلیم کا وزیر ہے تو اس کے بیان میں علم سے زیادہ لسانی ٹیسٹ ہوتا ہے۔
عوام حیران ہیں کہ آخر صوبے کا اصل مسئلہ کیا ہے — مہنگائی، بیروزگاری یا
قیدی نمبر 804 کی بندش؟2013 میں تبدیلی کا نعرہ تھا، 2018 میں مدینہ ریاست کا خواب، اور 2024 میں امید کی آخری قسط: "جیل توڑ دوں گا"۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعی رہائی ہو بھی جائے تو پھر نیا بیانیہ کیا ہوگا؟
کیونکہ پچھلے دس سالوں میں ایک عادت سی بن گئی ہے — کسی نہ کسی کے خلاف نعرہ،کسی نہ کسی پر الزام، کسی نہ کسی کو غدار قرار دینا۔ یہ سیاست نہیں، ایک مسلسل تماشہ ہے جس کا ٹکٹ عوام ہر مہنگے بل کے ساتھ ادا کرتی ہے۔
پشاور کی بس ریپڈ ٹرانزٹ اب بھی “ریپڈ” نہیں، تعلیم کا بجٹ اب بھی چائے کے بسکٹوں میں خرچ ہوتا ہے، اور نوجوان اب بھی نوکری کے بجائے پوسٹ شیئر کرنے میں مصروف ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہر بندہ یا تو ترجمان ہے یا دانشور سڑک پر گڑھا نظر آئے تو لوگ بلدیہ کو نہیں بلکہ ٹویٹر کو ٹیگ کرتے ہیں۔ پھر کوئی یہ بھی بتائے کہ خیبر پختونخواہ کا اصل مستقبل کہاں ہے؟ کیا ہم اگلے الیکشن میں بھی نعرے اور نعروں کے ترجمان ہی چنیں گے؟ یا کبھی سوچیں گے کہ اسکول میں ماسٹر کیوں نہیں، اسپتال میں ڈاکٹر کیوں نہیں، اور کھیل کے میدانوں میں کھلاڑی کیوں غائب ہیں؟
سیاست دان تو ہر دور میں قیدی بنے ہیں — کبھی جیل کے، کبھی اقتدار کے،لیکن عوام ہمیشہ آزادی کے انتظار میں رہتی ہے۔ قیدی نمبر 804 اگر رہا بھی ہو جائے، تو کیا خیبر پختونخواہ کے نوجوان آزاد ہو جائیں گے؟ کیا ان کی قسمت کی فائلوں پر بھی کوئی دستخط کرے گا؟ یا ہم اگلے پانچ سال “رہائی کے بعد کی تقریر” سنتے رہیں گے؟ ابھی تک یہی لگتا ہے کہ حکومت کا کام حکمرانی نہیں بلکہ تفسیرِ رہائی ہے۔
جس دن جیل کا دروازہ کھلے گا، صوبائی اسمبلی میں شادیاں ہوں گی، کسی وزیر کی آنکھوں میں آنسو ہوں گے، اور عوام کے ہاتھ میں پھر وہی بجلی کا بل۔
سیاسی تاریخ کبھی کبھی مذاق بن جاتی ہے، لیکن جب مزاح حقیقت سے زیادہ حقیقت لگنے لگے، تو سمجھو کہ مزاحیہ نہیں، المیہ وقت آ گیا ہے۔ خیبر پختونخواہ کے عوام اب شاید اس سیاسی ڈرامے کا اگلا ایپی سوڈ نہیں، بلکہ نیا اسکرپٹ چاہتے ہیں جس میں کسی قیدی کا نہیں، کسی مزدور، کسی طالب علم، کسی کھلاڑی کا ذکر ہو۔
پچھلے بارہ سالوں میں تبدیلی کے نعروں سے لے کر واسکٹ اور قیدی تک، سب کچھ بدلا مگر صوبے کا حال نہیں۔ اب وقت ہے کہ خیبر پختونخواہ کسی ایک لیڈر کے انجام پر نہیں، اپنی شروعات پر سوچے۔
شاید یہی اصل آزادی ہے۔