22/07/2025
کہانی: “بکھیڑا جو وقت پر سلجھایا نہ گیا”
دھوپ تیز تھی، صحن میں سناٹا چھایا تھا۔ پرانے صحن کی اینٹیں جیسے سب کچھ سن رہی تھیں۔ امیر خان گھر کے کونے میں چارپائی پر خاموش بیٹھا تھا۔ چہرہ جھریوں بھرا، آنکھیں سرخ، سانس اکھڑی ہوئی… اور دماغ میں صرف ایک خیال گونج رہا تھا:
"کاش… کاش ہم نے وقت پر فیصلہ کیا ہوتا…"
یہ وہی امیر خان تھا جو پچیس سال پہلے اپنے بڑے بھائی گلزار خان کے ساتھ مل کر والد کا پرانا مکان گرایا تھا۔ دونوں بھائیوں نے پسینہ بہا کے، قرض اٹھا کے، محنت مزدوری کر کے نیا گھر بنایا تھا۔ جب اینٹیں چنی جا رہی تھیں تب دونوں کے دلوں میں محبت کے قلعے بن رہے تھے۔ دن میں کام کرتے، رات میں صحن میں بیٹھ کر ہنسی مذاق کرتے، ایک دوسرے کے بچوں کو گود میں اٹھاتے۔
لیکن وقت کا پہیہ ایسا گھوما کہ جب گھر مکمل ہوا تو دلوں میں فاصلہ بننے لگا۔ گلزار خان کے بیٹے جوان ہوئے، شادیاں ہوئیں، امیر خان کے بچے ابھی اسکول میں تھے۔ امیر خان اکثر سوچتا:
"اب ہم دو نہیں رہے، نسلیں آگے بڑھ گئیں، حساب کتاب کرنا چاہیے، ورنہ یہ گھر محبت کو نگل جائے گا۔"
امیر خان نے بڑے بھائی سے کئی بار کہا:
"بھائی جان، بیٹھ کے حساب کرتے ہیں۔ یا تو آپ میرا حصہ خرید لیں یا میں آپ کا لے لوں، ورنہ بیچ کر برابر تقسیم کر لیتے ہیں۔ کل کو جب ہم نہیں ہوں گے تو بچے دشمن بن جائیں گے۔"
مگر گلزار خان کا جواب ہمیشہ ایک جیسا ہوتا:
"سب کچھ تو ٹھیک چل رہا ہے بھائی، اتنی جلدی کیا ہے؟ اولاد کو سنبھالیں گے، کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔"
امیر خان مان جاتا، سوچتا شاید بڑے بھائی کی بات ٹھیک ہے۔ لیکن دل کے کسی کونے میں ڈر بیٹھا تھا۔
وقت گزرتا رہا، گلزار خان کا انتقال ہو گیا، بچے الگ الگ ذہن کے ہو گئے۔ ایک دن بات صرف ایک چھوٹی سی زمین کے ٹکڑے پر شروع ہوئی اور بڑھتے بڑھتے قتل تک جا پہنچی۔
گلزار خان کا سب سے بڑا بیٹا اور امیر خان کا بیٹا ایک دن جھگڑ پڑے، مار پیٹ ہوئی، اور وہی ہوا جس کا امیر خان کو ڈر تھا… خون بہا… عدالت کے چکر… گاؤں میں بدنامی… محبت کا وہ آنگن جو کبھی قہقہوں سے گونجتا تھا، اب ماتم کدہ بن چکا تھا۔
امیر خان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ چارپائی پر بیٹھا آسمان کو دیکھ کر بڑبڑایا:
"اے اللہ! ہم نے کیا بنا دیا… جو بات ہنسی خوشی بیٹھ کر طے ہو سکتی تھی، اسے وقت نے کیسے زخم میں بدل دیا۔ کاش ہم نے وقت پر فیصلہ کر لیا ہوتا… کاش ہم نے بھائیوں میں نفرت نہ چھوڑنے دی ہوتی…"
صحن خاموش تھا، اینٹیں گواہ تھیں، در و دیوار خاموش تھے… لیکن وقت کی مار سب کچھ بیان کر رہی تھی۔
---
سبق:
جائیداد کی تقسیم زندگی میں محبت بچانے کا ذریعہ ہوتی ہے، دشمنی کا نہیں۔ جو فیصلے وقت پر کیے جائیں وہ نسلوں کو جوڑتے ہیں، جو فیصلے لٹکائے جائیں وہ نسلوں کو خون کا پیاسا بنا دیتے ہیں۔ کسی کا حق دبانا وقتی جیت، لیکن لمبی ہار ہوتی ہے۔