12/12/2025
ڈیجیٹل تشدد ; غربت اور موسمیاتی بحران کے بعد ابھرتا ہوا بڑا سماجی خطرہ
تحریر: فرحانہ مسرت خان
دنیا اس وقت غربت اور موسمیاتی تبدیلی جیسے بڑے بحرانوں سے نمٹنے کی کوشش میں مصروف ہے، مگر ان کے ساتھ ایک تیسرا اور تیزی سے بڑھتا ہوا چیلنج بھی سر اٹھا رہا ہے ,ڈیجیٹل یا ٹیکنالوجی پر مبنی صنفی تشدد۔ کووڈ-19 کے بعد اس رجحان میں غیر معمولی اضافہ ہوا اور آج یہ عالمی سماجی استحکام کیلئے سنجیدہ خطرہ بن چکا ہے۔ مختلف عالمی رپورٹس بتاتی ہیں کہ خواتین آن لائن دنیا میں پہلے سے کہیں زیادہ غیر محفوظ ہو گئی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق تقریباً 60 فیصد خواتین اپنی زندگی میں کسی نہ کسی شکل میں آن لائن تشدد کا سامنا کرتی ہیں، جبکہ 85 فیصد خواتین دوسروں کے ساتھ پیش آنے والی ایسی زیادتیوں کی گواہ بنتی ہیں۔
ڈیجیٹل تشدد صرف آن لائن بدسلوکی یا طنز و طعنہ نہیں بلکہ ایک مکمل سلسلہ ہے جو خواتین کی سلامتی، آزادیٔ اظہار، معاشی فعالیت اور ذہنی صحت تک کو متاثر کرتا ہے۔ اس میں سائبر اسٹاکنگ، بلیک میلنگ، دھمکیاں، نجی تصاویر کا غلط استعمال، پرائیویسی کی خلاف ورزی، بدنیتی پر مبنی ویڈیوز، ڈیپ فیکس اور جنسی نوعیت کی ہراسانی جیسے جرائم شامل ہیں۔ یہ سب اگرچہ مجازی دنیا میں ہوتا ہے، مگر اس کے اثرات حقیقی زندگی میں شدید خوف، ذہنی دباؤ، ڈپریشن اور سماجی تنہائی کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔
پاکستان میں اس مسئلے کی شدت کم نہیں۔ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے مطابق گزشتہ آٹھ برسوں میں 20 ہزار سے زائد خواتین نے مدد کے لیے رجوع کیا،جن میں زیادہ تر نوجوان لڑکیاں شامل تھیں۔ صرف 2024 میں رپورٹ ہونے والے 3 ہزار سے زائد کیسز میں سے تقریباً 90 فیصد سائبر ہراسانی سے متعلق تھے۔ دوسری جانب ایف آئی اے میں درج شکایات میں سزا کی شرح محض ایک فیصد ہے، جو انصاف کے حصول میں بڑی رکاوٹ اور ادارہ جاتی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔ مختلف قومی رپورٹس تو یہ بھی بتاتی ہیں کہ گزشتہ پانچ برسوں میں 18 لاکھ سے زائد خواتین کسی نہ کسی سطح پر ڈیجیٹل تشدد کا شکار ہوئیں۔
پاکستان کا سماجی ماحول پہلے ہی صنفی عدم مساوات، پدرشاہی سوچ اور محدود معاشی مواقع جیسے مسائل سے جڑا ہوا ہے۔ یہی رویے جب ڈیجیٹل دنیا میں منتقل ہوتے ہیں تو صورتحال مزید سنگین ہو جاتی ہے،چاہے بات تعلیم کی ہو، ملازمت کی، سیاست میں شمولیت کی یا سوشل میڈیا پر اپنی رائے دینے کی۔
اس بڑھتے ہوئے خطرے کے حل کے لیے جامع حکمت عملی ناگزیر ہے۔ سب سے اہم قدم یہ ہے کہ ڈیجیٹل تشدد کو صنفی تشدد کی ایک باقاعدہ شکل تسلیم کیا جائے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تکنیکی تربیت فراہم کی جائے تاکہ وہ مؤثر تحقیقات کر سکیں۔ متاثرہ خواتین کے لیے ہیلپ لائنز، قانونی مدد، مشاورت، پناہ گاہوں اور ڈیجیٹل فارنزک کے نظام کو مضبوط کرنا بھی ضروری ہے۔ اسی طرح ملک بھر میں ڈیجیٹل لٹریسی پروگرامز، آگاہی مہمات اور ایک مربوط قومی ڈیٹا سسٹم اس مسئلے کے حل میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
آخر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ڈیجیٹل تشدد صرف ایک آن لائن مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق، انصاف اور معاشرتی برابری کا سوال ہے۔ اگر ہم خواتین کے لیے حقیقی اور مجازی دنیا کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو ریاستی اداروں، تعلیمی نظام، معاشرتی طبقات اور کمیونٹی تنظیموں سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا—کیونکہ ایک محفوظ ڈیجیٹل فضا کے بغیر ایک محفوظ معاشرہ ممکن نہیں۔
Chitral Diary CD Zubair Ahmad Baabak Chitrali Rasheeda Zia Pti Pride of Peshawar