Nexuspak

Nexuspak Digital Creator ,

31/10/2025

قیدی نمبر 804 کی ریاست

مسرت اللہ جان

کبھی کبھی لگتا ہے کہ خیبر پختونخواہ کی سیاست ایک ٹی وی ڈرامہ ہے، جس کے کردار بدلتے نہیں، صرف ڈائیلاگ بدل جاتے ہیں۔ نیا سیزن، پرانی کہانی، اور نیا نعرہ۔ پی ٹی آئی کی حکومت کا سفر اگر کسی تاریخ دان کے سپرد کیا جائے تو وہ شاید ہسٹری نہیں بلکہ کامیڈی لکھ دے۔

2013 سے 2018 تک یہ دور تھا "نواز شریف ہٹاؤ تحریک" کا۔ خیبر پختو نخواہ کی حکومت کو ایسا لگا جیسے ان کی اصل ذمہ داری پشاور یا سوات کے عوام نہیں بلکہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دینا ہے۔ صوبے کے بجٹ، سکول، اسپتال، کھیل کے میدان، سب کسی ’اگلے ہفتے‘ کے وعدے میں ٹال دیے گئے۔
پشاور میں مچھر خوشی سے ناچ رہے تھے، کیونکہ صحت کارڈ سے زیادہ تو مچھر اسپرے ناپید تھا۔
لیکن دھرنے کا نعرہ تھا "گھر جاؤ نواز شریف!"
سو پورا صوبہ چائے کے ہوٹلوں پر یہی بحث کرتا کہ نواز گیا یا نہیں۔

پھر 2018 سے 2023 تک، حکومت تو اپنی تھی، وزیراعظم بھی اپنا تھا، لیکن کام پھر بھی کسی اور کا تھا۔ کبھی "واسکٹ" موضوعِ بحث بن جاتی، کبھی اقوام متحدہ کی تقریر۔ ایک وقت آیا کہ پوری قوم نے سوچا شاید اقوام متحدہ میں وزیراعظم نے کشمیر آزاد کروا لیا ہے، کیونکہ ملک میں بجلی، گیس اور آٹا تو پہلے ہی آزادانہ غائب تھے۔
اس دوران خیبر پختونخواہ کے وزراء ایسے خوش تھے جیسے کسی کو وظیفے پر بھیج دیا گیا ہو: کام نہیں، بس ٹویٹ کر دو۔

پھر آیا 2024 اور نیا سیزن شروع ہوا — عنوان: قیدی نمبر 804 کی رہائی۔ اب صوبائی حکومت کا ایجنڈا، ترقیاتی بجٹ، یا نوجوانوں کے روزگار نہیں، بس روزانہ ایک ہی کام: “قیدی کب رہا ہوگا؟” کوئی افسر فائل پر دستخط کرنے سے پہلے دعا مانگتا ہے کہ شاید آج رہائی ہو جائے،
کوئی ایم پی اے صبح وٹس ایپ کھول کر دیکھتا ہے، “کیا آج جلسے میں کوئی نیا نعرہ آیا؟” یوں لگتا ہے کہ صوبے کی قسمت بھی جیل کے شیڈول سے بندھی ہوئی ہے۔

پشاور میں سڑکیں اب بھی ادھوری ہیں، لیکن سوشل میڈیا پر بحث مکمل۔ پرانے زمانے میں لوگ “نالی اور سڑک” کا وعدہ سنتے تھے، اب سننے کو ملتا ہے “رہائی اور جلسہ”۔ اگر کوئی شہری پوچھ بیٹھے کہ بھائی، اسپتال میں دوائی کیوں نہیں؟ تو جواب ملتا ہے “پہلے قیدی آزاد ہو، پھر سب بنے گا” خیبر پختونخواہ میں اب منصوبے نہیں، صرف میمز بنتے ہیں۔ کبھی کسی وزیر کی ویڈیو وائرل، کبھی کسی کے بیٹے کا ٹینڈر۔ کوئی وزیر کھیلوں کا ہے تو اس کا کھیل صرف سیاست ہے، کوئی تعلیم کا وزیر ہے تو اس کے بیان میں علم سے زیادہ لسانی ٹیسٹ ہوتا ہے۔
عوام حیران ہیں کہ آخر صوبے کا اصل مسئلہ کیا ہے — مہنگائی، بیروزگاری یا

قیدی نمبر 804 کی بندش؟2013 میں تبدیلی کا نعرہ تھا، 2018 میں مدینہ ریاست کا خواب، اور 2024 میں امید کی آخری قسط: "جیل توڑ دوں گا"۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعی رہائی ہو بھی جائے تو پھر نیا بیانیہ کیا ہوگا؟
کیونکہ پچھلے دس سالوں میں ایک عادت سی بن گئی ہے — کسی نہ کسی کے خلاف نعرہ،کسی نہ کسی پر الزام، کسی نہ کسی کو غدار قرار دینا۔ یہ سیاست نہیں، ایک مسلسل تماشہ ہے جس کا ٹکٹ عوام ہر مہنگے بل کے ساتھ ادا کرتی ہے۔

پشاور کی بس ریپڈ ٹرانزٹ اب بھی “ریپڈ” نہیں، تعلیم کا بجٹ اب بھی چائے کے بسکٹوں میں خرچ ہوتا ہے، اور نوجوان اب بھی نوکری کے بجائے پوسٹ شیئر کرنے میں مصروف ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہر بندہ یا تو ترجمان ہے یا دانشور سڑک پر گڑھا نظر آئے تو لوگ بلدیہ کو نہیں بلکہ ٹویٹر کو ٹیگ کرتے ہیں۔ پھر کوئی یہ بھی بتائے کہ خیبر پختونخواہ کا اصل مستقبل کہاں ہے؟ کیا ہم اگلے الیکشن میں بھی نعرے اور نعروں کے ترجمان ہی چنیں گے؟ یا کبھی سوچیں گے کہ اسکول میں ماسٹر کیوں نہیں، اسپتال میں ڈاکٹر کیوں نہیں، اور کھیل کے میدانوں میں کھلاڑی کیوں غائب ہیں؟

سیاست دان تو ہر دور میں قیدی بنے ہیں — کبھی جیل کے، کبھی اقتدار کے،لیکن عوام ہمیشہ آزادی کے انتظار میں رہتی ہے۔ قیدی نمبر 804 اگر رہا بھی ہو جائے، تو کیا خیبر پختونخواہ کے نوجوان آزاد ہو جائیں گے؟ کیا ان کی قسمت کی فائلوں پر بھی کوئی دستخط کرے گا؟ یا ہم اگلے پانچ سال “رہائی کے بعد کی تقریر” سنتے رہیں گے؟ ابھی تک یہی لگتا ہے کہ حکومت کا کام حکمرانی نہیں بلکہ تفسیرِ رہائی ہے۔
جس دن جیل کا دروازہ کھلے گا، صوبائی اسمبلی میں شادیاں ہوں گی، کسی وزیر کی آنکھوں میں آنسو ہوں گے، اور عوام کے ہاتھ میں پھر وہی بجلی کا بل۔

سیاسی تاریخ کبھی کبھی مذاق بن جاتی ہے، لیکن جب مزاح حقیقت سے زیادہ حقیقت لگنے لگے، تو سمجھو کہ مزاحیہ نہیں، المیہ وقت آ گیا ہے۔ خیبر پختونخواہ کے عوام اب شاید اس سیاسی ڈرامے کا اگلا ایپی سوڈ نہیں، بلکہ نیا اسکرپٹ چاہتے ہیں جس میں کسی قیدی کا نہیں، کسی مزدور، کسی طالب علم، کسی کھلاڑی کا ذکر ہو۔

پچھلے بارہ سالوں میں تبدیلی کے نعروں سے لے کر واسکٹ اور قیدی تک، سب کچھ بدلا مگر صوبے کا حال نہیں۔ اب وقت ہے کہ خیبر پختونخواہ کسی ایک لیڈر کے انجام پر نہیں، اپنی شروعات پر سوچے۔
شاید یہی اصل آزادی ہے۔

28/10/2025

دریائے کنڑ کا بہاو¿: پانی، سیاست اور طاقت کا نیا محاذ”

مسرت اللہ جان

آج کل افغانستان میں دریائے کنڑ پر ڈیم کی تعمیر کی خبریں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ طالبان حکومت بھارت کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کا پانی روکنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ بظاہر یہ ایک عام سیاسی بیان لگتا ہے، مگر اس کے پیچھے چھپے محرکات، خطے کی آبی سیاست اور اس کے ممکنہ اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مسئلہ صرف پانی کا نہیں بلکہ مستقبل کی علاقائی طاقت کے توازن، ماحولیات، اور خطے کے امن سے جڑا ہوا ہے۔

سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دریائے کنڑ دراصل کوئی الگ دریا نہیں، بلکہ پاکستان کے ضلع چترال سے نکلنے والے دریائے چترال—جسے بعد میں دریائے کابل کہا جاتا ہے—کی ایک شاخ ہے۔ یہ دریا پاکستان سے نکل کر افغانستان میں داخل ہوتا ہے، وہاں دریائے کابل سے ملتا ہے، اور پھر دوبارہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے گزرتے ہوئے دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسے “shared river system” کہا جاتا ہے۔ اس کے پانی پر افغانستان اور پاکستان دونوں کا انحصار ہے۔ چترال، کنڑ، ننگرہار، لغمان، اور پشاور و نوشہرہ جیسے علاقے اس دریا کے بہاو¿ سے جڑے ہوئے ہیں۔ یعنی اگر ایک ملک پانی کے بہاو¿ میں مداخلت کرے تو دوسرے ملک کے ماحولیاتی اور معاشی نظام پر فوری اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

افغان طالبان کی جانب سے دریائے کنڑ پر ڈیم بنانے کے اعلانات اس وقت سامنے آئے جب بھارت اور افغانستان کے درمیان دوبارہ تکنیکی تعاون کی باتیں ہونے لگیں۔ بھارت ماضی میں افغانستان میں متعدد آبی منصوبے مکمل کر چکا ہے، جن میں سلما ڈیم—جسے بعد میں “انڈو افغان فرینڈشپ ڈیم” کہا گیا—نمایاں مثال ہے۔تاہم کنڑ ڈیم ایک بالکل مختلف اور بڑا منصوبہ ہے۔ اس کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری، اعلیٰ انجینئرنگ مہارت، عالمی مالیاتی اداروں کی منظوری، اور کئی برسوں پر محیط تعمیراتی عمل درکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ طالبان حکومت کے پاس نہ وہ سرمایہ ہے، نہ تکنیکی ماہرین، نہ بین الاقوامی حمایت۔ عالمی مالیاتی ادارے پہلے ہی طالبان حکومت کے ساتھ کسی بڑے معاہدے کے لیے تیار نہیں۔اس لیے امکان یہی ہے کہ دریائے کنڑ پر ڈیم کی بات فی الحال ایک سیاسی نعرہ یا بھارت کی سفارتی چال سے زیادہ کچھ نہیں۔

فرض کریں کہ طالبان حکومت کسی طرح اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو اس کے نتائج خطے میں بڑے ماحولیاتی اور سفارتی بحران کو جنم دے سکتے ہیں۔ دریائے کنڑ سے نکلنے والا پانی افغانستان کے مشرقی صوبوں کی زراعت اور توانائی کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اگر پانی ذخیرہ کرنے کے عمل میں توازن نہ رکھا گیا تو افغانستان کے ہی کئی علاقے خشک سالی اور زرعی تباہی کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔دوسری طرف، پاکستان بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھے گا۔ اگر اسلام آباد کو محسوس ہوا کہ کابل کی حکومت جان بوجھ کر پانی روک رہی ہے، تو وہ چترال کے منبع پر انجینئرنگ کے ذریعے بہاو¿ کو متبادل راستے پر موڑ سکتا ہے۔ ٹنل یا بائی پاس کے ذریعے بہاو¿ میں تبدیلی ممکن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ افغانستان کے مشرقی علاقوں—خصوصاً کنڑ، ننگرہار، لغمان اور کابل—میں پانی کی کمی پیدا ہو جائے گی، جس کے نتیجے میں زرعی پیداوار متاثر، خوراک کی قلت بڑھے گی، اور قحط کی صورتحال جنم لے سکتی ہے۔افغانستان جیسے ملک میں جہاں پہلے ہی معیشت تباہ حال ہے، ایسی صورتحال خانہ جنگی اور اندرونی بدامنی کا باعث بن سکتی ہے۔

یہ تنازعہ صرف پانی کے بہاو¿ تک محدود نہیں۔ یہ دراصل جنوبی ایشیا میں طاقت کے نئے توازن کا حصہ بن چکا ہے۔ بھارت اور پاکستان پہلے ہی سندھ طاس معاہدے کے تحت مستقل کشمکش میں ہیں۔ اب اگر افغانستان کو بھی اس “پانی کی جنگ” میں شامل کر لیا گیا، تو پورا خطہ ماحولیاتی بحران اور سیاسی عدم استحکام کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے۔بھارت کے لیے افغانستان میں ایسے منصوبے محض ترقیاتی نہیں بلکہ اس کے لیے ایک اسٹریٹجک ہتھیار ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ اگر افغانستان کے دریاوں پر کنٹرول حاصل کر لیا جائے، تو پاکستان کے دریائی نظام پر دباو¿ بڑھایا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر دریائے کابل اور اس کی شاخیں پاکستان کے پانی کے اہم ذرائع میں شامل ہیں۔طالبان حکومت شاید اس دباو¿ کو مکمل طور پر سمجھ نہیں رہی، یا پھر جان بوجھ کر بھارت کے سفارتی جال میں پھنس رہی ہے۔ کیونکہ اگر پاکستان نے اس کے ردعمل میں کوئی سخت قدم اٹھایا تو اس کا نقصان طالبان حکومت سے زیادہ افغان عوام کو ہوگا۔

دریائے کنڑ اور دریائے کابل کے پانی پر صرف زراعت ہی نہیں بلکہ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بھی منحصر ہیں۔ خیبر پختونخوا کے کئی ہائیڈرو پاور اسٹیشن اسی نظام سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔ اگر پانی کی فراہمی میں کمی واقع ہوئی تو پاکستان کے شمالی علاقوں میں بجلی کی پیداوار متاثر ہوگی، جبکہ افغانستان میں زرعی پیداوار تباہ ہو سکتی ہے۔یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ پانی کسی ملک کی حدود کا احترام نہیں کرتا۔ اگر ایک ملک بہاو¿ کو روکنے کی کوشش کرے تو قدرت خود کسی نہ کسی انداز میں توازن بحال کرتی ہے—کبھی سیلاب کی صورت میں، کبھی خشک سالی کی صورت میں۔ لہٰذا پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی سوچ خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔

اگر افغانستان واقعی اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنا چاہتا ہے تو اسے ڈیم سیاست کے بجائے مشترکہ آبی انتظام (Joint Water Management) کی طرف جانا چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی باقاعدہ واٹر ٹریٹی نہیں، حالانکہ دونوں ممالک کے دریا ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ایک مشترکہ ریجنل واٹر ایگریمنٹ نہ صرف ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنا سکتا ہے بلکہ دونوں ملکوں کے لیے اقتصادی فائدہ مند بھی ثابت ہوگا۔ مشترکہ منصوبوں کے ذریعے بجلی کی پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے، زراعت کو جدید نظام سے جوڑا جا سکتا ہے، اور سیلابوں کے خطرات کم کیے جا سکتے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ چین یا وسطی ایشیائی ممالک کی مدد سے کوئی ریجنل واٹر کوریڈور تشکیل دیا جائے، جس سے خطے کے تمام ممالک کو توانائی اور آبپاشی کے فوائد حاصل ہوں۔

طالبان حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پانی کے بہاو¿ کو روکنے کے دعوے وقتی سیاسی فائدہ تو دے سکتے ہیں مگر طویل المدت نقصان انہی کے عوام کو اٹھانا پڑے گا۔ افغانستان پہلے ہی خشک سالی، ماحولیاتی تباہی، اور خوراک کی کمی جیسے بحرانوں سے دوچار ہے۔ ایسے میں اگر وہ اپنے ہمسائے کے ساتھ آبی دشمنی مول لیتا ہے تو یہ خودکشی کے مترادف ہوگا۔پاکستان کے لیے بھی یہ وقت جذباتی ردعمل کا نہیں بلکہ حکمت عملی کا ہے۔ اسلام آباد کو چاہیے کہ کابل کے ساتھ تکنیکی مذاکرات شروع کرے، آبی اعداد و شمار کا تبادلہ کرے، اور ایک مستقل مکینزم قائم کرے تاکہ افواہوں اور پروپیگنڈے کے بجائے حقائق کی بنیاد پر فیصلے کیے جا سکیں۔ دریائے کنڑ کا تنازعہ دراصل ایک بڑے سبق کی یاد دہانی ہے—کہ خطے میں اب جنگیں بندوق سے نہیں بلکہ پانی سے لڑی جائیں گی۔ اگر پاکستان اور افغانستان نے دانشمندی سے کام نہ لیا تو آنے والی نسلیں پانی کی بوند بوند کو ترسیں گی۔

26/10/2025

یاسین ملک کا حلف نامہ — جب جدوجہد کے چہرے پر سوالیہ نشان لگ گیا

مسرت اللہ جان

کشمیر کی تاریخ میں الزامات اور سازشوں کی کمی کبھی نہیں رہی، مگر اس بار جو تنازعہ کھڑا ہوا ہے، وہ صرف ایک فرد پر نہیں بلکہ پوری تحریکِ آزادی پر سوال کھڑا کر رہا ہے۔ یاسین ملک، جو کبھی بھارتی جیلوں میں تشدد کا شکار رہنے والے ایک ’’ہیرو‘‘ مانے جاتے تھے، آج ایک ایسے مبینہ حلف نامے کے باعث ’’شک کے قیدی‘‘ بن چکے ہیں۔ بھارتی میڈیا نے شور مچایا ہے کہ یاسین ملک نے اپنی 84 صفحات کی درخواست میں خود تسلیم کیا کہ وہ 2006 میں بھارتی خفیہ ادارے کے کہنے پر حافظ سعید سے ملے۔
اور ستم ظریفی دیکھیے کہ بھارت نے اسی بیان کو اب اپنے بیانیے کے ثبوت کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا ہے

بھارت ہمیشہ کشمیر کی تحریک کو “بیرونی اثر” قرار دیتا آیا ہے۔ کبھی کہتا ہے کہ سب کچھ پاکستان چلاتا ہے، کبھی دعویٰ کرتا ہے کہ حریت رہنما دوہرا کھیل کھیل رہے ہیں ۔اب یہ نیا موڑ اُن کے ہاتھ میں ایک نیا ہتھیار ہے۔ بھارتی میڈیا اسے ایسے پیش کر رہا ہے جیسے کشمیر کی ساری تحریک بھارتی ایجنسیوں کی منصوبہ بندی کا حصہ تھی۔ یہ وہی بھارت ہے جو پچھلے پچھتر برس سے کشمیر میں نہ بندوق سے جیت سکا، نہ دلیل سے۔
اب وہ کاغذ کے ایک مبینہ حلف نامے سے پوری جدوجہد کو مشکوک بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ “عدالتی جنگ” کم، اور “سیاسی نفسیات” کی جنگ زیادہ لگتی ہے۔

یاسین ملک کے حامی کہتے ہیں کہ وہ سیاسی مکالمے کے لیے بھارتی حکام سے رابطے میں رہتے تھے، تاکہ بندوق کے بجائے مذاکرات کی راہ نکالی جا سکے لیکن ناقدین کے نزدیک یہی ’’لچک‘‘ ان کے لیے زہرِ قاتل بن گئی۔ جب کوئی آزادی کا رہنما ریاستی مشینری سے بات کرے تو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ’’عملی‘‘ ہے۔لیکن جب وہی بات دشمن کے بیانیے کے مطابق رپورٹ ہو جائے، تو وہی عمل ’’غداری‘‘ کہلاتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں کشمیر کی تحریک کمزور پڑی۔ کیونکہ وہاں رہنما تو بہت ہیں، مگر پالیسی ایک نہیں۔ کوئی پاکستان کے قریب، کوئی بھارت سے مذاکرات کے قائل، کوئی مکمل آزادی کا حامی۔
یہی اندرونی تقسیم اب دشمن کے ہاتھ میں سیاسی ہتھیار بن گئی ہے۔

سیاست میں گولی سے بڑا ہتھیار ’’شک‘‘ ہوتا ہے۔
جب شک پیدا ہو جائے تو دشمن کو فائر کھولنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یاسین ملک پر لگنے والے الزامات نے کشمیر کے نوجوانوں میں یہی زہر گھول دیا ہے۔
جنہوں نے برسوں تک جیلوں، گولیوں، اور کرفیو کے سائے میں جدوجہد کی،
وہ اب سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا ہمارے رہنما واقعی وہی ہیں جو نظر آتے ہیں مشعال ملک کی تردید اپنی جگہ، مگر یہ حقیقت کہ بھارتی میڈیا ان کی ذاتی زندگی اور کردار کو نشانہ بنا رہا ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارت کا مقصد سچائی نہیں بلکہ ’’اعتماد کا قتل‘‘ ہے۔ اور جب اعتماد مر جائے، تو تحریک خود بخود دم توڑ دیتی ہے۔

بھارتی عدالتوں نے یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سنائی، مگر اب اُنہی عدالتوں کے کاغذوں سے بھارت ایک نیا بیانیہ گھڑ رہا ہے۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں۔ بھارت میں سیاسی مقدمات ہمیشہ پروپیگنڈا کا ذریعہ رہے ہیں۔ چاہے وہ سید علی گیلانی ہوں، شبیر شاہ یا آسیہ اندرابی — سب کو کبھی دہشت گرد، کبھی پاکستانی ایجنٹ کہہ کر داغدار کرنے کی کوشش کی گئی۔ یاسین ملک کا کیس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار بھارت نے ’’قانون‘‘ کے پردے میں نفسیاتی وار کیا ہے۔
کیونکہ اگر وہ یہ تاثر قائم کر دے کہ کشمیر کے اپنے رہنما بھارتی ایجنسیوں کے مشورے پر چلتے تھے،
تو پھر تحریکِ آزادی کی بنیاد خود بخود ہل جاتی ہے۔

پاکستان میں اس خبر پر ردِعمل بہت محدود رہا۔
چند بیانات، چند ٹویٹس، اور بس۔ نہ وزارتِ خارجہ نے واضح مؤقف دیا، نہ کشمیر کمیٹی نے کوئی باضابطہ بیان۔ گویا یہ معاملہ بھی دیگر حساس موضوعات کی طرح ’’خاموشی کی نذر‘‘ ہو گیا۔لیکن یہی خاموشی نقصان دہ ہے۔ کیونکہ جب مخالف ریاست ایک بیانیہ چلاتی ہے اور آپ کی طرف سے کوئی مدلل جواب نہیں آتا، تو دنیا سمجھتی ہے کہ الزام میں وزن ہے۔ یہی وہ خلا ہے جسے بھارت عالمی سطح پر بھرنے کی کوشش کر رہا ہے — کہ کشمیر کی جدوجہد دراصل ایک "پالیسی ڈرامہ" تھی، جس کے رہنما کبھی نئی دہلی کے دروازے پر دستک دیتے، کبھی اسلام آباد کے۔

یہ سارا معاملہ صرف ایک عدالت یا بیان کا نہیں —
یہ اُس تحریک کا بحران ہے جو اب نظریے سے زیادہ شخصیت پرستی میں بدل چکی ہے۔جب قیادت شفاف نہ رہے، جب عوامی اعتماد متزلزل ہو، تو تحریکیں نعرے کے بجائے سوال بن جاتی ہیں۔ آج کشمیر میں یہی سوال گردش کر رہا ہے:
کیا ہماری قیادت واقعی آزاد ہے؟ یا ہر رہنما کسی نہ کسی طاقت کے مفاد میں بندھا ہوا ہے؟

یاسین ملک کے حلف نامے نے چاہے حقیقت کا کوئی ٹکڑا دکھایا ہو یا سیاسی مفاد کا،اس کا اثر کشمیر کی تحریک پر گہرا ہے۔ یہ معاملہ اس قدر پیچیدہ ہو چکا ہے کہ اب کوئی بات صاف نہیں لگتی۔ کشمیر کے نوجوان جنہیں کبھی یاسین ملک، گیلانی یا میر واعظ پر فخر تھا،
اب وہی نوجوان کہہ رہے ہیں: ’’ہمیں نہیں معلوم سچ کون بول رہا ہے۔‘‘ یہ وہ لمحہ ہے جسے دشمن “فتح” سمجھتا ہے۔ کیونکہ جب قوم شک میں مبتلا ہو جائے،
تو دشمن کو صرف خاموش تماشائی بننا پڑتا ہے۔ یاسین ملک جسمانی طور پر تہاڑ جیل میں ہیں،مگر اصل قید تو اُس اعتماد کی ہے جو اب پورے کشمیر میں قید ہو چکا ہے۔ اور اعتبار جب قید ہو جائے، تو آزادی صرف ایک نعرہ رہ جاتی ہے۔

24/10/2025

وزارتیں کہاں ہیں؟ وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ کی ہنسی

مسرت اللہ جان

گذشتہ روز ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وزیراعلی خیبرپختونخواہ اڈیالہ جیل کے باہر بیٹھ کراحتجاج کررہے ہیں ان سے ایک صحافی سوال کرتا ہے کہ آپ کی وزارتیں نہیں تو کام کیسے چلے گا تو وزیراعلی خیبرپختونخواہ بجائے جواب دینے کے مسکراتے رہے.لوگ پوچھ رہے ہیں وزارتیں کب ملیں گی؟ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل افریدی نے مسکرا تے رہے کہ جیسے یہ دنیا کی سب سے معمولی بات ہو۔ مسکراہٹ ایسی کہ اگر چائے کے کپ پر لگ جاتی تو کپ بھی آرام سے گرم نظر آتا۔

یہاں معاملہ عام نہیں۔ جب ایک صوبے کی کابینہ غائب ہو اور وزیراعلیٰ ہر دوسرے دن اسلام آباد اڈیالہ کی جانب روانہ ہو، تو عوام کے ذہن میں الفاظ خود جم کر کہنے لگتے ہیں: کابینہ کہاں ہے، وزارتیں کہاں ہیں، اور یہ لوگ ہمیں کس کے لیے منتخب کرواتے ہیں؟ یہ وہی قوم ہے جس نے ووٹ کیا، امید کی، اور پھر پایا کہ اسمبلی کم، رازداروں کی محفل زیادہ ہے۔وزیراعلیٰ کا اڈیالہ جانا اب ایک عمومی سی بات بن گئی ہے۔ پہلے لوگ لیڈروں کو جلسوں اور پبلک پروگراموں میں دیکھنے کے عادی تھے، اب کچھ لوگ انہیں اڈیالہ میں کھڑے دیکھ کر کہتے ہیں کہ وہ بھی عوام کی طرح جینے لگے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عوام وہاں کھانا بانٹنے کی امید رکھتے ہیں اور لیڈر وہاں اپنی صفائی کے جواز تلاش کرتے ہیں۔ یہاں مذاق نہیں، حقیقت یہی ہے کہ کچھ لوگ طاقت کے چمکتے ہوئے حصوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، اور کچھ لوگ اسی روشنی میں اپنی کار تول کر لیتے ہیں۔

بعض اوقات ہمارے لیڈر اتنے مصروف دکھائی دیتے ہیں کہ وہ سوئچ آن کیے بغیر ہی لگڑری گاڑی پر بیٹھ کر کسی ریستوران کا رخ کر لیتے ہیں۔ سوال سادہ ہے: اگر وزارتیں اتنی ضروری نہیں تو پھر ان کی گاڑیاں اور سرکاری ڈرائیور کیوں؟ عوام کہتے ہیں، اگر وزارتیں نہیں دیں گی تو کم از کم گاڑیاں واپس لوٹ لو تا کہ بیوہ دادی کے گھر جانے والا جنازہ بھی بروقت نکل سکے۔ چائے کی دکان والے بھی کہتے ہیں کہ سرکاری گاڑیوں کی واپسی سے ہمیں بھی فائدہ ہوگا، کم از کم ان گاڑیوں کے سامنے خطبے کم ہوں گے اور چائے کی پیالی میں سکون زیادہ ہوگا۔

یہاں ایک دلچسپ مشاہدہ ملتا ہے۔ لوگ وزارتوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جیسے سونے کے انڈے دینے والی ہنس پیچھے کھڑی ہو۔ مگر اگر وہی توانائی وہیں لگائیں جہاں واقعی فرق پڑے، مثلاً روٹی، بجلی، اور سڑکیں—تو شاید نتیجہ مختلف ہو۔ ایک شہری نے بڑی سیدھی بات کہی: "اگر اتنا شور اٹک پر ہوتا تو شاید آٹے کی قلت ختم ہو جاتی۔" سچ یہی ہے؛ ہماری سیاست میں ترجیحات بدلتی رہتی ہیں، عوامی مسئلے پیچھے رہ جاتے ہیں اور عہدوں کی ہوڑ آگے آ جاتی ہے۔

کبھی کبھی ہمارے لیڈروں کی گفتگو ایسی لگتی ہے جیسے وہ کسی بین الاقوامی کانفرنس میں ہیں۔ وہ بڑے اعتماد سے کہتے ہیں کہ پہلے بھی بہت لیڈر آئے اور چلے گئے، اور آئندہ بھی چلے جائیں گے۔ مگر عوام کو تو روزمرہ کے مسائل سے چپ نہیں رہنا چاہئیے۔ بجلی کے بل، گیس کے فراڈ، اور شہری سہولیات کے فقدان پر خاموشی طویل نہیں رکھی جا سکتی۔´ہمارے ہاں صورت حال یہ بھی ہے کہ عوام بعض اوقات اپنے ووٹ کو کسی ایک شخصیت کے نام پر دے دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ہم نے عمران خان کے نام پر ووٹ دیا تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ووٹ کسی فرد کے نام پر جاتا ہے یا ہماری زندگی کے معیار کے لیے؟ جب ووٹ صرف نام پر دیا جائے تو پھر ذمہ داری کا حساب کیسے ہوگا؟ اور پھر جب وہ نام کہیں اڈیالہ کی سیر کر رہا ہو تو عوامی توقعات کس درجہ پر رہیں گی؟

بعض لوگ اپنے عہدوں کو 'قاعدہ' سمجھ کر رکھتے ہیں اور عوامی خدمات کو 'اضافی سہولت'۔ اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ سیاسی یا انتظامی ڈھانچے میں شفافیت کم ہے اور خاندانی رشتے یا سفارشیں زیادہ۔ جب عہدے تعلقات کے ذریعے چلیں تو محنت کا معیار خودبخود کمزور پڑ جاتا ہے۔ عوام کی آوازیں دب جاتی ہیں اور دفتر کی ہوا میں صرف "ہم نے کیا دیا" کی خوشبو رہ جاتی ہے۔

اگر وزارتیں اتنی ضروری نہیں تو کم از کم جو لوگ سرکاری گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں ان گاڑیوں کا حساب لے لو۔ یہ تو انصاف ہے۔ سرکاری وسائل عوام کے ہیں، انہیں ذاتی استعمال کے لیے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اگر گاڑیاں واپس آئیں تو کم از کم پیٹرول اور پارکنگ خرچ عوام پر کم اثر ڈالیں گے۔ یہ کوئی مزاحیہ بات نہیں، یہ سادہ سا حقِ عوام ہے۔ایک اور نکتہ یہ کہ عوام کو چاہئے کہ وہ لیڈروں سے صرف وعدے نہ مانگیں بلکہ عمل مانگیں۔ اگر کوئی لیڈر مسلسل اڈیالہ جاتا ہے تو عوامی سوال پوچھیں کہ وہاں کیوں جا رہے ہو، عوامی فلاح کے بجائے ذاتی یا سیاسی معاملات تو حل نہ کر رہے ہو۔ شفافیت کا مطالبہ مزاح کا موضوع بننا بند ہونا چاہئے۔ ہمارا مزاح تب تک معنی رکھتا ہے جب تک ہم مسائل کی طرف توجہ دلاتے ہیں، محض ہنسی کے لیے نہیں۔

آخر میں ایک چھوٹی سی نصیحت، ہلکے انداز میں مگر سنجیدگی کے ساتھ۔ اگر ہمارے لیڈر واقعی عوام کے دل جیتنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ گھر بیٹھ کر عوامی مسئلوں کے حل پر کام کریں نہ کہ اڈیالہ کی سیر کا شیڈول بنائیں۔ عوام کو چائے اور وعدوں کی جگہ عملی نتائج چاہئیں۔ اور اگر وہ واقعی عوام کے لئے کام کرتے ہیں تو انہیں وزارتوں کی فہرست بھی جلدی پوری کر لینی چاہیے، یا کم از کم سرکاری گاڑیوں کا حساب طے کر دیں۔اور عوام؟ وہ بھی ذرا سنبھل جائیں۔ ووٹ دینا عبادت ہے مگر سوچ سمجھ کر دینا چاہیے۔ نام کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اپنے مفاد، اپنے بچوں کی تعلیم، اور اپنی روٹی کی فکر کریں۔ ورنہ کل تک جو عہدے لوگ حاصل کریں گے، انہیں بدلنے کے بجائے ہمیں شکوہ کرنے سے کیا فائدہ ہوگا؟

ہنسنے مسکرانے کی عادت اچھی بات ہے، مگر مسکراہٹ کے ساتھ ذمہ داری بھی مقدار میں ہونی چاہیے۔ مسکراہٹ جب عوامی حق تلفی کے پردے میں آ جائے تو وہ مزاح کم، جرم زیادہ لگنے لگتی ہے۔ لہٰذا وزیرِ اعلیٰ ہنس سکتے ہیں، مگر عوام کی سوچ کو مسکرا کر ٹالنا آسان نہیں ہوگا۔

خیبرگورنمنٹ پرائمری سکول شاہ گئی میں انوکھا واقعہ کے جی کے طالب علم ثناء اللہ ولد نور اللہ کے سٹوڈنٹ کارڈ پر لطیفے درج ک...
23/10/2025

خیبرگورنمنٹ پرائمری سکول شاہ گئی میں انوکھا واقعہ

کے جی کے طالب علم ثناء اللہ ولد نور اللہ کے سٹوڈنٹ کارڈ پر لطیفے درج کر دیے گئے!

سوشل میڈیا پر کارڈ وائرل ہونے کے بعد محکمہ تعلیم کی کارکردگی پر سوالات اٹھ گئے۔

انتظامیہ نے کارڈ پر مہر بھی لگا دی اور 100 روپے فیس وصول کی۔

سکول انچارج عالم خان کا مؤقف ہے کہ “بچے کا ذہنی توازن درست نہیں، تحقیقات جاری ہیں کہ مہر کیسے لگی۔

17/10/2025

"نیا وزیر اعلیٰ، پرانا جیک — خیبر پختونخوا کا ٹرک اب بھی وہیں کھڑا!"

مسرت اللہ جان

یہ جو خیبر پختونخوا کے نئے وزیرِاعلیٰ آئے ہیں نا 🤪 — بندہ چاہے جتنا سنجیدہ ہو، ان کا حلف اٹھاتے ہی ذہن میں وہی پرانا لطیفہ گھومنے لگتا ہے جس میں ایک ٹرک ڈرائیور اپنے شاگرد کے ساتھ ہوٹل پر رکا، کھانا کھایا، دو چرس کے سگریٹ پھونکے اور کہا، ’’آج تو ٹرک تُو چلائے گا۔‘‘ بس وہی کیفیت اس وقت پورے صوبے کی ہے — ’’آج حکومت تُو چلائے گا، بیٹا!‘‘

لیکن جیسے اس لطیفے میں شاگرد نے ٹرک جیک پر چڑھا کر ایکسیلیٹر دبایا اور استاد خوابِ خرگوش کے مزے لیتا رہا، ویسے ہی لگتا ہے صوبے کو بھی جیک پر چڑھا دیا گیا ہے۔ عوام خوش ہیں کہ نئی حکومت آ گئی، میڈیا خوش ہے کہ نئے وزیر اعلیٰ کی فوٹو لگانے کا موقع ملا، اور بیوروکریسی مطمئن ہے کہ ’’استاد‘‘ اب بھی وہی پرانے چائے والے ہوٹل پر بیٹھا ہے، سگریٹ کے کش لگا رہا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ٹرک چل بھی رہا ہے یا بس دھواں ہی دھواں ہے؟ عوام کنڈکٹر کی طرح جوش میں کہہ رہے ہیں، ’’استاد جی، جگہ کا تو نہیں پتہ، پر ہم سپیڈ و سپیڈ جا رہے ہیں!‘‘ اور استاد — یعنی پرانے سیاسی کھلاڑی — مسکرا کر کہہ رہے ہیں، ’’بیٹا، بس یہی تو چاہیے تھا۔‘‘

دراصل، خیبر پختونخوا کی سیاست ہمیشہ سے ایک لمبا سفر ہے، مگر عادت یہ پڑی ہوئی ہے کہ سفر شروع کرنے سے پہلے ہی جیک لگانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ہر وزیر اعلیٰ آ کر وہی پرانے وعدے کرتا ہے: ’’ہم ترقی کریں گے، نوجوانوں کو روزگار دیں گے، ادارے مضبوط کریں گے‘‘ — مگر نتیجہ وہی: ٹرک کی بتی کے پیچھے عوام دوڑتے رہ جاتے ہیں۔

اب نئے وزیر اعلیٰ صاحب نے جیسے ہی حلف اٹھایا، دفتر میں بیٹھ کر پہلے فائلوں پر دستخط کیے، پھر میڈیا ٹیم کو بلا کر کہا، ’’ایک اچھا سا نعرہ سوچو، عوام کو لگے کہ انقلاب آنے والا ہے۔‘‘ ٹیم نے کہا: ’’سر، انقلاب نہیں، ریفریشمنٹ کہہ دیتے ہیں، انقلاب کا وعدہ پچھلی حکومتوں نے خراب کر دیا ہے۔‘‘ اگلے دن اخبارات میں شہ سرخیاں لگیں: “نیا وزیر اعلیٰ، نئی امید!”
یعنی ٹرک وہی ہے، بس ڈرائیور بدل گیا ہے۔

پہلے دن ہی بیوروکریٹس نے وزیر اعلیٰ کو بریفنگ دی۔ کسی نے کہا: ’’سر، خزانہ خالی ہے‘‘۔ کسی نے کہا: ’’سر، بجلی کے بلوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔‘‘
وزیر اعلیٰ صاحب نے کہا: ’’پریشان نہ ہوں، عوام کو صبر کی تلقین کریں۔‘‘
یعنی وہی پرانا نسخہ — جب پٹرول مہنگا ہو، روٹی نایاب ہو، یا فنڈ غائب ہوں، تو صبر کی گولی کھلا دو۔

صوبے کی عوام اب عادی ہو چکی ہے۔ ان کے لیے ہر نیا وزیر اعلیٰ ایک نیا ڈرائیور ہے جو دو سگریٹ پی کر ایکسیلیٹر پر پاؤں رکھ دیتا ہے۔
عوام بھی مسکرا کر کہتے ہیں: ’’بھائی، اگر ٹرک جیک پر نہیں بھی ہے، تو کم از کم دھواں تو اٹھ رہا ہے، چلو سرگرمی تو ہے۔‘‘

پھر آہستہ آہستہ وہی تماشہ شروع ہوتا ہے۔ کچھ ہفتے بعد، کسی صحافی نے سوال کیا: ’’جناب، آپ نے کہا تھا کہ ہم کرپشن ختم کریں گے؟‘‘
جواب ملا: ’’ہم نے تو کہا تھا، مگر وہ کاغذ ابھی کسی فائل میں ہے۔‘‘
یعنی جیسے کنڈکٹر نے کہا تھا ’’جگہ کا تو نہیں پتہ‘‘، بالکل ویسے ہی صوبائی حکومت کو بھی معلوم نہیں کہ پالیسی کہاں جا رہی ہے۔

اب اگر عوام پوچھ لیں کہ ’’سر، ترقی کا پہیہ کیوں نہیں گھوم رہا؟‘‘ تو جواب آتا ہے، ’’ٹائر پنکچر تھا، اب جیک لگا دیا ہے۔‘‘
پھر اگلے ہفتے ایک نیا اعلان آتا ہے: ’’ہم صوبے میں سب کچھ ڈیجیٹل کر رہے ہیں۔‘‘
بس وہی ڈیجیٹل جیک لگا کر، عوام کو ورچوئل امیدوں پر چلایا جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب وزیر اعلیٰ صاحب کسی عوامی جلسے میں آتے ہیں تو سب کہہ اٹھتے ہیں: ’’یہی ہیں ہمارے قائد!‘‘
لیکن جیسے ہی دو مہینے گزرتے ہیں، لوگ سوشل میڈیا پر لکھنا شروع کر دیتے ہیں: ’’یہ تو اسٹیبلشمنٹ نے بٹھایا ہے۔‘‘
اور اگر حالات تھوڑے بہتر ہو جائیں، تو پھر کہتے ہیں: ’’خان صاحب کی بدولت یہ ہوا۔‘‘
یعنی ہر کامیابی کا کریڈٹ کسی اور کو، اور ہر ناکامی کا الزام بھی کسی اور پر۔

اور ہاں، ابھی تو قصہ ختم نہیں ہوا۔ نئے وزیر اعلیٰ صاحب نے تو آتے ہی ایک اور ’’خوشخبری‘‘ سنا دی — اسمبلی اسٹاف کے لیے تین ماہ کی اضافی تنخواہوں کا اعلان۔ عوام نے سنا تو ہنسی روک نہ پائے۔ کسی نے کہا، ’’بھائی، ابھی ٹرک اسٹارٹ بھی نہیں ہوا اور فیول اسمبلی والوں کے جیب میں چلا گیا۔‘‘ کسی بزرگ نے طنزیہ انداز میں کہا، ’’یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ٹرک جیک پر چڑھا ہو، انجن دھواں دے رہا ہو، اور پیسے ہوٹل والے کو ایڈوانس میں دے دیے جائیں۔‘‘ عوام سوچ میں ہیں کہ اگر آغاز میں ہی تنخواہوں کے ’’تحفے‘‘ بٹنے لگے ہیں، تو آخر میں صوبے کے عوام کو کیا ملے گا — شاید خالی جیک اور ایکسیلیٹر کا شور۔

اب جو نئے وزیر اعلیٰ آئے ہیں، ان کے اردگرد بھی وہی پرانے ’’اسٹاف‘‘ ہیں — ایک کہتا ہے، ’’سر یہ سب خان صاحب کی پالیسی تھی‘‘، دوسرا کہتا ہے، ’’سر یہ سب پچھلی حکومت کی غلطی تھی۔‘‘
اور وزیر اعلیٰ صاحب مسکرا کر کہتے ہیں: ’’بس ٹھیک ہے، تصویر اچھی آئی نا؟‘‘

صوبے کے حالات دیکھ کر لگتا ہے جیسے پورا نظام ہی ایک جیک پر چڑھا ہوا ٹرک ہے۔
انجن چل رہا ہے، آواز آ رہی ہے، مگر حرکت نہیں۔
بیوروکریسی ٹائر بدلنے میں مصروف ہے، سیاستدان سگریٹ کے کش لگا رہے ہیں، اور عوام اپنی سیٹ بیلٹ باندھ کر یہ دعا کر رہے ہیں کہ ’’یار، اس بار شاید ٹرک واقعی چلے۔‘‘

لیکن اگر تاریخ کچھ بتاتی ہے تو وہ یہی کہتی ہے: جب تک اصل ڈرائیور سو رہا ہو، کنڈکٹر چاہے جتنا بھی ایکسیلیٹر دبائے، منزل کبھی نہیں آتی۔

آخر میں عوام کی طرف سے نئے وزیر اعلیٰ کے لیے یہی دعا اور تھوڑی سی دعا نما طنز:
’’مبارک ہو جناب، خدا کرے آپ کا ٹرک اس بار جیک سے نیچے اتر جائے، اور اگر خدانخواستہ نہ اترا، تو کم از کم یہ مت کہنا کہ ’یہ تو اسٹیبلشمنٹ نے لایا تھا‘ یا ’خان صاحب سے غلطی ہوئی‘۔‘‘

ورنہ پھر وہی لطیفہ دہرانا پڑے گا:
’’صوبہ کہاں پہنچا؟‘‘
’’پتہ نہیں استاد جی، پر سپیڈ و سپیڈ جا رہے ہیں!‘‘

😂🚛💨

10/10/2025

"مشتاق احمد کی نہ سمجھنے والی داستان – داڑھی، جماعت اور غزہ کے درمیان الجھی ہوئی سیاست"

مسرت اللہ جان

سیاست میں کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے صرف علم نہیں بلکہ صبر، مزاح اور کبھی کبھی ٹھنڈا پانی بھی چاہیے۔ جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر مشتاق احمد کی کہانی بھی انہی میں سے ایک ہے — جہاں مذہب، سیاست، شہرت، اور سوشل میڈیا نے مل کر ایک ایسا ڈرامہ تخلیق کیا جس کا اختتام اب تک سمجھ میں نہیں آیا۔مشتاق احمد نے جماعت اسلامی سے کچھ عرصہ قبل استعفیٰ دیا تھا، لیکن جماعت نے اسے ایسے چھپایا جیسے اسکول میں فیل ہونے والا طالب علم اپنی رپورٹ کارڈ چھپاتا ہے۔ وجہ شاید یہ تھی کہ اگر یہ اعلان ہو جاتا تو کارکنوں میں ہلچل مچ جاتی۔ جماعت سمجھتی رہی کہ مشتاق صاحب “عارضی ناراضی” میں ہیں، مگر مشتاق صاحب واقعی کسی “عالمی مشن” پر نکل چکے تھے۔

پھر مشتاق احمد نے غزہ کا رخ کیا، اور وہاں سے سوشل میڈیا پر مسلسل ویڈیوز پوسٹ کرنا شروع کر دیں۔ انداز ایسا کہ لگتا تھا جیسے ڈاکیومنٹری سے زیادہ وی لاگ بن رہا ہے۔ ہر ویڈیو میں ایک نیا زاویہ، نئی اپیل، اور نیا پس منظر۔ کارکن خوش، عوام متاثر، مگر ناقدین کہنے لگے — “یہ مشن ہے یا مارکیٹنگ پلان؟”پھر جماعت کے کارکنوں نے مشتاق صاحب کی “AI Generated” تصویریں شیئر کر دیں، جن میں وہ زخمی دکھائے گئے۔ چہرے پر زخم، آنکھوں میں درد، پس منظر میں دھواں — بس موسیقی کی کمی رہ گئی تھی۔

پھر کہانی نے نیا موڑ لیا۔ مشتاق احمد کی گرفتاری کے بعد ان کی اہلیہ پی ٹی آئی کے اجلاس میں نظر آئیں۔ وہی پی ٹی آئی، جس کے خلاف مشتاق صاحب نے کبھی لفظی توپیں چلائی تھیں۔اب عوام حیران: یہ سیاسی مصالحت ہے یا نئی صف بندی؟ سیاست میں دشمنی وقتی اور دوستی موسمی ہوتی ہے۔ جس دن دھوپ تیز ہو، سایہ بدل جاتاہے۔ اردن سے ان کی تصویریں آئیں تو مشتاق احمد سفید داڑھی کے ساتھ نیک و متین نظر آئے۔ مگرپاکستان آنے کے بعد نئی تصویر آئی — بغیر داڑھی کے۔ پھر بیانیہ آیا کہ “یہ اسرائیلیوں نے کاٹی ہے!”سوال یہ اٹھا کہ کیا اسرائیل کے پاس داڑھیوں کی خصوصی فہرست تھی؟ کیا باقی داڑھی والے محفوظ رہے؟ اگر یہ سب سچ ہے تو واقعی یہ “آپریشن داڑھی” کی عالمی سازش تھی۔

مشتاق صاحب نے رہائی کے بعد پیغام جاری کیاوہ اڈیالہ سے تک غزہ کے حوالے سے پیغام جاری کرگئے۔ کچھ سمجھ نہیں آیا کہ یہ مذہبی عزم کا اظہار تھا یا “سوشل میڈیا فالو اپ”۔غزہ کا دکھ اپنی جگہ درست، مگر لوگوں کو لگنے لگا کہ سیاست، مذہب، اور PR کے درمیان لکیر مٹ چکی ہے۔ پھر نیا تنازع کھڑا ہوا۔ سوشل میڈیا پر کارکنوں نے کہا “یہ ہماری پارٹی ہے، ہم نے نہیں چھوڑی”، مگر جماعت کے ترجمان نے واضح کر دیا کہ “جی، مشتاق احمد اب رکن نہیں رہے۔’ خود مشتاق صاحب نے ایک پروگرام میں کہا کہ جماعت میں “فریڈم آف ایکسپریشن” نہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جو شخص غزہ سے اڈیالہ تک مسلسل اظہارِ رائے کرتا رہا، اسے اپنی جماعت میں بولنے کا حق نہیں ملا۔ شاید جماعتِ اسلامی میں آزادیِ اظہار بھی مشاورت سے مشروط ہے۔

جب مشتاق احمد نے کہا کہ “جس رات استعفیٰ دیا، ویسا ہی رویا جیسے ماں کے انتقال پر رویا تھا”، تو بہت سے کارکنوں نے کہا “سر، ہم نے بھی رویا، مگر AI ویڈیو دیکھ کر۔” سیاست میں جذبات بھی PR حکمتِ عملی بن جاتے ہیں۔ مگر یہ ماننا پڑے گا کہ مشتاق احمد کے پاس اداکاری کا “قدرتی ٹیلنٹ” ہے۔یہ پوری داستان سمجھ سے بالاتر ہے۔ کب استعفیٰ دیا، کب غزہ گئے، کب زخمی ہوئے، کب داڑھی گئی، کب واپس آئے — سب کچھ ایسا لگتا ہے جیسے کسی سیاسی ویب سیریز کی اقساط ہوں جن کی اسکرپٹ خود مشتاق صاحب لکھتے ہیں۔کچھ لوگ انہیں “ضمیر کا قیدی” کہتے ہیں، کچھ “سوشل میڈیا کے مجاہد”۔ لیکن سوال باقی ہے: کیا یہ سب شہرت کے لیے تھا یا سچ مچ ایک مشن؟سیاست میں سچ کا تعین مشکل ہے، خاص طور پر جب ہر کردار کی اپنی “لائیو ویڈیو فیڈ” ہو۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مشتاق احمد کی اگلی قسط کہاں سے نشر ہوگی — غزہ، اڈیالہ، یا شاید “فریڈم آف ایکسپریشن” کے کسی نئے پلیٹ فارم سے۔

10/10/2025

نان بھائیوں کی نئی ہڑتال: پشاور کی روٹی، آٹے کا تھیلا اور عوام کی آزمائش

مسرت اللہ جان

پشاور — پشاور کے نان بھائی ایک بار پھر خبروں میں ہیں۔ سولہ اکتوبر کو انہوں نے ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے، اور عوام ایک بار پھر "روٹی ملے گی یا نہیں؟" کے سوال پر پریشان ہیں۔ نان بھائی کہتے ہیں کہ ساڑھے چھ ہزار روپے والا آٹے کا تھیلا اب ساڑھے تیرہ ہزار تک پہنچ گیا ہے، لہٰذا قیمتیں بڑھانا ناگزیر ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام کے ہاتھ میں روٹی چھوٹی اور جیب ہلکی ہوتی جا رہی ہے، اور کسی کو یہ بھی نہیں پتہ کہ قصوروار کون ہے — آٹا، نان بھائی، یا نظام؟

اب ایک مزے کی بات سنیںجس آٹے کے تھیلے کی بنیاد پر یہ سب کچھ چل رہا ہے، وہ "20 کلو کا تھیلا" اکثر 20 کلو ہوتا ہی نہیں! شہریوں نے کئی بار شکایت کی کہ وزن کم نکلتا ہے۔ یعنی عوام دو جگہ لٹ رہے ہیں — ایک بار تھیلے میں، دوسری بار تنور پر۔ 20 کلو کا تھیلا اگر 18 یا 19 کلو کا ہو، تو پھر نان بھائی کی روٹی 110 گرام سے 100 گرام کیوں نہ ہو؟ جب ناپ تول اوپر سے ہی گڑبڑ ہو، تو نیچے والوں کو موقع خود بخود مل جاتا ہے۔

یہ نظام کی وہ ترکیب ہے جس میں ہر طرف سے ایک ایک گرام کم کر کے لاکھوں روپے پورے کر لیے جاتے ہیں۔ آٹا سپلائی کرنے والا بولتا ہے، "ہمیں بھی مہنگا پڑا۔" نان بھائی کہتے ہیں، "ہم بھی مجبور ہیں۔" اور عوام بس دل ہی دل میں سوچتے ہیں، "ہم ہی کیوں ہر بار قربانی کا بکرا بنتے ہیں؟"

پہلے 110 گرام کی روٹی بیس روپے میں ملتی تھی، اب 100 گرام کی۔ مگر قیمت وہی، بلکہ بعض جگہ زیادہ۔ قصہ خوانی اور ہشتنگری کے بعض نان بھائی تو "ڈبل روٹی" کے نام پر 180 گرام کی روٹی چالیس روپے میں بیچ رہے ہیں۔ ظاہر ہے، انہوں نے سوچا ہوگا کہ عوام کو وزن کے دھوکے میں رکھو، “ڈبل روٹی” کا نام دو، قیمت بھی ڈبل کر دو۔

مزید مزہ تب آتا ہے جب یہ نان بھائی گروپوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں — ایک طرف ہزارہ یونین، دوسری طرف مہمند برادری۔ دونوں کا مقابلہ اب نان کی سیاست میں تبدیل ہو گیا ہے۔ کوئی ہڑتال کی کال دیتا ہے، کوئی ریٹ بڑھانے کا دباو¿ ڈالتا ہے۔ عوام کے لیے فرق یہ نہیں پڑتا کہ نان بھائی ہزارے کا ہے یا مہمند کا، بس یہ پتہ ہوتا ہے کہ پیٹ خالی رہ گیا۔
کچھ نان بھائیوں نے اپنی منطق بڑی چالاکی سے سمجھائی ہے: “آٹا مہنگا، گیس مہنگی، مزدور کا ریٹ زیادہ، اس لیے ہم بھی قیمت بڑھائیں گے۔” لیکن بھائی، انصاف کا تقاضا یہ بھی تو ہے کہ آپ روٹی تول کر دیں، دکان صاف رکھیں، اور کم از کم ایک تولنے والی مشین دکان میں رکھ لیں۔ اکثر تنوروں پر تولنے کا کانٹا غائب، صفائی صفر، اور گاہک سے گفتگو ایسی جیسے وہ کسی جرم میں پکڑا گیا ہو۔

اب یہاں ایک دلچسپ تجویز آئی ہے — "عوام کو نان بھائیوں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔" گویا ہر شہری اپنی بیوی یا ماں سے کہے، "اب تنور نہیں، گھر کا چولہا چلے گا۔" بات اچھی ہے، مگر حقیقت میں مزدور، رکشہ ڈرائیور، دکان دار یا دفتر جانے والا بندہ اتنا وقت کہاں سے لائے کہ صبح روٹی خود پکائے؟ پھر بھی اگر چند دن عوام نے غیرت دکھا دی، تو نان بھائیوں کی ہڑتال خود ہی ختم ہو جائے۔

یہ نان بھائی اب ایک نئی منطق لے آئے ہیں — "آٹا مل والے ہمیں لوٹ رہے ہیں، ہم کیا کریں؟" لیکن سوال یہ ہے کہ جب 20 کلو کا تھیلا ہی 20 کلو نہیں نکلتا، تو کیا کبھی نان بھائیوں نے آواز اٹھائی؟ یا انہوں نے بھی خاموشی سے وہی کمی اپنے گاہک پر ڈال دی؟ یوں لگتا ہے جیسے پورا نظام گرام گرام کر کے عوام کو ہضم کر رہا ہے۔

پشاور کی انتظامیہ کا حال بھی دلچسپ ہے۔ جب تک ہڑتال کا نوٹس نہیں آتا، کوئی حرکت نہیں ہوتی۔ ہڑتال کی کال آتے ہی افسران کی میٹنگ، پریس ریلیز، “ہڑتال غیر قانونی ہے” کے بیانات شروع۔ لیکن عملی طور پر کوئی چیکنگ، کوئی ریٹ کنٹرول نہیں۔ اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو بازاروں میں وزن اور معیار کی نگرانی کرے، تھیلوں کا وزن چیک کرے، دکانداروں کے پاس سرکاری ریٹ لسٹ لازمی آویزاں کرائے، اور خلاف ورزی پر فوری کارروائی کرے۔

اب عوام کے لیے مزاحیہ مگر سنجیدہ مشورہ: اگر آپ کا تنور والا روٹی تول کر نہیں دیتا، تو آپ خود ترازو لے جایا کریں۔ ایک دن وہ آپ کو دیکھ کر شرمائے گا، دوسرے دن باقی گاہک بھی پوچھیں گے، تیسرے دن یا تو ترازو آ جائے گا یا وہ نیا بہانہ ڈھونڈے گا۔ عوامی دباو¿ سب سے بڑی اصلاح ہے۔

آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ ہڑتال صرف نان بھائیوں کی نہیں، عوام کے صبر کی بھی ہے۔ ہر بار کوئی نہ کوئی چیز مہنگی ہو جاتی ہے — آٹا، چینی، دال، پٹرول — اور آخر میں الزام عوام کی “برداشت” پر آ جاتا ہے۔ اب 20 کلو کا تھیلا 18 کلو نکلے، 100 گرام کی روٹی بیس روپے میں ملے، تو کوئی تو پوچھے کہ انصاف کا وزن کہاں گیا؟

اگر کسی دن واقعی نان بھائی، انتظامیہ، اور عوام سب اپنے اپنے وزن درست کر لیں، تو شاید پشاور کی روٹی پھر وہی خوشبو لے آئے جو کبھی محلے کے تنور سے آیا کرتی تھی۔ فی الحال تو روٹی کا وزن کم، نان بھائیوں کا غرور زیادہ، اور عوام کی جیب ہلکی ہے۔

#پشاور #نانبھائی #مہنگائی #ہڑتال #روٹی #آٹا #تولنہظام

Address

Peshawar Press Club Peshawar
Peshawar
25000

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Nexuspak posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Nexuspak:

Share